افسانہ ء نادر جہاں۔۔ گفتگو دھاگہ

اوشو

لائبریرین
بہت اعلی اوشو۔ یہ کتاب تو لگتا ہے کہ آپ کے نام رہے گی۔
اب آخری پچاس صفحات بھی غالباً آپ ہی کے ذمے لگانا ہوں گے۔

جو حکم :)

اوشو۔۔۔۔۔ ریختہ صفحہ 451 - 506

یہ باقی صفحات بھی میرے ہوئے۔

یہ صفحات بھی مکمل ہو گئے۔ اور گوگل ڈاکس پر بھی پوسٹ کر دئیے ہیں ۔
:chill:
 
السلام علیکم
ہم بھی اپنے باقی کے صفحات آج پوسٹ کر دیں گے ان شاّاللہ

ہاسپٹلائیز ہونے کی وجہ سے تاخیر ہوئی
وعلیکم السلام
آپ نے جتنے صفحات کر لیے ہیں وہ کافی ہیں، باقی ماندہ ہو جائیں گے۔
فی الحال آپ آرام کریں تاکہ مکمل توانائی بحال ہونے کے بعد کتابوں میں شراکت کے سفر کو جاری رکھ سکیں۔
اللہ آپ کو جلد از جلد صحتیاب کرے ۔ آمین
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
وعلیکم السلام
آپ نے جتنے صفحات کر لیے ہیں وہ کافی ہیں، باقی ماندہ ہو جائیں گے۔
فی الحال آپ آرام کریں تاکہ مکمل توانائی بحال ہونے کے بعد کتابوں میں شراکت کے سفر کو جاری رکھ سکیں۔
اللہ آپ کو جلد از جلد صحتیاب کرے ۔ آمین
ثم آمین۔

ہم نے 101 تا 150 صفحات مکمل کر لئے ہیں۔
گوگل ڈاکس پر بھی پوسٹ کر دئیے ہیں۔
 
صفحات تقسیم
ریختہ صفحہ 3 تا 100: گل یاسمیں ۔۔۔۔۔ مکمل
گل یاسمیں: ریختہ صفحہ 101 تا 150 ۔۔ مکمل
محمد عمر:ریختہ صفحہ 151 تا 175۔۔۔۔۔مکمل
اوشو: ریختہ صفحات 176 تا 235 ۔۔۔۔ مکمل
اوشو: ریختہ صفحات 236 تا 278 ۔۔۔۔ مکمل
فرحین: ریختہ صفحات 279 تا 283۔۔۔
ساگر: ریختہ صفحات 284 تا 303 ۔۔۔۔ مکمل
عبد الرؤف: ریختہ صفحات 304 تا 315 ۔۔ مکمل
محمل ابراہیم: ریختہ صفحات 316 تا 325۔۔
گٔل یاسمین: ریختہ صفحات 326 تا 350 ۔۔۔۔۔
اوشو: ریختہ صفحات 351 تا 400 ۔۔۔مکمل
اوشو: ریختہ صفحات 401 تا 450۔۔۔ مکمل
اوشو: ریختہ صفحات 451 تا 500۔۔۔ مکمل
 
