اسٹوری آف دی فور سینٹس

سیما علی

لائبریرین
یارو مت پوچھو کہ یہ سنتے ہی میرے دل پر کیا بیتی ۔ ہاتھ میں بلی کی ران تھی جو نکل کر نیچے گر گئی ۔ اور آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا ۔ فورا ایک گھونٹ رم کا لگایا تو کچھ ہوش ٹھکانے آئے ۔ مگر پھر بھی زبان گنگ تھی ۔
توبہ توبہ
فیصل عظیم فیصل 🌞🌞🌞🌞
 
دوسرے دن اس بندہ مسکین بطبع خشمگیں نے اپنے موبائل کا ڈیٹا بنڈل ری نیو کروا کے آن لائن ان درویشوں کی تلاش شروع کر دی ۔ فیس بک پر تلاش شروع کرنے پر فورا پچاس نام مارکوس کے نکل کر سامنے پردہ اسکرین پر جلوہ گر ہوئے ۔ ایک کے بعد ایک کو تلاشتا رہا اور انٹرنیٹ کی موجوں پر روانی سے سفر کرتا رہا ۔ اچانک ایک نام پر توجہ ٹک گئی کہ اے بندہ خدا اعمال کے ناہنجار کیا تاکتا ہے یہ تو وہی درویش ہے جو کئی برس پہلے تجھے جمیرا سے آتے ہوئے راستے میں پورٹ راشد کے قریب ملا تھا اور انکا قصہ سنتے ہوئے تیرے کانوں کے پردے میل سے بھر گئے تھے ۔ فورا اسے اپنے فیس بک آئی ڈی میں ایڈ کرلیا کیا دیکھتا ہے کہ کرامت اس درویش کی ظاہر ہوئی اور اس نے بھی فورا فرینڈ ریکوئیسٹ کا جواب دیا اور فرینڈ ایکسیپٹ کر لیا ۔ اب جب اس بندہ خدا اعمال کے ناہنجار نے اس صفحئہ نورانی فیس بکیئے جو ملکیت اس مارکوس نامی درویش کی تھا پر نظر ڈالی تو حیران پریشان رہ گیا ۔

کیا دیکھتا ہے کہ مارکوس نامی درویش کے دوستوں کی لسٹ میں دنیا کے کئی علاقوں سے دوست موجود ہیں مگر وہ کسی کو جواب ہی نہیں دیتا ۔ پروفائل سے دیکھ کر جب ھاتف جیبی سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی تو دوسری کوشش میں ہی ھاتف جیبی سے جواب آیا۔

مارکوس : ہیلو ۔۔۔۔۔!
درویش: ہیلو مارکوس ہاؤ آر یو (ہیلو مارکوس کیسے ہو)

مارکوس : آئم پائن تینک یو ۔ ہو از دس (میں اچھا ہوں کون بات کر رہا ہے)

درویش: اے بندہ خدا من کہ وہی درویش بات کر رہا ہوں جس نے کبھو تم لوگوں کی گفتگوئے چھپ چھپانہ کی سماعت خراش محفل میں خفیہ طور سے شرکت کی تھی (ترجمہ کی زحمت سے خود کو آزاد کرتا ہوں)

مارکوس : تو تم ہی تھے وہ ناہنجار کہ جس نے اس دن سی آئی ڈی کو خبر کی تھی کہ ہم چار درویش وہاں پر بیٹھ کر عمر مختصر کے غم غلط کرتے ہیں ۔

درویش: بے شک کہ من تمہاری گفتگوئے پر کمین کا خاموش سامع ہوں مگر قسم لے لو جو دہن پان خوردہ من سے یک شدنی بھی خروج پذیر ہوئی ہو ۔ البتہ اگر شرف ملاقات نعمت ہو جائے تو بندہ کچھ مزید صفائی پیش کرنے کی سعی فرما سکتا ہے ۔

مارکوس : تم یقینا پاکستانی ہوگے کہ چھوٹتے ہی قسم خوردہ بن گئے ہو البتہ ملاقات کے لیئے تمہیں چند لمحات عنایت کیئے جاتے ہیں جو کہ مکمل طور پر تمہارے خرچ پر ہونگے ۔ کم از کم تین بڈوائزر کا خرچ برداشت کنندہ ہونے کا حوصلہ جواں رکھتے ہو تو کل دیرہ میں نیھال ہوٹل کے شراب خانہء فلیپینی میں مجھ ناچیز کا تین نمبر کی میز پر رات کے پورے گیارہ بیس پر انتظار کرنا۔

درویش: آپ سے ملاقات کا شرف حاصل ہو جائے تو بندہ آپ کو اس کے سامنے پہلی منزل کی زیارت بھی کروا سکتا ہے جو کہ ایک ہندوستانی مکان راحت شرب و خمار ہے وہاں جلوس پر اسرار بھی ممکن ہے اور گفتگوئے لاحاصل پر بھی کچھ عیب نہیں

مارکوس : تو پھر کل ملاقات ہوگی

اتنا فرماتے ہی درویش مارکوس سے اس درویش کا رابطہء ھاتف جیبی منقطع ہوا اور یہ درویش بلو فراگ کا گھونٹ لگا کر اٹھ کھڑا ہوا
دوسرا دن جو ہوا تو اس درویش نے غسل صبح کے بعد جو ساعت جیبی کا ملاحظہ کیا تو وقت اس کو اپنے مکتب کی روانگی کا تھا ۔ دن بھر استیراد و تصدیر و اوراق دیگراں کی خوشہ چینی کے بعد شام کو ارادہ بنایا روانہ ہونے کا مارکوس کی طرف جانے کا ۔ ابھی کافی وقت باقی تھا لہذا اپنے آہنی گھوڑے پر سوار ہوا ۔ اور اصحاب کوریا کی کاری گری کی داد دیتے ہوئے کہ جنہوں نے اس آہنی گھوڑے کو جسے کیا کلاروس کا نام دیا تھا اور جس کی خوراک مائع ایندھن بنامی پٹرول تھی سیدھا رقہ کے علاقے میں پہنچا اور نیہال سرائے (ہوٹل) کے قریبی موقف میں اپنے آہنی گھوڑے کو کھڑا کیا اور وقوف کے وقت کا اندازہ کر کے ادائیگی کر کے پرچی آویزاں بر سواری کر کے سرائے میں داخل ہوا ۔ استقبالیہ پر ہی اسے ظفر نامی خادم ملا جس نے اسے بہت عزت کے ساتھ اوپر مئے خانہ ہندی مسمی پہلی منزل پر پہنچایا ۔ ابھی رقاصاؤں کی آمد میں کچھ وقت باقی تھا لہذا مئے خانہ میں مکمل روشنیاں چل رہی تھیں اور اس کی مخصوص میز جہاں وہ اکثر بیٹھ کر اپنی محافل سجایا کرتا خالی تھی۔ درویش اپنی کرسی پر براجمان ہوا تو فی الفور ہی بھنی ہوئے خشک میوہ جات و غیرہا من ذالک سے بھری ہوئی قاب سامنے رکھ دی گئی اور درویش اس سے مشغول ہو کر اپنی دنیا میں مست ہوگیا۔
پتہ ہی نہ چلا کہ کب روشنیاں گل ہوئیں ۔ اوم جے جگدیش کا بھجن چلا ، پھر تیرے رنگ رنگ کا گانا چلا ، اور وقت رقص و سرور کی محافل کے دوران یوں گزرا جیسے گزرا ہوا وقت گزرتا ہے۔ ابھی گیارہ بجے کا وقت ہوا ہی تھا کہ درویش کے ھاتف جیبی میں روشنیاں سی چمکنے لگیں اور معلوم ہو گیا کہ مارکوس نیچے پہنچ چکا ہے ۔ درویش نے فورا اٹھ کر ساقی کو ادائیگی کی اور مصعد کے ذریعے استقبالیہ پر پہنچا ۔ مارکوس درویش کو دیکھ کر بہت خوش ہوا اور دونوں واپس بذریعہ مصعد اوپر والی منزل پر چلے گئے جہاں پہلی منزل کے مقابل ہی مئے خانہ شرق بعید کا نامی مارگریٹا ہے ۔ دونوں اندر گئے اور ایک کونے میں بیٹھے ۔ اپنے لیئے بنت عنب مسماۃ نیلا مینڈک (بلیو فراگ) طلب کی اور مارکوس کے لیئے آب جو منشی مسمی بڈ وائزر کا طلبیہ ساقی کو دے کر بیٹھ گئے ۔ مارکوس کی کوشش درویش کو گھیر گھار کر اپنی طرف راغب کرنے کی تھی جبکہ درویش اس کے قصے میں زیادہ دل چسپی رکھتا تھا ۔ لہذا صلب موضوع پر آتے ہوئے یوں مخاطب ہوا۔

درویش : مارکوس مجھے اپنا قصہ غم سناؤ تاکہ میں اسے اردو محفل پر بیان کر کے احباب کی تفنن طبع کا انتظام کر سکوں۔
مارکوس : لیکن کویا (دوست) ابھی تو ہمارا یہ جلسہ شروع ہی ہوا ہے ۔ کچھ ادھر ادھر کی گفتگو کرتے ہیں دو چار جام لنڈھیں گے کچھ تری اندر جائے گی تو قصہ باہر نکلے گا ناں۔
درویش: جب تمہارے ساتھ بیٹھ گیا، اپنے اور تمہارے ذوق کا سامان منگوا لیا تو کیا دام ادا کیئے بغیر یہاں سے جاؤں گا ؟ کچھ شرم کو ہاتھ مارو قصہ شروع کرتے ہو یا ساقی کو روک دوں؟
مارکوس : نہیں نہیں میں شروع کرتا ہوں

