اسلام میں خواتین کے حقوق - جدید یا فرسودہ

شمشاد

لائبریرین
اسلام میں خواتین کے حقوق

جدید یا فرسودہ

ڈاکٹر ذاکر نائیک


مترجم
سید امتیاز احمد

دار النوادر
الحمد مارکیٹ، اُردو بازار، لاہور
 

شمشاد

لائبریرین
ترتیب

||صفحہ نمبر
تعارف|جسٹس ایم ایم قاضی|5

حصہ اول

||صفحہ نمبر
حرفِ آغاز | اسلام میں خواتین کے حقوق |12
پہلا باب | اسلام میں عورت کے مذہبی اور روحانی حقوق |17
دوسرا باب| اسلام میں عورت کے معاشی حقوق |25
تیسرا باب| اسلام میں عورت کے معاشرتی حقوق |30
چوتھا باب| اسلام میں عورت کے تعلیمی حقوق |42
پانچواں باب| اسلام میں عورت کے قانونی حقوق |45
چھٹا باب| اسلام میں عورت کے سیاسی حقوق |49

حصہ دوم

|صفحہ نمبر
اگرمرد جو جنت میں حور ملے گی تو عورت کو کیا ملے گا |57
ایک عورت کی گواہی مرد سے آدھی کیوں؟ |58
اسلام میں کثرتِ ازدواج کی اجازت کیوں دی گئی ہے؟ |61
ایک سے زاید شادیوں کی وجوہات اور شرائط کیا ہیں؟ |67
کیا عورت سربراہِ مملکت بن سکتی ہے؟ |69
عورت کو پردے کا حکم کیوں دیا گیا ہے؟ |71
عورت کو اہل کتاب مرد سے شادی کی اجازت کیوں نہیں ہے؟ |77
عورت کو وصیت کرنے کی اجازت کیوں نہیں؟|80
عورت کو ایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت کیوں نہیں ہے؟|81
کتابوں میں لکھے ہوئے قانون اہم ہیں یا جو کچھ عملاً معاشرے میں ہو رہا ہے؟|83
کتابوں میں لکھے ہوئے قانون اہم ہیں یا جو کچھ عملاً معاشرے میں ہو رہا ہے؟|83
خواتین کو نبوت کیوں نہیں ملی؟ |85
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے زیادہ شادیاں کیوں کیں؟ |87
ایک سے زیادہ شادیوں میں عورت کا کیا فائدہ ہے؟ |89
کیا اسلام میں بچے کو گود لینے کی اجازت ہے؟ |90
مطلقہ عورت کا نان نفقہ کون مہیا کرے گا؟|91
اسلام میں عورت کو جائداد رکھنے کا حق کیوں نہیں دیا گیا؟ |92
کیا عورت کو اس کے حقوق فراہم کرنے کے لیے کوئی ادارہ موجود ہے؟ |94
کیا عورت ایئر ہوسٹس کی نوکری کر سکتی ہے؟ |94
کیا اسلام میں مخلوط تعلیم کی اجازت ہے؟ |96
مسلمانوں میں کتنی خواتین عالمات موجود ہیں؟ |98
کیا صرف مرد طلاق دے سکتا ہے؟ |100
خواتین کو مساجد میں جانے کی اجازت کیوں نہیں ہے؟ |101
کیا دوسری شادی کے لیے پہلی بیوی سے اجازت لینا ضروری ہے؟ |103
کیا لڑکی اپنی مرضی سے شادی کر سکتی ہے؟ |103
کیا اسلام میں اولاد صرف باپ کو مل سکتی ہے؟ |104

*-*-*-*-*-*-*-*-*​
 

شمشاد

لائبریرین
جسٹس ایم ایم قاضی

تعارف​

جناب ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب، ڈاکٹر محمد نائیک صاحب، سابق گورنر اور سفیر تلیار خان صاحب، غیر ملکی مہمانان گرامی اور معزز خواتین و حضرات،

السلام علیکم

سب سے پہلے تو میں اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن کے ذمہ دار حضرات کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا کہ انہوں نے مجھے اس تقریب کی صدارت کی دعوت دی۔ جیسا کہ آپ حضرات کے علم میں ہے آج ہمارا موضوع ہے :

"اسلام میں خواتین کے حقوق" ۔۔۔۔ جدید یا فرسودہ؟​

ویسے تو جدید سے مراد ہر وہ چیز لی جاتی ہے جو قدیم نہ ہو۔ لیکن آج کی تقریب کے تناظر میں دیکھا جائے تو سوال یہ بنتا ہے کہ اسلام نے عورت کو آج سے چودہ سو سال پہلے جو حقوق عطا کیے تھے کیا وہ آج بھی کافی ہیں یا نہیں۔

ویسے تو سماج میں عورت کے مقام کا موضوع صدیوں سے موضوع گفتگو ہے لیکن ماضی قریب میں ان مباحث نے خاصی سنجیدہ صورت اختیار کر لی ہے۔ بعض مسائل کے حوالے سے تو صورتِ حال خاصی پیچیدہ ہو چکی ہے۔

طلاق، کثرتِ ازدواج اور خواتین کی سیاسی اور سماجی سرگرمیوں میں شرکت ایسے موضوعات ہیں جن پر میڈیا میں بالعموم بحث جارتی رہتی ہے۔ اگرچہ کسی حد تک حقیقی مسائل بھی ہیں لیکن بہت سے معاملات ایسے ہیں جنہیں میڈیا ضرورت سے زیادہ اچھال رہا ہے۔

یہ بات بالکل درست ہے کہ مغربی عورت بالآخر سماجی، قانونی، معاشی اور سیاسی حقوق کے حصول میں کامیاب ہو چکی ہے۔ اگرچہ اس کے لیے اسے طویل مدت تک مسلسل اور ان تھک جدوجہد کرنا پڑی۔ جس کے نتیجے میں اسے مذکورہ حقوق تو حاصل ہو گئے ہیں لیکن میں عرض کرنا چاہوں گا کہ اس دوران وہ بہت کچھ گنوا بیٹھی ہے۔

میرے دوستو! اگر آپ مغربی معاشرے کا بغور تجزیہ کریں تو آپ مجھ سے اتفاق کریں گے کہ مغربی عورت بہت کچھ کھو چکی ہے۔ وہ خاندانی نظامِ زندگی سے محروم ہوئی، ذہنی سکون سے محروم ہوئی اور یہاں تک کہ وہ اپنے وقار اور نسوانیت سے بھی محروم ہو گئی۔

دوسری طرف اگر آپ اسلام کا جائزہ لیں تو آپ کو علم ہو گا کہ اسلام نے آج سے چودہ سو برس پہلے ہی عورت کو بے شمار حقوق عطا کر دیے تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب دنیا کی دیگر تہذیبیں یہ سوچ رہی تھیں کہ عورت کو انسان بھی تسلیم کیا جا سکتا ہے یا نہیں۔

لہذا ہمیں چاہیے کہ اس مسئلے کا جامع، غیر جانبدارزنہ اور غیر جذباتی انداز میں جائزہ لے کر یہ فیصلہ کریں کہ اسلام خواتین کو جو حقوق دیتا ہے وہ کافی ہیں یا ناکافی اور یہ کہ وہ حقوق جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ بھی ہیں یا نہیں۔

آپ لوگوں کی خوش نصیبی ہے کہ نامور دانشور ڈاکٹر ذاکر نائیک آج اس موضوع پر گفتگو کریں گے۔ چونکہ وہ مسئلے کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لیں گے لہذا میرے لیے ضروری نہیں کہ میں اس حوالے سے تمام قرانی آیات آپ کے سامنے پیش کروں یا ان تمام احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حوالہ دوں جو حقوق نسواں کے موضوع سے متعلق ہیں اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی گئی ہیں۔

لیکن دو آیات کا قرآنی حوالہ ضرور دینا چاہوں گا۔ تاکہ یہ بات سامنے آ سکے کہ اسلام نے عورت کو کس قدر باوقار اور آبرومندانہ مقام عطا کیا ہے۔ قرآن مجید کی سورۃ بقرہ میں ارشاد باری تعالٰی ہے :

۔۔۔۔۔ وَلَھُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْھِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَلِلرِّجَالِ عَلَيْھِنَّ دَرَجَۃٌ وَاللّہُ عَزِيزٌ حَكُيمٌ۔ (سورۃ 2، آیہ 228 )

"عورتوں کے لیے بھی معروف طریقے پر ویسے ہی حقوق ہیں جیسے مردوں کے حقوق اُن پر ہیں۔ البتہ مردوں کو ان پر ایک درجہ حاصل ہے۔ اور سب پر اللہ غالب اختیار رکھنے والا اور حکیم و دانا موجود ہے۔"

میں چاہوں گا کہ آپ اس آیت کا ایک ایک لفظ ذہن میں رکھیں کیونکہ اس آیت میں واضح طور پر بتایا جا رہا ہے کہ مردوں اور عورتوں کے ایک دوسرے پر یکساں حقوق ہیں۔ اور اس بات کی نفی قرآن میں کسی دوسرے مقام پر بھی نہیں کی گئی۔ البتہ اسی آیت میں ایک بات اور بھی کی گئی ہے اور وہ یہ کہ مردوں کو عورتوں پر ایک طرح کی فضیلت حاصل ہے۔ ان الفاظ پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ بہت اہم الفاظ ہیں۔ اور ان الفاظ کا مطلب اخذ کرنے میں بعض اوقات غلطی بھی کی گئی ہے۔

سب سے پہلے تو یہ بات قابل ذکر ہے کہ ان الفاظ میں فریقین کے حقوق کا ذکر نہیں کیا جا رہا۔ جیسا کہ ہم پہلے بھی دیکھ چکے ہیں، حقوق کے بارے میں تو اس آیت کے پہلے حصے میں ہی واضح کر دیا گیا ہے کہ دونوں کے ایک دوسرے پر حقوق ہیں۔ جہاں تک آیت کے دوسرے حصے کا تعلق ہے یعنی "مردوں کو ایک درجہ حاصل ہونے" کا۔ اس کو سمجھنے کے لیے ہمیں ایک اور آیت مبارکہ کو بھی ملحوظِ خاطر رکھنا چاہیے۔ سورۃ النساء میں اللہ سبحانہ و تعالٰی کا ارشاد ہے :

الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللّہُ بَعْضَھُمْ عَلَى بَعْضٍ وَبِمَا اَنفَقُواْ مِنْ اَمْوَالِھِمْ (سورۃ نساء (4)، آیہ 34)۔

"مرد عورتوں پر قوام ہیں، اس بنا پر کہ اللہ نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے۔ اور اس بنا پر کہ مرد اپنے مال خرچ کرتے ہیں۔"

اس آیت سے بھی یہی پتہ چلتا ہے کہ چونکہ عورت صنفِ نازک ہے اسی لیے اللہ تعالٰی نے مرد کو اس کا (قوام) محافظ بنایا ہے۔ علم انسانیات کی رو سے دیکھا جائے یا حیاتیات کا نقطہ نظر سامنے رکھا جائے۔ یہ حقیقت ہے کہ مرد جسمانی طور پر عورت سے مختلف واقع ہوا ہے۔ کیونکہ وہ کم از کم جسمانی لحاظ سے زیادہ طاقتور واقع ہوا ہے۔ اسی وجہ سے اسے زیادہ ذمہ داری دی گئی ہے۔ جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا مرد کو جو درجہ دیا گیا ہے اس کا تعلق حقوق سے نہیں فرائض سے ہے۔ لہذا مرد کو ملنے والا یہ درجہ نہ عورت کے حقوق میں کمی کا باعث بنتا ہے اور نہ ہی اس کی اہمت گھٹاتا ہے۔ لہذا میں آپ سے گزارش کرتا ہوں کہ اس سنجیدہ مسئلے پر غور و فکر کے بعد ہی کوئی نقطہ نظر اپنائیں۔

میرے خیال میں عورت کو تحفظ فراہم کرنا ہی مرد کی سب سے اہم اور نازک ذمہ داری ہے۔ اور اس ذمہ داری کا پورا پورا احساس ہونا نہایت ضروری ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہو رہا۔ اس ذمہ داری کی حدود بہت وسیع ہیں۔ اگر آپ غور کریں تو آپ کو احساس ہو گا کہ مرد اپنی یہ ذمہ داری کما حقہ پوری نہیں کر رہے ۔ اور اپنا بنیادی فرض، یعنی عورت کو تحفظ فراہم کرنا، ادا نہیں کر رہے۔

میں یہاں اس حوالے سے کوئی بحث نہین چھیڑنا چاہتا کہ اس صورتِ حال کا ذمہ دار کون ہے؟ کیونکہ میرے پاس وقت محدود ہے۔ کسی حد تک اس کی ذمہ داری خواتین پر بھی ہو سکتی ہے لیکن بات وہی رہتی ہے کہ اس صورتِ حال کے نتیجے میں خواتین کے حوالے سے جرائم اور استحصال کے معاملات سامنے آ رہے ہیں۔ ہمیں ہندوستانی سماجی اخلاقیات کے پس منظر میں عورت کو وہ تقدس و احترام دینا ہے جس کی وہ حقدار ہے۔ کیونکہ اس پس منظر میں کوئی عورت آزادی کے بدلے میں عزت، احترام اور تقدیس سے دست بردار ہونا نہیں چاہے گی۔ اور اسی طرح کوئی مرد بھی بطور محافظ اپنی ذمہ داریوں سے جان چھڑانا نہیں چاہے گا۔

مرد اور عورت کے تعلقات کے اس نازک پہلو کی وضاحت عظیم مفکر اور شاعر علامہ اقبال نے اپنی ایک نظم میں کچھ یوں کی ہے :

اک زندہ حقیقیت مرے سینے میں ہے مستور
کیا جانے گا وہ جس رگوں میں ہے لہو سرد

نے پردہ نہ تعلیم، نئی ہو کہ پرانی
نسوانیت زن کا نگہباں ہے فقط مرد

جس قوم نے اس زندہ حقیقت کو نہ پایا
اس قوم کا خورشید بہت جلد ہوا زرد​

جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ میرے پاس وقت بہت محدود ہے اور ڈاکٹر ذاکر نائیک یہاں موجود ہیں جو زیر نظر موضوع پر پوری تفصیل اور وضاحت کے ساتھ گفتگو کریں گے۔ البتہ میں اتنا ضرور کہوں گا کہ قرآن نے عورت کو بہت عزت مندانہ مقام عطا کیا ہے۔ اصل مسئلہ ہمارے جہالت اور قرآن سے لاعلمی کا ہے اور اس مسئلے کا حل تعلیم اور آگاہی ہے۔ لوگوں میں علم اور آگاہی کا پھیلانا ہی اس مسئلے کا واحد حل ہے۔

مجھے یہاں تھامس جیفرسن کا ایک قول یاد آ رہا ہے اس نے کہا تھا :

"وہ قوم جو جاہل رہ کر آزاد رہنا چاہتی ہے، وہ ایک ایسی خواہش کر رہی ہے جو نہ کبھی پوری ہوئی ہے اور نہ کبھی پوری ہو گی۔"

وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر​

اب میں آپ سے ڈاکٹر ذاکر نائیک کا تعارف کروانا چاہوں گا۔ ڈاکٹر صاحب بمبئی سے ہیں۔ پیسے کے لحاظ سے وہ ایک ڈاکٹر ہیں لیکن انہوں نے اپنی زندگی تبلیغِ اسلام کے لیے وقف کر دی ہے۔ وہ اسلام کو اس کے اصل اور درست تناظر میں دنیا کے سامنے پیش کرنا چاہتے ہیں۔

