اعضا عطیہ کرنے میں مسلمانوں کی پریشانیاں!

سید عمران

محفلین
حلال قرار دینے والوں کا اخلاص اس وقت ثابت ہوگا جب وہ ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر چرب زبانیاں بگھارنے کے بجائے زندگی میں ہی اپنا ایک گردہ، ایک آنکھ اور جگر کا ٹکڑا عطیہ کریں..
مفت کی لفاظیاں تو سب ہی کے منہ سے آئے دن نکلتی رہتی ہیں جن کا چنداں اثر نہیں ہوتا..
اٹھو گفتار کے غازیو!!
لفظوں کی جنگ چھوڑو..
میدان عمل میں آؤ...
پھر تمہارا منہ ہوگا یہ سب کہنے کا!!!
ورنہ تمہارے اقوال دل کے کانوں تک پہنچنے سے پہلے ہی دم توڑجائیں گے...
 

زیک

مسافر
حلال قرار دینے والوں کا اخلاص اس وقت ثابت ہوگا جب وہ ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر چرب زبانیاں بگھارنے کے بجائے زندگی میں ہی اپنا ایک گردہ، ایک آنکھ اور جگر کا ٹکڑا عطیہ کریں..
مفت کی لفاظیاں تو سب ہی کے منہ سے آئے دن نکلتی رہتی ہیں جن کا چنداں اثر نہیں ہوتا..
اٹھو گفتار کے غازیو!!
لفظوں کی جنگ چھوڑو..
میدان عمل میں آؤ...
پھر تمہارا منہ ہوگا یہ سب کہنے کا!!!
ورنہ تمہارے اقوال دل کے کانوں تک پہنچنے سے پہلے ہی دم توڑجائیں گے...
ویسے تو یہ بہت بونگا استدلال ہے مگر میں بون میرو اور آرگن ڈونیشن کے لئے رجسٹرڈ ہوں۔
 

زیک

مسافر
بونگا کیوں ہے؟؟؟
پہلے خود عمل کیا جاتا ہے پھر ترغیب دینے کا منہ ہوتا ہے...
ورنہ نری لفاظیاں رہ جاتی ہیں..
اگر یہ بات ابھی تک آپ سمجھ نہیں سکے تو میرے سمجھانے کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔
 
آخری تدوین:

شاہد شاہنواز

لائبریرین
حلال قرار دینے والوں کا اخلاص اس وقت ثابت ہوگا جب وہ ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر چرب زبانیاں بگھارنے کے بجائے زندگی میں ہی اپنا ایک گردہ، ایک آنکھ اور جگر کا ٹکڑا عطیہ کریں..
مفت کی لفاظیاں تو سب ہی کے منہ سے آئے دن نکلتی رہتی ہیں جن کا چنداں اثر نہیں ہوتا..
اٹھو گفتار کے غازیو!!
لفظوں کی جنگ چھوڑو..
میدان عمل میں آؤ...
پھر تمہارا منہ ہوگا یہ سب کہنے کا!!!
ورنہ تمہارے اقوال دل کے کانوں تک پہنچنے سے پہلے ہی دم توڑجائیں گے...
علمی بحث کو اس پوسٹ سے آپ نے کسی اور ہی طرف موڑ دیا، سو ہماری طرف سے معذرت ۔۔۔ ہم مزید آگے نہیں جائیں گے ۔۔۔
 

سید عمران

محفلین
علمی بحث کو اس پوسٹ سے آپ نے کسی اور ہی طرف موڑ دیا، سو ہماری طرف سے معذرت ۔۔۔ ہم مزید آگے نہیں جائیں گے ۔۔۔
جی بہتر۔۔۔
ویسے بھی اس بحث کو خالصتاً علمی نہیں کہہ سکتے۔۔۔
کیوں کہ یہ بحث اسلام اور مسلمانوں کا نام لے کر شروع کی گئی تھی۔۔۔
چناں چہ علمی بحث جب کہلاتی جب بڑے فقیہ اور مفتی حضرات علمی بحث کرتے۔۔۔
یہاں تو اسلام کے غامض و دقیق علم کے بغیر محض ذاتی آراء پیش کی جارہی ہیں۔۔۔
 
آخری تدوین:

شکیب

محفلین
استغفراللہ۔
ادھر ملا یہ کہتے تھکتے نہیں کہ موت کے بعد کا عالم اس عالم سے صریحاً مختلف ہے اور ادھر ایسی بےپر کی اڑائی جا رہی ہیں۔
دوزخ میں ڈال دو کوئی لے کر بہشت کو!​
معلوم ہوتا ہے کہ مولوی حضرات اللہ پاک کی آسانی کے لیے اس دنیا میں ہماری زندگی مشکل بنانا چاہ رہے ہیں۔ یعنی یہ نہ ہو کہ ہم مثلاً آنکھیں عطیہ کر دیں اور روزِ محشر ٹامک ٹوئیاں مارتے پھریں۔ پھر اللہ کو دوسری آنکھیں دینی پڑیں گی جو وہ ازروئے حدیث دے گا نہیں۔ بہتر ہے کہ معاملہ یہیں سلجھا لیا جائے۔ معاذ اللہ۔
تو کارِ زمیں را نکو ساختی
کہ با آسماں نیز پرداختی؟​
بھائی، قرآن کا اللہ وہ اللہ ہے جو فرماتا ہے کہ اگر وہ پہلی مرتبہ پیدا کر سکتا ہے تو دوسری بار پیدا کرنا اسے کچھ دشوار نہیں۔ آپ اس اللہ کے سامنے پیش ہونے کے لیے اعضا بچا کے رکھنا چاہ رہے ہیں؟
تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے، ترا آئنہ ہے وہ آئینہ
کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہِ آئنہ ساز میں​
کفار کا استہزا قرآن میں نقل کیا گیا ہے جو کہتے تھے کہ کیا ہم دوبارہ اٹھائے جائیں گے جب ہمارے جسم مٹی ہو جائیں گے؟ ادھر آپ فرماتے ہیں کہ اگر یہاں گردے دے دیے تو جنت میں بغیر گردوں کے پھرا کرو گے۔ فرق کیا ہے آپ کی اور ان کی منطق میں؟
ویسے اس مثال سے ایک سوال اور بھی پیدا ہوتا ہے کہ جنت میں کیا بول و براز کی حاجت اسی طرح ہو گی جیسے یہاں ہوتی ہے؟ گردے اور بڑی آنت وغیرہ ضروری ہوں گے یا ان سے یہیں جان چھڑا لی جائے؟ بینائی کی ضرورت تو آپ نے واضح فرما ہی دی ہے۔ :):)
آپ نے کبھی قبرستانوں میں بارش یا زلزلے وغیرہ سے کھل جانے والی قبروں کو دیکھا ہے؟ کون سے اعضا محفوظ نظر آتے ہیں آپ کو؟ کبھی آپ نے قبروں پر اگے ہوئے درختوں کو دیکھا ہے؟ کبھی سوچا ہے کہ یہ آپ کے پیاروں کی لاشوں سے اپنی غذا حاصل کر رہے ہیں؟ کبھی آپ نے سوچا ہے کہ جس کھیت کی گندم جناب نے تناول فرمائی ہے اس کے خوشے آج سے سیکڑوں، ہزاروں یا لاکھوں برس پہلے اس جگہ مرنے والے جانوروں اور انسانوں کی باقیات سے قوت حاصل کر رہے ہیں؟ کبھی آپ نے غور فرمایا ہے کہ آپ کے مکان کی مٹی میں کس کس انسان کی خاک ہم جنس ہو کر رہ گئی ہے؟ کبھی آپ نے تدبر فرمایا ہے کہ آپ کے اردگرد موت کا رقص جاری ہے اور آپ کی خوراک سے لے کر اوڑھنے بچھونے کے سامان تک ہر ہر جگہ مردہ انسانوں کے عناصر بکھرے ہوئے ہیں؟
اگر اللہ اس منتشر صورت سے انسان کو دوبارہ پیدا کر سکتا ہے، اور یہی ازروئے قرآن اس کی قدرت ہے، تو عطیہ کیے ہوئے اعضا سے ابا کیوں کرے گا؟
ستم کم کن کہ فردا روزِ محشر
بہ پیشِ عاشقاں شرمندہ باشی !​

