اسلام اور تصوف

خرم

محفلین
پیارے بھائی آپ نے کونسی صوفی کو دیکھا ہے کہ وہ دنیا سے بھاگ گئے؟ حال یا ماضی کی کسی شخصیت کا حوالہ دے دیا جاتا تو بہتر ہوتا۔‌ قرب الٰہی کے لئے کچھ عرصہ دنیا والوں سے اور دنیا سے دور جا کر گزارنا تو سنتِ نبوی صل اللہ علیہ وسلم ہے لیکن مستقلاً دنیا سے کنارہ کشی کر لینا سالکین کا مسلک کبھی بھی نہیں رہا۔ کیا آپ کسی ایسی صوفی کو جانتے ہیں جو بالکل تارک الدنیا ہوں؟
 

باذوق

محفلین
اتباع یا ابتداع ؟؟

خرم نے کہا:
قرب الٰہی کے لئے کچھ عرصہ دنیا والوں سے اور دنیا سے دور جا کر گزارنا تو سنتِ نبوی صل اللہ علیہ وسلم ہے
‌‌خرم :
قرب الٰہی کے لئے کچھ عرصہ دنیا والوں سے اور دنیا سے دور جا کر گزارنا تو سنتِ نبوی صل اللہ علیہ وسلم ہے

اس سنتِ نبوی (ص) کی کسی صحیح حدیث سے دلیل دے دی جائے تو بہت مناسب رہے گا ۔
حالانکہ قرآن میں بیان ہے :
ثُمَّ قَفَّيْنَا عَلَى آثَارِهِم بِرُسُلِنَا وَقَفَّيْنَا بِعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ وَآتَيْنَاهُ الْإِنجِيلَ وَجَعَلْنَا فِي قُلُوبِ الَّذِينَ اتَّبَعُوهُ رَأْفَةً وَرَحْمَةً وَرَهْبَانِيَّةً ابْتَدَعُوهَا مَا كَتَبْنَاهَا عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغَاءَ رِضْوَانِ اللَّهِ فَمَا رَعَوْهَا حَقَّ رِعَايَتِهَا فَآتَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا مِنْهُمْ أَجْرَهُمْ وَكَثِيرٌ مِّنْهُمْ فَاسِقُونَ
(اردو ترجمہ = مولانا جونا گڑھی) :
ان کے بعد پھر بھی ہم اپنے رسولوں کو پے در پے بھیجتے رہے اور ان کے بعد عیسیٰ بن مریم ( علیہ السلام ) کو بھیجا اور انہیں انجیل عطا فرمائی اور ان کے ماننے والوں کے دلوں میں شفقت اور رحم پیدا کر دیا ، ہاں رہبانیت ( ترک دنیا ) تو ان لوگوں نے ازخود ایجاد کرلی تھی ہم نے ان پر اسے واجب نہ کیا تھا سوائے اللہ کی رضا جوئی کے ۔ سو انہوں نے اس کی پوری رعایت نہ کی ، پھر بھی ہم نے ان میں سے جو ایمان لائے تھے ، انہیں ان کا اجر دیا اور ان میں زیادہ تر لوگ نافرمان ہیں ۔

اس آیت میں اتباع اور ابتداع کے الفاظ پر غور کیجئے ۔ رہبانیت کو اللہ تعالیٰ نے ابتداع (خود گھڑنے) سے تعبیر فرمایا ہے جبکہ اللہ نے اس کا حکم نہیں دیا تھا ۔ اللہ نے جو حکم دیا تھا وہ اتباع کا تھا ۔
 

حسن نظامی

لائبریرین
سب سے پہلے تو اردومحفل کے اس دھاگے کے جملہ شاملین کو سلام مسنون و دعوات الصالحات

میں یونیورسٹی سے چھٹی پر آیا ہوں مگر افسوس کہ صرف دو دن کے لئے کل انشاء اللہ دوبارہ جانا ہو گا
اس دھاگے کے جملہ پیغامات زیر مطالعہ رہے

بحٹ کچھ عجیب ہی سی ہے

سب سے پہلے تو سوال کرنے والے کا موقف ہی واضح نہیں ہے

اور خرم بھائی کے بارہا توجہ دلانے کے باوجود انکل باذو ق ہمیشہ کی طرح اپنے موقف کو کھل کر بیان نہیں کر رہے

باذوق انکل کیا خیال ہے یہ کیفیت
مذبذبین بین ذالک لا الی ھولاء ولا الی ھولاء والی نہیں ؟

کاش میری چھٹی طویل ہوتی تو میں اپنے پیارے چچا جان کے ساتھ ضرور کچھ مباحثہ کرتا مگر افسوس کہ دو تین روز ہیں

خرم بھائی کی ایک بات پر آپ کیوں بغیر سوچے سمجھے فتوی لگا رہے ہیں

دیکھیں نا

ان کی بات کا مقصد یہ ہے کہ
قرب الہی کے حصول کے لئے کچھ عرصہ تک اپنے نفس سے جہاد کرنا یعنی اس کی خواہشات کی تکمیل نہ کرنا سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے

کیا کسی کو اس بات سے مجال انکار ہے
رہبانیت کیا ہے اور نفس کشی کیا ہے اور پھر نفس کیا ہے ؟
نفسانی خواہشات کیا ہیں ؟

پھر وہ حضرت مریم کا قصہ کیا ہے ؟
ان کا گوشہ نشین ہونا کیا ہے ؟
چلیں حضرت موسی علیہ السلام کا چالیس روز کوہ طور پر رہنا کیا ہے ؟
حضور وجہ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک طویل عرصہ غار حرا میں دن رات بسر کرنا کیا ہے ؟
وہاں تین تین دن بہت کم کھا کر عبادت ریاضت کرنا کیا ہے ؟
ذرا رہبانیت کی تعریف تو کی جائے ؟
بھائی رہبانیت اور چیز ہے اور ترک لذات اور چیز ہے ؟
کیا قرآن نے نہیں کہا ؟
والذین جاھدو فی سبیل اللہ ﴿الآیت﴾

اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جہاد اکبر جہاد بالنفس ہے

چلیں آپ سے سوال کیا جاتا ہے کہ صوفیاء کا کون سا ایسا کام ہے جو قرآن و سنت کے خلاف ہے آپ کسی ایک کی نشاندہی کریں جو رہبانیت پر دلالت کرتا ہو ؟
اجی باذوق انکل بلا وجہ ہی اٹکل پچو لگائے جا رہے ہیں کچھ غور و فکر تو کریں
بلکہ اولیاء تو ہمیشہ ایسے کا موں کی مخالفت کرتے رہے جو رہبانیت پر دلالت کرتے ہوں
ہاں نفس کشی کے لئے چلے اور مراقبے بے شک اولیاء کا شعار رہا ہے اگر نفس کشی کو آپ رہبانیت کا نام دیتے ہیں تو پھر تو آپ کی بات تسلیم کی جا سکتی ہے کیا خیال ہے؟ کیا نفس کشی رہبانیت ہے ؟

