اختر شیرانی اعترافِ محبت ۔ اختر شیرانی

فرخ منظور

لائبریرین
اعترافِ محبت
لو آؤ کہ راز پنہاں کو رسوائے حکایت کرتا ہوں!
دامان زبان خامشی کو لبریز شکایت کرتا ہوں!
گھبرا کے ہجوم غم سے آج افشائے حقیقت کرتا ہوں
اظہا ر کی جرات کر تا ہوں
میں تم سے محبت کر تا ہوں
فکر آباد دنیا میں مری، اک مسجود افکار ہو تم!
شعرستان ہستی میں مری، اک معبود اشعار ہو تم!
اور میرے پرستش زا دل میں اک بت شیریں کار ہو تم!
میں جس کی عبادت کر تا ہوں
میں تم سے محبت کر تا ہوں!
مدت سے محبت کرتا تھا سو جان سے تم پر مرتا تھا
راتوں کو میں روتا رہتا تھا، راتوں کو میں آہیں بھرتا تھا
ہاں راتوں کو آہیں بھرتا تھا ، پر تم سے کہتے ڈرتا تھا!
آج اس کی جسارت کر تا ہوں
میں تم سے محبت کر تا ہوں !
راتوں کو مرے رونے کا سماں بیدار ستارے دیکھتے ہیں
اور میرے جنوں کے عالم کو ، عالم کے نظارے دیکھتے ہیں
باغوں کے مناظر دیکھتے ہیں،نہروں کے کنارے دیکھتے ہیں
یوں شرح مصیبت کر تا ہوں
میں تم سے محبت کر تا ہوں
حسرت بھری فریادوں کو مری باغوں کی فضائیں جانتی ہیں
فریاد سے لبریز آہوں کو صحرا کی ہوائیں جانتی ہیں
اور میرے مچلتے آنسوؤں کو ساون کی گھٹائیں جانتی ہیں
اظہار حقیقت کر تا ہوں
میں تم سے محبت کر تا ہوں
جس دن سے وہ صورت دیکھی ہے سو آرزوئیں بیتاب سی ہیں
دن ہیں تو وہ بے آرام سے ہیں راتیں ہیں تو وہ بےخواب سی ہیں
آنکھوں تلے ہر دم پھر تی ہیں وہ" ساعدیں"جو مہتاب سی ہیں
یاد‘ ان کی صبا حت کر تا ہوں
میں تم سے محبت کر تا ہوں!
تم چاند سے بڑھ کر روشن ہو، زہر ہ کی قسم، تاروں کی قسم!
تم پھول سے بڑھ کر رنگیں ہو ، فطرت کے چمن زاروں کی قسم!
تم سب سے حسیں ہو دنیا کی ، دنیا کے نظاروں کی قسم!
دنیا سے بھی نفرت کر تا ہوں
میں تم سے محبت کر تا ہوں!
اس مکر کی دنیا میں کہ جہاں معیار صداقت کچھ بھی نہیں
دو " اشکوں"سے بڑھ کر سچا اور اظہار محبت کچھ بھی نہیں
روتا ہوں تمہاری یاد میں گو، رونے کی شہادت کچھ بھی نہیں!
پیش اتنی شہادت کر تا ہوں
میں تم سے محبت کر تا ہوں!
جب رات کی بیکس تنہائی میں ، آپ کو تنہا پاتا ہوں
میں بربط دل سے سوز و گداز عشق کے نغمے گاتا ہوں
اتنا تو بتا دو تم بھی مجھے کیا میں بھی کبھی یاد آتا ہوں؟
بتلائو کہ منت کر تا ہوں !
میں تم سے محبت کرتا ہوں!
گو،تم سے مجھے نسبت نہیں کچھ اور ہے تو گدا و شاہ کی ہے!
وہ ذرہ ہوں جس کے دل میں نہاں، امید وصال ماہ کی ہے
اک شاعر مفلس جس کو ہوس اک قیصرہء ذی جاہ کی ہے
پھر بھی یہ جسارت کرتا ہوں
میں تم سے محبت کر تا ہوں
گر حکم دو روشن تاروں کو میں لا کے جھکا دوں قدموں پر!
جنت کے شگفتہ پھولوں کی جنت سی بسا دوں قدموں پر
سجدہ گہ مہر و ماہ کو بھی سجدے میں گرا دوں قدموں پر
ناچیز ہوں ہمت کر تا ہوں
میں تم سے محبت کر تا ہوں!​
 
Top