اس ہستی کے نام جس کو شدت عدالت کی وجہ سے شہید کردیاگیا۔

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

صرف علی

محفلین
شہادت حضرت علی علیہ السلام
حضرت علی علیہ السلام کی ولادت:
حضرت علی علیہ السلام کی خصوصیات میں سے ایک منفرد خصوصیت آپ کی خانہ کعبہ کے اندر ولادت ہے ۔یہ حضرت علی علیہ السلام کی مخصوص خصوصیت ہے نہ اس سے پہلے کسی کویہ شرف نصیب ہوا ہے اورنہ اس کے بعدہوگا ۔یہ کرامت اور معجزہ الہی ہے جو ذات احدیت نے دنیا کو دکھایا وہ بھی دروازے سے نہیں بلکہ خانہ کعبہ کی دیوارکو شق کرکے آپ کی والدہ کو اندر بلایا اور عمل ولادت خانہ الہی کے اندر انجام پایا۔یہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ خدا کی خاص عنایات آپ ؑ کے اوپر تھی ۔
شیخ مفید ؒ فرماتے ہیں : امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام مکہ میں مسجد الحرام کے اندر جمعہ کے دن تیرہ رجب کو متولد ہوئے ۔آپ ؑ کی ولادت کے وقت عام الفیل (وہ سال جس میں ابرہہ نے ہاتھیوں کے ذریعہ خانہ کعبہ پر حملہ کیا تھا)کے واقعہ کو تیس سال کا عرصہ گذر چکا تھا۔ آپ ؑ کے علاوہ نہ کوئی اورخانہ کعبہ میں متولدہوا ہے نہ ہی کوئی اسکے بعد اس منزلت اور عظمت کو حاصل کر سکے گا۔( الارشاد جلد ١ص٥ ۔)
ابن صباغ مالکی لکھتے ہےں : حضرت علی علیہ السلام خانہ کعبہ کے اندر مکہ میں متولد ہوئے اور کسی کو نہ اس سے پہلے اور نہ اس کے بعد یہ شرف حاصل ہے ۔ یہ وہ فضلیت ہے جو خدا نے آپ ؑ کے لئے مختص کی ہے اوریہ آپ ؑ کے مقام ومنزلت کی بلند ی کا اظہار کرتی ہے اور آپ کی کرامات میں سے ہے ۔( الفصول المہمۃ ص ٣٠۔)
عتاب بن اسید سے روایت کی گئی ہے کہ انہوںنے کہا : حضرت علی علیہ السلام مکہ میں بارہ سال نبوت سے پہلے خانہ کعبہ کے اندرجمعہ تیرہ رجب کو متولد ہوئے اور آپ ؑ کی ولادت کے وقت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اٹھائیس سال کے تھے ۔( مرأۃ العقول ج ٥ ص ٢٧٦۔)
پس مشہور تاریخ تیرہ رجب جمعہ کے دن آپ کی ولادت ہوئی ہے ۔پیغمبر اکرم ؐعام الفیل کے سال متولد ہوئے تھے اور وفات کے موقع پر ٦٣ سال کے تھے تو اس لحاظ سے آپ کی ولادت ٥٦٩سے ٥٧٠ عیسوی بتائی گئی ہے اور حضرت علی ؑ کی ولادت کے وقت پیغمبراکرم ؐ کی عمر شریف ٣٠ سال لکھا گیا ہے تو اسی طرح حضرت علی ؑ کی ولادت ٥٩٩ عیسوی یا ٦٠٠ عیسوی بنتی ہے ۔( دانش نامہ اما م علی ؑ ج ٨ ص١٢ ۔)
حضرت علی علیہ السلام کے والد گرامی:
آپ ؑ کے والد جناب عبد مناف معروف بہ ابوطالب ابن عبد المطلب ہیں اور حضرت عبداللہ( والد گرامی پیغمبراکرم ؐ )کے بھائی ہیں اور اسی طرح حضرت علی ؑ اور پیغمبر اکرم ؐ چچا زاد بھائی ہےں ۔حضرت ابو طالب کے نام پر اختلاف نظرہے کچھ حضرات نے آپ کے نام اور کنیہ کو ایک ہی لکھا ہے یعنی ابوطالب (مروج الذہب ج ٣ ص ٢٦٩الاصابہ جلد٤ ص ١١٥۔)مگرکچھ حضرات نے آپ کا نام عبدمناف ذکر کیا ہے ۔( انساب الاشراف ج ٢ ص ٢٣ السیرۃ الحلبیہ ج ١ ص ١٣٤ مروج الذہب ج ٣ ص ٢٦٩۔ ) اور کچھ نے عمر ان نام بتایا ہے (الاصابہ ج ٤ ص ١١٥ ۔)مگر صحیح یھی ہے کہ آپ کا نام عبدمناف تھا ۔ بعد میں آپ کے بڑے بیٹے طالب کی وجہ سے آپ کو ابو طالب کہنے لگے اور اتنا زیادہ استعمال ہوا کہ آپ کے اصل نام کی جگہ لے لی۔ بلکہ یوں کہیں کہ کنیہ اصل نام کے اوپر چھاگیا۔( دانش نامہ حضرت علی ؑ ج ٨ ص ٦٤۔)حضرت ابوطالب کے چار بیٹے طالب ، عقیل ، جعفر، علی اور آپ کی بیٹیوں کے بارے میں اختلاف ہے کچھ حضرات نے دو بیٹیاںبنام فاختہ (ام ہانی ) اور جمانہ لکھاہے (مروج الذہب ج ٤ ص ٢٩٠ ۔)اور کچھ نے تین بیٹیاں لکھی ہےں ربطہ کا نام اضافہ کیاہے ۔( الطبقات ج ٨ ص ٢٦٧،دانش نامہ حضرت علی ؑ ج ٨ ص ٦٨۔)
عطا ،بن عباس سے نقل کرتے ہیں کہ جب حضرت ابو طالب کا ا نتقال ہواتو پیغمبر اکرمؐ نے فرمایا : اے چچا آپ نے صلہ رحم کیا خداوند آپ کو جزاء خیر عنا یت فرمائے ۔( تاریخ بغداد ج ١٣ص ١٩٦۔)امام شامی سے منقول ہے کہ :حضرت ابوطالب نے وفات کے موقع پر فرمایا: میں تم لوگوں کو خانہ کعبہ کی تعظیم اور تکریم کی سفارش کرتاہوں البتہ خدا کی رضایت اور خشنودی بھی اسی تعظیم اور تکریم خانہ کعبہ میں ہے ۔اور آخری بات جو آپ نے فرمائی وہ یہ تھی کہ : میں عبدا لمطلب کے دین پر پابندہوں ۔( قصہ کوفہ (بنقل از سبیل الہدی ج ٢ ص٥٦٢،) ص٣٠۔)
امام شامی کہتے ہیں : عبدالمطلب توحید پر اعتقاد کے ساتھ رخصت ہوا اور ابو طالب دین عبدا لمطلب پر پابند تھے اور انتقال کرگئے (قصہ کوفہ ص٣٠بنقل از سبیل الہدی.۔.)
حضرت علی علیہ السلام کی والدہ:
آپ کی والدہ گرامی فاطمہ بنت اسد ہیں ۔حضرت ابوطالب اور فاطمہ بنت اسد دونوں ایک ہی قبیلہ سے ہیں ۔ مورخ حضرات نے آپ دونوں کی شادی کو قبیلہ ہاشمی کی ایک مرد اور عورت کے درمیان پہلی شادی قرار دی ہے اور اسی لحاظ سے یہ شادی خاص اہمیت کی حامل ہے ۔( الطبقات ج ٨ ص ٢٦٧،دانش نامہ حضرت علی ؑ ج ٨ ص ٦٨۔)حضرت فاطمہ بنت اسد بہت ہی خدا ترس خاتون تھیں پیغمبر اکرم ؐ آپ کو ماں کے طورپریاد فرماتے تھے کیونکہ آپ ؐ کو جناب فاطمہ سے ماں کی محبت حاصل ہوئی تھی۔
عطاء بن ابی رباح نے ابن عباس سے نقل کیاہے کہ جب حضرت علی علیہ السلام کی والدہ فاطمہ بنت اسد کا انتقال ہوا تو پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے اپنی قمیض دی اور حکم دیا کہ اس سے کفن کریں ۔اور آپؐ خود قبر میں جا کر لیٹ گئے ۔ جب حضرت فاطمہ بنت اسد کی تدفین سے فارغ ہوئے تو کچھ افراد نے آپؐ سے سوال کیا :یارسول اللہؐ آپؐ نے کچھ ایسے کام انجام دیئے جو پہلے کبھی بھی انجام نہیں دیئے تھے ؟ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے فرمایا میں نے اپنی قمیص سے کفن دیاتاکہ بہشتی لباس آپ کو پہنایا جائے اور قبر میں اس لئے لیٹا تاکہ قبرکے فشار سے محفوظ رہ سکے کیونکہ انہوں نے ابوطالب کی رحلت کے بعد میری بہترین خدمت کی تھی۔ (قصہ کوفہ ص ٣١بنقل از فرائد السمطین ج ١ ص ٣٧٨ح٣٠٨۔)
 

