اصلاح کے لئے - اسیر ِ نار دیکھا ہے

loneliness4ever

محفلین
السلام علیکم

استادوں کی محفل میں پھرحاضر ہوا ہوں
اور امید کرتا ہوں حضرات رہنمائی فرمائیں گے۔
اللہ پاک علم میں اضافہ فرمائے اور صاحب ِ علم
کو درست سمت میں علم استعمال کرنے کی توفیق
نصیب فرمائے۔۔۔۔۔ آمین


اسیر ِ نار دیکھا ہے
جواں بیکار دیکھا ہے

تڑپتی ماں، جواں لاشہ
یہاں سو بار دیکھا ہے

لٹیرے بن گئے حاکم
تماشہ یار دیکھا ہے

امیری ساتھ جب تک ہے
زمانہ یار دیکھا ہے

وجود ِ ماں سے صحرا بھی
حسیں گلزار دیکھا ہے

بشر، ایماں یہاں بکتا
جہاں بازار دیکھا ہے

خدا سے دور مسلم کو
پریشاں یار دیکھا ہے

محبت کو زمانے میں
گرفتہ دار دیکھا ہے

امیری کی عنایت میں
عدو گھر بار دیکھا ہے

روایت کی اسیری میں
سدا سنسار دیکھا ہے

محمد ﷺ کے غلاموں کو
فلک کے پار دیکھا ہے

جو دیکھا ہے گلابوں کو
لگے دلدار دیکھا ہے

عجب سا گھرغریبوں کا
بنا دیوار دیکھا ہے

نگر میں زندگی ایسی
بشر بیزار دیکھا ہے

نوالے چنتا کچرے سے
یہاں معمار دیکھا ہے

دل ِ مخمورنعمت ہے
یہاں بس پیار دیکھا ہے

مدینے کا تجھے مخمور
سدا بیمار دیکھا ہے


چونکہ خاکسار یہاں کے لوگوں سے زیادہ آشنا نہیں ہے اس لئے گزارش ہے کہ
اگر کوئی استاد دعوت نامے سے یعنی ٹیگ سے رہ گئے ہوں تو برائے مہربانی
ٹیگ فرما دیں ۔۔۔۔۔ جزاک اللہ
 

الف عین

لائبریرین
بڑی لمبی غزل ہے!!
اسیر ِ نار دیکھا ہے
جواں بیکار دیکھا ہے
÷÷نار سے یہاں شاید مراد عربی کی آگ نہیں، ہندی کی نار ہے، بمعنی عورت۔ اس کے ساتھ اضافت نہیں لگ سکتی۔

تڑپتی ماں، جواں لاشہ
یہاں سو بار دیکھا ہے
۔ درست

لٹیرے بن گئے حاکم
تماشہ یار دیکھا ہے
÷÷یار محض قافئے کی وجہ سے ہے، ورنہ بے معنی ہے

امیری ساتھ جب تک ہے
زمانہ یار دیکھا ہے
÷÷ ایضاً

وجود ِ ماں سے صحرا بھی
حسیں گلزار دیکھا ہے
÷÷ماں بھی ہندی ہے، اور اضافت ممکن نہیں۔

بشر، ایماں یہاں بکتا
جہاں بازار دیکھا ہے
÷÷جہاں بکتا ہے ایماں بھی۔۔ وہی بازار دیکھا ہے
کیا جا سکتا ہے، روانی کے لحاظ سے

خدا سے دور مسلم کو
پریشاں یار دیکھا ہے
÷÷یہاں بھی یار؟

محبت کو زمانے میں
گرفتہ دار دیکھا ہے

امیری کی عنایت میں
عدو گھر بار دیکھا ہے
÷÷واضح نہیں

روایت کی اسیری میں
سدا سنسار دیکھا ہے
÷÷ درست

محمد ﷺ کے غلاموں کو
فلک کے پار دیکھا ہے
÷÷درست، اگرچہ مطلب؟

جو دیکھا ہے گلابوں کو
لگے دلدار دیکھا ہے
÷÷واضح نہیں

عجب سا گھرغریبوں کا
بنا دیوار دیکھا ہے
÷÷غریبوں کا ایک ہی گھر؟؟
عجب اک گھر ہے مفلس کا
کر دو

نگر میں زندگی ایسی
بشر بیزار دیکھا ہے
۔۔نگر مِس فِٹ ہے، جہاں کہنے میں کیا حرج ہے؟

