اصلاح : اسی کو عیاں اور نہاں دیکھتا ہوں

فاخر

محفلین
معروف صوفی شاہ نیاز بریلوی کی غزل کی زمین میں ایک ناکام سی کوشش ۔ مطلع کا پہلا شعر شاہ نیاز بریلوی کا ہے۔

غزل

افتخاررحمانی فاخرؔ

’ جدھر دیکھتا ہوں، جہاں دیکھتا ہوں ‘
اسی کو عیاں اور نہاں دیکھتا ہوں ‘

جسے کہتے ہیں اہلِ ظاہر تجلی ّ
اسے میں بصورت بتاں دیکھتا ہوں

کبھی تھا جو دل شادو فرحا ں جنوں میں
اسی کو میں اب بے کراں دیکھتا ہوں

میں وحشت سے گھبرا کے اے میرے ہمدم
بہ نظر ِکرم،آ سماں دیکھتا ہوں

مجھے یاد آتی ہے محبوب کی جب
میں اس کے قدم کے نشاں دیکھتا ہوں

جہادِ جنوں میں مشقت ہیں لاکھوں !
سو اس کو میں اک امتحاں دیکھتا ہوں

جدائی نے بخشے ہیں مجھ کو جو آنسو
لہٰذا اسے ارمغاں دیکھتا ہوں !

یہ معرا ج ہے میرے سودا کی فاخر!
جنوں کو میں اب جا وداں دیکھتا ہوں
 
مدیر کی آخری تدوین:

فاخر

محفلین
اس غزل کے ایک شعر میں ترمیم کی گئی ہے ۔
میں وحشت سے گھبرا کے اے میرے ہمدم
بہ نظر ِکرم،آ سماں دیکھتا ہوں
 

الف عین

لائبریرین
اس غزل کے ایک شعر میں ترمیم کی گئی ہے ۔
میں وحشت سے گھبرا کے اے میرے ہمدم
بہ نظر ِکرم،آ سماں دیکھتا ہوں
یہی تو اصل میں تھا!
پہلی بات مکمل مطلع اپنا نہیں بنایا جاتا، محض کسی مصرع پر گرہ لگائی جا سکتی ہے

جسے کہتے ہیں اہلِ ظاہر تجلی ّ
اسے میں بصورت بتاں دیکھتا ہوں
... درست

کبھی تھا جو دل شادو فرحا ں جنوں میں
اسی کو میں اب بے کراں دیکھتا ہوں
.. بے کراں اور شاد و فرحاں میں تضاد تو نہیں ہے، اگر تضاد ہوتا تو شعر بے ربط نہ ہوتا مثلاً
گھرا تھا جو دل کچھ عجب وحشتوں میں

میں وحشت سے گھبرا کے اے میرے ہمدم
بہ نظر ِکرم،آ سماں دیکھتا ہوں
... نظر کا تلفظ نذر تقطیع ہوتا ہے یعنی ظ مفتوح ہونی تھی

مجھے یاد آتی ہے محبوب کی جب
میں اس کے قدم کے نشاں دیکھتا ہوں
... ٹھیک

جہادِ جنوں میں مشقت ہیں لاکھوں !
سو اس کو میں اک امتحاں دیکھتا ہوں

.. واضح نہیں

جدائی نے بخشے ہیں مجھ کو جو آنسو
لہٰذا اسے ارمغاں دیکھتا ہوں !
... لہذا کی معنویت سمجھ میں نہیں آئی

یہ معرا ج ہے میرے سودا کی فاخر!
جنوں کو میں اب جا وداں دیکھتا ہوں
قافیہ معنی خیز نہیں
سودا کاہے کا؟ واضح نہیں
 
Top