اسلامی عقیدہ ( محمد بن جمیل زینو)

شکیل احمد

محفلین
کتاب وسنت پر عمل
س۱:- الله تعالیٰ نے قرآن مجید کو کیوں نازل فرمایا؟
ج۱:- تاکہ اس کی تعلیمات پر عمل کیا جائے ۔ بدلیل:
فرمان الٰہی:- اتَّبِعُوْا مَا أُنْزِلَ اِلَیْکُمْ مِنْ رَبِّکُمْ ۔ (اعراف:۳)
لوگو! جو کچھ تمہارے رب کی طر ف سے تمہاری طرف نازل کیا گیا ہے اس کی پیروی کرو۔ ودلیل :
حدیث نبوی:- اقرأوٴا القراٰن واعملوا بہ ولا تأکلوا بہ۔ (صحیح ،احمد)
قرآن پڑھواور اس پر عمل کرو ،اور اسے ذریعہ معاش نہ بناوٴ۔
س۲:- لوگوں کے لیے قرآن نے سب سے اہم کون سی چیز کو بیان کیا ہے ؟
ج۲:- قرآن کی بیان کروہ سب سے اہم چیز خالقِ کائنات کی معرفت ہے ،(جو نعمتوں سے نوازتا ہے ،تن تنہا عبادت کا مستحق ہے) نیز ان مشرکین کی تردید ہے ،جو اپنے اولیاء کے بت بناکر انہیں پکارتے تھے۔
فرمان الٰہی:- قُلْ اِنَّمَا اَدْعُوا رَبِّی وَلَا اُشْرِکُ بِہ أَحَدًا ۔ (جن:۲۰)
اے نبی: کہو کہ ”میں تو اپنے رب کو پکارتا ہوں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا“۔
س۳:- تلاوت قرآن کی غرض وغایت کیا ہے؟
ج۳:- ہم قرآن کی تلاوت اس لیے کرتے ہیں تاکہ اسے سمجھیں ،اس میں غور وفکر کریں ،اور اس پر عمل کریں ۔ بدلیل:
فرمان الٰہی:- کِتَٰبٌ أَنْزَلْنَٰہُ مُبَٰرَکٌ لِّیَدَّبَّرُوٓا ءَ ایَٰتِہ وَلِیَتَذَکَّرَ أُوْلُوا الأَلْبَٰبِ ۔ (سورةص:۲۹)
یہ ایک بڑی برکت والی کتاب ہے جو (اے نبی )ہم نے تمہاری طرف نازل کی ہے تاکہ یہ لوگ اس کی آیات پر غور کریں اور عقل وفکر رکھنے والے اس سے سبق لیں حضرت علی رضی الله عنہ سے مرفوعا وموقوفا ضعیف سند سے مروی ہے لیکن معنی صحیح ہے اور وہ درج ذیل فرمان نبوی ہے ۔
ألا انہا ستکون فتن قلت وما المخرج منھا؟ قال کتاب الله ، فیہ نبأما قبلکم وخبر بعدکم وحکم ما بینکم ھو الفصل لیس بالہزل ، وھوالذی من ترکہ من جبار قصمہ الله ومن ابتغی الھدی بغیرہ أضلہ الله ، فھو حبل الله المتین وھوالذکر الحکیم وھوالصراط الستقیم وھوالذی لاتزیغ بہ الأھواء ولا تلبس بہ الألسن ، ولا یشبع منہ العلماء ، ولا یخلق عن کثرة الرد ولا تنقضی عجائبہ وھوالذی لم ینتہ الجن اذ سمعتہ أن قالوا : اِنَّا سَمِعْنَا قُراٰنًا عَجَبًا۔(جن:۱)
(آپ نے فرمایا ) خبردار! آگے چل کر بہت سے فتنے کھڑے ہونگے میں نے کہا ،ان سے ذریعہ نجات کیا ہوگا ،آپ نے فرمایا ،الله کی کتاب اس میں متقدمین ومتاخرین کی خبریں ہیں ،تمہارے معاملات کے فیصلے ہیں،وہ فیصلہ کن ہے ،خلاف حقیقت نہیں ،جس جابر وظالم نے اسے چھوڑا ،اسے الله نے برباد کردیا ،جس نے غیر قرآن سے ہدایت چاہی ،اسے الله تعالیٰ نے گمراہ کردیا،وہ الله کی مضبوط رسی ہے ،حکمتوں سے پرنصیحت ہے وہی صراط مستقیم ہے ،اسی کے ذریعہ خواہشات بہکتیں نہیں ،زبانیں بآسانی اسے پڑھ لیتی ہیں ،علماء اس سے بیزا ر نہیں ہوتے ،باربار دہرانے سے پرانی نہیں ہوتی ،اس کے عجائبات نہیں ختم ہونگے ‘وہی ہے جسے سن کرجنات یہ کہنے سے باز نہیں رہے اِنَّا سَمِعْنَا قُراٰنًا عَجَبًا۔(جن:۱)“ہم نے ایک عجیب قرآن سنا ہے ،جس نے قرآن کی روشنی میں کوئی بات کہی ،سچ کہا ،جس نے اس کے ذریعہ فیصلہ کیا ،انصاف کیا جس نے اس پر عمل کیا مستحق اجر ہوا جس نے اس کی جانب دعوت دی ،صراط مستقیم کو پالیا۔