اللہ اکبر!
عطیہ کرنے اور تلف کرنے کا فرق معلوم نہیں جناب کو؟
داغؔ کا ایک شعر یاد آ گیا ہے۔ نقل کیے بن رہا نہیں جاتا۔ پیشگی معذرت کے ساتھ:
بات کرنی بھی نہ آتی تھی تمھیں
یہ تو میرے سامنے کی بات ہے​
اس سے آگے بات نہیں گئی کیا...!
 
اردو فورم پر میرا یہ پہلا تبصرہ ہے جو اس تحریر کو پڑھنے کے بعد تحریر کر رہا ہوں مقصد محض درست شرعی حکم کی وضاحت ہے ۔
کچھ عرصہ پہلے مولانا مفتی محمد شفیع اور مولانا سیّد محمد یوسف بنوری نے علماء کا ایک بورڈ مقرّر کیا تھا، اس بورڈ نے اس مسئلے کے مختلف پہلووٴں پر غور و خوض کرنے کے بعد آخری فیصلہ یہی دیا تھا کہ ایسی وصیت جائز نہیں اور اس کو پورا کرنا بھی جائز نہیں۔ یہ فیصلہ ”اعضائے انسانی کی پیوندکاری“ کے نام سے چھپ چکا ہے۔
شاید یہ کہا جائے کہ یہ تو دُکھی انسانیت کی خدمت ہے، اس میں گناہ کی کیا بات ہے؟ میں اس قسم کی دلیل پیش کرنے والوں سے یہ گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ اگر آپ واقعتا اس کو انسانیت کی خدمت اور کارِ ثواب سمجھتے ہیں تو اس کے لئے مرنے کے بعد کا انتظار کیوں کیا جائے؟ بسم اللہ! آگے بڑھئے اور اپنی دونوں آنکھیں دے کر انسانیت کی خدمت کیجئے اور ثواب کمائیے۔ دونوں نہیں دے سکتے تو کم از کم ایک آنکھ ہی دیجئے، انسانیت کی خدمت بھی ہوگی اور ”مساوات“ کے تقاضے بھی پورے ہوں گے۔
غالباً اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ زندہ کو تو آنکھوں کی خود ضرورت ہے، جبکہ مرنے کے بعد وہ آنکھیں بیکار ہوجائیں گی، کیوں نہ ان کو کسی دُوسرے کام کے لئے وقف کردیا جائے؟
بس یہ ہے وہ اصل نکتہ، جس کی بنا پر آنکھوں کا عطیہ دینے کا جواز پیش کیا جاتا ہے، اور اس کو بہت بڑا ثواب سمجھا جاتا ہے، لیکن غور کرنے کے بعد معلوم ہوگا کہ یہ نکتہ اسلامی ذہن کی پیداوار نہیں، بلکہ حیات بعد الموت (مرنے کے بعد کی زندگی) کے انکار پر مبنی ہے۔
اسلام کا عقیدہ یہ ہے کہ مرنے کے بعد آدمی کی زندگی کا سلسلہ ختم نہیں ہوجاتا، بلکہ زندگی کا ایک مرحلہ طے ہونے کے بعد دُوسرا مرحلہ شروع ہوجاتا ہے، مرنے کے بعد بھی آدمی زندہ ہے، مگر اس کی زندگی کے آثار اس جہان میں ظاہر نہیں ہوتے۔ زندگی کا تیسرا مرحلہ حشر کے بعد شروع ہوگا اور یہ دائمی اور ابدی زندگی ہوگی۔
جب یہ بات طے ہوئی کہ مرنے کے بعد بھی زندگی کا سلسلہ تو باقی رہتا ہے مگر اس کی نوعیت بدل جاتی ہے۔ تو اَب اس پر غور کرنا چاہئے کہ کیا آدمی کو دیکھنے کی ضرورت صرف اسی زندگی میں ہے؟ کیا مرنے کے بعد کی زندگی میں اسے دیکھنے کی ضرورت نہیں؟ معمولی عقل و فہم کا آدمی بھی اس کا جواب یہی دے گا کہ اگر مرنے کے بعد کسی نوعیت کی زندگی ہے تو جس طرح زندگی کے اور لوازمات کی ضرورت ہے اسی طرح بینائی کی بھی ضرورت ہوگی۔
جب یہ بات طے ہوئی کہ جو شخص آنکھوں کے عطیہ کی وصیت کرتا ہے اس کے بارے میں دو میں سے ایک بات کہی جاسکتی ہے، یا یہ کہ وہ مرنے کے بعد کی زندگی پر ایمان نہیں رکھتا، یا یہ کہ وہ ایثار و قربانی کے طور پر اپنی بینائی کا آلہ دُوسروں کو عطا کردینا اور خود بینائی سے محروم ہونا پسند کرتا ہے۔ لیکن کسی مسلمان کے بارے میں یہ تصوّر نہیں کیا جاسکتا کہ وہ مرنے کے بعد کی زندگی کا قائل نہیں ہوگا، لہٰذا ایک مسلمان اگر آنکھوں کے عطیہ کی وصیت کرتا ہے تو اس کا مطلب یہی ہوسکتا ہے کہ وہ خدمتِ خلق کے لئے رضاکارانہ طور پر اندھا ہونا پسند کرتا ہے۔ بلاشبہ اس کی یہ بہت بڑی قربانی اور بہت بڑا ایثار ہے، مگر ہم اس سے یہ ضرور کہیں گے کہ جب وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بہ اختیارِ خود اندھاپن قبول فرما رہے ہیں تو اس چند روزہ زندگی میں بھی یہی ایثار کیجئے اور اس قربانی کے لئے مرنے کے بعد کا انتظار نہ کیجئے․․․!
ہماری اس تنقیح سے معلوم ہوا ہوگا کہ:
۱:… آنکھوں کا عطیہ دینے کے مسئلے میں اسلامی نقطہٴ نظر سے مرنے سے پہلے اور بعد کی حالت یکساں ہے۔
۲:… آنکھوں کا عطیہ دینے کی تجویز اسلامی ذہن کی پیداوار نہیں، بلکہ حیات بعد الموت کے انکار کا نظریہ اس کی بنیاد ہے۔
۳:… زندگی میں انسانوں کو اپنے وجود اور اعضاء پر تصرف حاصل ہوتا ہے، اس کے باوجود اس کا اپنے کسی عضو کو تلف کرنا نہ قانوناً صحیح ہے، نہ شرعاً، نہ اخلاقاً۔ اسی طرح مرنے کے بعد اپنے کسی عضو کے تلف کرنے کی وصیت بھی نہ شرعاً دُرست ہے، نہ اخلاقاً۔ بقدرِ ضرورت مسئلے کی وضاحت ہوچکی، تاہم مناسب ہوگا کہ اس موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چند ارشادات نقل کردئیے جائیں۔