جلدی میں "اگر" تو ہم نے دیکھا ہی نہیں تھا۔
ٹھیک ہے آپ کے کہے پہ عمل کرتے ہیں ان شاء اللہ
ان صفحات کے بعد دیکھتے ہیں کہ کتنے صفحات مزید رہ گئے ہیں۔ کچھ ممبران شاید کسی عذر کی وجہ سے صفحات مکمل نہیں کر پائے ہیں اب تک۔
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
ریختہ صفحہ 326
سے خیال ہوا کہ شاید ادھر کچھ باتیں میری رہتی ہیں۔ انھیں کو انھوں نے کہا ہے۔ وہاں بات ہی اور تھی۔ بیگم صاحب کا تو مزاج ایسا بدل گیا تھا کہ گرمی سے جاڑا ہو گئی تھیں۔ نہ وہ تیزی تھی نہ حرارت۔ نہ گرم انچھروں کے لوکے تھے نہ دل جلانے کی ہوائیں۔ میاں کی طرف سے ایک خدشہ تھا پھر وہ بھی کچھ ایسا نہ تھا کیونکہ ان کی طبیعت کا انداز ہمیشہ سے ایسا ہی تھا۔ اس زمانہ میں جیسا ذرا ظہور بگڑ گیا تھا ویسا پہلے بھی کئی دفعہ بگڑ چکا تھا جب ان دونوں صاحبوں کی طرف سے کوئی بات ہاتھ نہ لگی تو اور طرف ڈھونڈنے کو چلی۔ میں اس فکر میں بیٹھی ہوئی ہوں کہ شہر یار دولہا بھابھی جان بندگی عرض کہتے مسکراتے نازل ہوئے۔ چہرے کو فق رنگت کو بیقرار دیکھ کر پوچھا کیوں آپ کا مزاج کیسا ہے۔ میں نے کہا اچھی ہوں۔ پانچ چھ مہینے کے زمانے میں اب انھوں نے بیٹھ بیٹھ کر اور آ آ کر مجھ سے بات بھی کرائی اور ہواؤ بھی تڑوایا۔ زیادہ لحاظ و حجاب اس مصلحت سے نہ کیا کہ اماں جان کہیں کوئی لم نہ لگا دیں اور شرم کی بھی دو تین مہینے تو سلام کا جواب تک نہیں دیا۔ بات کیسی۔ رفتہ رفتہ سبب کچھ خود ہی کرنا پڑا۔ اب نوبت خاطر مدارت تک کی پہونچ گئی۔ پان دینا سلام لینا جواب دینا خیر خبر پوچھنا فرض ہو گیا۔ انھوں نے کھانے کے وقتوں کے علاوہ بھی دن میں ایک دو دفعہ آنا مستحب سمجھ لیا۔ کبھی گرنٹ نئی نئی وضع کی لئے چلے آتے ہیں کبھی گاچ، لاہی، شربتی، ململ دکھانے کو مستعد کھڑے ہیں۔ ڈھونڈ ڈھونڈ کر ایسی اچھی اچھی چیزیں

ریختہ صفحہ 327
لاتے ہیں کہ آدمی دیکھا کرے۔ نہ لینا ہو تو بھی لے لے۔ گو پہلے ہی روز میں نے ان سے کہہ دیا تھا کہ بھائی اللہ رکھے اماں جان کو۔ میرا کھانا کپڑا ان کے سر ہے۔ مجھے لینے دینے سے کیا۔ جیسا ان کا جی چاہے ویسا بنوا دیں۔ ایک دن ان کے اصرار سے پوچھنے پر میں نے ایک پھولام اطلس کی تعریف کی۔ اس کے پہلے ایک دن وہ یہ بھی کہہ چکے تھے کہ آپ پسند کر لیجئیے میں تولوا دوں گا۔ مجھے اس اپنے کہنے کا خیال نہ آیا وہ اطلس لئے اماں جان کے پاس گئے کہا کہ آپ کی بہو نے یہ پسند کی ہے ایک پائجامے کی لے دیجئیے۔ انھوں نے کہا ابھی روپیہ نہیں ہے۔ کہا کہ میں قرض لا دوں گا۔ وہ چپ ہو رہیں۔ یہ بیوی کو پسند کرا کے نپوا جھکوا کر ایک پائجامے کی اطلس لے آئے اور میرے آگے لا کر پھینک دی۔ میں نے قیمت پوچھی کہا آپ کو کیا میں اماں جان سے لے لوں گا۔ یہ بات ان کو نہایت ناگوار گزری اور داماد سے ایک ملال ہوا اور کیونکر ناگوار نہ ہوتا کہ داماد کا واسطہ تیس روپیہ کا پائجامہ دیتی ہیں تو نقصان عظیم ہوتا ہےنہیں دیتی ہیں تو غیرت قبول نہیں کرتی۔ طبیعت کا یہ حال کہ دوسرا برس میری شادی ہونے کو آیا اور انھوں نے جوتے تک کی خبر نہیں لی۔ جوڑے اور پوشاک کیسی۔ میں نے چار کے دکھانے اور ان لوگوں کا نام کرنے کو سو روپیہ میاں کو دے کے اباجان کی معرفت سے دلائیاں رضائیاں پانچ سات جوڑے بچوں سمیت بنوائے۔ وہ روپیہ اباجان نے بدفعات مجھے واپس دئیے لیکن بیگم صاحب کو مطلق خیال