صرف علی

محفلین
حضرت علی علیہ السلام کے اسماء القاب و کنیہ:
حضرت علی علیہ السلام کی والد گرامی حضرت فاطمہ بنت اسد نے آپ ؑ کا نام حیدر رکھاتھا(بحار الانوار ج ٣٥ ص ٤٥٢،الارشادص٩۔)جیسا کہ آپ خود فرماتے ہیں : انا الذی سمتنی امی حیدرا۔ آپ کے کنیہ ابو الحسن ابو تراب اور آپ ؑ کے القاب بہت زیادہ ہیں جن میں سے سب سے مشہور امیر المؤمنین ہے اور اسد اللہ کالقب آپؑ کو پیغمبر اکرم ؐ نے عطا فرمایاتھا (ذخائر العقبیٰ ص٩٢۔)۔
آپ کا سب سے مشہور و معروف نام علیؑ ہے ۔ اس نام گذاری کے سلسلے میں لکھا گیاہے کہ جب ابوطالب نے دیکھا کہ یہ فرزند ایک منفرد انداز میں دنیا میں آیا ہے تو اس کے نام کے سلسلے میں بھی بہت دقت کی ضرورت ہے ۔ اسی فکرمیں آپ نے بچہ کو گود میں لیا اور اپنی زوجہ فا طمہ بنت اسد کے ساتھ درّہ ابطح کی طرف حرکت کی ۔ دوران حرکت کچھ اشعار بھی پڑھ رہے تھے ۔ اسی دوران ایک شبیہ جو بادل کے مانند تھا ظاہر ہو ا ابوطالب نے اس کو پکڑا اور سینے سے لگاکر لوٹ آئے جب گھر میں دیکھا توا یک لوح تھی جس پر لکھا تھا : اے ابو طالب و فاطمہ ہم نے ایک پاک اور پاکیزہ بیٹا تم کو عنایت کیا ہے جس کا نام علی رکھا گیا اور یہ لوح آسمانی بھی دیوار کعبہ پر عبدالملک مروان کے عہد تک نصب تھی ۔
(بحارالانوار ج ٣٥ ص ١٩، مناقب آل ابوطالب ص ٢٦٠۔)
حضرت علی علیہ السلام کی تربیت وایمان بہ رسالت:
خدا کی ایک سب سے بڑی موہبت اور نعمت جو آپ کونصیب ہوئی وہ یہ تھی کہ حضرت علی علیہ السلام ابھی دس سال کے بھی نہیں ہوئے تھے کہ آپ ؑ کی تربیت اور تذکیہ کا وظیفہ پیغمبر اکرم ؐ نے اٹھایا ۔پیغمبراکرم ؐ نے اپنے خلق خو اور اپنی بزرگواری اور بڑھائی کے ذریعے آپ ؑ کی تربیت شروع کی اور کسی بھی حالت میں پیغمبراکرمؐ آپ کو اپنے سے جدا نہیں کرتے تھے ۔( سیرہ ابن ہشام ج ٢ ص ٢٦٢، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج١ ص١٤۔)
حضرت علی علیہ السلام خود اسی بارے میں فرماتے ہیں : وضعنی فی حجرۃ وانا ولدٌ یضمّنی الی صدرہ ، وتکْنفنی فی فراشہ ویمسُّنی جسدہ، ویشُمُّنی عرفہ وما وجدلی کذبۃً فی قولٍ ، ولاخطلۃً فی فعل ... أریٰ نورالوصی والرسالۃ وأشمُّ ریح النبوۃ ۔( شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ١٣ ص ١٩٧ خطبہ ٢٣٨۔) ۔
میں ایک چھوٹا بچہ تھا جب مجھے پیغمبر اکرم ؐ نے اپنی آغوش میں لیا اوراپنے سینے سے لگایااوراپنے بسترپہ اپنے نزدیک مجھے سلایا اور میرے بدن سے اپنے بدن کو ملایا اور مجھے نوازش دی اپنی خوشبو کو مجھے سونگھواتے تھے اور اپنے کھانے کو چبا کر مجھے کھلاتے تھے ۔ نہ کبھی جھوٹ بولا اور نہ ہی مجھ سے جھوٹ سنا ۔ میں ہمیشہ ان کی پیروی کرتا تھا ۔ اور ہر روز اپنے اخلاق میں سے کچھ مجھ کو سکھاتے تھے اور تاکیدفرماتے کہ اس پر عمل کروں ۔میں نے وحی کے نور کو دیکھا اور رسالت و نبوت کی خوشبوسے فیض یاب ہوا۔
فضل بن عباس سے روایت ہے میں نے اپنے والد سے سوال کیا کہ پیغمبر اکرم ؐ اپنے بیٹوں میں سے کس سے سب سے زیادہ محبت کرتے ہیں ۔ جواب دیا: حضرت علی علیہ السلام سے ۔ پیغمبر ؐ کے نزدیک سب سے محبوب کون تھے؟ جواب دیا کہ آپؐ کے نزدیک سب سے محبوب علی علیہ السلام تھے ۔ جب حضرت علی ؑ چھوٹے تھے تو کسی بھی صورت پیغمبرؐ سے جدا نہیں ہوتے تھے ۔میں نے پیغمبر اکرم ؐ سے زیادہ مہربان کسی با پ کو نہیں دیکھااور میں نے علی علیہ السلام سے زیادہ مطیع اور تابع بیٹا نہیں دیکھا۔( شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ١٣ ص ٢٠٠۔)
امیر المؤمنین علی علیہ السلام پیغمبر اکرم ؐ کے خاندان اور اصحاب میں سب سے پہلے وہ فرد ہیں جنہوں نے خدا پر ایمان اور آپکی پیغمبری پر ایمان لائے ۔اور یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کو تمام شیعوں اور اکثر اہلسنت کے مورخین نے قبول کیاہے ۔ خود حضرت علی علیہ السلام اس سلسلے میں فرماتے ہیں : پیغمبر اکرمؐ ہر سال کچھ مدت غار حرا میں گذارتے تھے ۔ ان ایام میں میرے علاوہ کوئی اور آپ ؐ کو نہیں دیکھتاتھا ۔ان ایام میں پیغمبرؐ اورحضرت خدیجہ کے علاوہ کوئی اور اسلام کی طرف نہیں آیا تھا اور میں تیسرا فرد تھا ۔ میں رسالت کے نور کو دیکھتا تھا اور نبوت کی بو کو سونگھتاتھا۔ میں فطرت اسلام میں پیدا ہوا ہوں اور ایمان اور ہجر ت میں سب پر مقدم ہوں ۔( الارشاد، ج١ ،ص٣ ،اسد الغابہ ، ج٤ ص٩١، نہج البلاغہ خطبہ ١٤٦۔)
یہاں پر حضرت علی علیہ السلام کے ان جملات سے مرحوم مولانا کوثر نیازی کی ایک بات یاد آتی ہے کہ مولانا موحوم اپنی کتاب مولا علی علیہ السلام میں لکھتے ہیںکہ مسلمانوں کی یہ لڑائی کہ پہلے کون مسلمان ہوا تو میں کہتا ہوں کہ حضرت علی علیہ السلام کو اسی جھگڑے میں شامل نہ کریں کیونکہ پہلے
مسلمان یا دوسرے مسلمان کی بحث وہاں آتی ہے جہاں پر کوئی شخص پہلے کسی دین یا مذہب میں رہے اور اس سے پلٹ کر دوسرا دین اختیار کرے لیکن حضرت علی علیہ السلام تو پہلے سے ہی مسلمان تھے کسی اور دین کو انہوں نے اختیار ہی نہیں کیا کہ بحث کریں پہلے مسلمان حضرت علی ؑ ہے یا نہیں ۔ کیونکہ خود حضرت علی ؑ نے فرمایامیں فطرت اسلام پر پیدا ہوا ہوں اور ایمان میں سب سے مقدم ہوں ۔( نہج البلاغہ خطبہ ١٤٦۔)
حضرت علی علیہ السلام ایک اور جگہ فرماتے ہیں : کیا تم لوگوں کو معلوم ہے کہ میں وہ پہلا فرد ہوں جس نے خدا اور پیغمبر ؐ پر ایمان لایا اور میرے بعد تم لوگ دستہ دستہ اسلام کی طرف مایل ہوئے ۔( عیون اخبار الرضا ،ج ١، ص٣٠٣، دانش نامہ حضرت علی ؑ ،ج ٨ ،ص ١٥١۔)
برہان الدین حلبی شافعی حضرت سلمان فارسی سے روایت کرتے ہےں کہ پیغمبراکرم ؐ نے فرمایا: میری امت میں سب سے پہلے وہ شخص حوض (کوثر ) پر آئے گا جس نے سب سے پہلے ایمان لایا ہو ؛یعنی حضرت علی علیہ السلام اور حضور نے ایک بات اس وقت کہی جب حضرت علی علیہ السلام کی شادی حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے ہوچکی تھی پیغمبر ؐ نے جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا سے فرمایا: تمہارا شوہر دنیا وآخرت میں تمام لوگوں کا سردار ہے کیوں کہ وہ اصحاب میں سے پہلا فرد ہے جو مجھ پر ایمان لائے ۔( السیرۃ الحلبیہ ،ج ١، ص٢٦٨۔)
ولایت حضرت علی علیہ السلام: حضرت علی علیہ السلام جس دن سے پیغمبر اکرم ؐ کی زیر سرپرستی میں گئے اسی دن کے بعد سے لیکر شہادت کی رات تک کسی بھی وقت اور کسی بھی لمحہ دفاع از رسالت اور دین الہی سے پیچھے نہیں ہٹے ۔ نبوت کے شروع ہوتے ہی پیغمبر اکرم ؐ کو مأموریت ملی کہ سب سے پہلے اپنے قبیلے والوں کو دعوت اسلام دیں ۔ آیہ شریفہ وانذر عشیرتک الاقربین (سورہ شعراء آیت ٢١٤۔)کے ذریعہ پیغمبراکرمؐ کو اس کام کی مأموریت ملی کہ قبیلہ والوں کودین خدا کی طرف بلاؤاور ان کو خدا کی نافرمانی سے ڈراؤ ۔
پیغمبراکرمؐ نے حضرت علی ؑ کو حکم دیا کہ کھانا تیار کرو اور اولاد عبدالمطلب میں سے چالیس مرد اور خواتین کو دعوت دی کھانے کے بعد پیغمبراکرمؐ تین مرتبہ کھڑے ہوئے اور فرمایا : تم میں سے کون ہے جو میری مدد کرے تاکہ وہ میرا بھائی وصی اور میرا جانشین بنے ؟ تینوں دفعہ سب نے اپنے سروں کوجھکادیا سوائے حضرت علی ؑ کے جو اس محفل میں سب سے چھوٹے تھے کھڑے ہوئے اور ہر تینوں دفعہ آپؐ کی تصدیق کی اور اعلان کی اس وقت پیغمبراکرمؐ نے فرمایا ؛ یہ علی ! میرا بھائی ، وصی اور تمہارے درمیان میرا جانشین ہے تم سب پر لازم ہے اس کے احکام کو سنو اور اس پر عمل کرو۔اس بات پر سب کے سب ہنسنے لگے اور حضرت ابوطالب کو مخاطب کرکے کہا : محمدؐ تجھے حکم دے رہا ہے کہ تم اپنے بیٹے کی اطاعت کرو۔
پس یوم الانذار وہ پہلا دن ہے جس دن ولایت و جانشینی حضرت علی ؑ کا اعلان ہوا۔( تاریخ طبری ، ج٢ ، ص ٣٢٠، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید،ج ١٣ ص ٢١٠، بحار الانوار ج ٥ ٣ص١٧٤۔)
اس کے بعد تاریخ میں ملتا ہے کہ پیغمبر اکرم ؐ بہت جگہ تصدیق اور بہت سی جگہ عملاً حضرت علی علیہ السلام کی ولایت اور جانشینی کا اعلان فرماتے رہے ۔ ہجرت سے لیکر غدیرتک تاریخ کے اوراق پیغمبر اکرم ؐ کی حدیثوں سے بھری ؎ہوئی ہیں جن میں آپ کی ولایت کا اعلان اور آپ ؑ سے محبت کی قدر و منزلت اور آپؑ کے دفاع اور پیروی کا حکم ملتا رہا۔مگر تاریخ اسلام کا سب سے تاریخی واقعہ ١٨ذالحجہ سال دس ہجری پیر کے دن غدیر کے میدان میں رونما ہوا ۔ پیغمبر اکرم ؐ مکہ سے مدینہ کی جانب حرکت میں تھے جب قافلہ غدیر خم پر پہنچا تو پیغمبر اکرم ؐ نے سواری کا رخ غدیر کے مقام کی طرف موڑا اور لوگوں سے فرمایا: یاایھاالنّاس اجیبوا داعی اللہ انا رسول اللّہ ۔ اے لوگوں دعوت الہی کی جانب اجابت کرو میں رسول اللہ ہوں ۔ان الفاظ میں جو بات چھپی تھی وہ یہ کہ وہ وقت آن پہنچا ہے جس کا حکم خدا کی طرف سے آیت یا ایہا الرسول بلغ ما انزل الیک کے ذریعے دیا گیاہے ۔اور آج اسی حکم اور فرمان الہی کو لوگوں تک پہنچانے کا دن ہے ۔ تمام کاروانوں کو واپس بلایا اور پیچھے سے آنے والوں کا انتظار کیا اور اس کے بعد مقداد ،سلمان اور ابوذر وعمار کے ذریعے اونٹوں کے پلانوں کے ذریعے ایک بہت اونچا منبر بنایا(بحار الانوار ،ج ٢١،ص٣٨٧،ج٩٨،ص٢٩٨، تفسیر العیاشی ،ج٢ ص ٩٧ ، الاحتجاج ، ج١ ،ص٦٦ ۔) اور ظہر کے نزدیک اذان ظہر کے بعد نماز جماعت ادا فرمائی اور اس کے بعد منبر پر تشریف لے گئے اور خطبہ شروع فرمایا۔ اس اجتماع میں تاریخ نویسوں کے مطابق ایک لاکھ بیس ہزار افرادموجود تھے۔ اوریہ تاریخ اسلام کا سب سے تاریخی خطبہ تھا۔
پیغمبر اکرم ؐ نے خطبے میں حمد الہی کے بعد تمام اوامر جوخدا کی طرف سے لوگوں کےلئے نازل ہوئے تھے ان کا تذکر دیا ۔ اور اس کے بعد ولایت اور امامت کا تذکرہ کیا اوروہ وقت پہنچ گیا جب پیغمبر اکرم ؐ نے حضرت علی ؑکو بازوں سے پکڑ کر اونچا کیا اور بلندآوازمیں فرمایا: من کنت مولاہ فہذا علی مولاہ ۔ اور اس کے بعد فرمایا: اللّہم وال من والاہ و عاد من عاداہ یہ وہ موقع تھا کہ خدا کی طرف سے آیہ شریفہ : الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم السلام دیناً(مائدہ آیت ٣۔)کو نازل فرمایا۔ یہ وہ مقام ہے جہاں ولایت علی ؑ کو رسمیت الہی حاصل ہوئی اور ولایت علی ؑ کے ذریعے دین اسلام کو تقویت اور یہی ولایت نعمتوں کی انتہیٰ بنی ۔( احقاق الحق ج ٢١ ص ٥٣الی٥٧ اثبات الہداۃ ج ٢ ص ٢٦٧، اقبال الاعمال ص ٤٥٣، الاصابہ ج٢ ص ٢٥٧ ، اسد الغابہ ج ٣ ص٩٢ الارشاد ص ٨٩ الی ٩٣ بحارالانوار ج ٣٧ ص ٢٠١ الی ٢٠٧، الیقین ص ٣٤٣ باب ١٢٧،۔)
 