لو پھر آغاز قصہ کا کرتا ہوں ذرا کان دھر کر سنو
 
یا حبیبی ، ذرا ادھر متوجہ ہو اور گفتگو اس بے سروپا کی سنو

یہ سرگزشت میری ذرا کان دھر سنو دو چار جام پی کے کہوں ایک بھر سنو
جو کچھ کہ پیش آئی ہے شدت مرے تئیں مارا ہوں ماریا کا بہت سر بسر سنو

اے عزیز مری پیدائش اور بزرگوں کا وطن ملک فلپائین ہے ۔ یہ ملک بہت سے جزائر پر مشتمل ہے اور صدیوں سے ہندو ، عیسائی ، مسلمان اور بے دین لوگوں پر مشتمل بادشاہیوں کا حصہ رہا ہے۔ والد اس عاجز کا ملک القروض فلپ نامی تھا ۔ مرکزی صوبہ مینیلا میں سود پر قرض دینے کا کاروبار کرتا تھا اور شہر کے بڑے حصے میں اس کے قرض دہندگان مسکون تھے ۔ اکثر محلوں میں گماشتے اس کے وصولی پر مشتمل تھے اور بہت سے کوٹھے اس کے کرایہ پر تمہارے نقطہ نظر سے بدکردار لوگوں کو جگہ کی فراہمی میں مشغول تھے ۔ لاکھوں پیسو کی آمدن تھی اور درجنوں لڑکیاں ہمارے کار ہائے بد میں کارندہ تھیں۔ نہ صرف یہ بلکہ ہر قسم کی مئے ، جھاڑ ، بوٹی کا جسے تم لوگ ڈرگز کا کہتے ہو ہمارے کارندے کاروبار کرتے تھے ۔ میرے باپ کو دو اولادیں تھیں ایک تو یہ خادم جو آج تمہارے در پر پڑا ترس کی شراب پی رہا ہے اور دوسری ایک لڑکی جو ہمارے ہی ایک کارندے کے ہمراہ فرار ہو کر اس کے ساتھ منیلا سے کچھ دور ایک دوسرے شہر میں سکونت کیئے ہے ۔ غرض جس گھر میں دولت کی اتنی ریل پیل ہو اور ایک اکیلا لڑکا ہو اس گھر کا اس کے لاڈ پیار کا کیا ٹھکانہ ہوگا ۔ مجھ فقیر نے بڑے چاؤ چوز سے بس باپ کے سائے میں پرورش پائی کیونکہ والدہ میرے بچپنے میں ہی والد کو داغ مفارقت دے کر ہمارے ایک سائیس جو ہماری آہنی سواریوں کے اصطبل کا نگہبان تھا کے ہمراہ تسوید وجہ کی مرتکب ہو چکی تھی اور ہمیں ملنے سے انکاری تھی ۔
فقیر نے جوانی تک پہنچتے پہنچتے ہی تمام فنون عشق بازی ، منشیات فروشی ، دلال کاری و کھاتہ بینی کے سیکھ لیئے تھے ، مکتب رسمی سے البتہ مجھے بچپن سے ہی نفرت ہو چکی تھی جس کا سبب پھر کبھو بیان کروں گا۔ کچھ دنیا کا اندیشہ نہ تھا کہ اچانک ہمارے گروہ میں ایک بغاوت کے نتیجے میں باپ کے سائے سے محروم ہو گیا۔ باغیوں نے پہلے میرے والد کو شراب میں کوک ڈال کر خوب پلائی پھر اس کے بے بال و پر سر میں آتشی رصاص کی گولی سے یک سوراخ کر کے اسے کوڑے دان میں ڈال دیا ۔ عجب طرح کا دکھ تھا جو بیان نہیں ہو سکتا تھا ۔ یک بارگی یتیم ہو گیا کوئی سر پر نہ رہا ۔ اس مصیبت ناگہانی سے بہت رویا ۔ تین چار دن تک روتا رہا پھر دل کو قرار آگیا کہ اب گروہ کی زمام کار میرے ہاتھ میں تھی ۔ اور گروہ والوں نے آخیر فقیر کو گروہ کا رسمی طمنچہ حوالے کر دیا تھا ۔ گماشتے آن حاضر ہوئے کہ آئیں تمامی حساب کتاب دیکھ لیجئے ، مال کے مخازن ، قحبہ خانے ، پیسو وغیرہ سب دیکھ کر وصول کر لیجئے ۔ یکبارگی جو اس سب کو دیکھا تو میری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں ۔ فراشوں نے چھت تکلے لگا کر مجروں کی محافل کا انعقاد کرنا شروع کیا اور من فقیر کہ اس سب کو ہی دنیائے کل سمجھ کر عیاشیوں میں پڑ گیا اور کاروبار کی معنوی و مالی نفع نقصان سے غافل ہوگیا۔ اب میری حیات کیا تھی بالکل واہیات تھی ، سب غنڈے پھانکے آن موجود ہوئے اور ہر طرح کی واہی تباہی و گپ زٹلیں مارتے زندگی آسودگی سے گزرنے لگی ۔ میں کہ دن رات یا شراب و شباب کے نشے میں ٹن رہتا یا پھر خشخاش بودرے میں اپنا سکون تلاش کرتا ۔
اپنے نوکروں اور رفیقوں نے جب یہ غفلت دیکھی تو جس کے جو ہاتھ لگا گھڑپچوں ہوا ۔ گویا لوٹ مچا دی ۔ مجھے چنداں خبر نہ تھی کہ کہاں کتنا پیسہ خرچ ہوتا ہے ۔ کہاں سے آوت ہے اور کدھر کو جاوت ہے ۔ اس درخرچی کے آگے اگر گنج قارورہ بھی ہو تو بہہ نکلے ۔ تھوڑے ہی عرصے میں حالت یہ ہوگئی کہ فقط کچھا اور بے بازو کی بنیان باقی رہ گئی ۔ باقی سب اڈ پڈ گیا ۔ اور یہ فقیر سچ میں فقیر مالی بن کر منیلا میں پھرنے لگا۔ دوست آشنا جو میری بچی ہوئی شراب پیتے اور معشوقوں کی فراہمی کا کار کرتے تھے نظر چرانے لگے ۔ وہی لوگ جو اپنی جان میرے پسینے پر دینے کا دعویٰ کرتے تھے مجھے صلواتیں سنانے لگے ۔ کوئی بات پوچھنے والا نہ رہا جو پوچھے کہ اے بندے تم نے کچھو کھایا بھی ہے کہ نہیں ، سوائے غم اور افسوس کے کوئی رفیق نہ بچا ۔ اب اتنا بھی نہ بچا کہ آلوئی قتلے ہی خرید کر پیٹ کا دوزخ بھر سکوں ۔ نہ کہیں سے کوئی ٹڈیاں ہی دستیاب تھیں کہ کھا کر جیتے رہنے کا کچھ بندوبست ہو سکے ۔ لاچار ہو کر اپنی بہن کے گھر کا قصد کیا۔ لیکن اب یہ بھی علم نہ تھا کہ بہن بیچاری رہ کس محلے یا کوٹھی میں رہی ہے کیونکہ باپ کے مرے پر تو اسکی آمد ہوئی تھی اس کے بعد نہ میں نے اس سے رابطہ رکھا نہ اس نے کبھی ھاتف تک سے ہی رابطہ کیا۔ اس شرمندگی سے جی تو نہ چاہتا تھا کہ اس کے گھر کا قصد بھی کرسکوں لیکن مرتا کیا نہ کرتا یہی سوچا کہ چلو جیسے بھی سہی ممکن ہے کچھ دن کا نان شبینہ کا بندو بست ہی ہو جائے گا۔
پیدل اس کے گھر کا قصد کیا تو معلوم ہوا کہ پیدل چلنا کسے کہتے ہیں اور پیٹ میں کچھ نہ ہو تو سڑکیں کتنی ظالم ہوتی ہیں چلتے چلتے حالت پتلی ہوگئی تو راہ گزر کے کنارے کھڑا ہو کر آتے جاتے راہیوں کے آہنی چھکڑوں کو ہاتھ کے اشارے سے ساتھ چلنے کی مدد طلب کرنے لگا ۔ اچانک سڑک پر ایک چھکڑے کے رکنے کی آواز آئی میں آس امید کے چوراہے پر مایوسی کا شکار ہونے کے کنارے سے اس چھکڑے کی طرف بڑھا تو کیا دیکھتا ہوں کہ اک حسینہ نازنین جو شاید کسی گرم نان کی طرح سے خوبصورتی میں اپنا کوئی ثانی دنیا میں نہ رکھتی ہوگی اس سواری کے ناخدا کی گدی پر براجمان ہے ۔ مسکراتے ہوئے مجھے دس پیسو کا نقدینہ پیش کر رہی ہے ۔ میں نے غیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس حسینہ سے نقدینہ لیتے ہوئے یہ درخواست کر دی کہ اگر ہو سکے تو مجھے میری بہن کے گھر اتار آوے کیونکہ سفر طویل ہے اور میرے پاس کوئی نہ توشہ سفر ہے نہ پیٹ میں دانہ ۔
حسینہ نے مجھے چھکڑے کا دروازہ وا کرتے ہوئے بیٹھنے کا اشارہ کیا اور میں چھلانگ لگا کر اس حسینہ نازنیں مہ جبیں کا ہم سفر ہوا۔ جیسے ہی چھکڑا روانہ ہوا کچھ دیر میں میری تھکان کم ہونے لگی اور حسینہ نے مجھ سے گفتگو شرو ع کر دی ۔
حسینہ : نام کیا ہے تمہارا؟
میں : مارکوس فلپ دیمانڈوس گراتیا
حسینہ: حالت کیا بنا رکھی ہے تم نے شکل سے تو کھاتے پیتے گھرانے سے لگتے ہو؟
میں : (ڈبڈباتی آنکھوں میں آنسو روکنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے) جی حالات کا مارا ہوں ۔ اگرچہ ایک امیر کبیر رئیس خاندان سے تعلق ہے لیکن اس وقت تو وقعت عزیز کسو بھکاری گداگر سے بھی کم ترین ہے ۔
حسینہ: تسلیم کرتی ہوں کہ حالات انسان کو کیا سے کیا بنا دیتے ہیں ۔ کیا تم میرے ساتھ میرے گھر چلو گے میرے یار مسبق کے کچھ لباس میرے گھر پڑے ہیں ہو سکتا ہے تمہارے کام آجائیں۔
(میں یہ سنتے ہی ضبط نہ کر سکا اور بھوں بھوں کرکے رونا شروع کردیا) ۔ ارے ارے رونا بند کرو ایسے نہیں روتے اور یہ کہتے ہوئے میرے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے مجھے دلاسہ دیتے ہوئے اپنے قریب کیا۔ میری آنکھیں شیطان کا گھر بنیں اور میں نے تمہارے عامر لیاقت اور اس کی تیسری بیگم کے منظر کی طرح اپنی آنکھیں کمینگی اور بے غیرتی سے بھرتے ہوئے اس کے گلے میں پڑی ہوئی زنجیر کو دیکھنا شروع کر دیا۔
 