س۴:- قرآن مجید زندوں کے لیے ہے یا مُردوں کے لیے ؟
ج۴:- الله تعالیٰ نے قرآن مجید کو مُردوں کے بجائے زندوں کے لیے نازل فرمایا ہے تاکہ اپنی زندگی میں اس پر عمل کریں ،اس لیے کہ مُردوں کے اعمال منقطع ہوجاتے ہیں وہ اسے پڑھ نہیں سکتے ،نہ عمل کرسکتے ہیں اور اگر ان کے لیے قرآن مجید کی تلاوت کی جائے ،تو اس کا ثواب بھی نہیں ملے گا ،ہاں اگر پڑھنے والا مُردے کا لڑکا ہو تو دوسری بات ہے ،اس لیے کہ لڑکا باپ کی کوشش کا نتیجہ ہوتا ہے۔
قرآن مجید کے بارے میں فرمان الٰہی ہے:
لِّیَنْذِرَ مَنْ کَانَ حَیًّا وَ یَحِقَّ القَوْلُ عَلَی الکَٰفِرِیْنَ ۔ (یٰسٓ)
تاکہ وہ ہر اس شخص کو خبردار کردے جو زندہ ہو اور انکار کرنے والوں پرحجت قائم ہوجائے َ بدلیل:
فرمان الٰہی:- وَأَنَّ لَیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعَیٰ ۔ (نجم :۳۹)
اور یہ کہ انسان کیلئے کچھ نہیں ہے ،مگر وہ جس کی اس نے کوشش کی ہے امام شافعی رحمہ الله نے اس آیات سے یہ مسئلہ استنباط کیا ہے کہ مردوں کو قرآن خوانی کا ثواب نہیں ملے گا ، اس لیے کہ وہ نہ تو ان کا عمل ہے اور نہ ہی ان کی کمائی۔ دلیل:
حدیث نبوی:- اِذا مات الانسان انقطع عملہ الا من ثلاث صدقة جاریة أو علم ینتفع بہ أو ولد صالح یدعو لہ ۔
جب انسان مرجاتاہے تو تین چیزوں کو چھوڑ کر اس کے اعمال کا سلسلہ ختم ہوجاتا ہے ۔صدقہ جاریہ یا نفع بخش علم یا نیک لڑکا جو باپ کیلئے دعاء کرے۔ (مسلم)
رہی میت کیلئے دعاء اور صدقہ کرنے کی بات، تو ان کا ثواب میّت کو پہونچے گا،جیسا کہ صاحب شریعت نے آیات واحادیث کے ذریعہ اس کی صراحت کردی ہے۔
س۵:- صحیح حدیث پر عمل کرنے کی کیا حیثیت ہے ؟
ج۵:- صحیح حدیث پر عمل کرنا واجب ہے ۔ بدلیل:
فرمان الٰہی:- وَمَا آتَاکُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوْہُ وَمَا نَھَاکُمْ عَنْہُ فَانْتَھُوا ۔ (حشر:۷)
اور جو چیز رسول تمہیں دے دیں اُسے لے لو ، اور جس چیز سے روک دیں اُس سے رک جاوٴ۔
حدیث نبوی:- علیکم بسنّتی وسنّة الخلفاء الراشدین المہدین تمسکوا بھا ۔ (احمد)
میرے طریقے کو لازم پکڑلو ،اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کے طریق کار کو مضبوطی سے تھام لو ،(بشرطیکہ سنت نبوی کے خلاف نہ ہو
س:- کیا قرآن کریم کو کافی سمجھتے ہوئے حدیث پاک کو نظرانداز کیا جاسکتا ہے ؟
ج:- ہرگز نہیں، اس لیے کہ حدیث نبوی قرآن کریم کی شارح ہے۔
فرمان الٰہی:- وَأَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْہِمْ وَلَعَلَّھُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ ۔ (سورة النحل)
اور اب یہ ذکر تم پر نازل کیا گیا ہے تاکہ تم لوگوں کے سامنے اس تعلیم کی تشریح وتوضیح کرتے جاوٴ،جوان کے لیے اتاری گئی ہے اور تاکہ لوگ خود بھی غوروفکر کریں۔
حدیث نبوی:- ألا وانّی أوتیت القرآن ومثلہ معہ ۔ (صحیح ابوداوٴد)
خبردار! مجھے قرآن دیا گیا ہے ،ا ور اس کے ساتھ اس جیسی اور چیز بھی (حدیث پاک)۔
س۷:- کیا الله اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کے اقوال پر کسی قول کو ترجیح دی جاسکتی ہے۔
ج۷:- ہرگز نہیں!