صرف علی

محفلین
فضائل علی علیہ السلام :
فضائل ومناقب امام علی ؑ کسی کتاب یا نوشتہ جات میں نہیں سمائے جاسکتے اگر حضرت علی ؑ کے فضائل بیان کرنے کے لئے دریا سیاہی اور دنیا کے سارے درخت قلم کا کام انجام دیں تو پھر بھی کم پڑے گا اورکاغذ قلم سیاہی اتمام تک پہنچیں گے مگر علی ؑ کے فضائل ختم نہیں ہونگے ۔ ہم فقط تبرک کے طور پر چند فضائل بیان کررہےں ہیں تاکہ ثواب سے محروم نہ ہو۔
بحارالانوار میں علامہ مجلسی ؒ فرماتے ہیں : روی الثقات عن النبیؐ انّہ قال: یاعلی ؑ : لک اشیاء لیس لی مثلہا انّ لک زوجۃ مثل فاطمۃ ولیس لی مثلہا ولک ولدان من صلبک ولیس لی مثلہما من صلبی ولک مثل خدیجہ اُم اہلک ولیس لی مثلہا حماۃ ولک صہرمثلی ولک اخ فی النسب مثل جعفر ولیس لی مثلہ فی النسب ولک ام مثل فاطمہ بنت اسد الہاشمیہ المہاجرۃ ولیس لی مثلہا؟( بحار الانوار ج ،٤٠ص٦٨۔)
موثق افراد نے رسول اکرم ؐ سے نقل کیا ہے کہ آپ ؐ نے فرمایا : یاعلی ؑ تمہارے لئے کچھ خصوصیات ہیں جو میرے لئے نہیں تمہارے لئے فاطمہ جیسی بیوی نصیب ہوئی جو مجھے نہیں ،تمہارے نسل سے دو بیٹے (حسن ؑوحسین ؑ) ہیں جبکہ میرے لئے نہیں ، تم کو خدیجہ جیسی ساس نصیب ہوئی مجھ کو نہیں تمہارے مجھ جیسا سسر نصیب ہوا جو مجھے نہیں ملا ،تمہارے لئے ایک ماںباپ سے جعفر جیسا بھائی نصیب ہوا جو مجھے حاصل نہیں ، اورتم کو خاندان بنی ہاشم سے فاطمہ بنت اسد جیسی ماں نصیب ہوئی جو مجھے نہیں ۔
اسی طرح اور رایک وایت میں ہے : اتت فاطمہ علیہا السلام النبی ؐ فذکرت عندہ ضعف الحال فقال لہا اما تدرین ما منزلۃ علی عندی کفانی امری وہو ابن اثنتی عشرۃ سنۃ و ضرب بین یدی بالسیف وہو ابن ست عشرۃ سنۃ قتل الابطال وہو ابن تسع عشرۃ سنۃ وفرّج ہمومی وہو ابن عشرین سنۃ ورفع باب خیبر وہو ابن اثنین وعشرین سنۃ و کان لایرفعہ خمسون رجلاً قال فأشرق لون فاطمہ علیہاالسلام ولم تقرّ قدماہ حتی أتت علیاً علیہ السلام فأخبرتہ فقال کیف لوحدّ ثک بفضل اللہ علی کلہ(بحار الانوار ج ٤٠ص٦۔)
ایک دن حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا پیغمبراکرمؐ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور اپنی تنگی اورضعف کی شکایت کی ۔پیغمبراکرمؐنے فرمایا : آیا تمہیں معلوم ہے کہ میرے نزدیک علی ؑ کیا منزلت ہے ؟ اس نے میرے اوامر کی اطاعت کی جبکہ وہ بارہ سال کے تھے ، اسلام کے لئے تلوار چلانے میں پہل کی جبکہ سولہ سال کے تھے ، بڑے بڑے بہادر اور پہلوان دشمنوں کو کیفر کردار تک پہنچایاجبکہ وہ انیس سال کے تھے، بیس سال کی عمر میں اس نے میرے غم اور غصہ کو مٹایا اور میرے لئے مداوا بنے ، بائیس سال کی عمرمیں باب خیبر کو اکھاڑپھینکا( جبکہ یہ دروازہ پچاس آدمیوں سے اٹھنا مشکل تھا)جب یہ سنا تو حضرت فاطمہ کا چہرہ مطہر نورانی ہوا اور پیغمبرؐ کے حضور نہ بیٹھ سکیں اٹھ کر حضرت علی ؑ کے پاس گئیں اور سارا قصہ سنایا تو حضرت علی ؑ نے فرمایا: اگر رسول ؐ وہ تمام فضائل جو خدانے مجھے عنایت فرمائے ہیں بتاتے تو تم کیا کرتیں۔
حضرت علی ؑ میں وہ تمام فضائل ایمان، تقوا، علم ، زہد، شجاعت ،سخاوت ...اور دیگر تمام فضائل نہایت اعلی درجہ کے موجودہیں ، یعنی میں اور آپ ان کے لئے جتنادرجہ دے سکتے ہیں دیں تو ان کا عالی ترین درجہ حضرت علی ؑ کے وجود شریف میں موجود ہے، اور یہ ایسا موضوع ہے جس کے بارے میں دوستداران اور ماننے والے اور عاشق تو پہلے ہی سے قائل تھے مگر آپ ؑ کے دشمن اور آپ ؑ سے کدورت رکھنے والے بھی ان فضائل کا اقرار کرتے ہیں ۔
رخ یوسف ید موسی دَم عیسی داری آن چہ خوبان ہمہ دارند ، توتنہاداری۔
عبادت گزار ترین فرد علی علیہ السلام :
سب پر واضح و عیاں ہے کہ کوئی بھی شخص عبادت اور خلوص نیت میں علی ؑ کا ہمتا نہیں ہے حضرت علی ؑ نے عبادت گزاروں کوتین قسموں میں تقسیم فرمایاہے:انّ قوماً عبدوا اللہ ورغبۃً فتلک عبادۃ ُ التّجار وانَّ قوماً عبدوااللہ رہبۃًفتلْک عبادۃُ العبید وانّ قوما ً عبدواللہ شکراً فتلک عبادۃُ الاحرار ۔
ایک گروہ خداکی عبادت کرتاہے تاکہ ثواب حاصل کرے یہ عبادت تاجروں کی عبادت ہے دوسراگروہ وہ ہے جو عبادت کرتاہے خداکا خوف اور عذاب آخرت کی وجہ سے یہ بندوں اور غلاموں کی عبادت ہے اور تیسرے وہ افراد ہیں جو خدا کی عبادت کرتے ہیں تاکہ اس کا شکر ادا کرسکیں اور خدا کی عطا کی ہوئی نعمتوں کا شکریہ ادا کریںیہ عبادت آزاد مردوں کی عبادت ہے ۔
ایک اور جگہ فرماتے ہیں : الہی ماعبدتک خوفاً من عقابک ولاطمعاً فی ثوا بک ولکن وجدتک اہلاً للعبادۃ فعبدتک۔( بحارالانوارج٤١،ص١٤۔)
خدایا: میں نے تیری عبادت تیرے خوف اور عقاب کے ڈر کی وجہ سے یاثواب کی طمع میں نہیں کی ہے بلکہ میں نے تیری ذات احدیت کو عبادت اور پرستش کامستحق پایا ہے اور اسی وجہ سے تیری عبادت کرتاہوں۔
روایات میں ملتاہے کہ حضرت علی ؑ دن اور رات کے اندر ایک ہزار رکعت نماز پڑھا کرتے تھے۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں : انّ علیاً فی آخرعمرہ یصلی فی کلّ یوم ولیلۃ الف رکعۃ : امیرالمؤمنین علی علیہ السلام اپنی عمر کے آخری ایام میں دن اور رات کے اندرایک ہزار رکعت نماز پڑھاکرتے تھے ۔( بحارالانوار ج٤١ ص١٤ ۔)
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں : کان علی بن الحسین علیہماالسلام یصلی فی الیوم واللیلۃ الف رکعۃٍ کما کان یفعل امیرالمؤمنین علیہ السلام کانت لہ خمس مائۃ نخلۃٍ وکان یصلّی عند کل نخلۃ ٍ رکعتین۔( بحار الانوارج٤١،ص١٧۔)
امام فرماتے ہیں : امام زین العابدین علیہ السلام دن رات کے اندر ایک ہزار رکعت نماز پڑھا کرتے تھے جس طرح آپؑ کے جد بزرگوار حضرت علی ؑ کرتے ۔ حضرت علی ؑ کے باغ میں پانچ سو خرما کے درخت تھے اور آپؑ ہر درخت کے نیچے دو رکعت نمازپڑھا کرتے تھے ۔
حضرت علی علیہ السلام کی عبادت اور خلوص نیت کے شاہد کے طورپر ایک تاریخی واقعہ کا خلاصہ : پیغمبر اکرمؐ کو کسی کی طرف سے دو موٹے اونٹ ہدیہ کے طور پرملے تھے ۔پیغمبر اکرمؐ نے اپنے اصحاب سے فرمایا: اگر تم میں سے کوئی وضوء کے ساتھ دو رکعت نماز وہ بھی خضوع و خشوع کامل اور تمام شرائط کے ساتھ ادا کرے اور نماز کے دوران دنیا کے بارے میں بلکل نہ سوچھے توان دو اونٹوں میں سے ایک دے دونگا۔فقط علی علیہ السلام نے فرمایا :مجھے قبول ہے ۔اور نماز پڑھی ۔جبرئیل امین پیغمبر اکرمؐ پر نازل ہوئے اور عرض کی :خدا نے آپ ؐ کو سلام کہا ہے اور کہاہے کہ ان دونوں اونٹوں میں سے ایک علی کو دے دو۔پیغمبر اکرمؐ نے فرمایا: شرط یہ تھی کہ دنیاکے بارے میں کوئی چیز نہ سوچے مگر علی تشہد کے موقع پر اس فکر میں تھے کہ کونسا اونٹ حاصل کروں ۔ جبرئیل نے کہا: علی ؑ سوچ رہے تھے کہ جتنا ہوسکے موٹے اور قوی اونٹ کو حاصل کروں تاکہ خدا کی راہ میںصدقہ دے سکوں اور یہ فکر الہی ہے نہ فکر دنیوی ۔ پیغمبر اکرمؐ رونے لگے اور اس کے بعد دونوں اونٹ حضرت علی کو دئیے اور آپ ؑ نے دونوں اونٹوں کو نحر فرما کر خدا کی راہ میں صدقہ دیا۔( بحار الانوار ج٣٦ص ١٦١، مناقب آل ابی طالب ابن شہرآشوب ج٢ ،ص٢٠، دانشنامہ امام علی علیہ السلام ج٤ ،ص٥٠۔)
١۔شہادت حضرت علی علیہ السلام
حضرت علی علیہ السلام کو شہادت کی خبرتھی:

