اسٹوری آف دی فور سینٹس

لو جی عزیزان من
عرصہ طویل بیتا ہے کہ اسی محفل میں ایک سلسلہ طویل بیاں ہوا کرتا تھا جسے راوی کہانی کا کھیل لکھا کرتے تھے ۔ اس طول بیانی میں بہت سے برجہائے سخن اپنی تحریری قابلیتوں کا اظہار بے بنیاد کیا کرتے تھے مگر اس سلسلہ سخن گاہی کا ایک فائدہ تو ضرور ہوا کرتا تھا کہ شتابی تحریر کنندگان میں خورد و کلاں کاتبان قصہ بیاں کی تطویر بر تحریر ہوا کرتی تھی ۔ اور اسی تطویر بر تحریر کو مد نظر رکھتے ہوئے کچھ نوجوانان کی خواہش کو پورا کرنے کی سعی کرنے کا قصد بدون فصد کیا ہے اس بوڑھے درویش نے ۔ اور ایک نیا قصہ چہار درویش لکھنے کا ارادہ ظاہر کرتا ہوں ۔

آپ ساتھیوں عزیزوں سے ایک عرض غریبانہ ہے کہ اس قصہ چہار درویش 2006 پر اپنی آراء کا اظہار نئے فیتے میں کیجئے گا تاکہ کہانی کا لطف خراب نہ ہو ۔ اور وہ فیتہ آپ خود ہی بنا لیجئے گا کہ قصہ خوان کے پاس ان خرائف کا وقت نہیں ہے ۔
 
دیباچہ

رات کا پچھلا پہر ہے ۔ شہر کی سڑکوں پر گاڑیاں اور ٹیکسیاں چلی جارہی ہیں ۔ ایک شخص جمیرا کے علاقے سے نکل کر چھپتا چھپاتا اپنی مرسڈیز کو بردبئی کے علاقے کی طرف بڑھاتا چلا جا رہا ہے۔ اچانک رات کے اس پہر کو پورٹ راشد کے سامنے سے ایک خالی پلاٹ میں چار افراد کو بیٹھے گفتگو کرتے پاتا ہے اور اپنی تجسس کی حس سے مجبور ہو کر گاڑی پچھلی پارکنگ میں کھڑی کر کے انکے قریب ہوکر انکی گفتگو سننے لگتا ہے ۔ رات کا پچھلا پہر جب شہر میں صرف C.I.D یا Public Service Women یا پھر انکے دیوانے ملتے تھے اور رمضان میں تو یہ اور بھی محدود ہوکر صرف C.I.D تک رہ جاتا ہے یہ چار درویش اس علاقے میں کیا کر رہے ہیں ۔ وہ شخص ذرا قریب ہوتا ہے تو کیا سنتا ہے ۔ ۔ ۔؟
 
ایک لمبی آہ نے ماحول کو اور بھی سرد کر دیا اور یہ آہ ان چاروں میں سے کس کی تھی اس کے سائز اور انداز سے ہی معلوم ہوگیا تھا ۔ یہ آہ ان میں سے مشرق بعید یا چین کے علاقے سے متعلقہ درویش کے منہ سے نکلی تھی ۔ کہنے لگا

اچھا بھلا منیلا میں کالج سے فارغ ہوا تھا کہ باپ کی بے وقت سستی نے مجھے کام کرنے پر مجبور کردیا ۔ کام کرتا تھا اور اپنے حصے کی شراب خرید لاتا تھا ۔ میں اور گرل فرینڈ مل کر روم کا کرایہ دیا کرتے تھے کہ ایک دن اچانک میری گرل فرینڈ “لوسی اپاپان“ کو کیا سوجھی کہ فارن ریکروٹمنٹ بیورو میں اپنا نام لکھوا آئی ۔ یارو بندے کا نام مارکوس ہے اور ابھی “سی شیل ان ہوٹل“ میں بار ٹینڈر ہوں ۔ عزیزان من ابھی تو ابتدائیہ ہے قصے کا اسے خلاصہ مت سمجھنا ۔ “لوسی اپاپان“ جس دن اپنا نام فارن ریکروٹمنٹ بیورو میں لکھوا کر آئی اس دن میں نے پیسے کم ہونے کی وجہ سے سستی آلوؤں کی رم کے دو باٹل خرید کئے تھے اور ابھی اپنے کمرے میں بیٹھ کر سیامی بلی کا گوشت صاف کر رہا تھا تاکہ آج رات کو ہم اسکی بار بی کیو بنا کر کھاتے ۔ لوسی کی آمد پر میں نے وہی پرانا گیت گاتے ہوئے دروازہ کھولا ۔