وہ اپنی تقاریر کے سلسلے میں، ملک میں اور ملک سے باہر بہت سے اسفار کر چکے ہیں۔ نوجوانی ہی میں قرآن کے حوالے سے بڑی گہری آگاہی رکھتے ہیں۔ میں یہاں ان کے والدین کو بھی خراجِ تحسین پیش کرنا چاہوں گا۔ جن کی کوششوں اور دعاؤں سے ڈاکٹر ذاکر اس مقام تک پہنچے۔

ڈاکٹر صاحب 1991ء میں قائم ہونے والی اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن کے جنرل سیکریڑی ہیں۔

شکریہ۔

*-*-*-*-*-*-*-*-*-*​
 

شمشاد

لائبریرین
اسلام میں خواتین کے حقوق

بِسْمِ اللَّہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ۔​

إِنَّ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَالْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَالْقَانِتِينَ وَالْقَانِتَاتِ وَالصَّادِقِينَ وَالصَّادِقَاتِ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِرَاتِ وَالْخَاشِعِينَ وَالْخَاشِعَاتِ وَالْمُتَصَدِّقِينَ وَالْمُتَصَدِّقَاتِ وَالصَّائِمِينَ وَالصَّائِمَاتِ وَالْحَافِظِينَ فُرُوجَھُمْ وَالْحَافِظَاتِ وَالذَّاكِرِينَ اللَّہَ كَثِيرًا وَالذَّاكِرَاتِ اَعَدَّ اللَّہُ لَھُم مَّغْفِرَۃً وَاَجْرًا عَظِيمًا۔ (سورۃ الاحزاب (33)، آیہ 35)

"بیشک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں، اور مومن مَرد اور مومن عورتیں، اور فرمانبردار مرد اور فرمانبردار عورتیں، اور صدق والے مرد اور صدق والی عورتیں، اور صبر والے مرد اور صبر والی عورتیں، اور عاجزی والے مرد اور عاجزی والی عورتیں، اور صدقہ و خیرات کرنے والے مرد اور صدقہ و خیرات کرنے والی عورتیں اور روزہ دار مرد اور روزہ دار عورتیں، اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں، اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرنے والے مرد اور ذکر کرنے والی عورتیں، اللہ نے اِن سب کے لئے بخشِش اور عظیم اجر تیار فرما رکھا ہے۔"

السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ۔

میں محترم جسٹس ایم ایم قاضی صاحب، اپنے محترم برزگوں اور عزیز بہن بھائیوں کو خوش آمدید کہتا ہوں۔

ہماری آج کی گفتگو کا موضوع ہے؛

"اسلام میں خواتین کے حقوق" ۔۔۔۔ جدید یا فرسودہ؟

سب سے پہلے تو ہم اس موضوع کے بنیادی الفاظ کے معانی دیکھتے ہیں۔ اوکسفورڈ ڈکشنری کے مطابق حقوق نسواں (Women's Rights) سے مراد وہ حقوق ہیں "جو عورتوں کو وہی قانونی اور سماجی مقام دلائیں جو مردوں کو حاصل ہیں۔ Modernize کا مطلب اوکسفورٹ ڈکشنری کے مطابق ہے "جدید بنانا، جدید مذاق وغیرہ کے مطابق ڈھالنا، دورِ حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا۔"

اور ویبسٹر ڈکشنری کے مطابق "جدید بنانا یا ایک نئی شکل و سورت دینا، مثال کے طور پر نظریات کو جدید شکل دینا۔"

مختصراً ہم کہہ سکتے ہیں کہ جدت ایک ایسا عمل جس میں تازہ ترین معلومات کی روشنی میں موجودہ صورتِ حال میں بہتری لانے کی کوشش کی جائے گی۔ گویہ موجودہ صورت حال بذات خود "جدت" نہیں کہلائے گی۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم اپنے مسائل کے حل کی خاطر اور پورے عالم انسانیت کو ایک نیا طرز زندگی دینے کے لیے جدیدیت پسندی اختیار کر سکتے ہیں؟

میں اپنی گفتگو کے دوران جدید نظریات سے غرض نہین رکھوں گا اور نہی ہی میری گفتگو کا انحصار ماہرین اور نام نہاد مفکرین کے بیانات پر ہو گا جو کرسی پر بیٹھ کر ایسے نظریات وضع کرتے رہتے ہیں جن کی کوئی عملی افادیت نہیں ہوتی۔

یہ حضرات بالعموم آرام کرسی پر بیٹھ کر، بغیر کسی عملی تجربے کے نظریات اخذ کرتے ہیں اور ان کی روشنی میں فیصلہ کرتے ہیں کہ خواتین کو اپنی زندگی کس طرح گزارنی چاہیے۔
 

شمشاد

لائبریرین
میں اپنے بیانات اور نتائج ایسے حقائق سے اخذ کرنا چاہوں گا جنہیں تجربے کی روشنی میں ثابت بھی کیا جا سکے۔

عملی تجربات اور صورتِ حال کے غیر متعصبانہ تجزیے سے یہ معلوم کیا جا سکتا ہے کہ نظریات کی چمک دمک کے پیچھے حقیقت کا سونا موجود ہے یا نہیں۔

ہمیں اپنے خیالات کو حقیقت کی کسوٹی پر پرکھتے رہنا چاہیے بصورت دیگر ہمارے خیالات ہمیں باآسانی گمراہی کی جانب بھی لے جا سکتے ہیں۔ آپ جانتے ہیں کسی زمانے دنیا کے ذہین ترین افراد بھی یہ سمجھتے تھے کہ زمین چپٹی ہے۔

جہاں تک "اسلام میں حقوقِ نسواں" کا تعلق ہے، اگر ہم صورتِ حال کو اس طرح دیکھیں گے جس طرح اس کی عکاسی مغربی ذرائع ابلاغ کی جانب سے کی جا رہی ہے تو لامحالہ ہمیں بھی اس بات سے اتفاق کرنا پڑے گا کہ اسلام نے جو حقوق خواتین کو دیے ہیں وہ واقعی فرسودہ اور ناکافی ہیں۔

لیکن حقیقت یہ ہے مغرب میں "خواتین کی آزادی" کے نام پر جو کچھ ہو رہا ہے وہ درحقیقت عورت کے احترام کی نفی اور اس کی روح اور جسم کا استحصال ہے جس پر آزادی نسواں کا خوش نما پردہ ڈال دیا جاتا ہے۔

مغربی معاشرہ مسلمانوں سے مطالبہ کرتا ہے کہ خواتین کو حقوق دیے جائیں لیکن خود اس معاشرے نے خواتین کو کیا دیا ہے؟ یہی کہ عملی طور پر اسے داشتہ اور طوائف کی سطح پر لے آیا ہے۔ اسے ایک ایسی شے بنا ڈالا ہے جس سے مرد لطف اندوز ہوتے ہیں۔ آرٹ اور کلچر کے خوبصورت پردوں کے پیچھے اس کا اس قدر استحصال کیا جاتا ہے کہ عملاً وہ جنس کے متلاشیوں اور کاروباریوں کے ہاتھوں میں کھلونا بن کر رہ گئی ہے جس کا اسے احساس بھی نہیں۔

اور اسلام نے کیا کیا؟ آج سے چودہ سو برس پہلے عہد جاہلیت میں، اسلام کی انقلابی تعلیمات نے عورت کو اس کے حقیقی حقوق اور مرتبہ عطا کیا۔

اپنے آغاز سے لے کر آج تک، اسلام کا مقصد ہمیشہ یہ رہا ہے کہ خواتین کے حوالے سے ہماری سوچ، ہمارے خیالات، ہمارے احساسات اور ہمارے طرزِ زندگی میں بہتری لائی جائے اور معاشرے میں خاتون کا مقام بلند سے بلند تر کیا جائے۔

اس سے پہلے کہ میں اپنے موضوع کے حوالے سے گفتگو کو آگے بڑھاؤں چند نکات کا واضح کر دینا بہتر معلوم ہوتا ہے۔

  • اس وقت دنیا کی آبادی کا تقریباً پانچواں حصہ مسلمانوں پر مشتمل ہے۔
  • مسلمانوں کی یہ آبادی بہت سے معاشروں میں تقسیم ہے۔ ان معاشروں کا طرزِ زندگی یکساں نہیں ہے۔ کچھ معاشروں میں اسلامی تعلیمات پر عمل کیا جاتا ہے تو کچھ معاشرے اسلامی تعلیمات سے دور ہیں۔
  • اسلام میں خواتین کے حقوق" کیا ہیں۔ اس بات کا فیصلہ ان مسلمان معاشروں کو دیکھ کر نہیں کیا جائے گا بلکہ شریعت اسلامی کے حقیقی مصادر سے رہنمائی لی جائے گی۔
  • اسلامی تعلیمات کے مستند اور بنیادی مصادر قرآن اور سنت ہیں۔ قرآن جو کلام اللہ ہے اور سنت جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث سے مستنبط ہے۔
  • قرآن میں تضاد بیانی موجود نہیں ہے۔ اور نہ ہی صحیح احادیث میں تضاد ممکن ہے۔ اسی طرح صحیح حدیث اور قرآن کی آیات میں بھی تضاد موجود نہیں۔
  • بعض اوقات علما کے مابین کسی بات پر اختلاف ہوتا ہے۔ ایسے اختلافات بالعموم آسانی سے دور کیے جا سکتے ہیں اگر قرآن و سنت کی تعلیمات کو مجموعی طور پر سامنے رکھا جائے۔
  • قرآن کا طریقہ یہ ہے کہ اگر ایک جگہ بات مجمل طریقہ سے بیان ہوئی ہے تو دوسری جگہ اس کی وضاحت کر دی گئی ہے۔ کسی نکتے کو سمجھنے کے لیے ان تمام مقامات کا پیش نظر رکھنا ضروری ہے جہاں اس نکتے کا ذکر موجود ہے۔ بعض لوگ قرآنی تعلیمات کو مجموعی تناظر میں دیکھنے کی بجائے کسی ایک نکتے کو پیش نظر رکھتے ہیں اور غلط فہمی کا شکار ہو جاتے ہیں۔
  • آخری نکتہ یہ کہ ہر مسلمان مرد و عورت کا فرض ہے کہ وہ اللہ تعالٰی کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کرے اور دنیا میں اپنی زندگی اللہ تعالٰی کافرمانبرداربندہ بن کر گزارےاور اپنے نفس کو تسکین پہنچانے یا محض شہرت حاصل کرنے کے لیے کوئی عمل نہ کرے۔ یعنی ریاکاری سے دور رہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
اب ہم اپنے موضوع کی طرف آتے ہیں۔

اسلام مرد اور عورت کو مساوی حقوق دیتا ہے۔ لیکن یہ حقوق مساوی ہیں، یکساں نہیں ہیں۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں دیکھا جائے تو مرد اور عورت ایک دوسرے کے لیے تکمیل کا ذریعہ ہیں۔ ان کے درمیان شراکت کار ہونی چاہیے۔ گویا اگر دونوں اپنا کردار اسلام احکام کے مطابق ادا کریں تو نہ ان کے درمیان رقابت ہو گی اور نہ مخالفت۔

جہاں تک اسلام میں حقوقِ نسواں کا تعلق ہے میں ان حقوق کو چھ بنیادی درجات میں تقسیم کرتا ہوں۔ یہ درجات یا اقسام مندرجہ ذیل ہیں :

  1. روحانی حقوق
  2. معاشی حقوق
  3. معاشرتی حقوق
  4. تعلیمی حقوق
  5. قانونی حقوق
  6. سیاسی حقوق
آئندہ ابواب میں ان تمام حقوق کا اجمالی جائزہ پیش کیا جائے گا۔

*-*-*-*-*-*-*-*​
 

شمشاد

لائبریرین
پہلا باب

اسلام میں عورت کے مذہبی اور روحانی حقوق

اسلام نے عورت کو بہت حقوق دیئے ہیں۔ سب سے پہلے ہم عورت کے روحانی اور مذہبی حقوق کے حوالے سے گفتگو کریں گے۔ ہم یہ دیکھیں گے کہ دینی حیثیت سے اسلام عورت کو کیا مقام عطا کرتا ہے۔

مغربی دنیا میں اسلام کے حوالے سے جو غلط فہمیاں عام ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ اسلام میں جنت کا تصور صرف مرد کے لیے ہے عورت کے لیے نہیں۔ باالفاظ دیگر وہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام میں بہشت صرف مردوں کے لیے مخصوص ہے اور عورت جنت میں نہ جا سکے گی۔ یہ ایک صریح غلط فہمی ہے جس کی تردید قرآن کی درج ذیل آیات بخوبی کر دیتی ہیں۔

وَمَن يَعْمَلْ مِنَ الصَّالِحَاتِ مِن ذَكَرٍ اَوْ اُنْثََى وَھُوَ مُؤْمِنٌ فَاُوْلَ۔ئِكَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّۃَ وَلاَ يُظْلَمُونَ نَقِيرًا۔ (سورۃ نساء (4)، آیہ 124)

"اور جو کوئی نیک اعمال کرے گا (خواہ) مرد ہو یا عورت درآنحالیکہ وہ مومن ہے پس وہی لوگ جنت میں داخل ہوں گے اوران کی تِل برابر (بھی) حق تلفی نہیں کی جائے گے۔"

اسی سے ملتی جلتی بات قرآنِ مجید کی سورۃ نحل میں بھی کی گئی ہے۔ اس آیت میں اللہ تبارک و تعالٰی فرماتا ہے :

مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَكَرٍ اَوْ اُنثَى وَھُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّہُ حَيَاۃً طَيِّبَۃً وَلَنَجْزِيَنَّھُمْ اَجْرَھُم بِاَحْسَنِ مَا كَانُواْ يَعْمَلُونَ۔ (سورۃ 16، آیہ 97)

"جو شخص بھی نیک عمل کرے گا، خواہ وہ مرد ہو یا عورت، بشرطیکہ ہو وہ مومن، اسے ہم دنیا میں پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے اور (آخرت میں) ایسے لوگوں کو ان کے اجر ان کے بہترین اعمال کے مطابق بخشیں گے۔"

مندرجہ بالا آیات سے بات بخوبی واضح ہو جاتی ہے کہ اسلام میں جنت کے حصول کے لیے جنس کی کوئی شرط موجود نہیں ہے۔ اب آپ بتائیں کہ کیا اس نکتے کے حوالے سے اسلامی تعلیمات کو فرسودہ (یا غیر منصفانہ) قرار دی جا سکتا ہے؟

اسی طرح مغربی ذرائع ابلاغ بالعموم یہ کہتے ہیں کہ مذہب عورت میں روح کا وجود ہی تسلیم نہیں کرتا۔ وہ یہ بات مطلق مذہب کے حوالے سے یوں کرتے ہیں کہ اس کا اطلاق اسلام پر بھی ہو جاتا ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ عقیدہ مسیحیوں کا ہے۔

سترھویں صدی میں روم میں ہونے والی کونسل کے اجلاس میں عیسائی علما اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ عورت میں روح موجود نہیں ہوتی۔ (اگرچہ بہ حیثیت مسلمان ہمیں یقین ہے کہ مسیحی علما کا یہ عقیدہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حقیقی تعلیمات کے مطابق نہیں ہو سکتا۔ مترجم)

جہاں تک اسلامی تعلیمات کا تعلق ہے اس حوالے سے اسلام عورت اور مرد میں کوئی تفریق نہیں کرتا۔ اس بات کی وضاحت قرآنِ مجید میں سورۃ نساء کی پہلی آیت سے بخوبی ہوتی ہے۔

يَا اَيُّھَا النَّاسُ اتَّقُواْ رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَۃٍ وَخَلَقَ مِنْھَا زَوْجَھَا وَبَثَّ مِنْھُمَا رِجَالاً كَثِيرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُواْ اللّہَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِہِ وَالْاَرْحَامَ اِنَّ اللّہَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا۔ (سورۃ 4، آیہ 1)

" لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت سے مرد و عورت دنیا میں پھیلا دیے۔ اس خدا سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنے حق مانگتے ہو۔ اور رشتہ و قرابت کے تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو۔ یقین جانو کہ اللہ تم پر نگرانی کر رہا ہے۔"

اللہ سبحانہ و تعالٰی قرآن مجید کی سورۃ نحل میں فرماتا ہے :

وَاللّہُ جَعَلَ لَكُم مِّنْ اَنفُسِكُمْ اَزْوَاجًا وَجَعَلَ لَكُم مِّنْ اَزْوَاجِكُم بَنِينَ وَحَفَدَۃً وَرَزَقَكُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ اَفَبِالْبَاطِلِ يُؤْمِنُونَ وَبِنِعْمَتِ اللّہِ ھُمْ يَكْفُرُونَ۔ (سورۃ 16، آیہ 72)

"اور اللہ نے تم ہی میں سے تمہارے لئے جوڑے پیدا فرمائے اور تمہارے جوڑوں (یعنی بیویوں) سے تمہارے لئے بیٹے اور پوتے/ نواسے پیدا فرمائے اور تمہیں پاکیزہ رزق عطا فرمایا، تو کیا پھر بھی وہ (حق کو چھوڑ کر) باطل پر ایمان رکھتے ہیں اور اللہ کی نعمت سے وہ ناشکری کرتے ہیں۔"

اسی طرح سورۃ الشوریٰ میں ارشاد باری تعالٰی ہے :

فَاطِرُ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ جَعَلَ لَكُم مِّنْ اَنفُسِكُمْ اَزْوَاجًا وَمِنَ الْاَنْعَامِ اَزْوَاجًا يَذْرَؤُكُمْ فِيہِ لَيْسَ كَمِثْلِہِ شَيْءٌ وَھُوَ السَّمِيعُ البَصِيرُ۔ (سورۃ 42، آیہ 11)

" آسمانوں اور زمین کو عدم سے وجود میں لانے والا ہے، اسی نے تمہارے لئے تمہاری جنسوں سے جوڑے بنائے اور چوپایوں کے بھی جوڑے بنائے اور تمہیں اسی (جوڑوں کی تدبیر) سے پھیلاتا ہے، اُس کے مانند کوئی چیز نہیں ہے اور وہی سننے والا دیکھنے والا ہے۔"

مندرجہ بالا آیات سے یہ بات واضح طور پر سامنے آ جاتی ہے کہ روحانی حوالے سے اسلام مرد اور عورت کی فطرت میں کوئی تفریق نہیں کرتا۔ آپ کیا سمجھتے ہیں، اسلام کی تعلیمات میں جدت موجود ہے یا یہ فرسودہ ہیں؟ تخلیق آدم کے حوالے سے قرآنِ مجید میں ارشادِ باری تعالٰی ہے۔

فَاِذَا سَوَّيْتُہُ وَنَفَخْتُ فِيہِ مِن رُّوحِي فَقَعُواْ لَہُ سَاجِدِينَ۔ (سورۃ ہجر (15)، آیہ 29)

"جب میں اسے پورا بنا چکوں اور اس میں اپنی روح میں سے کچھ پھونک دوں تو تم سب اس کے آگے سجدے میں گر جانا۔"

اسی طرح کی بات قرآنِ مجید کی سورۃ سجدہ میں بھی کی گئی ہے۔ یہاں اللہ تبارک و تعالٰی کا ارشاد مبارک ہے :

ثُمَّ سَوَّاہُ وَنَفَخَ فِيہِ مِن رُّوحِہِ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَالْاَفْئِدَۃَ قَلِيلًا مَّا تَشْكُرُونَ۔ (سورۃ 32، آیہ 9)

"پھر اس (میں اعضاء) کو درست کیا اور اس میں اپنی روحِ (حیات) پھونکی اور تمہارے لئے (رحمِ مادر ہی میں پہلے) کان اور (پھر) آنکھیں اور (پھر) دل و دماغ بنائے، تم بہت ہی کم شکر ادا کرتے ہو۔"

ان آیات میں "روح پھونکنے" کے الفاظ سے یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ اسلام "حلول" وغیرہ جیسے عقاید کی تعلیم دیتا ہے۔ یہاں بات صرف اللہ تعالٰی کی قدرت اور اس تعلق کی ہو رہی ہے جو بندے کو اپنے خالق کے قریب تر کر دیتا ہے۔

اس حوالے سے مرد اور عورت کی کوئی تفریق نہیں کی گئی۔ یہ بات آدم اور حوا علیہما السلام دونوں کے حوالے سے کی جا رہی ہے۔ دونوں اس لحاظ سے ہر طرح برابر ہیں۔

اسی طرح قرآنِ مجید میں اللہ تعالٰی کا یہ ارشاد بھی موجود ہے کہ زمین پر اللہ تعالٰی نے انسان کو خلافت عطا کی ہے۔ نیابت و خلافت کا یہ اعزاز انسان کو بلا تفریق جنس دیا گیا ہے۔

اللہ سبحانہ و تعالٰی فرماتا ہے :

وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاھُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاھُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاھُمْ عَلَى كَثِيرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلاً۔ (سورۃ الاسرہ (17)، آیہ 70)

"اور بیشک ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور ہم نے ان کو خشکی اور تری (یعنی شہروں اور صحراؤں اور سمندروں اور دریاؤں) میں (مختلف سواریوں پر) سوار کیا اور ہم نے انہیں پاکیزہ چیزوں سے رزق عطا کیا اور ہم نے انہیں اکثر مخلوقات پر جنہیں ہم نے پیدا کیا ہے فضیلت دے کر برتر بنا دیا۔"

آپ دیکھ رہے ہیں کہ اس آیت مبارکہ میں ذکر آدم علیہ السلام کی تمام اولاد کا ہو رہا ہے وہ مرد ہو یا عورت۔
 

شمشاد

لائبریرین
زیر بحث موضوع کا ایک اور پہلے سے بھی جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ کچھ مذہبی صحائف میں زوال آدم یا جنت سے آدم علیہ السلام کے زمین پر آنے کا سبب عورت کو قرار دیا گیا ہے۔ لیکن اسلام کا نقطہ نظر اس حوالے سے قطعا مختلف ہے۔

اگر آپ قرآن کا مطالعہ کریں تو ایک درجن مقامات پر آپ کو اس واقعے کا ذکر ملے گا۔ مثال کے طور پر انجیل مقدس میں آدم علیہ السلام کے باغ بہشت سے اخراج کا باعث عورت کو قرار دیا گیا ہے۔ لیکن اسلام کا نقطہ نظر اس حوالے سے قطعا مختلف ہے۔

اگر آپ قرآن کا مطالعہ کریں تو ایک درجن مقامات پر آپ کو اس واقعے کا ذکر ملے گا۔ مثال کے طور پر سورۃ اعراف کی انیسویں آیت۔ ان تمام مقامات پر آدم و حوا علیہما السلام کا طرزِ عمل یکساں ہی بتایا گیا ہے۔ دونوں سے غلطی ہوئی، دونوں کو اپنی غلطی پر ندامت ہوئی۔ دونوں معافی کے خواستگار ہوئے اور اللہ تعالٰی نے دونوں کی توبہ قبول فرمائی۔

اس کے مقابلے میں اگر آپ بائبل کا نقطہ نظر جاننا چاہیں تو کتاب پیدائش کے تیسرے باب کا مطالعہ کریں۔ آپ دیکھیں گے کہ اس واقعے کی تمام تر ذمہ داری حوا علیہا السلام پر عاید کر دی گئی ہے۔ یہی نہیں حوا علیہا السلام کی اس غلطی کو گناہ قرار دیا گیا اور یہ عقیدہ دوضع کر لیا گیا ہے کہ ہر انسان ہی گناہ گار پیدا ہوتا ہے۔

کتاب پیدائش کی مندرجہ ذیل آیت میں اس حوالے سے بائبل کا نقطہ نظر مندرجہ ذیل بیان میں واضے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔

"پھر اُس نے عورت سے کہا کہ میں تیرے درد حمل کو بہت بڑھاؤں گا، تو درد کے ساتھ بچے جنے گی اور تیری رغبت اپنے شوہر کی طرف ہو گی اور وہ تجھ پر حکومت کرے گا۔" (پیدائش، باب 3، آیت 16)

گویا نہ صرف یہ کہ آدم علیہ السلام کے جنت سے نکلنے کا سبب عورت کو بتایا جا رہا ہے بلکہ حمل اور اولاد کی پیدائش کی تکالیف کو عورت کی سزا بتایا جا رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ ان بیانات سے عورت کے وقار اور مرتبے میں اضافہ تو ہوتا نہیں۔ دوسری طرف اگر اس حوالے سے قرآن کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اسلام ان تکالیف کو عورت کی عظمت اور وقار میں اضافے کا سبب بتاتا ہے۔ مثال کے طور پر ان آیات مبارکہ کا مطالعہ کیجیئے۔

سورۃ النساء میں ارشادِ باری تعالٰی ہے :

" لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت سے مرد و عورت دنیا میں پھیلا دیے۔ اس خدا سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنے حق مانگتے ہو۔ اور رشتہ و قرابت کے تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو۔ یقین جانو کہ اللہ تم پر نگرانی کر رہا ہے۔" (سورۃ 4، آیہ 1)

اسی طرح سورۃ لقمان میں آتا ہے :

"اور یہ حقیقت ہے کہ ہم نے انسان کو اپنے والدین کا حق پہچاننے کی خود تاکید کی ہے۔ اس کی ماں نے ضعف پر ضعف اٹھا کر اسے اپنے پیٹ میں رکھا اور دو سال اس کا دودھ چھوٹنے میں لگے (اسی لیے ہم نے اس کو نصیحت کی کہ) میرا شکر کر اور اپنے والدین کا شکر بجا لا، میری ہی طرف تجھے پلٹنا ہے۔" (سورۃ 31، آیہ 14)۔

سورۃ احقاف میں ارشادِ باری تعالٰی ہے :

وَوَصَّيْنَا الْاِنسَانَ بِوَالِدَيْہِ اِحْسَانًا حَمَلَتْہُ اُمُّہُ كُرْھًا وَوَضَعَتْہُ كُرْھًا وَحَمْلُہُ وَفِصَالُہُ ثَلَاثُونَ شَھْرًا ط (سورۃ 46، ایہ 15)

"اور ہم نے انسان کو ہدایت کی کہ اپنے والدین کے ساتھ نیک برتاؤ کرے۔ اس کی ماں نے مشقت اٹھا کر اسی کو پیٹ میں رکھا اور مشقت اٹھا کر ہی اس کو جنا اور اس کے حمل اور دودھ چھڑانے میں تیس مہینے لگ گئے۔"

جیسا کہ مندرجہ بالا آیاتِ قرآنی سے واضح ہوتا ہے، اسلام ماں بننے کے عمل کی عظمت اور اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے عورت کو اس حوالے سے انتہائی اعلٰی اور ارفع مقام عطا کرتا ہے۔ ان آیات مبارکہ کو پڑھنے کے بعد آپ کی رائے کیا بنتی ہے؟ اسلام عورتوں کو جو حقوق دیتا ہے، کیا وہ واقعی فرسودہ ہیں؟ اللہ تبارک و تعالٰی کی بارگاہ میں برتری کا معیار صرف اور صرف تقویٰ ہے۔ تقویٰ، پرہیز گاری اور نیکی ہی کی بنیاد پر اللہ تعالٰی کے ہاں مقام کا تعین ہوتا ہے۔

سورۃ حجرات میں اللہ سبحانہ و تعالٰی کا ارشادِ پاک ہے :

"لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمہاری قومیں اور برادریاں بنا دیں تا کہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیز گار ہے۔ یقیناً اللہ سب سے زیادہ جاننے والا اور باخبر ہے۔" (سورۃ 29، آیہ 13)۔

جنس، رنگ، نسل اور مال و دولت اسلام میں عزت کا معیار نہیں۔ اللہ تبارک و تعالٰی کے ہاں معیار ایک ہی ہے اور وہ ہے "تقویٰ"۔ محض جنس کی بنیاد پر نہ اللہ کے ہاں سزا ملے اور نہ جزا۔

سورۃ آلِ عمران میں اللہ تبارک و تعالٰی کا ارشاد ہے :

فَاسْتَجَابَ لَھُمْ رَبُّھُمْ اَنِّي لاَ اُضِيعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنكُم مِّن ذَكَرٍ اَوْ اُنثَى بَعْضُكُم مِّن بَعْضٍ فَالَّذِينَ ھَاجَرُواْ وَاُخْرِجُواْ مِن دِيَارِھِمْ وَاُوذُواْ فِي سَبِيلِي وَقَاتَلُواْ وَقُتِلُواْ لَاُكَفِّرَنَّ عَنْھُمْ سَيِّئَاتِھِمْ وَلَاُدْخِلَنَّھُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِھَا الْاَنْھَارُ ثَوَابًا مِّن عِندِ اللّہِ وَاللّہُ عِندَہُ حُسْنُ الثَّوَابِ۔ (سورۃ 3، آیہ 195)

"پھر ان کے رب نے ان کی دعا قبول فرما لی (اور فرمایا) یقیناً میں تم میں سے کسی محنت والے کی مزدوری ضائع نہیں کرتا خواہ مرد ہو یا عورت، تم سب ایک دوسرے میں سے (ہی) ہو، پس جن لوگوں نے (اللہ کے لئے) وطن چھوڑ دیئے اور (اسی کے باعث) اپنے گھروں سے نکال دیئے گئے اور میری راہ میں ستائے گئے اور (میری خاطر) لڑے اور مارے گئے تو میں ضرور ان کے گناہ ان (کے نامہ اعمال) سے مٹا دوں گا اور انہیں یقیناً ان جنتوں میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، یہ اللہ کے حضور سے اجر ہے، اور اللہ ہی کے پاس (اس سے بھی) بہتر اجر ہے۔"

سورۃ احزاب میں ارشادِ باری تعالٰی ہے :

إِنَّ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَالْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَالْقَانِتِينَ وَالْقَانِتَاتِ وَالصَّادِقِينَ وَالصَّادِقَاتِ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِرَاتِ وَالْخَاشِعِينَ وَالْخَاشِعَاتِ وَالْمُتَصَدِّقِينَ وَالْمُتَصَدِّقَاتِ وَالصَّائِمِينَ وَالصَّائِمَاتِ وَالْحَافِظِينَ فُرُوجَھُمْ وَالْحَافِظَاتِ وَالذَّاكِرِينَ اللَّہَ كَثِيرًا وَالذَّاكِرَاتِ اَعَدَّ اللَّہُ لَھُم مَّغْفِرَۃً وَاَجْرًا عَظِيمًا۔ سورۃ 33، آیہ 35)

"بیشک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں، اور مومن مَرد اور مومن عورتیں، اور فرمانبردار مرد اور فرمانبردار عورتیں، اور صدق والے مرد اور صدق والی عورتیں، اور صبر والے مرد اور صبر والی عورتیں، اور عاجزی والے مرد اور عاجزی والی عورتیں، اور صدقہ و خیرات کرنے والے مرد اور صدقہ و خیرات کرنے والی عورتیں اور روزہ دار مرد اور روزہ دار عورتیں، اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں، اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرنے والے مرد اور ذکر کرنے والی عورتیں، اللہ نے اِن سب کے لئے بخشِش اور عظیم اجر تیار فرما رکھا ہے۔"

اس آیت مبارکہ سے یہ حقیقت واضح ہو کر سامنے آ جاتی ہے کہ اسلام مرد اور عورت کے درمیان نہ تو اخلاقی اور روحانی ذمہ داریوں کے حوالے سے کوئی تفریق روا رکھتا ہے اور نہ ہی فرائض و واجبات کے لحاظ سے۔ نماز پڑھنا، روزہ رکھنا اور زکوٰۃ دینا جس طرح مرد پر فرض ہے، اسی طرح عورت پر بھی لازم ہے۔