حضرت علی علیہ السلام ماہ مبارک رمضان میں شہید ہوئے ۔حضرت علی علیہ السلام کو اپنی شہادت کے بارے میں پہلے سے علم تھااور ہمیشہ خدا سے طالب شہادت تھے حضرت علی علیہ السلام
سے منقول ہے کہ آپ فرماتے تھے کہ مجھے عارہے کہ بسترپر نیند کی حالت میں موت آئے ۔ حضرت علی علیہ السلام کو پیغمبراکرم ؐ نے پہلے ہی شہادت سے مطلع فرمایا تھا۔ایک روایت جو کہ بہت مفصل ہے اس میں پیغمبراکرم ؐ فرماتے ہیں : یاعلی میرے بعد تیس سال زندگی کرو گے ان سالوں میں تم پر جو ظلم اور ستم ہوان پہ صبرکرنا ایسے اصحاب اور ساتھی تم کو ملیں گے جن کے ساتھ قرآن کی تاؤیل اور تفسیر کرتے ہوئے دشمنوں سے جنگ کروگے جس طرح میرے ساتھ نزول قرآن کے وقت کفار کے ساتھ جنگ کی اورآخرمیں شہید ہوجاؤگے اور تمہاری داڑھی تمہارے خون سے رنگین ہوجائے گی اور تمہارا قاتل کابھی حضرت صالح کی ناقہ کو قتل کرنے والوںکی ردیف میں اور دشمنان خدا میں شمار ہوگا۔اس وقت حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: یارسول اللہ و ذلک فی سلامۃ دینی فقالؐ: فی سلامۃ من دنیک ثمّ قال یا علی من قتلک فقد قتلنی ومن ابغضک فقد ابغضنی۔ حضرت علی علیہ السلام نے سوال کیا: یا رسول اللہ جب میں شہید کیا جاؤنگا تو آیا میرادین سالم ہوگا ؟ پیغمبر اکرمؐ نے فرمایا:ہاںتمہارا دین سالم ہوگا ۔یاعلی تیرا قاتل ایسا ہے جیسے اس نے مجھے قتل کیا اور جوشخص تجھ سے بغض رکھے گا حقیقت میں وہ مجھ سے بغض رکھتاہے۔
٢۔حضرت علی علیہ السلام کو شہید کرنے کی شازش کرنے والے:
حضرت علی علیہ السلام کی اس مختصرخلافت میں تین جنگیں ہوئیں ، جنگ جمل ، صفین ، نہروان اور یہ تینوںجنگیںپانچ سال کے اندر پیش آئیں اور ان جنگوں میں ہزاروں لوگ مارے گئے ۔ان جنگوں کی وجہ سے لوگوں کی روحیوں پر بہت برا اثر پڑا اور لوگوں کے عقائد کمزور پڑھ گئے اور ان کی اجتماعی زندگی بہت سختی سے گذرنے لگی ۔ جبکہ ابھی تک لوگوں کے درمیان پیغمبر اکرم ؐ کے اصحاب زندہ تھے جو حضرت علی علیہ السلام کی منزلت اور حقانیت سے کاملاً آشنائی رکھتے تھے حتی حضرت علی ؑکے ہمراہ جنگوں میں حصہ لیا تھا مگر کم علمی اور ایمان اور عقائدکی ضعف کی وجہ سے اورجوامع اسلامی میں آپس میں ہونے والی جنگوں کی وجہ سے لوگوں کی نظر میں آپ کی انجام دی ہوئی جنگیں بھی قدرت کے حصول اور حاکمیت کی خاطر ہونے والی جنگیں حساب کرنے لگے اور اسی وجہ سے خوارج کا گروہ تشکیل پایا اور یہ خوارج کی خارجی گری اور مذہب و خلافت سے دوری باعث بنی کہ ایساگروہ تشکیل پائے جو باعث بنے کہ روئے زمین کے سب سے عظیم شخص کو شہید کردیاجائے۔
استاد شہید مرتضی مطہری فرماتے ہیں :خوارج یعنی شورش گر اور طغیان کرنے والے افراد یہ کلمہ خروج سے یعنی سرکشی اور طغیان کے معنی میں آتا ہے۔ یہ گروہ جنگ صفین میں تشکیل پایا اور اس گروہ کے بننے میں معاویہ کا بہت بڑا ہاتھ ہے ، معاویہ نے عمرو عاص کی مشورت سے ایک بڑی اور ماہرانہ چال چلی حکم دیا کہ قرآنوں کو اپنے نیزوں پر اٹھاؤجسکی وجہ سے کچھ لوگ جو نادان اور مقدس نما تھے جو کہ تعداد میں بہت زیادہ تھے معاویہ کی اس چال کے چکر میں آگئے اور جب مولا نے حکم دیا کہ جنگ کو ادامہ دو تو یہ لوگ ایک دوسرے کو اشارہ کرکے کہتے ہیں : علی ؑ کیاکہہ رہا ہے ہم قرآن کے ساتھ لڑیں۔
یہ گروہ شروع میں تو ایک باغی اور سرکش فرقہ تھا مگرآہستہ آہستہ ان لوگوں نے ایک گروہ کی صورت اختیار کرلی اوراپنے لئے خاص عقائد اور اصول وضع کرنے لگے شروع میں تو فقط سیا سی طرح کے تھے مگر بعد میں ایک مذہبی فرقہ میں تبدیل ہوگیا ۔ اور ان کے ذہنوں میں یہ بات پرورش پائی کہ اسلام کے اندر ہونے والے مفاسد کو ختم کردیں ۔اور دنیا ئے اسلام سے مفاسد کے ریشہ کوسر ے سے مٹادیں ۔ اور اس نتیجہ پرپہنچے کہ عثمان ، علی و معاویہ سب سے زیادہ خطا کار اور گناہ گنارہیں ۔ یہ گروہ شروع میں تو عثمان و علی کی خلافت کے قائل تھے مگر وہ کہتے تھے کہ عثمان اپنی خلافت کے چھٹے سال سے صحیح راستہ سے ہٹ کر مصالح مسلمین کے ضرر والے راستہ پر گیاہے لہذا واجب القتل ہے اور حضرت علیؑ نے تحکیم کے مسئلہ کو قبول کیاہے اور توبہ نہیں کی لذا(العیاذباللہ)واجب القتل ہے ۔( جاذبہ و دافعہ علی علیہ السلام ص١١٤لی ١٣٠۔)
 