میں : نگی نگی آپننگا ( خوش آمدید میری حبیب)
لوسی : نگی نگی آپننگ ( خوش آمدید میرے حبیب)
میں : آنگو ؤاری ساؤندا ( آپکا دن کیسا گزرا )
لوسی : ساؤندا پاری آنگو ۔ آمیرا دیدی پاگانگ دبئی سی لانگ
(دن بہت اچھا گزرا ۔ میں دبئی جا رہی ہوں بہت جلد)
میں : دبئی ۔ ۔ ؟ سی لانگ (بہت جلد) ۔ ۔ ؟
لوسی : نگایا ( ہاں)

یارو مت پوچھو کہ یہ سنتے ہی میرے دل پر کیا بیتی ۔ ہاتھ میں بلی کی ران تھی جو نکل کر نیچے گر گئی ۔ اور آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا ۔ فورا ایک گھونٹ رم کا لگایا تو کچھ ہوش ٹھکانے آئے ۔ مگر پھر بھی زبان گنگ تھی ۔
۔
۔
۔
۔۔
۔
۔
۔جاری ہے
 
کیونکہ تم لوگوں کا تعلق ہمارے ملک سے نہیں ہے اس لئے میں تیگلوگ زبان کو اس قصہ سے نکال دیتا ہوں اور تمہاری زبان میں ترجمہ کر کے قصہ بیان کرتا ہوں ۔

تو یارو عزیزو اس دوراں کہ میرے ہاتھ سے صاف ہونے والی بلی کی ران زمیں پر گری میرے دل کی حالت میں تغیر کی آمد ہوئی اور گریہ کناں میری آنکھوں نے لوسی کو غور سے دیکھ کر پوچھا ۔ ۔ ۔؟

لوسی کیا تم مجھے چھوڑ جاؤگی ۔ ۔ ۔ ۔ ؟
ہاں تو کیا عمر بھر تم جیسے شرابی کے ساتھ رہوں گی اور یاد رکھو تم صرف بوائے فرینڈ ہو لہذا میری زندگی پر خاوندوں کی طرح حق جتانا چھوڑو اور آرام سے گوشت بناؤ آج میں نے “بلیک لیبل“ خریدی ہے ۔

لوسی کی یہ بات سن کر میری تمام تر محبت بلی کے گوشت کی طرح ٹکڑے ٹکڑے ہوگئی اور میرا دل آگ پر بھنتے ہوئے انناس کی طرح پلپلا ہو گیا ۔ مگر اس غصہ ۔ دکھ اور یاسیت کے عالم میں ایک امید کی کرن نظر آ رہی تھی ۔ وہ تھی لوسی کی لائی ہوئی بلیک لیبل ۔ ۔ ۔ ۔ ؟

تھوڑی دیر بعد لوسی اور میں کیٹ میٹ باربی کیو کا لطف اڑا رہے تھے اور ساتھ ساتھ بلیک لیبل کے گھونٹ بھی لگا رہے تھے کہ اچانک میں نے لوسی سے کہا ۔ ۔ ۔ ۔ ؟ لوسی ایک بات پوچھوں۔۔ِ۔۔؟
پوچھو ۔ ۔ ؟
ہم کل کیا پکائیں گے ۔ ۔ ۔؟
جو دل چاہے پکا لینا ۔ ۔ ۔ ؟
تو پھر کل بندر کا مغز کیسا رہے گا ۔ ۔ ؟
واؤ ۔ بندر کا مغز مگر تمہیں ٹھیک طرح سے پکانا نہیں آتا۔ میں تو بہت پسند کرتی ہوں ۔ بس اس میں کیکٹس( خار تھوہر) ذرا کم ڈالنا ۔ اگر ساتھ میں ڈاؤگرٹ (گدھی کے دودھ سے تیار شدہ دہی) بھی ہو تو کیا بات ہے ۔ ۔ ۔ ۔!