آخری تدوین:
یا حبیبی ، ذرا ادھر متوجہ ہو اور گفتگو اس بے سروپا کی سنو

یہ سرگزشت میری ذرا کان دھر سنو دو چار جام پی کے کہوں ایک بھر سنو
جو کچھ کہ پیش آئی ہے شدت مرے تئیں مارا ہوں ماریا کا بہت سر بسر سنو

اے عزیز مری پیدائش اور بزرگوں کا وطن ملک فلپائین ہے ۔ یہ ملک بہت سے جزائر پر مشتمل ہے اور صدیوں سے ہندو ، عیسائی ، مسلمان اور بے دین لوگوں پر مشتمل بادشاہیوں کا حصہ رہا ہے۔ والد اس عاجز کا ملک القروض فلپ نامی تھا ۔ مرکزی صوبہ مینیلا میں سود پر قرض دینے کا کاروبار کرتا تھا اور شہر کے بڑے حصے میں اس کے قرض دہندگان مسکون تھے ۔ اکثر محلوں میں گماشتے اس کے وصولی پر مشتمل تھے اور بہت سے کوٹھے اس کے کرایہ پر تمہارے نقطہ نظر سے بدکردار لوگوں کو جگہ کی فراہمی میں مشغول تھے ۔ لاکھوں پیسو کی آمدن تھی اور درجنوں لڑکیاں ہمارے کار ہائے بد میں کارندہ تھیں۔ نہ صرف یہ بلکہ ہر قسم کی مئے ، جھاڑ ، بوٹی کا جسے تم لوگ ڈرگز کا کہتے ہو ہمارے کارندے کاروبار کرتے تھے ۔ میرے باپ کو دو اولادیں تھیں ایک تو یہ خادم جو آج تمہارے در پر پڑا ترس کی شراب پی رہا ہے اور دوسری ایک لڑکی جو ہمارے ہی ایک کارندے کے ہمراہ فرار ہو کر اس کے ساتھ منیلا سے کچھ دور ایک دوسرے شہر میں سکونت کیئے ہے ۔ غرض جس گھر میں دولت کی اتنی ریل پیل ہو اور ایک اکیلا لڑکا ہو اس گھر کا اس کے لاڈ پیار کا کیا ٹھکانہ ہوگا ۔ مجھ فقیر نے بڑے چاؤ چوز سے بس باپ کے سائے میں پرورش پائی کیونکہ والدہ میرے بچپنے میں ہی والد کو داغ مفارقت دے کر ہمارے ایک سائیس جو ہماری آہنی سواریوں کے اصطبل کا نگہبان تھا کے ہمراہ تسوید وجہ کی مرتکب ہو چکی تھی اور ہمیں ملنے سے انکاری تھی ۔
فقیر نے جوانی تک پہنچتے پہنچتے ہی تمام فنون عشق بازی ، منشیات فروشی ، دلال کاری و کھاتہ بینی کے سیکھ لیئے تھے ، مکتب رسمی سے البتہ مجھے بچپن سے ہی نفرت ہو چکی تھی جس کا سبب پھر کبھو بیان کروں گا۔ کچھ دنیا کا اندیشہ نہ تھا کہ اچانک ہمارے گروہ میں ایک بغاوت کے نتیجے میں باپ کے سائے سے محروم ہو گیا۔ باغیوں نے پہلے میرے والد کو شراب میں کوک ڈال کر خوب پلائی پھر اس کے بے بال و پر سر میں آتشی رصاص کی گولی سے یک سوراخ کر کے اسے کوڑے دان میں ڈال دیا ۔ عجب طرح کا دکھ تھا جو بیان نہیں ہو سکتا تھا ۔ یک بارگی یتیم ہو گیا کوئی سر پر نہ رہا ۔ اس مصیبت ناگہانی سے بہت رویا ۔ تین چار دن تک روتا رہا پھر دل کو قرار آگیا کہ اب گروہ کی زمام کار میرے ہاتھ میں تھی ۔ اور گروہ والوں نے آخیر فقیر کو گروہ کا رسمی طمنچہ حوالے کر دیا تھا ۔ گماشتے آن حاضر ہوئے کہ آئیں تمامی حساب کتاب دیکھ لیجئے ، مال کے مخازن ، قحبہ خانے ، پیسو وغیرہ سب دیکھ کر وصول کر لیجئے ۔ یکبارگی جو اس سب کو دیکھا تو میری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں ۔ فراشوں نے چھت تکلے لگا کر مجروں کی محافل کا انعقاد کرنا شروع کیا اور من فقیر کہ اس سب کو ہی دنیائے کل سمجھ کر عیاشیوں میں پڑ گیا اور کاروبار کی معنوی و مالی نفع نقصان سے غافل ہوگیا۔ اب میری حیات کیا تھی بالکل واہیات تھی ، سب غنڈے پھانکے آن موجود ہوئے اور ہر طرح کی واہی تباہی و گپ زٹلیں مارتے زندگی آسودگی سے گزرنے لگی ۔ میں کہ دن رات یا شراب و شباب کے نشے میں ٹن رہتا یا پھر خشخاش بودرے میں اپنا سکون تلاش کرتا ۔
اپنے نوکروں اور رفیقوں نے جب یہ غفلت دیکھی تو جس کے جو ہاتھ لگا گھڑپچوں ہوا ۔ گویا لوٹ مچا دی ۔ مجھے چنداں خبر نہ تھی کہ کہاں کتنا پیسہ خرچ ہوتا ہے ۔ کہاں سے آوت ہے اور کدھر کو جاوت ہے ۔ اس درخرچی کے آگے اگر گنج قارورہ بھی ہو تو بہہ نکلے ۔ تھوڑے ہی عرصے میں حالت یہ ہوگئی کہ فقط کچھا اور بے بازو کی بنیان باقی رہ گئی ۔ باقی سب اڈ پڈ گیا ۔ اور یہ فقیر سچ میں فقیر مالی بن کر منیلا میں پھرنے لگا۔ دوست آشنا جو میری بچی ہوئی شراب پیتے اور معشوقوں کی فراہمی کا کار کرتے تھے نظر چرانے لگے ۔ وہی لوگ جو اپنی جان میرے پسینے پر دینے کا دعویٰ کرتے تھے مجھے صلواتیں سنانے لگے ۔ کوئی بات پوچھنے والا نہ رہا جو پوچھے کہ اے بندے تم نے کچھو کھایا بھی ہے کہ نہیں ، سوائے غم اور افسوس کے کوئی رفیق نہ بچا ۔ اب اتنا بھی نہ بچا کہ آلوئی قتلے ہی خرید کر پیٹ کا دوزخ بھر سکوں ۔ نہ کہیں سے کوئی ٹڈیاں ہی دستیاب تھیں کہ کھا کر جیتے رہنے کا کچھ بندوبست ہو سکے ۔ لاچار ہو کر اپنی بہن کے گھر کا قصد کیا۔ لیکن اب یہ بھی علم نہ تھا کہ بہن بیچاری رہ کس محلے یا کوٹھی میں رہی ہے کیونکہ باپ کے مرے پر تو اسکی آمد ہوئی تھی اس کے بعد نہ میں نے اس سے رابطہ رکھا نہ اس نے کبھی ھاتف تک سے ہی رابطہ کیا۔ اس شرمندگی سے جی تو نہ چاہتا تھا کہ اس کے گھر کا قصد بھی کرسکوں لیکن مرتا کیا نہ کرتا یہی سوچا کہ چلو جیسے بھی سہی ممکن ہے کچھ دن کا نان شبینہ کا بندو بست ہی ہو جائے گا۔
پیدل اس کے گھر کا قصد کیا تو معلوم ہوا کہ پیدل چلنا کسے کہتے ہیں اور پیٹ میں کچھ نہ ہو تو سڑکیں کتنی ظالم ہوتی ہیں چلتے چلتے حالت پتلی ہوگئی تو راہ گزر کے کنارے کھڑا ہو کر آتے جاتے راہیوں کے آہنی چھکڑوں کو ہاتھ کے اشارے سے ساتھ چلنے کی مدد طلب کرنے لگا ۔ اچانک سڑک پر ایک چھکڑے کے رکنے کی آواز آئی میں آس امید کے چوراہے پر مایوسی کا شکار ہونے کے کنارے سے اس چھکڑے کی طرف بڑھا تو کیا دیکھتا ہوں کہ اک حسینہ نازنین جو شاید کسی گرم نان کی طرح سے خوبصورتی میں اپنا کوئی ثانی دنیا میں نہ رکھتی ہوگی اس سواری کے ناخدا کی گدی پر براجمان ہے ۔ مسکراتے ہوئے مجھے دس پیسو کا نقدینہ پیش کر رہی ہے ۔ میں نے غیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس حسینہ سے نقدینہ لیتے ہوئے یہ درخواست کر دی کہ اگر ہو سکے تو مجھے میری بہن کے گھر اتار آوے کیونکہ سفر طویل ہے اور میرے پاس کوئی نہ توشہ سفر ہے نہ پیٹ میں دانہ ۔
