اسلام اور تصوف

باذوق

محفلین
سید حسن نظامی نے کہا:
السلام علیکم

میرا خیال ہے مزاج تلخ ہو رہے ہیں اس لئے میں
کچھ تفریح طبع کا سامان کردوں
وعلیکم السلام ، برادر حسن نظامی ،
سنجیدہ مباحث میں ایسے بچکانہ قسم کے لطائف پیش کرنے سے احتراز فرمائیں ۔ آپ کی بڑی مہربانی ہوگی ۔
شکریہ !
 

نبیل

تکنیکی معاون
السلام علیکم،

کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ اس تھریڈ‌ کو تقسیم کر دیا جائے تاکہ مختلف آراء رکھنے والے بغیر کسی رکاوٹ کے اس موضوع پر تحقیقی مواد پیش کر سکیں؟ اس طرح ہم ایک مناظرے کی سچویشن سے نکل آئیں گے۔ اگر باذوق اور شاکرالقادری اس سے متفق ہوں تو میں ایسا کرنے کو تیار ہوں۔

والسلام
 
نبیل میرا خیال ہے کہ ابھی اسے ایسا ہی چلنے دیں کیونکہ اس وقت تصوف پر بحث ہورہی ہے اور سوال جواب کی شکل میں ہی یہ آگے بڑھے تو منطقی ہوگی۔

جب بحث خاصی طوالت پکڑ‌ لے تو اس کو تقسیم کیا جاسکتا ہے۔
 

جاویداقبال

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،

واقعی نبیل بھائی، محب بھائی، کی بات میں وزن ہے کہ اس بحث کو اسی طرح سوال جواب کی طرح چلنے دیں تومہربانی ہوگی(شکریہ)


والسلام
جاویداقبال
 

شاکرالقادری

لائبریرین
جواب کا پہلا حصہ

باذوق نے کہا:
محترم المقام شاکر القادری صاحب !
پیشگی معذرت ۔۔۔ مگر آپ کی اس پوسٹ میں اتنے مغالطے ہیں اور اتنے خلط مباحث ہیں کہ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ ایک علمی و دینی شخصیت کا آخر اس طرح بار بار قارئین کو چکمے دینا کس
محترم باذوق!
ميں نہ تو حديث كا مخالف ہوں اور نہ ہي حديث كا درجہ كم كرنے والوں ميں سے ہوں نعوذ باللہ من ذالك اگر آپ يہاں موجود لوگوں كو ميرے متعلق گمراہ كرنا چاہتے ہيں تو آپ كي مرضي
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے آپ كے ديے گئے جواب سے كوئي اختلاف نہيں كہ رسول كائنات صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم كا ہر ہر لفظ وحي كے تابع ہے
خود قرآن حكيم كا بيان اس پر شاہد ہے
وما ينطق عن الھوي ان ہو الا وحي يوحي
ليكن كيا كيا جائے كہ
حسبنا كتاب اللہ كا نعرہ بھي لگايا گيا
حالانكہ رسول صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كي حديث ميں ہے كہ ميں تم ميں دو چيزيں چھوڑ كر جا رہا ہوں كتاب اللہ اور ميري سنت
ليكن اس كے باوجود
حسبنا كتاب اللہ كا نعرہ اس وقت سے لے كر اب تك لگايا جا رہا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ميں نےے اگر يہ كہا كہ قرآن يا حديث ميں كہيں كسي امر كے باارے كوئي صراحت نہيں ملتي تو ااس ككا مطلب يہ نہيں تھا كہ نعوذ باللہ شريعت مطہرہ ادھوري ہے بلكہ اس كا مطلب يہي تھا كہ اگر قرآن و سنت ميں اجمالي ااصول موجود ہے تو اس كي تفاصيل مابعد كے زمانوں ميں مرتب كي گئيں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ نے انتظامي اور شرعي امور كي تقسيم تو فرما دي ليكن كيا كيا جائے كہ ايسے ہي امور اگر كسي اور كے ہاں پائے جائيں تو آپ انہين فورا بدعت كہہ ديتے ہيں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
يہاں پر صرف اور صرف تصوف پر بحث ہے اور پوري پوسٹ ميں جو اصل بات تھي جس كو جلي حروف ميں سرخ رنگ ميں لكھا گيا تھا اس كا آپ نے جواب نہيں ديا براہ كرم اس پر بات كريں ضمني باتوں سے بحث كا كوئي رخ متعين نہيں ہوتا اور خلط مبحث كي كيفيت پيدا ہوتي جا رہي ہے
 

