اعضا عطیہ کرنے میں مسلمانوں کی پریشانیاں!

محمد سعد

محفلین
اگرچہ میرا خیال ہے کہ somatic stem cells پر پھر بھی ان کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ میں بھی ذاتی طور پر اسی آپشن کو پسند کروں گا۔ باقی انحصار اس پر ہے کہ آیا اس قسم کے خلیات ساق سے تمام کام لیے جا سکتے ہیں یا نہیں۔
 

محمد سعد

محفلین
ایک تھوڑا سا غیر متعلقہ نکتہ، جو چونکہ اوپر نقل کی گئی خبر میں آ گیا تو تذکرہ کر دیتا ہوں۔
جب تمام مریضوں کا جائزہ لیا گیا تو معلوم ہوا کہ اعضا عطیہ کرنے والی خاتون کو بریسٹ کینسر تھا جو ان مریضوں کے ڈی این اے میں شامل ہوگیا تھا
کینسر کے خلیات خود اپنے ڈی این اے کو نقصان پہنچنے کی وجہ سے بغیر کنٹرول کے پھیلتے جاتے ہیں۔ یہ کسی اور خلیے میں اپنا ڈی این اے داخل نہیں کرتے، وہ کام وائرس کا ہوتا ہے۔ زیادہ درست الفاظ میں کینسر زدہ خلیات، پیوند کردہ عضو سے نکل کر باقی جسم میں پھیل گئے۔ ایسی صورت حال میں وہ دوسرے اعضاء میں جا کر اکٹھے ہو جاتے ہیں اور انہیں اپنا کام کرنے سے روکتے ہیں جو آگے چل کر موت کا سبب بن سکتا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
ترجمہ یہاں سے ملاحظہ فرمائیں.
اسلام سوال و جواب ویب سائٹ کا نیا ورژن استعمال کریں۔
- الفقه وأصوله » فقہ » عادات » طب اور ادویات.
enarfrid
2117: عضو بندی((transplantationکا حکم
سوال: کیا ہم جسمانی اعضا کسی کو عطیہ یا کسی سے عطیہ کے طور پر لے سکتے ہیں؟ کیونکہ مجھے قرآن مجید میں واضح طور پر عضو بندی کے بارے میں کوئی ممانعت نظر نہیں آئی۔

Published Date: 2015-04-05
الحمد للہ:

اس موضوع کے بارے میں تحقیق کی ذمہ داری اسلامی فقہ اکیڈمی کی جانب سے اٹھائی گئی تھی، اور انہوں نے اس بارے میں درج ذیل فتوی صادر کیا:

1- ایک انسان کے جسم میں ایک جگہ سے دوسری جگہ اعضاء منتقل کرنا جائز ہے، تاہم اس بات کو یقینی بنانا ضروری ہے کہ اس عمل سے ہونے والا متوقع فائدہ ، حاصل شدہ نقصان سے زیادہ ہوگا، اس میں یہ بھی شرط ہے کہ یہ عمل ضائع شدہ عضو کی باز پیدائش ، یاکسی عضو کی اپنی اصلی حالت واپس لانے ، یا اس کی اصلی کارکردگی دوبارہ واپس لانے کیلئے، یا عیوب کے خاتمے کیلئے ہو، یا پھرایسی بدصورتی زائل کرنے کیلئے جس کی وجہ سے انسان کو نفسیاتی یا جسمانی تکلیف کا سامنا کرنا پڑے۔

2- ایک انسان کے جسم سے دوسرے انسان کے جسم میں اعضاء منتقل کرنا جائز ہے، بشرطیکہ یہ عضو اپنی افزائش میں خود کار ہو، جیسے خون اور جِلد اپنی بڑھوتری میں مستقل ہوں، یہاں اس بات کو بھی یقینی بنایا جائے کہ عطیہ کرنے والا شخص مکمل ہوش و حواس کا حامل اور کامل صلاحیت رکھتا ہو، اور اس بارے میں معتبر شرعی اصول و ضوابط اور شرائط مکمل ہوں۔

3- بیماری کی وجہ سے کسی شخص کے اعضاء جسم سے الگ کر دیے جائیں تو جد اہونے والے ان اعضاء کے کسی حصے کو کسی دوسرے شخص کیلئے استعمال کیا جاسکتا ہے، مثلاً: کسی انسان کی آنکھ بیماری کے باعث نکال دی جائے تو اس آنکھ میں سے پتلی نکال کر کسی کو لگانا۔

4- ایسے اعضاء کی منتقلی حرام ہے، جن پر زندگی کا دارو مدار ہے، مثلاً: زندہ انسان کے دل کو کسی دوسرے انسان کے جسم میں منتقل کرنا۔

5- کسی انسان کے جسم سے ایسے اعضاء کو منتقل کرنا حرام ہے، جس کی وجہ سے انسانی زندگی کا اہم جزء معطل ہو جائے، اگرچہ اس عضو کے منتقل ہونے کی وجہ سے زندگی ختم نہ بھی ہو، مثلاً: دونوں آنکھوں کی پتلیاں منتقل کرنا، تاہم ایسے اعضا کو منتقل کرنا جن کی وجہ انسانی زندگی کا ایک اہم جز و مکمل طور پر معطل نہ ہو، بلکہ جزوی طور پر متاثر ہو تو یہ بات ابھی تک تحقیق کی محتاج ہے، جیسے کہ اس کا ذکر آٹھویں شق میں آئے گا۔

6- مردہ شخص کے ایسے عضو کو زندہ شخص میں منتقل کرنا جائز ہے، جس پر زندگی کا دارو مدار ہوتا ہے، یا ایسے عضو کو منتقل کرنا بھی جائز ہے جو انسانی زندگی کا اہم کردار ادا کرتا ہے، بشرطیکہ میت اپنی زندگی میں اجازت دے دے، یا پھر مرنے کے بعد اس کے ورثاء اجازت دے دیں، یا پھر لا وارث اور نا قابل شناخت میت ہو تو مسلم حکمران اعضاء منتقل کرنے کی اجازت دے دے۔

7- یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ جن اعضاء کی منتقلی کے جواز کے بارے میں اوپر بیان ہوا ہے، اس صورت میں ہے جب اعضاء کو فروخت نہ کیا گیا ہو، کیونکہ انسانی اعضاء کو کسی بھی صورت میں فروخت کرنا جائز نہیں ہے۔

البتہ اعضاء کا عطیہ لینے کا خواہش مند شخص مطلوبہ عضو کے حصول کیلئے حوصلہ افزائی اور احترام کرے ہوئے کچھ خرچ کر ے تو یہ اجتہادی مسئلہ ہے۔

8- مندرجہ بالا بیان شدہ حالات کے علاوہ دیگر صورتیں جو بنیادی طور پر اسی موضوع سے تعلق رکھتی ہیں، ان کے بارے میں مزید تحقیق و تمحیص کی ضرورت ہے، اور انہیں بحث و تمحیص کے دائرے میں لانا ضروری ہے۔۔۔ اس کیلئے طبی آراء اور شرعی احکام سے مدد لینا ہوگی۔

مزید کیلئے سوال نمبر: 2141، 2159، اور 424 کا مطالعہ کریں۔

واللہ اعلم.
 
Top