حسینہ نے مجھے چھکڑے کا دروازہ وا کرتے ہوئے بیٹھنے کا اشارہ کیا اور میں چھلانگ لگا کر اس حسینہ نازنیں مہ جبیں کا ہم سفر ہوا۔ جیسے ہی چھکڑا روانہ ہوا کچھ دیر میں میری تھکان کم ہونے لگی اور حسینہ نے مجھ سے گفتگو شرو ع کر دی ۔
حسینہ : نام کیا ہے تمہارا؟
میں : مارکوس فلپ دیمانڈوس گراتیا
حسینہ: حالت کیا بنا رکھی ہے تم نے شکل سے تو کھاتے پیتے گھرانے سے لگتے ہو؟
میں : (ڈبڈباتی آنکھوں میں آنسو روکنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے) جی حالات کا مارا ہوں ۔ اگرچہ ایک امیر کبیر رئیس خاندان سے تعلق ہے لیکن اس وقت تو وقعت عزیز کسو بھکاری گداگر سے بھی کم ترین ہے ۔
حسینہ: تسلیم کرتی ہوں کہ حالات انسان کو کیا سے کیا بنا دیتے ہیں ۔ کیا تم میرے ساتھ میرے گھر چلو گے میرے یار مسبق کے کچھ لباس میرے گھر پڑے ہیں ہو سکتا ہے تمہارے کام آجائیں۔
(میں یہ سنتے ہی ضبط نہ کر سکا اور بھوں بھوں کرکے رونا شروع کردیا) ۔ ارے ارے رونا بند کرو ایسے نہیں روتے اور یہ کہتے ہوئے میرے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے مجھے دلاسہ دیتے ہوئے اپنے قریب کیا۔ میری آنکھیں شیطان کا گھر بنیں اور میں نے تمہارے عامر لیاقت اور اس کی تیسری بیگم کے منظر کی طرح اپنی آنکھیں کمینگی اور بے غیرتی سے بھرتے ہوئے اس کے گلے میں پڑی ہوئی زنجیر کو دیکھنا شروع کر دیا۔
اس زنجیر کو دیکھتے ہوئے من حرامی یہ سوچ رہا تھا کہ کیسے نصیب میرے ہرے ہوئے کہ ایسی خوبرو حسینہ دل داری کو آن ملی اور تمامی دلدر میرے حیات سے دور ہوئے ۔ حسینہ کی رفاقت میں اس کے گھر پہونچے اور کچھ دیر تلک آرام کیا ۔ نہا دھو کر جب ملابس متوفرہ کو نظر کیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک سے ایک بڑھ کے ملبوسات و پارچات اس حسینہ کی الماری میں موجود ہیں ۔ کہیں ٹام فورڈ نامی مارکا اپنا وجود دکھا رہا ہے تو کہیں مارک ڈارسی کے ملبوسات چمک دمک کر مجھے منہ چڑا رہے ہیں ۔
دل ہی دل میں حساب کیا کہ یہ حسینہ تو خوب مال دار لگتی ہے کیوں نہ اسی کے طفیل اپنی حیات ناہنجار کو روشن کیا جاوے اور خوبی کے ساتھ ساتھ خوش نصیبی کو بھی اپنے گھر کی باندی کروں ۔ اتنا سوچنا تھا کہ ایک لباس پسند کیا اسے زیب تن کیا ۔ الماری کے دراز کو کھول کر دیکھا تو ساعت دستی بمارکہ موریس لاکوریکس ائیکون پڑی تھی جو پہن کر ہاتھ کو وزنی کیا۔ دیگراں میں ایک عدد عطر مردانہ مارکہ ٹوم فورڈ کا تمباک عود پڑا تھا اسے اپنے بدن پر لگایا ۔ داڑھی واڑھی بنا کر جب یہ سب مستلزمات پہن کر میں اس حسینہ کے سامنے گیا تو وہ اپنے مطبخ میں آلہ تبرید کے مقابل کھڑی ہوئی دودھ منقی کا مرکب عصیر نوش جاں فرما رہی تھی ، مجھے دیکھتے ہی جو کچھ کہنے لگی تو اسے غوطہ لگا اور وہ کھانسنے لگی ۔ اس کی ایس حالت کو جو دیکھا تو میں اپنی بھول کر اس کی طرف لپکا اور اسے کمر پر ہلکے ہلکے مکے مار کر اس کے سانس کی درستگی میں اس کی مدد کرنے لگا۔
چند ثانیوں میں اس کا سانس بحال ہوا تو وہ مجھ سے یوں گویا ہوئی ۔
اے بھکاری کہ میں نے تجھے سڑک سے اٹھا کر اپنے گھر میں لائی ، تجھے نہا دھو کر میرے یار مسبق کے ملابس زیب تن کرنے کی اجازت دی ، اب تو نے یہ ساعت اپنے دست کم ظرف پر زیبا کی تو کس کی اجازت سے کی اور یہ عطر تجھے کس نے کہا کہ تو اسے لگاوے اور مجھ کم عقل کو اپنا دیوانہ بناوے ۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ تو ایک بھکاری ہے اور میں ایک بھکاری کو میرے دل کا وزیر اعظم بنا لوں ۔ کیا تونے اتنا پٹواری جان رکھا ہے مجھے؟؟؟
میں کہ اپنی سابقہ حالت کو مدنظر رکھتے ہوئے لجاحت اور عاجزی کا نشان بنا ہوا تھا ایسے گویا ہوا : اے حسینہ عالم کہ جسکے حسن ظاہری و حسن سلوک نے مجھ ناچیز کو خرید لیا ہے اور تیری غلامی میرے واسطے طرہ امتیاز ہوگی ۔ آج مجھے کہنے دے کہ تیرا میرا ساتھ نجانے کتنی ساعتوں کا باقی ہے۔ میں جانتا ہوں کہ تو اندر سے پکی پٹوارن ہے لہذا ایک بار اگر تو مجھے اجازت دے کہ میں تجھے اپنے ہاتھوں سے سیناگانگ بلیانی (بلی کے گوشت والی بریانی) کھلا کر اپنا بنانے کی سعی کروں ۔ اگر تجھے میری یہ خدمت پسند آوے تو مجھ احقر کو اپنی غلامی میں قبول فرما۔ میں تیرا خادم اعلی بن کر دونوں ہاتھوں سے تجھے سرفراز کردوں گا اور مجھ سے پہلے آنے والوں کی برائیوں کی سزا میں انہیں تیرے شہر کی گلیوں میں نہ گھسیٹا تو مارکوس نام نہیں ۔
بریانی کا سنتے ہی اس حسینہ کا چہرہ روشن ہوگیا اور وہ اچھل اچھل کر نعرے لگانے لگی اور مجھے ابھی سے اپنے خادم اعلی بننے کی امید نظر آنے لگی ۔ فور بالفور سے اس سے مطبخ میں پڑی ہوئی چیزوں کا دریافت کیا اور کوئی بیس پچیس دقیقوں میں بہترین قسم کی بلی بریانی بنا کر اس حسینہ کو پیش کی جو کھاتے ہی وہ پکی پٹوارن بن گئی اور کہنے لگی ۔ تو ہی تو ہے جو میرے دل کی سلطنت کا نجات دہندہ ہے۔ آج کے بعد تو ہی میرے گھر میں رہے گا اور تجھے میں اپنے دل کی سلطنت کا منصب وزارت عظمیٰ سونپتی ہوں ۔

میرے منہ سے نکلا ۔
کیا فقیر اور کیا فقیر کی پسند ناپسند ، بھکاری انتخاب کرنے کا حق نہیں رکھتے میں اس منصب کو پوری لیاقت خبیثہ کے ساتھ اپنا بنا کر رکھنے کی سعی کرونگا اور تجھے کوئی شکوہ نہ ہوگا۔ ابھی یہ گفتگو چل ہی رہی تھی کہ اس حسینہ کے ھاتف پر موسیقی اپنے جلوے بکھیرنے لگی ، ھاتف کی طرف دیکھتے ہی جب اس حسینہ کی نظر متصل کے شمارہ رقم پر پڑی تو اس کے چہرے کا رنگ اڑتا چلا گیا۔
 