۔ِِِ۔ِ
۔
۔
۔
۔
۔
۔جاری ہے
 
تو میرے ہم پیالہ و ہم مشرب عزیزو من کہ ایک ناہنجار قسم کا رفیق مرد ہوا کرتا تھا فورا اس حسینہ نازنین پری وش کی بات کو مان کر اثبات میں سر کو ہلا بیٹھا ۔ اچانک میرے دل میں ایک عجیب سی بنت خیال نے جنم لیا اور میرے منہ سے نکلا کہ لوسی بندر کا مغز اس شرط پر کھلاؤں گا کہ تم مجھے بھی اپنے ساتھ دبئی لے چلو ۔ تو یارو لوسی نے بلیک لیبل کے نشے میں میری تجویز حقیر کو منظور کیا اور یہاں آنے کا قصد ہوا ہم دونوں کا ۔
عزیزان من درویشو ۔ ۔ !
بیان یہاں تک کر کے وہ درویش کھلکھلا کے رو دیا اور اسکی آنکھوں کے خشک کونے اسکے دکھ کی کہانی سنا رہے تھے ۔

ایک درویش نے سکوت کو توڑا اور اپنے منہ میں بھری نسوار کو پھینک کر یوں گویا ہوا ۔

اخ تھو ۔ ۔ ۔!
تو خوچہ تمارا کانی (تمہاری کہانی) کتم (ختم) او گیا اے۔۔۔۔۔؟
تم نے تو سڑیا(دوست) مجے خوفزدہ ای کردیا تا (تھا) ۔
وہ کیا پرماتی اے امارا بزرگ شاعر رحمان بابا ۔

پہلا درویش گویا ہوا :
اے ہمراز و ہم جام میرے رفیق شام اور کسی نسوار فیکٹری کے اسٹور کیپر درویش ابھو اس درویش کا قصہ ناتمام ہے ۔ یہ تو ایک ابتدائیہ تھا جسے تو مکمل قصہ سمجھ بیٹھا ہے ۔ عزیز من تمہاری زبان کے ایک شاعر نے کیا خوب کہا ہے ۔

گھر سے نکلے عزت والے آ پردیس ہوئے ذلیل
بیس برس بھی رہنا یاں تو کما کما کر بھرے کفیل

برادر ابھی تو قصہ شروع ہو رہا ہے ۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔
۔جاری ہے
 
ابھی درویش مذکور اتنی بات کر ہی رہا تھا کہ اچانک سائرن کی آواز نے علاقے کو جھنجھوڑ کر اٹھا دیا اور ایک سبز و سفید رنگ کی گاڑی جس پر دو رنگوں کے انّارے لگے ہوئے تھے اپنے دروازوں پر “الشرطہPolice " تحریر کئے ہوئے پاس سے گزرتی ہوئی چلی گئیں ۔تمام درویش شور کی آڑ میں خاموشی لپیٹ کر بیٹھ گئے اور کچھ وقت ایسے ہی گزرا تو اچانک ایک درویش نے جو قد میں اتنا طویل القامت نہ تھا مگر دوسرے درویشوں کی نسبت زیادہ چست و چالاک لگ رہا تھا اپنا بیان شروع کیا ۔

باندھُو کوئیٹے باجن ( دوست کیا وقت ہوا ہے)
آمو روزین جو ٹائم ہوئیجن (ہمارا روزے کا ٹائم ہوگیا ہے)
----------------------------------------------------------------------------------------------
اس کے ساتھ ہی چاروں درویش ایک ساتھ شروع ہو گئے اور جیسے ایک طوفان بد تمیزی نے اس میدان کو غبار آلود کر دیا اور طرح طرح کی آوازیں آنے لگیں ۔

