اعتکاف کی فضیلت و اہمیت

سید عمران

محفلین
اعتکاف کی فضیلت
اعتکاف عربی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی ہیں ٹھہر جانا اور خود کو روک لینا۔ شریعت اسلامی کی اصطلاح میں اعتکاف رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں عبادت کی غرض سے مسجد میں ٹھہرنے کو کہتے ہیں۔
بیہقی کی روایت ہے کہ جس نے عشرہ رمضان کا اعتکاف کیا، یہ دو حج اور دو عمروں کی طرح ہوگا۔جو شخص ایک دن کا اعتکاف بھی اللہ کی رضا کے واسطے کرتا ہے تو حق تعالیٰ شانہ اس کے اور جہنم کے درمیان تین خندقیں آڑے فرمادیتا ہے ۔جس کی مسافت آسمان اور زمین کی درمیانی مسافت سے بھی زیادہ چوڑی ہوتی ہے۔ان روایات سے معلوم ہوا کہ رمضان المبارک کے آخری عشرے میں اعتکاف کرنا سنت ہے۔
حضور اکرم کا اعتکاف
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخری عشرے میں اعتکاف فرماتے تھے اور حکم دیا کرتے تھے کہ اسی میں شب قدر کو تلاش کرو۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ نبی کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر رمضان میں دس دن کا اعتکاف فرمایا کرتے تھے ، مگر جس سال آپ کا انتقال ہوا ، آپ نے بیس دن اعتکاف فرمایا۔ (صحیح بخاری)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ جب رمضان المبارک کا آخری عشرہ شروع ہو جاتا تو رسولِ خدا حضرت محمد صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم شب بیداری فرماتے اور اپنے گھر والوں کو بھی بیدار کرتے اور عبادت کے لیے کمر کس لیتے۔ (صحیح بخاری)
اعتکاف کہاں کریں؟
مرد حضرات مسجد میں اعتکاف کریں اور خواتین اپنے گھروں میں۔ ازواج مطہرات اپنے حجروں میں اعتکاف فرماتی تھیں۔ خواتین کے لیے اعتکاف کی جگہ ان کے گھر کی وہی جگہ ہے جو انہوں نے نماز پڑھنے کے لیے مقرر کر رکھی ہے۔اگر گھر میں نماز پڑھنے کی کوئی خاص جگہ مقرر نہ ہوتو اعتکاف کرنے والی خواتین کو اعتکاف کے لیے گھر میں کوئی مناسب گوشہ مقرر کر لینا چاہیے۔
حد ود مسجد
اعتکاف کارکن اعظم یہ ہے کہ انسان اعتکاف کے دوران مسجد کی حدود میں رہے اور ضروری حاجات کے سوا ایک لمحے کے لیے بھی مسجد کی حدود سے باہر نہ نکلے۔بہت سے لوگ حدود مسجد کامطلب نہیں سمجھتے جس کی وجہ سے ان کا اعتکاف ٹو ٹ جاتا ہے ۔اس لیے خوب اچھی طرح سمجھ لیجئے کہ حدود مسجد کا کیا مطلب ہے۔ عام بول چال میں تو مسجد کے پورے احاطے کومسجد ہی کہتے ہیں لیکن شرعی اعتبار سے وضو خانہ، استنجا خانہ، امام یا مؤذن کا حجرہ وغیرہ مسجد میں داخل نہیں ہوتا۔ لہٰذا اعتکاف کرتے وقت امام یا مؤذن صاحبان سے مسجد کی حدود معلوم کرلینا بہت ضروری ہے۔
مسجد سے کب نکل سکتے ہیں؟
شرعی ضرورت کی وجہ سے معتکف مسجد سے نکل سکتا ہے مثلاً بیت الخلاء جانے کے لیے، وضو کے لیے، اگر کوئی کھانا لانے والا نہ ہو تو کھانا کھانے کے لیے،غسل جنابت کے لیے ،موذن کا اذان دینے کے لیے،جس مسجد میں اعتکاف کیا ہے اگر اس میں جمعہ کی نما زنہ ہوتی ہو تو جمعہ کی نماز پڑھنے جامع مسجد جانے کے لیے۔