حسن نظامی

لائبریرین
باذوق انکل نے لکھا

‌‌‌‌‌قرآن کے سامنے حدیثِ رسولِ مقبول کو گھٹا کر بیان کرنے والوں کے مقابلے میں آج اگر اردو سائیبر ورلڈ میں ایک باذوق نظر آتا ہے تو کل دس باذوق حدیثِ رسول (ص) کی پشت پناہی کے لیے آگے آئیں گے ! انشاءاللہ العزیز ۔

اس میں تو کسی کو شک ہی نہیں کہ قرآن حکیم بلا شبہ حدیث رسول کی نسبت زیادہ قطعی ہے

اور یہ تو شریعت کا قانون ہے
کہ جہاں کہیں
خبر متواتر بمقابلہ نص قرآنی آئے وہاں حدیث کو ترک کر دیا جائے گا

باذوق انکل نے لکھا
‌‌‌
کیا تمام کے تمام قارئین بس اتنے ہی معصوم ہیں کہ وہ ان دو جملوں کا تضاد معلوم نہ کر سکیں ؟


جی بلکہ قارئین ان دو جملوں میں تطبیق بھی کر چکےہیں



پھر باذوق انکل نے لکھا

بتائیے قرآن میں اتنی اہم تاکید کا کہاں ذکر ہے کہ کب کب پڑھی جائے ، کیسے پڑھی جائے اور کتنی پڑھی جائے ؟


قبلہ موجود ہے کیا قرآن یہ نہیں کہتا
کل صغیر و کبیر ‌‌‌مستتر

لا رطب ولایابس الا فی کتاب مبین

کیا آپ آیت قرآنی کا انکار کرنے کی جرات کریں گے

اور رہا نماز کے اوقات کا مسئلہ تو

اقم الصلوت لدلوق الشمس الی غسق اللیل
اور
ان الصلوت کانت علی المومنین کتابا موقوتا

وغیرھ


باقی آپ پھر دوسرے مسائل میں الجھ گئے بات ہے تصوف کی
چلیں ایک سوال‌‌ کا جواب دیں

تصوف کیا ہے ؟(جامع تعریف جو آپ کے نزدیک ہو )

اب جب تک آپ اس سوال کا جواب نہیں دیں گے آپ کو آگے نہیں چلنا چاہئے

اس کے بغیر بات نہیں ہو گی
 

شاکرالقادری

لائبریرین
جواب کا پہلا حصہ

باذوق نے کہا:
اگر آپ میری اس بات کو طعنہ اور چھوٹا منہ بڑی بات نہ سمجھیں تو خاکسار عرض کرنا چاہے گا کہ : قرآن کے سامنے حدیثِ رسولِ مقبول کو گھٹا کر بیان کرنے والوں کے مقابلے میں آج اگر اردو سائیبر ورلڈ میں ایک باذوق نظر آتا ہے تو کل دس باذوق حدیثِ رسول (ص) کی پشت پناہی کے لیے آگے آئیں گے ! انشاءاللہ العزیز ۔
قرآن کے سامنے حدیثِ رسولِ مقبول کو گھٹا کر بیان کرنے والوں
________________________
يعني قرآن بمقابلہ حديث يا حديث بہ مقابلہ قرآن
محترم
يہ آپ كيا كہہ رہے ہيں
ايك وقت تھا جب رسول مقبول صلي اللہ عليہ وسلم نے اپنے صحابہ سے فرمايا تھا كہ مجھ سے قرآن كے علاوہ كچھ نہ لكھا كرو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علما محدثين اور مفسرين كا اس بات پر اتفاق ہے كہ يہ عبوري حكم صرف اس ليے تھا كہ قرآن اور حديث دونوں گڈ مڈ نہ ہو جائيں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس ميں كوئي شك نہيں كہ ہر قول رسول تابع وحي ہے اور رسول صلي اللہ عليہ وسلم كا ايك ايك حرف وحي الہي كے تحت كہا گيا ہے
ليكن اس كے باوجود
قرآن قران ہے اور حديث حديث
اگر ايسا نہ ہوتا تو قرآن اور حديث دونوں كو عليحدہ عليحدہ مرتب مدون كرنے كي ضرورت نہ ہوتي يكجا ہي مجلد كر ليا جاتا۔