البتہ عورت کو کچھ اضافی سہولتیں ضرور دی گئی ہیں۔

ایام مخصوصہ کے دوران عورت کو نماز کی رخصت دی گئی ہے۔ یہ نمازیں اسے معاف ہیں۔ اسی طرح حیض و نفاس کے دوران چھوٹنے والے روزے بھی وہ بعد میں رکھ سکتی ہے۔

مندرجہ بالا گفتگو سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اسلام عورت اور مرد پر یکساں اخلاقی ذمہ داریاں عاید کرتا ہے اور ایک ہی جیسی حدود و قیود نافذ کرتا ہے۔ سو آپ کے خیال میں اس سے کیا نتیجہ برآمد ہوتا ہے؟

اسلام کے عطا کردہ حقوق نسواں جدید ہیں یا فرسودہ؟
 

شمشاد

لائبریرین
دوسرا باب

اسلام میں عورت کے معاشی حقوق

گزشتہ باب میں ہم نے عورت کے روھانی حقوق کا جائزہ لیا یعنی یہ دیکھا کہ اسلام عورت کو دینی، مذہبی اور روحانی حوالوں سےکیا مقام و مرتبہ عطا کرتا ہے۔

اب ہم زیر نظر موضوع یعنی "اسلام میں حقوق نسواں" کا جائزہ ایک اور پہلو سے لیں گے اور دیکھیں گے کہ معاشی حوالے سے عورت کو اسلام کیا حقوق عطا کرتا ہے۔

اس حوالے سے تجزیہ کیجیے تو سب سے پہلے یہ حقیقت ہمارے سامنے آتی ہے کہ اسلام نے آج سے ڈیڑھ ہزار برس پہلے عورت کو معاشی حقوق دیے۔ ان حقوق میں بہت سی چیزیں شامل ہیں۔ مثال کے طور پر ایک عاقل بالغ مسلمان عورت جائیداد خرید سکتی ہے، رکھ سکتی ہے، بیچ سکتی ہے۔ خواہ وہ شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ۔ وہ بغیر کسی پابندی کے اپنی مرضی سے اپنے مال کے بارے میں وہ تمام فیصلے کر سکتی ہے جو ایک مرد کر سکتا ہے۔

اسلام نے عورت کو جائیداد رکھنے اور اس کی خرید و فروخت کرنے کا حق آج سے ڈیڑھ ہزار برس پہلے دیا تھا جب کہ بریطانہ میں یہی حق عورت کو 1870ء میں آ کر ملا۔

میں مانتا ہوں کہ چونکہ عورت کو یہ حقوق اسلام نے چودہ سو برس پہلے دے دیے تھے لہذا ہم انہیں عورت کے "قدیم حقوق" بھی کہہ سکتے ہیں لیکن کیا قدیم ہونے کی وجہ سے یہ حقوق فرسودہ ہو گئے ہیں؟ کیا یہ حقوق جدید ترین معیار پر پورے نہیں اترتے؟

جہاں تک عورت کے کام کرنے اور روزے کمانے کا تعلق ہے، اسلام اس کی بھی پوری اجازت دیتا ہے۔ قرآن و حدیث میں کہیں بھی عورت کے کام کرنے پر پابندی عاید نہیں کی گئی۔ شرط یہ ہے کہ یہ کام جائز ہو اور شرعی حدود کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے کیا جائے۔ اور خصوصاً پردے کی رعایت کی جائے۔

لیکن قدرتی بات ہے کہ اسلام عورت کو کوئی ایسا پیشہ اختیار کرنے کی اجازت نہیں دے گا جس میں عورت کے حسن و جمال کو نمایاں کیا جائے مثال کے طور پر اداکاری اور ماڈلنگ وغیرہ۔

اسی طرح بہت سے کام ایسے ہیں جو اسلام نے مردوں کے لیے بھی حرام کر دیے ہیں۔ ظاہر ہے ایسے کاموں کی اجازت عورت کو بھی نہیں دی جا سکتی۔ مثال کے طور پر شراب کے کاروبار سے متعلق پیشے یا قمار بازی سے تعلق رکھنے والے پیشے۔ ایسے پیشے مردوں کے لیے بھی اسی طرح ممنوع ہیں جس طرح عورتوں کے لیے۔

ایک حقیقی اسلامی معاشرے میں بہت سے پیشے ایسے ہیں جنہیں خواتین اختیار کر سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر طب کا شعبہ ہی دیکھیے۔ خواتین کے علاج کے لیے ہمیں ماہر خواتین ڈاکٹروں اور نرسوں کی ضرورت ہے۔ اسی طرح تعلیم کے شعبہ میں خواتین اساتذہ کا ہونا ضروری ہے۔

دوسری طرف اسلام تمام تر معاشی ذمہ داریاں مرد کو سونپتا ہے اور عورت پر کمانے کی ذمہ داری بالکل نہیں عاید کرتا۔ گویا اسے اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے کام کرنے کی ضرورت نہیں۔ البتہ اگر ایسے حالات پیدا ہو جائیں کہ عورت کو اپنی روزی خود کمانی پڑے تو اسلام اسے اس سے روکتا بھی نہیں۔

متذکرہ بالا شعبوں کے علاوہ بھی بہت سے کام ہیں جو عورت کر سکتی ہے۔ عورت اپنے گھر میں بھی بہت سے چھوٹے چھوٹے کام شروع کر سکتی ہے۔

جہاں تک فیکٹریوں اور دیگر اداروں میں کام کرنے کا تعلق ہے اس میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ ان اداروں کا انتظام اسلامی اصولوں کے مطابق چل رہا ہو۔ یعنی مردوں اور عورتوں کے شعبے بالکل الگ الگ ہوں۔ کیونکہ اسلام عورتوں اور مردوں کے اختلاط کی قطعا اجازت نہیں دیتا۔

اسی طرح اسلام عورت کو کاروبار کی اجازت دیتا ہے لیکن جہاں نامحرموں سے اختلاط کا موقع ہو وہاں اسے کسی محرم مرد، مثال کے طور پر باپ، بھائی یا شوہر کی مدد حاصل کرنا ہو گی۔

اس سلسلے میں ام المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کی مثال ہمارے سامنے ہے ۔ وہ اپنے دور میں مکہ کی مالدار کاروباری خواتین میں شمار ہوتی تھیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی جانب سے کاروباری ذمہ داریاں سر انجام دیتے رہے۔

ایک لحاظ سے دیکھا جائے اسلام خاندان میں عورت کو زیادہ معاشی تحفظ فراہم کرتا ہے۔ جیسا کہ میں نے پہلے بھی آپ کے سامنے وضاحت کی، اسلام بنیادی طورفکر معاش کی ذمہ داری خاندان کے مرد پر عاید کرتا ہے۔ عورت پر ایسی کسی ذمہ داری کا بوجھ نہیں دالا گیا۔

شادی سے پہلے یہ اس کے باپ یا بھائیوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کی تمام ضروریات اپنی استطاعت کی حد تک پوری کریں، شادی کے بعد یہ ذمہ داری اس کے شوہر کی طرف منتقل ہو جاتی ہے کہ وہ اس کے کھانے پینے، پہننے اور رہنے سہنے کا بندوبست کرے۔ اگر شوہر فوت ہو جائے تو یہ ذمہ داری اس کے بیٹے پر عاید ہو جاتی ہے۔ گویا جب تک کوئی مرد موجود ہے کمانے کی ذمہ داری اسی کی ہے۔

شادی کے موقع پر بھی دیکھا جائے تو اسلامی اصولوں کی روشنی میں عورت ہی فائدے میں رہتی ہے۔ کیونکہ نکاح کے موقع پر اسے حق مہر کی صورت میں ایک تحفہ ملتا ہے۔

قرآن مجید کی سورۃ نساء میں اللہ تبارک و تعالٰی کا ارشاد ہے :

"اور عورتوں کے مہر خوش دلی کے ساتھ (فرض جانتے ہوئے) داد کرو البتہ اگر وہ اپنی خوشی سے مہر کا کوئی حصہ تمہیں معاف کر دیں تو اسے تم مزے سے کھا سکتے ہو۔" (سورۃ 4، آیہ 4)۔

مہر شریعت اسلامی کی رُو سے نکاح کی ایک لازمی شرط ہے۔ اگرچہ اب ہمارے معاشرے میں مہر کی روح کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ جس شادی کی تقریب میں پر لاکھوں روپے خرچ کیے جا رہے ہوتے ہیں وہاں حق مہر چند سو روپے مقرر کر لیا جاتا ہے۔

اگرچہ یہ بات ٹھیک ہے کہ اسلام میں مہر کی رقم کے لیے کوئی کم سے کم یا زیادہ سے زیادہ مقدار معین نہیں ہے یعنی بالائی یا زیریں حد مقرر نہیں کی گئی۔ لیکن بہر حال حق مہر کا فریقین کی مالی حیثیت کے مطابق ہونا ضروری ہے۔ ایک سو اکیاون روپے یا سات سو چھیاسی روپے حق مہر کا کوئی تُک نہیں بنتا۔

ایک المیہ یہ ہوا ہے کہ بعض مسلمان معاشروں پر دیگر ثقافتوں کے اثرات کچھ زیادہ ہی مرتب ہوئے ہیں جس کی ایک مثال برصغیر پاک و ہند کا معاشرہ ہے۔ یہاں "مہر" تو بہت کم مقرر کیا جاتا ہے لیکن توقع یہ رکھی جاتی ہے لڑکی اپنے ساتھ بہت سا جہیز لے کر آئے گی۔ ٹی وی اور فریج سے لے کر کار اور فلیٹ تک کی توقع کی جاتی ہے۔

لڑکے والے اپنی حیثیت کے مطابق مہرتو دیتے نہیں البتہ اپنی حیثیت کے مطابق جہیز کی توقع ضرور رکھتے ہیں۔ لڑکے کی قیمت مقرر کی جاتی ہے۔ اگر وہ گریجویٹ ہے تو ایک لاکھ، اگر ڈاکٹر یا انجینئر ہے تو تین یا پانچ لاکھ۔ لیکن ان باتوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔اسلام میں جہیز کا مطالبہ، بالواسطہ یا بلا واسطہ، کسی بھی طرح جائز نہیں ہے۔

اگر لڑکی کے والدین اپنی کوشی سے اپنی بیٹی کو کوئی تحفہ دینا چاہیں تو اس پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ لیکن اس مقصد کے لیے دباؤ ڈالنا کسی صورت جائز نہیں ہے۔ اسلام ایسی حرکتوں سے سختی کے ساتھ منع کرتا ہے۔

عورت کے لیے کمانا ضروری نہیں ہے۔ لیکن اگر وہ کچھ کماتی ہے تو یہ مکمل طور پر اس کی ذاتی ملکیت ہو گی۔ اسے اپنے گھر والوں پر ایک پائی بھی خرچ کرنے کا پابند نہیں کیا گیا۔ وہ اپنی کمائی، اپنی مرضی سے جیسے چاہے خرچ کر سکتی ہے۔

اسلامی اصول یہ ہے کہ بیوی کتنی ہی مالدار کیوں نہ ہو، کمانا اور روٹی، کپڑے، مکان کا بندوبست کرنا شوہر کی ذمہ داری ہے کیونکہ معاشی ذمہ داری اسلام صرف اور صرف مرد کے کاندھوں پر ڈالتا ہے۔ اور شوہر کو اپنی یہ ذمہ داری بہرصورت ادا کرنی ہوتی ہے۔

طلاق یا علیحدگی کی صورت میں بھی "عدت" کے دوران بیوی کے نفقے کا ذامہ دار مرد ہے۔ اگر بچے موجود ہیں تو ان کے اخراجات پورے کرنا بھی اسی کی فرض ہے۔

اسلام نے آج سے صدیوں پہلے ہی عورت کو وراثت کا حق دیا۔ اگر آپ قرآن کا مطالعہ کریں تو آپ دیکھیں گے کہ سورۃ بقرہ، سورۃ نساٰ اور سورۃ مائدہ میں واضح طور پر بتا دیا گیا ہے کہ عورت بیوی کی حیثیت سے، ماں کی حیثیت سے، بہن اور بیٹی کی حیثیت سے وراثت میں حصہ دار ہے۔ اور اللہ تبارک و تعالٰی نے ان کا حصہ قرآن میں مقرر فرما دیا ہے۔

میں جانتا ہوں اس حوالے سے سوالات اٹھائے جاتے ہیں اور یہ الزام عاید کیا جاتا ہے کہ خواتین کے حوالے سے اسلام کا قانونِ وراثت منصفانہ نہیں ہے۔ لیکن چونکہ ہمارے پاس وقت محدود ہے لہذا میں یہاں اس حوالے سے گفتگو نہیں کروں گا۔ ان شاء اللہ جب اس حوالے سے سوالات ہوں گے تو میں تفصیل اور وضاحت کے ساتھ جواب دوں گا۔

*-*-*-*-*-*-*-*-*-*​
 

شمشاد

لائبریرین
تیسرا باب

اسلام میں عورت کے معاشرتی حقوق

اس باب میں ہم معاشرتی اور سماجی حوالوں سے عورت کو دیے گئے حقوق کا تجزیہ کریں گے۔ ان حقوق کی تقسیم اس طرح بھی کی جا سکتی ہے :

  1. اسلام میں عورت کے حقوق بحیثیت بیٹی
  2. اسلام میں عورت کے حقوق بحثیت بیوی
  3. اسلام میں عورت کے حقوق بحثیت ماں
  4. اسلام میں عورت کے حقوق بحثیت بہن

سب سے پہلے ہم دین اسلام میں بیٹی کو دیے گئے معاشرتی حقوق کا ذکر کرتے ہیں۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اسلام نے بیٹی کو جان کی حفاظت فراہم کی اور بیٹیوں کو قتل کرنے کی قبیح روایت کا خاتمہ کیا۔ اسلام یہ حفاظت بیٹے اور بیٹی دونوں کے لیے فراہم کرتا ہے۔ اور قتل اولاد کو حرام قرار دیتا ہے۔ سورۃ التکویر میں ارشاد ہوتا ہے۔

وَاِذَا الْمَوْؤُودَۃُ سُئِلَتْ۔ بِاَيِّ ذَنبٍ قُتِلَتْ ۔(سورۃ 81، آیات 8، 9)

" اور جب زندہ گاڑی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ وہ کس قصور میں ماری گئی۔"

اللہ تبارک و تعالٰی کا ارشاد ہے :

قُلْ تَعَالَوْاْ اَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ اَلاَّ تُشْرِكُواْ بِہِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا وَلاَ تَقْتُلُواْ اَوْلاَدَكُم مِّنْ امْلاَقٍ نَّحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَاِيَّاھُم ط۔ سورۃ الانعام (6)، آیہ 151)

"فرما دیجئے: آؤ میں وہ چیزیں پڑھ کر سنا دوں جو تمہارے رب نے تم پر حرام کی ہیں (وہ) یہ کہ تم اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو، اور مفلسی کے باعث اپنی اولاد کو قتل مت کرو۔ ہم ہی تمہیں رزق دیتے ہیں اور انہیں بھی (دیں گے)،"

اسی طرح حکم ہمیں سورۃ بنی اسرائیل میں بھی ملتا ہے، جہاں ارشاد ہوتا ہے :

وَلاَ تَقْتُلُواْ اَوْلاَدَكُمْ خَشْيَۃَ اِمْلاَقٍ نَّحْنُ نَرْزُقُھُمْ وَاِيَّاكُم انَّ قَتْلَھُمْ كَانَ خِطْئاً كَبِيرًا۔ (سورۃ 17، آیہ 31)

"اور تم اپنی اولاد کو مفلسی کے خوف سے قتل مت کرو، ہم ہی انہیں (بھی) روزی دیتے ہیں اور تمہیں بھی، بیشک ان کو قتل کرنا بہت بڑا گناہ ہے۔"