”عن عائشة رضی الله عنہا قالت: ان رسول الله صلی الله علیہ وسلم قال: کسر عظم المیت ککسرہ حیًّا۔“
(رواہ مالک ص:۲۲۰، ابوداوٴد ص:۴۵۸، ابن ماجہ ص:۱۱۷)
ترجمہ:… ”حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میّت کی ہڈی توڑنا، اس کی زندگی میں ہڈی توڑنے کے مثل ہے۔“
”عن عمرو بن حزم قال: راٰنی النبی صلی الله علیہ وسلم متکئًا علٰی قبر، فقال: لا توٴذ صاحب ھذا القبر، أو لا توٴذہ۔ رواہ أحمد۔“ (مسند احمد، مشکوٰة ص:۱۴۹)
ترجمہ:… ”عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھا کہ میں قبر کے ساتھ ٹیک لگائے بیٹھا ہوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قبر والے کو ایذا نہ دے۔“
”عن ابن مسعود: أذی الموٴمن فی موتہ کأذاہ فی حیاتہ۔“ (ابنِ ابی شیبہ، حاشیہ مشکوٰة ص:۱۴۹)
ترجمہ:… ”حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ موٴمن کو مرنے کے بعد ایذا دینا ایسا ہی ہے جیسا کہ اس کی زندگی میں ایذا دینا۔“
حدیث میں ایک صحابی رضی اللہ عنہ کا لمبا قصہ آتا ہے کہ وہ ہجرت کرکے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے، کسی جہاد میں ان کا ہاتھ زخمی ہوگیا، درد کی شدّت کی تاب نہ لاکر انہوں نے اپنا ہاتھ کاٹ لیا جس سے ان کی موت واقع ہوگئی، ان کے رفیق نے کچھ دنوں کے بعد ان کو خواب میں دیکھا کہ وہ جنت میں ٹہل رہے ہیں مگر ان کا ہاتھ کپڑے میں لپٹا ہوا ہے، جیسے زخمی ہوتا ہے، ان سے حال احوال پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ: اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے کی برکت سے میری بخشش فرمادی۔ اور ہاتھ کے بارے میں کہا کہ: اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ: جو تو نے خود بگاڑا ہے اس کو ہم ٹھیک نہیں کریں گے۔
ان احادیث سے واضح ہوجاتا ہے کہ میّت کے کسی عضو کو کاٹنا ایسا ہی ہے جیسا کہ اس کی زندگی میں کاٹا جائے، اور یہ بھی معلوم ہوا کہ جو عضو آدمی نے خود کاٹ ڈالا ہو یا اس کے کاٹنے کی وصیت کی ہو وہ مرنے کے بعد بھی اسی طرح رہتا ہے، یہ نہیں کہ اس کی جگہ اور عضو عطا کردیا جائے گا۔ اس سے بعض حضرات کا یہ استدلال ختم ہوجاتا ہے کہ جو شخص اپنی آنکھوں کے عطیہ کی وصیت کرجائے، اللہ تعالیٰ اس کو اور آنکھیں عطا کرسکتے ہیں۔
بے شک اللہ تعالیٰ کو قدرت ہے کہ وہ اس کو نئی آنکھیں عطا کردے، مگر اس کے جواب میں یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تو آپ کو بھی نئی آنکھیں عطا کرسکتے ہیں، لہٰذا آپ اس ”کرسکتے ہیں“ پر اعتماد کرکے کیوں نہ اپنی آنکھیں کسی نابینا کو عطا کردیں․․․! نیز اللہ تعالیٰ اس بینا کو بھی بینائی عطا کرسکتے ہیں تو پھر اس کے لئے آنکھوں کے عطیہ کی وصیت کیوں فرماتے ہیں․․․؟
خلاصہ یہ کہ جو شخص مرنے کے بعد بھی زندگی کے تسلسل کو مانتا ہو اس کے لئے آنکھوں کے عطیہ کی وصیت کرنا کسی طرح صحیح نہیں، اور جو شخص حیات بعد الموت کا منکر ہو اس سے اس مسئلے میں گفتگو کرنا بے کار ہے۔
محض آپ کے منطق والے حصے پر ہی بات کرنا چاہوں گا اور وہ یہ کہ کیا جو شخص دنیا میں معذور ہے بعد از موت بھی معذور ہی ہوگا یا جنت ایسی خوشخبری ملنےکے بعد مکمل صحت یابی کے ساتھ نعمتِ خداوندی سے لطف اندوز ہوگا؟ اگر ایک شخص شوگر، جگر کے مسائل یا کسی کینسر میں مبتلا مرتا ہے تو بعد از موت اسی مرض میں اٹھا کرہمیشہ اس کے ساتھ اسے جینا ہوگا؟ اگر اس کا جواب نہیں میں ہے تو پھر ایک شخص جو مرنے کے بعد اپنا کوئی عضو کسی دوسرے کو دے دینے کی وصیت کرتا ہے جو ضروری ہے کہ اندھا، یا جسمانی طو پر معذور ہی اٹھے ؟ یہ محض منطقی باتیں ہیں۔ میں نے چند احادیث سنی اور پڑھی ہیں جن میں اللہ تعالیٰ اس شخص کو بروزِ حشر بخش دے گا اور کہے گا کہ کیا تو مجھ سے بڑاسخی ہے جواپنے نامہ اعمال میں موجود محض ایک نیکی اس شخص کو دے دے گا جس کے پاس ایک نیکی کی کمی ہوگی وغیرہ وغیرہ۔ دوسری بات یہ کہ کیا جن جسموں کو کیڑے کھاجاتے ہیں یا مٹی میں وہ مٹی ہوجاتے ہیں ان سے سوال جواب نہیں ہوں گے ؟ انھیں پھر سے اسی درست حالت میں نہیں اٹھایا جائے گا؟ اگر جواب ہاں ہے تو آپ اللہ تعالیٰ کے ہر شے پر قادر ہونے کا اقرار کررہے ہیں اور یہ ہی اس کی قدرت کیا ایسے شخص کے حق میں قبول نہیں ہوسکتی جو مرنے کے بعد اپنا کوئی عضو دوسرے کی زندگی کے لیے وقف کردے اور اس آیت کے مطابق اللہ تعالیٰ سے اجر و ثواب پائے :
"اور جس نے کسی ایک شخص کی جان بچائی گویا اس نے پوری انسانیت کی جان بچائی "
 