فرمان الٰہی:- یَٰٓأَیُّہَاالَّذِیْنَ ءَ امَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بَیْنَ یَدَیِ اللهِ وَرَسُولہِ ۔ (حجرات:۱)
ایمان والو! الله اور اس کے رسول کے آگے پیش قدمی نہ کرو۔
جب الله کی نافرمانی ہورہی ہو تو کسی دوسرے کی بات نہ مانی جائے عبدالله ا بن عباس رضی الله عنہ کا قول ہے:
أخشی أن تنزل علیکم حجارة من السماء أقول لکم قال رسول الله ﷺ وتقولون قال أبوبکر وعمر۔
مجھے خطرہ ہے کہ کہیں تم پر پتھروں کی بارش نہ ہوجائے ،کیونکہ میں تمہیں احادیث نبوی کا حوالہ دیتاہوں ،اور تم ابوبکر وعمر رضی الله عنہم کی باتیں پیش کرتے ہو۔ (دارمی)
س۸:- زندگی میں کتاب وسنت کو فیصل بنانے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
ج۸:- کتاب وسنت کو فیصل بنانا واجب ہے ۔
فرمان الٰہی:- فَلَا وَرَبِّکَ لَایُوٴمِنُونَ حَتَّیٰ یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَھُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوا فِیٓ أَنْفُسِھِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوا تَسْلِیْمًا ۔ (النساء)
(اے محمد) تمہارے رب کی قسم ،یہ کبھی مومن نہیں ہوسکتے ،جب تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں یہ تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو اس پر اپنے دلوں میں کوئی تنگی نہ محسوس کریں،بلکہ سربسرتسلیم کرلیں۔
حدیث نبوی:- وما لم تحکم أئمتھم بکتاب الله ویتخیروا مما أنزل الله الا جعل الله بأسھم بینھم ۔(ابن ماجة،حسن)
حُکام کاکتاب الله کے مطابق فیصلہ نہ کرنا ، اور الله کے نازل کردہ قوانین میں اپنے اختیارات کو استعمال کرنا باہمی اختلاف ونزاع کا باعث ہے ۔
س۹:- باہمی اختلاف ونزاع کاکیاحل ہے ؟
ج۹:- ان حالات میں قرآن مجید اور سنت صحیحہ کی طرف رجوع کیا جائے ۔
فرمان الٰہی:- فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِی شَیٴٍ فَرُدُّوہُ اِلَی اللهِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُوٴمِنُوْنَ بِاللهِ وَالْیَوْمِ الآَخِرِ ذٰلِکَ خَیْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِیْلًا ۔ (نساء:۵۹)
اگر تمہارے درمیان کسی معاملہ میں نزاع ہوجائے تو اسے الله اور رسول کی طرف پھیر دو ،اگر تم واقعی الله اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو۔یہی ایک صحیح طریق کار ہے۔اور انجام کے اعتبار سے بھی بہتر ہے۔
حدیث نبوی:- ترکت فیکم أمرین لن تضلوا ما تمسکتم بھما کتاب الله وسنة رسولہ۔ (رواہ مالک وصححہ البانی فی الجامع الصحیح)۔
میں تم میں دوچیزیں چھوڑے جارہاہوں جن پر عمل کرتے ہوئے تم ہرگز گمراہ نہ ہوگے ،وہ الله کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت ہیں ․
س۱۰:- جو اپنے لیے شرعی امر ونواہی کو لازم نہ سمجھے اس کا کیا حکم ہے ؟
ج۱۰:- ایسا سمجھنے والا کافر ومرتد اور خارج ازاسلام ہوگا۔ اس لیے کہ بندگی صرف الله کے لیے ہے ۔شہادتین کے اقرار کا یہ مفہوم فی الواقع پایا ہی نہیں جاسکتا ہے ،جب تک کہ الله کی ہمہ جہتی عبادت نہ کی جائے ،اس عباد ت میں بنیادی عقائد ،مراسم عبادت ،زندگی کے ہر معاملے میں شریعت الٰہیہ کو حَکَم ماننا اورمنہج الٰہی کی تطبیق وغیرہ سب کی سب داخل ہے ۔شریعت الٰہیہ کو چھوڑ کر کسی دوسری چیز کوحلت وحرمت کا معیار بنانا ،شرک ہے ،جو کسی صورت میں عبادت سے متعلق شرک سے مختلف نہیں۔ (دوسری کی کتاب ”الاجوبة المفیدہ “سے ماخوذ)
س۱۱:- الله اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم سے محبت کا معیار کیا ہونا چاہئے ؟
ج۱۱:- محبت کا معیار ان کی اطاعت اور ان کے احکامات کی پیروی ہے۔