اگر كوئي قرآن كو حديث قرار دے اور اسے قول رسول تسليم كرے تو آپ اس كے بارے كيا فتوي ديں گے اور اگر كوئي حديث كي كسي كتاب كو قرآن كہہ دے مثلا يوں ہي كہہ دے كہ بخاري شريف قرآن ہے ؟ تو آپ اس پر كيا فتوي صادر كريں گے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
يہ الگ موضوع ہے
اور ميري انتظاميہ سے درخواست ہے كہ باذوق كے مندرجہ بالا اقتباس والي پوسٹ اور اس كے جواب ميں آنے والي پوسٹوں كو تقسيم كر كے عليحدہ دھاگہ شروع كر ديا جائے پھر وہاں يہ بحث ہوگي كہ كون حديث كا مقام گھٹا رہا ہے اور كون قرآن كے درجہ ميں كمي كر رہا ہے
 

شاکرالقادری

لائبریرین
حضرات محترم
اكابر اوليائے كرام نے تصوف كي جو تعريفيں كي ہيں يا تصوف كي تعريف كے سلسلہ ميں مختلف آئمہ تصوف كے جو اقوال ہيں
ان كے ليے يہاں پر ميں نے الگ سے اايك سلسلہ شروع كر ديا ہے
براہ كرم اس دھاگہ ميں اس وقت تك مداخلت نہ كي جائے جب تك ميں اس سے فارغ نہ ہو لوں تاكہ جو مواد سامنے آئے كم از كم وہ مدون اور مرتب صورت ميں دستياب ہو سكے اگر كسي كو اس كي مخالفت كرنا ہے تو وہ الگ سے دھاگہ شروع كر لے
 

نبیل

تکنیکی معاون
السلام علیکم،

شاکرالقادری، آپ نے یہ بہت اچھا کیا جو یہ سلسلہ الگ شروع کر دیا۔ اس سے میری مشکل آسان ہو گئی ہے۔ اب میں باذوق سے درخواست کروں گا کہ وہ اپنے پیغامات الگ کرنے کے سلسلے میں میری رہنمائی کریں۔ اس کے بعد یہ تھریڈ مقفل کر دیا جائے گا۔

والسلام
 
1 اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے
هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُواْ عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍO
2. وہی ہے جس نے اَن پڑھ لوگوں میں انہی میں سے ایک (با عظمت) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھیجا وہ اُن پر اُس کی آیتیں پڑھ کر سناتے ہیں اور اُن کو پاک کرتے ہیں اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں، بیشک وہ لوگ اِن (کے تشریف لانے) سے پہلے کھلی گمراہی میں تھےo