ریختہ صفحہ 328
نہ آیا۔ ایک دفعہ مولوی صاحب نے کہا بھی تو جواب آیا کہ کیا کچھ محتاج گھر کی لڑکی ہے ننگی لچی آئی اوڑھنے پہننے کو نہیں نصیب کیا۔ دھاڑ کیا پڑی ہے بنوا دیا جائے گا۔ یونہی ٹالا یہاں تک کہ سال پلٹا دوسرا تمام ہونے کے قریب آیا اب چوتھی کے جوتے میں بھی دم نہیں رہا۔ لفافیہ تو وہ بنا ہی تھا دو سال پہننے سے جوتھڑے نکل آئے سلمہ ستارہ خاک میں مل گیا اندر سے سوت نکل کر کھوسڑا ہو گیا۔ ایک تو سجا برا دوسرے دن زیادہ کٹے مری گھونس کو کھینچتی پھرتی تھی۔ آخر اس کی یہ بے حیثیتی دیکھ کر میرے دل میں آیا کہ شہریار دولھا چیز اچھی لاتے ہیں لاؤ انھیں سے منگوا لوں۔ ساجدہ بیگم کو بلوا کر فرض کر کے میں نے دو روپے دے کر کہا کہ اپنے میاں سے ایک گیندا سی خوبصورت گرگابی منگوا دو۔ انھوں نے روپے پھیر دئیے اور کہا کہ روپیہ کی کیا جلدی پڑی ہے جب آئے اور پسند ہو جائے اس وقت دے دیجئیے گا۔ بہت کہا نہ مانا۔ میں چپ ہو رہی۔ اسی دن اس اطلس کا ٹکڑا لئے ہوئے اماں جان کے پاس گئی ۔ وہ اور ان کی بڑی بہو بڑے دالان میں بیٹھی ہوئی تھیں ۔ میں نے رومال سے وہ ٹکڑا نکال کر ان کے آگے رکھ دیا اور ساری حقیقت بیان کی پھر اسی رومال سے روپیہ کھول کر دئیے کہ آپ اپنے ہاتھ سے شہر یار دولھا کو دے دیجئیے۔ میں نے ان کی خاطر اور بار بار کے تقاضے سے تعریف کی۔ وہ سمجھے پسند ہے۔ اگر آپ کو ناگوار نہ گزرے تو یہ روپیہ حاضر ہیں ورنہ جیسا آپ مناسب جانیں۔ انھیں سے میں نے قیمت و قرض کا حال سنا۔ خدا کی قسم میں نے

ریختہ صفحہ 329
نہ فرمائش کر کے منگائی نہ کسی اور غرض سے تعریف کی۔ انھوں نے مسکرا کر میری طرف دیکھا ۔ بڑی بہو نے وہ ٹکڑا اٹھا کر بے دھڑک کہا کہ اماں جان یہ تو میں لوں گی۔ وہ بولیں کہ اچھا تمہیں لے لو ان کے تو پسند بھی نہیں ہے۔ میں نے بھی کہا کہ آپ کے پسند آئے تو حاضر ہے۔ کہا ووئی تم تو اس طرح سے کہتی ہو گویا تمہارا مال ہے۔ کما کر کہیں سے لائی ہو۔ میں چپکی وہاں سے روپیہ اور مال لے کر اٹھ آئی۔ بات کا جواب بات ہے مگر میں نے طرح دی۔ آج پہلی بسم اللہ انھوں نے یہ کی۔ اگر ٹوک دوں تو اچھی رہوں۔ لیکن میری آنکھ میں تو مروت اس قدر خدا نے دے دی تھی کہ جسے میں ہی جانتی ہوں۔ یہ صاحب ان کے بڑے لڑکے مولوی سید مجاور حسین کی بیوی تھیں جب سے شوہر ان کے مر گئے تھے چڑھی بارگاہ ہو گئی تھیں، خود مختاری کے علاوہ ذرا آزاد مزاج اور بیباک بھی تھیں۔ میں نے ان کے تیور اس وقت کی جلی کٹی سے پہچاناکہ ہئے ہئے شاید انھیں کی نسبت رحمت نے اس دن کہا تھا کہ اب مجھے بھی اس کے کھوج کی حاجت ہوئی اور جو کچھ دیکھا وہ بظاہر نا گفتہ بہ ہے مگر میں قسم کھا کر کہتی ہوں کہ سوا ایک بیباکی کے ان کے مزاج میں اور کوئی بات نہ تھی۔ ساس کی خاطر اور ان کی پاسداری دیور کی محبت سے انھوں اپنے سر بہت بھاری الزام لیا جو انھیں کے سسرال والوں کی بد نیتی پر محمول ہے۔ مجھے جس نے کہا میں نے ٹکڑا توڑ کے اس کے ہاتھ میں رکھ دیا۔ اور صاف کہا کہ کوئی قران کا جامہ بھی پہن کر آئے گا تو میں یقین نہ

