"اشک بن کر" اساتذہ کی توجہ کا طالب

اشک بن کرتری آنکھوں سےچھلکتاجاؤں

چومتا جاؤں ترےگال ڈھلکتا جاؤں

تھامرےقتل کی سازش میں برابرکاشریک

میں اسےپھربھی مسیحا ہی سمجھتاجاؤں

مرا سورج ہوا ناراض سو تاریکی ہے

چاندہُوں، کیسے ترے بن میں چمکتا جاؤں

بھول بھلیوں میں گھماتی رہی قسمت مجھکو

میں سرابوں کےتعاقب میں بھٹکتا جاؤں

سادہ دل جان کے بیچےمجھےجھوٹےسپنے

اورمیں اُن سےہی حقیقت کو بدلتا جاؤں

ترےوعدےتری قسمیں تو سر آنکھوں پہ مگر

شک کی دلدل سے بتا کیسے نکلتا جاؤں

عمر بس کٹ گئی اب یادِ جوانی باقی

قافلہ چھوٹ چلا راستہ تکتا جاؤں
 

الف عین

لائبریرین
بحر و اوزان تو درست ہیں ماشاء اللہ۔ خیالات بھی اچھے ہیں۔ بس قوافی اہل عروض کے نزدیک غلط ہیں۔ ڈھلکتا چھلکتا جیسے قوافی مطلع میں ہیں، وہی درست ہیں۔ یعنی جن میں ’لکتا جاؤں‘ مشترک ہو۔ اور ان سے پہلے کے حروف پ فتحہ یعنی زبر کی حرکت ہو۔ اگر ایسے قوافی مل سکیں تو!!!
ورنہ بہتر ہے کہ نہ صرف مطلع بلکہ مزید اشعار بھی تبدیل کر دیں جن میں آخر میں محض ’اجاؤں‘ مشترک ہو۔ ان کے درمیان اگر دو تین ’تا جاؤں‘ بھی ہوں تو چل سکتے ہیں۔ یعنی قوافی کہتا، سنتا، بہلا، نہایا، دیکھا سب ممکن ہیں۔
 
Top