آصف اثر

معطل
اس خبر کو پڑھیے اور سر دُھنیے۔ سائنس کے نام پر اندھی تقلید اور ذہنی مرغوبیت کے خول سے باہر آئیں۔


امریکہ میں بریسٹ کینسر میں مبتلا ایک خاتون کے عطیات سے پانچ افراد سرطان کے شکار ہوگئے۔

”واشنگٹن: کینسر کی شکار ایک خاتون نے بعد از مرگ اپنے اعضا عطیہ کیے جس سے مزید 4 افراد سرطان کے شکار ہوگئے اور تین انتقال کرگئے اس واقعے پر ماہرین خود بھی حیران ہیں۔

امریکن جرنل آف ٹرانسپلانٹیشن میں شائع رپورٹ کے مطابق 2007ء میں ایک 53 سالہ خاتون فالج کے دورے سے فوت ہوگئیں جنہیں اپنے بدن میں کینسر کا پتا نہ تھا۔ خاتون کے دونوں گردے، جگر، دل اور پھیپھڑے پانچ افراد کو لگائے گئے۔ ڈاکٹروں نے پیوند کاری سے قبل اعضا کے ٹیسٹ بھی کیے تھے لیکن ان میں سرطان کے آثار نہیں ملے۔

اعضا پانے والے پانچ میں سے ایک مریض تو بعض پیچیدگیوں کی وجہ سے فوری انتقال کرگیا تاہم چار افراد کو اعضا لگادیے گئے تاہم انہیں کینسر لاحق ہوگیا۔ ابتدا میں چاروں مریض بہتر نظر آئے تاہم بعد میں ان میں کینسر کی علامات ظاہر ہوگئیں۔ اوسطاً 16 ماہ بعد پھیپھڑے وصول کرنے والے خاتون لمفی نالیوں میں سرطان کی شکار ہوگئیں اور انتقال کرگئیں۔

جب تمام مریضوں کا جائزہ لیا گیا تو معلوم ہوا کہ اعضا عطیہ کرنے والی خاتون کو بریسٹ کینسر تھا جو ان مریضوں کے ڈی این اے میں شامل ہوگیا تھا۔ سال 2011ء میں جس خاتون کو جگر کا پیوند لگایا گیا تھا اس کے جگر میں بریسٹ کینسر خلیات دریافت ہوئے جو عطیہ دینے والی خاتون میں سرطان کی مزید تصدیق کرتے ہیں، یہ خاتون بھی 2014ء میں انتقال کرگئیں۔

جس مریض کو گردہ لگایا گیا تھا اس میں 2013ء میں سرطان کا انکشاف ہوا اور وہ بھی اس سال انتقال کرگیا جبکہ خاتون کا دوسرا گردہ 32 سالہ شخص کو عطیہ کیا گیا تھا اس شخص میں 2011ء میں بریسٹ کینسر کے خلیات دریافت ہوئے اس شخص کا گردہ نکال دیا گیا، کیموتھراپی اور دوائیں دی گئیں اور اب وہ کینسر سے محفوظ ہوچکا ہے۔

ماہرین کے مطابق عطیہ کردہ اعضا کے ذریعے کینسر کی منتقلی بہت کم یاب عمل ہے لیکن یہ واقعہ ماہرین کے لیے مزید حیرت کی وجہ بنا ہے جس پر ماہرین اب بھی غور کررہے ہیں۔

شرعی اور طبی مسائل کے تناظر میں مصنوعی اعضا ہی بہتر متبادل ہے۔ جس کے رائج ہونے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔ اعضا کی پیوندکاری اگر آفاقی طور پر جائز ہوگئی تو مردہ تو مردہ زندہ بھی نہیں بچ پائیں گے۔ مافیا وجود میں آئیں گے جس طرح گردوں کے حصول کے لیے غریبوں کو چند روپوں کی لالچ دے کر زندگی بھر درگور کردیا جاتاہے۔
 

آصف اثر

معطل
… انسان کا جسم وجان خالص اللہ تعالیٰ کی ملک ہے، ایک حدیث شریف میں اس بات کی تصریح موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اعضاء وجوارح میں سے کسی چیز کا ہمیں مالک نہیں بنایا، یہی وجہ ہے کہ دیت (خون بہا) کا تعین شریعت کرتی ہے، انسان خود نہیں کرتا، لہٰذا انسان اپنی جان میں کوئی ایسا تصرف نہیں کرسکتا جس کی شریعت نے اسے اجازت نہ دی ہو، اسی لیے خودکشی کرنے یا اپنے اعضاء کو کاٹنے کا اختیار نہ تو خود آدمی کو ہے اور نہ دوسرا کوئی شخص اس کی اجازت سے ایسا کرسکتا ہے، کیونکہ یہ ملک ِ خداوندی میں بے جا تصرّف، صنعت ِالٰہی کے عظیم شاہکار کی تخریب کاری اور حرمت ِ انسانی کی پامالی کے ساتھ ساتھ تقدیرِ ربّانی میں دخل اندازی کی لاحاصل کوشش بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر کام کا ایک وقت مقرر کیا ہوا ہے، اور یہ شخص اس طرح مالکانہ تصرف کرکے بزعم خویش اس وقت سے سبقت کرنے کی ناجائز کوشش کرتا ہے۔