تو درحقیقت علما کا کہنا کچھ یوں ہے کہ یہی تزکیہ نفس درحقیقت حاصل تصوف ہے۔ گویا شریعت مطہرہ پر جب اخلاص سے عمل کیا جائے گا تو نفوس پاکیزہ ہو جائیں گئے امام مجدد الف ثانی اسی اخلاص کو طریقت یعنی تصوف کا نام دیتے ہیں
2 رسول اللہ کی صحبت کی بنا پر صحابہ کرام کو نہ مراقبوں کی ضرورت پڑی نہ لطائف ستہ کو رواں کرنے کی اور نہ ہی کسی اور چیز کی، جو ان باتوں کا مقصود تھا یعنی تزکیہ نفس اور معرفت الہی وہ ان کو صرف رسول اللہ کی صحبت بابرکت کی بنا پر فورا حاصل ہوجا تا تھا۔
3 تاہم جوں جوں رسول اللہ کا زمانہ مبارک دور ہو تا چلا گیا برائیاں بڑھتی چلی گئیں اورنفوس انسانی کے لیے اعمال شریعت پر عملدرامد مشکل اور اخلاص ناپید ہو گیا تب تصوف کے بعض اعمال کا ظہور ہوا مثلا مراقبے وغیرہ تاہم یہ مراقبے اور تعلیمات تصوف شریعت مطہرہ سے متصادم نہ تھیں۔
3 ابتدائی زمانہ میں تصوف کا سلسلہ ان برائیوں سے بالکل پاک تھا جن کی وجہ سے بعد ازاں راسخ علما کی جماعت ارباب تصوف سے بیزار ہو گئی۔
4 یہ بھی حقیقت ہے کہ بعد ازاں جعلی صوفیہ، جاہل عوام اور مختلف سیاسی اور مذہبی اختلافات کی بنا پر سلسلہ تصوف میں مختلف سماجی برائیوں اور شریعت سے متصادم باتوں کی بڑی کثرت ہو گئی۔اس سلسلے میں پروفیسر یوسف سلیم چشتی صاحب کی کتاب “اسلامی تصوف میں غیر اسلامی نظریات کی آمیزش“ قابل مطالعہ ہے
5 یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر دور میں جید صوفیہ شریعت کے مکمل پابند رہے ہیں اور اس بات کے قائل بھی کہ شریعت مطہرہ پر عملدرامد نہ کرنے والا درحقیت صوفی نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ حقیقی تصوف شریعت مطہرہ کا ایک حصہ ہے۔ یہاں حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کا ایک قول نقل کرنا چاہوں گا “وہ ذرا سی بات جو حاصل ہے تصوف کا یہ ہے کہ جس طاعت میں سستی ہو ، سستی کا مقابلہ کر کے اس طاعت کو کرے، اور جس گناہ کا تقاضا ہو ، تقاضے کا مقابلہ کر کے اس گناہ سے بچے۔ جس کو یہ بات حاصل ہو گئی اس کو پھر کچھ بھی ضرورت نہیں۔ کیونکہ یہی بات تعلق مع اللہ پیدا کرنے والی ہے اور یہی اس کی محافظ ہے اور یہی اس کو بڑھانے والی ہے۔“
6 اب رہی یہ بات کہ تصوف کا لفظ بعد کی پیدا وار ہے یا یہ کہ تصوف اسلامی شریعت کے بالمقابل ایک دوسرا نظام ہے تو اس سلسلے میں میر ی گزارش یہ ہے کہ تصوف کا لفظ خود مقصود نہیں بلکہ بعد کہ علما اور صوفیہ نے یہ لفظ تزکیہ نفوس کے لیے برتی جانے والی تعلیمات اور اعمال کے لیے بطور شناخت کے استعمال کیا ہے ۔درحقیقت نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)جامع الصفات تھے اور دین کے تمام شعبے آپ کی ذات مبارک میں جمع تھے آپ کے بعد آپ کی امت نے دین کے مختلف شعبے اختیار کیےقرآن، فقہ و حدیث کے ماہرین عالم کہلائے، تفسیر بیان کرنے والے مفسر ، جہاد کرنے والے مجاہد اسی طرح جن لوگوں نے تزکیہ نفوس کا کام سنبھالا وہ صوفیہ کہلاے ہاں اس بات کا خیال ضروری ہے کہ یہ نہ خیال کیا جائے کہ تصوف شریعت مطہرہ کے بالقابل ایک مستقل نظام ہے چنانچہ اس سلسلے میں یہ احتیاط ضروری ہے کہ تصوف کی تعلیمات صرف جید صوفیہ کی ہی پیش نظر رہیں کیونکہ جیسا کہ میں نے اوپر عرض کیا کہ جعلی صوفیہ نے اس سلسلے میں حد سے بہت تجاوز کرتے ہوے شریعت مطہرہ سے متصادم باتوں کا پرچار بھی کیا ہے۔
 

