اسلام ملکی دستورکا ماخذ نہیں: تیونس کی پارلیمنٹ کا فیصلہ

تیونس کی پارلیمنٹ میں اسلام پسندوں نے بظاہر ایک سمجھوتہ کرتے ہوئے اُس بِل کو مسترد کر دیا، جس کے تحت مذہب اسلام کو ملکی دستور کا ماخذ قرار دیا جانا تھا۔ یہ پیش رفت ملکی دستور کی منظوری کے عمل کے دوران سامنے آئی۔
سن 2011 میں عرب اسپرنگ کے تحت انقلابی عمل کا آغاز کرنے والے ملک تیونس میں پارلیمنٹ میں نئے ملکی دستور کی شق وار منظوری کے دوران ملکی دستور کے ماخذ کے طور پر اسلام کو دستور میں شامل کرنے کی تجویز کو مسترد کر دیا گیا۔ مبصرین نے پارلیمنٹ میں اکثریت رکھنے والی اسلام پسند جماعت النہضہ کی جانب سے اِسے ایک بڑا سمجھوتہ قرار دیا ہے۔ تاہم اِس دوران ریاست کے سرکاری دین کے طور پر اسلام کو تسلیم کیا گیا ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ عرب اسپرنگ کے تحت انقلاب لانے والے ملکوں میں صرف تیونس ہی پرتشدد حالات و واقعات سے بچا ہوا ہے۔ ملکی سیاستدانوں نے پیدا شدہ سیاسی تعطل کو طویل مذاکراتی عمل سے حل کر لیا ہے۔
عرب ممالک میں تیونس ایک انتہائی لبرل ملک تصور کیا جاتا ہے
پارلیمنٹ میں نئے دستور کی شق وار منظوری کا عمل ہفتے کے روز شروع ہوا ہے۔ نئے دستور کی کُل 146 شقیں یا آرٹیکلز ہیں اور ہفتے کے روز اِن میں سے 12 کی منظوری دی گئی ہے۔ دستور کی منظوری کے لیے 14 جنوری حتمی تاریخ ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق 14 جنوری تک دستور کی منظوری خاصی مشکل دکھائی دیتی ہے کیونکہ شق وار منظوری کا عمل بحث و تمحیص کی وجہ سے سست روی کا شکار ہے۔ اِس باعث امکان ظاہر کیا گیا ہے کہ دستور کی منظوری کے لیے حتمی تاریخ کو آگے بڑھایا جانا یقینی ہے۔ دستور کی منظوری کے لیے 14 جنوری کی تاریخ اس لیے مقرر کی گئی ہے کہ اُسی دن طویل عرصہ تیونس پر آمرانہ حکومت کرنے والے زین العابدین بن علی اپنے خاندان کے ہمراہ سعودی عرب فرار ہونے میں کامیاب ہوا تھا۔
ہفتے کے روز پارلیمنٹ نے پہلی شقیں فوراً منظور کر لیں اور اِن کے مطابق تیونس ایک جمہوریہ ہو گا اور اِس میں قانون کی حکمرانی ہونے کے علاوہ اسلام سرکاری مذہب ہو گا۔ اِس کے بعد اراکین پارلیمنٹ نے اگلی دو شقوں کو مسترد کر دیا اوراِس میں دستور کا ماخذ دینِ اسلام قرار دینے کے علاوہ قران و سنت کو ملکی دستور کی اساس بھی قرار دینے کو تجویز کیا گیا تھا۔