…… انسان کے مرنے کے بعد بھی اس کے جسم اور روح کا تعلق ختم نہیں ہوجاتا بلکہ باقی رہتا ہے، اور یہ بات بے شمار احادیث سے ثابت ہے، یہی وجہ ہے کہ انسانی حرمت میں زندہ اور مردہ دونوں برابر ہیں، جس طرح زندہ کو کسی قسم کی تکلیف دینا ناجائز ہے اسی طرح مرنے کے بعد بھی اس کو تکلیف دینا جائز نہیں، اسی واسطے حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ مُردے کی ہڈیوں کو توڑنا زندے کی ہڈیوں کو توڑنے کی طرح ہے۔ نیز حدیث شریف میں قبروں پر بیٹھنے یا پیشاب پاخانہ کرنے سے منع فرمانا بھی مُردوں کو تکلیف سے بچانے اور اُن کی حرمت و کرامت کی غرض سے ہے۔ اور جیسے زندہ کے مستور اعضاء کو شدید ضرورت کے بغیر دیکھنا جائز نہیں اسی طرح مردوں کے مستور اعضاء کا بھی یہی حکم ہے ۔

……آزاد انسان اور اس کے اجزاء و اعضاء شریعت کی نظر میں نہ تو مال ہیں اور نہ ہی کسی کی ملک میں داخل، اسی لیے نہ تو ان کی خرید وفروخت جائز ہے اور نہ بطور عطیہ کسی کو دینا اور نہ وصیت کرناجائز ہے ،اگر ان پر عمل کیا گیا تو وصیت و ہدیہ اورخریدو فروخت کرنے والا اور اس کو عملی جامہ پہنانے والے اور معاونین سب گنہگار ہوں گے، کیونکہ ان سب کے جواز کے لیے ضروری ہے کہ وہ مال بھی ہوں اور مملوک بھی، یہی وجہ ہے کہ حدیث شریف میں آزاد آدمی کی خریدوفروخت سے منع کیا گیا ہے اور اس کی خرید وفروخت کے بارے میں شدید وعید سنائی گئی ہے، اور اس میں مسلمان وکافریا زندہ و مردہ کا کوئی فرق نہیں۔اگر کسی نے ایسا کیا تو عطیہ یا وصیت کرنے والے کا حشر عطیہ یا وصیت کردہ اعضاء کے بغیر ہوگا ، اور اگر اللہ نے معاف نہیں فرمایا تو عذاب بھی ہوگا۔

اعضا کے عطیہ کرنے کے جواز یا غیر جواز پر درجہ ذیل ربط میں کافی جامع اور تفصیلی روشنی ڈالی گئی ہے۔ درجہ بالا تین پیراگراف بھی اسی سے لیے گئے ہیں۔
جامعہ فاروقیہ کراچی ۔۔ انٹرنیشنل اسلامک یونی ورسٹی
 
آخری تدوین:

محمد سعد

محفلین
… انسان کا جسم وجان خالص اللہ تعالیٰ کی ملک ہے، ایک حدیث شریف میں اس بات کی تصریح موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اعضاء وجوارح میں سے کسی چیز کا ہمیں مالک نہیں بنایا، یہی وجہ ہے کہ دیت (خون بہا) کا تعین شریعت کرتی ہے، انسان خود نہیں کرتا، لہٰذا انسان اپنی جان میں کوئی ایسا تصرف نہیں کرسکتا جس کی شریعت نے اسے اجازت نہ دی ہو، اسی لیے خودکشی کرنے یا اپنے اعضاء کو کاٹنے کا اختیار نہ تو خود آدمی کو ہے اور نہ دوسرا کوئی شخص اس کی اجازت سے ایسا کرسکتا ہے، کیونکہ یہ ملک ِ خداوندی میں بے جا تصرّف، صنعت ِالٰہی کے عظیم شاہکار کی تخریب کاری اور حرمت ِ انسانی کی پامالی کے ساتھ ساتھ تقدیرِ ربّانی میں دخل اندازی کی لاحاصل کوشش بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر کام کا ایک وقت مقرر کیا ہوا ہے، اور یہ شخص اس طرح مالکانہ تصرف کرکے بزعم خویش اس وقت سے سبقت کرنے کی ناجائز کوشش کرتا ہے۔

…… انسان کے مرنے کے بعد بھی اس کے جسم اور روح کا تعلق ختم نہیں ہوجاتا بلکہ باقی رہتا ہے، اور یہ بات بے شمار احادیث سے ثابت ہے، یہی وجہ ہے کہ انسانی حرمت میں زندہ اور مردہ دونوں برابر ہیں، جس طرح زندہ کو کسی قسم کی تکلیف دینا ناجائز ہے اسی طرح مرنے کے بعد بھی اس کو تکلیف دینا جائز نہیں، اسی واسطے حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ مُردے کی ہڈیوں کو توڑنا زندے کی ہڈیوں کو توڑنے کی طرح ہے۔ نیز حدیث شریف میں قبروں پر بیٹھنے یا پیشاب پاخانہ کرنے سے منع فرمانا بھی مُردوں کو تکلیف سے بچانے اور اُن کی حرمت و کرامت کی غرض سے ہے۔ اور جیسے زندہ کے مستور اعضاء کو شدید ضرورت کے بغیر دیکھنا جائز نہیں اسی طرح مردوں کے مستور اعضاء کا بھی یہی حکم ہے ۔

……آزاد انسان اور اس کے اجزاء و اعضاء شریعت کی نظر میں نہ تو مال ہیں اور نہ ہی کسی کی ملک میں داخل، اسی لیے نہ تو ان کی خرید وفروخت جائز ہے اور نہ بطور عطیہ کسی کو دینا اور نہ وصیت کرناجائز ہے ،اگر ان پر عمل کیا گیا تو وصیت و ہدیہ اورخریدو فروخت کرنے والا اور اس کو عملی جامہ پہنانے والے اور معاونین سب گنہگار ہوں گے، کیونکہ ان سب کے جواز کے لیے ضروری ہے کہ وہ مال بھی ہوں اور مملوک بھی، یہی وجہ ہے کہ حدیث شریف میں آزاد آدمی کی خریدوفروخت سے منع کیا گیا ہے اور اس کی خرید وفروخت کے بارے میں شدید وعید سنائی گئی ہے، اور اس میں مسلمان وکافریا زندہ و مردہ کا کوئی فرق نہیں۔اگر کسی نے ایسا کیا تو عطیہ یا وصیت کرنے والے کا حشر عطیہ یا وصیت کردہ اعضاء کے بغیر ہوگا ، اور اگر اللہ نے معاف نہیں فرمایا تو عذاب بھی ہوگا۔

اعضا کے عطیہ کرنے کے جواز یا غیر جواز پر درجہ ذیل ربط میں کافی جامع اور تفصیلی روشنی ڈالی گئی ہے۔ درجہ بالا تین پیراگراف بھی اسی سے لیے گئے ہیں۔
جامعہ فاروقیہ کراچی ۔۔ انٹرنیشنل اسلامک یونی ورسٹی

حضرت مفصل بات تو بعد میں کر سکوں گا، فی الحال ایک پریشانی کا حل فرمائیے گا۔
آپ کے دیے گئے لنک میں انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کا نام کہاں ہے؟
 