فرمان الٰہی:- قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُوْنِی یُحْبِبْکُمُ اللهُ وَیَغفِرْ لَکُمْ ذُنُوبَکُمْ وَاللهُ غَفُورٌ رَّحِیْمٌ ۔ (آل عمران)
اے نبی! لوگوں سے کہہ دو کہ اگرتم حقیقت میں الله سے محبت رکھتے ہو تومیری پیروی اختیار کرو ،الله تم سے محبت کرے گااورتمہاری خطاوٴں سے درگذر فرمائے گا ،وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحیم ہے ۔
حدیث نبوی:- لا یوٴمن أحدکم حتی أکون أحب الیہ من والدہ وولدہ والناس اجمعین ۔ (بخاری ومسلم)
اس وقت تک کسی کا ایمان مکمل نہیں ہوسکتا ۔جب تک میں اسے اس کے والدین اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاوٴں۔
س۱۲:- الله اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم سے محبت کے کیا شرائط ہیں؟
ج۱۲:- ان کی محبت کے بہت سارے شرائط ہیں،جیسے:
۱۔ محبوب کی پسندیدہ چیزوں سے موافقت ۔
۲۔ اس کی ناپسندیدہ چیزوں کا انکار۔
۳۔ اس کے محبوبوں سے محبت ،اس کے دشمنوں سے بغض رکھنا۔
۴۔ اس کے دوستوں سے دوستی ، اس کے دشمنوں سے دشمنی۔
۵۔ اس کا تعاون کرنا ، اس کے طریق کار پر عمل پیرا ہونا۔
جو بھی ان امور کا پابند نہ ہوگا ،وہ اپنی محبت کے دعوے میں جھوٹا ہوگا اس پر شاعر کا یہ شعر صادق آئے گا #
لو حبک صادقًا لأطعتہ انّ المحب لمن یحب مطیع
اگر تمہاری محبت سچی ہوتی تو تم محبوب کی اطاعت کرتے اس لیے کہ محبت کرنے والا محبوب کا مطیع ہوتا ہے
س۱۳:- خشوع وخضوع پر مشتمل محبت کس کے لیے ہونی چاہئے؟
ج۱۳:- ایسی محبت صرف الله کے لیے ہونی چاہئے۔ بدلیل:
فرمان الٰہی:- وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَتَّخِذُ مِنْ دُوْنِ اللهِ اَنْدَادًا یُحِبُّوْنَھُمْ کَحُبِّ اللهِ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوا اَشَدُّ حُبًّا لِلّٰہِ ۔ (بقرہ:۱۶۵)
کچھ لوگ ایسے ہیں جو الله کے سوا دوسروں کو اس کا ہمسر اورمدمقابل بناتے ہیں اور ان کے ایسے گرویدہ ہیں،جیسی الله کے ساتھ گرویدگی ہونی چاہئے ۔حالانکہ ایمان رکھنے والے لوگ سب سے بڑھ کر الله کومحبوب رکھتے ہیں۔
 

شکیل احمد

محفلین
بھلی وبری تقدیر پر ایمان
س۱:- کیا تقدیر سے حجت قائم کرنا درست ہے؟
ج۱:- مصائب پر تقدیر سے حجت قائم کی جاسکتی ہے ۔اس لئے کہ وہ مصائب الله ہی کے قضاء وقدر سے واقع ہواکرتی ہیں۔
فرمان الٰہی:- مَآ أَصَابَ مِن مُّصِیبَةٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللهِ ۔ (تغابن:۱۱)
کوئی مصیبت نہیں آتی مگر الله کے حکم سے ہی۔
ابن عباس رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ مطلب یہ کہ الله کے حکم یعنی اس کے قضاء وقدر سے ہی۔ ودلیل:
حدیث نبوی:- احرص علیٰ ما ینفعک واستعن بالله ولا تعجز فان أصابک شیٴ فلا تقل لو أنی کذا و کذا ولٰکن قل قدر الله وما شآء فان لو تفتح عمل الشیطان ۔ (مسلم)
نفع بخش چیزوں کے خواہاں رہو ،الله سے مدد طب کرو اور عاجز مت بنو ،اگر کوئی مصیبت آپڑے تو یوں مت کہو کہ اگر میں نے ایسے اور ایسے کیا ہوتا تو ایسا اور ایسا ہوتا،بلکہ یہ کہو الله نے ہر چیز مقدر کررکھی تھی ،جو کچھ چاہاکیا ،اگر کا استعمال تو شیطانی عمل تک پہونچا دیتا ہے ،لیکن گناہوں پر تقدیر سے حجت قائم کرنا تو مشرکین کی عادت ہے ،جن کے بارے میں الله نے فرمایا:
سَیَقُوْلُ الَّذِیْنَ أَشْرَکُوا لَوْ شَآ ءَ اللهُ مَآ أَشْرَکْنَا وَلَآ ءَ ابَآوٴُنَا وَلَا حَرَّمْنَا مِنْ شَیٴٍ ۔ (الانعام:۱۴۸)
یہ لوگ ”مشرک “(تمہاری ان باتوں کے جواب میں )ضرور کہیں گے ،کہ اگر الله چاہتا تو نہ ہم شرک کرتے نہ ہمارے باپ دادا ،اور نہ ہم کسی چیز کو حرام ٹھہراتے۔