خرم

محفلین
معافی چاہتا ہوں کہ تاخیر ہوئی۔ ویسے یہاں تو توپ و تفنگ ہی کی کمی رہ گئی ہے۔ بھائی ایک خالص علمی مسئلہ ہے جسے نجانے کہاں سے کہاں‌پہنچا دیا گیا ہے اور نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ باذوق بھائی نے ابھی تک تصوف پر اپنے خیالات بیان نہیں فرمائے ہاں کچھ مشاہیر کے خیالات و تصنیفات پر ضرور بات کی ہے جو میرے ناقص گمان میں نا مقصد تھا اور نہ ہی مقصود۔ اصل بات جو تھی وہ تو بھائی ابن حسن نے کافی حد تک بیان کر دی کہ تصوف صرف اور صرف قرآن، سنت اور اتباع صحابہ کا نام ہے۔ مقصودِ تصوف صرف اور صرف خوشنودی مالک الملک ہے۔ اب اگر کوئی بھی فلسفہ ان قوانین کے خلاف ہے تو وہ تصوف نہیں۔ یہ نکتہ یہ عاجز کافی دفعہ عرض کر چکا ہے۔ اب یہ سمجھ نہیں‌آتی کہ اس میں جھگڑا کیا ہے؟ یا تو آپ تصوف کی اس تعریف میں کوئی نقص بیان فرما دیں یا جو آپ کے نزدیک تصوف کی تعریف ہے وہ بیان فرما دیجئے۔ چلئے نام کو رہنے دیجئے، اسی بات بر اتفاق فرما لیجئے کہ قرآن و سنت اور عمل صحابہ پر عمل کی پرخلوص کوشش کرنا عین اسلام ہے۔
ہمارے قبلہ حضور پیر صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے خطبات شریف میں اس موضوع کو بہت تفصیل سے بیان فرمایا ہے۔ انشاء اللہ اسے برقیائے جانے کے بعد کوشش کروں گا کہ آپ کے مطالعہ کے لئے پیش کروں۔
 

دوست

محفلین
لو بھئی میں بالکل متفق ہوں اس بات سے جو ابن حسن نے پیش کی۔
بخدا تصوف ان باتوں سے ایک تنکا برابر بھی مختلف نہیں میری نظر میں۔
 

شاکرالقادری

لائبریرین
محترم ابن حسن
آپ كي بات كو آگے بڑھاتے ہوئے
اكابر صوفيہ نے اہل تصوف كو تين درجوں ميں تقسيم كيا ہے
1 صوفي
2 متصوف
3 مستصوف
صوفي وہ ہے جو اپني ذات كے لحاظ سے فاني ليكن اللہ تبارك و تعالي كي ذات كے ساتھ باقي ہو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
متصوف وہ ہے جو مجاھدہ و رياضت كے ذريعہ اس درجہ كي تلاش ميں ہو يا اس درجہ كے حصول كے ليے كوشاں ہو اور اپنے تمام امور ميں صوفيہ كے طور طريقوں كو مد نظر ركھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مستصوف وہ ہے جو اپنے مال ومنال اور دنيوي جاہ و دولت كے ليے صوفيہ كا لبادہ اوڑھ لے
صوفيا كے نذديك مستصوف مكھي كي طرح ذليل اور خونخوار بھيڑے كي طرح مردار خور مريض ہوتا ہے
مولانا رومي كہتے ہيں
اي بسا ابليس آدم روي ہست
پس بہ ہر دستي نہ بايد داد دست
ابليس نے بہت زيادہ انسانوں كا روپ دھار ركھا ہے اس ليے ہر ہاتھ ميں ہاتھ نہ دينا چاہيے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور يہ حقيقت ہے كہ اس تيسرے درجہ كے لوگوں ہي كي وجہ سے تصوف جيسا عظيم ادارہ بدنام ہوا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
توپ تفنگ كي نوبت نہ آتي اور نہ ہي اس كي ضرورت تھي ليكن بار بار كي عرض ۔۔۔۔ حرو كو جلي اور نماياں كر كے لكھنے كے باوجود لوگ تصوف كو فلسفہ و منطق پر مبني كوئي علم قرار دے رہے ہيں حالانكہ ميں نے شروع ہي سے موقف اپنا ہے كہ يہ شريعت كے اعمال ميں اخلاص پيدا كرنے اور ان كے باطني فوائد كے حصول كا عملي لائحہ ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