آخری تدوین:
اس زنجیر کو دیکھتے ہوئے من حرامی یہ سوچ رہا تھا کہ کیسے نصیب میرے ہرے ہوئے کہ ایسی خوبرو حسینہ دل داری کو آن ملی اور تمامی دلدر میرے حیات سے دور ہوئے ۔ حسینہ کی رفاقت میں اس کے گھر پہونچے اور کچھ دیر تلک آرام کیا ۔ نہا دھو کر جب ملابس متوفرہ کو نظر کیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک سے ایک بڑھ کے ملبوسات و پارچات اس حسینہ کی الماری میں موجود ہیں ۔ کہیں ٹام فورڈ نامی مارکا اپنا وجود دکھا رہا ہے تو کہیں مارک ڈارسی کے ملبوسات چمک دمک کر مجھے منہ چڑا رہے ہیں ۔
دل ہی دل میں حساب کیا کہ یہ حسینہ تو خوب مال دار لگتی ہے کیوں نہ اسی کے طفیل اپنی حیات ناہنجار کو روشن کیا جاوے اور خوبی کے ساتھ ساتھ خوش نصیبی کو بھی اپنے گھر کی باندی کروں ۔ اتنا سوچنا تھا کہ ایک لباس پسند کیا اسے زیب تن کیا ۔ الماری کے دراز کو کھول کر دیکھا تو ساعت دستی بمارکہ موریس لاکوریکس ائیکون پڑی تھی جو پہن کر ہاتھ کو وزنی کیا۔ دیگراں میں ایک عدد عطر مردانہ مارکہ ٹوم فورڈ کا تمباک عود پڑا تھا اسے اپنے بدن پر لگایا ۔ داڑھی واڑھی بنا کر جب یہ سب مستلزمات پہن کر میں اس حسینہ کے سامنے گیا تو وہ اپنے مطبخ میں آلہ تبرید کے مقابل کھڑی ہوئی دودھ منقی کا مرکب عصیر نوش جاں فرما رہی تھی ، مجھے دیکھتے ہی جو کچھ کہنے لگی تو اسے غوطہ لگا اور وہ کھانسنے لگی ۔ اس کی ایس حالت کو جو دیکھا تو میں اپنی بھول کر اس کی طرف لپکا اور اسے کمر پر ہلکے ہلکے مکے مار کر اس کے سانس کی درستگی میں اس کی مدد کرنے لگا۔
چند ثانیوں میں اس کا سانس بحال ہوا تو وہ مجھ سے یوں گویا ہوئی ۔
اے بھکاری کہ میں نے تجھے سڑک سے اٹھا کر اپنے گھر میں لائی ، تجھے نہا دھو کر میرے یار مسبق کے ملابس زیب تن کرنے کی اجازت دی ، اب تو نے یہ ساعت اپنے دست کم ظرف پر زیبا کی تو کس کی اجازت سے کی اور یہ عطر تجھے کس نے کہا کہ تو اسے لگاوے اور مجھ کم عقل کو اپنا دیوانہ بناوے ۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ تو ایک بھکاری ہے اور میں ایک بھکاری کو میرے دل کا وزیر اعظم بنا لوں ۔ کیا تونے اتنا پٹواری جان رکھا ہے مجھے؟؟؟
میں کہ اپنی سابقہ حالت کو مدنظر رکھتے ہوئے لجاحت اور عاجزی کا نشان بنا ہوا تھا ایسے گویا ہوا : اے حسینہ عالم کہ جسکے حسن ظاہری و حسن سلوک نے مجھ ناچیز کو خرید لیا ہے اور تیری غلامی میرے واسطے طرہ امتیاز ہوگی ۔ آج مجھے کہنے دے کہ تیرا میرا ساتھ نجانے کتنی ساعتوں کا باقی ہے۔ میں جانتا ہوں کہ تو اندر سے پکی پٹوارن ہے لہذا ایک بار اگر تو مجھے اجازت دے کہ میں تجھے اپنے ہاتھوں سے سیناگانگ بلیانی (بلی کے گوشت والی بریانی) کھلا کر اپنا بنانے کی سعی کروں ۔ اگر تجھے میری یہ خدمت پسند آوے تو مجھ احقر کو اپنی غلامی میں قبول فرما۔ میں تیرا خادم اعلی بن کر دونوں ہاتھوں سے تجھے سرفراز کردوں گا اور مجھ سے پہلے آنے والوں کی برائیوں کی سزا میں انہیں تیرے شہر کی گلیوں میں نہ گھسیٹا تو مارکوس نام نہیں ۔
بریانی کا سنتے ہی اس حسینہ کا چہرہ روشن ہوگیا اور وہ اچھل اچھل کر نعرے لگانے لگی اور مجھے ابھی سے اپنے خادم اعلی بننے کی امید نظر آنے لگی ۔ فور بالفور سے اس سے مطبخ میں پڑی ہوئی چیزوں کا دریافت کیا اور کوئی بیس پچیس دقیقوں میں بہترین قسم کی بلی بریانی بنا کر اس حسینہ کو پیش کی جو کھاتے ہی وہ پکی پٹوارن بن گئی اور کہنے لگی ۔ تو ہی تو ہے جو میرے دل کی سلطنت کا نجات دہندہ ہے۔ آج کے بعد تو ہی میرے گھر میں رہے گا اور تجھے میں اپنے دل کی سلطنت کا منصب وزارت عظمیٰ سونپتی ہوں ۔

میرے منہ سے نکلا ۔
کیا فقیر اور کیا فقیر کی پسند ناپسند ، بھکاری انتخاب کرنے کا حق نہیں رکھتے میں اس منصب کو پوری لیاقت خبیثہ کے ساتھ اپنا بنا کر رکھنے کی سعی کرونگا اور تجھے کوئی شکوہ نہ ہوگا۔ ابھی یہ گفتگو چل ہی رہی تھی کہ اس حسینہ کے ھاتف پر موسیقی اپنے جلوے بکھیرنے لگی ، ھاتف کی طرف دیکھتے ہی جب اس حسینہ کی نظر متصل کے شمارہ رقم پر پڑی تو اس کے چہرے کا رنگ اڑتا چلا گیا۔
ہاتف پر گفت گو کے بعد جب کہ وہ میری طرف متوجہ ہوئی تو میں نے سوال داغا ۔ اے نازنین اگر تو مجھے اپنے دل کی سلطنت کا وزیر اعظم تسلیم کر ہی چکی ہے تو چہ معنی دارد کہ اس نامعلوم متصل سے گفت گو کرنے سے قبل اور اس کے دوران تیری حالت پتلی ہو چکی تھی اور میں ملاحظہ کر رہا تھا کہ اول صدمہ و بعدہا اوسکے ارتعاش بر دست و پائے تو ظاہر ہو چکا تھا مطلب اس تغیر کا میں یہ سمجھا ہوں کہ ہاتف پر کوئی زبردست آدمی تھا جس سے تمہیں خطرہ یا اذیت متوقع ہے ۔ بتا مجھ کو کہ اس مصیبت سے نکلنے کا چارہ کروں ۔ جواب میں حسینہ یوں گویا ہوئی۔

لیا تھا کبھو ہم نے کارت ادھاری
بہت سی ابھی تک ہیں قسطیں اتاری
مگر سود ایسا کمینہ پڑا ہے
ادا کر نہ پائیں گی عمریں ہماری
لہذا کہ اب بند کردی ہیں ہم نے
لٹا دی جو پہلے کمائی تھی پیاری
ابھو ان کے بدمعاش دن رات کرتے
ہواتف ہراساں و گالم سپاری
مجھے کچھ سمجھوا میں آتی نہیں ہے
کہ کیسے بچوں ان سے کنیا بچاری
سنا یہ حال ان کا تو میں پہلے مسکایا ، پھر میرے دماغ نے لوٹنی لی اور مجھے اپنی اہمیت جتلانے اور اسے مصیبت سے نکالنے کا موقع نظر آنے لگا ۔ میں اس سے یوں گویا ہوا ۔

ہوا ہوگئی ساری مشکل تمہاری
بیاں مجھ سے کردی ہے تم نے او پیاری
چلو اب کہ ہم تم کو دکھلائیں رستہ
وہی جس نے قسمت ملانی ہماری

اسے کہا کہ اپنا ہاتف دو اور بتاؤ کہ کس قدر رقم ان مہاجنوں کی تم کو ادا کرنی ہے۔ اور مجھے مکمل تفصیل اس کھاتے کی دو جس پر تم ان کمینوں سے جان چھڑانے کی خواستگار ہو۔
اس کی آنکھوں میں چمک آگئی اور وہ مجھے اپنی تفاصیل فراہم کرنے لگی ۔ فورا ہاتف سے صدا دی بلی نامی ایک ہرکارے کو جو کبھو من احقر کا کارندہ ہوا کرتا تھا اسے بلوا کر لونڈیا دکھائی اور عوضانے کی رقم مہاجنوں کے کھاتوں کی صفائی پر طے کردی ۔ حسینہ کہ جس کے نام کا معلوم ہوا کہ نام نامی اس حسن کی دیوی کا اینابیل تھا اور اسے میں نے اپنی تجارت میں شریک چنتے ہوئے بلی سے ملنے والے مال کی پرکھ اور تقسیم کاری کا طریقہ کار سمجھایا ۔ اس طرح من کہ کبھو لکھاں پتی تھا فقر کی واردات سے فرار ہونے کے ایک اور راستے کا راہی ہوا۔ ہماری تجارت کافی چل نکلی کیونکہ ہمارا طریقہ کار رقیب ہائے دیگراں بر تجارت سے مختلف تھا ۔ ہم اپنی آہنی سواری پر شہر کے معزز خاندانوں ، خانوادوں ، تجار و اہلکاران سرکاری کے چشم و چراغ ہائے بد نصیبوں کو اپنے جال میں پھنساتے اور انہیں منشیات وغیرہ کی علت میں مبتلا کرتے اس طرح وہ جو کبھی ہماری پہنچ سے دور ہوا کرتے تھے اب ہمارے دست نگر ہوئے اور ہم ہر سو سے مال و زر میں نہاتے چلے گئے۔ اسی طرح سے دن گزر رہے تھے کہ ایک دن ایک مرتبہ مال فراہمی کی مہم درپیش ہوئی اور میں اینا بیل کے ہمراہ اس سواری پر سوار ہو کر نکلا کہ اچانک راستے میں کوتوال کی فوج کے سپاہیوں نے ناکہ لگا رکھا تھا وہاں سے فرار کی کوشش میں اچانک ایک دھماکے کی آواز آئی اور اینابیل کہ میری پہلی محبت جس نے مجھے پھر سے فرش سے اٹھا کر لکھ پتی بنادیا تھا ہائے میں مر گئی کہتے ہوئے ایک جانب کو گرتی چلی گئی۔​
 