اس بارے میں تقدیر سے حجت قائم کرنے والا یا تو جاہل مقلّد ہے یا اسلام دشمن دہریہ ، وہ کسی صورت میں یہ برداشت نہیں کرے گا کہ اس پر یہ کہہ کر کوئی زیادتی کرے کہ یہ الله کے قضاء وقدر سے ہے،اس لیے وہ خود اپنے دعوے کی تردید کرنے والا ہے ۔الله تعالیٰ نے رسولوں کو کتابیں دے کر اس لیے بھیجا تاکہ لوگوں کوسعادت اور شقاوت کی راہ دکھائیں ،انسان کو قوت فکر وعقل سے نوازا ،ہدایت وگمراہی کی تمیز عطا کی۔
فرمان الٰہی:- اِنَّا ھَدَیَنَٰہُ السَّبِیْلَ اِمَّا شَاکِرًا وَاِمَّا کَفُوْرًا ۔ (انسان:۳)
ہم نے اسے راستہ دکھایا ،خواہ شکر کرنے والابنے یا کفر کرنیوالا۔
فرمان الٰہی:- فَأَلْھَمَھَا فُجُورَھَا وَتَقْوَاھَا ، قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَکَّٰھَا ، وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسََّھَا ۔ (سورة الشمس)
پھر اس کی بدی اور اس کی پرہیز گاری اس پر الہام کردی ،یقینا فلاح پاگیا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا ،اور نامراد ہوا وہ جس نے اس کو دبادیا۔
اگر انسان نمازچھوڑتا یاشراب پیتا ہے تو الله ورسول صلی الله علیہ وسلم کے حکم کی نافرمانی کے باعث سزا کا مستحق ہوگا ،ایسی صورت میں توبہ کی ضرورت ہوگی ،تقدیر کی حجت کچھ بھی مفید نہیں ہوسکتی۔
س۲:- کیا ہم عمل کو چھوڑکر تقدیر پر بھروسہ کرسکتے ہیں؟
ج۱:- نہیں ۔
فرمان الٰہی:- فَأَمَّا مَنْ أَعْطَیٰ وَاتَّقَیٰ ، وَصَدَّقَ بِالْحُسْنیٰ ، فَسَنُیَسِّرُہُ لِلْیُسْرَیٰ ۔ (سورة اللیل)
تو جس نے (راہ الله میں )مال دیا اور (الله کی نافرمانی سے )پرہیز کیا اس کو ہم آسان راستے کیلئے سہولت دیں گے ۔
حدیث نبوی:- اعملوا فکل میسر لما خلق ۔ (بخاری و مسلم)
عمل کرو ،ہر شخص کو مقدراعمال کی سہولت دی جاتی ہے۔
حدیث نبوی:- الموٴمن القوی خیر وأحب الله من الموٴمن الضعیف وفی کلّ خیر احرص علیٰ ما ینفعک واستعن بالله ولا تعجز فان اصابک شیٴ فلا تقل لو أنی فعلت کذا وکذا ولکن قل قدر الله وماشاء فعل فان لو تفتح عمل الشیطان۔ (مسلم)
الله کے نزدیک طاقتور مومن کمزور مومن سے زیادہ محبوب اوربہتر ہے ۔اور ہر مومن میں بہتری ہے ،نفع بخش اعمال کرتے رہو ،الله سے مدد طلب کرو ،عاجز مت بنو ،اگر کوئی مصیبت آپڑے تو یوں مت کہو کہ اگر میں ایسے اور ایسے کرتا تو ایسا اور ایسا ہوتا ،بلکہ یہ کہو ،الله نے یہ چیز مقرر کررکھی تھی ،جو چاہا کیا ”اگر“کا استعمال شیطانی عمل تک پہونچا دیتا ہے ۔
حدیث کا مفہوم
الله تعالیٰ ایسے طاقتور مومن سے محبت رکھتا ہے ،جونفع بخش اعمال کرتا رہے ،صرف الله سے مدد طلب کرے ،اپنے کاموں میں ذرائع واسباب استعمال کرے اس کے باوجود اگر کسی ناپسندیدہ حادثے کا شکار ہوجاتا ہے ۔تو وہ تقدیر الٰہی پر راضی برضا ہوکر نادم نہیں ہوتا۔
فرمان الٰہی:- وَعَسَیٰ أَنْ تَکْرَھُوا شَےْئًا وَھُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ وَعَسَیٰٓ أَنْ تُحِبُّوا شَےْئًا وَھُوَ شَرٌّلَّکُمْ وَاللهُ یَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ۔ (بقرہ:۲۱۶)
ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں ناگوار ہو اور یہی تمہارے لیے بہتر ہو ،اور ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں پسند ہو اور وہی تمہارے لیے بُری ہو ، الله جانتا ہے تم نہیں جانتے ۔
س۳:- آرام ومصائب کے وقوع کی کیا حکمت ہے؟
