اسلام کی مشہور شخصیتوں کے دور

اسلام کی مشہور شخصیتوں کے ادوار

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم 570-632
حضرت ابوبکر صدیق 573-634
حضرت عمر فاروق 583-644
حضرت عثمان 583-656
حضرت علی ابن طالب 600-661

شیعہ امام:
1۔ علی ابن طالب 600-661
2۔ حسن بن علی 625-670
3۔ حسین بن علی 626-680
4۔ زین العابدین بن حسین 659-712
5۔ محمد باقر بن زین 676-731
6۔ جعفر صادق بن باقر 702-765
7۔ موسی کاظم بن جعفر 746-799
8۔ علی رضا بن موسی کاظم 765-818
9۔ محمد جواد تقی بن رضا 811-835
10۔ علی ھادی نقی بن تقی 846-868
11۔ حسن عسکری بن نقی 846-870
12- ابو القاسم محمد المنتظر امام الزماں المہدی (اثناء العشری حضرات یقین رکھتے ہیں کی و 254 یا 255 ہجری میں پیدا ہوکر4 یا 5 سال کی عمر میں غائب ہوگئے اور قیامت سے پہلے ظاہر ہونگے )

حضرت معاویہ 604-680
یزید بن معاویہ 645-683

ایرانی النسل مؤرخین اور سنی محدثین کی تاریخ وفات:
امام ابن جریر طبری - اولین مفسر اور مؤرخ 310ھ 923ع
امام محمد اسماعیل بخاری 256ھ 870ع
امام مسلم بن حجاج القشیری 261ھ 875ع
ابو عبداللہ ابن یزید ابن ماجہ 273ھ 886ع
سلیمان ابو داؤد 275ھ 888ع
امام ابو موسی ترمذی 279ھ 883ع
امام عبدالحمٰن نسائی 303ھ 915ع

ایرانی النسل شیعہ مؤرخین اور محدثین کی تارخ‌وفات:
شیخ محمد بن یعقوب بن اسحاق الکلینی 329ھ 941ع
شیخ صدوق ابو جعفر بن علی طبرسی 381ھ 993ع
شیخ ابو جعفر محمد ابن حسن طوسی 460ھ 1071ع

فقہہ کے امام(Jurists)، تاریخ وفات:
امام مالک ابن انس 179ھ
امام ابو حنیفہ 150ھ
امام احمد بن حنبل 241ھ
امام شافی 204ھ

ابن طبری نے پہلی تاریخ،حضورپرنور(ص) کی وفات کے تقریباَ 250 سال بعد لکھی۔ اسی نے واقعہ کربلا کے 225 سال بعد اس واقعہ کوقلمبند کیا۔ اس سے پہلے اس واقعہ کی کوئی تحریر نہیں ملتی، اور اس نے اس واقعہ کا کوئی ریفرنس نہیں‌فراہم کیا، یہ سنی سنائی شہادتوں‌پر مشتمل ہے اور چشم دید گواہ ایک بھی نہیں اس تحریر کا۔

یہ نوٹ‌کرنا اہم ہے کہ ہماری کتب روایات کے تمام مصنفین، طبری/کلینی دور سے تعلق رکھتے ہیں، جوکہ حضور (ص)‌ وفات کے 250 سال بعد شروع ہوا۔ ان تمام تصنیفات کے ریفرنس 9 سے 10 نسل در نسل بعد سنے سنائے ہیں کہ اصحابہ کرام میں‌ سے کوئی زندہ نہیں تھا۔ پہلے 250 سال کی سنہری تاریخ کی کسی کتاب کا سراغ نہیں‌ملتا۔ کلینی اور طبری سے پیشتر (تقریباَ سنہ 250 ھجری سے پیشتر) شیعہ اور سنی فرقہ کا سراغ نہیں ملتا۔ یہ دونوں فرقہ کا ابتدائی سراغ تقریباَ‌ 250 ھجری کے قریب وجود میں آنے کا ملتا ہے۔ جبکہ واقعہ کربلا 10 محرم 61 ھجری بمطابق 9 یا 10 اکتوبر 680 میں پیش آیا۔

نو کے نو محدثین ایرانی النسل تھے۔ جن میں سے 6 سنی تھے، جن کی احادیث کو صحاح ستہ کہا جاتا ہے۔ اور 3 محدثین شیعہ تھے۔ ان سب کا تعلق شکست خوردہ ایرانی سلطنت سے تھا۔ان زورستانیوں (پارسی) کا زبردست اثر عباسی خلفاء پر رہا۔