ریختہ صفحہ 330
مانوں گی۔ آدمیوں کو بھی نہایت تاکید سے میں نے روکا اور حلق دبایا کہ کسی نے سانس تک نہ لی۔ کہنے والوں نے آپ ہی مجھ سے کہا آپ ہی ان کو ابھارا کہ انھیں ایسا ایسا گمان ہے انھوں نے ضد کے مارے اپنی اس محبت و حالت کو اور بڑھایا اور یہاں تک نوبت پہنچی کہ اباجان نے ایک دن بے ترکیب بات دیکھ کر اپنے لڑکے کو الگ لے جا کر ملامت کی اور سمجھا کر قسمیں دیں ۔ انھوں نے ساری کیفیت باپ سے بیان کی کہ اماں جان نے اپنی چھوٹی بہو کے جلانے کو یہ باتیں کی تھیں۔ انھیں کے طفیل سے اس حد تک اب پہنچیں کہ وہ مجھ سے ہنسنے لگیں اور آپ کو شبہ ہوا۔ اشہد باللہ کہ میں انھیں اپنی ماں جانتا ہوں اور وہ بھی مجھے اپنا چھوٹا بھائی یا فرزند سمجھتی ہیں۔ پہلے مجھ سے کہا کہ تم ان کے ساتھ عقد کر لو خدا اور رسول بھی خوش ہوں گے میری بھی خوشی ہے۔ میں نے کہا کہ جناب مجھ سے یہ بے ادبی نہ ہو گی۔ تب انھوں نے کچھ ان کے کان بھرے کچھ مجھے ابھارا۔ دونوں کو بے غیرت بنوایا اور ذلیل کرایا۔ آپ کی چھوٹی بہو بڑی نیک ہیں ورنہ غضب ہی ہو جاتا۔ سارا محلہ روشن ہوتا اور کوئی دوسرا ہوتا جھنڈے پر چڑھاتا۔ جس قدر مشہور ہوا ہماری تادیب اور تنبیہ کو کافی ہے۔ بس اب آپ انھیں ان کے گھر بھجوا دیجئیے تا کہ روز روز کی آفت اور ذلت جائے۔ اباجان نے انھیں سمجھا کر آگاہ کیا۔ وہ چلنے کو تیار ہوئیں۔ سارا قصہ ساجدہ بیگم کی زبانی میں نے سنا کہ یہ بات یوں سے یوں تھی۔، اگر خدا نہ کرے میری زبان سے کچھ نکل جاتا تو آج میں مفت