یا اسلامی طریقہ ہے ؟
اگر ایسا ہے تو پھر نفس کشی سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے اور نفس کشی کے چند ہی طریقے ہیں
کم کھانا کم سونا کم بولنا اور زیادہ عبادت وریاضت کرنا
اور یہ تو اچھے اعمال ہیں
والسلام
 

حسن نظامی

لائبریرین

انکل باذوق کی چند باتیں اور ان پر غورو فکر


‫" تصوف ادبی اعتبار سے ایک اجنبی لفظ ہے جس کا عربی لغت میں کوئی وجود نہیں! اس بات کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ اس لفظ کے معنی میں خود صوفیاء کے درمیان شدید اختلاف پایا جاتا ہے اور اب تک یہ طے نہیں ہوسکا کہ اس لفظ کا کون سا مفہوم صحیح ہے جس کی رعایت سے اس کے حامل کو ’صوفی‘ کہا جاتا ہے؟؟؟
انکل مجھے سمجھ نہیں آئی
یہ کیا ہے
تصوف ادبی اعتبار سے ایک اجنبی لفظ ہے
بھئی وضاحت کریں آپ کو اعتراض لفظ تصوف پر ہے یا فلسفہ تصوف پر ہے ؟
ویسے خوب دور کی کوڑھی لائے ہیں
تصوف ادبی اعتبار سے ایک اجنبی لفظ ہے جس کا عربی لغت میں کوئی وجود نہیں

اچھا چلیں بھئی ہم اسے تصوف نہیں کہتے اگر آپ کو اس لفظ سے اتنی ہی چڑ ہے ہم اسے احسان کہہ لیا کریں گے
لیکن ہم ایسا کیوں کریں ؟
صرف اس وجہ سے کہ آپ کو چڑ ہے ؟
نا بابا نا
آپ کے پاس صرف یہی وجہ رہ گئی تھی کہ یہ لفظ ادبی لحاظ سے اجنبی ہے
بہر حال اس لفظ کے بارے میں جاننے کے لئے دیکھیں
جناب سید شاکر القادری صاحب کا مضمون تصوف کی لغوی بحث
وہاں وضاحت مل جائے گی


اس کے علاوہ چونکہ یہ لفظ نہ تو قرآن میں موجود ہے اور نہ احادیثِ بنوی میں یہاں تک کہ جماعت صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے بھی کسی ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے اس لفظ کو استعمال نہیں کیا ہے اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ لفظ اور اس سے متعلق سارا فلسفہ اسلام کے خلاف اور ایک ایسی ’بدعت‘ ہے جس کی شریعت اسلامیہ میں کوئی بنیاد نہیں ہے ۔

خوب دیکھیں انکل کیا خوب استدلال کا طریقہ ہے
بہت خوب
چونکہ یہ لفظ نہ تو قرآن میں موجود ہے اور نہ احادیث نبوی میں یہاں تک کہ جماعت صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے بھی کسی ایک صحابی نے اس کو استعمال نہیں کیا
کیا بات ہے
بہت اچھا طریقہ ہے کسی چیز کو غیر شرعی قرار دینے کا

اجی سنئے کہ
جو لفظ قرآن مجید یا احادیث نبوی میں موجود نہیں وہ غیر شرعی ہے

پھر تو بہت سی چیزیں اف میرا خیال ہے باذوق شاید
انٹرنیٹ یقینا غیر شرعی ہوا
جہاز غیر شرعی ہوا
اب عقل مند خود سوچتے رہیں گے کہ کیا کیا چیزیں اس کی زد میں آتی ہیں
خوب


صوفیاء کے نزدیک تصوف ، اپنے نفس کو ریاضت و مجاہدہ کے ذریعہ اخلاق رذیلہ سے پھیرنے اور اخلاق حمیدہ یعنی زہد و علم صبر و اخلاص اور صدق و صفا جیسے خصائل حسنہ پر آمادہ کرنے کا نام ہے جس سے دنیا و آخرت میں کامرانی نصیب ہو ۔

ہاں اب بتائیں اپنی اس بات کے بارے میں آپ خود تسلیم کرتے ہیں کہ صوفیاء کے نزدیک تصوف کیا ہے
اس میں سے کوئی بات غیر شرعی ثابت کریں
تو مانوں ؟
شاید تلاش بسیار اور در در کی خاک چھاننے کے بعد آپ محروم لوٹ آئیں اگر کچھ ذہن رسا رکھتے ہیں تو ورنہ پھر ڈھونڈتے ہی رہ جائیں گے ضد میں اور کچھ بھی نہ پائیں گے
ہم کیا کہیں
میرا خیال ہے ہمیں تصوف کو ماننے والوں کی منت کرنی پڑے گی کہ حضور آپ ایسا کیجئے کہ اس طریقہ کا نام تصوف کی بجائے کچھ اور رکھ لیجئے کہ ہمارے ایک انتہائی محترم انکل کو اس نام پر اعتراض ہے
وہ یہ نام سنتے ہی فتوی لگا دیتے ہیں
بھلے مانس
کچھ تو سوچئے آپ کہاں جارہے ہیں
افلا تفکرون
کیا ہو گیا ہے آپ کو
کہاں بھٹک رہے ہیں
خدارا واپس آ جائیے ورنہ شاید ہمیشہ کے پچھتاوے کے علا وہ کچھ نہ ملے
اور میرا خیال ہے اس بحث کو بھی ختم کیجئے کیونکہ آپ سے کچھ جواب نہیں بن پڑ رہا ا
والسلام
 

باذوق

محفلین
تصوف ۔۔۔ جاری ۔۔۔

شریعتِ اسلامی کا یہ قاعدہ کلیہ ہے کہ اگر کسی بات میں تنازعہ پیدا ہو جائے تو اسے کتاب اللہ و سنتِ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی طرف لوٹا دیا جائے ۔
جیسا کہ اللہ تعالیٰ ، قرآن مجید میں فرماتا ہے :
اگر کسی بات میں تم میں اختلاف واقع ہو تو اسے اللہ و رسول کی طرف لوٹا دو اگر تم اللہ اور روزِ آخرت پر یقین رکھتے ہو ۔
(سورہ النساء 4 ، آیت : 59 )


خاکسار ، عرض کر چکا ہے کہ تصوف کے دلدادگان ، جن بزرگانِ دین بالخصوص حضرات اویس قرنی ، حسن بصری ، مالک بن دینار ، محمد واسع ، فضیل بن عیاض اور ابراھیم بن ادھم ۔۔۔ رحمہم اللہ وغیرہ کو مذہبِ تصوف سے وابستہ بتاتے ہیں ۔۔۔ ان تمام سے ایسا کوئی قول ثابت ہی نہیں ہے کہ انہوں نے خود کو کبھی تصوف نامی کسی مذہب سے جوڑا ہو ۔ ان تمام کی ساری زندگی کتاب و سنت سے ہی عبارت تھی ۔