مسلمانوں نے فارس 633-651 کے درمیان فتح کیا اور ساسانی سلطنت کا خاتمہ سعد ابی وقاص کی قیادت میں‌لڑی جانے والی جنگ قادسیہ سے ہوا۔ لیکن زورستانی مذہب ختم نہ ہوا بلکہ ' ایک اور ہی اسلام ' میں،تبدیل ہو گیا۔ زورستانی مذہب اور اس کی کتاب "پاژند " کے گہرے نشانات کتب روایات میں آج بھی ملاحظہ فرمائے جاسکتے ہیں۔

اس آرٹیکل کے تمام تواریخ‌ اور بیانات حوالہ جات کے ساتھ فراہم کئے گئے ہیں۔ مناسب جگہ پر کلک کرکے ان حوالہ جات کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ ٹائپنگ کی غلطی کی نشاندہی فرمائیں، بخوشی درست کروں گا۔

والسلام
9/10/2007 تبدیلی: طبری پہلا سے طبری اولین
 

الف نظامی

لائبریرین
اسلام کی مشہور شخصیتوں کے ادوار

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم 570-632
حضرت ابوبکر صدیق 573-634
حضرت عمر فاروق 583-644
حضرت عثمان 583-656
حضرت علی ابن طالب 600-661

شیعہ امام:
1۔ علی ابن طالب 600-661
2۔ حسن بن علی 625-670
3۔ حسین بن علی 626-680
4۔ زین العابدین بن حسین 659-712
5۔ محمد باقر بن زین 676-731
6۔ جعفر صادق بن باقر 702-765
7۔ موسی کاظم بن جعفر 746-799
8۔ علی رضا بن موسی کاظم 765-818
9۔ محمد جواد تقی بن رضا 811-835
10۔ علی ھادی نقی بن تقی 846-868
11۔ حسن عسکری بن نقی 846-870
12- ابو القاسم محمد المنتظر امام الزماں المہدی (اثناء العشری حضرات یقین رکھتے ہیں کی و 254 یا 255 ہجری میں پیدا ہوکر4 یا 5 سال کی عمر میں غائب ہوگئے اور قیامت سے پہلے ظاہر ہونگے )

حضرت معاویہ 604-680
یزید بن معاویہ 645-683

ایرانی النسل مؤرخین اور سنی محدثین کی تاریخ وفات:
امام ابن جریر طبری -پہلا مفسر اور مؤرخ 310ھ 923ع
امام محمد اسماعیل بخاری 256ھ 870ع
امام مسلم بن حجاج القشیری 261ھ 875ع
ابو عبداللہ ابن یزید ابن ماجہ 273ھ 886ع
سلیمان ابو داؤد 275ھ 888ع
امام ابو موسی ترمذی 279ھ 883ع
امام عبدالحمٰن نسائی 303ھ 915ع

ایرانی النسل شیعہ مؤرخین اور محدثین کی تارخ‌وفات:
شیخ محمد بن یعقوب بن اسحاق الکلینی 329ھ 941ع
شیخ صدوق ابو جعفر بن علی طبرسی 381ھ 993ع
شیخ ابو جعفر محمد ابن حسن طوسی 460ھ 1071ع

فقہہ کے امام(Jurists)، تاریخ وفات:
امام مالک ابن انس 179ھ
امام ابو حنیفہ 150ھ
امام احمد بن حنبل 241ھ
امام شافی 204ھ

ابن طبری نے پہلی تاریخ،حضورپرنور(ص) کی وفات کے تقریباَ 250 سال بعد لکھی۔ اسی نے واقعہ کربلا کے 225 سال بعد اس واقعہ کوقلمبند کیا۔ اس سے پہلے اس واقعہ کی کوئی تحریر نہیں ملتی، اور اس نے اس واقعہ کا کوئی ریفرنس نہیں‌فراہم کیا، یہ سنی سنائی شہادتوں‌پر مشتمل ہے اور چشم دید گواہ ایک بھی نہیں اس تحریر کا۔