نوالے چنتا کچرے سے
یہاں معمار دیکھا ہے
÷÷اس کا معماری سے تعلق؟

دل ِ مخمورنعمت ہے
یہاں بس پیار دیکھا ہے
۔۔دو لخت ہے

مدینے کا تجھے مخمور
سدا بیمار دیکھا ہے
درست
 

loneliness4ever

محفلین
بڑی لمبی غزل ہے!!
اسیر ِ نار دیکھا ہے
جواں بیکار دیکھا ہے
÷÷نار سے یہاں شاید مراد عربی کی آگ نہیں، ہندی کی نار ہے، بمعنی عورت۔ اس کے ساتھ اضافت نہیں لگ سکتی۔

نوالے چنتا کچرے سے
یہاں معمار دیکھا ہے
÷÷اس کا معماری سے تعلق؟

دل ِ مخمورنعمت ہے
یہاں بس پیار دیکھا ہے
۔۔دو لخت ہے

درست


استادوں کے آگے بولنا بھی گستاخی ہوتی ہے، بندہ مگر بے علم ہے اور عروض اور اصول ِ شاعری کی طلب
کے ہاتھوں مجبور ہے اور اس گستاخی کا مرتکب ہو رہا ہے ۔۔۔۔ معذرت قبول فرمائیں ۔۔۔۔۔


اسیر ِ نار دیکھا ہے
جواں بیکار دیکھا ہے
÷÷نار سے یہاں شاید مراد عربی کی آگ نہیں، ہندی کی نار ہے، بمعنی عورت۔ اس کے ساتھ اضافت نہیں لگ سکتی۔

گرفتہ نار دیکھا ہے

اگر درست ہوتو حکم فرمائیں


وجود ِ ماں سے صحرا بھی
حسیں گلزار دیکھا ہے
÷÷ماں بھی ہندی ہے، اور اضافت ممکن نہیں۔

بیاباں ماں کی ہستی سے
حسیں گلزار دیکھا ہے
یا
بیاباں ماں کے ہونے سے
حسیں گلزار دیکھا ہے


بشر، ایماں یہاں بکتا
جہاں بازار دیکھا ہے
÷÷جہاں بکتا ہے ایماں بھی۔۔ وہی بازار دیکھا ہے
کیا جا سکتا ہے، روانی کے لحاظ سے

خدا ایمان بکتا ہے
جہاں بازار دیکھا ہے

اگر درست ہوتو حکم فرمائیں


امیری کی عنایت میں
عدو گھر بار دیکھا ہے
÷÷واضح نہیں

بالا شعر میں {میں} غلط لکھ دیا تھا

امیری کی عنایت ہے
عدو گھر بار دیکھا ہے

زرکے ساتھ رشتوں کی ناپائیداری کا ذکر کرنا چاہا ہے
امیری کے پیچھے باپ بیٹا کا دشمن، بیٹا باپ کا وغیرہ وغیرہ
اگر حضور بیان گوارہ ہو تو حکم فرمائیں

نوالے چنتا کچرے سے
یہاں معمار دیکھا ہے
÷÷اس کا معماری سے تعلق؟

مراد بچوں کو ملک کا معمار کہا جاتا ہے
اور اس معمار کی یہ حالت ہے کہ کھانا
کچرے سے چنتا ہے

اگر حضور بیان گوارہ ہو تو حکم فرمائیں

دل ِ مخمورنعمت ہے
یہاں بس پیار دیکھا ہے
۔۔دو لخت ہے

کم علمی میری ، میری راہ میں رکاوٹ ہے
استاد جی زحمت ہوگی یہ دولخت والی بات
سمجھنے سے قاصر رہا ہوں ،
مہربانی فرمائیں اور آگہی کی روشنی عطا فرمائیں

---------------

استاد محترم کم علم ہوں معافی چاہتا ہوں اور طالب ہوں
آپکی نظر ِ عنایت کا۔

کیا ہندی الفاظ کے ساتھ اضافت کی اجازت نہیں
جیسے نار اور ماں کا یہاں معاملہ رہا ہے
حضور اپنی کم علمی سے مجبور ہوں جب ہی جناب کو زحمت دے رہا ہوں
امید کرتا ہوں عطا فرمائیں گے ۔۔۔۔