ان شقوں پر گرماگر م بحث کے دوران سیشن کی تعطلی کا امکان بھی پیدا ہو گیا تھا۔ اسلام پسند النہضہ کی حامی ایک چھوٹی سیاسی جماعت کے رکن محمد حمادی نے اِن شقوں کی زور شور سےحمایت کی تو کئی سیکولر اراکین نے مخالفت شروع کر دی۔ سیکولر سیاسی گروپ ڈیموکریٹک الائنس کے محمود البارودی کے مطابق ان شقوں کو دستور میں شامل کرنے سے جدیدیت کی نفی ہوگی۔
ہفتے ہی کے روز نئے دستور کی شق نمبر چھ کو منظور کیا گیا۔ کئی اراکین کے نزدیک یہ انتہائی اہم دستوری شق ہے کیونکہ اس کے تحت ریاست کو مذہب کا نگہبان مقرر کیا گیا ہے۔ اسی شق کے تحت مقدسات کا تحفظ بھی ریاست کی ذمہ داری ہو گی اور یہی شق ضمیر کی آزادی کی محافظ بنائی گئی ہے۔
سن 2011 میں عرب اسپرنگ کا آغاز تیونس سے ہوا تھا
دستور کی شق چھ ہی کے تحت مساجد اور دوسری عبادت گاہوں کو سیاسی سرگرمیوں کے لیے ممنوع قرار دے دیا گیا ہے۔ تیونس کے نئے دستور میں ضمیر کی آزادی کا وعدہ بھی اسی شق میں کیا گیا ہے۔ اِس مناسبت سے وفا پارٹی سے تعلق رکھنے والے رکنِ پارلیمان آزاد بیدی کا کہنا تھا کہ یہ آزادی خاصی مبہم ہے کیونکہ اِس کا سہارا لے کر شیطان کے چیلے اور بت پرست آزادانہ اپنی عبادات جاری رکھ سکیں گے۔
تیونس کی لیگ آف ہیومن رائٹس نے بھی نئے دستور کی منظور کی جانے والی شق چھ کو غیر واضح اور مبہم قرار دیا ہے۔ ادارے کے مطابق ریاست کو مذہب اور دیگر مقدسات کا محافظ قرار دے کر اِس کی تشریح ایک نا ختم ہونے والے مسائل کا باعث بن سکتی ہے۔
تیونس میں انقلاب کے بعد اکتوبر سن 2011 میں پارلیمانی انتخابات کروائے گئے تھے۔ اُن انتخابات میں النہضہ پارٹی کو کامیابی حاصل ہوئی تھی۔ گزشتہ برس ایک دو سیاسی افراد کی ہلاکتوں سے سیاسی چپقلش شروع ہو گئی تھی اور اِس کو طویل مذاکرات کے بعد نئے انتخابات، دستور کی منظوری اور ایک غیر جانبدار وزیراعظم کے نام پر اتفاق سے ختم کیا گیا تھا۔ عبوری عرصے کے لیے محمد جمعہ کے نام پر اتفاق کیا گیا تھا۔
http://www.dw.de/اسلام-ملکی-دستورکا-ماخذ-نہیں-تیونس-کی-پارلیمنٹ-کا-فیصلہ/a-17341758
 