صرف علی

محفلین
٣۔قتل کی سازش کو اجراء کرنے والے افراد:
جب گروہ خوارج نے اپنے استدلال کے ذریعے اس بات کو یقینی کرلیا کہ ان لوگوں کو قتل ہونا چاہئے تو اس کے اجراء کے لئے انہوں نے مکہ میں ایک جلسہ تشکیل دیا اور اس جلسہ میں مسلمانوں کے رہبروں کے بارے میں تفصیلی گفتگوکی اور ان کے انجام دیئے ہوئے کاموں کو معیوب حساب کیا اور اس جلسہ میں نہروان کی جنگ میں مارے جانے والوں کے لئے دعائے مغفرت کی اورافسوس کا اظہار کیا اور سب نے مل کرکہا کہ : اگر ہم اپنے خدا کے ساتھ معاملہ کریں اور اپنی جان کو اس کی راہ میں فدا کرنا چاہیں تو ہم پر لازم ہے سب سے پہلے مسلمانوں کے حکام کی طرف جائیں اور ان کو غافلگیرانہ طور پر قتل کردیں تاکہ لوگ ان کے ہاتھوں سے چھٹکارا حاصل کریں۔
اسی وجہ سے سب نے پیمان اور عہد کیاکہ ذوالحجہ کے مہینہ کے بعد اس خبیث نقشہ کو اجرا ء کریںعبدالرحمن بن ملجم مرادی نے کہا کہ علی ؑ کو قتل کرنے کی ذمہ داری میری ہے برک بن عبداللہ تمیمی نے معاویہ کو قتل کرنے کا بیڑا اٹھایا اور عمرو بن بکرنے عمرو عاص کو قتل کرنے کی ذمہ داری سنبھال لی (الارشاد ص ١٦تاریخ خلفاء ص ١٧٥۔)
اور سب نے عہد کیا کہ کسی بھی وجہ سے اپنے اس عہد سے نہ پھیریں اور ماہ رمضان کی ایک رات کو اس عہد پر عمل کریںاور اس کام کے لئے ١٩ رمضان کی رات معین کی گئی ۔( شرح نھج البلاغہ ابن ابی الحدید ج٦ ص ١١٣۔)
٤۔حضرت علی علیہ السلام کا قاتل کون ؟
عبدالرحمن بن عمرو بن یحيٰ بن عمروبن ملجم بن قیس بن مکسوح بن مقضہ ۔ جو کہ معروف ہے عبدالرحمن بن ملجم مرادی ۔یہ شخص یمن کا رہنے والا تھا۔ جب عثمان کو قتل کردیا گیا اور حضرت علی ؑ مسند خلافت پر بیٹھے تو آپ نے یمن کے حاکم جو کہ پہلے حبیب بن منتجب تھے اور عثمان کی طرف سے حاکم یمن تھے کو اپنی جگہ برقرار رکھا اور اس کوخط لکھا کہ اپنے علاقہ کے دس باہوش ،عاقل، فصیح اور مورد اطمینان افراد کو میری طرف بھیج دو تو ان دس آدمیوں میں سے ایک ابن ملجم مرادی تھا۔
یہ لوگ جب حضرت علی ؑ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سلام کے بعد ابن ملجم کھڑا ہوا اور کہنے لگا: السلام علیک ایہاالامام العادل ، والبدر التمام واللّیث الہمام ، والبطل
الضرعام ، والفارس القمقام ومن فضّلہ اللّہ علی سائر الایام صلی اللہ علیک وعلی آلک الکرام اشہد أنّک امیرالمؤمنین صِدقاً وحقاً وأنّک وصیُّ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ والسلم من بعدہ۔( بحارالانوار، ج ٤٢ ،ص٢٦٠۔)
حضرت علی علیہ السلام نے جب اس کے یہ کلمات سنے تو ایک عمیق نگاہ سے دیکھا ۔اور سب کے سب مہمانوں کو ہدیہ اور انعام سے نوازا۔
ابن ملجم کے بارے میںلکھا گیا ہے کہ جب اس نے چاہاکہ بیعت کرے تو تین دفعہ امام نے اس کی بیعت کو قبول کرنے سے انکار کیاجب تیسری بار آیاتھاحضرت نے اس کی بیعت کو قبول کی اور بیعت کے وقت فرمایا: کیاچیز انسان کو متقی ترین فرد بننے سے روک سکتی ہے ؟ اس خد اکی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میری یہ داڑھی میرے خون سے رنگین ہوجائے گی اوراپنے ہاتھوں کو اپنے محاسن پر پھیرنے لگے ۔ (الارشاد ،ج ١ ،ص١١۔)
ایک اور روایت کے مطابق جب ان لوگوں نے چاہا کہ حضرت سے بیعت کریں تو حضرت نے ابن ملجم سے تین دفعہ بیعت لی اور اس پر ابن ملجم کو حیرت ہوئی اور اس کی وجہ حضرت سے پوچھی تو حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: تو اپنے کام سے کام رکھ مجھے امید نہیں کہ تو اپنی بیعت پر باقی رہے گا۔
ابن ملجم نے کہا جب میں آپؑ کے حضور آیااور اپنا نام بتایا تو آپؑ ناراحت ہوئے جب کہ میں آپ ؑ سے محبت کرتاہوں اور چاہتا ہوں کہ آپؑ کے حضور میں رک جاؤں اور آپ ؑ کے کنارے جہاد کرو ںمیں اپنے دل کی گہرائیوں سے آپ سے محبت کرتاہوں اور آپ کے چاہنے والوں سے محبت کرتا ہوں اور آپ کے دشمنوں سے نفرت کرتاہوں ۔
حضرت علی علیہ السلام مسکرانے لگے اور فرمایا: وہ یہودی دایہ تم کویاد ہے جب تم روتے تھے تو تمہارے منہ پر تھپڑمار کرکہتی تھی : چپ ہوجااے پلیدوں کے پلید اور ناقہ صالح کو شہید کرنے والوں سے بھی تم پلید ہو کیونکہ جب بڑے ہوجاؤ ںگے تو ایسا کام انجام دو گے اور ایسی جنایت کے مرتکب ہوجاؤںگے جس سے خدا کا خشم جاگ جائے گا اور دوزخ کی آگ کے راستے پر جاؤگے ۔ابن ملجم نے اقرار کیا اور کہا مگر آپ میرے نزدیک سب سے محبوب ہےں۔ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا : جھوٹ نہیں بولتا ہوںاور مجھ سے بھی جھوٹ نہیں بولاگیا ہے اور حق بات کو اپنی زبان پر جاری کرتاہوں ، تو میراقاتل ہے اور بہت جلد میرے سر کے خون سے میرا چہرہ رنگین ہوگا۔ ابن ملجم نے کہا کہ اگر ایسا ہے تو مجھے بہت دور کسی جگہ بھیج دیں یا مجھے قتل کردیں تو جواب میں حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: أنّہ لایحلُّ ذلک أن اقتل رجلاً قبل ان یفعل بی شیأاً (بحارالانوار ج ٤٢ ص ٢٦٢۔) جائز نہیں ہے کہ کسی کو قتل کردیا جائے ایسے کام پر جس کو اس نے ابھی انجام نہیں دیاہے ۔
ابن ملجم کوفہ میںساکن ہوا اور جنگ نہروان میں حضرت علی ؑ کے ساتھ شریک ہوا اورجنگ نہروان میں حضرت علی ؑ کی کامیابی کی خبر لیکر کوفہ میں داخل ہوا اور یہ خبر لیکر جب قبیلہ بنی تمیم کے محلہ میں پہنچا تو اس کو قطام نے اپنے گھر دعوت دی اور نہروان میں قتل ہونے والوں کی خبر پوچھی اورجب سنا کہ حضرت علی ؑ کے ہاتھوںاس کا باپ بھائی اور چچا مارے گئے ہیں تو اس نے ابن ملجم کواپنے عشق اور خوبصورتی کے چال میں گرفتار کرلیا اور شادی کے لئے جو شرائط اس نے رکھی ان میں سے ایک شرط حضرت علی علیہ السلام کو شہید کرناتھی ۔جو اس نے قبول کرلی۔( خلاصہ تاریخ از وقائع رمضان و شہادت حضرت علی ؑ ص ٢٥٦الی ٢٦٨۔)
٥ ۔١٩رمضان کی رات:
سال٤٠ہجری کے ماہ مبارک رمضان کا جب آغاز ہو ا تو عثمان بن مغیرہ کہتاہے : حضرت علی علیہ السلام اس مہینہ ہررات ایک جگہ افطاری فرماتے تھے ۔کبھی امام حسن ؑ کے گھر کبھی امام حسین ؑ کے گھر اور کبھی ابن عباس کے ہاں اور تین لقموں میں سے زیادہ تناول نہیں فرماتے اور فرماتے تھے :خدا کے حکم کا وقت آن پہنچا ہے اور میں چاہتا ہوں بھوکا رہوں اور حکم الہی کے لئے ایک یادو راتوں سے زیادہ نہیں ہے ۔( فرائد السمطین ج ١ ص ٣٨٦حدیث ٢٣٠)
حضرت ام کلثوم بنت امیرالمؤمنین علیہ السلام فرماتی ہےں : انیس کی رات افطاری کے لئے میں نے دو جو کی روٹیاں، ایک پیالہ دودھ اور کچھ نمک ایک طشت پر رکھ کر آپ ؑ کے سامنے رکھا۔نماز سے فارغ ہوکر جب افطار کے لئے تشریف لائے اور افطاری کے سامان کو دیکھا تو اپنے سر کو ہلانے لگے اور رونے لگے اور فرمایا: بیٹی جان تمہاری جیسی حرکت کوئی بھی بیٹی اپنے باپ سے نہیں کرتی ۔ میں نے کہا: کیا ہواہے ۔ فرمایا: تم میرے لئے افطاری میں روٹی کے علاوہ دو قسم کے سالن لائی ہو کیا تم چاہتی ہو کہ قیامت کے دن حساب وکتاب میں مبتلاء ہوجاؤں میں اپنے بھائی پیغمبراکرم ؐ کی پیروی کرتاہوں اور فقط ایک سالن پر اکتفا کرتا ہوں کیونکہ ان کے سامنے بھی کبھی دو قسم کے سالن نہیں رکھے گئے حتی کہ وفات پاگئے ۔ میںاس وقت تک اس کھانے سے نہیں کھاؤں گا جب تک ایک سالن اٹھ نہ جائے اور میں نے دودھ کو اٹھالیا اور حضرت نے روٹی اورنمک کے ساتھ افطاری فرمائی ۔( بحارالانوار ج٤٢ ص ٢٧٦۔)
ابن شہر آشوب حسن بصری سے نقل کرتے ہیں کہ امیرالمؤمنین ؑ ١٩کی رات کو بلکل نہیں سوئے یہ رات دوسری راتوں سے فرق کرتی تھی اور حضرت علی علیہ السلام کے احوال بھی آج کی رات دوسری راتوں سے فرق کرتے تھے ۔ حضرت ام کلثوم نے بیداری کی وجہ پوچھی تو جواب میں فرمایا :صبح کے وقت شہیدکردیا جاؤں گا ۔ ام کلثوم نے کہا : جعد ہ سے کہیں نماز پڑھائیں امام ؑ نے فرمایا: ہاں جعدہ سے نماز کے لئے کہوں گا کہ جماعت کرائے مگر اس کے بعد فرمایا: موت سے بھاگنے کا کوئی راستہ نہیں اور گھرسے باہر نکلے اس حالت میں کہ ان اشعار کو پڑھ رہے تھے :
خلّوا سبیل الجاہد المجاہد فی الیدذی الکتب و ذی المشاہد
فی اللہ لا یعبد غیرالواحد ویوقظ الناس الی المساجد
مجاہد فی سبیل اللہ کے لئے راستہ کھلارکھو قسم ہے خدا کی اس نے ایک کے سوا کسی کی عبادت نہیں کی اور لوگوں کو مساجد کے لئے جگائیں۔
اس رات امام ؑ باہر صحن میں آتے تھے آسمان کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھتے تھے اور فرماتے تھے : خدا کی قسم جھوٹ نہیں بول رہاہوں اور مجھ سے بھی جھوٹ نہیں بولا گیا آج کی رات وہی وعدہ کی رات ہے ۔ جب فجر کا وقت ہوا تو ابن تیاح نے نماز کے لئے آواز دی۔حضرت اٹھے اور مسجدکی طرف حرکت کی نیت کی تھی کہ مرغابیوں نے آپ ؑ کے دامن کو پکڑلیا اور فریاد شروع کی حضرت نے فرمایا: ان کو چھوڑدو یہ بھی رونا اور فریاد کرنے والوں کے پیچھے فریاد کرنے والی ہےں ۔دروازے پر لوہے سے آپ کی کمربند پھنس گئی امام علیہ السلام نے کمر کو صحیح طرح کسا اور فرمایا: اے علی!اپنی کمر کوموت کےلئے صحیح طریقے سے باندھ ،کیونکہ موت سے تیری ملاقات قریب ہے اور جب موت تیری طرف آئے تو فریاد مت کرنا۔( مناقب ابن شہر آشوب جلد٣ ص ٣١٠۔)
حضرت ام کلثوم فرماتی ہےں :انیس کی رات کو میں نے اپنے والد کو کہتے سنا :اللّہم بارک لنافی الموت اللّہمّ بارک لنا فی لقائک: خدایا میرے لئے موت کو مبارک کرنا ، خدایا میرے لئے اپنی ملاقات کو مبارک کر۔جب میں نے یہ کلمات سنے تو عرض کی : والد بذرگوار آیا اپنی موت کی خبر دے رہے ہیں۔امام علیہ السلام نے فرمایا: بیٹی موت کی علامات کو ایک کے بعد ایک دیکھ
رہاہوں ۔( قصہ کوفہ ٤٥٨۔)
ابو مخنف کہتے ہیں : امام مسجد کی طرف روانہ ہوئے اور مسجد میں داخل ہوئے مسجد کے چراغوں کی روشنی کم ہوگئی تھی ۔ مسجد کے اندر نماز پڑھی اور اذان کہنے کی جگہ پر تشریف لے گئے اذان دی۔ اس کے بعد محراب میں تشریف لائے اور نماز شروع فرمائی ۔ رکعت اول سجدہ اول سے سر کو اٹھا یا اسی وقت ابن ملجم مرادی لعنۃ اللہ علیہ نے ضربہ شمشیر کو آپ ؑ کے سر مبارک پر لگایا اور تلوار اسی جگہ لگی جہاں جنگ خندق میں عمرو بن عبدودعامری نے ضربہ لگایا تھا امامؑ کو جب ضربت کا احساس ہوا توفرمانے لگے : بسم اللّہ وبااللّہ وعلی ملۃ رسول اللّہ ۔ اور فرمایا: فزت برب الکعبہ ۔ لوگ آپ کے گرد جمع ہونے لگے اور فریاد بلند کرنے لگے مگر امام علیہ السلام آیہ شریفہ: منہا خلقناکم و فیہانعیدکم ومنہا نخرجکم تارۃً اخریٰ (سورہ طہٰ آیت٥٥۔) کی تلاوت فرمانے لگے اسی وقت ملائکہ کے اندر ایک ہل چل مچی اور جبرئیل امین نے آوازدی :
تہدّمت واللہ ارکان الہدیٰ وانطمست واللہ نجوم السّماء واعلام التّقی وانفصمت واللہ العروۃ الوثقیٰ قتل ابن عم محمد المصطفی ، قتل الوصی المجتبی ، قتل علی المرتضی ، قتل واللہ سیّد الاوصیاء ، قتلہ اشقی الاشقیائ۔
خدا کی قسم آج ہدایت کے ارکان گر گئے ۔ آسمان کے ستاروں میں سیاہی چھاگئی ، تقوی کی نشانیاں ختم ہوگئی اور ہدایت کی مضبوط رسی آج ٹوٹ گئی ۔ پیغمبر اکرم ؐ کا چچا زاد بھائی مارا گیا،مجتبی کا وصی آج شہید کردیاگیا، علی مرتضی آج مارے گئے ،اوصیاء کے سید اور امیرمارے گئے۔اس کو اشقیاء میں بھی سب سے زیادہ شقی نے ماردیا۔
 