آخری تدوین:
اینا بیل ، کہ میری محبوب نظر اب اس دنیا سے کوچ کر چکی تھی ، ہماری سواری رک چکی تھی اور میں بدنصیب کہ جسے ابھی چند لمحے قبل تک اپنی نازنین گل اندام عزیز جاں محبوبہ کی معیت میں سفر پرلطف کا اعزاز حاصل تھا اب کچھ ہی وقت کے بعد اس منحوس سواری سے باہر سرک چکا تھا ۔ نکلتے ہی جو دیکھا کہ چاروں طرف سے مجھ پر نشانہ لگائے کوتوال کے اہلکار کھڑے ہیں اور میرے پاس اس کے سوا کوئی چارا نہ تھا کہ اپنے ہاتھ کھڑے کردوں اور اپنی گرفتاری پیش کردوں ۔
ان کا صوبیدار میرے پاس آیا اور یوں گویا ہوا ، ناہنجار بدبخت بھاگنے کی بجائے اگر پہلے ہی رک جاتے تو یہ نازنیں اپنی جان سے نہ جاتی ، کیا تم نہیں جانتے کہ سرکاری مسلح اہلکاروں سے فرار کی کوشش جان لیوا ثابت ہوسکتی ہے ۔میں کہ سر نیہوڑائے اپنے دونوں ہاتھ گردن پر رکھے گھٹنوں کے بل بیٹھا ہوا ٹوٹ ٹوٹ جاتا ہوا کچھ نہ بول پایا کہ میرے تو حواس کے پرندے اینابیل کی موت کے ساتھ ہی پرواز کر چکے تھے ۔
المختصر مجھے کاروائی کے لیئے تھانے لے جایا گیا اور اینا بیل جو اب اس دنیا کے جھنجھٹوں سے بے پروا ہو چکی تھی کے بے جان پتلے کو طبی ہرکاروں کے ساتھ شفا خانے کی طرف روانہ کیا گیا ۔ تھانے میں میرے پرانے تعلقات کام آگئے اور مجھے کچھ روپوں کے عوض نکال باہر کیا گیا ۔ میری دنیا اندھیر ہوچکی تھی ، میں دن رات گلیوں راستوں میں چلتا تھا اور اپنی اینا بیل کی یاد میں آہیں بھرتا تھا ۔ اینابیل کی رہائش گاہ میرے تصرف میں تھی اور میرا دل وہاں سے اچاٹ ایسے میں سکون ملے تو کہاں ملے ۔ آخرش مے خانہ مسکن بنا اور میں دن رات مے کے خمار مین ڈوبا رہنے لگا ۔ آہستہ آہستہ تمام جمع پونجی میری ختم ہوئی اور کچھ ہی عرصے میں میں پھر سے چیتھڑوں کا ملبوس ہوا۔

وائے قسمت زندگی میں چاہتیں مل نہ سکیں
ہم جہاں سے تھے چلے واپس وہیں پر آگئے
پھر سے میں اسی حال احوال میں آن پہنچا جہاں سے چلا تھا ۔ راہ میں بیٹھا لوگوں کو تکتا اور اپنی اینابیل کی صورت ان کی صورتوں میں دریافت کرتا ۔ پھر ایک دن ایک نازنین کی نظر مجھ پر پڑی اور اس کے دل میں نجانے کیا آیا ، وہ کھانا لے کر میرے پاس آن بیٹھی اور مجھے کھلانے کی سعی میں مشغول ہوئی ۔ میں کہ جو اینابیل کے دکھ اور اپنی قسمت کا مارا ہوا تھا میری آنکھوں سے اشکوں کی جھڑی لگ گئی ۔ ہچکیاں تھیں کہ رکنے کا نام ہی نہ لیتی تھیں ۔ دکھ سے بھرا سینہ میری آہ و فغاں کاسبب ہوا اور وہ نازنین قلب سلیم کی مالک مجھ نادار و بدنصیب کو اٹھا کر اپنے گھر لے گئی ۔ اور میں کہ جیسے کسی عامل کا معمول ہوتا ہے بے خودی کے عالم میں اس نازنین کے ساتھ اس کے گھر جان پہونچا۔

زندگی رکتی نہیں ہے جان لو
زندگی کے مشوروں کو مان لو
جو بھی دن کل بیت جائے سیکھ لو
آئیندہ روشن کرو پہچان لو
اینا بیل کا متبادل مجھے مئے میسر ہوئی ، مئے ایک دفتر میں کام کرتی تھی اور صوبہ باسیلان کے شہر منڈاناؤ کی رہنے والی تھی ۔ یہ منیلا میں کام کے سلسلے میں مقیم تھی اور کسی دفتر کے رابطہ مرکز میں کام کرتی تھی ۔ رات بھر اس کو اپنے کام کے سلسلے میں گھر سے باہر رہنا پڑتا اور میں گھر میں پڑا تفریحی آلات سے دل بہلاتا ۔ کبھی برتن بھانڈے دھو دیتا ، کبھی کپڑے دھو سکھا لیتا، کچھ اپنا دکھ میں سی لیتا، کچھ کام کرن میں سمو دیتا۔ یوں ہی وقت پر لگا کر اڑتا رہا اور میں مئے کے ساتھ رہتے رہتے کچھ کمزور لمحوں میں اینابیل سے بے وفا ہوا اور پھر میرا دل نئے محبوب کے ساتھ جڑتا چلا گیا اور یوں میں اینا بیل کا دکھ بھلانے میں کامیاب ہوا۔ اب مئے جب سے میرے وجود کی عادی ہوئی تو کمزور پڑتی گئی اور آہستہ آہستہ میری حکومت اس پر قائم ہوتی گئی ۔ اب میں اسے اپنی مرضی پر چلانے لگا ، جو غصہ غضب میں اینا بیل پر کرنے سے قاصر تھا مئے پر کرنے میں میرا ہاتھ روکنے والا کوئی نہ تھا۔ اور میں جو کل تک ایک مظلومی حالات کی تصویر بنا پھرتا تھا ایک حاکم خانہ کے رویوں کا مظہر بن گیا۔
کس قدر رنگوں میں ہے نا پائیدار
رنگ انسانی میں اب رنگ وفا
ایک دن جب مئے گھر میں نہ تھی ایک سفری سوداگر لڑکی نے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا ۔ میں نے جب دیکھا کہ ایک لڑکی نوجوان عمر کوئی مجھ سے دوچار برس ہی چھٹکی میرے دروازے پر ہے تو میرے اندر کے شیطان نے کروٹ لی اور میں نے اسے اندر آنے کا کہا ، لڑکی کے پاس انگریزی لباس ، فرانسیسی عطورات ، زیب و زینت کا سامان و سامان تفریح خانگی سب موجود تھا۔ نام دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ یہ ماریا ہے اور دن میں فارغ اوقات میں یہ تجارت کر کے اپنے اضافی اخراجات پورے کرتی ہے جبکہ رات کو اپنے کار ہائے نمایاں میں اس کا بڑا کام زن بازاری کا تھا جس میں یہ منیلا میں گھر گھر حرص کی شکار زن ہائے بازاری کو ہوس کے شکار مرد ہائے وحشیان کے حضور پیش کرکے اپنا کماتی تھی اور اس کمائی پر بہت نازاں تھی ۔ اور میں کہ مئے کی کمائی میں بقدر ضرورت ہی سامان زیست کر رہا تھا ماریا کو دیکھ کر بے ایمان ہوا اور اس سے دوستی گانٹھنی چاہی۔ حرام خور میں شروع سے ہی تھا اب جب حرام سامنے آیا تو خود پر ضبط نہ کر پایا اور لڑھک گیا اور مئے کی غیر موجودگی میں اپنا یارانہ ماریا سے لگا لیا۔ اسے خوش کرنے کو رات کو جب مئے گھر نہوتی تھی میں ماریا کے سامان معصیت کو بازار میں بیچنے میں اس کی مدد کرنے لگا

یہ ضروری تو نہیں ہر شخص کو
عزتوں کی روٹیاں درکار ہوں​
 
آخری تدوین:
ایک رات مئے اچانک گھر آئی تو مجھے گھر پر نہ پا کر پریشان ہوگئی اور میراانتظار کرتے کرتے وہ خواب گاہ میں جان لیٹی اور میں کہ باہر ماریا کے کام میں مصروف تھا ۔ اسی دن ماریا کی ایک کارندہ لڑکی کو اس کے گراہک نے اپنا مطلب نکال کر ادائیگی سے انکار کردیا تھا اور میں کہ جو اب ماریا کی تجارت میں اس کا شریک بن چکا تھا اس گاہک کو سبق سکھانے کے بعد انعام کے طور پر دو لڑکیوں کو ساتھ لے کر داد عیش دینے کے لیئے مئے کے مکان پر پہونچا ۔ بیرونی دروازے سے نہاں خانے کی طرف جاتے جاتے قیود لباس سے آزاد ہوا اور دونوں حسیناؤں کو اپنے دائیں بائیں لے کر مست ماحول میں خواب گاہ کی طرف بڑھا۔ منظر کچھ یوں تھا کہ من مرکز میں برہنہ تھا چلا ، دائیں بائیں دو میرے سرکار تھیں ، جونہی کمرہ کھول کر داخل ہوئے ، مئے سے آنکھیں تین کی دو چار تھیں، مئے جو سونے کی تیاری میں تو تھی ، باہری کھٹکے سے وہ ہشیار تھی ، دیکھ کر حالت مری وہ چیخ اٹھی ۔
سچ ہے میں نے سانپ پالا تھا یہی
غیرت و شرم و حیا جس میں نہی
گر تو ہوتا ابن آدم جو کہیں
ایسی حالت میں بھی کیونکر دیکھتی
تو نکل جا گھر سے میرے اب ابھی، میں نہ دیکھوں شکل تیری پھر کبھی۔ میں جو حیرت میں پھنسا حیران تھا ، جانتا تھا میں غلط انسان تھا۔ منہ سے میرے بدحواسی میں گیا ، او کمینی کسطرح شرم و حیا۔ جیسی تو ویسی یہ دونوں عورتیں ، زندگی میں دال روٹی سب نہیں ، میری ہیں اب اور بھی حاجت بہت ، تو نہیں تو نہ سہی اب چل نکل ۔ مئے کی آنکھیں جھڑی ہوئیں اور اس نے روتے روتے مجھے گھر سے نکال باہر کیا۔ اس طرح میں مئے سے پھر ماریا کے ہاں آن پہنچا اور دن رات اس کے پاس رہنے لگا۔ ایسی مجھے بد دعا لگی مئے کی کہ کچھ کام میں جو میری شراکت ماریا کے سنگ تھی وہ چل نہ سکی اور تھوڑے ہی عرصے میں ماریا نے مجھے بے پھل کا درخت جان کر اپنے آنگن سے کاٹ نکالا۔