اسلامی قانون کے حامیوں کو اکثریت کے باوجود سیکولروں سے ملکی استحکام کی خاطر سمجھوتہ کرنا پڑگیا۔ افسوس!
اب اگر اسلام پسند حکومت میں آکر عوامی فلاح کے کام کر کے بھرپور عوامی حمایت حاصل کر لیں تو انشآاللہ سیکولروں کو پیچھے ہٹنا پڑے گا
 

دوست

محفلین
تونس ایک عرصے تک لبرل حکومت کے سائے میں رہا ہے۔ اسے شمالی افریقہ کا یورپ یا ایسے کسی لقب سے پکارا جاتا تھا۔ کئی دہائیوں کے اثرات اتنی جلدی نہیں جائیں گے۔ یا پھر کشت و خون کروایا جائے۔ اگر پیار محبت سے کرنا ہے تو ترکی والا ماڈل چلنا چاہیئے۔ کہ کمال اتا ترک اور آج کے ترکی میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اور انشاءاللہ آئندہ برسوں میں اس میں مزید بہتری آئے گی۔ زبردستی کرتے تو اقتدار فوج کے ہاتھ میں دینے والی بات تھی۔ مصر میں جو کچھ ہوا سب کے سامنے ہے، کس کی غلطی تھی، کس کی نہیں تھی لیکن اتنا کنفرم ہے کہ مصری معاشرہ ایک انتہائی منقسم معاشرہ تھا۔ اسلام پسند حکومت تو لے گئے لیکن دوسروں نے فوج کے ساتھ مل کر سارے انقلابی عمل کا بیڑہ غر ق کر دیا۔ اب مصر پر وہیں پر ہے جہاں 2010 میں حسنی مبارک کے زیرِ اقتدار تھا۔ بس چہرے بدل گئے، قیادت پھر عساکر کے پاس ہے۔ سہج پکے سو میٹھا ہو کی پالیسی اپنا لی تو اسلام پسند کامیاب ہو گئے، ورنہ اسلام کو بھلا کیا فرق پڑا ہے کہ وہ حکومت میں ہے یا نہیں؟ 1400 برس ہو گئے اللہ کے نام لیوا کل بھی تھے آج بھی ہیں اور قیامت تک رہیں گے، اور ان میں اضافہ بھی ہوتا رہے گا۔ حکومتیں تو آنی جانی ہیں، اسلام ہمیشہ رہنے والا ہے۔ جو اسلام کو دنیاوی غلبے کی نظر سے دیکھتے ہیں انہیں اپنی نظر ٹیسٹ کروانے کی ضرورت ہے۔
 
دین اسلام کی کچھ تعلیمات ذاتی نوعیت کی ہیں یعنی ذاتی اور کچھ اجتماعی۔ اجتماعی تعلیمات کے فوائد کےلئے ملکی قوانین جیسے معیشت ،سزا ، حدود وغیرہ کو بھی اسلامی تعلیمات کے مطابق ڈھالنا ضروری ہے۔
اور ایسے قوانین بنانے کیلئے اسلام پسندوں کو حکومت میں تو آنا پڑے گا۔
 

ظفری

لائبریرین
اسلامی قانون کے حامیوں کو اکثریت کے باوجود سیکولروں سے ملکی استحکام کی خاطر سمجھوتہ کرنا پڑگیا۔ افسوس!
اب اگر اسلام پسند حکومت میں آکر عوامی فلاح کے کام کر کے بھرپور عوامی حمایت حاصل کر لیں تو انشآاللہ سیکولروں کو پیچھے ہٹنا پڑے گا
آپ کی باخبری اور حالاتِ حاضرہ میں غیر معمولی دلچسپی پر کسی اور موضوع پر کسی نے اپنی رائے دی ہے ۔ مگر میں آ پ کی حالاتِ حاضرہ پر گہری نظر اور ان سے متعلق سرخیوں کی مسلسل اشاعت سے بہت متاثر ہوں ۔ مگر میں جاننا چاہتا ہوں کہ " اسلامی قانون کے حامیوں کی اکثریت " کا ماخذ کہاں ہے ۔ ؟
 
آخری تدوین:
آپ کی باخبری اور حالاتِ حاضرہ میں غیر معمولی دلچسپی پر کسی اور موضوع پر کسی نے اپنی رائے دی ہے ۔ میں بھی آ پ کی حالاتِ حاضرہ پر گہری نظر اور ان سے متعلق سرخیوں کی مسلسل اشاعت سے بہت متاثر ہوں ۔ مگر میں جاننا چاہتا ہوں کہ " اسلامی قانون کے حامیوں کی اکثریت " کا ماخذ کہاں ہے ۔ ؟
اگر آپ تیونس کی بات کر رہے ہیں تو اس حوالے سے میرے پاس دھاگے کی پہلی پوسٹ والی خبر ہی ہے۔
 

