اصلاحِ سخن: وہ آخری لمحے

فاخر رضا

محفلین
وہ آخری لمحے

از فاخر رضا


محمد مصطفیٰ کا لاڈلا ہے سُن ارے! قاتل
مجسم صبر کا کعبہ بنا ہے آج یه بسمل
رگ گردن سے بہتا ہے لہو اور لب پہ اسکے ہیں
دعا ئیں اور مناجاتِ خدا ہیں اور صدا ئیں ہیں
مرے قاتل ذرا سا صبر کرلے اور کچھ لمحے
مرے اس جسم سے بس روح کو پرواز کرنے دے
مرے خیمے کی جانب پیش قدمی روک دے ظالم
نہیں گر تو مسلماں نہ بھی ہو کچھ دین ہی تیرا
زمانے میں مگر آزاد بن کر سوچ تو اک پل
نہ جا خیموں کی جانب آل اطہر ڈر رہے ہوں گے
ترے گھوڑوں کی ٹاپوں کی دھمک سے، ان کی لرزش سے
ڈرے جاتے ہیں وہ ناشاد پیاسے گرد میں ڈوبے
نہ جا خیموں میں میرے قتل سے پہلے مرے قاتل
پلٹ کر دیکھتا ہے وہ ابھی کچھ سانس باقی ہے
نہیں حرکت مگر ہونٹوں سے کچھ الفاظ جاری ہیں
مرے اللہ میرے ملجا و ماوا مرے مالک
ترا وعدہ ہے سچا تو ہی بس توبہ کو سنتا ہے
تری رحمت کا طالب ہوں توہی قادر توہی مولی'
ترا ہی شکر ہے اور تیری ہی مجھ کو ضرورت ہے
تجھی پر ہے توکل اور مدد کا آسرا تو ہے
جو ہے تیری رضا ہم اس پہ صابر اور شاکر ہیں
نہیں کوئی الہ العالمیں تیرے سوا یارب
تو اسکے ساتھ ہے جو بے سہارا، غم کا مارا ہے
تو باقی ہے وگرنہ سب کا سب بس مٹنے والا ہے
میں اپنے اور ان کے درمیاں بس تجھ کو رکھتا ہوں
تو ہی فیصل ہے سارے فیصلے والوں سے بہتر ہے
میں تیرے پاس آتا ہوں میں تیرے پاس آتا ہوں
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
کچھ مصرعے روانی میں کمزور لگتے ہیں۔ مزید یہ کہ یہ واضح نہیں ہو رہا کہ کون کہہ رہا ہے یہ باتیں، شہید کربلا یا جس نے بات شروع کی ہے( شاعر)
رگ گردن سے بہتا ہے لہو اور لب پہ اسکے ہیں
دعا ئیں اور مناجاتِ خدا ہیں اور صدا ئیں ہیں
مرے قاتل ذرا سا.....
دونوں مصرعوں میں ردیف 'ہیں' محسوس ہوتی ہے، لیکن قافیہ نہیں ہے۔ ردیف ہٹا کر کہو تو شعر کا احتمال نہ رہے
پھر 'مرے قاتل..' کا راوی کون ہے؟ واضح نہیں

نہیں گر تو مسلماں نہ بھی ہو کچھ دین ہی تیرا
زمانے میں مگر آزاد بن کر سوچ تو اک پل
نہ جا خیموں کی جانب آل اطہر ڈر رہے ہوں گے
ترے گھوڑوں کی ٹاپوں کی دھمک سے، ان کی لرزش سے
ڈرے جاتے ہیں وہ ناشاد پیاسے گرد میں ڈوبے
نہ جا خیموں میں میرے قتل سے پہلے مرے قاتل
.. نہ دو حرفی مجھے قبول نہیں، یہ سارے مصرعے مزید روان بنائے جا سکتے ہیں
یہ غالباً حسین رض کہہ رہے ہیں لیکن واضح نہیں ہوا

پلٹ کر دیکھتا ہے وہ ابھی کچھ سانس باقی ہے
نہیں حرکت مگر ہونٹوں سے کچھ الفاظ جاری ہیں
.. وہ جون؟ شمر؟ سانس کس کی باقی ہے، کچھ واضح نہیں ۔ اتنا قاری کے گمان پر مت چھوڑو
اگلے سارے مصرعے شاید وہی 'الفاظ جاری ہیں' کا تسلسل ہے اور ٹھیک ہیں
البتہ
میں اپنے اور ان کے درمیاں بس تجھ کو رکھتا ہوں
.. 'ان' کون؟
 

فاخر رضا

محفلین
کچھ مصرعے روانی میں کمزور لگتے ہیں۔ مزید یہ کہ یہ واضح نہیں ہو رہا کہ کون کہہ رہا ہے یہ باتیں، شہید کربلا یا جس نے بات شروع کی ہے( شاعر)
رگ گردن سے بہتا ہے لہو اور لب پہ اسکے ہیں
دعا ئیں اور مناجاتِ خدا ہیں اور صدا ئیں ہیں
مرے قاتل ذرا سا.....
دونوں مصرعوں میں ردیف 'ہیں' محسوس ہوتی ہے، لیکن قافیہ نہیں ہے۔ ردیف ہٹا کر کہو تو شعر کا احتمال نہ رہے
پھر 'مرے قاتل..' کا راوی کون ہے؟ واضح نہیں

نہیں گر تو مسلماں نہ بھی ہو کچھ دین ہی تیرا
زمانے میں مگر آزاد بن کر سوچ تو اک پل
نہ جا خیموں کی جانب آل اطہر ڈر رہے ہوں گے
ترے گھوڑوں کی ٹاپوں کی دھمک سے، ان کی لرزش سے
ڈرے جاتے ہیں وہ ناشاد پیاسے گرد میں ڈوبے
نہ جا خیموں میں میرے قتل سے پہلے مرے قاتل
.. نہ دو حرفی مجھے قبول نہیں، یہ سارے مصرعے مزید روان بنائے جا سکتے ہیں
یہ غالباً حسین رض کہہ رہے ہیں لیکن واضح نہیں ہوا

پلٹ کر دیکھتا ہے وہ ابھی کچھ سانس باقی ہے
نہیں حرکت مگر ہونٹوں سے کچھ الفاظ جاری ہیں
.. وہ جون؟ شمر؟ سانس کس کی باقی ہے، کچھ واضح نہیں ۔ اتنا قاری کے گمان پر مت چھوڑو
اگلے سارے مصرعے شاید وہی 'الفاظ جاری ہیں' کا تسلسل ہے اور ٹھیک ہیں
البتہ
میں اپنے اور ان کے درمیاں بس تجھ کو رکھتا ہوں
.. 'ان' کون؟
جزاک اللہ
میں دوبارہ کوشش کرتا ہوں
 
Top