اہلِ تصوف اور صوفیاء کے درمیان جن مقدس ہستیوں کو اعلیٰ مقام حاصل ہے انہی کے افکار اور خیالات پر ایک اجماعی نظر ڈالی گئی ہے ۔ جو لوگ یہ دعویٰ کریں کہ ان کا ابن عربی اور دیگر متقدمین سے کوئی تعلق نہیں تو ان سے ادباََ عرض ہے کہ :
آج بھی تصوف دراصل ابن عربی ، ابن فارض اور شعرانی ہی کے دین کا امتداد ہے اور اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ آج بھی صوفی لوگ تصوف کی ان عظیم ہستیوں کو مقدس پیشوا مانتے ہیں ، ان کی مدح و ستائش میں اشعار پڑھتے ہیں اور ان کی یادوں میں جشن مناتے ہیں ۔
مذہبِ تصوف کے باطل عقائد کے خلاف محاذ ۔۔۔ یہ کوئی آج کل کی بات نہیں بلکہ یہ باطل افکار کے خلاف صدیوں سے جاری معرکہ ہے ۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بھی اپنی تصانیف میں ان خلافِ قرآن و سنت افکار کے ابطال کا پردہ چاک کیا ہے اور یہ جنگ کسی فرد اور جماعت کے خلاف نہیں ہے بلکہ ان مشرکانہ عقائد اور خلافِ قرآن و سنت صوفیانہ افکار و خیالات کے خلاف ہے جن کے ذریعے عام مسلمانوں کے عقائد خراب ہوئے ہیں ۔

---
مذہبِ تصوف نے اسلام کے علاوہ دیگر تمام مذاہب سے مختلف نظریات جمع کیے ہیں۔ اس مذہب نے اپنے وجود کے لیے سہارا بھی اللہ کا لیا ہے ۔ اور ایمان و یقین کے گلشن میں کفر و شرک کے کانٹے دار پودے بھی اگائے ہیں ۔

اہلِ تصوف کا ایک عظیم پیشوا تلسمانی لکھتا ہے :
قرآن تو پورا کا پورا شرک ہے ۔ توحید تو ہمارے کلام میں ہے ۔
بحوالہ : الرسائل و المسائل ، ابن تیمیہ ، ج : 1 ، ص : 145

صوفیاء کرام ، ابن عربی کو شیخ اکبر کا خطاب دیتے ہیں اور اس کو اپنا مسجود مانتے ہیں ۔
فصوص الحکم ، ابن عربی کی تصنیف کردہ کتاب ہے جو ابن عربی کے باطل عقائد اور کفر و شرک کا مجموعہ ہے۔
ابن عربی رقمطراز ہے :
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اسے فصوص الحکم کتاب دی اور کہا : اسے لے کر لوگوں کے پاس نکلو ، وہ مستفید ہوں گے ۔ ابن عربی کہتا ہے :
ویسا ہی ہوا جیسا کہ نبی (ص) نے فرمایا تھا اور میرے خواب کی تعبیر مکمل ہو گئی ۔ اس کے بعد ابن عربی یوں خطاب کرتا ہے :
فمن اللہ ، فاسمعوا :: والی اللہ فارجعوا
بحوالہ : فصوص الحکم ، ص : 40 ، شرح بالی ، مطبوعہ 1309ھ ۔

اہلِ تصوف کا ایک اور پیشوا ابن عجیبہ فاطمی لکھتا ہے :
علمِ تصوف کے موسس و بانی خود نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) ہیں ، جن کو اللہ تعالیٰ نے تصوف کا علم بذریعہ الہام عطا کیا۔ جبریل علیہ السلام پہلے علمِ شریعت لے کر نازل ہوئے ، جب یہ علم مکمل ہو گیا تو دوسری بار علمِ حقیقت لے کر نازل ہوئے ۔ ان دونوں علوم سے الگ الگ قسم کے لوگ بہرہ ور ہوئے ۔ جس نے سب سے پہلے اس علم کا اظہار کیا وہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ ہیں ۔ آپ سے یہ علم حضرت حسن بصری نے حاصل کیا۔
بحوالہ : ایقاظ الھمم فی شرح الحکم ، ابن عجیبہ ، جلد 1 ، ص 5 ، مطبوعہ : 1913ھ ۔
اس قول میں علمِ حقیقت کے سب سے پہلے اظہار کا دعویٰ حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کی جانب کیا گیا ہے یعنی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ایک علم کو چھپایا ۔ کون سا علم ؟ صوفیاء کی زبان میں علمِ حقیقت !
کیا یہ کتمانِ علم کا نبیِ برحق پر کھلا الزام نہیں ؟ اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے تو علم چھپانے والوں کے متعلق ارشاد فرمایا ہے :
من کتم علماََ یعلمہ ایاہ الجم یوم القیامہ بلجام من نار
جو علم کو چھپائے گا تو قیامت کے دن اسے آگ کی لگام پہنائی جائے گی۔
(ابو داؤد ، ترمذی ، ابن ماجہ)

مذہبِ تصوف کے کا ایک اور عظیم پیشوا ابن فارض ( عمر بن ابی الحسین علی بن المرشد بن علی شرف الدین ، متوفی : 632ھ ) کو مانا جاتا ہے ۔ ابن فارض کے نزدیک خالق اور مخلوق ، رب اور بندہ ، اللہ اور ایک معدوم شئے میں کوئی فرق نہیں ۔ اللہ کی ذات تمام موجود اور غیر موجود اشیاء میں موجود ہے ، لہذا ایک معدوم شئے بھی اس کا رب ہے ۔ یعنی ابن فارض کا رب ایک جانور بھی ہے اور ایک بےجان پتھر بھی ، انسان بھی ہے اور جنات بھی ، ایک بت بھی ہے اور دل و دماغ میں پیدا ہونے والا وہم و گمان بھی ۔ فظری اور منطقی طور پر اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایک گناہگار جو گناہ کرتا ہے دراصل وہ گناہ نہیں کرتا بلکہ اس کی شکل میں خود اللہ گناہ کرتا ہے ، اس لیے کہ وہ انسان ہے اور انسان بھی عین اللہ ہے ۔ اسی طرح ایک بھیڑیا کسی جانور کا جب گوشت کھاتا ہے تو فی الواقع اس کی صورت میں اللہ اس جانور کاگوشت کھا رہا ہے ، کیونکہ مذہبِ تصوف میں حیوان بھی اللہ ہے ۔
(نعوذ باللہ من ذلک)
ابن فارض کے یہ گندے عقائد اس کی مشہور تصنیف " تائیہ " میں ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں ۔
ابن فارض خود کو ذاتِ الٰہی کہتے ہوئے نہیں شرماتا ۔ بلکہ آگے بڑھ کر اپنے عظیم صفات و کمالات میں یہ بھی اضافہ کرتا ہے کہ جتنے بھی پیغمبر وجود میں آئے وہ سب ابن فارض کی ذات تھی ۔ اسی طرح نوعِ انسانی کے بابائے اول حضرت آدم (ع) اور جن جن فرشتوں نے ان (ع) کو سجدہ کیا تھا وہ سب کے سب ابن فارض ہی کی ذات تھی ۔
وفی شھدت الساجدین لمظھری :: فحققت انی کنت آدم سجدتی
(ترجمہ : میں نے سجدہ کرنے والوں کو دیکھا کہ میرا سجدہ کر رہے ہیں ، تو یہ ثابت ہو گیا کہ میں ہی آدم تھا جس کو سجدہ کیا گیا )
اس شعر کی تشریح ، صوفیت کا ایک اور پیشوا قاشانی یوں کرتا ہے :
یعنی میں نے دیکھا کہ ملائکہ میرا سجدہ کر رہے ہیں ، لہذا مجھے معلوم ہو گیا کہ آدم کے سامنے فرشتوں نے جو سجدے کیے تھے ، وہ سجدے دراصل مجھے ہی کیے گئے تھے ۔ ملائکہ میرے سامنے سجدے کرتے ہیں اور وہ میری صفات میں سے ایک صفت رکھتے ہیں لہذا ہر سجدہ کرنے والا میری ہی صفت سے ہم آہنگ ہے جو میری ہی ذات کے لیے سجدہ ریز ہوتا ہے ۔
بحوالہ : کشف الوجوہ الغر ، شرح الدیوان کا حاشیہ ، جلد 2 ، ص 89 ، مطبوعہ 1310ھ ۔