صرف علی

محفلین
بیس رمضان کی رات :
محمد بن حنفیہ کہتاہے :میرے والدنے فرمایا: مجھے میری اس جگہ جہاں میں ہمیشہ نماز پڑھتا ہوں منتقل کرو ۔ ہم نے آپ ؑ کو اس جگہ منتقل فرمایا۔ امام حسین علیہ السلام نے روتے ہوئے فرمایا:باباہمارے لئے آپ کے بعد کون ہے ؟ آج ایسا ہی دن جس طرح ہم نے اپنے جدبزرگوار کو کھویا تھا؟ امام علی ؑ نے امام حسین ؑ کو صبر کی تلقین فرمائی ۔
گھر کے باہر سے رونے کی آوازیں آرہی تھی اور امام علی علیہ السلام کی آنکھوں سے اشک جاری تھے امام حسن و حسین علیہما السلام کو سینے سے لگایا اور اپنی اولاد کی طرف نگاہیں دوڑائیں اور اس کے بعد بے ہوش ہوگئے ۔ اور جب ہوش میں آیا تو فرمایا: رسول خدا کو بھی ایسی حالت طاری ہوئی تھی کیونکہ ان کو بھی مسموم کیا گیا تھا ۔ امام حسین علیہ السلام نے دودھ کا پیالہ تھمایا تھوڑا سانوش فرمایا اور اس کے بعد فرمایا: باقی دودھ اسیر کے لئے لے جاؤ۔
محمد ابن حنفیہ ادامہ دیتے ہیں کہ : بیس رمضان کی رات کو اپنے والد کے پاس تھا جبکہ زہر آپؑ کے سرمبارک سے لیکر پیروں تک پھیل گیا تھا اور آپؑ نے اس رات کی نماز بیٹھ کرپڑھی اور ہم لوگوں کو کچھ مسائل کی وصیت فرمائی اور ہم کو صبر اور برد باری کی تلقین فرمائی یہاں تک کہ صبح ہوگئی ۔ (بحار الانوار ج ٤٢ ص ٢٨٨ ، قصہ کوفہ ص ٤٦٤۔)
آخری ملاقاتیں :
جراحت کے بعد امام علیہ السلام کو گھر لے گئے اس کے بعد لوگوں کے اندر امام علیہ السلام کی زیارت کرنے اور عیادت کرنے کی اشتیاق بہت زیادہ ہوگئی اور امام علی علیہ السلام کے گھر کے اطراف ایک ہجوم سا رہنے لگا ۔ سب کو امام علی ؑ کی فکر تھی اسی وقت امام حسن علیہ السلام گھرسے باہر تشریف لائے اور فرمایا: امیر المؤمنین فرماتے ہیں کہ اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جائیں ۔ لوگ چلے گئے مگر اصبغ بن نباتہ کہتاہے کہ مجھ میں چلنے کی سکت نہیں رہی اور قدموں نے ساتھ نہیں دیا وہیں بیٹھ گیا تھوڑی دیر بعد
ؑ امام حسن علیہ السلام تشریف لائے اور فرمایا: مگر نہیں کہا تھا سب چلے جائیں میں نے کہا: یابن رسول اللہ جب تک امام ؑ کی زیارت نہ کروںنہیں جاؤں گا ۔ امام حسن ؑ اندر تشریف لے گئے اور اس کے بعد مجھے اندر بلایا جب امیر المؤمنین کی خدمت میںحاضر ہوا تو دیکھتا ہوں : امام علیہ السلام کے سرپر ایک پیلا کپڑا باندھا ہوا ہے اور آپ ؑ کے سر مبارک سے خون جاری ہے چہرے میں بھی اتنی پیلاہٹ آگئی ہے کہ تشخیص دینا مشکل ہے کہ کپڑا زیادہ پیلاہے یا آپ ؑ کاچہرہ مبارک۔ امام علیہ السلام نے مجھ سے کہا: ای اصبغ رو مت خدا کی قسم یہ بہشت ہے جو مجھے اپنی طرف بلارہی ہے ۔( امالی شیخ مفید مجلس٤٢ص٣٥١۔)
حکیم کا نظریہ :
امام علی علیہ السلام کے مجروح ہونے کے بعد کوفہ کے سارے اطباء جمع ہوگئے ان کے درمیان سب سے زیادہ طب کو جاننے والا اثیر بن عمرو سکونی تھا۔ اس نے حضرت کے معائینہ کے لئے بیٹھ کر بھیڑ کو ذبح کروایا اور اس کے پھیپڑے منگوائے اور اس کے درمیان میں سے ایک رگ نکالی اور اس کو امام علیہ السلام کے سرمبارک میں لگے زخم کے اندر داخل کیا اور اس کے بعد باہر نکالا اور اس کو معلوم ہوگیا کہ ضربت امام علیہ السلام کے سر کے اصلی حصہ تک پہنچ گئی ہے اور اسی کو مسموم و مجروح کیا ہے طبیب امام علیہ السلام کی طرف متوجہ ہوا اور کہنے لگا : یا امیر المؤمنین علاج کا کوئی فائدہ نہیں آپؑ اپنی وصیت کرلیں (الاستیعاب ج ٣ ص ١١٢٨، قصہ کوفہ ص ٤٧١۔)
امیرالمؤمنین علیہ السلام کی وصیتیں :
حضرت اما م علی علیہ السلام جس وقت مجروح ہوئے اسی وقت سے لیکر شہادت تک مختلف وصیتیںفرماتے رہے ۔ جس میں امام ؑ نے اپنے عقائد کو بیان فرمائے ، اپنے قاتل کو کس طرح مجازات کی جائے اس کے بارے میں وصیت فرمائی ، اپنے بعدکے امام کے لئے وصیت فرمائی ، اپنے کفن ،دفن اور دیگرامور کے لئے وصیتیں فرمائی کہ ہم یہاں پر بطور خلاصہ تین صورتوں میں پیش کررہے ہیں۔
١۔ مسعودی لکھتاہے : جب حضرت اما م علی علیہ السلام نے دیکھا کہ آپ کی بیٹی ام کلثوم بہت زیادہ رو رہی ہے تو اس کو دلداری دی اور فرمایا: اب وہ وقت آن پہنچا ہے کہ آسمان کے فرشتے اور خداکے پیغمبر ان صفوں میں میرے استقبال کے لئے تیار ہوجائیں گے ۔اورمجھے دوسری دنیا میں منتقل کرنے کی تیاری ہو رہی ہے ۔ اور پیغمبر اکرم ؐ فرماررہے ہیں : ہماری طرف آجاؤ یہ جگہ اس جگہ سے تمہارے لئے بہتر ہے ۔
اس کے بعد کمرے میں حاضرین سے مخاطب ہوئے اور فرمایا : میں اپنے اہل بیت کے ساتھ کچھ وصیتیں کرنا چاہتا ہوں کمرے میںموجود سب افراد چلے گئے فقط آپ کے بارہ بیٹے اور کچھ مخصوص شیعہ رک گئے ۔ امام ؑ نے حمد و ثنا ء الہی کے بعد فرمایا: خداوند تبارک و تعالی سے محبت کرو حسن ؑو حسین ؑکی اطاعت کرو اور ان کے بارے میں سفارش کرتا ہوں ۔ ''فاسمعوا لہما واطیعوا امرہما''ان دونوں کی باتوں کو سنو اور ان کے احکامات کی تعمیل کرو۔اس کے بعد امام حسن علیہ السلام کو اپنا وصی مقرر فرمایااور اسماء الھی کی تعلیم دی اور نور ، حکمت اور مواریث انبیاء کو امام حسن علیہ السلام کی تحویل میں دیا اور فرمایا: اذا أنا متُّ فغسِّلنی وکفِّنی وحنِّطنی وأدخلنی قبری (اثبات الوصیۃ ص ١٥٥۔)جب میں دنیاسے چلاجاؤ ں تو مجھے غسل دو ، کفن دو، اور حنوط کرو اور قبر کے اندر رکھو اور اسکے بعد قبر کو بند کرواور جب قبر کامل ہوجائے تو سب سے پہلے رکھی گئی اینٹ کو اٹھا کر دیکھنا مگر مجھے نہیںپاؤ گے۔
