اشعار میں محاوروں کا استعمال

سیما علی

لائبریرین
تُو سادہ تے تیرا دل سادہ ،تینوں ایویں رقیب کُراہ پایا
جے تو میرے جنازے تے نیں آیا، راہ تکدا اے تیری مزار آ جا

ترجمہ
ہو تم سادہ مگر ہمنشیں ہے بد آموز
جنازہ مل نہ سکے گا، سرِ مزار آؤ
 

سیما علی

لائبریرین
ایہہ رواج اے مسجداں مندراں دا ،اوتھے ہستیاں تے خود پرستیاں نے
میخانے وِچ مستیاں ای مستیاں نے ،ہوش کر، بن کے ہوشیار آ جا
ترجمہ:
رواجِ صومعہ ہستی ہے مت ادھر جاؤ
متاعِ میکدہ مستی ہے، ہوشیار آؤ
 

سیما علی

لائبریرین
افلاس کے عالم میں ہوئی تلخ حیات
طاعت بھی نہیں ہوتی بہ امید نجات

اے کاش نماز اور روزہ ہوتے
مشروط بہ مال جیسے حج اور زکوٰت
 

سیما علی

لائبریرین
جناب امیر خسرو رحمۃ اللہ کافارسی شعر )
از من آں کامیاب را چہ غمست
زیں شبِ ماہتاب را چہ غمست

( اردو ترجمہ )
میرا اس کامیاب کو غم کیا
رات کا ماہتاب کو غم کیا
 

سیما علی

لائبریرین
بگڑتے ہو عبث ، رہ جاؤگے ’’ اپنا سا منہ لیکر ‘‘
اگر آئینہ ’’ منہ پہ صاف کہہ بیٹھا ‘‘ صفائی سے
’’ داغ ‘‘
اُوپر کے دونوں اشعار میں تین محاورے استعمال ہوئے ہیں
1 – اوُپری دل سے
2 – اپنا سا منہ لیکر
3 – منہ پہ
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
داغ ہی نے کہا ہے کہ :
کعبہ کی ہے ہوس کبھی کوئے بتاں کی ہے
مجھ کو خبر نہیں مری مٹی کہا ں کی ہے!!!
 

سیما علی

لائبریرین
ہم نے دیکھا ہی نہیں ناصح سا کوئی بیوقوف
اُوندھی پیشانی کا ، اُوندھی کھوپڑی کا آدمی

سچ تو یہ ہے کہ عاشقی میں داغ
ایک ہی اپنے نام کا نکلا
( داغ )

1 – اُوندھی پیشانی کا
2 – اُوندھی کھوپڑی کا
3 – ایک ہی اپنے نام کا نکلا
 

سیما علی

لائبریرین
ہم نے دیکھا ہی نہیں ناصح سا کوئی بیوقوف
اُوندھی پیشانی کا ، اُوندھی کھوپڑی کا آدمی
( نامعلوم یا شاید داغ )
سچ تو یہ ہے کہ عاشقی میں داغ
ایک ہی اپنے نام کا نکلا
( داغ )

1 – اُوندھی پیشانی کا
2 – اُوندھی کھوپڑی کا
3 – ایک ہی اپنے نام کا
 

سیما علی

لائبریرین
نکتہ چیں ہے غمِ دل اُس کو سنائے نہ بنے
کیا بنے بات جہاں بات بنائے نہ بنے

غالب نے اس شعر میں تین محاورے استعمال کئے ہیں اور تینوں ﴿بنانا﴾ کے فعل سے بنائے گئے ہیں ۔

ا۔سنائے نہ بنے ۔ دوسرے کو بات سنانا یعنی سمجھانا مشکل ہو رہا ہے۔
۲۔ بنے بات۔ کام ہو جانا، کامیابی حاصل کرنا۔
۳۔ بات بنانا۔ منھ سے بات نہیں نکل رہی ہے، عزت کے ساتھ مفہوم ادا نہیں ہو پا رہا ہے، کچھ چھپانا ہے کچھ بتانا ہے، جو چھپانا ہے وہ ظاہر ہوا جا رہا ہے، جو ظاہر کرنا ہے اس کے لئے منھ میں ا لفاظ نہیں آ رہے ہیں یا ذہن ساتھ نہیں دے رہا ہے۔
ملاحظہ فرمائیے کہ ﴿بات بننا ﴾ اور﴿ بات بنانا﴾ میں بہت لطیف فرق ہے۔ باعتبارِ گرامر یہ صرف فعلِ لازم اور فعل متعدی کا فرق ہے مگر دیکھئے کہ اس فرق سے محاورہ کہاں سے کہاں سے لے جاتا ہے۔
یہ اُردو کا لفظ ﴿ بنانا﴾عربی کے مادہ ب۔ن۔ی۔ سےمشتق ہے۔ عربی کے اس لفظ کے معنی وہی ہیں جو انگریزی کے الفاظ To build اورTo construct سے ادا ہوتے ہیں ۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ہندی والے بھی اس لفظ کو ایسے استعمال کرتے ہیں جیسے یہ ہندوستان کی کسی زبان کا لفظ ہو۔۔۔۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
مومن خاں مومن کے اس شعر میں الگ الگ مصرعوں میں آنکھ سے جڑے دو محاورے ہیں،

آنکھ نہ لگنے سے سب احباب نے
آنکھ کے لگ جانے کا چرچا کیا!!!
 

سیما علی

لائبریرین
انہیں سوال پہ زعم جنوں ہے کیوں لڑئیے
ہمیں جواب سے قطع نظر ہے کیا کہئے
حسد سزائے کمال سخن ہے کیا کیجیے
ستم بہائے متاع ہنر ہے کیا کہئ
 
Top