ریختہ صفحہ 331
چنی بیگم دلہن صاحب کی گنہگار ہوتی۔ چلتے وقت جب میں ملنے کو گئی انھوں نے گلے سے لگایا اور کہا تمہارا پائجامہ اماں جان پاس رکھا ہے ضرور لی لینا اور بہن خدا کے لئے میری اس دن کی نالائقی کو معاف کرنا۔ میں نے تمہیں بہت بڑھ کر ایک بات کہی تھی۔ کل اماں جان پائخانے میں تھیں ۔ اباجان نے تمہاری ساری بےگناہی کی داستان اور ان کی زیادتی کی کہانی بیان کر کے مجھ سے کہا کہ تم پر کیا پتھر پڑے تھے کہ تم نے بے سمجھے بوجھے اپنے تئیں معطون کرایا۔ اگر شہزادی بنی سے بدلا لینا ہی منظور تھا اور تمہارے نزدیک وہ ساس کے فرمانے کے بموجب قابل جلانے ہی کے تھی تو کیا دنیا میں سوا اس تدبیر کے دوسری تدبیر نہ تھی۔ خدا کی قسم بہن یہ سنتے ہی میری آنکھیں کھل گئیں اور پردے آنکھ پر سے اٹھ گئے۔ خدا کے لے میری خطا بخش دینا۔ شاید دوبارہ ملاقات نہ ہو زندگی کا کچھ اعتبار نہیں۔ میں نے ہنس کر کہا کہ ان شاء اللہ ہزار دفعہ ملاقات ہو گی۔ کہا خدا نہ کرے اب تم سے ہمیشہ کے لئے بچھڑتے ہیں۔ لے جلدی خطا معاف کرو۔ میں نے کہا کہ خطا کیسی؟ آپ نے میری خطا کیا کی اور اگر کی تو میں نے معاف کی۔ وہ پھر میرے گلے لگ کر سوار ہو گئیں۔ مجھے ان کی ایک بات پر کھٹکا ضرور ہوا مگر ساتھ ہی یہ بات بھی دل میں آئی کہ اب یہاں نہ آئیں گی۔ انھوں نے وہاں جا کر افیون کھا لی اور وہ بھی بہت سی۔ پہر بھر کسی کو معلوم نہ ہوا۔ جب حال کھلا تو ان کا غیر حال تھا۔ یہاں خبر آتے ہی میں اجازت لے کر پہنچی۔ ہینگ کاغذ جوگیا ارنڈ کی

ریختہ صفحہ 332
کو پل پانی میں پیس کر کوٹ کر پلائی مگر وہ کم بخت اپنا کام کر چکی تھی۔ خاک فائدہ نہ ہوا۔ تھوڑا دن باقی تھا کہ ان بے گناہ بیوی نے نادانی اور کم علمی کی وجہ سے اپنی لال سی جان اس کالی بلا کے ہاتھوں دے دی۔ جس مشکل اور سختی سے ان کا دم نکلا ہے اور جو کرب و تعب انھوں نے اپنے ہاتھ سے مرتے وقت اٹھایا ہے وہ دیکھا نہ جاتا تھا۔میں ایسے مقام پر بھی نہایت مضبوط اور دل کی سخت تھی مگر ان ناشاد کی بے وقت مرگ پر بے اختیار ہو کر روئی۔ افسوس ہے کہ غیرت داری کی تو اس قدر کی اور پہلے سوچ سمجھ کر کام نہ کیا پھر اتنی دلیری کی اور انجام کو نہ سوچا اگر تھوڑا سا بھی علم ہوتا تو ضرور ہی خوف خدا اتنی بڑی جرات نہ کرنے دیتا ۔ یہ حماقت اور جسارت جو ان سے سرزد ہوئی فقط ان کی بے علمی کی وجہ سے مگر افسوس اور ہزار افسوس جس وقت مجھے ان کی جان دینے کا اس وقت بھی خیال آ جاتا ہے دل تھرا جاتا ہے۔ خدا ان کی اس بیجا حرکت سے درگزرے اور وہ قصور معاف کرے ۔ ان کے تیجے تک رہ کر میں گھر پر آئی ۔ اباجان نے بڑی بہو کے مرنے کا نہایت غم کیا اور اسی غم و غصہ میں بیوی کو ان کا قاتل ٹہرایا۔ اس پر وہ بہت آزردہ ہوئیں اور کئی روز تک میاں سے لڑائی رہی، بات نہ کی۔ جب شہریار دولھا کو سسرال میں کئی مہینے گزرے تو اس محلے کے لوگوں سے میل جول ہوا ۔ مکان کے قریب کوئی شخص رمّال رہتے تھے۔ ان کے لڑکوں سے بھی راہ و رسم ہوا ۔ دو چار ہمسن ہمسن نماز مغربین کے بعد وہاں جمع ہوتے تھے۔ یہ بھی وہاں

