اس غزل کی اصلاح فرمائیں

بحر:فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن
محترم الف عین صاحب
محترم خلیل الرحمن صاحب

خوب کٹتی زندگی گر زندگی میں غم نہ ہوتا
اشک کی بارش نہ ہوتی ، ہجر کا موسم نہ ہوتا

تُو بھی تنہا ، میں بھی تنہا ، رہ گئے دونوں ہی تنہا
مل کے کرتے ہم تو جاناں عشق اتنا کم نہ ہوتا

سوچتا ہوں میں یہ اکثر گر تجھے نفرت نہ ہوتی
یہ نہ ہوتا ، وہ نہ ہوتا ، غم میں یوں میں ضم نہ ہوتا

شکر ہے بس چاہ میں جو سرکشی ہے کی نہ، ورنہ
پتھروں سے وار ہوتے سر مرا گر خم نہ ہوتا

میں ہمیشہ شاد رہتا گر ترا یہ ساتھ ہوتا
زندگی تو زندگی ہے موت کا بھی غم نہ ہوتا

کاش! فائقؔ تشنگی میں زندگی کو بُھول جاتا
بس نہ رگڑتا ایڑیاں تو چشم میں زم زم نہ ہوتا
 

الف عین

لائبریرین
خوب کٹتی زندگی گر زندگی میں غم نہ ہوتا
اشک کی بارش نہ ہوتی ، ہجر کا موسم نہ ہوتا
... درست

تُو بھی تنہا ، میں بھی تنہا ، رہ گئے دونوں ہی تنہا
مل کے کرتے ہم تو جاناں عشق اتنا کم نہ ہوتا
... مفہوم سمجھ نہیں سکا، دونوں الگ الگ عشق کر رہے تھے؟
عشق کم ہونا بھی عجیب ہے

سوچتا ہوں میں یہ اکثر گر تجھے نفرت نہ ہوتی
یہ نہ ہوتا ، وہ نہ ہوتا ، غم میں یوں میں ضم نہ ہوتا
... غم میں ضم ہونا بھی محاورے کے مطابق نہیں

شکر ہے بس چاہ میں جو سرکشی ہے کی نہ، ورنہ
پتھروں سے وار ہوتے سر مرا گر خم نہ ہوتا
... پہلا مصرع واضح اور رواں نہیں، الفاظ بدل کر دیکھو

میں ہمیشہ شاد رہتا گر ترا یہ ساتھ ہوتا
زندگی تو زندگی ہے موت کا بھی غم نہ ہوتا
.. یہ بھی سقم ہے کہ ردیف کا ہی کوئی لفظ یا کوئی حصہ مصرع اولی کے ختم پر آئے۔ جیسے یہاں مکمل ہوتا، اور اگلے شعر میں 'تا' ہے۔ الفاظ بدلنے کی ضرورت ہے

کاش! فائقؔ تشنگی میں زندگی کو بُھول جاتا
بس نہ رگڑتا ایڑیاں تو چشم میں زم زم نہ ہوتا
.. دوسرا مصرع ایک دوسری بحر میں ہو گیا ہے، اس غزل کی بحر فاعلاتن چار بار ہے، لیکن یہ مستفعلن چار بار ہو گئی ہے
 
Top