محمد سعد

محفلین
اوہ۔ معذرت۔ یہ معلوم نہیں تھا کہ جامعہ فاروقیہ کراچی والے بھی خود کو انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کہتے ہیں۔ :confused:
 

آصف اثر

معطل
آپ کے دیے گئے لنک میں انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کا نام کہاں ہے؟
یہ لنک پیسٹ کرنے پر خود لکھا گیا ہے۔ چوں کہ جامعہ فاروقیہ ایک اسلامی یونیورسٹی ہے اور غیر ملکی طلبہ غالباً اس میں پڑھتے ہیں یا اسلامی دنیا میں اسے مستند مانا جاتاہے لہذا اس بنا پر شائد لکھاجاتاہے۔ واللہ اعلم
 
آخری تدوین:

محمد سعد

محفلین
چونکہ خود انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد میں ہوتا ہوں تو اس نکتے پر فوراً توجہ گئی کہ یہاں کے کس پروفیسر کا نام ہو گا۔ :D
 

آصف اثر

معطل
درجہ بالا فتاوے میں ایک جملے نے میری دلچسپی خاصی بڑھا دی ہے:
”3۔ انسان کے اپنے جسم اور اس کے اعضاء کی اصلاح وحفاظت یا دوسرے صحیح اعضاء کو ضرر سے بچانے کے لیے کسی عضو یا جزکو کاٹ کر علیحدہ کردینا یا جسم کے کسی حصہ کو چیر کر اس کی پیوندکاری کرنا یا کٹے ہوئے حصے کو اس کی جگہ پر لگا کر جوڑ دینا چونکہ اصلاح واحیاء کی قبیل سے ہے، اور اس میں خلق ِ خداوندی میں بے جا تغییر وتبدیلی یا اہانت بھی نہیں اور روایات ِ فقہ وحدیث میں اس کی اجازت بھی موجود ہے، لہٰذا ایسا کرنا جائز ہے،“

اس تناظر میں اگر دیکھا جائے تو حالیہ برسوں میں اپنے خلیاتِ ساق ”اسٹِم سیلز“ سے اعضا کی افزائش ( یا بنانے - ری جنریشن) کے کامیاب تجربات ہوئے ہیں۔ لہذا اعضا کے عطیہ کرنے کا مسئلہ اس بِنا پر ان شاء اللہ خود ہی رفع ہوجائے گا۔
Scientists Grow Full-Sized, Beating Human Hearts From Stem Cells
11 Body Parts Grown in the Lab

یہاں یہ بات بھی نوٹ کرنے کی ہے کہ علمائے اسلام انسان کی حرمت کےکس قدر قائل ہیں۔ جن جن امور میں شریعت اسلامی اجازت دیتی ہے وہاں اس کی ترغیب دی جاتی ہے۔ جیسا کہ نکتہ 3 سے واضح ہوتاہے۔ لہذا علمائے کرام اور فتاویٰ جات کو تضحیک و تشنیع نہ بنایاجائے۔ مسلمانوں کے لیے راہنمائی صرف اور صرف شریعت میں ہے۔
 

محمد سعد

محفلین
اس خبر کو پڑھیے اور سر دُھنیے۔ سائنس کے نام پر اندھی تقلید اور ذہنی مرغوبیت کے خول سے باہر آئیں۔


امریکہ میں بریسٹ کینسر میں مبتلا ایک خاتون کے عطیات سے پانچ افراد سرطان کے شکار ہوگئے۔

”واشنگٹن: کینسر کی شکار ایک خاتون نے بعد از مرگ اپنے اعضا عطیہ کیے جس سے مزید 4 افراد سرطان کے شکار ہوگئے اور تین انتقال کرگئے اس واقعے پر ماہرین خود بھی حیران ہیں۔

امریکن جرنل آف ٹرانسپلانٹیشن میں شائع رپورٹ کے مطابق 2007ء میں ایک 53 سالہ خاتون فالج کے دورے سے فوت ہوگئیں جنہیں اپنے بدن میں کینسر کا پتا نہ تھا۔ خاتون کے دونوں گردے، جگر، دل اور پھیپھڑے پانچ افراد کو لگائے گئے۔ ڈاکٹروں نے پیوند کاری سے قبل اعضا کے ٹیسٹ بھی کیے تھے لیکن ان میں سرطان کے آثار نہیں ملے۔

اعضا پانے والے پانچ میں سے ایک مریض تو بعض پیچیدگیوں کی وجہ سے فوری انتقال کرگیا تاہم چار افراد کو اعضا لگادیے گئے تاہم انہیں کینسر لاحق ہوگیا۔ ابتدا میں چاروں مریض بہتر نظر آئے تاہم بعد میں ان میں کینسر کی علامات ظاہر ہوگئیں۔ اوسطاً 16 ماہ بعد پھیپھڑے وصول کرنے والے خاتون لمفی نالیوں میں سرطان کی شکار ہوگئیں اور انتقال کرگئیں۔

جب تمام مریضوں کا جائزہ لیا گیا تو معلوم ہوا کہ اعضا عطیہ کرنے والی خاتون کو بریسٹ کینسر تھا جو ان مریضوں کے ڈی این اے میں شامل ہوگیا تھا۔ سال 2011ء میں جس خاتون کو جگر کا پیوند لگایا گیا تھا اس کے جگر میں بریسٹ کینسر خلیات دریافت ہوئے جو عطیہ دینے والی خاتون میں سرطان کی مزید تصدیق کرتے ہیں، یہ خاتون بھی 2014ء میں انتقال کرگئیں۔

جس مریض کو گردہ لگایا گیا تھا اس میں 2013ء میں سرطان کا انکشاف ہوا اور وہ بھی اس سال انتقال کرگیا جبکہ خاتون کا دوسرا گردہ 32 سالہ شخص کو عطیہ کیا گیا تھا اس شخص میں 2011ء میں بریسٹ کینسر کے خلیات دریافت ہوئے اس شخص کا گردہ نکال دیا گیا، کیموتھراپی اور دوائیں دی گئیں اور اب وہ کینسر سے محفوظ ہوچکا ہے۔

ماہرین کے مطابق عطیہ کردہ اعضا کے ذریعے کینسر کی منتقلی بہت کم یاب عمل ہے لیکن یہ واقعہ ماہرین کے لیے مزید حیرت کی وجہ بنا ہے جس پر ماہرین اب بھی غور کررہے ہیں۔

شرعی اور طبی مسائل کے تناظر میں مصنوعی اعضا ہی بہتر متبادل ہے۔ جس کے رائج ہونے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔ اعضا کی پیوندکاری اگر آفاقی طور پر جائز ہوگئی تو مردہ تو مردہ زندہ بھی نہیں بچ پائیں گے۔ مافیا وجود میں آئیں گے جس طرح گردوں کے حصول کے لیے غریبوں کو چند روپوں کی لالچ دے کر زندگی بھر درگور کردیا جاتاہے۔