ج۳:- انسان جس وقت اپنے آپ کو صاحب قوت سمجھتا ہے ،سرکش اور متکبر ہوجاتا ہے ،یہ خیال کرنے لگتاہے کہ وہ کسی چیز سے شکست نہیں کھا سکتا اور جب اپنی قوت کمزور اور عاجز سمجھنے لگتا ہے ،اور یہ خیال کرنے لگتا ہے کہ مصیبت بڑھ رہی ہے اور اس کی قوت جواب دے رہی ہے ،تو ایسے وقت میں اسے اپنی حقیقت معلوم ہوجاتی ہے ،تکبر اور سرکشی ختم ہوجاتی ہے ،اس بات کا یقین کرلیتا ہے کہ صرف الله تعالیٰ ہی اسے بچا سکتا ہے ،بقیہ چیزیں سب کی سب بیکار ہیں: بدلیل:
فرمان الٰہی:- وَاِذَا أَنْعَمْنَا عَلَی الْاِنْسَانِ أَعْرَضَ وَنَئَابِجَانِبِہِ وَاِذَ مَسَّہُ الشَّرُّ فَذُو دُعَآءِ عَرِیْضٍ ۔ (فصّلت:۵۱)
انسان کو جب ہم نعمت دیتے ہیں تو وہ منہ پھیرتا ہے ،اور اکڑجاتاہے اور جب اُسے کوئی آفت چھوجاتی ہے تو لمبی چوڑی دعائیں کرنے لگتا ہے ۔

سنّت وبدعت
س۱:- کیا اسلام میں بدعت حسنہ کا وجود ہے ؟
ج۱:- ہرگز نہیں (کیوں کہ دین اسلام میں ہربدعت گمراہی ہے)
فرمان الٰہی:- أَلْیَومَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَأَتْمَمتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی وَرَضِیْتُ لَکُمْ الاِسْلَامَ دِیْنًا ۔ (المائدہ:۳)
آج میں نے تمہارے لیے دین کو مکمل کردیاہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کردی ہے اور تمہارے لیے دین اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کرلیا ہے ۔
حدیث نبوی:- اِیّاکم و محدثات الأمور فانّ کلّ محدثةٍ بدعة وکل بدعةٍ ضلالة وکل ضلالة فی النار۔
بدعتوں سے بچتے رہو ،ہر بدعت گمراہی کا پیش خیمہ ہے ،او رہر گمراہی جہنم کا باعث ہے ۔ (رواہ ابوداوٴد وترمذی وحسنہ)
س۲:- دین اسلام میں بدعت کسے کہتے ہیں؟
ج۲:- دین اسلام میں ہر اُس دینی معاملے کو بدعت کہتے ہیں جس کی کوئی شرعی دلیل نہ ہو۔ بدلیل:
فرمان الٰہی:- أَمْ لَھُمْ شُرَکَٰوٴُا شَرَعُوا لَھُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَا لَمْ یَأذَن بِہِ اللهُ ۔ (الشوریٰ :۲۱)
کیا کچھ لوگ ایسے شریک باری تعالیٰ رکھتے ہیں جنہوں نے ان کیلئے دین کی نوعیت رکھنے والا ایک طریقہ مقرر کردیا ہے ،جس کی الله نے اجازت نہیں دی ۔ بدلیل:
حدیث نبوی:- من أحدث فی أمرنا ھٰذا ما لیس منہ فھو ردّ ۔ (بخاری ومسلم)
جس نے ہمارے اس دین میں نئی بات داخل کردی وہ مردود ہوگی۔
س۳:- بدعت کی کون کون سی قسمیں ہیں؟
ج۳:- اس کی بہت سی قسمیں ہیں ۔ مثلاً:
۱۔ کفر تک پہونچانے والی بدعت ،مثلاً مردوں اور غیر موجود لوگوں کو پکارنا ، ان سے مدد طلب کرنا ،جیسے یوں کہے ،اے میرے فلاں آقا مدد کرو۔
۲۔ حرام کردہ بدعت ، مثلاً الله کی جانب مُردوں کو وسیلہ بنانا، قبروں کا سجدہ کرنا ، ان کیلئے نذر نیاز ماننا ،ان پر عمارت تعمیر کرنا۔
۳۔ مکروہ بدعت ، مثلاً نماز جمعہ کے بعد نماز ظہر پڑھنا ، اذان کے بعد زور زور سے درود وسلام پڑھنا۔
نوٹ:-آج کل مشرکین نے ایک نئی بدعت کا اضافہ کیا وہ اذان سے پہلے درود وسلام پڑھنا ، قبرستان میں جنازہ دفن کرنے سے پہلے وبعد اذان دینا ، دلہن کی رخصتی کے وقت اذان دینا ۔ ہم الله کی پناہ طلب کرتے ہیں ان بدعتوں سے ۔
س۴:- کیا اسلام میں سنت حسنہ کا وجود ہے؟
ج۴:- ہاں ، اسلام میں سنت حسنہ کا وجود ہے، بدلیل:
حدیث نبوی:- من سن فی الاسلام سنة حسنة فلہ أجرھا وأجر من عمل بھا من بعدہ من غیر أن ینقص مو اجورھم شیٴ ۔ (بخاری)
جو شخص اسلام میں کسی اچھے کام کی بنیاد رکھتا ہے اسے اچھے کام اور بعد میں اس پر عمل کرنے والوں کا اجر ملتاہے ،اس دوچند اجر ملنے پرکسی دوسرے کے اجر میں کمی نہیں کی جائے گی ۔
س۵:- زہد کی کیا حقیقت ہے؟
ج۵:- اس کی حقیقت یہ ہے کہ مسلمان دنیا کو اپنا مقصد حیات نہ بنالے آخرت پر نہ دنیا کو ترجیح دے اور نہ اس میں ایک دوسرے پر فخر کی بازی جیتنے کی کوشش کرے ،بلکہ اس کے اعمال کی غرض وغایت دین الٰہی کی نصرت آخرت کے لئے کوشش ہونی چاہیے ،اسی کے ذریعہ الله اور اس کی مخلوقات کے ساتھ حسن معاملہ اور جہاد فی سبیل الله کے تمام لوازمات بروئے کار لائے جاسکتے ہیں۔