٢۔حضرت اما م علی علیہ السلام کی وصیّتوں کی دوسری صورت میں امام ؑ نے غسل و کفن اور نماز جنازہ اور دفن کے احکام صادر فرمائے ہیں۔حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے ذکرہونے والی وصیت کے ادامہ میں فرماتے ہیں کہ اما م علی علیہ السلام نے امام حسن ؑ وحسین ؑ سے فرمایا: و احملانی باللیل سرّاً واحملایابنتی مؤخّرالسریر واتّعاہ مقدّمہ (کافی ج١ ص٤٥٧ فرحۃ الغری ص ٧٨بحارالانوارج ٤٢ ص ٢١٩۔)اور مجھے رات کے وقت غسل دو اور حنوط کرو اور میری تابوت کے پچھلے حصہ کو اٹھاؤ آگے کا حصہ خود بخود حرکت کرے گا تم لوگ اس کے پیچھے حرکت کرو اور جس جگہ زمین پر رکھدیا جائے وہاں ایک سفید پتھر ملے گا اس جگہ کو کھود لو ایک تیار قبر ملے گی یہ وہ قبر ہے جو حضرت نوح پیغمبر ؐنے میرے لئے تیار کی ہے ۔
تاریخ میں پڑھتے ہیں کہ جب حضرت اما م علی علیہ السلام کو غسل دینے کے لئے برہنہ کیا گیا تو آپ کے بدن مبارک پر ہزاروں زخم دیکھے گئے جو آپؑ نے راہ اسلام میں جہاد فی سبیل اللہ کے دوران متحمل ہوئے تھے (علی من المہد الی اللحدص٣٤٤۔)
٣۔وصیت کا تیسرا حصہ جو مشتمل تھا اخلاق ، حقوق مسلمین ، وظائف ، فرائض اور دیگر (۔صاحبان تحقیق رجوع کریں نہج البلاغہ صبحی صالح ص ٤٢١خط نمبر٤٧،کافی ج٧ ص ٥٢تہذیب الاحکام ج ٩ س ٢٠٨۔) دوسرے امور اسلامی ، جو کہ کافی مفصل امورات اور دقت طلب ہے ہم اختصار کے طور پر اس میں سے سب سے مختصر وصیت کو آپ کی خدمت میں عرض کررہے ہیں۔
حضرت امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں :لمّا احتضر امیرالمؤمنین علیہ السلامجمع بنیہ حسناً وحسیناً ، وابن الحنفیّہ ، والأصاغر من ولدہ ، فوصّاہم ، وکان فی آخروصیّتہ :یا بُنیَّ عاشرواالناس عشرۃً ، ان غبْتُمْ حسنّوا الیکم ، وان فقدتم بکواعلیکم ۔یابنیَّ انّ القلوب جنودٌ مجنَّدۃٌ ، تتلاحظُ بالمودۃ وتتناجی بہا ، وکذلک ہی فی البغض ، فاذا احببتم الرَّجل من غیر خیرٍ سبق منہ الیکم فارجوہ واذا ابغضتم الرجَّل من غیر سوءٍ سبق منہ الیکم فاحذروہ(امالی شیخ طوسی ص٢٧، بحار الانوارج ٤٢ ص٢٤٨۔)
جب حضرت اما م علی علیہ السلام کو حالت احتضار ہونے لگی تو آپ ؑ نے حسن ؑ وحسین ؑ محمد حنفیہ اور دوسرے تمام بیٹوں کو جمع فرمایا حتی چھوٹے بچوں کو بھی اور اس کے بعد وصیت فرمائی اور وصیت کے اواخر میں فرمایا: اے میرے بیٹو لوگوں کے ساتھ اس طرح معاشرت اور زندگی کرو کہ جب تم غائب ہوجاؤ تو لوگ تمہاری زیارت کے مشتاق ہوجائیں ، اگر دنیاسے گذرجاؤ تو تمہارے مرجانے پر روئیں۔
اے میرے بیٹو: انسانوں کے دل اس منظم اور مرتب فوج کے مانند ہیں جو اپنی مودت اور محبت کے ذریعے ایک دوسرے کو اپنی طرف جذب کرکے ایک دوسرے کی ترقی اور نجات کے باعث بنتے ہیں ۔یہی حالت نفرت اور بغض میں بھی ہے ۔
اگر کسی سے پہلے کی شناخت اور پہچان کے بغیر محبت ہو جائے تو آیندہ کی دوستی پر امید رکھو اور اگرکسی سے پہلے کی پہچان کے بغیر نفرت ہو جائے تو اس سے احتیاط کرو ۔
شہد شہادت :
بالآخر ابن ملجم مرادی ملعون کی ضربت ( جو زہر آلود تلوار کے ذریعے وارد ہوئی تھی) نے اپنے کام کو انجام دیا اور اما م علی علیہ السلام حالت سمومیت میں شربت شہادت نوش فرماگئے ۔
محمدبن حنفیہ کہتے ہیں:جب اکیس رمضان کی رات آن پہنچی رات بھی بہت تاریک تھی اور آج دوسری رات تھی کہ ہم سب اپنے والد بذرگوار کے اطراف میں جمع تھے ۔امام علیہ السلام نے سب اہل خانہ کو جمع فرمایااور سب سے وداع کی ۔ اور فرمایا: خدا اور احکام الہی پر عمل کرو اور رسول خدا کی وضایح پر عمل کرواور امام حسن ؑ و حسین ؑ سے وصیتیں کی۔ (بحار الانوارج ٤٢ص٢٥٠۔)تم سب کا حافظ اور نگھبان ہے اور میرے لئے بھی کافی ہے ۔اپنے ایمان کی حفاظت کرو اور وظائف
تلوار کے زہر نے سارے بدن پر اثر کیاتھاہمارے چہرے اور آنکھیں آپ ؑ کی وضعیت کو دیکھ کر لال ہورہی تھی ۔ امام نے کچھ لوگوں سے ملاقات کی ان کو نصیحتیں کی ،کھانے پینے سے انکار کیا۔آپ کے لب مبارک ذکر خدا میں مشغول تھے اور پیشانی بار بار پسینے سے تر ہوجاتی تھی جس کو ہاتھ کے ذریعہ صاف کرتے تھے ۔میں نے کہا : والدبذرگوار میں دیکھ رہاہوں پیشانی کے پسینہ کو ہاتھ سے صاف کررہے ہیںتو آپ نے فرمایا: فرزندم : تیرے جد رسول خدا سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا:انّ المؤمنُ اذا نزل بہ الموت ودنت وفاتہ ، عرق جنینُہ و صار کاللولؤالرّطب ، وسکن أنینہمؤمن کے اوپر جب موت وارد ہوتی ہے اور اس کی موت کا وقت نزدیک ہوجاتا ہے تو اس کی پیشانی پر پسینہ آتاہے اور مروارید کے دانوں کی طرح ترو تازہ ہوجاتے ہیں اور اس کے اندرموجود فریاد اور درد میں سکون آجاتاہے ۔حضرت علی علیہ السلام نے شب جمعہ ٢١ رمضان المبارک ٤٠ ہجری قمری کو شربت شہادت نوش فرمایا۔
آپ کی شہادت سے کوفہ غرق ماتم ہوا ،کوچہ وبازار سے رونے کی آواز یں بلند
ہوئی لوگ گروہ گروہ حضرت گھر کی طرف آنے لگے اور بلند بلند گریہ و زاری کرتے تھے اور اس طرح شہر میں ماتم ہونے لگا جس طرح پیغمبر اکرم ؐ کی وفات پر صف ماتم بچھ گیاتھا ۔ جب رات کی تاریکی چھاگئی آسمان کے افق پر تبدیلی آنے لگی زمین میں لرزہ طاری ہوا اور صبح تک فرشتوں کی تسبیح کا زمزمہ سنائی دیتا تھا یہاں تک کہ طلوع فجر ہوئی (بحار ج٤٢ ص ٢٩٣۔)
قاتل امام علی علیہ السلام کا انجام
محمد بن حنفیہ کہتاہے : جب امام حسن علیہ السلام کفن و دفن امام علی علیہ السلام سے فارغ ہوئے آپ ؑ چاہتے تھے تین دن بعد ابن ملجم کو سز ادیں مگر امام علی علیہ السلام کی اولاد کے اصرار پر اکیس رمضان کی صبح کو امام حسن علیہ السلام کے حکم سے ابن ملجم کو جیل سے لایا گیا اور امام علی علیہ السلام کی وصیت اور احکام اسلامی پر عمل کرتے ہوئے اس کی گردن پر امام حسن علیہ السلام نے ایک ضربت لگائی اور گردن کاٹ دی اور ایک قول کے مطابق ام ہیثم ، اسود نخعی کی بیٹی نے جنازہ کوتحویل میں لیا اور اس کو آگ لگادی اور ایک قول کے مطابق لوگوں نے اس کے مرنے کے بعد اس کی میت کو کوفہ سے باہر لے گئے اور آگ لگادی۔( بحارا لانوار ج ٤٢ ص ٢٩٧ ، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج ٦ ص ١٢٥،الارشاد ص ١٨۔)
 