ریختہ صفحہ 333
بیٹھنے لگے اور اس کو رفتہ رفتہ ترقی ہوئی یہاں تک کہ کھانے کا وقت ٹلنے لگا ۔ اکیلے کی وجہ سے ساجدہ بیگم کوٹھےپر نہ جاتی تھیں اور دوسرے وہ کھانا بھی کھا کے نہیں جاتے تھے۔ پانچ چار روز تو اماں جان چپ رہیں۔ ایک دن اتفاق سے وہ ٹھیک کھانے کے وقت آ گئے۔ دیکھتے کے ساتھ ہی انھوں نے آڑے ہاتھوں لیا اور الٹی سیدھی سنانی شروع کی۔ اول تو وہ اس دن سویرے آئے تھے، کہنا ہی بے موقع تھا اور اگر کہا تھا تو ایک طریقے سے کہا ہوتا جس طرح بڑے بوڑھے کہتے ہیں۔ انھوں نے تو طعنوں کے وار لگانا شروع کئے کہا کہ بس وہیں جاؤ۔ خلاف وضع کرنا کیسا۔ آج کیا ہے جو کھانے کے وقت پسلی پھڑکی خوب پیٹ سے پاؤں نکالے ۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ تم بھی میری جان کھانے والوں میں ہو گے۔ ایک ہی آفت توڑنے کو میری جان پر کیا کم تھی کہ تم دوسرے قہر ڈھانے کو اور نازل ہوئے کیا معلوم تھا کہ پاس رہ کر پہلو میں بیٹھ کر کلیجہ چاٹو گے۔ تم ہر گز اس قابل نہ تھے کہ سر چڑھائے جاؤ۔ ہماری محبت اور احسان دیکھو اور اپنی نالائقی اور چھچھورے پن پر نظر کرو۔ یہ آدھی آدھی رات گئے تک باہر رہنے کے کیا معنی۔ ہم نے تمہیں گھر کے لئے بلایا ہے کہ دربدر کے لئے۔ چار گھڑی دن رہا اور بن سنور کر تم اینڈتے بررتے نکل گئے۔ گئے گئے بارہ بجے آئے۔ کچھ میرا گھر بھٹیار خانہ بنایا ہے کہ جب جی چاہا آئے تن تن کر کے ہتّے مارے اور منڈیا مروڑ کے پڑ رہے۔ جب بارہ بجے تھکے تھکائے آؤ گے اپنے سر پیر کی تو خبر نہ رہتی ہوگی جورو کیسی