یہ بات ماہرین طب ہمیشہ سے جانتے ہیں کہ اعضاء کی پیوندکاری ہمیشہ ایک خطرناک کام ہوتا ہے جس میں نہ صف پیوندکاری کے وقت، بلکہ اس کے بعد تمام زندگی بہت احتیاط کی ضرورت پڑتی ہے۔ چنانچہ پیوندکاری کی ہی صرف اس موقع پر جاتی ہوہے جہاں اس کی شدید ضرورت ہو۔ مثال کے طور پر، آپ نے آج تک نہیں دیکھا ہو گا کہ کسی کو بازو یا ٹانگ کا پیوند لگایا گیا ہو، بلکہ ایسے معاملات میں مصنوعی سہارے ہی استعمال کیے جاتے ہیں۔ سوال یہ بنتا ہے، کہ جب تک مصنوعی اعضاء پر جاری کام ایک تسلی بخش مقام تک نہیں پہنچتا، تب تک ہم کیا کریں؟ کیا لوگوں کو مر جانے دیں؟ میں تو ذاتی طور پر گناہگار ہونے کو ترجیح دوں گا بجائے اس کے کہ جہاں کسی کی جان بچ رہی ہو وہاں میں حلال حرام کے چکر میں پڑ جاؤں۔

اور جہاں تک "خطرے" کی بات ہے تو خطرے کے امکانات کی پیمائش کے لیے ایک شے ہوتی ہے جسے شماریات یا statistics کہا جاتا ہے۔ اگر پچاس ہزار میں سے ایک کیس میں کوئی مرض بغیر تشخیص کے منتقل ہو رہا ہے تو آپ ان انچاس ہزار نو سو ننانوے کیسز کو نظر انداز نہیں کر سکتے جہاں لوگ اس کے بعد ایک صحت مند زندگی گزار پانے کے قابل ہو رہے ہیں۔ اگر آپ کو معلوم نہ ہو تو آپ کو یہ بھی بتا دوں کہ جب کوئی ہڈی ٹوٹنے پر ایکس رے کرواتا ہے، اس میں بھی اسے تابکاری کی وجہ سے کینسر پیدا ہونے کا امکان صفر سے زیادہ ہی ہوتا ہے لیکن اس کو ہم ہر طرح کی احتیاطی تدابیر کر کے کم سے کم کرتے ہیں کیونکہ ہڈی درست ہونے کے فوائد شماریاتی طور پر اس رسک سے کہیں زیادہ ہیں جو ایکس رے سے کینسر ہونے کا ہے۔ اگر امکانات کی بات کریں تو دنیا کی زیادہ تر دواؤں (جن میں حکیمی دوائیں بھی شامل ہیں اس سے پہلے کہ آپ جدید طب کے پیچھے ہاتھ دھو کے پڑ جائیں) کے استعمال سے کسی بڑے نقصان کا امکان صفر سے زیادہ ہی ہوتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ صفر سے کتنا زیادہ؟ کیا 0.01 یا 0.000001 یا 0.00000000000000000001 ؟ اگر نقصان کا امکان خاطرخواہ حد تک کم ہو تو ہم وہ چیز استعمال کر لیتے ہوتے ہیں۔ گاڑی ہی کی مثال لے لیں۔ کتنے لوگ حادثات میں زخمی ہوتے یا مرتے ہیں؟ لیکن ہم استعمال کرتے ہیں کیونکہ فوائد بہرحال بہت زیادہ ہیں۔ بلکہ جب حادثہ ہو جائے تو زخمیوں کی مدد کو بھی ایک گاڑی ہی بلائی جاتی ہے۔ امید ہے کہ نکتہ سمجھ میں آ گیا ہو گا۔
 

محمد سعد

محفلین
درجہ بالا فتاوے میں ایک جملے نے میری دلچسپی خاصی بڑھا دی ہے:
”3۔ انسان کے اپنے جسم اور اس کے اعضاء کی اصلاح وحفاظت یا دوسرے صحیح اعضاء کو ضرر سے بچانے کے لیے کسی عضو یا جزکو کاٹ کر علیحدہ کردینا یا جسم کے کسی حصہ کو چیر کر اس کی پیوندکاری کرنا یا کٹے ہوئے حصے کو اس کی جگہ پر لگا کر جوڑ دینا چونکہ اصلاح واحیاء کی قبیل سے ہے، اور اس میں خلق ِ خداوندی میں بے جا تغییر وتبدیلی یا اہانت بھی نہیں اور روایات ِ فقہ وحدیث میں اس کی اجازت بھی موجود ہے، لہٰذا ایسا کرنا جائز ہے،“

اس تناظر میں اگر دیکھا جائے تو حالیہ برسوں میں اپنے خلیاتِ ساق ”اسٹِم سیلز“ سے اعضا کی افزائش ( یا بنانے - ری جنریشن) کے کامیاب تجربات ہوئے ہیں۔ لہذا اعضا کے عطیہ کرنے کا مسئلہ اس بِنا پر ان شاء اللہ خود ہی رفع ہوجائے گا۔
Scientists Grow Full-Sized, Beating Human Hearts From Stem Cells
11 Body Parts Grown in the Lab

یہاں یہ بات بھی نوٹ کرنے کی ہے کہ علمائے اسلام انسان کی حرمت کےکس قدر قائل ہیں۔ جن جن امور میں شریعت اسلامی اجازت دیتی ہے وہاں اس کی ترغیب دی جاتی ہے۔ جیسا کہ نکتہ 3 سے واضح ہوتاہے۔ لہذا علمائے کرام اور فتاویٰ جات کو تضحیک و تشنیع نہ بنایاجائے۔ مسلمانوں کے لیے راہنمائی صرف اور صرف شریعت میں ہے۔

خلیات ساق والا حل یقیناً کسی اور جسم کے عضو کو لگانے سے بہتر ہے، چونکہ اپنا جسم بہرحال اس بیرونی عضو کو ایک حملہ آور ہی سمجھتا ہے جس کی وجہ سے تمام عمر دواؤں پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ اور ایسا نہیں کہ پیوندکاری کے رواج کے سبب کوئی اس پر کام نہیں کر رہا۔ یہ طب جدید کا ایک بہت بڑا شعبہ ہے جس میں لاکھوں نہیں تو ہزاروں محققین تو لازماً کام کر رہے ہوں گے۔ بدقسمتی سے خلیات ساق پر کی جانے والی تحقیق کو بھی مخالفت کا سامنا مذہبی حلقوں کی طرف سے ہی کرنا پڑتا ہے۔
 