اعتکاف ٹوٹنے کی صورتیں
بلا ضرورت مسجد سے باہر نکلناخواہ جان بوجھ کر ہو یا بھول کر غلطی سے ،ہر صورت میں اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے۔ البتہ اگر بھول کر یا غلطی سے باہر نکلا ہے تو اس سے اعتکاف توڑنے کا گناہ نہیں ہوگا، مثلاً کوئی شخص ایسی جگہ کو مسجد سمجھ کر چلا گیا جو مسجد کے شرعی حکم میں نہیں تھی۔
اعتکاف کے لیے روزہ شرط ہے ۔اس لیے روزہ توڑدینے سے اعتکاف بھی ٹوٹ جاتا ہے ۔خواہ یہ روزہ کسی عذر کی وجہ سے توڑاہو ،یا بلاعذر، جان بوجھ کر توڑا ہو یا غلطی سے،ہر صورت میں اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے۔
اعتکاف میں کیا کریں؟
اسلام میں چپ کا روزہ نہیں ہے کہ اعتکاف کی حالت میں کوئی بات ہی نہ کی جائے البتہ اتنا ضرور ہے کہ ضرورت کے مطابق بات کی جائے، بلا ضرورت اِدھر اُدھر کے تبصرے، لطیفہ گوئی، قصے کہانیاں، غیبت اور بہتان تراشی جیسے ناپسندیدہ امور سے بچیں۔ بلاضرورت گفتگو اعتکاف کے مقصد کو نقصان پہنچاتی ہے۔ اس کے علاوہ مسجد کے آداب میں سے ہے کہ مسجد میں غیر ضروری باتیں کرنا حرام ہے۔
جب آپ دنیا کی ساری مصروفیات ترک کرکے محض اللہ کے لیے مسجد میں آ ہی گئے ہیں تو اب دنیا کے کسی دھندے سے سروکار نہ رکھیں، ہر لمحہ خالصتاً اللہ کی طرف متوجہ رہیں۔
موبائل فون اپنے پاس تو رکھیں لیکن گھر والوں کو تاکید کردیں کہ خدانخواستہ کوئی حادثہ وغیرہ ہوجائے یا کوئی ایسی شدید ضروری بات کرنی ہو جس کے نہ کرنے سے جانی و مالی نقصان کا اندیشہ ہو یا اس طرح کے دیگر شدید نوعیت کے مسائل پیش آنے کے علاوہ موبائل پر بالکل بات نہ کریں۔ یہ نہیں کہ ہر روز ہر گھنٹہ خیر خیریت کی اطلاع دی جارہی ہے اور حال احوال لیے جارہے ہیں۔
معتکف کو اپنا زیادہ تر وقت ذکر و تلاوت، نوافل کی ادائیگی اور دینی کتابوں کے مطالعہ میں گزارنا چاہیے۔ اگر کوئی بزرگ یا عالم دین بھی اسی مسجد میں معتکف ہوں تو ان کی صحبت میں جتنا وقت میسر ہو بیٹھ کر ان سے دین کی باتیں سننا اور پوچھنا چاہئیں۔
اصل مسنون اعتکاف تو رمضان امبارک کے آخری عشرے کا ہے لیکن مستحب یہ ہے کہ غیر رمضان میں بھی آدمی جب مسجد میں جائے تو جتنی دیر مسجد میں رہنے کا ارادہ ہو اتنی دیر کے اعتکاف کی نیت کر لے۔
یہاں اعتکاف کی فضیلت اور اعتکاف ٹوٹنے سے بچنے کی چند باتوں کا ذکر کیا گیا ہے تاکہ لوگوں میں اعتکاف کی عبادت کرکے اجر و ثواب اور اللہ تعالیٰ کی محبت اور قرب حاصل کرنے کا شوق پیدا ہو۔ تاہم اعتکاف کرنے سے قبل اس کے مفصل احکامات و مسائل علماء و مفتیان کرام سے ضرور دریافت فرمائیں۔
 

جاسمن

لائبریرین
جزاک اللہ خیرا کثیرا۔
یہ بھی بتائیے ایک محلہ کا کوئی بھی فرد اگر اعتکاف میں نہ بیٹھے تو کیا احکامات ہیں؟
 

جاسمن

لائبریرین
جی۔
مجھے معلوم کرنا تھا کہ یہ "ضروری" فرض ہے یا واجب؟
نیز ایسا نہ کریں تو گناہ ہوگا؟
 
Top