زہد یہ نہیں کہ زندگی کے تمام گوشوں اور کاموں سے کنارہ کشی کرلیا جائے ، اور بَن باسی زندگی گذاری جائے جو بُت پرستی کے بنیادی امور میں سے ہے ،اسے زہد نہیں کہا جاسکتا ،یہ تو بزدلی نفسیاتی کمزوری ،انسانی توانائیوں کو بیکار کرنا ہے ،یہ صوفیاء کی نئی ایجاد ہے ،جس کا نتیجہ نہایت ہی برا ہے ،اسی کے سبب مسلمان دوسروں سے سبقت لے جانے اور اپنے دین وپیغام کو آگے بڑھانے میں پیچھے رہ گئے ،اور باطل پرست آدھمکے اور انہیں بری طرح شکست دے دی ۔ (کتاب ”الاجوبة المفیدہ“ سے بتصرف ماخوذ)
س۶:- تقلید کا کیا حکم ہے ؟
ج۶:- توحید اور دین کی اصولی باتوں میں تقلید درست نہیں ،بلکہ کتاب وسنت صحیحہ کی روشنی میں دین کو سمجھنا نیز سلف صالحین کے عقائد کے سلسلے میں ان کی سوجھ بوجھ سے استفادہ کرنا ضروری ہے ہاں دین کے فروعی مسائل میں سنی مذاہب میں کسی مذہب کی تقلید درست ہے (یہ مصنف رحمہ الله کی خطاء ہے اتباع صرف اور صرف قرآن اور حدیث کی ہوگی)،یہ بھی درست ہے کہ کسی ایک مذہب کاالتزام نہ کرے (بلکہ مختلف مسائل میں مختلف مذاہب کی پیروی کرسکتا ہے ) شرط یہ ہے کہ اس کا مقصود آسانیوں کی تلاش نہ ہو۔لیکن اہل علم پر دلیل کی تلاش اور مذہبی فروعات میں حدیث نبوی سے قریب ترین مسئلے پر عمل کرنا ضروری ہے ۔ (کتاب ”الاجوبة المفیدة“ سے ماخوذ)
شرعی تعلیم ومفیدایجادات کے علم کے تعلم کا حکم
س۷:- شرعی علم،صنعت وحرفت اور ایجادات کے علوم کے تعلم کا کیا حکم ہے؟
ج۷:- شرعی علم کی دوقسمیں ہیں۔
۱۔ ایسا علم جو عقائد وعبادات کی صحت کیلئے ضروری ہے ،یہ ہر مسلمان پر فرض عین ہے ۔
۲۔ ایسا علم جو تفصیلات اور باریک مسائل سے بحث کرتا ہے جیسے کہ علم فرائض ،دقیق مسائل ،اصول فقہ ،مصطلح الحدیث وغیرہ،ایسا علم فرض کفایہ ہے ،اگر بعض اہل علم اسے حاصل کرلیں تو دوسروں سے فرضیت ساقط ہوجاتی ہے ۔
ضروری ایجادات اور صنعتوں کوسیکھنا فرض کفایہ ہے ہاں اگر ایک کے علاوہ کوئی دوسرا نہ پایا جائے تو اس پر واجب ہے ،کہ اس کے لیے حاکم وقت ایک گروہ پر جبر کرسکتاہے ،اہل صنعت میں جو اپنی صنعت چھوڑرہا ہو اسے روک سکتا ہے اور اس میں کام کرنے پر مجبور کرسکتا ہے ،نیز بیت المال سے اس کی ہمت افزائی کرسکتا ہے ہر مسلمان عامل ضروری ہے کہ وہ الله ورسول کی خیر خواہی کے لیے ایجاد واختراع اور ہر مادے کی تسخیر میں پوری محنت صرف کرے ،اس میں دین اور مسلمانوں کی سربلندی روئے زمین میں الله کے کلمے کی سرفرازی اور ظالم کی رکاوٹ مقصود ہو۔ (کتاب ”الاجوبة المفیدہ“سے بتصرف ماخوذ)
 

شکیل احمد

محفلین
نجات پانیوالا فرقہ اور مدد یافتہ گروہ
س۱:- نجات پانے والا کون سا فرقہ ہے؟
ج۱:- رسول الله صلی الله علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی الله عنہم کے طریق کار کتاب وسنت پر عمل پیرا فرقہ نجات پانیوالا ہوگا۔ بدلیل:
فرمان الٰہی:- وَاعْتَصِمُوا بِحَبلِ اللهِ جَمِیعًا وَلَا تَفَرَّقُوا ۔ (آل عمران:۱۰۳)
سب مل کر الله کی رسی کو مضبوطی سے پکڑلو اور تفرقہ نہ ڈالو۔ ودلیل:
حدیث نبوی:- وان بنی اسرائیل تفرقت علی ثنتین وسبعین ملة وتفرق أمتی علی ثلاث وسبعین ملة ،کلھم فی النار الا ملة واحدة ، ما أنا علیہ وأصحابی ۔ (ترمذی ، وصححہ الألبانی فی صحیح الجامع برقم ۵۳۱۹)
بنی اسرائیل بہتر فرقوں میں بٹے ،ہماری امت کے تہتر فرقے ہوں گے۔تمام کے تمام جہنمی ہوں گے سوائے اس فرقے کے جو اس طریق کار پر چلے گا جس پرمیں ہوں اور میرے صحابہ ہیں۔