ظہور اسلام سے قبل، دور جاہلیت کے عرب معاشرے کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ اپنی بیٹیوں کو زندہ دفن کر دیا کرتے تھے۔ خدا کا شکر ہے کہ اسلام نے آ کر اس مکروہ اور ظالمانہ رسم کا خاتمہ کر دیا۔ عرب تہذیب میں تو اسلام نے یہ رسم ختم کر دی لیکن ہر جگہ ایسا نہیں ہے۔

بدقسمتی سے ہمارے ملک ہندوستان میں آج بھی بیٹیوں کو قتل کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ عالمی نشریاتی ادارے بی بی سی نے ایک رپورٹ تیار کی ہے۔ اس پروگرام کا عنوان تھا "اُسے مرنے دو" (Let Her Die)۔ بی بی سی ایک خاتون رپورٹر Emily Beckenen نے بریطانیہ سے ہندوستان آ کر اس موضوع پر تحقیقات کیں اور یہ رپورٹ تیار کی۔ یہ پروگرام کافی عرصہ قبل سٹار ٹی وی پر بھی دکھایا گیا اور شکر ہے کہ بار بار دکھایا جا رہا ہے۔ کچھ ہی دن قبل بھی یہ پروگرام ٹیلی کاسٹ ہوا ہے۔

اس پروگرام میں جو اعداد و شمار فراہم کیے گئے ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ روزانہ تقریباً تین ہزار حمل ضائع کیے جا رہے ہیں۔ والدین بچے کی جنس معلوم کرتے ہیں اور جب پتہ چلتا ہے کہ بچی پیدا ہونے والی ہے تو حمل ضائع کروا دیا جاتا ہے۔

اگر یہ اعداد و شمار درست ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہندوستان میں ہر سال تقریباً 10 لاکھ بیٹیوں کو قتل کیا جا رہا ہے۔

تامل ناڈو اور راجھستان وغیرہ جیسی ریاستوں میں ایسے بورڈ اور پوسٹر نظر آ رہے ہیں جن پر لکھا ہوتا ہے :

"پانچ سو روپے خرچ کریں اور پانچ لاکھ روپے بچائیں۔"​

کیا آپ جانتے ہیں اس جملے کا کیا مطلب ہے؟ کہ پانچ سو روپے طبی معاینے پر خرچ کریں اور یہ معلوم کریں کہ بچہ پیدا ہونے والا ہے یا بچی۔ یعنی پیدائش سے قبل ہی بچے کی جنس معلوم کر لیں۔ اگر ماں کے پیٹ میں بچی پرورش پا رہی ہو تو حمل ضائع کروا دیں اور یوں بچی کی پرورش اور بعد ازاں جہیز کی صورت میں خرچ ہونے والے لاکھوں روپے بچا لیں۔

تامل ناڈو کے سرکاری ہسپتال کی رپورٹ یہ ہے کہ ہر دس میں سے پانچ بیٹیوں کو قتل کیا جا رہا ہے۔ لہذا شاید ہمیں اس بات پر حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ ہندوستان میں عورتوں کی آبادی مردوں سے کم ہے۔

بچیوں کے قتل کا یہ سلسلہ نیا نہیں ہے۔ صدیوں سے یہی کچھ ہو رہا ہے۔ اگر آپ ہندوستان میں 1901ء میں ہونے والی مردم شماری کے اعداد و شمار کا جائزہ لیں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ اس وقت بھی ہندوستان میں 1000 مردوں کے مقابلے میں 972 عورتیں تھیں۔

اس کے بعد اگر آپ 1981ء کی مردم شماری کے اعداد و شمار کا تجزیہ کریں تو معلوم ہو گا کہ یہ تناسب مزید بگڑ چکا ہے۔ کیونکہ 1981 میں 1000 مردوں کے مقابلے میں 934 عورتیں تھیں۔

عورتوں کی آبادی کا تناسب مزید کم ہوتا جا رہا ہے۔ 1991ء کی مردم شماری میں یہ 1000 کے مقابلے میں 927 تک جا پہنچا ہے اور سب سے افسوس تو اس بات کا ہے کہ سائنس کی ترقی نے بجائے اس عمل کو روکنے کے اس میں مزید سہولت پیدا کر دی ہے۔

وَعَاشِرُوھُنَّ بِالْمَعْرُوفِ فَاِن كَرِھْتُمُوھُنَّ فَعَسَى اَن تَكْرَھُواْ شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللّہُ فِيہِ خَيْرًا كَثِيرًا۔ (سورۃ 4، آیہ 19)

"ان کے ساتھ بھلے طریقے سے زندگی بسر کرو۔ اگر وہ تمہیں ناپسند ہوں تو ہو سکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں پسند نہ ہو مگر اللہ نے اس میں بہت کچھ بھلائی رکھ دی ہو۔"

نکاح کے لیے فریقین کی رضا مندی ایک لازمی شرط ہے یعنی مرد اور عورت دونوں کو اس رشتے کے لیے راضی ہونا چاہیے۔ کوئی بھی ۔۔۔ خواہ وہ لڑکی کا والد ہی کیوں نہ ہو، اپنی بیٹی کی شادی زبردستی نہیں کر سکتا۔

صحیح بخاری کی ایک حدیث کے مطابق ایک عورت کا نکاح اس کے باپ نے اس کی مرضی کے خلاف کر دیا تھا۔ یہ عورت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئی اور فریاد کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نکاح کو فسخ قرار دیا۔

احمد بن حنبل رحمۃ اللہ کی روایت کردہ ایک حدیث کا مفہوم بھی اس سے ملتا جلتا ہے، جس کے مطابق ایک عورت بارگاہِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوئی اور شکایت کی کہ اس کے باپ نے اس کی مرضی کے خلاف اس کا نکاح کر دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ وہ اگر چاہے تو اس نکاح کو برقرار رکھے اور چاہے تو فسخ کر دے۔

مندرجہ بالا احادیث سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اسلام نکاح کے لیے فریقین کی رضامندی ضروری قرار دیتا ہے۔

اسلام میں عورت کا تصور خاندان تشکیل دینے والی شخصیت کا ہے۔ بیوی کی حیثیت سے وہ مکان کو گھر بناتی ہے۔ مغربی دنیا میں بیوی کے لیے House Wife کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ جو غلط ہے کیونکہ اس کی شادی گھر کے ساتھ نہیں ہوئی۔ لوگ اصطلاحات بناتے ہیں اور استعمال کرتے ہیں۔ یہ نہیں سوچتے کہ ان الفاظ کا مطلب کیا ہے۔ "ہاؤس وائف" کا مطلب ہے "مکان کی بیوی۔"

میں امید رکھتا ہوں کہ میری بہنیں آئندہ خود کو ہاؤس وائف (House Wife) کہلوانے کی بجائے ہوم میکر (Home Maker) کہلوانا پسند کریں گی۔

اسلام میں بیوی کی حیثیت باندی کی نہیں ہوتی بلکہ اسے شوہر کے ساتھ بالکل مساوی حیثیت ملتی ہے۔

ابن حنبل رحمۃ اللہ کی روایت کردہ ایک حدیث کا مفہوم کچھ یوں ہے :

"تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جس کا سلوک اپنے گھر والوں سے اچھا ہے۔"

اسلام نے مرد اور عورت کی سماجی حیثیت میں کوئی بھی فرق نہیں رکھا سوائے ایک پہلو کے، اور وہ پہلو قیادت کا ہے۔ جسٹس قاضی صاحب نے بھی بالکل درست نشاندہی کی کہ قرآن شوہر اور بیوی کو مکمل برابری کی حیثیت دیتا ہے لیکن اس نے گھر یا خاندان کا سربراہ مرد کو بنایا ہے۔

سورۃ بقرہ میں ارشادِ باری تعالٰی ہے :

وَلَھُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْھِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَلِلرِّجَالِ عَلَيْھِنَّ دَرَجَۃٌ وَاللّہُ عَزِيزٌ حَكُيمٌ ۔ (سورۃ 2، آیہ 228 )

"عورتوں کے لیے بھی معروف طریقہ پر ویسے ہی حقوق ہیں جیسے مردوں کے حقوق ان پر ہیں۔ البتہ مردوں کو ان پر ایک درجہ حاصل ہے اور سب پر اللہ غالب اقتدار رکھنے والا اور حکیم و دانا موجود ہے۔"

یہاں میں جسٹس ایم ایم قاضی سے پورا اتفاق کرتا ہوں۔یہ بات بالکل درست ہے کہ بیشتر مسلمان اس آیت کا مفہوم غلط اخذ کرتے ہیں۔ خصوصاً مرد کو ایک درجہ حاصل ہونے کی بات کو بالعموم غلط سمجھا گیا۔ حالانکہ جس طرح کہ میں نے پہلے عرض کیا کسی بھی حکم کو سمجھنے کے لیے پورے قرآن میں متعلقہ بیانات کو سامنے رکھنا ضروری ہے۔

سورۃ نساء میں اللہ تبارک و تعالٰی کا ارشاد ہے :

الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ ط (سورۃ 4، آیہ 34)

"مرد عورتوں پر قوام ہیں۔"

لوگ بالعموم "قوام" کا ترجمہ "ایک درجہ برتر" کرتے ہیں۔ یا یہ کہ مرد ایک درجہ افضل ہیں۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ قوام کا لفظ اقامہ سے نکلا ہے۔ مثال کے طور پر نماز سے پہلے اقامت ہوتی ہے جس کا مطلب ہوتا ہے نماز کے لیے کھڑے ہو جاؤ۔ گویا اقامہ کے معنی ہوئے کھڑے ہو جانا۔ اور جہاں تک قوام کے معنی کا تعلق ہے تو اس لفظ کے معانی یہ نہیں ہیں کہ مرد کو عورت پر ایک درجہ برتری یا فضیلت حاصل ہے، بلکہ یہ ہیں کہ مرد کی ذمہ داریاں ایک درجہ زیادہ ہیں۔

اگر آپ تفسیر ابن کثیر کا مطالعہ کریں تو آپ یہی لکھا پائیں گے کہ مرد کی ذمہ داری ایک درجہ زیادہ ہے نہ کہ بلحاظ فضیلت کوئی برتری ہے۔ اور یہ ذمہ داری فریقین کو باہمی رضا مندی سے برضا و رغبت ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

سورۃ بقرہ میں ارشادِ باری تعالٰی ہے :

هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَأَنتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ ط (سورۃ 2، آیہ 187)

"وہ تمہارے لیے لباس ہیں اور تم ان کے لیے لباس ہو۔"

لباس کا مقصد کیا ہوتا ہے؟ لباس کا مقصد پردہ بھی ہوتا ہے اور زینت بھی۔ اسی طرح میاں بیوی کو ایک دوسرے کے عیبوں پر پردہ ڈالنے والا اور ایک دوسرے کے لیے باعث زینت ہونا چاہیے کیونکہ یہ دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔

سورۃ نساء میں اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے :

وَعَاشِرُوھُنَّ بِالْمَعْرُوفِ فَاِن كَرِھْتُمُوھُنَّ فَعَسَى اَن تَكْرَھُواْ شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللّہُ فِيہِ خَيْرًا كَثِيرًا۔ (سورۃ 4، آیہ 19)

"اور ان کے ساتھ معروف طریقے سے زندگی بسر کرو۔ اگر وہ تمہیں ناپسند ہوں تو ہو سکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں پسند نہ ہو مگر اللہ نے اسی میں بہت کچھ بھلائی رکھ دی ہو۔"

گویا حکم قرآنی کے مطابق اگر آپ کو اپنی بیوی ناپسند ہو پھر بھی آپ کو اس کے ساتھ خوش اخلاقی ہی سے پیش آنا چاہیے۔ اور برابری کی سطح پر ہی رہنا چاہیے۔

ہماری اب تک کی گفتگو سے آپ کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ اسلام عورت کو بحیثیت بیوی کے کیا حقوق عطا کرتا ہے۔ اس کے بعد آپ کی کیا رائے ہے؟

یہ حقوق جدید ہیں یا فرسودہ؟​
 

شمشاد

لائبریرین
اب ہم آتے ہیں والدہ کے حقوق کی جانب۔

مختصراً یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسلام میں اللہ تعالٰی کی عبادت کے بعد اہمیت والدین کے احترام کی ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے :

"ترے رب نے فیصلہ کر دیا ہے کہ تم لوگ کسی کی عبادت نہ کرو مگر صرف اس کی۔ والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو۔ اگر تمہارے پاس ان میں سے کوئی ایک، یا دونوں، بوڑھے ہو کر رہیں تو انہیں اُف تک نہ کہو نہ انہیں جھڑک کر جواب دو بلکہ ان سے احترام کے ساتھ بات کرو اور نرمی اور رحم کے ساتھ ان کے سامنے جھک کر رہو اور دعا کیا کرو کہ "پروردگار، ان پر رحم فرما جس طرح انہوں نے رحمت و شفقت کے ساتھ مجھے بچپن میں پالا تھا۔" (سورۃ الاسرہ (17)، آیات 23، 24)

"لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت سے مرد و عورت دنیا میں پھیلا دیے۔ اس خدا سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنے حق مانگتے ہو اور رشتہ و قرابت کے تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو۔ یقین جانو کہ اللہ تم پر نگرانی کر رہا ہے۔" (سورۃ النساء (4)، آیہ 1)

سورۃ لقمان میں اللہ سبحانہ و تعالٰی کا ارشادِ پاک ہے :

"اور یہ حقیقت ہے کہ ہم نے انسان کو اپنے والدین کا حق پہچاننے کی خود تاکید کی ہے۔ اس کی ماں نے ضعف پر ضعف اٹھا کر اسے اپنے پیٹ میں رکھا اور دو سال اس کا دودھ چھوٹنے میں لگے (اسی لیے ہم نے اس کو نصیحت کی کہ) میرا شکر کر اور اپنے والدین کا شکر بجا لا، میری ہی طرف تجھے پلٹنا ہے۔" سورۃ 31، آیہ 14)

سورۃ احقاف میں ارشاد ہوتا ہے :

وَوَصَّيْنَا الْاِنسَانَ بِوَالِدَيْہِ اِحْسَانًا حَمَلَتْہُ اُمُّاُ كُرْھًا وَوَضَعَتْہُ كُرْھًا وَحَمْلُہُ وَفِصَالُہُ ثَلَاثُونَ شَھْرًا ط سورۃ 46، آیہ 15)

"اور ہم نے انسان کو ہدایت کی کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ نیک برتاؤ کرے اس کی ماں نے مشقت اٹھا کر اسے پیٹ میں رکھا اور مشقت اٹھا کر ہی اس کو جنا۔ اور اس کے حمل اور دودھ چھڑانے میں تیس مہینے لگ گئے۔"

احمد اور ابن ماجہ سے روایت ہونے والی ایک حدیث کا مفہوم ہے :

"جنت ماں کے قدموں تلے ہے۔"

اس حدیث کا مطلب یہ نہیں کہ راستے پر چلتے ہوئے جو کچھ ماں کے پاؤں تلے آتا ہے وہ سب جنت میں تبدیل ہو جاتا ہے بلکہ اس کے معانی یہ ہیں کہ اگر آپ فرائض دینی ادا کرتے ہیں اور اس کے بعد ماں کی عزت کرتے ہیں، خدمت کرتے ہیں فرماں برداری کرتے ہیں تو آپ یقیناً جنت میں جائیں گے۔

صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی ایک روایت کو مفہوم ہے :

"ایک شخص نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ مجھ پر سب سے زیادہ حق کس کا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تیری ماں کا۔" اس نے پوچھا اس کے بعد؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تیری ماں کا۔ اس شخص نے تیسری بار پوچھا: اس کے بعد؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تیری ماں کا۔" جب اس نے چوتھی مرتبہ دریافت کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تیرے باپ کا۔"

