اسلام ایک جامع مذھب

mujeeb mansoor

محفلین
انسان کے اندر اخلاقی حِس ایک فطری حِس ہے جو بعض صفات کو پسند اور بعض دوسری صفات کو ناپسند کرتی ہے۔ یہ حس انفرادی طور پر اشخاص میں چاہے کم وبیش ہومگر مجموعی طور پر انسانیت کے شعور نے اخلاق کے بعض اوصاف پر خوبی کا اور بعض پر برائی کا ہمیشہ یکساں حکم لگایا ہے، سچائی، انصاف، پاس عہد اور امانت کو ہمیشہ سے انسانی اخلاقیات میں تعریف کا مستحق سمجھا گیا ہے۔اور کبھی کوئی ایسا دور نہیں گزرا جب جھوٹ، ظلم، بدعہدی اور خیانت کو پسند کیا گیا ہو۔ ہمدردی، رحم ، فیاضی اور فراخ دلی کی ہمیشہ قدر کی گئی ہے، اور خود غرضی، سنگ دلی، بخل اور تنگ نظری کو کبھی عزت کا مقام حاصل نہیں ہوا۔ صبر و تحمل، اخلاقی بردباری، اولوالعزمی و شجاعت ہمیشہ سے وہ اوصاف رہےہیں جوداد کے مستحق سمجھے گئے اور بے صبری، چھچھورپن، تلون مزاجی، پست حوصلگی اور بزدلی پرکبھی تحسین و آفرین کے پھول نہیں برسائے گئے۔ ضبطِ نفس، خودداری، شائستگی اور ملنساری کا شمار ہمیشہ سے خوبیوں ہی میں ہوتا رہا ہے اور کبھی ایسا نہیں ہوا کہ بندگیِ نفس، کم ظرفی، بدتمیزی اور کج خلقی نے اخلاقی محاسن کی فہرست میں جگہ پائی ہو۔ فرض شناسی، وفا شعاری، مستعدی اور احساسِ ذمہ داری کی ہمیشہ عزت کی گئی ہے اور فرض ناشناس، بے وفا، کام چور اور غیر ذمہ دار لوگوں کو کبھی اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا گیا۔ اسی طرح اجتماعی زندگی کے اچھے اور برے اوصاف کے معاملہ میں بھی انسانیت کا معاملہ تقریباً متفق علیہ ہی رہا ہے۔ قدر کی مستحق ہمیشہ وہی سوسائٹی رہی ہے جس میں نظم وانضباط ہو، تعاون اور امداد باہمی ہو، آپس کی محبت اور خیرخواہی ہو، اجتماعی انصاف اورمعاشرتی مساوات ہو۔ تفرقہ،انتشار،بدنظمی،بے ضابطگی،نااتفاقی،آپس کی بدخواہی، ظلم اور ناہمواری کو اجتماعی زندگی کے محاسن میں کبھی شمار نہیں کیا گیا۔ ایسا ہی معاملہ کردار کی نیکی و بدی کا بھی ہے۔ چوری، زنا ، قتل ، ڈاکہ، جعل سازی اور رشوت خوری کبھی اچھے افعال نہیں سمجھے گئے۔ بدزبانی، مردم آزاری،غیبت، چغل خوری،بہتان تراشی اور فساد انگیزی کو کبھی نیکی نہیں سمجھا گیا۔ مکار، متکبر، ریاکار، منافق، ہٹ دھرم اور حریص لوگ کبھی بھلے آدمیوں میں شمار نہیں کیے گئے۔ اس کے برعکس والدین کی خدمت، رشتہ داروں کی مدد، ہمسایوں سے حسنِ سلوک، دوستوں سے رفاقت، یتیموں اور بے کسوں کی خبر گیری، مریضوں کی تیمارداری اور مصیبت زدہ لوگوں کی اعانت ہمیشہ نیکی سمجھی گئی ہے۔ پاک دامن، خوش گفتار، نرم مزاج اور خیراندیش لوگ ہمیشہ عزت کی نگاہ سے دیکھے گئے ہیں۔ انسانیت اپنا اچھا عنصر انھی لوگوں کو سمجھتی رہی ہے جو راست باز اور کھرے ہوں۔ جن پر ہر معاملہ میں اعتبار کیا جاسکے۔ جن کا ظاہر و باطن یکساں اور قول وفعل میں مطابقت ہو، جو اپنے حق پر قانع اور دوسروں کے حقوق ادا کرنے میں فراخ دل ہوں، جو امن سے رہیں اوردوسروں کو امن دیں، جن کی ذات سے ہر ایک کو خیر کی امید ہو اور کسی کو برائی کا اندیشہ نہ ہو۔
اس سے معلوم ہوا کہ انسانی اخلاقیات دراصل وہ عالمگیر حقیقتیں ہیں جن کو سب انسان جانتے چلے آرہے ہیں ۔ نیکی اور بدی کوئی چھپی ہوئی چیز نہیں ہیں کہ انھیں کہیں سے ڈھونڈ کر نکالنے کی ضرورت ہو۔ وہ تو انسان کی جانی پہچانی چیزیں ہیں، جن کا شعور آدمی کی فطرت میں ودیعت کیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآّن مجید اپنی زبان میں نیکی کو معروف اور بدی کو منکر کہتا ہے۔ یعنی نیکی وہ چیز ہے جسے سب انسان بھلا جانتے ہیں۔ اور منکر وہ ہے جسے کوئی خوبی اور بھلائی کی حیثیت سے نہیں جانتا۔ اسی حقیقت کو قرآن مجید دوسرے الفاظ میں یوں بیان کرتا ہے۔"فَاَلھَمھا فُجُورَھَا وتقوٰھَا"(الشمس)
"یعنی نفسِ انسان کو خدا نے برائی اور بھلائی کی واقفیت الہامی طور پر عطا کر رکھی ہے۔
 
Top