یہ نوٹ‌کرنا اہم ہے کہ ہماری کتب روایات کے تمام مصنفین، طبری/کلینی دور سے تعلق رکھتے ہیں، جوکہ حضور (ص)‌ وفات کے 250 سال بعد شروع ہوا۔ ان تمام تصنیفات کے ریفرنس 9 سے 10 نسل در نسل بعد سنے سنائے ہیں کہ اصحابہ کرام میں‌ سے کوئی زندہ نہیں تھا۔ پہلے 250 سال کی سنہری تاریخ کی کسی کتاب کا سراغ نہیں‌ملتا۔ کلینی اور طبری سے پیشتر (تقریباَ سنہ 250 ھجری سے پیشتر) شیعہ اور سنی فرقہ کا سراغ نہیں ملتا۔ یہ دونوں فرقہ کا ابتدائی سراغ تقریباَ‌ 250 ھجری کے قریب وجود میں آنے کا ملتا ہے۔ جبکہ واقعہ کربلا 10 محرم 61 ھجری بمطابق 9 یا 10 اکتوبر 680 میں پیش آیا۔

نو کے نو محدثین ایرانی النسل تھے۔ جن میں سے 6 سنی تھے، جن کی احادیث کو صحاح ستہ کہا جاتا ہے۔ اور 3 محدثین شیعہ تھے۔ ان سب کا تعلق شکست خوردہ ایرانی سلطنت سے تھا۔ان زورستانیوں (پارسی) کا زبردست اثر عباسی خلفاء پر رہا۔

مسلمانوں نے فارس 633-651 کے درمیان فتح کیا اور ساسانی سلطنت کا خاتمہ سعد ابی وقاص کی قیادت میں‌لڑی جانے والی جنگ قادسیہ سے ہوا۔ لیکن زورستانی مذہب ختم نہ ہوا بلکہ ' ایک اور ہی اسلام ' میں،تبدیل ہو گیا۔ زورستانی مذہب اور اس کی کتاب "پاژند " کے گہرے نشانات کتب روایات میں آج بھی ملاحظہ فرمائے جاسکتے ہیں۔

اس آرٹیکل کے تمام تواریخ‌ اور بیانات حوالہ جات کے ساتھ فراہم کئے گئے ہیں۔ مناسب جگہ پر کلک کرکے ان حوالہ جات کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ ٹائپنگ کی غلطی کی نشاندہی فرمائیں، بخوشی درست کروں گا۔

والسلام
محدثین کے سن پیدائش کا تذکرہ کیوں بھول گئے، اور یہاں تمہاری شیعہ سنی کی تفریق اجاگر کرنے کی سوچ واضح نظر آ رہی ہے۔
یزید کو تم نے مشہور مسلمان شخصیت کے زمرہ میں شامل کیا اس کا کیا مقصد ہے؟
 

محمد وارث

لائبریرین
اسلام کی مشہور شخصیات کے حوالے سے فاروق سرور خان صاحب کی بعینیہ یہی پوسٹ ایک اور تھریڈ "مولویت اور کتبِ مولویت" میں موجود ہے۔

اور چونکہ اس میں بے شمار تاریخی اغلاط ہیں، جن کی نشاندہی میں نے اسی پوسٹ پر کی تھی، لیکن بہرحال چونکہ یہ پوسٹ دوبارہ ایک اور تھریڈ میں ہو بہو موجود ہے تو میں بھی اپنی پہلی پوسٹ دوبارہ نیچے دے رہا ہوں تا کہ "ریکارڈ" کی درستگی ہو سکے۔



السلام علیکم محترم،

آپ کی اوپر کی ایک پوسٹ میں کچھ "تاریخی" غلطیاں نظر آئیں تو پھر مجبور ہوا کچھ لکھنے پر۔

لیکن اس سے پہلے ایک جملہ معترضہ آپ کے مہیا کردہ حوالہ جات کے بارے میں، جو سارے کے سارے وکیپیڈیا کے ہیں، اور وکیپیڈیا کے متعلق عرض کرتا چلوں کہ یہ Informative ضرور ہے لیکن Authoritative ان کیلیے بھی نہیں ہے جن کی زبان میں لکھا گیا ہے۔ مثلاً کچھ ماہ پہلے میں نے ڈیلی ٹائمز، اسلام آباد میں ایک خبر پڑھی کہ امریکہ میں کچھ پروفیسر صاحبان نے اپنے طالب علموں کو منع کیا کہ وہ وکیپیڈیا کے حوالہ جات اپنے ٹرم پیپیرز وغیرہ میں مت دیں ورنہ وہ قابلِ قبول نہیں ہونگے، اور ابھی حال میں یہ ایشو بھی چلا کہ اسکی انٹریز، سی آئی اے وغیرہ نے عراق، افغانستان اور اس طرح کے دوسرے موضوعات پر اپنے نقطہ نظر سے ایڈٹ کی ہیں۔