اوئی خانہ خراب کا بچی تم بانگالی میں بات کرتی اے ادر کس کو مالوم اے بانگالی میں تم کیا پوچھا ۔

جی بالکل برادر کو یا تو زبان مشترک میں بات کرنا چاہیئے یا پھر خاموش رہنا چاہیئے ۔

اس درویش نے جب یہ بحث طول پکرتی سنی تو زبان مشترک میں گویا ہوا ۔

امارا بوئی او آم توم لوگ کو پوچ ٹیم کیتنے باجن ( میرے بھائیو میں نے تم لوگوں سے پوچھاکہ کیا وقت ہوا ہے) اور باد میں آم توم لوگ کو پوچ امارا روجے کا ٹیم اوگئن ( اور بعد مین میں نے آپ لوگوں کو بتایا کہ ہمارے روضے کا ٹائم ہو گیا ہے) ۔

۔ لہذا اس محفل کو اب کل پر رکھتے ہیں اور باقی باتیں کل شب کو کریں گے ۔ اب یہ بات کہ کر وہ بنگالی درویش ۔ اپنے ساتھی فلپائنی درویش کو لیکر روانہء ہوٹل ہوا اور دوسرے درویش خانصاحب چوتھے درویش کو لیکر رفو چکر ہوئے ۔

سامع (سننے والا) واپس اپنی مرسڈیز میں بیٹھا اور روانہ ہوا اپنی منزل کی طرف کہ جہاں کا قصد کر کے وہ گھر سے نکلا تھا ۔

۔ِ
۔
۔
۔
۔
۔
جاری ہے
 
بہت دن کزر گئے کہ اچانک اس درویش کا گزر پھر سے اسی گلی سے ہوا جہاں پر چند برس پہلے اس نے ان درویشوں کو شرف ہم رکابی بخشا تھا۔ کہ اچانک اسکی آنکھوں سے آنسو دھڑام دھڑام گرنے لگے ۔ اسے یاد آیا کہ پچھلی بار جب وہ یہاں آیا تھا تو اس کے پاس نئے ماڈل کی مرسڈیز تھی لیکن آج اسکے پاس ایک پرانی 1999 ماڈل کی کیا کلاروس ہے ۔ اسے یاد آیا کہ کیا دن تھے جب دن عید اور رات شب برات ہوا کرتی تھی لیکن اب ۔۔۔ ۔ ۔ ایںںںںںںںںںںںںںںںںںںںںںںںںںںںںںںںںںںںںںںںںںںںںںںں ایںںںںںںںںںںںںںںںںںںںںںںںںںںںںںںںںںںںںںںںں ۔ ایںںںںںںںںںںںںںںںںںںںںںںںںںںںںںںںں
خیر اس نے یہ فیصلہ کیا کہ ڈھونڈے گا شتابی ان جواں مردوں کو ان قصہ خواں مردوں کو اگر وہ اب تک دوزخ کا ایندھن نہ ہو گئے ہوئے تو اور اس فیصلے کے ساتھ ہی اسکے موبائل سے انٹرنیٹ کا ڈیٹا بنڈل ختم ہو گیا اور اسے اپنی گفتگوئے منچلانا بند کرتے ہی بنی
 

شمشاد

لائبریرین
شکر ہے آج آپ کو یاد تو آیا۔
6 سال سے زائد کا عرصہ گزر گیا کہ آپ نے یہ کہانی شروع کی تھی۔
مکمل ہونے تک 60 سال تو لگ ہی جائیں گے ناں۔
 
