اس سے مرا جو عہد و پیمان ہو گیا ہے

نوید اکرم

محفلین
اس سے مرا جو عہد و پیمان ہو گیا ہے
پورا ہمارا آدھا ایمان ہو گیا ہے

تنہائیاں مری سب گھٹ گھٹ کے مر گئی ہیں
شب کو محبتوں کا سامان ہو گیا ہے

نازک سی جاں نے مجھ کو قوت عجب ہے بخشی
جو راستہ کٹھن تھا ، آسان ہو گیا ہے

بادِ صبا نے جب سے بوسہ دیا ہے اس کو
تب سے وہ گل چمن کا سلطان ہو گیا ہے

ہوتا تھا اہلِ دانش، پر اب نویداکرم
رخسار و زلف و لب پر قربان ہو گیا ہے
 

الف عین

لائبریرین
اچھی کوشش ہے۔
پہلی بات۔ اسے ایطا کا سقم کہتے ہیں جو مطلع میں ہے۔قوافی میں صرف ان‘ پر ختم ہونے کی ضرورت ہے۔ لیکن ایمان اور پیمان میں ’یمان‘ مشترک ہے۔
دوسرا شعر سمجھ میں نہیں آ سکا۔
تیسرا شعر بھی واضح نہیں کہ کس کی نازک جاں، اپنی ہی یا محبوب کی؟ یہ مصرع روانی کا بھی طالب ہے۔ آخری دونوں اشعار درست ہیں
 

نوید اکرم

محفلین
دوسرا شعر سمجھ میں نہیں آ سکا۔
پہلے میں راتوں کو تنہا ہوتا تھا مگر اب میری تنہائیاں ختم ہو گئی ہیں کیونکہ اب میری راتیں اپنے محبوب سے پیار محبت کرتے ہوئے گزرتی ہیں
یسرا شعر بھی واضح نہیں کہ کس کی نازک جاں، اپنی ہی یا محبوب کی؟ یہ مصرع روانی کا بھی طالب ہے۔
یوں کیسا رہے گا؟
نازک بدن نے مجھ کو قوت عجب ہے بخشی
جو راستہ کٹھن تھا آسان ہو گیاہے
 

الف عین

لائبریرین
پہلے میں راتوں کو تنہا ہوتا تھا مگر اب میری تنہائیاں ختم ہو گئی ہیں کیونکہ اب میری راتیں اپنے محبوب سے پیار محبت کرتے ہوئے گزرتی ہیں
لیکن تنہائیاں گھٹ کر مر جانا تو منفیحالت ظاہر کرتا ہے، اس صورت میں تو ماتم کی جگہ جشن کا ماحول ہونا تھا!!!
نازک بدن والی بات اب بھی نہیں دل کو لگ رہی۔
 
Top