اصلاح درکار ہے۔

محمد بلال اعظم

لائبریرین
چار شعر مندرجہ ذیل بحر میں لکھے ہیں۔ اصلاح درکار ہے:​
فعلن ؛ فعلن ؛ فعلن ؛ فعلن
اسی کا نام زندگی ہے مری جان
تُو دیکھ جفا اپنی، صبر میں اپنا
ڈرے گا کیا کسی بحر بے کراں سے؟
ڈال دے پاؤں سمندر میں اپنا
قمر ڈوبا، ختم شام ہو گئی اپنی
چل! ہو گا منتظر کوئی گھر میں اپنا
دلِ نادان سنبھل، وقت کو دیکھ
کوئی بنتا نہیں خطر میں اپنا
 

الف عین

لائبریرین
بلال، اس کے فعلن کس طرح کہہ رہے ہو؟ جو افاعیل تم نے لکھے ہیں، وہ تو ’رب کا شکر ادا کر بھائی‘ کے ہیں۔ یہ مصرع کسی مانوس بحر میں نہیں ہیں۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
بلال، اس کے فعلن کس طرح کہہ رہے ہو؟ جو افاعیل تم نے لکھے ہیں، وہ تو ’رب کا شکر ادا کر بھائی‘ کے ہیں۔ یہ مصرع کسی مانوس بحر میں نہیں ہیں۔

معاف کیجیے گا سر، میرے سے لکھنے میں غلطی ہو گئی،
بحر در اصل یہ ہے

فاعلن؛ فاعلن؛ فاعلن؛ فاعلن

میں ابھی تدوین کر دیتا ہوں۔
 

الف عین

لائبریرین
نہیں بلال یہ فاعلن بھی نہیں ہے۔ ہاں اگر پہلے مصرع میں ’میری‘ کر دیا جائے تو یہ بحر ہو سکتی ہے۔
مفاعلن مفاعلن مفاعلن
اسی کا نا۔۔۔ م زندگی۔۔۔ ہ میرِجا
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
نہیں بلال یہ فاعلن بھی نہیں ہے۔ ہاں اگر پہلے مصرع میں ’میری‘ کر دیا جائے تو یہ بحر ہو سکتی ہے۔
مفاعلن مفاعلن مفاعلن
اسی کا نا۔۔۔ م زندگی۔۔۔ ہ میرِجا

بہت بہت شکریہ سر،
بس پہلے مصرعے میں ہی غلطی ہے کیا، باقی مصرعے مفاعلن مفاعلن مفاعلن کی بحر پہ پورے ہیں کیا؟
 

الف عین

لائبریرین
نہیں بلال۔ ہر مصرع کی بحر مختلف ہے، اگر بحر میں ہے تو۔۔
تُو دیکھ جفا اپنی، صبر میں اپنا
رباعی کی بحر، بشترطیکہ ’صبر‘ کا غلط تلفظ کیا جائے۔ صَ بَ ر، درست تلفظ میں ب پر جزم ہے۔
ڈرے گا کیا کسی بحر بے کراں سے؟
ڈرے گا کیا بحر بے کراں سے
مفاعلاتن مفاعلاتن، موجودہ صورت میں کوئی بحر نہیں۔
ڈال دے پاؤں سمندر میں اپنا
ڈال دے پاؤں سمند اپنا
وزن میں آتا ہے، فاعلاتن فعلاتن فعلن
قمر ڈوبا، ختم شام ہو گئی اپنی
کسی بحر میں نہیں
چل! ہو گا منتظر کوئی گھر میں اپنا
کسی بحر میں نہیں
دلِ نادان سنبھل، وقت کو دیکھ
رباعی کی بحر
کوئی بنتا نہیں خطر میں اپنا
کسی بحر میں نہیں۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
نہیں بلال۔ ہر مصرع کی بحر مختلف ہے، اگر بحر میں ہے تو۔۔
تُو دیکھ جفا اپنی، صبر میں اپنا
رباعی کی بحر، بشترطیکہ ’صبر‘ کا غلط تلفظ کیا جائے۔ صَ بَ ر، درست تلفظ میں ب پر جزم ہے۔
ڈرے گا کیا کسی بحر بے کراں سے؟
ڈرے گا کیا بحر بے کراں سے
مفاعلاتن مفاعلاتن، موجودہ صورت میں کوئی بحر نہیں۔
ڈال دے پاؤں سمندر میں اپنا
ڈال دے پاؤں سمند اپنا
وزن میں آتا ہے، فاعلاتن فعلاتن فعلن
قمر ڈوبا، ختم شام ہو گئی اپنی
کسی بحر میں نہیں
چل! ہو گا منتظر کوئی گھر میں اپنا
کسی بحر میں نہیں
دلِ نادان سنبھل، وقت کو دیکھ
رباعی کی بحر
کوئی بنتا نہیں خطر میں اپنا
کسی بحر میں نہیں۔

ابھی مزید مشق کرتے ہیں پھر کسی بحر پہ،
استاد محترم آپ ہی کوئی آسان سی بحر بتا دیجیےپھر؟
 
Top