ظفری

لائبریرین
اگر آپ تیونس کی بات کر رہے ہیں تو اس حوالے سے میرے پاس دھاگے کی پہلی پوسٹ والی خبر ہی ہے۔
میں نے خبر کے بارے میں نہیں آپ کے تبصرے کے بارے میں استفار کیا ہے کیونکہ میں نے خبر نہیں آپ کے تبصرے کو کوٹ کیا ہے ۔
جس خبر کا لنک آپ نے دیا ہے وہ خبر نہیں بلکہ کسی مخصوص ذہن کا لکھا ہوا ایک آرٹیکل ہے ۔
 
تونس ایک عرصے تک لبرل حکومت کے سائے میں رہا ہے۔ اسے شمالی افریقہ کا یورپ یا ایسے کسی لقب سے پکارا جاتا تھا۔ کئی دہائیوں کے اثرات اتنی جلدی نہیں جائیں گے۔ یا پھر کشت و خون کروایا جائے۔ اگر پیار محبت سے کرنا ہے تو ترکی والا ماڈل چلنا چاہیئے۔ کہ کمال اتا ترک اور آج کے ترکی میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اور انشاءاللہ آئندہ برسوں میں اس میں مزید بہتری آئے گی۔ زبردستی کرتے تو اقتدار فوج کے ہاتھ میں دینے والی بات تھی۔ مصر میں جو کچھ ہوا سب کے سامنے ہے، کس کی غلطی تھی، کس کی نہیں تھی لیکن اتنا کنفرم ہے کہ مصری معاشرہ ایک انتہائی منقسم معاشرہ تھا۔ اسلام پسند حکومت تو لے گئے لیکن دوسروں نے فوج کے ساتھ مل کر سارے انقلابی عمل کا بیڑہ غر ق کر دیا۔ اب مصر پر وہیں پر ہے جہاں 2010 میں حسنی مبارک کے زیرِ اقتدار تھا۔ بس چہرے بدل گئے، قیادت پھر عساکر کے پاس ہے۔ سہج پکے سو میٹھا ہو کی پالیسی اپنا لی تو اسلام پسند کامیاب ہو گئے، ورنہ اسلام کو بھلا کیا فرق پڑا ہے کہ وہ حکومت میں ہے یا نہیں؟ 1400 برس ہو گئے اللہ کے نام لیوا کل بھی تھے آج بھی ہیں اور قیامت تک رہیں گے، اور ان میں اضافہ بھی ہوتا رہے گا۔ حکومتیں تو آنی جانی ہیں، اسلام ہمیشہ رہنے والا ہے۔ جو اسلام کو دنیاوی غلبے کی نظر سے دیکھتے ہیں انہیں اپنی نظر ٹیسٹ کروانے کی ضرورت ہے۔

متفق
مصر نہ صرف منقسم ہے بلکہ اسلام پسندوں کی وہ حالت ہے جو پاکستان میں ہے۔ اس صورت میں نفاذ شریعت ایک نعرہ ہی رہ جاتا ہے۔
اسلام زندگیوں میں نافذ کرلوشریعت بالاخر رائج ہوجائے گی۔ اس کا معکوس نہیں ہوسکتا
 
میں نے خبر کے بارے میں نہیں آپ کے تبصرے کے بارے میں استفار کیا ہے کیونکہ میں نے خبر نہیں آپ کے تبصرے کو کوٹ کیا ہے ۔
جس خبر کا لنک آپ نے دیا ہے وہ خبر نہیں بلکہ کسی مخصوص ذہن کا لکھا ہوا ایک آرٹیکل ہے ۔
یہ جرمنی کا بہت مشہور میڈیا ہاؤس ہے اس کی ویب سائٹ سےلیا گیا ہے ۔ البتہ واقعی یہ خبر سے زیادہ تبصرہ لگ رہی ہے :) بہرحال جو کچھ اس میں ہے ڈی دبلیو ہی اسکی ذمہ دار ہے میں اپنے تبصروں کا ذمہ دار ہوں۔
 
Top