اب ایک نظر ان حقائق کی طرف جو کہ آپ نے غلط رنگ سے پیش کئے ہیں۔


اقتباس:
اصلی پوسٹ بذریعہ فاروق سرور خان
ایرانی النسل مؤرخین اور سنی محدثین کی تاریخ وفات:
امام ابن جریر طبری -پہلا مفسر اور مؤرخ 310ھ 923ع
امام محمد اسماعیل بخاری 256ھ 870ع
امام مسلم بن حجاج القشیری 261ھ 875ع
ابو عبداللہ ابن یزید ابن ماجہ 273ھ 886ع
سلیمان ابو داؤد 275ھ 888ع
امام ابو موسی ترمذی 279ھ 883ع
امام عبدالحمٰن نسائی 303ھ 915ع
والسلام


آپ نے طبری کو پہلا مفسر اور مؤرخ قرار دیا ہے۔ حالانکہ ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔

مفسر، سے مراد اگر، (قرآن کو) کھولنا اور بیان کرنا ہے، تو مفسرِ اول تو بذات خود حضورِ اقدس (ص) کی ذاتِ مبارکہ تھی۔ اور انکے بعد صحابہ کرام میں سے جو "مفسر" مشہور ہوئے ان میں چاروں خلفۂ راشدین، ابنِ مسعود، ابنِ عباس، ابنِ کعب، ابنِ ثابت، ابنِ زبیر کے نام مشہور ہیں۔

اور اگر مفسر سے آپکی مراد، بفرضِ محال، "صاحبِ کتابِ تفسیر" ہے تو پھر بھی طبری پہلے مفسر نہیں ہیں۔ تفسیر ابنِ کعب، اور تفسیرِ ابنِ عباس باقاعدہ کتابی شکل میں موجود ہیں اور مؤخرالذکر تو عام ملتی ہے۔

اب آئیے مؤرخ کی طرف تو یہاں بھی بہت بڑا دھوکہ کھا گئے آپ۔

اسلامی تاریخ نگاری کو چار ادوار میں تقسیم کیا جاتا ہے۔

۔ابتدائے تاریخ نگاری سے تیسری صدی ہجری تک
۔تیسری سے چھٹی ہجری
۔چھٹی سے دسویں
۔دسویں سے تا حال

طبری کا دور اسلامی تاریخ نگاری میں دوسرا دور ہے۔ طبری سے پہلے، پہلے دور کے چند مؤرخین جن کی تصانیف مشہور ہوئیں ان میں سے کچھ درج ذیل ہیں۔

۔ ابو عبداللہ محمد بن اسحاق بن یساز (معروف بہ ابنِ اسحاق) وفات 150 ہجری۔ سیرت نبوی، دو جلدوں میں "المبتدا" کے نام سے لکھی۔ دوسری کتاب کا نام "الخلفاء" ہے۔ مدینہ میں پیدا ہوئے۔

۔ ابو محمد عبدالملک بن ہشام، وفات 218 ہجری۔ سیرۃ ابنِ ہشام، سیرت اور تاریخ کی مستند ترین کتابوں میں سے ہے۔ انہوں نے سیرہ ابنِ اسحاق کو نئے سرے سے لکھا۔ بصرہ میں پیدا ہوئے۔

۔ محمد بن عمر واقدی، وفات 207 ہجری۔ تاریخ کی پانچ، چھ کتابوں کا مصنف ہے۔ سب سے مشہور "کتاب التاریخ والمغازی" ہے۔ یہ بالکل بھی ثقہ نہیں سمجھا جاتا لیکن یہاں اس سے بحث نہیں ہے، بلکہ اس سے ہے کہ یہ (غیر ثقہ) مؤرخ، طبری سے پہلے تھا۔ مدینہ میں پیدا ہوئے۔

۔ ابو عبداللہ محمد بن سعد، وفات 230 ہجری۔ "طبقاتِ ابنِ سعد" کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔ عام ملتی ہے۔ واقدی کے نائب تھے لیکن استاد کے مقابلے میں ثقہ سمجھے جاتے ہیں۔ بصرہ میں پیدا ہوئے۔


اقتباس:
اصلی پوسٹ بذریعہ فاروق سرور خان
ابن طبری نے پہلی تاریخ،حضورپرنور(ص) کی وفات کے تقریباَ 250 سال بعد لکھی۔ اسی نے واقعہ کربلا کے 225 سال بعد اس واقعہ کوقلمبند کیا۔ اس سے پہلے اس واقعہ کی کوئی تحریر نہیں ملتی، اور اس نے اس واقعہ کا کوئی ریفرنس نہیں‌فراہم کیا، یہ سنی سنائی شہادتوں‌پر مشتمل ہے اور چشم دید گواہ ایک بھی نہیں اس تحریر کا۔