حقیر و فقیر ۔۔۔۔
س ن مخمور

محترم الف عین ،
 
آخری تدوین:
بندہ حضور کی دوبارہ تشریف آواری کا منتظر رہے گا
جناب الف عین نے بہت مناسب انداز میں اشارے کر دیے۔ کسی قدر وضاحت کیے دیتا ہوں:۔
فارسی طرز پر ترکیب اضافی یا توصیفی (زیر کے ساتھ) اور ترکیب عطفی (واو کے ساتھ) میں مضاف اور مضاف الیہ، صفت اور موصوف، عناصرِ معطوف یا تو فارسی ہوں گے یا عربی یا ان دونوں میں سے کوئی۔ ہندی الاصل: بچہ و بوڑھا، گھر و کوچہ، دیوارِ جھوٹ، سڑکِ ویران، بر لبِ سڑک وغیرہ درست نہیں ہیں ۔ اسی نہج پر ہم صرف فہر صرف عربی الاصل الفاظ پر الف لام تعریفی داخل کر سکتے ہیں، ہندی یا فارسی یا انگریزی وغیرہ پر نہیں : الشہباز، الگُرگ، الاسٹیشن، السڑک سب غلط ہیں۔
 
ایک بات البتہ یار دکھنے کی یہ ہے کہ سرکاری، عدالتی، دفتری اور دیگر لہجوں میں مستعمل تراکیب جو ادبی قواعد کے خلاف ہیں، اُن کولسان الادب میں درست نہیں مانا جا سکتا۔ اگرچہ ایسے الفاظ تراکیب اور اصطلاحات اپنے اپنے خاص میدان اور حوالوں میں بہت مفید ہو سکتے ہیں، یا ہوتے ہیں۔
رجسٹر حق دارانِ زمینِ دیہی، حقِ راستہ و پہنچ، مچلکہ ضمانت و دفعہ ہتھکڑی، شیڈول ہائے ٹیکس، فہرست نادہندگانِ ٹیکس، نرخنامہ مٹر موٹھ مونگ، محصولِ چونگی، حساباتِ ٹول ٹیکس وغیرہ؛ ادب میں درست نہیں ہیں۔
 
رہی بات غزل کی ۔۔۔۔۔ تو صاحب!
1۔ محسوس ہوتا ہے کہ اشعار موزوں کیے اور پوسٹ کر دیے۔ قاعدہ یہ ہوتا ہے کہ اپنے کلام کے ساتھ کچھ وقت گزاریں، اسپن استعداد کی حد تک اس کی نوک پلک سنواریں اور پھر پیش کریں۔ قارئین اور ناقدین کے لئے بسا اوقات نقائص کی نشان دہی بھی مشکل ہو سکتی ہے۔ اس لئے خود تنقیدی بہت ضروری ہے۔
2۔ فن شعر گوئی سے متعلق علوم پر عبور تو خیر کسی کسی کو حاصل ہوتا ہے، بنیادی معلومات اور ان کا اطلاق ہر اس شخص پر لازم ہے جو شعر کہنا چاہتا ہے۔ مثلاً علم عروض، اس کی اصطلاحات اور مباحث، زحافات، اشباع، اخفاء ، ایصال وغیرہ کے تفصیلی قواعد نہ سہی شعر میں حرکات و سکنات کی ترتیب اور موزونیت کا ادراک لازمی ہے۔
3۔ شاعری کرنے کے لئے سنجیدگی بہت ضروری ہے! اس کے بغیر شعر کے حوالے سے کوئی بھی شناخت بنا سکنا ناممکن ہے۔ وہ الگ بات ہے کہ بدنام اگر ہوں گے ۔۔۔۔
4۔ غزل کے شعر میں پہلا اور دوسرا مصرع مل کر ایک مضمون کو مکمل کرتے ہیں( وزن، قافیہ ار ردیف کی پابندیوں کو بدستور پورا کرتے ہوئے)۔
5۔ زبان اور املاء کی اغلاط کو نظر انداز نہیں کیا جاتا اور غزل میں ایس اغلاط کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں۔ ہزل، فکاہیہ وغیرہ میں شاعر یا ادیب کچھ نہ کچھ رعایات لے لیتا ہے۔
6۔ آپ کی غزل کے مضامین کا لفظیاتی تقاضا کیا ہے، کیا اس کی بحراس حوالے سے بہت چھوٹی یا بہت طویل تو نہیں، اتنی چھوٹی کہ الفاظ کی قلت مطلوبہ مضمون کو بیان کرنے سے قاصر رہ جائے یا اتنی طویل کہ مضمون بیان ہو چکے پر مصرعوں کی ضخامت کو پورا کرنے کے لئے بھرتی کے الفاظ لانے پڑیں۔ یہ فیصلہ آپ (جنابِ شاعر) کریں گے نہ کہ قاری یا ناقد۔ بہ ظاہر آپ نے ایک بہت مختصر بحر میں ایسے مضامین باندھنے کی کوشش کی ہے جو مکمل بیان نہیں ہو رہے۔

جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بجلی کا کچھ پتہ نہی، یہ نہ ہو کہ لکھا لکھایا مٹ جائے
 
7۔ قوافی غزل کے لئے موضوعات و مضامین تجویز بھی کرتے ہیں اور ان کو نباہنے میں ممد و معاون بھی ہوتے ہیں، کبھی کبھی اس کے الٹ بھی ہو جاتا ہے۔
8۔ ردیف لازمی نہیں تاہم اگر آپ ایک ردیف اختیار کر لیتے ہیں تو اس کو پوری غزل میں یوں نباہنا ہو گا کہ وہ کہیں بھی ’’زاید‘‘ محسوس نہ ہو۔ مثلاً آپ نے ’’دیکھا ہے‘‘ ردیف اختیار کی۔ مضامین ایسے لائیے کہ ان پر آپ کا اپنا تجربہ شامل ہو، اور اگر تجربہ نہیں تو مضبوط مشاہدہ ہی سہی۔ تخیلات کی بنیاد پر شاعری کی جا سکتی ہے تاہم آپ کا ذاتی تجربہ یا واردات قاری کے ساتھ آپ کی جتنی سانجھ بناتی ہے، تخیلات سے اتنی سانجھ نہیں بن پاتی۔
9۔ ایک بنیادی بات یاد رہے! اگر آپ اپنے نظریات، اعتقادات، ایمانیات کے خلاف کوئی بات بیان کرتے ہیں تو آپ اپنے آپ سے جھوٹ بول رہے ہیں۔ اس میں شعری تاثیر لانا تو بہت دور کی بات، اس کو پوری طرح بیان کر پانا بھی محال ہوتا ہے۔ اس لئے خود سے کبھی جھوٹ نہ بولیے گا۔
10۔ اپنی غزل کا جائزہ خود لیجئے اور کڑی معیار پر لیجئے، خود رحمی سے کام نہ لیجئے گا۔ بر سبیلِ تذکرہ میں نے ایک شاعرہ کو مشورہ دیا تھا ’’محاسبے کے وقت اپنی غزل کو یوں دیکھئے کہ وہ آپ کی سوتن ہے! اور اس کو سنوارتے وقت یوں جانئے کہ وہ آپ خود ہیں!‘‘
۔۔۔۔۔۔
 

loneliness4ever

محفلین

استاد جی ۔۔۔۔
دل خوشی سے لبریز ہے جناب نے اپنا قیمتی وقت خاکسار کو عطا فرمایا
بجلی یہاں بھی اب جانے والی ہے۔۔۔۔

حضور خاکسار جناب کا تہہ دل سے شکر گزار ہے
اور امید کرتا ہے استاد کی یہ نگاہ ، یہ عنایت خاکسار
پر رہے گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اللہ پاک علم و مرتبے میں اضافہ فرمائے آمین ۔۔۔۔
اور خاکسار کو آپ تمام استادوں کا یہ ساتھ مستقل نصیب فرمائے ۔۔ آمین

