افراتفری

نوید ناظم

محفلین
انسان زندگی میں سکون چاہتا ہے اور پھر سکون کی تلاش اس کو متحرک کر دیتی ہے۔۔۔گویا انسان ٹھہرنے کی خواہش میں بھاگتا ہے، سکون کی زندگی حاصل کرنے کے لیے انسان زندگی کا سکون داؤ پر لگاتا رہتا ہے، یہ محبت کی آرزو میں کتنی نفرتوں سے روز گزرتا ہے مگر یہ سفر صحرا کے سفر کی طرح جاری رہتا ہے۔۔۔۔انسان کو منزل ملتی ہے نہ یہ رستا چھوڑتا ہے۔ یوں یہ ٹھہراؤ کی خواہش میں افراتفری کا شکار ہو جاتا ہے۔ بے لگام گھوڑے کی طرح بے سمت بھاگنے والا افراتفری سے فرار حاصل نہیں کر سکتا۔ افراتفری کی دوڑ میں فاصلے کم نہیں ہوتے بلکہ فصیلیں کھڑی ہوتی ہیں، ایک دریا کے پار اترنے کے بعد انسان کو اک اور دریا کا سامنا کرنا ہی پڑتا ہے۔
حرکت ایک حد تک ضروری ہے اور اگر یہ حد سے زیادہ ہو تو ایک قبیح حرکت بھی شمار کی جا سکتی ہے۔ مقصد کا تعین نہ ہو تو انسان افراتفری سے نہیں بچ سکتا اور غلط مقصد کا انتخاب بذاتِ خود انسان کو اندر سے بے چین رکھتا ہے۔مسلمان کا ضمیر غلط عمل قبول نہیں کرتا اور نفس صحیح عمل قبول نہیں کرتا، گویا نفس کی اصلاح نہ ہو تب بھی انسان کے اندر ایک اضطرابی کیفیت کا پیدا ہونا لازمی ہے۔
ہم جس ماحول میں آج زندگی گزار رہے ہیں ہمیں اس ماحول سے افراتفری کا تحفہ ملا ہے، مشین کی زندگی نے زندگی کی مشین کو خراب کیا ہے۔ ہم روبوٹ کی طرح اٹھتے ہیں، اپنے بینک اکاونٹ میں اضافہ کرتے ہیں اور سو جاتے ہیں، ہم کہنے کو ایک ترقی یافتہ دور میں ہیں مگر ہمیں آنے والے دور کا خدشہ ہے۔۔۔ہمارے پاس جدید طرزِ زندگی ہے اور ہمیں مسقبل میں جدید ترین خدشوں کا خوف بھی ہے۔ ہم ڈر رہے ہیں اور ڈرا رہے ہیں کیوں کہ افراتفری میں یہی ہوتا ہے۔ ہم ایک خوف زدہ ہجوم ہیں جو ایک دوسرے سے مقابلے میں ہے۔ کس شے کا مقابلہ ہے اس کا فیصلہ ابھی ہونا باقی ہے۔ ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کا جنون ہمیں کسی آسیب کی طرح چمٹ چکا ہے۔ اب انسان کو خوش ہونے کے لیے محنت کرنا پڑتی ہے۔ معاشرہ اپنے انجام کی طرف رواں دواں ہے اور اس انجام کا ایک اہم سنگِ میل افراتفری ہے جو عبور ہو چکا ہے، آج کسی کو سفر کی جلدی درپیش ہے تو کسی کو جلدی کا سفر، جلد نتیجہ حاصل کرنے کی خواہش انسان کو ناکام بھی جلد کرتی ہے۔۔۔ بڑا کام بڑی دیر میں ہوتا ہے، بڑے لوگ بڑی دیر کے بعد جلوہ افروز ہوتے ہیں۔
تحمل کے بغیر انسان کی تکمیل نہیں ہوتی اور جلد بازی اس کی سرشت میں ہے۔۔۔سرشت کو پلٹنا ایسے ہے جیسے خود اپنی مرضی سے دوبارہ پیدا ہونا۔ تحمل ہی وہ نسخہ ہے جو انسان کو افراتفری کے عفریت سے نجات دلا سکتا ہے۔ انسان آگے بڑھنے کی خواہش میں اپنے سکون سے بھی آگے بڑھ چکا ہے۔ زندگی کو آسان کرنے کے نام پر یہ زندگی کو موت کے منہ تک لے آیا ہے۔۔۔آگے کا سفر اب صرف خطرے کا سفر ہے۔ بے مقصد دوڑ نے انسان کی دوڑیں لگوا دی ہیں اور اب یہ ہلکان ہونے کو ہے۔ اس کا سارا سفر اکارت ہونے کو ہے۔ بھلا خالق کی منشاء کو نکال کر خالق کی زمین پر سکون سے کیسے رہا جا سکتا ہے۔ جھوٹ کی بنیاد پر حاصل کی جانے والی جھوٹی خوشیاں انسان کو اطمینان کیوں کر دے سکتی ہیں۔ دراصل خالق کی طرف رجوع ہی انسان کی بقاء کا واحد ذریعہ ہے۔ یہ خیال کہ ہم نے مرنا ہے' انسان کو زندہ رہنے کا سلیقہ دے سکتا ہے۔ فنا کا شعور ہی بقا کا رستا ہے۔ ہم اپنے دشمن سے ہزار بار طاقت ور ہو جائیں تب بھی ہمارا جانا یقینی ہے، انسان میدان کی بازی جیت بھی جائے تو جان کی باز ہار جاتا ہے۔ امیر اپنی تمام تر دولت کے باوجود رخصت ہو جاتا ہے اور غریب اپنی غریبی سمیت زندہ رہتا ہے' جب تک کہ رہنا مقرر ہے۔ بات مال و زر کی نہیں ہے بلکہ بات شعور کی ہے۔۔۔ اس شعور کی کہ ہم کسی حکم کے تابع ہیں، ہماری زندگی محض ہماری نہیں، ہم یہاں اپنی مرضی سے نہیں ہیں بلکہ ہمارا ایک خالق ہے جو بر حق ہے۔ ہمارے خالق نے ہمارا رزق بھی تخلیق کر رکھا ہے اس لیے ہمیں رزق کی تلاش کرنے کا حق ہے مگر رزق کی خاطر پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ ہمارے ٹھہرنے اور جانے کا وقت طے ہے اس لیے گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ ہمیں اب سوچنے کی ضرورت ہے، ٹھہرنے کی ضرورت ہے۔ ہم وقت کے دریا میں چھلانگ لگا چکے ہیں اب کہیں نہ کہیں پہنچنا یقینی ہے۔ اور اہلِ یقین اپنی منزل سے واقف ہوتے ہیں۔۔۔وہ کسی افراتفری کا شکار نہیں ہوتے۔ ہمیں بھی یقین کی ضرورت یے۔۔۔ ایسے یقین کی جس کے دم سے ہمارا رشتہ ہمارے خالق سے قائم رہے اور ہم افراتفری سے نکل کر اپنے رب کی طرف فرار کر جائیں۔
 
آخری تدوین:
Top