یہ نوٹ‌کرنا اہم ہے کہ ہماری کتب روایات کے تمام مصنفین، طبری/کلینی دور سے تعلق رکھتے ہیں، جوکہ حضور (ص)‌ وفات کے 250 سال بعد شروع ہوا۔ ان تمام تصنیفات کے ریفرنس 9 سے 10 نسل در نسل بعد سنے سنائے ہیں کہ اصحابہ کرام میں‌ سے کوئی زندہ نہیں تھا۔ پہلے 250 سال کی سنہری تاریخ کی کسی کتاب کا سراغ نہیں‌ملتا۔ کلینی اور طبری سے پیشتر (تقریباَ سنہ 250 ھجری سے پیشتر) شیعہ اور سنی فرقہ کا سراغ نہیں ملتا۔ یہ دونوں فرقہ کا ابتدائی سراغ تقریباَ‌ 250 ھجری کے قریب وجود میں آنے کا ملتا ہے۔ جبکہ واقعہ کربلا 10 محرم 61 ھجری بمطابق 9 یا 10 اکتوبر 680 میں پیش آیا۔


ان میں سے کچھ باتوں کا صحیح ریفرنس اوپر میں نے دے دیا کہ طبری اور کلینی سے پہلے کوئی کتاب نہیں ملتی۔

اور یہ کہنا کہ کلینی اور طبری کی کتب کی وجہ سے شیعہ سنی فرقے پیدا ہوئے، عرفِ عام میں قیاس مع الفارق کہلاتا ہے۔

سنی کتب کی فہرست میں نے اوپر دی، جو طبری سے پہلے تھے۔ شیعہ کتب میں سے احمد بن ابو محمد بن علی اعثم کوفی (معروف بہ ابنِ اعثم کوفی) وفات 314 ہجری کی کتب "الفتوح" اور "تاریخِ اعثم کوفی" شیعہ کتبِ تاریخ میں مستند ہیں جو کہ کلینی سے پہلے کی ہیں۔

انکی "تاریخ" میرے پاس موجود ہے اور اس میں انہوں نے شرح و بسیط کے ساتھ کربلا کے واقعات لکھے ہیں، اس لیے آپ کا یہ دعوٰی بھی غلط ہے کہ کربلا کے واقعات پہلی دفعہ طبری نے لکھے۔

اور آخر میں سخن ہائے نا گفتنی، آپ بے شک فرمائیں کہ مضمون سے زیادہ صاحبِ مضمون زیرِ بحث ہے، تو بھائی ہم تحریر سے ہی تو مصنف کے ذہن تک پہنچیں گے نا۔ مجھے نہیں معلوم کہ آپ نے روزِ روشن کی طرح حقائق کو اس طرح توڑ موڑ کر کیوں پیش کیا ہے۔

اگر یہ سب آپ کے علم میں نہیں تھا تو تعجب کی بات ہے کہ قرآن کا طالب علم اور بنیادی چیزوں سے لا علم۔

اور اگر یہ حقائق آپ کے علم میں تھے تو پھر میں بھلا "ادب" کی وجہ سے آگے کیا عرض کر سکتا ہوں سوائے اس کے کہ

بے خودی بے سبب نہیں غالب
کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے


۔
 
بہت شکریہ وارث آپ نے نہایت عمدہ معلومات بہم پہنچائیں اور کچھ باتیں جو میں کہنا چاہتا تھا آپ نے بیان کر دیں۔

بہرحال ایک سوال میں کرنا چاہوں گا کہ فاروق صاحب کتب روایات میں ملاوٹ کا کہتے تھکتے نہیں اور یہ بھی فرماتے نہیں رکتے کہ ان میں تنقید اور تبصرے کی بہت گنجائش ہے مگر یہ سمجھ نہیں آتا کہ خود روایت کرتے ہوئے انتہائی مشکوک حوالے بھی دیتے ہیں اور ذرا غور نہیں کرتے اس پر کہ جس شے کی شد و مد سے مخالفت کر رہے ہیں حوالہ دیتے ہوئے اسی پر انحصار بھی کرتے ہیں بلکہ کہیں کم تر چیزوں پر۔

