اصلاح درکار ہے

جناب الف عین صاحب,,,آپ کی اصلاح کا منتظر ہوں,,,

چشم سے اشک تو رکا ہی نہیں
زخم دل پر لگا سلا ہی نہیں

اس کے دل میں مرے لیے تو کبھی
پھول چاہت کا بس کھلا ہی نہیں

زندگی الجھنوں میں کٹتی رہی
الجھنوں کا سرا ملا ہی نہیں

یاد کر کے اسے میں روتا رہا
کام اس کے سوا ہوا ہی نہیں

عشق سے تو مجھے خسارا ہوا
عشق بازار میں بکا ہی نہیں

زندگی سے مجھے گلہ ہی نہیں
جینے کا وقت بس ملا ہی نہیں
 

الف عین

لائبریرین
یہ ایک اور مطلع آخر میں رکھنے کی وجہ؟
چشم سے اشک تو رکا ہی نہیں
زخم دل پر لگا سلا ہی نہیں
.. دو لخت لگتا ہے

اس کے دل میں مرے لیے تو کبھی
پھول چاہت کا بس کھلا ہی نہیں
.. 'بس' کی معنویت سمجھ میں نہیں آتی، بس کا استعمال درست ہو جب یوں کہا جائے کہ یہ اور یہ ہو گیا لیکن بس چاہت کا پھول نہیں کھل سکا

زندگی الجھنوں میں کٹتی رہی
الجھنوں کا سرا ملا ہی نہیں
... درست

یاد کر کے اسے میں روتا رہا
کام اس کے سوا ہوا ہی نہیں
... درست

عشق سے تو مجھے خسارا ہوا
عشق بازار میں بکا ہی نہیں
.. عشق دونوں مصرعوں میں دہرانے کی ضرورت نہیں، سودا یا تجارت یا اس قسم کا لفظ بہتر ہو گا

زندگی سے مجھے گلہ ہی نہیں
جینے کا وقت بس ملا ہی نہیں
... مطلع بنانے کی جگہ میرا مشورہ ہے کہ ثانی کو اولی بنا کر الفاظ تبدیل کر دو، جیسے
بس ملا وقت ہی نہ جینے کو
اور کچھ زیست سے گلہ ہی نہیں
 
Top