حاضر ہوتا ہوں ۔۔۔۔ پھر کوئی ادنی کاوش کے ساتھ

فقیر و حقیر ۔۔۔

مخمور
 

شیرازخان

محفلین
7۔ قوافی غزل کے لئے موضوعات و مضامین تجویز بھی کرتے ہیں اور ان کو نباہنے میں ممد و معاون بھی ہوتے ہیں، کبھی کبھی اس کے الٹ بھی ہو جاتا ہے۔
8۔ ردیف لازمی نہیں تاہم اگر آپ ایک ردیف اختیار کر لیتے ہیں تو اس کو پوری غزل میں یوں نباہنا ہو گا کہ وہ کہیں بھی ’’زاید‘‘ محسوس نہ ہو۔ مثلاً آپ نے ’’دیکھا ہے‘‘ ردیف اختیار کی۔ مضامین ایسے لائیے کہ ان پر آپ کا اپنا تجربہ شامل ہو، اور اگر تجربہ نہیں تو مضبوط مشاہدہ ہی سہی۔ تخیلات کی بنیاد پر شاعری کی جا سکتی ہے تاہم آپ کا ذاتی تجربہ یا واردات قاری کے ساتھ آپ کی جتنی سانجھ بناتی ہے، تخیلات سے اتنی سانجھ نہیں بن پاتی۔
9۔ ایک بنیادی بات یاد رہے! اگر آپ اپنے نظریات، اعتقادات، ایمانیات کے خلاف کوئی بات بیان کرتے ہیں تو آپ اپنے آپ سے جھوٹ بول رہے ہیں۔ اس میں شعری تاثیر لانا تو بہت دور کی بات، اس کو پوری طرح بیان کر پانا بھی محال ہوتا ہے۔ اس لئے خود سے کبھی جھوٹ نہ بولیے گا۔
10۔ اپنی غزل کا جائزہ خود لیجئے اور کڑی معیار پر لیجئے، خود رحمی سے کام نہ لیجئے گا۔ بر سبیلِ تذکرہ میں نے ایک شاعرہ کو مشورہ دیا تھا ’’محاسبے کے وقت اپنی غزل کو یوں دیکھئے کہ وہ آپ کی سوتن ہے! اور اس کو سنوارتے وقت یوں جانئے کہ وہ آپ خود ہیں!‘‘
۔۔۔ ۔۔۔
9۔ ایک بنیادی بات یاد رہے! اگر آپ اپنے نظریات، اعتقادات، ایمانیات کے خلاف کوئی بات بیان کرتے ہیں تو آپ اپنے آپ سے جھوٹ بول رہے ہیں۔ اس میں شعری تاثیر لانا تو بہت دور کی بات، اس کو پوری طرح بیان کر پانا بھی محال ہوتا ہے۔ اس لئے خود سے کبھی جھوٹ نہ بولیے گا۔

کیا کہنے ہیں استادِ محترم ان سنہری ہدایات کا بہت شکریہ۔۔۔۔!!!
 
9۔ ایک بنیادی بات یاد رہے! اگر آپ اپنے نظریات، اعتقادات، ایمانیات کے خلاف کوئی بات بیان کرتے ہیں تو آپ اپنے آپ سے جھوٹ بول رہے ہیں۔ اس میں شعری تاثیر لانا تو بہت دور کی بات، اس کو پوری طرح بیان کر پانا بھی محال ہوتا ہے۔ اس لئے خود سے کبھی جھوٹ نہ بولیے گا۔

کیا کہنے ہیں استادِ محترم ان سنہری ہدایات کا بہت شکریہ۔۔۔ ۔!!!

ایک سکول کی بچی میرے پاس آئی کہ: انکل، مجھے تقریری مقابلے میں حصہ لینا ہے، کچھ تیاری کرا دیجئے، کچھ نکات بتا دیجئے اور کچھ اچھے اچھے شعر بھی۔
میرے پوچھنے پر بچی نے بتایا کہ موضوع ہے: ’’جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی‘‘ اور اسے (بچی کو) اس پوائنٹ کے خلاف بولنا ہے۔
میں نے کہا: بھئی میں تو اقبال کی اس بات کو درست مانتا ہوں، اس کے خلاف کیسے کچھ کہہ سکوں گا؟۔
بچی کا والد ساتھ تھا، کہنے لگا: اجی تقریر ہی تو کرنی ہے، ہمیں کون سی تحریک چلانی ہے، آپ تقریر تیار کرا دیجئے۔
عرض کیا: بھائی میں خود سے جھوٹ نہیں بول سکتا، معذرت کی بات نہیں۔
بولے: میں سمجھا نہیں!
عرض کیا: بچی کے سکول جائیے، بزمِ ادب کے انچارج سے کہئے کہ بچی کو دئے گئے موضوع کے حق میں بات کرنے کی اجازت دے، میں تیاری کرا دوں گا۔ یا پھر کسی ایسے شخص سے مدد لیجئے جو فکری سطح پر اقبال کے اس بیان کا مخالف ہو۔
 

الف عین

لائبریرین
پہلی بات تو یہ جی حضوری سے میں بہت گھبراتا ہوں، اتنا بھی احترام کیا مخمور میاں!
آسی بھائی نے کافی فرصت سے ہدایات دی ہیں جو بہت مناسب ہیں۔
گرفتہ نار بھی غلط ترکیب ہے، یہاں مراد گرفتہء نار ہے، اور یہاں بھی ہمزہء اضافت ہے جو غلط ہے۔
بیاباں ماں کی ہستی سے
حسیں گلزار دیکھا ہے
درست ہو گیا ہے

خدا ایمان بکتا ہے
؟؟؟ کیا خدا اور ایمان مراد ہیں؟ بات نہیں بنتی، میری والی ترمیم ہی بہتر ہے۔
گھربار اور معمار والے اشعار میں بات مکمل نہیں ہوتی جو کہنا چاہتے ہیں
 
Top