گویا اس حدیث کی روشنی میں پچھتر فی صد عزت و احترام کی مستحق ماں ٹھہرتی ہے اور پچیس فی صد کا باپ۔

یا یوں کہیے کہ تین چوتھائی محبت ماں کے حصے میں اور ایک چوتھائی باپ کے حصے میں آتی ہے۔

مختصراً سونے کا تمغہ ماں کے حصے میں آتا ہے، چاندی کا تمغہ بھی ماں کے حصے میں، کانسی کا تمغہ بھی ماں کے حصے میں آتا ہے اور حوصلہ افزائی کا انعام باپ کو ملتا ہے۔

آپ نے اسلام میں ماں کے حقوق ملاحظہ فرمائے۔ اب فیصلہ کریں کہ :

یہ حقوق جدید ہیں یا فرسودہ؟
 

شمشاد

لائبریرین
اسی طرح اسلام نے عورت کو بہن کی حیثیت سے بھی نہایت محترم قرار دیا ہے۔

قرآن مجید میں اللہ تبارک و تعالٰی کا ارشاد ہے :

وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُھُمْ اَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ط (سورۃ توبہ (9)، آیہ 71)

"مومن مرد اور مومن عورتیں یہ سب ایک دوسرے کے رفیق ہیں۔"

لفظ اولیاء کے معنی یہاں رفیق اور مددگار ہیں۔ باالفاظ دیگر مومن مرد اور مومن عورتیں آپس میں بہن بھائی ہیں، اگر ان کے درمیان کوئی اور رشتہ نہ ہو تو۔

خواتین کو قدر معاشرتی حقوق دیے گئے ہیں کہ ہم ان کے ھوالے سے ہفتوں گفتگو کر سکتے ہیں لیکن وقت کی کمی کی وجہ سے ہم متعدد اہم موضوعات مثلا کثرتِ ازدواج اور طلاق وغیرہ پر گفتگو نہیں کریں گے۔ کیونکہ میرا تجربہ بتاتا ہے کہ ان موضوعات کے حوالے سے سوالات سے ضرور کیے جائیں گے۔ انشاء اللہ اس وقت ان کی وضاحت ہو جائے گی۔

*-*-*-*-*-*-*-*-*​
 

شمشاد

لائبریرین
چوتھا باب​

اسلام میں عورت کے تعلیمی حقوق

اب ہم ان حقوق کا تذکرہ کریں گے جو اسلام نے تعلیم کے حوالے سے خواتین کو عطا کیے ہیں۔ قرآن مجید کی جو سب سے پہلےآیات نازل ہوئیں وہ سورۃ علق کی پہلی پانچ آیات تھیں۔ ان آیاتِ مبارکہ میں اللہ تبارک و تعالٰی کا ارشادِ پاک ہے :

اقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ۔ خَلَقَ الْاِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ۔ اقْرَاْ وَرَبُّكَ الْاَكْرَمُ۔ الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ۔ عَلَّمَ الْاِنسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ ۔ (سورۃ 96، آیات 1 – 5)

"پڑھو! (اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم!) اپنے رب کے نام کے ساتھ جس نے پیدا کیا۔ جمے ہوئے خون کے ایک لوتھڑے سے انسان کی تخلیق کی۔ پڑھو اور تمہارا رب بڑا کریم ہے۔ جس نے قلم کے ذریعہ سے علم سکھایا۔ انسان کو وہ علم دیا جسے وہ نہ جانتا تھا۔"

اور یہ بات ذہن میں رکھیے کہ بات آج سے چودہ سو برس پہلے کی ہو رہی ہے جب خواتین کو کسی بھی قسم کے حقوق حاصل نہیں تھے۔ ان کی حیثیت ذاتی املاک سے بڑھ کر نہ تھی۔ اسلام نے اُس وقت خواتین کی تعلیم پر زور دیا جس وقت دنیا میں تعلیم نسواں کا کوکئی تصور ہی موجود نہیں تھا۔

جیسا کہ پہلے کہا گیا دورِ صحابہ رضی اللہ تعالٰی عنہم میں ہمیں متعدد عالمہ خواتین کی مثالیں نظر آتی ہیں۔ سب سے اہم مثال تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی ہے۔ آپ رضی اللہ عنہا حضرت ابوبر صدیق رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی تھیں اور امہات المومنین میں شامل تھیں۔ حضرت عائشہ صدیقہ سے صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم اور خلفائے راشدین تک ہدایت اور رہنمائی حاصل کرتے رہے۔ آپ کے ممتاز ترین شاگرد عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ تھے۔ وہ کہتے ہیں :

"میں نے تفسیر قرآن، فرائض، حلال و حرام، ادب و شعر اور تاریخ عرب کا حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے بڑھ کر کوئی عالم نہیں دیکھا۔"

وہ نہ صرف یہ کہ علوم دینیہ کی ماہر تھیں بلکہ دیگر علوم مثلاً طب پر بھی ماہرانہ دسترس رکھتی تھیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے والے وفود جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کرتے تھے تو آپ رضی اللہ تعالٰی عنہا اس گفتگو سے حاصل ہونے والی معلومات کو ذہن نشین کر لیتی تھیں۔

انہیں علم ریاضی سے بھی دلچسپی تھی۔ اور متعدد مرتبہ ایسا ہوا کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم نے "میراث" کے مسائل آپ سے دریافت فرمائے اور آپ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے ہر وارث کا حصہ شریعت کے مطابق انہیں بتایا۔

ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ دیگر صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کے علاوہ آپ کو چاروں خلفائے راشدین رضی اللہ تعالٰی عنہم کی رہنمائی کا بھی موقع ملا۔ متعدد مرتبہ آپ نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کی رہنمائی فرمائی۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے تقریباً 2210 احادیث مردی ہیں۔

حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالٰی عنہ جو خود ایک بہت بڑے عالم ہیں، فرماتے ہیں :

"جب صحابہ کرام رضوان اللہ تعالٰی کو کسی معاملے کے بارے میں علم نہ ہوتا تو ہم حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے دریافت کرتے اور وہ ہمارے رہنمائی کرتیں۔"

آپ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ 88 علما نے آپ سے تعلیم حاصل کی۔ یعنی آپ کو "استاذ الاساتذہ" کا مقام حاصل ہے۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے علاوہ بھی متعدد صحابیات کے علم و فضل کی شہادت ملتی ہے۔ اُم المؤمنین حضرت صفیہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کو بھی علم فقہ میں مہارت حاصل تھی۔ امام نووی رحمۃ اللہ کے بقول وہ اپنے وقت کی سب سے عالم خاتون تھیں۔

اسی طرح ایک اور مثال اُم المؤمنین حضرت اُم سلمیٰ رضی اللہ تعالٰی عنہا کی ہے۔ ان کے بارے میں ابن حجر رحمۃ اللہ کا بیان ہے کہ 32 علما نے آپ سے تعلم حاصل کی۔

حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ تعالٰی عنہا کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ایک دن کسی مسئلے پر حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا اور حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی آپ سے سارا دن بحث ہوتی رہی، لیکن وہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کو غلط ثابت نہیں کر سکے۔

امام نووی رحمۃ اللہ کا بیان ہے کہ فاطمہ بنت قیس ابتدائی مہاجرین میں شامل تھیں اور وسیع علم رکھتی تھیں۔

حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ کی والدہ اُم سلیم رضی اللہ تعالٰی عنہا بھی انتہائی عالم خاتون تھیں اور دعوت میں خصوصی مہارت رکھتی تھیں۔

حضرت حسن رضی اللہ تعالٰی عنہ کی پوتی سعیدہ نفیسہ رحمہا اللہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ امام شافعی رحمۃ اللہ نے بھی آپ سے تعلیم حاصل کی۔ اور امام شافعی رحمۃ اللہ وہ عالم ہیں جنہوں نے فقہ اسلامی کے چار بڑے مکاتبِ فکر میں سے ایک کا آغاز کیا۔

اسی طرح کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ مثلاً اُم الدرداء رضی اللہ تعالٰی عنہا جو حضرت ابو الدرداء کی زوجہ تھیں، ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہیں علوم عقلیہ میں کمال حاصل تھا۔ ان کے علم و فضل کی گواہی امام بخاری رحمۃ اللہ جیسے عالم نے بھی دی ہے۔

مزید مثالیں بھی پیش کی جا سکتی ہیں۔ اور یہ ذکر اس دور کا ہو رہا ہے جب عوت کے ساتھ بہت برا سلوک کیا جاتا تھا۔ جب لوگ بیٹیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ دفنا دیا کرتے تھے۔ اور اسی دور میں ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں میں نہ صرف علم دین بلکہ طب اور سائنس جیسے علوم کی ماہر خواتین بھی موجود تھیں۔

اور اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ اسلام ہر عورت کو تعلیم حاصل کرنے کا حق دیتا ہے۔ اس صورتِ حال میں آپ کی رائے کیا بنتی ہے؟

اسلام کے دیئے ہوئے حقوق نسواں جدید ہیں یا فرسودہ؟​
 

شمشاد

لائبریرین
پانچواں باب

اسلام میں عورت کے قانونی حقوق

اسلامی قانون کے لحاظ سے مرد اور عورت بالکل برابر ہیں۔ اسلامی شریعت مرد اور عورت کی جان اور مال کو یکساں تحفظ فراہم کرتی ہے۔ اگر کوئی مرد کسی عورت کو قتل کر دے تو اسے بھی سزائے موت ہی دی جائے گی۔ یعنی اسے بھی قصاص میں قتل کیا جائے گا جیسے کسی مرد کے قاتل کو سزائے موت ملتی ہے۔ اور اگر کوئی عورت قتل کی مرتکب ہوتی ہے تو اس کے لیے بھی وہی سزا ہے۔

سورۃ بقرہ میں ارشادِ باری تعالٰی ہے :

يَا اَيُّھَا الَّذِينَ آمَنُواْ كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلَى الْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالُْنثَى بِالُْنثَى فَمَنْ عُفِيَ لَہُ مِنْ اَخِيہِ شَيْءٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ وَاَدَاءٌ اِلَيْہِ بِاِحْسَانٍ ذَلِكَ تَخْفِيفٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَرَحْمَۃٌ فَمَنِ اعْتَدَى بَعْدَ ذَلِكَ فَلَہُ عَذَابٌ اَلِيمٌ۔ وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاۃٌ يَاْ اُولِي الْاَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ۔ (سورۃ 2، آیات 178، 179)

" اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تمہارے لیے قتل کے مقدموں میں قصاص کا حکم لکھ دیا گیا ہے۔ آزاد آدمی نے قتل کیا ہو تو اس آزاد ہی بدلہ لیا جائے، غلام قاتل ہو تو وہ غلام ہی قتل کیا جائے اور عورت اس جرم کی مرتکب ہو تو اس عورت ہی سے قصاص لیا جائے۔ ہاں، اگر کسی قاتل کے ساتھ اس کا بھائی کچھ نرمی کرنے کے لیے تیار ہو تو معروف طریقہ کے مطابق خون بہا کا تصفیہ ہونا چاہیے۔ اور قاتل کو لازم ہے کہ راستی کے ساتھ خون بہا ادا کرے۔ یہ تمہارے رب کی طرف سے تخفیف اور رحمت ہے۔ اس پر بھی جو زیادتی کرے اس کے لیے درد ناک سزا ہے۔ عقل و خرد رکھنے والو! تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے۔ اُمید ہے تم اس قانون کی خلاف ورزی سے پرہیز کرو گے۔"

اسلامی قانون میں جسمانی نقصان پہنچانے کی سزا بلا تفریق جنس ایک ہی ہے اور سلسلے میں مرد اور عورت میں کوئی تفریق نہیں کی جاتی۔

اسلامی قانون قصاص کا جائزہ لیا جائے تو یہ امر بھی سامنے آتا ہے کہ اگر کسی مقتول کی وارث عورت ہو تو اسے وہی حقوق حاصل ہیں جو کسی مرد وارث کو حاصل ہوتے ہیں۔ وہ اگر چاہے تو قصاص لے سکتی ہے چاہے تو "دیت" حاصل کر سکتی ہے۔ اس سلسلے میں مکمل آزادی حاصل ہے۔

اگر ورثا میں اختلاف ہو، کچھ ورثا دیت قبول کرنے کے حق میں ہوں اور کچھ قصاص میں قاتل کے قتل کیے جانے پر اصرار کریں تو اس صورت میں قتل کرنے سے روکا جائے گا اور دیت دلوائی جائے گی۔ لیکن یہاں بھی عورت اور مرد کی رائے کو یکساں اہمیت حاصل ہو گی اور بحیثیت وارث عورت اور مرد میںکوئی فرق نہیں کیا جائے گا۔

جہاں تک دیگر جرائم کا تعلق ہے وہاں بھی عورت اور مرد میں کوئی تفریق روا نہیں رکھی گئی۔

سورۃ مائدہ میں اللہ تبارک و تعالٰی کا ارشاد ہے۔

وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَۃُ فَاقْطَعُواْ اَيْدِيَھُمَا جَزَاءً بِمَا كَسَبَا نَكَالاً مِّنَ اللّہِ وَاللّہُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ۔ (سورۃ 5، آیہ 38 )

"اور چور خواہ عورت ہو یا مرد دونوں کے ہاتھ کاٹ دو یہ ان کی کمائی کا بدلہ ہے اور اللہ کی طرف سے عبرت ناک سزا۔ اللہ کی قدرت سب پر غالب ہے اور وہ دانا و بینا ہے۔"

اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ قطع ید کی سزا مرد اور عورت دونوں کے لیے ہے۔ جو بھی سرقے کا مرتکب ہو گا اسے سزا ملے گی اور جنس کے حوالے سے کوئی تفریق نہیں کی جائے گی۔

اسی طرح سورۃ نور میں ارشاد ہوتا ہے :

الزَّانِيَۃُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْھُمَا مِئَۃَ جَلْدَۃٍ وَلَا تَاْخُذْكُم بِھِمَا رَاْفَۃٌ فِي دِينِ اللَّہِ اِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّہِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلْيَشْھَدْ عَذَابَھُمَا طَائِفَۃٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ۔ (سورہ 24، آیہ 2)

"بدکار عورت اور بدکار مرد (اگر غیر شادی شدہ ہوں) تو ان دونوں میں سے ہر ایک کو (شرائطِ حد کے ساتھ جرمِ زنا کے ثابت ہو جانے پر) سو (سو) کوڑے مارو (جبکہ شادی شدہ مرد و عورت کی بدکاری پر سزا رجم ہے اور یہ سزائے موت ہے) اور تمہیں ان دونوں پر (دین کے حکم کے اجراء) میں ذرا ترس نہیں آنا چاہئے اگر تم اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو، اور چاہئے کہ ان دونوں کی سزا (کے موقع) پر مسلمانوں کی (ایک اچھی خاصی) جماعت موجود ہو۔"

یہاں بھی جنس کے حوالے سے کوئی تفریق نہیں کی گئی۔ کنوارہ زانی مرد ہو یا عورت، اسلامی شریعت دونوں کے لیے ایک ہی سزا مقررکرتی ہے۔ سو کوڑے زانی مرد کو بھی لگائے جائیں گے اور زانیہ عورت کو بھی۔ اور شادی شدہ ہونے کی صورت میں رجم کیا جائے۔

اب ہم آتے ہیں قانون شہادت کی جانب۔ اسلام نے عورت کو گواہی کا حق دیا ہے اور تصور کیجیے کہ یہ حق اسلام نے عورت کو آج سے چودہ سو برس پہلے دیا تھا۔

یہودی ربی حضرات بیسویں صدی میں غور و فکر کر رہے تھے کہ عورت کو گواہی دینے کا حق ہونا چاہیے یا نہیں؟ جب کہ اسلام عورت کو یہ حق ڈیڑھ ہزار برس پہلے دے چکا تھا۔