یہ جمع نقیضین چہ معنی دارد ؟
 

الف نظامی

لائبریرین
اسلامی تعلیمات اور محفل

السلام علیکم و رحمۃ اللہ
نبیل ان صاحب نے ابھی تک سپیمنگ بند نہیں کی اور نہ ہی تم اس کے موضوعات کو حذف کررہے ہو؛ اس بارے میں میں نے تمہیں علما دین سے اس موضوع کی علمی حیثیت کے بارے میں پوچھنے کا بھی کہا تھا اس حوالے سے محفل پہ یہ پوسٹ بھی پڑھ لیں:
http://www.urduweb.org/mehfil/showpost.php?p=182483&postcount=17
 
السلام علیکم و رحمۃ اللہ
نبیل ان صاحب نے ابھی تک سپیمنگ بند نہیں کی اور نہ ہی تم اس کے موضوعات کو حذف کررہے ہو؛ اس بارے میں میں نے تمہیں علما دین سے اس موضوع کی علمی حیثیت کے بارے میں پوچھنے کا بھی کہا تھا اس حوالے سے محفل پہ یہ پوسٹ بھی پڑھ لیں:
http://www.urduweb.org/mehfil/showpost.php?p=182483&postcount=17

یہ ٹاپک قطعاَ نسبت نہیں رکھتا - مندرجہ بالاء ٹپک حدیث کے بارے میں ہے۔ جبکہ میں نے صرف اور صرف ان کتب کے بارے میں بات کی ہے جو کتب روایات کہلاتی ہیں‌اور ان کا کوئی سٹینڈرڈ نہیں ہے۔ کہیں 174 صفحے کی اور کہیں 700 صفحے کی۔ کوئی نہ دیکھے سکے تو دوسروں کو الزام نہ دے۔
 

قسیم حیدر

محفلین
یہ بات بھی محل نظر ہے کہ نو کے نو مشہور محدثین ایرانی النسل تھے۔ "فتنہ انکارِ‌حدیث، ایک جائزہ" والے دھاگے پر میں اس پر بات کر چکا ہوں۔ اقتباس ملاحظہ فرمائیے
"ایک اور مغالطہ وہ پیش کرتے ہیں کہ حدیث کے مجموعے مرتب کرنے والے لوگ عجمی تھے اور انہوں نے "عجمی سازش" کے ذریعے اسلام کی اصل دعوت کو چھپا دیا۔ میں اسے علمی بددیانتی کا نام نہ دوں تو تاریخ سے لاعلمی ضرور کہوں گا۔ سنہ وار ترتیب کے لحاظ سے دورِ اول کے رواۃ حدیث میں سرِ فہرست ابن شہان زھری، سعید بن مسیّب، عروہ بن زبیر اور عمر بن عبد العزیز رحمہم اللہ کے نام آتے ہیں۔ یہ سب سے سب نہ صرف عرب تھے بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے معزز قبیلے قریش سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے بعد جن محدثین نے حدیث کو مدون کیا ان میں امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ شامل ہیں۔ ان تینوں ائمہ کے مجموعہ ہائے حدیث پوری امت میں متداول اور مقبول ہیں۔ یہ تینوں خالص عربی النسل ہیں۔ ان کے بعد کتب ستہ کے مولفین کا دور آتا ہے۔ ان میں امام مسلم، ترمذی، ابوداؤد اور نسائی عربی النسل تھے۔ جن محدثین کی کتابیں آج رائج اور مقبول ہیں ان میں ۱۸ عرب اور صرف ۴ عجمی تھے۔ ضیاء الدین اصلاحی صاحب نے پہلی صدی ہجری سے آٹھویں صدی ہجری کے آخر تک کے مشہور محدثین کا ذکر اپنی کتاب "تذکرۃ المحدثین" میں کیا ہے۔ ان کی تعداد ستر ہے جن میں سے ۱۲ کے بارے میں صراحت ملتی ہے کہ وہ عجمی تھے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حدیث کو عجمی سازش قرار دینے میں کتنا وزن ہے۔"
 

قیصرانی

لائبریرین
عنوان میں مشہور ہی لکھا ہے،
اور دوسرا یہ کہ یزید کا مقبول ہونا:eek:
مشہور سے مراد جو کسی بھی وجہ سے شہرت پانے والے ہوں۔ چاہے مثبت چاہے منفی۔ میرا سوال یہ تھا کہ آپ نے شاید مشہور کی بجائے مقبول کے حوالے سے اعتراض کیا تھا
 
Top