مطلبی رہنا ہے تو یہ جان لو
ہر جگہ مطلب براری جھوٹ ہے
جب تلک تم دوسروں کے کام کے
بس وہیں تک چاہتوں کی چھوٹ ہے
مٰیں پھر سے وہیں منیلا کی سڑکوں پر دھکے کھاتا ، کبھی وہاں کبھی یہاں دوسروں کے ٹکڑوں پر پلنے لگا۔ اب حوصلہ بھی نہیں پڑتا تھا کہ کسی کام میں ہاتھ ڈالوں ، بار بار کی ناکامیاں مجھے بے حوصلہ بنا گئیں اور میں آخرش اپنی موجودہ دوست لوسی سے ملا جو منیلا میں مجھ پر ترس کھا کر مجھے اپنے گھر لے گئی تھی اور اس کے ساتھ رہتے رہتے میرا تعلق اس کے ساتھ استوار ہوا۔ پھر ایک دن معلوم ہوا کہ وے کسی طرح سے ملک سے باہر جانے کی سعی کرتی ہے۔ مجھے بھی چاہ اٹھی کہ میں نے منت سماجت کر کے اسی کے ساتھ یاں آنا اختیار کیا اور یوں میں اس شہر میں وارد ہوا۔ گو کہ میں بظاہر ایک سرائے میں ساقی کے فرائض سرانجام دے رہا ہوں جبکہ حقیقت میں میرا ماضی میرے اسلوب حیات پر بری طرح اثر انداز ہو رہا ہے اور میں سرائے میں رقاصاؤں کی دلالی سے اب اضافی آمدن حاصل کر رہا ہوں اور اوس دن جبکہ تم نے ہم چار درویشوں کو وہاں بیٹھے دیکھا تھا مجھے رمضان کی وجہ سے شراب خانہ و زن بازاری کے کاروبار میں انتہائی مندے کی وجہ سے ذہنی دباؤ اور الجھن نے اپنا شکار بنایا ہوا تھا۔ تو یہ ہے میرا اب تلک کا قصہ سنو اور سر دھنو۔ اور اگر برا نہ مانو تو ایک بوتل نبیذ سرخ جو انگور سے بنی ہو اور ملک ہنگری کی بنی ہو سے سرفراز فرماوو تاکہ آئیندہ میں تمہیں اچھے الفاظ میں یاد کر سکوں ۔
اور جانو دوسرے درویش ہیں
جن کے قصے تم کو باقی از سماع
گر دلا دو سرخ مئے مجھ کو عزیز
ایک سے کچھ ربط باقی ہے مرا
سننے والا جو اس کہانی کو سن کر حیرانگی کے سمندر میں غوطہ زن تھا اچانک واپس لوٹا اور مارکوس کو کہنے لگا ،
خوب صاحب مارکوسے بد عمل
مل ملا کر تجھ سے شب کالی ہوئی
سچ ہے جو بھی آج بدکردار ہو
عمر بھی اس کی فقط گالی ہوئی
ایک شب قصہ سنا تم سے یہاں
سالے میری جیب کی جالی ہوئی
جا کہ لے دیتا ہوں میں تجھ کو شراب
تیری یہ خواہش نہیں ٹالی ہوئی
لا مجھے اب ربط دے اس شخص کا
جس کی اماں فوت بنگالی ہوئی

مارکوس کے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ پھیلتی چلی گئی اور وہ یوں گویا ہوا

آپ کا ہاتف ہے میرے پاس بھی
میرا ہاتف آپ کے ہاتف میں ہے

میں کل اس بنگالی سے بات کر کے آپ کی ملاقات کا بندو بست کرتا ہوں ، گو کہ میرا رابطہ ان سب سے ہے۔ آپ کی خواہش پر میں اسی بنگالی کو آپ سے ملنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کرونگا۔ اس کا ہاتف آپ کو بذریعہ پیغام آپ کے ہاتف پر ارسال کر چکا ہوں دیکھ لیجئے لیکن خود اس سے رابطہ کرنے کی سعی لاحاصل نکیجئے گا کہ وہ خوفزدہ ہو کر کہیں ملنے سے انکاری نہو جائے۔

صبح کے پانچ بج رہے تھے اور مئے خانہ بند ہونے کی تیاری میں تھا۔ ساقی نے منشی سے حساب لاکر اسے دیا اور وہ ادائیگی کر کے مارکوس کے ہمراہ وہاں سے نکلا ، اسے اپنے ساتھ لیا اور اس کے گھر چھوڑ کر اپنے گھر روانہ ہوا۔


 
آخری تدوین:
مارکوس سے ملاقات ہوئے کئی دن گزر گئے ۔ اچانک ایک دن صبح کے گیارہ بجے کے قریب اس قصہ کے میر راوی کے ہاتف سے مانوس سی آواز سنائی دینے لگی ۔ یہی آواز ہاتف سے رابطہ طلب کرنے کی موسیقی تھی۔ راوی اس وقت اپنے مکتب کے کچھ معاملات میں الجھا ہوا تھا لہذا وہ فوری جواب نہ دے سکا۔ فارغ ہوتے ہی اس نے واپس ہاتف اٹھا کر متصل کو واپس رابطہ کرنے کی کوشش کی ۔ جو پہلی ہی کوشش پر قائم ہو گیا۔ اور یوں گفتگو ہوئی ۔

راوی: مرحبا ، میں فلانا ڈھمکانا بول رہا ہوں کیا آپ نے مجھے رابطہ کرنے کی کوشش کی تھی؟
مارکوس: سنو کویا ! کہ میں گفتن براہ ہاتف من ہوں ۔ میں ادھر مارکوس بات کر رہا ہوں ، کیسے ہو کویا؟۔
راوی: جی مارکوس کیسے ہو، بھائی اب تو کوئی پیار ویار ہی نہیں دکھاتے اس دن وعدہ کیا تھا کہ کسی درویش کو ساتھ لے کر پھر سے رات بھر مل بیٹھنے کا انتظام کریں گے ۔ کیا ہوا اس وعدے کا؟
مارکوس: وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہوگیا، میں نے تمہیں ویسے ہی جھک مارنے کو ملایا تھا کہ بات پر رضامند نہ ہوکر تم نے مجھے بتا دیا کہ کتنے مصروف آدمی ہو میاں ؟
راوی : او ناں کر یارا ، میں معذرت خواہ ہوں کہ اس وقت ہاتف وصول نہ کر سکا ، لیکن یہ داد تو تمہیں دینی پڑے گی کہ میں نے تمہیں جوابی رابطہ کر کے تمہارے سر سے اجرائے اتصال کا خرچ بچا لیا ہے۔
مارکوس : جی جی جناب، متفق ، اس سے زیادہ کہاں کوئی متفق ہو سکتا ہوگا جب محفلیں آپ جیسے نابغہ روزگاروں کی ہوں تو کہاں یہ ممکن ہے کہ ہم جیسے آپ کی رائے سے اتفاق نہ کریں۔ چلو اب میں سیدھا موضوع پر آتا ہوں۔ بھائی صاحب آپ کا بنگالی درویش مل گیا ہے۔ کوئی گھنٹہ بھر قبل کی کوشش اس کے پاس سے ہی کی تھی ۔ اب کوئی بھلی ساعت دیکھ کر بتا دو کہ کب کہاں آنا ہے کہ ایک رات اور تیرے نام کر سکیں ہم دونوں۔
راوی: چلو یار رکھتے ہیں ۔ آئندہ جمعرات کا کیا بناویں منصوبہ مل بیٹھنے کا کہ کچھ غم تمہارا اور تمہارے دوست درویش کا غلط ہو کچھ غم میرا بڑھے؟
مارکوس: کے بجے آئیں اور کہاں آویں؟
راوی : دبئی بالم سرائے جو شارع مطینہ پر ہے وہیں ملتے ہیں ۔ کیونکہ تمہیں تو خوش کر چکا اس بنگالی درویش سے ملاقات کرتے ہیں تو پھر مئے خانہ بھی بنگال کے ماحول والا ہو تاکہ وہ اپنا سینہ ہلکا کر سکے اور ہم اس کے کسی کام آ سکیں۔ کیا کہتے ہو؟
مارکوس: متفق برادر متفق
راوی: چلو ٹھیک ہے جمعرات رات گیارہ بجے ملتے ہیں ۔ دبئی بالم کے میزانی درجے پر بنگالی مئے خانے میں
مارکوس : حاضر جناب
راوی: خدا حافظ
مارکوس : خدا حافظ
 