(۔۔۔ جاری ہے !)
 

باذوق

محفلین
استہزائیہ انداز ۔۔۔ ؟

سید حسن نظامی نے کہا:
۔۔۔۔
کیا ہو گیا ہے آپ کو
کہاں بھٹک رہے ہیں
خدارا واپس آ جائیے ورنہ شاید ہمیشہ کے پچھتاوے کے علا وہ کچھ نہ ملے
اور میرا خیال ہے اس بحث کو بھی ختم کیجئے کیونکہ آپ سے کچھ جواب نہیں بن پڑ رہا ا
والسلام
حسن نظامی :
کیا ہو گیا ہے آپ کو
کہاں بھٹک رہے ہیں
خدارا واپس آ جائیے ورنہ شاید ہمیشہ کے پچھتاوے کے علا وہ کچھ نہ ملے

اس دھاگے میں سنجیدگی سے حصہ لینے والے شرکاء سے ادباََ عرض ہے کہ وہ برادر حسن نظامی کے درج بالا استہزائیہ انداز کا نوٹس لیں ۔
سنجیدہ مباحث میں اس طرح کے مذاق کا راقم الحروف عادی نہیں ہے !!
بہت شکریہ ۔
 

باذوق

محفلین
مجموعی فلسفہ ۔۔۔ ؟؟

سید حسن نظامی نے کہا:
حسن نظامی :
جو لفظ قرآن مجید یا احادیث نبوی میں موجود نہیں وہ غیر شرعی ہے
پھر تو بہت سی چیزیں اف میرا خیال ہے باذوق شاید
انٹرنیٹ یقینا غیر شرعی ہوا
جہاز غیر شرعی ہوا
اب عقل مند خود سوچتے رہیں گے کہ کیا کیا چیزیں اس کی زد میں آتی ہیں
خوب

دینی مباحث میں اہل علم کو اس طرح کے بچکانہ مغالطے دینے سے اب باز آ جانا چاہئے ۔
ہر وہ ذریعہ جس کو دین نہ تو سمجھا جاتا ہے اور نہ باور کرایا جاتا ہے ۔۔۔ وہ غیر شرعی یا بدعت نہیں ہوا کرتا ۔ ورنہ تو لوگ حج کو جانے کے لیے ہوائی جہاز کا استعمال یہ سوچ کر ہی نہ کریں کہ ہوائی جہاز کا استعمال بدعتی طریقہ ہے ۔
دین کے نام پر یا دین کے نام سے کسی بھی طریقے کو رواج دیا جائے تو اس کا ثبوت بھی قرآن ، حدیث یا اجماع صحابہ سے دیا جانا ضروری امر ہے ۔ اور یاد رہے ہر نیا طریقہ ’مجموعی طور پر‘ شریعت سے ثابت کرنا چاہئے ۔ یہ نہیں کہ آپ کچھ باتوں کو ثابت کردیں اور کچھ کو گول کر جائیں ۔
اگر ایسا ممکن ہوتا تو ایک ہندو بھی ہندوازم کی کچھ سچائیاں (مثلاََ : جھوٹ نہ بولنا ، انسان حیوان کو تکلیف نہ دینا ، ماں باپ کی خدمت کرنا وغیرہ وغیرہ ) قرآن و حدیث سے ثابت کر کے کہہ سکتا ہے کہ ہندوازم بھی شریعتِ اسلامی سے ثابت ہے ۔ اسی طرح ہر مذہب کا فرد اپنے اپنے مذہب کی حقانیت کا بآسانی دعویٰ کر سکتا ہے ۔
لہذا ثابت ہو گیا کہ : کسی بھی مذہب یا فلسفہ یا طریقہ کی چند انفرادی خوبیوں کو گنا کر مجموعی فلسفے کو بطورِ دینِ حق پیش نہیں کیا جا سکتا ۔
اور ۔۔۔
کسی بھی فلسفے کی کچھ خوبیوں کو اگر قرآن یا حدیث یا اجماعِ صحابہ سے ثابت کیا بھی جائے تو یہ خوبیاں اس فلسفے کی نہیں بلکہ شریعتِ اسلامی کی خوبیاں مانی جائیں گی ۔۔۔ ان خوبیوں کا کریڈٹ ، متذکرہ فلسفہ کو دینا گویا کوے کو سفید کہنا یا دودھ کو کالا کہنا ہوگا !!
 

حسن نظامی

لائبریرین
محترم آپ نے جن غیر معروف لوگوں کے نام لئے اور انہیں اہل تصوف کا امام کہا

ذرا وضاحت فرمائیں کہ یہ کس سلسلہ تصوف سے تعلق رکھتے ہیں

چشتیہ قادریہ سہروردیہ ،نظامیہ ،نقشبندیہ ،وغیرہ سلاسل تصوف کے شجرہ ہائے طریقت موجود ہیں ذرا آپ یہ بتائیے گا کہ ابن فارض ،ابن عجیبہ فاطمی ،تلسمانی ،شعرانی وغیرہ کے اسماء کون سے سلسلہ تصوف کے شجرہ میں موجود ہیں ؟

تصوف سراسر اصلاح و تزکیہ نفس اور تصفیہ اخلاق کا عملی طریقہ ہے جس میں عبادات اور ریاضات پر زور دیا جاتا ہے اور خواہشات نفسانی کو دبانے کے عملی طریقے اختیار کئے جاتے ہیں

جبکہ فلسفیانہ موشگافیوں کا تعلق عمل سے نہیں بلکہ علم کلام سے ہے آپ تصوف کے عملی لائحہ عمل کو فلسفہ و کلام سے گڈ مڈ نہ کریں

تمام مشہور سلسلہ ہائے تصوف کے شجرہ ہائے طریقت میں شامل بزرگان دین اور اکابر کی زندگیاں آپ کے سامنے ہیں اور ان کے افکار بھی