سورۃ نور میں ارشاد ہوتا ہے :

وَالَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَاْتُوا بِاَرْبَعَۃِ شُھَدَاءَ فَاجْلِدُوھُمْ ثَمَانِينَ جَلْدَۃً وَلَا تَقْبَلُوا لَھُمْ شَھَادَۃً اَبَدًا وَاُوْلَئِكَ ھُمُ الْفَاسِقُونَ۔ (سورۃ 24، آیہ 4)

"اور جو لوگ پاک دامن عورتوں پر تہمت لگائیں اور پھر چار گواہ لے کر نہ آئیں، ان کو اسی کوڑے مارو اور ان کی شہادت کبھی قبول نہ کرو اور وہ خود ہی فاسق ہیں۔"

ایک عام جرم میں دو گواہوں کی شہادت درکار ہوتی ہے جبکہ بڑے جرائم میں چار گواہوں کی گواہی لازم ہے۔ اسلام نے کسی عورت پر بہتان طرازی کے معاملے میں چار گواہوں کی شہادت لازی قرار دی ہے۔ گویا اسلام کی نظر میں کسی عورت کی عصمت و عفت پر انگلی اٹھانا ایک بہت بڑا جرم ہے۔

آج کے جدید معاشرے میں ہم دیکھتے ہیں کہ جس کا جی چاہتا ہے شریف عورتوں پر الزام تراشی کرنے لگتا ہے۔ ان کے کردار اور اخلاق کے بارے میں جو جس کے دل میں آتا ہے کہے جاتا ہے۔ لیکن ایک اسلامی ریاست میں اگر آپ نے کسی عورت کو بدکردار کہہ دیا تو پھر آپ کو اپنا الزام ثابت کرنا ہو گا اور عدالت میں چار گواہ پیش کرنے ہوں گے۔ اگر آپ ایسا نہ کر پائے تو پھر نہ صرف آپ کو اسی (80) کوڑے کھانے پڑیں گے بلکہ آئندہ کے لیے کسی معاملے میں بھی آپ کی شہادت قبول نہیں کی جائے گی۔ اگر چار گواہوں میں سے کوئی ایک گواہ بھی درست شہادت نہ دے سکا تو چاروں کو سزا دی جائے گی۔

اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام عورت کی عزت اور وقار کو کس قدر اہمیت دیتا ہے۔ بالعموم ہوتا یہ ہے کہ شادی کے بعد عورت شوہر کا نام اپنے نام کے ساتھ لکھتی ہے لیکن اسلام نے اس معاملے میں بھی اسے آزادی دی ہے۔ وہ چاہے تو شوہر کا نام اختیار کر سکتی ہے اور چاہے تو باپ کا نام ہی استعمال کر سکتی ہے۔ بلکہ شادی سے پہلے والے نام ہی کو ترجیح دی جاتی ہے۔ آج بھی متعدد مسلمان معاشروں میں ہم دیکھتے ہیں کہ شادی کے بعد بھی عورت اپنا پہلے نام ہی برقرار رکھتی ہے۔ اور اس کا سبب اسلام میں عورت اور مرد کی مساوات اور برابری ہے۔

اس صورت حال میں آپ کیا سمجھتے ہیں؟
اسلام میں عورت کے حقوق جدید ہیں یا فرسودہ؟
 

شمشاد

لائبریرین
چھٹا باب

اسلام میں عورت کے سیاسی حقوق

سورۃ توبہ میں اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے :

وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُھُمْ اَوْلِيَاءُ بَعْضٍ يَاْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُقِيمُونَ الصَّلاَۃَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاۃَ وَيُطِيعُونَ اللّہَ وَرَسُولَہُ اُوْلَ۔ئِكَ سَيَرْحَمُھُمُ اللّہُ اِنَّ اللّاَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ۔ (سورۃ 9، آیہ 71)

"اور اہلِ ایمان مرد اور اہلِ ایمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق و مددگار ہیں۔ وہ اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے روکتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت بجا لاتے ہیں، ان ہی لوگوں پر اللہ عنقریب رحم فرمائے گا، بیشک اللہ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہے۔"

مرد اور عورت محض سماجی سطح پر ہی نہیں بلکہ سیاسی سطح پر بھی ایک دوسرے کے لیے ممد و معاون ہیں۔ اسلام عورت کو سیاسی معاملات میں اپنی رائے کا اظہار کرنے کا حق بھی دیتا ہے۔

سورۃ ممحنہ میں اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے :

يَا اَيُّھَا النَّبِيُّ اِذَا جَاءَكَ الْمُؤْمِنَاتُ يُبَايِعْنَكَ عَلَى اَن لَّا يُشْرِكْنَ بِاللَّہِ شَيْئًا وَلَا يَسْرِقْنَ وَلَا يَزْنِينَ وَلَا يَقْتُلْنَ اَوْلَادَھُنَّ وَلَا يَاْتِينَ بِبُھْتَانٍ يَفْتَرِينَہُ بَيْنَ اَيْدِيھِنَّ وَاَرْجُلِھِنَّ وَلَا يَعْصِينَكَ فِي مَعْرُوفٍ فَبَايِعْھُنَّ وَاسْتَغْفِرْ لَھُنَّ اللَّہَ اِنَّ اللَّاَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ۔ (سورۃ 60، آیہ 12)

"اے نبی! جب آپ کی خدمت میں مومن عورتیں اس بات پر بیعت کرنے کے لئے حاضر ہوں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں ٹھہرائیں گی اور چوری نہیں کریں گی اور بدکاری نہیں کریں گی اور اپنی اولاد کو قتل نہیں کریں گی اور اپنے ہاتھوں اور پاؤں کے درمیان سے کوئی جھوٹا بہتان گھڑ کر نہیں لائیں گی (یعنی اپنے شوہر کو دھوکہ دیتے ہوئے کسی غیر کے بچے کو اپنے پیٹ سے جنا ہوا نہیں بتائیں گی) اور (کسی بھی) امرِ شریعت میں آپ کی نافرمانی نہیں کریں گی، تو آپ اُن سے بیعت لے لیا کریں اور اُن کے لئے اللہ سے بخشش طلب فرمائیں، بیشک اللہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔"

یہاں بیعت کا لفظ استعمال ہوا ہے اور بیعت کے لفظ میں آج کل کے الیکشن کا مفہوم بھی شامل ہے۔ کیونکہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول بھی اور سربراہِ مملکت بھی تھے۔ اور بیعت سے مراد انہیں سربراہِ حکومت تسلیم کرنا تھا۔ اس طرح اسلام نے اسی دور میں عورت کو ووٹ دینے کا حق بھی تفویض کر دیا تھا۔

اسی طرح اسلام نے خواتین کو قانون سازی میں حصہ لینے کی اجازت بھی دی ہے۔ ایک مشہور روایت ہے :

"حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ ایک دفعہ صحابہ کرام کے ساتھ حق مہر کے مسئلے پر گفتگو کر رہے تھے اور حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کی خواہش تھی کہ حق مہر کی بالا حد مقرر کر دی جائے کیونکہ نوجوانوں کے لیے نکاح کرنا مشکل ہوتا جا رہا تھا۔ پیچھے سے ایک بوڑھی عورت اُٹھی اور اس نے قرآن مجید کی سورۃ نساء کی بیسویں آیت پڑھی :

وَاِنْ اَرَدتُّمُ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَّكَانَ زَوْجٍ وَآتَيْتُمْ اِحْدَاھُنَّ قِنطَارًا فَلاَ تَاْخُذُواْ مِنْہُ شَيْئًا ط (سورہ 4، آیہ 20)

"اور اگر تم ایک بیوی کی جگہ دوسری بیوی لانے کا ارادہ کر ہی لو تو خواہ مخواہ تم نے اسے ڈھیر سا مال ہی کیوں نہ دیا ہو، اس میں سے کچھ واپس نہ لینا۔"

اس کے بعد اس عورت نے کہا کہ جب قرآن یہ اجازت دیتا ہے کہ مہر میں مال کا ڈھیر بھی دیا جا سکتا ہے تو عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کون ہوتا ہے حد مقرر کرنے والا۔

یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فوراً اپنی رائے سے رجوع کر لیا اور کہنے لگے کہ عمر غلط تھا اور یہ عورت درست کہہ رہی تھی۔"

اندازہ کیجیے کہ عام عورت کو بھی اتنا حق حاصل تھا۔ وہ یقیناً ایک عام عورت تھی۔ اگر وہ کوئی مشہور خاتون ہوتی تو یقیناً اس کا نام لیا جاتا لیکن چونکہ نام نہیں لیا گیا لہذا پتہ چلتا ہے کہ یہ کوئی عام خاتون تھی، اور پھر بھی اسے یہ حق تھا کہ وہ خلیفہ وقت سے اختلاف کی جرات کر سکے اور اس پر اعتراض کر سکے۔

اگر آج کل کی تکنیکی اصطلاحات میں بات کی جائے تو ہم کہیں گے کہ اس خاتون نے "آئین کی خلاف ورزی" پر اعتراض کیا تھا۔ کیونکہ مسلمانوں کا آئین تو قرآن ہے۔ اس واقعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام عورت کو قانون سازی میں شرکت کا بھی حق دیتا ہے۔

مسلمان خواتین میدانِ جنگ میں بھی خدمات سرانجام دیتی رہی ہیں۔ بخاری شریف کا ایک پورا باب میدانِ جہاد میں کام کرنے والی خواتین کے بارے میں ہے۔ جس سے پتہ چلتا ہے کہ خواتین میدانِ جنگ میں مجاہدین کو پانی پلاتی رہی ہیں اور زخمی مجاہدین کو طبی امداد دیتی رہیں۔

اُحد کے میدان میں جن صحابہ کرام رضوان اللہ تعالٰی کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کی سعادت حاصل ہوئی ان میں ایک صحابیہ حضرت نصیبہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کا اسم گرامی بھی شامل ہے۔

لیکن چونکہ اسلام نے مرد کو عورت کا محافظ قرار دیا ہے اس لیے عام حالات میں عورت کو میدانِ جنگ میں نہیں بھیجا جانا چاہیے۔ صرف مخصوص صورتِ حال اور ناگزیر صورتِ حال میں ہی عورت کو میدانِ جنگ میں خدمات سر انجام دینی چاہیے۔ عام حالات میں جہاد بالسیف مرد ہی کی ذمہ داری ہے اور یہ ذمہ داری اسی کو ادا کرنی چاہیے، بصورتِ دیگر وہی کچھ ہو گا جو کچھ ہم نے امریکہ میں ہوتے ہوئے دیکھا۔

امریکہ میں خواتین کو میدانِ جنگ میں آنے کی اجازت 1901ء میں دی گئی لیکن انہیں اس لڑائی میں شریک ہونے کی اجازت نہ تھی۔ وہ نرس کے طور پر کام کرتی تھیں۔ بعد ازاں تانیثیت کی تحریک سامنے آئی اور اس تحریک کی طرف سے یہ مطالبہ سامنے آیا کہ خواتین کو بھی عملی طور پر میدانِ جنگ میں آنے کی اجازت دی جائے۔ 1973ء سے یہ مطالبہ سامنے آیا اور 1976ء میں حکومت امریکہ نے خواتین فوجیوں کو دورانِ جنگ باقاعدہ محاذ پر لڑنے کی اجازت دے دی۔

اس کے بعد کیا ہوا؟ 23 اپریل 1993ء کو جاری ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق ایک فوجی کنونشن کے دوران 90 افراد کو جنسی طور پر ہراساں کیا گیا جن میں سے 83 خواتین تھیں۔ 117 فوجیوں کے خلام محکمانہ کاروائی کی گئی۔ ذرا اندازہ کیجیے کہ ایک کنونشن کے دوران 83 پر جنسی حملے ہوئے، 117 افرات اجتماعی طور پر ان حملوں میں شریک تھے۔ کیا آپ جانتے ہیں ان لوگوں نے کیا کیا؟

انہوں نے خواتین کے لباس پھاڑ دیئے، انہیں برہنہ پریڈ کرنے پر مجبور کر دیا گیا، ان کے ساتھ سر عام زیادتی کی گئی۔

کیا یہ "حقوق نسواں " ہیں؟ کیا خواتین کے حقوق اسی کا نام ہے؟ اگر ان لوگوں کے خیال میں یہی خواتین کے حقوق ہیں تو ہم ان حقوق کو دور سے ہی سلام کرتے ہیں۔ ہمیں ان کی ضرورت نہیں۔

ہم نہیں چاہتے کہ ہماری ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کو اس صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑے۔ امریکہ میں اس معاملے کے بعد احتجاج بھی ہوا۔ پارلیمنٹ میں اس حوالے سے گفتگو ہوئی اور اس وقت کے صدر امریکہ بل کلنٹن نے اس واقعے پر معافی مانگی اور اعلان کیا کہ ذمہ داروں کے خلاف ضرور کاروائی کی جائے گی۔

اور یہ تو ہم سب جانتے ہیں کہ جب سیاستدان کہتے ہیں کہ ضروری کاروائی کا جائے گی تو کیا ہوتا ہے؟

تو بات یہ ہے کہ اسلام ناگزیر صورتِ حال میں ہی خواتین کو میدانِ جنگ میں آنے کی اجازت دیتا ہے۔ لیکن وہاں بھی انہیں اسلامی اُصولوں کی پاسداری کرنی ہو گی۔ حجاب اور دیگر اسلامی اُصولوں اور اخلاقی معیار کی پابندی اور پاسداری کرنا ہو گی۔
 

شمشاد

لائبریرین
اپنی بات سمیٹنے سے قبل میں ایک مثال پیش کرنا چاہوں گا۔ میں نے بالک آغاز میں یہ بات واضح کی تھی کہ اسلام مرد اور عورت کی برابری پر یقین رکھتا ہے لیکن یکسانیت پر نہیں۔ برابری، یکسانیت کو نہیں کہتے۔

فرض کیجیے ایک کلاس کے دو طالب علم پہلی پوزیشن پر آ جاتے ہیں۔ طالب علم "a" کے نمبر 80 فیصد ہیں اور طالب علم " b" کے نمبر بھی اسی فیصد ہیں۔ کل طلباء کی تعداد سینکڑوں میں ہے۔ لیکن یہ دو طالب علم "اے" اور "بی" اول آئے ہیں۔

اب آپ پرچہ سوالات کا جائزہ لیتے ہیں۔ پرچے میں کل دس سوالات ہیں۔ ہر سوال کے دس نمبر ہیں۔

پہلے سوال میں طالب علم aنے دس میں سات اور طالب علم bنے دس میں سے نو نمبر لیے ہیں۔ چنانچہ دوسرے جواب میں طالب علم b، طالب علم a سے بہتر اور برتر ہے۔

تیسرے سوال میں دونوں طالب علموں نے دس میں سے آٹھ نمبر لیے ہیں لہذا یہاں دونوں طالبِ علم برابر ہیں۔

جب تمام سوالوں کے نمبر جمع کیے جائیں تو دونوں کے نمبر 80 ہیں لہذا مختصراً یہ کہا جا سکتا ہے کہ کسی سوال میں a اور اور bدونوں کے نمبر برابر ہیں۔ کسی میں aکے زیادہ ہیں اور کسی میں bکے زیادہ ہیں لیکن مجموعی طور پر دونوں طالب علموں کے نمبر برابر ہیں۔