شاکرالقادری

لائبریرین
نبیل نے کہا:
السلام علیکم،

شاکرالقادری، آپ نے یہ بہت اچھا کیا جو یہ سلسلہ الگ شروع کر دیا۔ اس سے میری مشکل آسان ہو گئی ہے۔ اب میں باذوق سے درخواست کروں گا کہ وہ اپنے پیغامات الگ کرنے کے سلسلے میں میری رہنمائی کریں۔ اس کے بعد یہ تھریڈ مقفل کر دیا جائے گا۔

والسلام
نبيل ميري درخواست ہے كہ تصوف كو تاريخ و فلسفہ كے ذيلي ذمرہ ميں نہي ركھا جائے بلكہ اس كے ليے ايك عليحدہ زمرہ بناديا جائے اس كے بعد ہم لوگ خود ہي مختلف عنوانات كے تحت علمي مواد ارسال كرتے رہيں گے موجودہ تھريد ميں بھي گوكہ خلط مبحث اور لا حاصل و بے نتيجہ باتوں كي كثرت ہے ليكن اس كے باوجود بہت سارا
براہ راست موضوع سے متعلق علمي اور سنجيدہ مواد سامنے آيا ہے اس ليے ضرورت ہے كہ اس دھاگے كو مقفل كيا جائے يا نہ كيا جائے ليكن مرتب و مدون ضرور كيا جائے اورضمنا شروع ہونے والے مباحث كو عليحدہ دھاگوں ميں منتقل كر ديا جائے تاكہ وہاں اگر كوئي بحث كرنا چاہے تو وہ كرتا رہے ليكن يہ دھاگہ چونكہ تصوف اسلام سے متعلق ہے لہذا اس كي تخليص ﴿پيوريفيكيشن﴾ كي ضرورت ہے اور ميري اس تجويز پر عمل درآمد سے نہ صرف اس دھاگے كي تخليص ہوگي بلكہ تلخيص بھي ہو جائے گي
والسلام علي من تبع الھدي
 
چند تجاویز

بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم
میرے ذہن میں چند تجاویز ہے
• ایک آپ کی فورم میں اس وقت جتنا بھی بحث مباحثے اور گرمی نظر آ رہی ہے دین کی برکت ہے کیونکہ یہاں پر مختلف موضوں زیر بحث اتے ہیں مثلا میں سرچ انجن میں ایک مخصوص" مفتی محمد شفیع صاحب " دیتا ہوں تو ریزلٹ میں اردو محفل اجاتاہے اور یہاں مجھے انے کا ذریعہ بنا
• نمبر دو: بعض اوقات ایک بندہ دوسرے مسلک کے جذباتی لوگوں یا کسی عالم کا کتاب یا کتابچہ، یا تفسیر دیکھتا ہے تو ان میں ایک جنون بیدا ہو جاتا ہے کہ میں کیوں نہ اپنے علماء کو سامنے لاؤ جس سے فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ہم کو محتلف مکاتب فکر کے بیانات ، ان کو سوچ اور کتب اسانی سے مل جائینگے جس طرح میں نے مفتی محمد شفیع صاحب کی " جہاد " اس فورم پر انے کے بعد ہی ٹائپ کی ہے
• باقی اپ نے بات کی منافرت پھیلانےکی تو مجھے جہاں تک پتہ ہے یا علم یہاں سے لوگ مثبت پہلوں ہی لیں گے نیگٹوں کے لیے ویسے بھی وہ ان لائن ہے چاہے وہ ڈاریکٹ سکس پر چائے یا جاپنیز،ہندؤؤں، سکھ عیسائی، چائینیز لٹریچر صرف ایک کلک کے فاصلے پر ہوتے ہیں یا صرف سرچ میں لفظ کی ضرورت ہوتی ہے۔
• باقی اپ ہر وقت کہتے ہیں کہ یہ فورم ہم نے اردو کے فروع کے لیے بنایا ہے اگر اس میں ایک لفظ کا اضافہ کیا جائے "اسلام " تو جہاں کسی اور کی نیکی کی اعمال میں کاپی اور پیسٹ کا عمل ہوگا وہاں پر اپ کے اعمال میں نیکی پیسٹ ہوگی کیونکہ اپ ڈارکٹ یا ان ڈارکٹ اس فورم کی وجہ سے ان میں انوالوو ہوتے ہیں
• باقی اس فورم میں چند ممبر ایسے ہیں جس کی میں نے پوسٹ سٹڈی کی جو بے جا طور پر سوال اٹھاتے ہیں اور وہی سوالات بار بار کرتے ہیں اور ان سوالوں کے جواب ان کو پہلے مل چکے ہوتے ہیں اور ان ہی کی وجہ بات بگڑ جاتی ہے خود سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے(منكر مطلق) لیکن دوسروں کو زپ زیپ کرتے ہیں
والسلام واجد حسین
 