حضرت خواجہ حسن بصری ،خواجہ عبدالواحد بن زید ، خواجہ فضیل ابن عیاض ، خواجہ ابراہیم بن ادہم ،خواجہ حذیفہ مرعشی ،خواجہ بوہبیرہ البصری ،خواجہ ممشاد علو دینوری ،شیخ بو اسحق شامی ،خواجہ احمد ابدال چشتی وغیرہ علی ھذا القیاس
ان کے افکار و اعمال کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں
 

حسن نظامی

لائبریرین
خرم
قرب الٰہی کے لئے کچھ عرصہ دنیا والوں سے اور دنیا سے دور جا کر گزارنا تو سنتِ نبوی صل اللہ علیہ وسلم ہے

باذوق
اس سنتِ نبوی (ص) کی کسی صحیح حدیث سے دلیل دے دی جائے تو بہت مناسب رہے گا ۔

حضرت مریم کی گوشہ نشینی ،موسی علیہ السلام کا چالیس شب وروز کوہ طور پر قیام اور ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اکثر و بیشتر کئی کئی ایام تک غار حرا میں شب و روز قیام جن کے ثبوت سابقہ پوسٹ میں قرآن و سنت سے ثابت کر دیئے گئے ہیں

کیا اب یہ مسئلہ طے ہو گیا ہے کہ :
قرب الٰہی کے لئے کچھ عرصہ دنیا والوں سے اور دنیا سے دور جا کر گزارنا تو سنتِ نبوی صل اللہ علیہ وسلم ہے

یا کچھ اطمینان مزید درکار ہے ؟

کیونکہ یہ ضروری ہے کہ اس مباحثہ میں جو جو امور منطقی نتیجے تک پہنچتے جائیں ان کی نشاندہی ہوتی جائے بصورت دیگر خلط مبحث کا امکان ہے اور علمی مباحثہ ایک غیر علمی اور بے نتیجہ شورو غوغا میں تبدیل ہو جائے گا
اس فورم پر آنے والے تمام اراکین سے بھی گذارش ہے کہ وہ جو مسئلہ کسی منطقی حل تک پہنچ جائے اس کی نشاندہی کرتے جائیں
 

خرم

محفلین
باذوق بھائی آپ نے پہلی دفعہ کچھ کھل کر بات کی مگر اس میں بھی زیادہ تر مخصوص افراد کے نظریات کو بیان کیا تصوف یا طریقت کے اجتماعی نظریہ پر آپ کے اعتراضات جاننے کی تشنگی برقرار رہی۔ چلئے اب ان نکات پر بات کئے دیتے ہیں جو آپ نے اٹھائے ہیں۔
1۔سب سے پہلے تو رہبانیت کی بات، میرے مؤقف کو حسن بھائی نے کمال حسن سے بیان فرما دیا ہے اور میرے خیال میں تو اس میں اب کوئی ابہام نہیں رہ جانا چاہئے کہ صوفیاء کا ترک دنیا محدود اور اس سنتِ نبوی کی پیروی میں ہوتا ہے جب آقائے نامدار صل اللہ علیہ والہ وسلم غارِ حرا میں قیام پذیر رہے تھے۔
2۔ آپ نے فرمایا کہ حضرت اویس قرنی، حضرت فضیل بن عیاض، حضرت بایزید بسطامی، حضرت جنید بغدادی اور پیرانِ پیر حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحم اللہ علیہم نے خود کو کبھی تصوف نامی کسی مذہب سے نہیں جوڑا اور ان کی تمام تر زندگی قرآن و سنت سے عبارت تھی۔ بالکل بجا ارشاد ہے۔ مگر میرے بھائی یہ کس نے اور کب کہا کہ تصوف کوئی نیا مذہب ہے؟ تصوف تو سابقون الاولون کی حقیقت اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کا نام ہے ایک الگ مذہب تو نہیں جیسا آپ نے بیان فرمایا۔ اگر کوئی وضاحت یا ثبوت پیش کر دیا جاتا کہ فلاں نے تصوف کو ایک الگ مذہب بتایا اور اس کے فلاں فلاں عقائد و عبادات استوار کیے تو بات ثابت ہو جاتی۔ صرف اپنے قیاس پر اتنا بڑا الزام لگانا آپ کو زیب نہیں‌دیتا۔ دوسری بات یہ کہ تمام سلاسلِ طریقت انہیں اولیائے کرام کی فیوض کے امین اور حامل ہیں اور آپ سے بڑھ کر یہ بات کون جانتا ہوگا کہ دین میں نسبت کا معیار عمل ہے سو اگر کوئی اپنے آپ کو ان اولیاء کا پیروکار کہتا ہے اور ان کے طریق کے برعکس عمل کرتا ہے تو اس شخص‌کے عمل کو اس طریق کے عمل کا آئینہ دار نہیں سمجھا جا سکتا۔
3۔ ایک اور دعوٰی آپ نے کیا کہ اہالیان تصوف نے اپنے عقائد کے لئے دوسرے مذاہب کا سہارا لیا۔ یہ دعوٰی پھر آپ سے ثبوت کا تقاضا کرتا ہے۔
4۔ حضرت شیخ الاکبرؒ کے ایک بیان کا حوالہ دیا گیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے انہیں خواب میں ایک کتاب عطا کی اور فرمایا کہ اسے لیکر لوگوں کے پاس نکلو ، وہ اس سے مستفید ہوں گے اور ویسا ہی ہوا جیسا کہ آقائے نامدارﷺ نے فرمایا تھا۔ اس میں اعتراض کی بات کیا ہے؟ کیا خواب میں زیارتِ نبوی ﷺ پر اعتراض ہے یا بیانِ نبویﷺ کی سچائی پر ؟ اور اگر کوئی اللہ کا پیغام لوگوں کو بتاتا ہے اور کہتا ہے کہ میں اللہ کی بات کہتا ہوں میری بات سنو اور اللہ کا قرب حاصل کرنے کیلئے میری بات سنو تو اس میں کیا غلط ہے؟ تمام فقہاء، علماء، خطباء یہی بات نہیں کہتے؟
5۔ علمِ حقیقت کے اظہار کے بارے میں آپ نے پھر ایک بیان کو توڑ مروڑ کر پیش فرما دیا۔ جب یہ کہ دیا گیا کہ اس علم کو سرکارِ دوجہاںﷺ نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو سب سے پہلے سکھایا تو اس میں علم چھپانے کا رد تو خود ہی ہو گیا۔ آپ نے بلاوجہ اتنا بڑا الزام لگا دیا۔ اتنی بڑی بات سرکارؐ کے متعلق کہنے یا کسی سے بھی منسوب کرنا بہت بڑی ناانصافی ہے۔ باقی یہ بات تو ثابت ہے کہ علمِ نبویﷺ سے تمام اصحابِ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اپنے ظرف و طلب کے مطابق استفادہ کیا اور ایسا نہیں تھا کہ تمام صحابہ کرامؓ کا علم ایک جیسا یا ایک جتنا تھا اور نہ ہی تمام اصحاب کو ایک جیسی تعلیم دی گئی تھی (یہاں میری مراد علوم لدنیہ سے ہے)۔ ثبوت کے طور پر صرف اتنا ہی کہوں گا کہ اصحاب کرام بھی اپنے معاملات میں قرآن سے رہنمائی کے لیے حضرات ابن عباسؓ اور عبد اللہ ابن مسعودؓ کے پاس آیا کرتے تھے کہ ان دونوں اصحاب کو قرآن اور اس میں پو شیدہ حکمتوں کا علمِ خاص بارگاہِ نبویؐ سے عطا ہوا تھا اور ان میں بھی حضرت ابن عباسؓ کا مرتبہ بلند تھا۔
6۔ ابن فارض کے جو نظریات آپ نے بیان کئے ہیں وہ فلسفہ وحدت الوجود کے زمرہ میں آتے ہیں اور مجھے یہ بھی علم نہیں کہ وہ واقعی کسی سلسلہ میں شامل بھی تھے یا صرف اپنے قیاس پر آپ نے انہیں صوفی گردانا ہے۔ علاوہ ازیں میں کیونکہ اس فلسفہ کا معتقد نہیں ہوں اس لئے اس کے بارے میں بات نہیں کر سکتا، ہاں جس شعر کی آپ نے بات کی ہے اس کا میرے فہم کے مطابق تو یہ مفہوم بنتا ہے کہ فرشتوں نے حضرت آدم ؑ کی ذات کو ہی نہیں بلکہ تمام انسانیت کو بطورِ خلیفۂ خدا سجدہ کیا تھا۔ یہ بات تو کوئی اچنبھا نہیں ہے کہ انسان کو مسجود ملائک تو عموماً کہا ہی جاتا ہے۔
7۔ آخری بات جو عرض کرنا چاہوں گا وہ یہ کہ ہر شخص جو اپنے آپ کو صوفی کہے وہ صوفی نہیں ہوتا۔ صوفی کا ہر عمل اگر اپنی دلیل قرآن، سنتِ نبویؐ یا عمل صحابہ سے نہیں لاتا تو نا وہ صوفی ہے اور نہ اس کے اعمال کا طریقت سے کوئی تعلق ہے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
منطقی سوالات ۔۔۔