ریختہ صفحہ 334
اور جاتا کیسا۔ وہ بد نصیب تمہارے انتظار میں اپنی نیند بھوک کھوئے آدھی رات تک بیٹھی جاگا کرے اور تم بات نہ پوچھو۔ بڑے غیرت دار ناک والے معلوم ہوتے ہو۔ سبحان اللہ کیا کہنا ۔ خوب خوب گن پیٹ میں بھرے ہیں۔ وہ یا تو ہاتھ دھو کر آتے تھے یہ باتیں سنتے ہی الٹے پاؤں پلٹ کر کوٹھے پر جا کر سو رہے۔ بیوی نے بھی کھانا نہیں کھایا ۔ جب سب کھا چکے تو وہ ان کا کھانا لے کر گئیں مگر انھوں نے کھانا نہ کھایا۔ دونوں کے دونوں بھوکے پڑ رہے۔ مھے ساجدہ بیگم کے فاقے سے رہنے کا حال تو صبح کو معلوم ہوا لیکن شہر یار دولھا کے جلدی سے ہاتھ دھو کر آنے اور مایوس خاموش پلٹ جانے پر دیر تک اندر سے دل کڑھا کیا۔ صبح کو ساجدہ اماں جان کے پاس ہو کر میرے پاس آئیں اور کہا کہ رات کو انھوں نے کھانا نہیں کھایا بڑی دیر تک جاگا کئے اور اس وقت جانے کی تیاری کر رہے ہیں۔ میری بھابھی میں قربان جاؤں کسی ترکیب سے انھیں روک لیجئیے پھر چاہے کل یا پرسوں غصہ کم ہونے پر چلے جائیں مگر آج نہ جائیں۔ اماں جان تو بے دھڑک جو منہ میں آتا ہے نکال ڈالتی ہیں۔ داماد اور نیا داماد کیوں سننے لگا۔ میں نے کہا کہ جو تم کہو وہ میں کروں۔ ذرا کوٹھے پر میرے ساتھ چلئیے۔ میں ان کی خاطر سے کوٹھے پر گئی دیکھا تو وہ اپنی گٹھری بقچی باندھ رہے ہیں۔ میں نے کہا کیوں خیر تو ہے بھائی شہر یار دولھا اس وقت کاہے کی تیاری کر رہے ہو ۔ کہا بھابی جان بس اب یہاں رہنا بالکل نا مناسب ہے۔ رات کی بات کیا آپ بھول گئیں۔ میں نے کہا لو ابتدا تو اس بات کی مجھ آفت توڑنے والی

ریختہ صفحہ 335
ہی کے نام سے ہوئی تھی۔ تم مرد ہو کر ایک ہی دن میں ہمت ہار گئے جی چھوڑ دیا نہ بیوی کا خیال رہا نہ اپنی بات کا۔ لوگ سن کر کیا کہیں گے۔ بڑے بوڑھے یونہی دل جلا کے کہتے ہیں ۔ اگر دل نہ جلائیں تو ناگوار کیوں ہو اور بے ناگوار ہوئےکوئی اپنی عادت چھوڑے کیوں۔ جب تک تم نہیں آئے تھے کچھ کام نہ تھا۔ اب یہاں آ کر رہے جانا نہیں اچھا معلوم ہوتا۔ اگر جانا ہی منظور ہے تو دو چار روز بعد جانا ۔ ابھی نہ جاؤ۔ کہا بھابی جان دو چار روز میں تو دو چار ہزار فضیحتوں کی نوبت پہنچے گی۔ میں نے کہا نہیں میرا ذمہ کہ وہ اب کچھ نہ کہیں گی مگر تم بھی بہت رات گئے نہ آیا کرو۔وہ یہ سن کر چپ ہوئے۔ میں نے ساجدہ بیگم سے کہا کہ تم بقچی لے کر اپنے صندوق میں رکھو اور ان سے کہا کہ میں تمہارے لئے کھانا پکواتی ہوں۔ خبردار چلے نہ جانا ورنہ مجھے رنج ہو گا۔ یہ کہہ کر میں چلی اور اشارے سے ساجدہ بیگم کو بلا کر زینے پر یہ سمجھا دیا کہ تم ہاتھ جوڑ کر منت خوشامد کر کے عذر کرو۔ بالکل صاف ہو جائیں گے اور غصہ دھیرا ہو جائے گا۔ ادھر ان بیچاری نے میرا کہا کیا ادھر میں نے آ کر جلدی جلدی ان کے واسطے پراٹھے پکوائےانڈے تلے بالائی منگوائی دسترخوان بچھا کر دونوں صاحبوں کو کھانا کھلایا ۔ کھانا کھاتے میں انھوں نے آبدیدہ ہو کر کہا کہ بھابھی جان میں نے آپ کے حکم کو مانا کہ آپ نے کبھی کبھار کوئی بات فرمائی۔ عدول و انکار کیا کروں آپ کو ناگوار ہو گا لیکن آپ بھی مجھ پر اتنا احسان کیجئیے کہ جب تک میں یہاں ہوں مجھے وہاں کھانے کو نہ بلائیے گا یا کوٹھے پر بھیج دیجئیے گا یا اپنی صحنچی میں بلا کر کھلا دیجئیے گا نہ
یہ گفتگو دھاگے میں کیوں ارسال کر دیا بھئی
 
Top