دوسرے دن اس بندہ مسکین بطبع خشمگیں نے اپنے موبائل کا ڈیٹا بنڈل ری نیو کروا کے آن لائن ان درویشوں کی تلاش شروع کر دی ۔ فیس بک پر تلاش شروع کرنے پر فورا پچاس نام مارکوس کے نکل کر سامنے پردہ اسکرین پر جلوہ گر ہوئے ۔ ایک کے بعد ایک کو تلاشتا رہا اور انٹرنیٹ کی موجوں پر روانی سے سفر کرتا رہا ۔ اچانک ایک نام پر توجہ ٹک گئی کہ اے بندہ خدا اعمال کے ناہنجار کیا تاکتا ہے یہ تو وہی درویش ہے جو کئی برس پہلے تجھے جمیرا سے آتے ہوئے راستے میں پورٹ راشد کے قریب ملا تھا اور انکا قصہ سنتے ہوئے تیرے کانوں کے پردے میل سے بھر گئے تھے ۔ فورا اسے اپنے فیس بک آئی ڈی میں ایڈ کرلیا کیا دیکھتا ہے کہ کرامت اس درویش کی ظاہر ہوئی اور اس نے بھی فورا فرینڈ ریکوئیسٹ کا جواب دیا اور فرینڈ ایکسیپٹ کر لیا ۔ اب جب اس بندہ خدا اعمال کے ناہنجار نے اس صفحئہ نورانی فیس بکیئے جو ملکیت اس مارکوس نامی درویش کی تھا پر نظر ڈالی تو حیران پریشان رہ گیا ۔

کیا دیکھتا ہے کہ مارکوس نامی درویش کے دوستوں کی لسٹ میں دنیا کے کئی علاقوں سے دوست موجود ہیں مگر وہ کسی کو جواب ہی نہیں دیتا ۔ پروفائل سے دیکھ کر جب ھاتف جیبی سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی تو دوسری کوشش میں ہی ھاتف جیبی سے جواب آیا۔

مارکوس : ہیلو ۔۔۔۔۔!
درویش: ہیلو مارکوس ہاؤ آر یو (ہیلو مارکوس کیسے ہو)

مارکوس : آئم پائن تینک یو ۔ ہو از دس (میں اچھا ہوں کون بات کر رہا ہے)

درویش: اے بندہ خدا من کہ وہی درویش بات کر رہا ہوں جس نے کبھو تم لوگوں کی گفتگوئے چھپ چھپانہ کی سماعت خراش محفل میں خفیہ طور سے شرکت کی تھی (ترجمہ کی زحمت سے خود کو آزاد کرتا ہوں)

مارکوس : تو تم ہی تھے وہ ناہنجار کہ جس نے اس دن سی آئی ڈی کو خبر کی تھی کہ ہم چار درویش وہاں پر بیٹھ کر عمر مختصر کے غم غلط کرتے ہیں ۔

درویش: بے شک کہ من تمہاری گفتگوئے پر کمین کا خاموش سامع ہوں مگر قسم لے لو جو دہن پان خوردہ من سے یک شدنی بھی خروج پذیر ہوئی ہو ۔ البتہ اگر شرف ملاقات نعمت ہو جائے تو بندہ کچھ مزید صفائی پیش کرنے کی سعی فرما سکتا ہے ۔

مارکوس : تم یقینا پاکستانی ہوگے کہ چھوٹتے ہی قسم خوردہ بن گئے ہو البتہ ملاقات کے لیئے تمہیں چند لمحات عنایت کیئے جاتے ہیں جو کہ مکمل طور پر تمہارے خرچ پر ہونگے ۔ کم از کم تین بڈوائزر کا خرچ برداشت کنندہ ہونے کا حوصلہ جواں رکھتے ہو تو کل دیرہ میں نیھال ہوٹل کے شراب خانہء فلیپینی میں مجھ ناچیز کا تین نمبر کی میز پر رات کے پورے گیارہ بیس پر انتظار کرنا۔

درویش: آپ سے ملاقات کا شرف حاصل ہو جائے تو بندہ آپ کو اس کے سامنے پہلی منزل کی زیارت بھی کروا سکتا ہے جو کہ ایک ہندوستانی مکان راحت شرب و خمار ہے وہاں جلوس پر اسرار بھی ممکن ہے اور گفتگوئے لاحاصل پر بھی کچھ عیب نہیں

مارکوس : تو پھر کل ملاقات ہوگی

اتنا فرماتے ہی درویش مارکوس سے اس درویش کا رابطہء ھاتف جیبی منقطع ہوا اور یہ درویش بلو فراگ کا گھونٹ لگا کر اٹھ کھڑا ہوا
 
Top