اس سارے دھاگے کو میں نے ابھی تک بغور دیکھا ہے۔ دونوں اطراف سے بہت احسن طریقے سے ایک دوسرے کی گفتگو کی تصدیق اور تردید کی جاتی رہی ہے اور اس سلسلے میں‌ دلائل بھی دیئے جاتے رہے ہیں۔ لیکن اب اس بحث کا ایک جگہ پر آ کر تھم جانا، کافی عجیب لگ رہا ہے۔ یعنی اب تک ایک دوسرے کی ہر بات کا جواب ملتا رہا ہے۔ یہاں‌ باذوق بھائی کا یہ نکتہ تشنہ رہ گیا ہے۔

باذوق نے کہا:
بلکہ یہ ہے کہ : دینِ اسلام میں وہ کیا کمی تھی کہ ایک علحدہ فلسفہ یا نظریہ ایجاد کرنا ضروری سمجھا گیا ؟ اگر دینِ طریقت ( یا تصوف) پورا کا پورا وہی ہے جو قرآن و حدیث میں درج ہے تو اس کو دینِ اسلام ہی کہا جائے گا ، کوئی دوسرا نام دینے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی ۔

ورنہ میری رائے میں تو یہ بحث یہاں آکر تھم جاتی ہے۔ چونکہ ابھی حسن نظامی اور خرم اس میں حصہ لے رہے ہیں، لہٰذا ان سے درخواست ہے کہ اس نکتے کی وضاحت کریں تو بحث کا لطف باقی رہے

حسن نظامی، باذوق بھائی سے بات کرتے ہوئے آپ کے والد محترم نے طنزیہ لہجہ اختیار نہیں کیا، آپ بھی اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اس کا خیال رکھیئے گا
 

حسن نظامی

لائبریرین
السلام علیکم ساتھیو میں اب تک ہونے والے مباحثہ
سے اخذ کئے گئے چند نکات

کہ اس دھاگے کو شروع کرنے والے باذوق صاحب ہیں
اور انہوں نے محب علوی صاحب کی کوٹیشن لی

1 آپ نے آتے ساتھ ہی دس کتابوں کے نام بتائے جو تصوف کے رد میں ہیں جن کے نام انہوں نے ابھی تک جناب علوی صاحب کو نہیں بتائے
2: باذوق صاحب نے اقبال کا ایک فقرہ کوٹ کر کے کہ تصوف سرزمین اسلام پر ایک اجنبی پودا ہے شاکر القادری صاحب کو خطاب کیا کہ آپ کچھ کہیں
3:اب تک اس مباحثہ میں سنجیدہ شخصیات جناب خرم صاحب ، جناب باذوق صاحب اور جناب شاکرالقادری صاحب نظر آتے ہیں
4: ماہ وش اور رضا صاحب ذرا جذباتی ہیں اور کچھ عجیب و غریب کہہ جاتے ہیں
5 اب تک باذوق صاحب کا کوئی خاص نقطہ واضح نہیں ہوا وہ کہتے ہیں کہ میں عنقریب واضح کروں گا مگر ابھی تک نہیں کیا
6:باذوق صاحب اقبال کے اپنے ہی کہے ہوئے قول کو کچھ یوں رد کر رہے ہیں

اور جہاں تک علامہ اقبال کے قول کا معاملہ ہے ۔۔۔ تو یہ کسی نے نہیں کہا کہ علامہ اقبال کا یہ قول قرآن و حدیث کی سو فیصد ترجمانی ہے ۔ آپ اور ہم اس قول کو ردّ کرنے کے لیے آزاد ہیں ، اور ردّ کرنے سے ہمارے دینی جذبے پر کوئی حرف نہیں آ جاتا

1:اب تک باذوق صاحب بلا مبالغہ بضد ہیں کہ لفظ تصوف کو ثابت کیا جائے

2:اور دوسرے لوگوں نے اب تک لفظ تصوف کو قرآن سے ثابت نہیں کیا

3:اب تک کی بحث سے یہ معلوم پڑتا ہے کہ باذوق صاحب کے نزدیک تصوف اس لئے غیر شرعی ہے کہ اس لفظ کا وجود قرآن و حدیث میں موجود نہیں

4:یا اس لئے غیر شرعی ہے کہ اسلام کے ہوتے ہوئے اس ایک اور طریقہ کو رائج کرنے کی ضرورت نہیں اور یہ سب کچھ اسلام میں موجود ہے اس لئے اس کو کوئی نیا نام نہیں دینا چاہئے نیا نام دیا گیا ہے اس لئے یہ غیر اسلام ہے

5:وہ کہتے ہیں کہ بعض اہل تصوف جیسے انہوں نے اپنی پوسٹ میں ابن رافض ،فاطمی تلسمانی شعرانی محی الدین ابن عربی وغیرہ کا حوالہ دیا کہ یہ ملحد اور غلط قسم کے لوگ ہیں جن کو اہل تصوف اپنا امام کہتے ہیں

6:وہ کہتے ہیں کہ یہ رہبانیت ہے اور رہبانیت اسلام میں منع ہے اس لئے یہ غیر شرعی طریقہ ہے