باذوق

محفلین
بہت معذرت کہ اس دھاگے سے میرا رابطہ کچھ وقت کے لیے منقطع ہو گیا تھا ۔
منتظمین سے میں عرض کروں گا کہ اس دھاگے کو تقسیم کرنے کا مشورہ درست نہیں‌ ہے ۔ اس کو فی الحال ایسے ہی چلنے دیں ۔ شکریہ ۔
 

باذوق

محفلین
۔۔۔۔

شاکرالقادری نے کہا:
آخري بات
ميرا موقف شروع سے اب تك يہ رہا ہے كہ تصوف ايك عملي طريقہ ہے جس كے ذريعہ اصلاح نفس تصفيہ اخلاق اور شريعت مطہرہ كے احكام و اعمال كے حقيقي اور باطني فوائد كا حصول ممكن ہے
اگر آپ كو اس طريقہ اور اس لائحہ عمل كے خلاف بحث كرنا ہے تو مييں حاضر ہوں

محترم شاکر القادری صاحب !
اس دھاگے کی ایک حالیہ پوسٹ میں ایک صاحب نے صحیح کہا کہ بار بار سوالات دہرائے جاتے ہیں اور اسی طرح جوابات بھی ۔
میں بھی اس معاملے میں خود کو بےبس و مجبور پاتا ہوں ۔
آپ دیکھ لیں کہ آپ بار بار تصوف کو وہ عملی طریقہ ثابت کرنے پر مصر ہیں جو شریعتِ مطہرہ کے احکام و اعمال سے وابستہ ہے ۔
جبکہ میں نے بہت پہلے کہا تھا کہ :
----
دینِ اسلام کا بھی یہی معاملہ ہے ۔ ہر کوئی ایک نیا فلسفہ یا نظریہ یا طریقہ لے آتا ہے اور اس کی بنیاد قرآن و سنت کو بتاتا ہے ۔ لیکن کن باتوں سے اس کی خصوصیات ، قرآن و سنت کی تعلیمات سے الگ ہٹ کر واضح ہوتی ہیں ؟ یہ کوئی نہیں بتاتا ۔ اگر پوچھا جائے کہ نام کیوں الگ ہے تو جواب ملے گا کہ نام سے کیا ہوتا ہے ، کام تو سارا ہی وہی ہے جو قرآن و سنت سے ثابت ہے ۔
بھائی جب آپ قرآن و سنت کو اتنی ہی اہمیت دیتے ہیں تو نئے نام گھڑنے کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے ؟

اس بات پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے کہ جب شریعتِ اسلامیہ مسلمانوں کے لئے مکمل اور کافی ہے اور کتاب و سنت میں بھی زندگی گزارنے کے لئے مہد سے لحد تک ایک ایک لمحہ کے لئے ہدایات موجود ہیں تو پھر اس میں ’طریقت‘ یا ’تصوف‘ کے نام سے اضافہ کی گنجائش کہاں سے پیدا کر لی گئی ؟؟؟
اگر طریقت اخلاص فی العبادت کا نام ہے تو کیا شریعت میں پہلے یہ عنصر موجود نہیں تھا ؟
اگر اسلام میں اخلاص فی العبادت کا عنصر مفقود تھا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم طریقت اور اس کے اصطلاحی اوراد اور وظائف کا سہارا لئے بغیر اپنے اعمال میں اخلاص کیسے برتتے تھے ؟؟؟