آصف اثر

معطل
یہ بات ماہرین طب ہمیشہ سے جانتے ہیں کہ اعضاء کی پیوندکاری ہمیشہ ایک خطرناک کام ہوتا ہے جس میں نہ صف پیوندکاری کے وقت، بلکہ اس کے بعد تمام زندگی بہت احتیاط کی ضرورت پڑتی ہے۔ چنانچہ پیوندکاری کی ہی صرف اس موقع پر جاتی ہوہے جہاں اس کی شدید ضرورت ہو۔ مثال کے طور پر، آپ نے آج تک نہیں دیکھا ہو گا کہ کسی کو بازو یا ٹانگ کا پیوند لگایا گیا ہو، بلکہ ایسے معاملات میں مصنوعی سہارے ہی استعمال کیے جاتے ہیں۔ سوال یہ بنتا ہے، کہ جب تک مصنوعی اعضاء پر جاری کام ایک تسلی بخش مقام تک نہیں پہنچتا، تب تک ہم کیا کریں؟ کیا لوگوں کو مر جانے دیں؟ میں تو ذاتی طور پر گناہگار ہونے کو ترجیح دوں گا بجائے اس کے کہ جہاں کسی کی جان بچ رہی ہو وہاں میں حلال حرام کے چکر میں پڑ جاؤں۔

اور جہاں تک "خطرے" کی بات ہے تو خطرے کے امکانات کی پیمائش کے لیے ایک شے ہوتی ہے جسے شماریات یا statistics کہا جاتا ہے۔ اگر پچاس ہزار میں سے ایک کیس میں کوئی مرض بغیر تشخیص کے منتقل ہو رہا ہے تو آپ ان انچاس ہزار نو سو ننانوے کیسز کو نظر انداز نہیں کر سکتے جہاں لوگ اس کے بعد ایک صحت مند زندگی گزار پانے کے قابل ہو رہے ہیں۔ اگر آپ کو معلوم نہ ہو تو آپ کو یہ بھی بتا دوں کہ جب کوئی ہڈی ٹوٹنے پر ایکس رے کرواتا ہے، اس میں بھی اسے تابکاری کی وجہ سے کینسر پیدا ہونے کا امکان صفر سے زیادہ ہی ہوتا ہے لیکن اس کو ہم ہر طرح کی احتیاطی تدابیر کر کے کم سے کم کرتے ہیں کیونکہ ہڈی درست ہونے کے فوائد شماریاتی طور پر اس رسک سے کہیں زیادہ ہیں جو ایکس رے سے کینسر ہونے کا ہے۔ اگر امکانات کی بات کریں تو دنیا کی زیادہ تر دواؤں (جن میں حکیمی دوائیں بھی شامل ہیں اس سے پہلے کہ آپ جدید طب کے پیچھے ہاتھ دھو کے پڑ جائیں) کے استعمال سے کسی بڑے نقصان کا امکان صفر سے زیادہ ہی ہوتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ صفر سے کتنا زیادہ؟ کیا 0.01 یا 0.000001 یا 0.00000000000000000001 ؟ اگر نقصان کا امکان خاطرخواہ حد تک کم ہو تو ہم وہ چیز استعمال کر لیتے ہوتے ہیں۔ گاڑی ہی کی مثال لے لیں۔ کتنے لوگ حادثات میں زخمی ہوتے یا مرتے ہیں؟ لیکن ہم استعمال کرتے ہیں کیونکہ فوائد بہرحال بہت زیادہ ہیں۔ بلکہ جب حادثہ ہو جائے تو زخمیوں کی مدد کو بھی ایک گاڑی ہی بلائی جاتی ہے۔ امید ہے کہ نکتہ سمجھ میں آ گیا ہو گا۔

فوائد کے سب قائل ہیں لیکن شریعت نے ”جائز وناجائز“ کے نام سے کچھ حدود مقرر کیے ہیں۔ لہذا بطورِ مسلمان فوائد سے پہلے جائز وناجائز کو دیکھا جائے گا۔ جس طرح خون کے انتقال کا معاملہ ہے۔ جواز کی وجہ سے انتقالِ خون کیا جاسکتاہے لیکن عدم جواز کی صورت میں اعضا کی پیوندکاری نہیں۔ میں یہاں پھر ایک اقتباس نقل کرنا چاہوں گا:

۔۔۔اللہ تعالیٰ نے جن چیزوں کو بندوں کے لئے حرام قرار دیا ہے، ان میں بظاہر جس قدر بھی فائدہ نظر آئے، لیکن درحقیقت وہ انسان اور انسانیت کے لیے نقصان دہ ہیں اور فائدہ کے بجائے نقصان کا پہلو اُن میں غالب ہے، یہ نقصان کبھی جسمانی ہوتا ہے اور کبھی روحانی، پھر کبھی تو اس قدر واضح ہوتا ہے کہ ہر خاص وعام اسے جانتا ہے، اور کبھی ذرا مخفی ہوتا ہے جسے ماہر ڈاکٹر ہی جان سکتا ہے، اور کبھی اس قدر پوشیدہ ہوتا ہے کہ اسے صرف فراست ِ نبوت اور نور ِ شریعت سے ہی دیکھا اور پہچانا جاسکتا ہے۔

۔۔۔اسلام کی نظر میں انسانی جان درحقیقت امانت ِالٰہیہ ہے، جسے ضائع کرنا سنگین جرم ہے، اس کی حفاظت کے لیے بڑے سامان تیار کئے گئے ہیں جن کے استعمال کا حکم ہے، اور ایسی ممکنہ تدابیر وعلاج کو ضروری قرار دیا ہے جس سے انسانی جان بچ سکے، اسی لئے اضطرار کی حالت میں کلمہٴ کفر تک کہنے کی اجازت دے دی گئی جو اسلام کی نظر میں بدترین جرم ہے، اسی طرح جو شخص بھوک سے مررہا ہو اس کے لئے اپنا آخری سانس بحال رکھنے کے لیے بقدر ضرورت خنزیر اور مردار کھانے کو جائز بلکہ ضروری قرار دیا گیا۔ البتہ اس حالت میں بھی جان بچانے کے لئے احترام ِ انسانیت کے پیش ِ نظر کسی دوسرے انسان کی جان یا عضو کو ضائع کرنے کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔
 

محمد سعد

محفلین
۔۔۔ البتہ اس حالت میں بھی جان بچانے کے لئے احترام ِ انسانیت کے پیش ِ نظر کسی دوسرے انسان کی جان یا عضو کو ضائع کرنے کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔
آپ نے "اس حات میں بھی" کہا۔
کیا اعضاء کی پیوندکاری کے حوالے سے خصوصی طور پر احکام موجود ہیں؟ اس وقت تو یہ تکنیک وجود ہی نہیں رکھتی تھی۔ اور جو حوالے اب تک دیکھ چکا ہوں ان میں کوئی بھی ایسا متن نہیں ملا کہ "کسی کی جان بچانے کے لیے بھی کسی میت کا عضو علاحدہ نہ کرو"۔
 
Top