جمعرات کا دن آگیا اور راوی اپنے معمول کے مطابق دفتری کاموں سے فارغ ہو کر ایک دوست کی طرف چلا گیا۔ کیونکہ اپنے گھر جانے کی صورت میں بروقت واپسی نہ ہوپاتی اور ادھر اس کا ملاقات کا وقت طے تھا۔ مارکوس اور دوسرے درویش کے ساتھ آج کی رات کالی کرنی ضروری تھی کہ جن قصص کی آرزو وہ دل میں لیئے اتنے عرصے سے ان درویشوں کو ڈھونڈ رہا تھا وہ بر آنے کو تھی۔
اپنے وقت پر راوی مقررہ مقام جو شارع مطینہ پر سرائے نامی دبئی بالم تھی پہنچ گیا۔سواری سرائے کے حوالے کر کے تعارفی رقعہ لے کر اندر بیٹھک میں جان پہنچا اور کرنے لگا انتظار ۔ احتیاطاً مارکوس کو مطلع کردیاجو راستے میں ہی تھا۔ چوتھائی گھنٹہ میں دونوں پہنچ گئے اور بیٹھک سے انہیں ساتھ لے کر راوی اوپری منزل پر مئے خانہ مسمی روپوشی میں جا براجمان ہوا۔
پینے پلانے کا دور شروع ہوا تو راوی نے اپنے لئے سمرنوف طلب کی جبکہ مارکوس کے لئے سان میگوئیل اور تیسرے درویش کے لئے بانگلا نامی آب جو طلب کیا۔ تھوڑی دیر میں ساقی خشک میوہ کے ساتھ سامان خورد و نوش سامنے رکھ گیا۔ اداس آنکھوں والا یہ نیا درویش اپنا قصہ یوں سنانے لگا۔
عزیزان گرامی قدر من کہ جیسے آپ جانتے ہو ساکن بنگال کا ہوں جبکہ والد میرے کا تعلق بہار سے تھا۔ نام میرا عزیز الاسلام ہے اور میں مشرقی پاکستان کے شہر چٹاگانگ میں مارچ 1960 میں پیدا ہوا۔ وہی چٹاگانگ جو بنگال سے پچھڑا تو ملک اراکان کا حصہ بن گیا۔ پھر پرتگیزیوں نے اس پر قبضہ رکھا اور بعد میں یہ انگریزوں کے ماتحت آگیا اس طرح جب ہندوستان پاکستان آزاد ہوئے تو یہ مشرقی پاکستان کا حصہ بنا۔ یہی وہ شہر ہے جہاں سے سب سے پہلے بنگلہ دیش کی آزادی کا اعلان ہوا اور ہم بار بار کی غلامیوں سے آزاد ہوئے۔ یہاں راوی کی رگ پاکستانیت پھڑکی اور کہنے لگا کہ عزیز الاسلام انگریزوں سے پرتگیزیوں اور اراکانیوں سے آزادی کا حصول تو سمجھ آیا یہ تم لوگوں نے پاکستان سے آزادی کیوں حاصل کی وہ تو تمہارے اپنے بھائی تھے؟ تیکھی آنکھ سے دیکھتے ہوئے کہنے لگا تم پاکستانی ہو ہمارے بھائی ہو کل بھی تھے اور ہمیشہ رہو گے لیکن کیا تم نے کبھی ہمیں بھائی سمجھا؟ آزادی کے فورا بعد جیسے مغربی پاکستان میں مہاجرین کو خوش آمدید کہا گیا ہم نے بھی بہار سے آنے والوں کو اپنایا۔ جیسے تم لوگوں کے سوال ہیں کہ بنگلہ دیش کیوں بنا ویسے ہی ہمارے بھی سوال ہیں کہ مشرقی پاکستان، مشرقی پاکستان کیوں نہ بن سکا ۔ معاف کرنا لیکن

وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثے ایک دم نہیں ہوتے
مشرقی پاکستان کا دفاع مغربی پاکستان سے کرنے کا منصوبہ ناکام کیوں ہوا؟ کبھی وقت ملا تو سوچناکہ کہیں ارادے کی کمی تو اس میں شامل حال نہ تھی؟ ۔سوچو تو سہی کہ تمہارے ملک کا ایک بازو ہے جس کی آبادی تم سے زیادہ ہے لیکن اسے تم یہ حق نہیں دیتے کہ وہ اپنے وسائل پر ہی اپنی مرضی سے کچھ کر سکے تو یہ کس کی ناکامی ہے۔کبھی وقت ملے تو سوچنا کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ پاکستان کو توڑنے میں تم مغربی پاکستانی ہم مشرقیوں سے زیادہ مستعد تھے؟اسمبلی کا اجلاس نہ بلانا جبکہ علم تھا کہ مشرقی پاکستان کا بندہ انتخابات جیت چکا ہے تو تمہیں ہمارا ساتھ نہیں چاہیئے تھا اسی لیئے تو تم لوگوں نے یہ اعلان کیا تھا ناں کہ (جہنم میں جائیں سور کے بچے) یہ کون سے ملک میں ہوتا ہے؟ ۔ تب تک کیا ہم تمہارے بھائی نہیں تھے؟ پھر کیا رضاکار، البدر اور الشمس بنا کر کوئی فرشتے کھڑے کئے تھے جنہوں نے مکتی باہنی نامی شیطان سے لڑنا تھا؟ کیا ہماری عورتیں تم لوگوں پر حلال تھیں ؟ ، ہمارے لوگوں کو قطار در قطار کھڑا کر کے گولیاں کس نے ماریں کیا وہ ہندوستان تھا؟ ۔ ہندوستان کیا کر سکتا تھا اگر تم لوگوں نے ہمیں اپنا سمجھ کر برابر کا حق دیا ہوتا۔ بیرونی سازش بھی تب ہی کام کرتی ہے جب اپنوں میں سے کوئی ان کے ساتھ ہو۔اور اپنے کبھی دشمن کا ساتھ نہیں دیتے اگر انہیں کبھی اپنا سمجھا جائے۔ جو غلطی کر کے تم لوگوں نے مشرقی پاکستان الگ کروایا وہی غلطیاں تم اپنے مغربی پاکستان میں نہیں کر رہے؟ ایک طرف تمہارے پاس دنیا کی بہترین فوج ہے، ایٹمی ہتھیار ہیں ، مضبوط قوم ہے لیکن تمہیں الحاق کرنے والی ریاستوں کے ساتھ کیئے ہوئے وعدوں کا پاس نہیں ۔ تو جن سے تم وعدے توڑو گے ان سے وفا کی امید کیوں رکھو گے؟ملک ملت سے بنتے ہیں زمینوں سے نہیں اور ملت لوگ ہوتے ہیں زمینیں سرحدیں نہیں ۔تمہارے آئین میں صوبوں کو اندرونی خود مختاری دی گئی ہے کیا اب صوبوں کو دی جانے والی خود مختاری تب مشرقی پاکستان کو دیتے ہوئے کوئی طوفان آجاتا؟امرکوٹ ، بہاولپور، قلات، چترال، سوات ، ہنزہ ، نگر ، امب، دیر وغیرہ بھی تو تمہارے ملک کے ساتھ بعد میں شامل ہوئی تھیں ان میں سے کتنی کو داخلی آزادی کی شرط پر الحاق کے لئے راضی کیا گیا اور بعد میں ون یونٹ بنا کر تم لوگوں نے ان کے پاس وہ داخلی آزادی بھی نہ چھوڑی۔ میں یہاں بحث کے لئے نہیں آیا۔ دل کے پھپھولے چھیڑو گے تو پھر جواب میں جواب دینا پڑے گا۔ سوچو ایسا کیوں ہے کہ جس ملک کو تم لوگوں سے آزادی ملی اس کی کرنسی میں ڈالر نوے ٹکے کا ہے جبکہ تم لوگوں کے لیئے ڈالر دوسو روپے سے اوپر کا ہے۔ کہیں نا کہیں گڑبڑ تو ہے کہ نہیں؟ نظام جمہوری لیکن اسی نظام میں تمہاری جمہوری حکومتیں اپنے ماتحت فوج سے حمایت مانگتی ہیں کیوں؟ کیا فوج ایک سرکاری ادارہ نہیں ہے جس کا کام حکومت کے احکامات ماننا ہے لیکن کیا تمہاری کسی حکومت میں اتنی ہمت ہے کہ کسی سپہ سالار کو بغیر وجہ بتائے معزول کر سکے؟ کیا تمہارے ملک میں کچھ کرنے کے لئے بیرونی ممالک فوج سے رابطہ نہیں کرتے؟ ہم فرشتے نہیں ہیں ، نہ تھے نہ ہونگے لیکن اب جیسے بھی ہیں اپنے سیاہ و سفید کے خود ذمہ دار ہیں۔ بات نکلے گی تو بہت دور تلک جائے گی۔ میرا مزاج اب تم سے بات کرنے کا نہیں ہے۔ تم نے میرا دل کھٹا کر دیا ہے تم سے ملنے آیا تھا کہ کچھ دل کا بوجھ ہلکا ہوگا لیکن تم نے تو میرا دل اور بھی بوجھل کر دیا۔ یہ کہہ کر وہ اٹھا اور باہر نکل گیا۔

راوی اور مارکوس ہکے بکے وہیں بیٹھے رہ گئے۔ آخر راوی اٹھا اور ساقی سے حساب بے باق کر کے باہر کو نکلا، مارکوس کو اس کے گھر چھوڑا اور خود اپنے گھر جان پہنچا۔ اور پھر سو گیا۔

بالکل ایک عام پاکستانی کی طرح
 
Top