طالوت

محفلین
بحیثیت صحابی کے ان کا کردار تو بلا شبہ بلند ہے ، لیکن کعبہ میں ولادت سے بلند پایاں مقام ھاصل کرنا یا اسے اعزاز سمجھنا ایک فضول بات ہے ، یہ ان کی والدہ یا والدہ کی کم علمی ہے کہ انھوں نے بیت اللہ جیسی پاک جگہ پر یہ کیا
وسلام
 

صرف علی

محفلین
سلام اخر بغص کی بھی حد ہوتی ہے ۔ شاید آپ نے تاریخ نہیں پڑی ہے اس لئے اسی باتیں کررہے ہیں ۔ آپ کی بات اس وقت ٹھیک ہوتی جب امیر المؤمینین علیہ السلام کی ولدہ محترمہ کعبہ کے دروازے سے خانہ کعبہ میں داخل ہوتی مگر وہ دروازے سے داخل نہیں ہوئی تھی بلکہ ان کے لئے کعبہ کی دیوار میں جگہ پیدا ہوئی تھی اور
یہ بات افتخار کی ہے ۔
 
سیدنا حضرت علی المرتضی کی ولادت کی جو روایت خانہ کعبہ کے حوالے سے ملتی ہے عمومی طور پر علما اس روایت کو ضعیف قرار دیتے ہیں۔چنانچہ سیرۃ الحلبیۃ جلد اول میں حضرت علی کی ولادت کعبہ کے سلسلے میں یہ الفاظ ملتے ہیں [arabic]وأما ما روي أن علياً ولد فيها فضعيف عند العلماء[/arabic] اس کی تصدیق بعض اور محقیقین کی آرا سے بھی ہوتی ہے تاہم اگر حضرت علی کی ولادت کعبہ کی روایت کو درست بھی مان لیا جائے تو بھی اس"شرف" میں وہ تنہا شریک نہیں کثیر روایات میں حکیم بن حزام کے سلسلے میں‌ بھی یہ آیا ہے کہ ان کی ولادت کعبہ کے اندر ہوئی اور دوسری بات یہ کہ وہ ساری مافوق الفطرت روایات جن میں حضرت علی کی ولادت
کا ذکر کیا گیا ہے درحقیقت بازاری قصے ہیں جن سے حضرت علی کی شان میرے نزدیک گھٹانے کی کوشش کی جاتی ہے
(اس سلسلے میں ایک بڑی تفصیلی روایت ملا باقر مجلسی کی جلاءالعیون میں موجود ہے جو خرافات سے پر ہے(
 
فضائل ومناقب امام علی کسی کتاب یا نوشتہ جات میں نہیں سمائے جاسکتے اگر حضرت علی کے فضائل بیان کرنے کے لئے دریا سیاہی اور دنیا کے سارے درخت قلم کا کام انجام دیں تو پھر بھی کم پڑے گا اورکاغذ قلم سیاہی اتمام تک پہنچیں گے مگر علی کے فضائل ختم نہیں ہونگے
۔

کہیں آپ یہ تو کہنا نہیں چاہ رہے

[arabic]قُل لَّوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّكَلِمَاتِ رَبِّي لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ أَن تَنفَدَ كَلِمَاتُ رَبِّي وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِهِ مَدَدًا[/arabic]
تو کہ اگر دریا سیاہی ہو کہ لکھے میرے رب کی باتیں بیشک دریا خرچ ہوچکے ابھی نہ پوری ہوں میرے رب کی باتیں اور اگر چہ دوسرا بھی لائیں ہم ویسا ہی اسکی مدد کو (سورہ کہف 109
 

طالوت

محفلین
سلام اخر بغص کی بھی حد ہوتی ہے ۔ شاید آپ نے تاریخ نہیں پڑی ہے اس لئے اسی باتیں کررہے ہیں ۔ آپ کی بات اس وقت ٹھیک ہوتی جب امیر المؤمینین علیہ السلام کی ولدہ محترمہ کعبہ کے دروازے سے خانہ کعبہ میں داخل ہوتی مگر وہ دروازے سے داخل نہیں ہوئی تھی بلکہ ان کے لئے کعبہ کی دیوار میں جگہ پیدا ہوئی تھی اور
یہ بات افتخار کی ہے ۔
میرے بھائی جس دنیا میں آپ بستے ہیں وہاں کسی کو اگر یہ کہیں گے کہ علی کی والدہ کو بیت اللہ نے راستہ دیا تو لوگ آپ پر ہنسیں گے ، ہاں اگر اس میں کسی خفیہ دروازے کا عمل دخل ہو تو وہ بھی خودبخود نہیں کھلے گا بلکہ کسی کے کہنے پر کھلے گا اور ظاہر ہے ایسا کچھ بھی نہیں ۔۔۔
میں نے ایک رائے پیش کی جو صرف اخلاص پر مبنی ہے اسے اگر آپ بغض سمجھے ہیں تو اللہ آپ کی سمجھ کو سمجھے ۔۔۔ اور اگر تاریخ کی بات کرتے ہیں تو تاریخ تو یہ بھی کہتی ہے کہ کفار بیت اللہ کا برہنہ طواف کرتے تھے تو کیا آپ اسے بھی اعزاز سمجھیں گے ؟ اور ابھی تو مزید پوسٹ مارٹم کیا جا سکتا ہے آپ کی ساری تحریر کا :) لیکن شاید آپ اسے بھی بغض ہی سمجھیں

تو کیا ہی بہتر ہو کہ منتظمین "ٹاپک اسٹارٹر" سے مشورہ کر کے اسے مقفل کر دیں ۔۔۔ ورنہ ہم اپنا حق محفوظ رکھتے ہیں کہ اس پر مزید بحث کی جائے ۔۔۔۔۔۔۔
اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو
وسلام
 

صرف علی

محفلین
السلام علیکم
ابن حسن صاحب جس بات کو آپ نے کوڈ کی ہے اس کو صرف قیاس ہی کہا جاسکتا ہے کیوں کہ آپ نے بندہ اور خالق کو ایک کرنے کی کوشش کی ہے ۔ یہ ایک اصطلاحی جملے ہوتے ہیں جس کا مفھوم صرف یہ ہوتا ہے کے آپ کے فضائل اور خصوصیت بہت زیادہ ہیں ۔

اور جہاں تک طالوت صاحب کی بات کا تعلق ہے شاید آپ نے کبھی صحیح بخاری کے مصنف کی حالت زندگی کو نہیں پڑھا ہے وہ پڑھ لئے تو بیچارے حضرت علی کی والدہ تو کچھ بھی نہیں لگے گی ۔

والسلام
 

نبیل

تکنیکی معاون
السلام علیکم،
صرف علی، معلومات فراہم کرنے کا بہت شکریہ۔
اس کے ساتھ ہی میں یہ تھریڈ مقفل کر رہا ہوں۔
والسلام
 
السلام علیکم
ابن حسن صاحب جس بات کو آپ نے کوڈ کی ہے اس کو صرف قیاس ہی کہا جاسکتا ہے کیوں کہ آپ نے بندہ اور خالق کو ایک کرنے کی کوشش کی ہے ۔ یہ ایک اصطلاحی جملے ہوتے ہیں جس کا مفھوم صرف یہ ہوتا ہے کے آپ کے فضائل اور خصوصیت بہت زیادہ ہیں ۔
ان ہی اصطلاحی جملوں کا نام غلو ہے جن کے باعث سابقہ اقوام تباہ ہو گئیں عیسائی بھی تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لیے ایسے ہی اصطلاحی جملے استعمال کرتے ہیں۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top