اسی طرح کا معاملہ مرد اور عورت کا ہے۔ بعض معاملات میں مرد برتر ہے اور بعض میں عورت۔ لیکن مجموعی طور پر برابری ہے۔ مثال کے طور پر اللہ تعالٰی نے بالعموم مرد کو زیادہ قوتِ جسمانی دی ہے۔ فرض کیجیے آپ کے گھر میں آ جاتا ہے۔ کیا آپ یہ پسند کریں گے کہ آپ کی ماں، بہن، بیوی یا بیٹی کو اس چور سے مقابلہ کرنا پڑے۔ آپ مرد اور عورت کی بربری پر کتنا ہی یقین کیوں نہ رکھتے ہوں پھر بھی چور کا مقابلہ آپ ہی کریں گے۔ گھر کی خواتین آپ کی مدد تو کر سکتی ہیں لیکن آپ کو ہی آگے بڑھ کر اس چور کے مقابلے میں آنا ہو گا۔ کیونکہ جسمانی قوت آپ کو زیادہ دی گئی ہے۔ لہذا قدرتی طور پر یہ آپ کا فرض بنتا ہے۔

اس مثال میں ہم نے دیکھا کہ جسمانی قوت کے لحاظ سے مرد کو عورت پر ایک درجہ برتری حاصل ہے۔

اب ہم ایک اور مثال پیش کرتے ہیں۔ اسلام نے والدین کی عزت اور احترام پر بہت زور دیا ہے۔ لیکن والد اور والدہ کو اس معاملے میں برابر قرار نہیں دیا گیا بلکہ ماں کے احترام پر تین گنا زیادہ زور دیا گیا ہے۔

گویا اس معاملے میں عورت کو مرد پر ایک درجہ برتری حاصل ہے اس طرح یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ عورت اور مرد برابر ضرور ہیں لیکن ہر لحاظ سے یکساں نہیں ہیں۔

ہم نے اپنی گفتگو کو انتہائی مختصر رکھنے کی کوشش کی ہے۔ وقت محدود ہونے کی وجہ سے تفاصیل پیش نہیں کی جا سکیں اور اجمالی طور پر صورتِ حال آپ کے سامنے واضح کی گئی اور اسلام میں کواتین کے حقوق کے حوالے سے نمایاں نکات کی وضاحت آپ کے سامنے پیش کی گئی۔

اب جو کچھ مسلمان معاشروں میں عملی طور پر ہوتا ہے وہ ایک مختلف معاملہ ہے۔ بہت سے مسلمان معاشروں میں خواتین کو ان کے حقوق نہیں ملتے رہے۔ کیونکہ یہ معاشرے قرآن و سنت کی تعلیمات سے دور ہٹ چکے ہیں۔

اس صورتحال کی ذمہ داری مغربی معاشرے پر بھی آتی ہے کیونکہ مغرب میں عورت کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے رد عمل میں بعض معاشرے عورت کے معاملے میں ضرورت سے زیادہ متعصت اور سخت ہو گئے۔ کچھ معاشروں میں مغرب کی پیروی بھی کی گئی اور مغربی تہذیب و ثقافت کو اپنایا گیا۔ ظاہر ہے کہ یہ دوسری انتہا ہے۔

آخر میں مغرب کو یہ بتانا چاہوں گا کہ آپ اگر قرآن و سنت میں عورت کو عطا کیے گئے حقوق کا تجزیہ کریں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ اسلام عورت کو جو حقوق دیتا ہے وہ فرسودہ نہیں بلکہ جدید تر تقاضوں سے ہم آہنگ ہیں۔

میں آخر میں اپنے تمام دوستوں اور مدد گاروں کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا۔ میں آج جو کچھ ہوں اگر اس کا سبب کسی ایک انسان کو قرار دیا جائے تو وہ ہوں گی میری والدہ مسز روشن نائیک کیونکہ یہ ان کی محبت، توجہ اور رہنمائی ہی تھی جس کی وجہ سے میں آج اس مقام پر ہوں۔

یہ ناانصافی ہو گی اگر میں اپنے والد ڈاکٹر عبد الکریم نئک کا ذکر نہ کروں اور اسی میں دیگر اقارب خصوصاً میرے بھائی ڈاکٹر محمد نایک۔

میں اپنی اہلیہ کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہوں گا جو شادی کے بعد سے مسلسل میری ہمت افزائی کر رہی ہیں۔

شکریہ
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*​
 

شمشاد

لائبریرین
سوال :اگر مرد کو جنت میں حور ملے گی تو عورت کو جنت میں کیا ملے گا؟

جواب : میری بہن نے پوچھا ہے کہ جب مرد جنت میں داخل ہو گا تو اسے "حور" یا ایک خوبصورت عورت ملے گی۔ جب ایک عورت جنت میں داخل ہو گی تو اسے کیا ملے گا؟

قرآن میں حور کا لفظ چار مختلف مقامات پر استعمال ہوا ہے جو کہ درج ذیل ہیں :

سورۃ دخان آیت 54
سورۃ طور آیت 25
سورۃ رحمان آیت 50 اور 73
سورۃ واقعہ آیت 33

بیشتر تراجم و تفاسیر خصوصاً اُردو تراجم میں لفظ حور کے معنی خوبصورت عورت ہی بتائے گئے ہیں۔ اگر اس لفظ کے معنی واقعی صرف ایک خوبصورت عورت ہی ہیں تو پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ عورت کو جنت میں کیا عطا ہو گا؟

لیکن دراصل معاملہ یہ ہے کہ اس لفظ کے معنی صرف خوبصورت عورت نہیں ہیں۔ یہ لفظ حور اصل میں جمع ہے جس کا واحد اَحُورَ بھی ہے اور حَوَرُ بھی۔ ان میں سے ایک لفظ مذکر ہے اور ایک مؤنث جب کہ جمع دونوں کی حور ہی ہے۔

لفظ کا لغوی مطلب ہے "بڑی خوبصورت آنکھیں"۔ اسی مقصد کے لیے قرآن میں مختلف مقامات پر ازواج کا لفظ بھی استعمال ہوا ہے۔ مثال کے طور پر :

سورۃ بقرہ، آیت 25
سورۃ نساء، آیت 57

ازواج کا لفظ زوج کی جمع ہے اور زوج کی مطلب ہے ساتھی، شریک زندگی، مرد کے لیے عورت زوج ہے اور عورت کے لیے مرد زوج ہے۔ قرآن مجید کا انگریزی ترجمہ کرنے والوں نے بالعموم اس لفظ کا ترجمہ درست کیا ہے۔ مثال کے طور پر محمد اسد حور کا ترجمہ Spouse کرتے ہیں۔ عبد اللہ یوسف علی نے لفظ حور کا ترجمہ Companion کیا ہے۔ یہ دونوں لفظ ایسے ہیں جن کی کوئی جنس مخصوص نہیں ہے ۔ یہ لفظ مذکر کے لیے بھی استعمال ہو سکتا ہے اور مؤنث کے لیے بھی۔

اس کا مطب یہ ہوا کہ مرد کو جنت میں ایک بڑی بڑی آنکھوں والی خوبصورت شریک زندگی ملے گی اور عورت کو بھی بڑی بڑی خوبصورت آنکھوں والا ساتھی ملے گا۔
 

شمشاد

لائبریرین
سوال : میں یہ پوچھنا چاہوں گا کہ عورت کی گواہی مرد سے آدھی کیوں ہے یعنی دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کے برابر کیوں قرار دی جاتی ہے؟

جواب : میرے بھائی نے ایک بہت اہم سوال پوچھا ہے کہ دو خواتین کی گواہی اسلام میں ایک مرد کی گواہی کے برابر کیوں ہے؟

پہلی بات تو یہ ہے کہ ہر جگہ اور ہر معاملے میں دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کے برابر نہیں قرار دی جاتی۔ ایسا صرف چند مخصوص صورتوں میں ہی ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں کم از کم پانچ مقامات ایسے ہیں جہاں گواہی کا ذکر موجود ہے بغیر کسی قسم کی جنسی تفریق کے۔

بعض مقامات ایسے ہیں جہاں دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کے برابر قرار دی گئی ہے۔ سورۃ بقرہ کی آیت میں ارشاد ہوتا ہے :

وَاسْتَشْھِدُواْ شَھِيدَيْنِ من رِّجَالِكُمْ فَاِن لَّمْ يَكُونَا رَجُلَيْنِ فَرَجُلٌ وَامْرَاَتَانِ مِمَّن تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّھَدَاءِ اَن تَضِلَّ احْدَاھُمَا فَتُذَكِّرَ ااِحْدَاھُمَا الاُخْرَى ط ۔ سورۃ 2، آیہ 282)

"اور اپنے میں سے دو مردوں کو (ایسے معاملے میں) گواہ کر لیا کرو اور اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں جن کو تم گواہ پسند کرو (کافی ہیں) کہ اگر ان میں سے ایک بھول جائے گی تو دوسری اسے یاد دلا دے گی۔"

سورۃ بقرہ کی اس آیت میں ذکر صرف مالی معاملات کا ہو رہا ہے۔ صرف مالی اور معاشی نوعیت کے معاملے میں ایک مرد کی گواہی دو عورتوں کے برابر دی جا رہی ہے۔ بلکہ کہا یہ جا رہا ہے کہ مالی معاملات میں دو مردوں کی گواہی بہتر ہے اور اگر دو مرد گواہی دینے والے نہ ہوں تو پھر ایک مرد اور دو عورتیں گواہ بنیں۔

اس معاملے کو سمجھنے کے لیے میں ایک مثال پیش کرتا ہوں۔ فرض کریں آپ کوئی سرجری کروانا چاہتے ہیں یا کوئی آپریشن کروانا چاہتے ہیں۔ اب ظاہر ہے آپ کو خواہش ہو گی کہ سرجری سے قبل کم از کم دو ماہر ڈاکٹروں کے ساتھ مشورہ کریں۔ اب فرض کیجیے آپ کو صرف ایک ماہر سرجن دستیاب ہے۔ اس صورت میں آپ ایک سرجن کی رائے کے ساتھ دو عام ایم بی بی ایس ڈاکٹروں کی رائے بھی جاننا چاہیں گے۔ اس کا سبب یہی ہو گا کہ آپریشن کے بارے میں ایک عام ایم بی بی ایس ڈاکٹر کے مقابلے میں ایک سرجن کا علم زیادہ ہوتا ہے۔

ایسا ہی معاملہ گواہی کا ہے۔ چونکہ اسلام نے فکر معاش کا ذمہ دار مرد کو بنایا ہے لہذا ظاہر ہے کہ ایک اسلامی معاشرے میں معاشی معاملات کے بارے میں مرد کو علم زیادہ ہو گا اور یہی وجہ ہے کہ معاشی معاملات میں دو مردوں کی گواہی کو ترجیح دی گئی ہے اور اگر آپ سورۃ مائدہ کی تلاوت کریں تو وہاں یہ ارشاد باری تعالٰی موجود ہے :

يَا اَيُّھَا الَّذِينَ آمَنُواْ شَھَادَۃُ بَيْنِكُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ حِينَ الْوَصِيَّۃِ اثْنَانِ ذَوَا عَدْلٍ مِّنكُمْ اَوْ آخَرَانِ مِنْ غَيْرِكُمْ اِنْ اَنتُمْ ضَرَبْتُمْ فِي الْاَرْضِ فَاَصَابَتْكُم مُّصِيبَۃُ الْمَوْتِ ط (سورۃ 5، آیہ 106)

"مومنو! جب تم میں سے کسی کی موت آ موجود ہو تو شہادت (کا نصاب) یہ ہے کہ وصیت کے وقت تم مسلمانوں میں سے دو مرد عادل (یعنی صاحب اعتبار) گواہ ہوں یا اگر (مسلمان گواہ نہ ملیں اور) تم سفر کر رہے ہو اور (اس وقت) تم پر موت کی مصیبت واقع ہو تو کسی دوسرے مذہب کے دو (شخصوں کو) گواہ (کر لو)۔"

یہاں بھی چونکہ معاملہ معاشی نوعیت کا ہے لہذا مرد کی گواہی کو ترجیح دی گئی ہے۔ بعض علمائے قانون کی رائے یہ ہے کہ "قتل " کے معاملے میں بھی جرم کی مخصوص نوعیت کے پیش نظر اور عورت کی فطرت کے تقاضوں کو دیکھتے ہوئے یہی اُصول لاگو ہونا چاہیے۔ یعنی دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کی گواہی کے مساوی قرار دی جانی چاہیے۔

صرف دو معاملات ایسے ہیں جہاں دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کے برابر قرار دی گئی ہے یعنی :

(1) مالی معاملات
(2) قتل کا معاملہ

کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہر جگہ دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کے برابر ہو گی لیکن اگر قرآنی ہدایات کی مجموعی طور پر پیش نظر رکھا جائے تو یہ بات درست ثابت نہیں ہوتی۔

آیئے دیکھتے ہیں قرآن ہمیں اس بارے میں کیا احکامات دیتا ہے :

سورۃ نور میں ارشاد باری تعالٰی ہے :

وَالَّذِينَ يَرْمُونَ اَزْوَاجَھُمْ وَلَمْ يَكُن لَّھُمْ شُھَدَاءُ اِلَّا اَنفُسُھُمْ فَشَھَادَۃُ اَحَدِھِمْ اَرْبَعُ شَھَادَاتٍ بِاللَِّ اِنَّاُ لَمِنَ الصَّادِقِينَ۔ وَالْخَامِسَۃُ اَنَّ لَعْنَتَ اللَّہِ عَلَيْہِ اِن كَانَ مِنَ الْكَاذِبِينَ۔ وَيَدْرَؤُاْ عَنْھَا الْعَذَابَ اَنْ تَشْھَدَ اَرْبَعَ شَھَادَاتٍ بِاللَّہِ اِنَّاُ لَمِنَ الْكَاذِبِينَ۔ وَالْخَامِسَۃَ اَنَّ غَضَبَ اللَّہِ عَلَيْھَا اِن كَانَ مِنَ الصَّادِقِينَ۔ (سورۃ 24، آیات 6 – 9)

"اور جو لوگ اپنی بیویوں پر (بدکاری کی) تہمت لگائیں اور ان کے پاس سوائے اپنی ذات کے کوئی گواہ نہ ہوں تو ایسے کسی بھی ایک شخص کی گواہی یہ ہے کہ (وہ خود) چار مرتبہ اللہ کی قَسم کھا کر گواہی دے کہ وہ (الزام لگانے میں) سچا ہے۔ اور پانچویں مرتبہ یہ (کہے) کہ اس پر اللہ کی لعنت ہو اگر وہ جھوٹا ہو۔ اور (اسی طرح) یہ بات اس (عورت) سے (بھی) سزا کو ٹال سکتی ہے کہ وہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر (خود) گواہی دے کہ وہ (مرد اس تہمت کے لگانے میں) جھوٹا ہے۔ اور پانچویں مرتبہ یہ (کہے) کہ اس پر (یعنی مجھ پر) اللہ کا غضب ہو اگر یہ (مرد اس الزام لگانے میں) سچا ہو۔"

مندرجہ بالا آیت سے یہ بات واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ بیوی شوہر پر الزام لگائے یا شوہر بیوی پر۔ دونوں کی ذاتی گواہی اس معاملے میں مساوی ہے۔

اسی طرح رویت ہلال کے معاملے میں بھی عورت اور مرد کی گواہی میں کوئی فرق نہیں کیا جاتا۔ بعض فقہا کا کہنا ہے کہ رمضان کے چاند کی رویت کے لیے ایک اور شوال کے چاند کے لیے دو گواہ درکار ہو گے لیکن گواہ کے مرد یا عورت ہونے سے وہاں بھی فرق کوئی نہیں پڑتا۔

کچھ معاملات میں صرف عورت ہی گواہی دے سکتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر معاملہ غسل میت کا ہو، کیونکہ جب تک کوئی عورت دستیاب ہو عورت کو غسل میت عورت ہی دے گی۔ یعنی اس معاملے میں گواہی کی ضرورت پڑے تو عورت کو ترجیح دی جاتی ہے۔

میں امید رکھتا ہوں کہ معاملہ آپ کے ذہنوں میں واضح ہو چکا ہو گا۔
 
Top