افتخار عارف کی غزل کی پیروڈی

غزل

محمد خلیل الرحمٰن
(جناب افتخار عارف سے معذرت کے ساتھ)


’’مرے خدا مجھے اتنا تو معتبر کردے‘‘
میں جِس مکان میں رہتا ہوں ، میرا گھر کردے

وہ میری پے کے تعاقب میں بھاگتا ہے بہت
اے کاش کچھ تو کرائے کو مختصر کردے

اسی مہینے کرایہ بڑھائے گا شاید
دُعا ہے چال یہ اُسکی تُو بے اثر کردے

وہ پچھلا سارا کرایہ بھی لینے آیا ہے
ذرا کوئی میرے ماموں کو بھی خبر کردے

مِرا یہ گھر ہی تو اب میرا اِک حوالہ ہے
نہ ایسا ہو، وہ حوالہ مِرا دِگر کردے

اگر میں اگلا کرایہ بھی دے نہ پاؤں تو
مجھے یہ ڈر ہے وہ مجھ کو نہ در بدر کردے
 

شمشاد

لائبریرین
وہ تو ظاہر جب پچھلے کرائے نہیں دیئے تو اگلا کہاں سے دینا ہے۔

بہت داد قبول فرمائیں۔
 
وہ تو ظاہر جب پچھلے کرائے نہیں دیئے تو اگلا کہاں سے دینا ہے۔

بہت داد قبول فرمائیں۔

واضح ہو کہ یہ ہماری ذاتی واردات ہرگز نہیں۔ ایک عرصہ ہم کرایہ دار رہے اور مالک مکان کے ہر ظلم کو ہنس ہنس کے سہا کیے لیکن وقت پر کرایہ دینا نہیں بھولے۔ اس کے باوجود ہمیں کوئی ایسا مالک مکان میسر نہیں ہوا جس نے ہمیں گیارہ ماہ سے زیادہ اپنے مکان میں برداشت کیا ہو۔ نتیجتآ ہمارے رشتہ دار ہمیں بلی سے تشبیہ دینے لگے تھے جو سات گھر تبدیل کرتی ہے۔

پھر جب اللہ کے فضل وکرم سے ہم ایک عدد فلیٹ کے مالک بنے جسے ہم کرایے پر اُٹھایا تو ہمیں سب سے پہلا ہی کرایہ دار ایسا ٹکر گیا جو نہ کرایہ دیتا تھا اور نہ ہی فلیٹ چھوڑنے پر آمادہ تھا۔ ہر بار نہایت مسکین سی شکل بنا کر دروازے سے نمودار ہوتا اور ایک نئی کہانی سنادیتا۔ اُس جیسا کہانی کار ہم نے ادب کی دنیا میں کم ہی دیکھا۔
 
آخری تدوین:
جب فلیٹ کے مالک بے تھے تو کرائے پر کیوں دیا؟ خود ہی اس کے مکین کیوں نہ بنے؟


ہم چونکہ اپنے کرایہ دار جیسے کہانی کار نہیں لہٰذا کہانی کو مختصر ہی رکھا ۔ کہنے کا مقصد یہ تھا کہ جب ہم ایک عدد زاید فلیٹ کے مالک بنے۔۔۔۔:):):)
 
کیا بات ہے جناب :)
لطف آیا پڑھ کر
بہت سی داد آپ کی اس کاوش کی نظر
ایک بات کی سمجھ نہیں آئی
جب ذاتی فلیٹ ہے تو اسے کرائے پر کیوں چڑھا دیاخود کیوں نہ مکین بنے؟ لگتا ہے
"چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی"
 
مدیر کی آخری تدوین:
Top