جبکہ دوسرے گروہ کا کہنا ہے کہ اہل تصوف کا کوئی بھی عمل ایسا نہیں جو غیر اسلامی ہو

تصو ف عین اسلامی طریقہ ہے
او ر ان کے نزدیک کسی لفظ کا قرآن و حدیث سے ثابت ہونا ضروری نہیں بلکہ اس طریقہ کا قرآن و سنت کے موافق ہونا ضروری ہے
اور وہ باذوق سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ تصوف کی جو جو تعریف کی گئی ہے اس میں سے غیر شرعی تعریف کی تعیین کریں
وہ کہتے ہیں کہ دراصل تصوف ایک اسلامی طریقہ ہے اور اہل تصوف ہمیشہ دین اسلامی پر سختی سے کاربند رہے ہیں
ان کے نزدیک رہبانیت اور نفس کشی میں فرق ہے

یہ تو باذوق صاحب نے بھی تسلیم کیا ہے کہ صوفیاء پابند شریعت تھے یہ متقدمین صوفیاء کے بارے میں انہوں نے کہا مثلا حسن بصری وغیرہم

اب اگر دیکھا جائے تو بحث کا کچھ سر پیر متعین ہوتا ہے

باذوق صاحب نے ابھی تک وضاحت سے اور کھل کر یہ نہیں کہا کہ اہل تصوف کا طریقہ غلط ہے
وہ یہی کہہ رہے ہیں کہ بھئی اسلام کے ہوتے ہوئے ایک اور نام دینے کی ضرور ت نہیں

لیکن پھر اس نام دی گئی چیز کو قرآن وسنت کے خلاف کہہ رہے ہیں

وہ دراصل یہ سمجھ رہے ہیں کہ تمام تر تصوف کی بنیاد ابن عربی اور ابن رافض اور ابن عجمیہ فاطمی اور شعرانی اور تلسمانی کے عقائد پر ہے حالانکہ ایسا نہیں


اب اس بحث کے بعد
شاکرالقادری صاحب اور میری بیان کردہ تصوف کی تعریف پر کسی قسم کا کوئی اعتراض سامنے نہیں آیا اور نہ ہی آسکتا ہے
باذوق نے یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ نفس کشی عین اسلام ہے اور رہبانیت اور نفس کشی میں فرق ہے
انہوں نے یہ بھی تسلیم کر لیا کہ
اقبال کے شعر کو رد بھی کیا جا سکتا ہے
وہ یہ بھی مان گئے کہ میں مکمل طور پر تصوف کا رد نہیں کر رہا

اب باقی نتیجہ اور وضاحت میں
محب علوی صاحب پر چھوڑتا ہوں جو خود تقریبا بھاگ گئے ہیں
حالانکہ آگ تو انہی کی لگائی ہوئی تھی
والسلام
 

حسن نظامی

لائبریرین
برادرم قیصرانی
بس تھوڑا لہجہ کڑوا ہو گیا اس کے لئے میں معذرت چاہتا ہوں
ویسے باذوق میرے انکل ہیں اور ان کی میں عزت کرتا ہوں وہ الگ بات ہے کہ ان کو ان کے سٹائل سے تھوڑا ملنا پڑتا ہے
اصل نقطہ یہی ہے
کہ کیا ایک نئے نام کی وجہ سے ہم اس طریقہ کو غلط کہیں گے
میں یہی کہنا چاہتا ہوں
کہ اسلام ایک کامل ضابطہ حیات ہے
اس کی مختلف شاخیں ہیں
ایمان کے مختلف شعبے اور درجے ہیں
مثلا وہ حدیث کہ
ایمان کے ستر اور کچھ شعبے اور حیاء ایمان کا شعبہ ہے
اور
اگر تم کسی برائی کو دیکھو تو اسے قوت سے روکو اگر اس کی طاقت نہ رکھتے ہو تو زبان سے ورنہ دل میں برا خیال کرو اور یہ ایمان کا کمزور درجہ ہے
اسی طرح ایک احسان بھی ہے
اللہ تعالی نے قرآن مجید میں بھی یہ درجہ بندی فرمائی ہے
کئی جگہوں پر
بعض لوگ ایمان میں بعض لوگوں سے زیادہ راسخ ہیں
اور بعض لوگ اللہ تعالی سے شدید محبت کرنے والے ہوتے ہیں
عام دنیا میں ہی دیکھ لیں
کچھ وہ ہیں جو نماز نہیں پڑھتے کچھ وہ ہیں جو بس فرض سمجھ کر پڑھتے ہیں اور ایسے بھی ملیں گے جو اللہ کی رضا کے لئے نوافل اور تہجد پڑھتے ہیں
تصوف یا احسان
بھی ایک اصطلاح ہے اور اس کی اصل
مشکوۃ شریف کی مشہو ر حدیث حدیث جبرائیل ہے

نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
احسان یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت کرو ایسےجیسے تم اسے دیکھ رہے ہو اگریوں نہ کر سکو تو یوں کرو جیسے وہ تمہیں دیکھ رہا ہے
یہ ایمان کا وہ درجہ ہے جہاں عبادت اور ریاضت اس حد تک کی جاتی ہے کہ اللہ تعالی بے حد خوش ہوتے ہیں اور اپنے اس بندے کو بعض خصوصی انعامات سے نوازتے ہیں
جن میں مستجاب الدعوات ہونا ،کرامات وغیرہ عطا ہونا شامل ہے
اور یہ لوگ اللہ تعالی کے خاص مقرب ہوتے ہیں
اب رہی یہ بات کہ
یہ ضرورت کیوں پیش آئی تو اس کی تو کئی توجیہات کی جاتی ہیں جو والد محترم کے مضمون تصوف کی لغوی بحث میں پڑھ سکتے ہیں
میرے خیال میں تو کوئی حرج نہیں ہے
 

خرم

محفلین
منطقی سوالات ۔۔۔

قیصرانی نے کہا:
اس سارے دھاگے کو میں نے ابھی تک بغور دیکھا ہے۔ دونوں اطراف سے بہت احسن طریقے سے ایک دوسرے کی گفتگو کی تصدیق اور تردید کی جاتی رہی ہے اور اس سلسلے میں‌ دلائل بھی دیئے جاتے رہے ہیں۔ لیکن اب اس بحث کا ایک جگہ پر آ کر تھم جانا، کافی عجیب لگ رہا ہے۔ یعنی اب تک ایک دوسرے کی ہر بات کا جواب ملتا رہا ہے۔ یہاں‌ باذوق بھائی کا یہ نکتہ تشنہ رہ گیا ہے۔

باذوق نے کہا:
بلکہ یہ ہے کہ : دینِ اسلام میں وہ کیا کمی تھی کہ ایک علحدہ فلسفہ یا نظریہ ایجاد کرنا ضروری سمجھا گیا ؟ اگر دینِ طریقت ( یا تصوف) پورا کا پورا وہی ہے جو قرآن و حدیث میں درج ہے تو اس کو دینِ اسلام ہی کہا جائے گا ، کوئی دوسرا نام دینے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی ۔