سوال یہ نہیں ہے کہ : دینِ تصوف یا دینِ طریقت کی کون سی اہم بنیادیں ہیں ؟
بلکہ یہ ہے کہ : دینِ اسلام میں وہ کیا کمی تھی کہ ایک علحدہ فلسفہ یا نظریہ یا عملی طریقہ ایجاد کرنا ضروری سمجھا گیا ؟ اگر دینِ طریقت ( یا تصوف) پورا کا پورا وہی ہے جو قرآن و حدیث میں درج ہے تو اس کو دینِ اسلام ہی کہا جائے گا ، کوئی دوسرا نام دینے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی ۔
منطقی اعتبار سے یہ معاملہ اس لیے بھی زیرِ بحث آئے گا کہ ۔۔۔ فرقے فرقے بننے والی چیزوں سے قرآن واضح طور پر منع فرماتا ہے ۔

----
اس سوال کا جواب آج تک کسی نے نہیں دیا بلکہ اس کے موازنے میں دوسرے سوالات (مثلاََ : علم و اصول حدیث ، شرعی و تدبیری امور کی ایجاد وغیرہ) کھڑے کر کے بحث کو ایک دوسرا رخ دے دیا گیا ۔
 

باذوق

محفلین
شاکرالقادری نے کہا:
نبيل ميري درخواست ہے كہ تصوف كو تاريخ و فلسفہ كے ذيلي ذمرہ ميں نہي ركھا جائے بلكہ اس كے ليے ايك عليحدہ زمرہ بناديا جائے
میں اس تجویز کی مخالفت کروں گا ۔
اس طرح الگ الگ زمرہ بنانے کی روش چل پڑی تو اپنے اپنے الگ زمرے کے بیشمار دعوے دار پیدا ہو جائیں گے ۔ شائد خود میں بھی کچھ نئے زمرے بنانے کی سفارش کر بیٹھوں ۔
تصوف ۔۔۔ کو علم کہہ لیں ، فلسفہ کہہ لیں یا کوئی عملی طریقہ ۔۔۔
اس کے لیے بہرحال تاریخ و فلسفہ کا زمرہ ہی عین مناسب ہے !
 

خرم

محفلین
اگر اسلام میں اخلاص فی العبادت کا عنصر مفقود تھا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم طریقت اور اس کے اصطلاحی اوراد اور وظائف کا سہارا لئے بغیر اپنے اعمال میں اخلاص کیسے برتتے تھے ؟؟؟

باذوق بھائی یہ کس نے اور کب کہا کہ شریعت میں اخلاص فی العبادت کا عنصر مفقود تھا؟ اور پھر آپ نے خود سے ہی طریقت کے اصطلاحی اوراد و وظائف کی اصطلاح بھی نکال لی۔ پہلے بھی کئی بار گزارش کی گئی ہے کہ طریقت اصحاب رسول کے طریق پر چلنے کا نام ہے اور آپ پھر یہ کہتے ہیں کہ اصحاب رسول تو طریقت پر نہیں چلے۔ پیارے بھائی نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم شارع ہیں، اصحاب ان کے پیروکار اور طریقت ہے اللہ کے رسول اور ان کے اصحاب کے راستے پر چلنے کا۔ دراصل شروع سے اب تک آپ شاید ذہن میں ایک نتیجہ رکھ کر بات کر رہے ہیں اور اس کے لئے دلائل، ان کے جوابات اور ان پر اعتراضات سب کام تن تنہا ہی کئے جا رہے ہیں۔

چلئے بات کو ایک اور طرح سے شروع کئے دیتے ہیں۔ میں آپ سے سوال کرتا ہوں اور آپ ان کے جوابات دیجئے گا۔ شاید اس طرح مجھے آپ کی سوچ سے آگہی ہو سکے۔

پہلا سوال یہ کرنا چاہوں گا کہ کیا ہر مسلمان کی ایمانی حالت ایک جیسی ہوتی ہے؟
 
Top