اصلاح درکار""فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن""

اب مجھے اُن کی شکایت نہیں ہوتی
اپنی بھی اب تو وکالت نہیں ہوتی

اُس کی مخلوق مشکل میں ہو تو پھر
سجدے تو کوئی عبادت نہیں ہوتی

میرا جوحق ہے وہ مل جائے گا آخر
ہم سے تو اس کی ریاضت نہیں ہوتی

خواہِشِ جسم ہو جس میں مرے یارو
معذرت پر وہ محبت نہیں ہوتی

ظلم کے سامنے سر کو جکا لینا
سچ میں یہ کوئی شرافت نہیں ہوتی

بھوک کی اپنی بھی تہذیب ہے صاحب
بھوک میں کوئی جہالت نہیں ہوتی

میں ہوں گستاخ منافق تو نہیں ہوں
آپ سی مجھ سے بغاوت نہیں ہوتی​
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
یہ بھی خود ساختہ بحر ہے۔ آخر میں 'صاحب' کا اضافہ کر دو تو محض پہلا مصرع تبدیل کرنا ہو گا
 
فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فِعْلن
اب مجھے اُن کی شکایت نہیں ہوتی صاحب
اپنی بھی اب تو وکالت نہیں ہوتی صاحب

اُس کی مخلوق اگر ہو مشکل میں تو پھر
سجدے تو کوئی عبادت نہیں ہوتی صاحب

میرا جوحق ہے وہ مل جائے گا مجھ کو آخر
ہم سے تو اس کی ریاضت نہیں ہوتی صاحب

خواہِشِ جسم بھی ہو جائے جو شامل اس میں
معذرت پر یہ محبت نہیں ہوتی صاحب

ظلم کے سامنے سر کو جکا لینا کیا ہے
سچ میں یہ کوئی شرافت نہیں ہوتی صاحب

بھولا دیتی ہے خودی بھی یہ تو ! ایسی ظالم
بھوک میں کوئی جہالت نہیں ہوتی صاحب

میں ہوں گستاخؔ منافق تو نہیں ہوں مجھ سے
آپ سی ہم سے بغاوت نہیں ہوتی صاحب​
 

الف عین

لائبریرین
اب مجھے اُن کی شکایت نہیں ہوتی صاحب
اپنی بھی اب تو وکالت نہیں ہوتی صاحب
÷÷درست

اُس کی مخلوق اگر ہو مشکل میں تو پھر
سجدے تو کوئی عبادت نہیں ہوتی صاحب
÷÷÷یہ پورا شعر بحر سے خارج ہے
یوں اصلاح ہو سکتی ہے۔
اُس کی مخلوق اگر ہو کسی مشکل میں تو پھر
سجدہ کرنا تو عبادت نہیں ہوتی صاحب
اگرچہ دو لختی کی سی کیفیت ہے÷

میرا جوحق ہے وہ مل جائے گا مجھ کو آخر
ہم سے تو اس کی ریاضت نہیں ہوتی صاحب
÷÷درست

خواہِشِ جسم بھی ہو جائے جو شامل اس میں
معذرت پر یہ محبت نہیں ہوتی صاحب
÷÷معذرت پر‘ اچھا نہیں لگ رہا ہے۔ پر کی جگہ مگر یا لیکن استعمال کریں الفاظ بدل کر۔

ظلم کے سامنے سر کو جکا لینا کیا ہے
سچ میں یہ کوئی شرافت نہیں ہوتی صاحب
۔۔جھکا لینا؟ اسقاط کی وجہ سے اچھا نہیں لگ رہا
ظلم کے سامنے سر اپنا جھکا لینا کیا!!
ہو سکتا ہے۔ دوسرے مصرع میں ’سچ میں‘ بھی بدل دیں۔

بھولا دیتی ہے خودی بھی یہ تو ! ایسی ظالم
بھوک میں کوئی جہالت نہیں ہوتی صاحب
÷÷÷بھوک میں جہالت؟؟؟؟ بات سمجھ میں نہیں آئی۔ پہلا مصرع یوں بہتر ہو سکتا ہے
ایسی ظالم ہے، خودی کو بھی بھلا دیتی ہے

میں ہوں گستاخؔ منافق تو نہیں ہوں مجھ سے
آپ سی ہم سے بغاوت نہیں ہوتی صاحب
۔۔مجھ سے اور ہم سے میں تنافر ہے۔ مفہوم بھی نا مکمل ہے۔ کس بات سے بغاوت؟
 
اب مجھے اُن کی شکایت نہیں ہوتی صاحب
اپنی بھی اب تو وکالت نہیں ہوتی صاحب

اُس کی مخلوق اگر ہو کسی مشکل میں تو پھر
سجدہ کرنا تو عبادت نہیں ہوتی صاحب

میرا جوحق ہے وہ مل جائے گا مجھ کو آخر
ہم سے تو اس کی ریاضت نہیں ہوتی صاحب

خواہِشِ جسم بھی ہو جائے جو شامل اس میں
معذرت! یہ تو محبت نہیں ہوتی صاحب

ظلم کے سامنے سر اپنا جھکا لینا کیا
در حقیقت یہ شرافت نہیں ہوتی صاحب
سر الف عین

 
آخری تدوین:
Top