ورنہ میری رائے میں تو یہ بحث یہاں آکر تھم جاتی ہے۔ چونکہ ابھی حسن نظامی اور خرم اس میں حصہ لے رہے ہیں، لہٰذا ان سے درخواست ہے کہ اس نکتے کی وضاحت کریں تو بحث کا لطف باقی رہے

حسن نظامی، باذوق بھائی سے بات کرتے ہوئے آپ کے والد محترم نے طنزیہ لہجہ اختیار نہیں کیا، آپ بھی اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اس کا خیال رکھیئے گا

قیصرانی بھائی یہی تو بات ہے۔ کب اور کس نے کہا کہ تصوف یا طریقت اسلام سے علٰیحدہ کوئی نظریہ ہے؟ یہ تو دین پر عمل کرنے کا ہی نام ہے۔ اپنے قلوب و اعمال کو صرف اور صرف اللہ کے لئے خالص کرنے کی کوشش کا نام تصوف ہے اور بس۔
 

قیصرانی

لائبریرین
اگر تصوف عین اسلام ہے تو پھر اس کا اسلام ہی رہنے دیں۔ تصوف کا نام لینے کی کیا ضرورت؟ ہر وہ بندہ جو سچا اور پکا مسلمان ہو وہ صوفی ہوگا۔ ہے کہ نہیں؟

دوسرا حسن نظامی، لہجہ کڑوا میرا یا باذوق بھائی کا ہو سکتا ہے، آپ تو جن کا نام لیتے ہیں، یعنی اہل تصوف کا، کیا یہ لہجہ ان کی حمایت میں‌ ضروری ہے؟ یا ان کے لئے پسندیدہ ہے؟

تیسرا، جہاں تک بات کہی گئی ہے کہ برائی کو جہاں‌ دیکھو، اسے طاقت سے روکو، ورنہ زبان سے ورنہ دل سے برا چاہو، تو اس سلسلے میں میں دو باتیں عرض کروں‌ گا۔ پہلی یہ کہ جہاں تک میں اس کا مفہوم سمجھا ہوں، یہ برائی اگر آپ کی ذمہ داری کی حدود میں‌ ہو، یعنی باپ ہے تو گھر کے اندر، شہر کا حاکم ہے تو شہر کے اندر اور اگر ملک کا حاکم ہے تو ملک کے اندر۔ دوسری بات اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ ایسا نہیں، جہاں برائی دیکھو اسے طاقت سے روکو، یا زبان سے برا کہو یا پھر اسے دل سے برا جانو، تو اہل تصوف کی جو مثالیں آپ نے دی ہیں، ان میں سے کتنوں نے طاقت سے برائی کو روکا، کتنوں‌ نے زبان سے اور کتنوں نے اسے دل سے برا جانا؟

اولیائے کرام نمبر، سیارہ ڈائجسٹ کی پیشکش تھی، کئی جلدوں پر محیط ہے۔ اس کے ایک واقعے کی نقل کروں‌گا (الفاظ اپنے ہیں، کیونکہ بہت سال پہلے پڑھا تھا)

ایک بہت غصہ والے بزرگ تھے۔ انہیں کسی جگہ کی ولایت کے لئے مرشد نے فرمان دیا۔ اس فرمان پر ایک اور بزرگ کے دستخط درکار تھے۔ وہ اس بزرگ کے پاس گئے۔ بزرگ جانتے تھے کہ یہ صاحب بہت غصہ والے ہیں۔ ان کو فرمان نہیں‌ دینا۔ انہوں نے کہا کہ رات بہت ہو گئی ہے۔ ابھی بہت اندھیرا ہے۔ کل دن کی روشنی میں فرمان پر دستخط کر دوں گا۔ غصہ والے بزرگ نے فوراً اپنی انگلی پر پھونک ماری اور وہ روشن ہو گئی۔ دوسرے بزرگ نے فوراً فرمان پھاڑ ڈالا اور کہا کہ تمہیں اتنی جلدی ہے۔ جاؤ ہم نہیں‌ دیتے۔ غصہ والے بزرگ نے فرمایا کہ تم نے ہمارے مرشد کا فرمان پھاڑا، ہم نے تمہاری نسل سے ولایت چھینی۔ ان بزرگوں کا تذکرہ بطور صوفی اور ولی کے کیا گیا تھا

مجھے تو کم از کم یہ واقعہ پڑھ کر بہت ہنسی آئی
 

خرم

محفلین
قیصرانی بھائی بالکل تصوف نام ہے پکا اور سچا مؤمن بننے کا اور ہر پکا سچا مؤمن جس کا قلب و عمل صرف اور صرف اللہ کی رضا سے پیوست ہوگا صوفی کہلائے گا‌‌‌‌‌۔ تصوف الگ سے کوئی نظریہ نہیں اپنی زندگی میں اسی حقیقت کو پیدا کرنےکی کوشش کا نام ہے جو حقیقت اصحاب رسول صل اللہ علیہ وسلم میں تھی۔

ایک سوال پوچھنا ہے، اکثر اوقات لکھتے لکھتے سب کچھ غائب ہو جاتا ہے پیڈ پر سے۔ یہ مسئلہ صرف مجھے درپیش ہے کیا؟‌‌
 

قیصرانی

لائبریرین
میرے ساتھ کچھ ایسا ہوتا ہے کہ جب لکھتے لکھتے غلطی سے کی بورڈ پر موجود ماؤس رائٹ کلک والا بٹن دب جائے اور اس کے بعد اے کا بٹن، تو اس سے یہ ہوتا ہے کہ ماؤس رائٹ کلک والا مینیو کھلتا ہے اور اے کے بٹن سے سیلیکٹ آل ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد جب اگلا کوئی لفظ لکھا تو سب صاف۔ کیا آپ کی طرف بھی ایسے ہی ہوتا ہے؟
 

نبیل

تکنیکی معاون
خرم، یہ ویب پیڈ کا کوئی بگ ہے۔ ایسا ہونے کی صورت میں فوراً ctrl+z کے ذریعے undo کر لیا کریں۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
السلام علیکم،

ایک تجویز کئی مرتبہ سامنے آ چکی ہے کہ مباحثات کو موضوع پر رکھنے کی خاطر تھریڈز کو مخصوص فریقین تک محدود کر دیا جانا چاہیے، ورنہ ہر کوئی بیچ میں کود کر اس بحث کا حلیہ بگاڑ دیتا ہے۔ ایسا ہی اس تھریڈ میں بھی ہوتا نظر آ رہا ہے۔ میں مذکورہ تجویز کی مخالفت کرتا آیا ہوں کیونکہ مجھے یہ بطور ماڈریشن پریکٹس کے پسند نہیں ہے لیکن اس کی افادیت سے انکار نہیں کرتا۔ کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ کم از کم اس تھریڈ پر صرف انہیں بات آگے بڑھانے کا موقع دیا جائے جنہوں نے اس کا آغاز کیا تھا؟ غیر سنجیدہ باتوں یا مذاق کے لیے کوئی اور تھریڈ شروع کیا جا سکتا ہے۔

والسلام
 
Top