س۲:- فرقہ ناجیہ کی کیا علامت ہے؟
ج۲:- فرقہ ناجیہ کے افراد بہت کم ہوں گے ،بہت سے لوگ ان کی دشمنی کریں گے،الله تعالیٰ نے ان کی تعریف اس آیت سے کی ہے۔
وَقَلیلٌ مِنْ عِبَادیَ الشَّکُورُ ۔ (سورة سباء)
میرے بندوں میں کم ہی شکرگزار ہیں۔
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ان اوصاف کا تذکرہ درج ذیل حدیث میں کیا ہے۔
طوبیٰ للغرباء أناس صالحون ، فی أناس سوء کثیر من یعصیھم أکثر ممن یطیعھم ۔ (صحیح ،احمد)
کس مپرس لوگوں کو مبارک ہو: جو بہت سارے بُرے لوگوں میں کچھ اچھے لوگ ہیں،ان کے نافرمان فرمانبرداروں سے زیادہ ہیں۔
س۳:- مدد یافتہ گروہ کون سا ہے؟
ج۳:- حدیث نبوی : لا تزال طائفة من امتی ظاھرین علی الحق یقاتلون وھم أھل العلم ۔ (بخاری)
میری امت کا ایک گروہ غالب ہی رہے گا ،حق بات پر جہاد کرتا رہے گا وہ گروہ علماء کا ہوگا۔
حدیث نبوی:- لاتزال طائفة امتی ظاھرین علی الحق لا یضرھم من خذلھم حتی یأتی أمرالله۔ (بخاری)
میری امت کے کچھ لوگ غالب ہی رہیں گے ،حتی کہ ان کی موت آجائے ۔
۱۔ علامہ ابن حجر نے فتح الباری جلد ۱۳ صفحہ ۲۹۵ میں درج ذیل باتوں کا تذکرہ کیا ہے ۔
ملاحظہ: تما م شارحین کا اتفاق ہے کہ ”علی من خالفھم“کا مفہوم یہ ہے کہ ”مخالفین پرغالب رہیں گے“۔
۲۔ امام نووی نے فرمایا کہ یہ گروہ ،بہادر ،جنگ کا مجرب ،فقیہ ،محدث مفسر ،امربالمعروف ونہی عن المنکر کو انجام دینے والا ،زاہد ،عابد غرضیکہ مومنوں کی مختلف قسموں کے مختلف گروپ ہوسکتے ہیں۔یہ بھی ضروری نہیں وہ ایک ہی ملک میں اکٹھا ہوں ،بلکہ وہ روئے زمین کے کسی ایک حصے میں بھی ہوسکتے ہیں اور بہت سارے حصوں میں متفرق بھی ہوسکتے ہیں ۔
۳۔ عبدالله بن المبارک کا قول ہے : میرے نزدیک یہ گروہ اہل حدیث کا ہے۔
۴۔ خلاصہ یہ کہ مدد یافتہ گروہ وہی ہوگا جو حدیث پر عمل پیرا ہو،الله اور رسول کے قول پر کسی بھی قول وعمل کومقدم نہ رکھے ۔
فرمان الٰہی:- یَاأَ یُّھَاالَّذِینَ اٰمَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بَیْنَ یَدَي اللهِ وَرَسُولِہ ۔ (الحجرات)
اے لوگو! جو ایمان لائے ہو الله اور اس کے رسول کے آگے پیش قدمی نہ کرو ۔
س۴:- مسلمانوں کو غلبہ کب نصیب ہوگا؟
ج:- جب کتاب الله کو عملاً نافذ کردیں گے۔
۲۔ سنت رسول پر عمل پیرا ہوں گے ۔
۳۔ شرک کے تمام اقسام سے دست بردار ہوجائیں گے۔
۴۔ اپنے دشمنوں سے نمٹنے کے لیے حسب طاقت تیاری کریں گے۔
فرمان الٰہی:- یَا أَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اِن تَنْصُرُوْا اللهَ یَنْصُرْکُمْ وَ یُثَبِّتْ أَقْدَامَکُمْ ۔ (محمد:۷)
اے ایمان والو! اگر تم الله کی مدد کروگے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم مضبوط جمادے گا۔
فرمان الٰہی:- وَعَدَ اللهُ الَّذِیْنَ ءَ امَنُوا مِنْکُمْ وَعَمِلُوا الصَّٰلِحَٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ فِی الْأَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ وَلَیُمْکِّنَنَّ لَھُمْ دِیْنَھُمُ اَ لَّذِی ارْتَضَیٰ لَھُمْ وَلَیُبَدِّلَنَّھُمْ مِنم بَعْدِ خَوْفِھِمْ أَمْنًا یَعْبُدُونَنِی لَا یُشْرِکُونَ بِی شَےْئًا ۔ (النور)
الله تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے تم میں سے ان لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائیں اور عمل صالح کریں کہ وہ ان کو اسی طرح زمین میں خلیفہ بنائے گا ،جس طرح ان سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کو بناچکا ہے ان کے لیے اس دین کو مضبوط بنیادوں پر قائم کردے گا ،جسے الله تعالیٰ نے ان کے حق میں پسند کیا ہے اور ان کی (موجودہ)حالت خوف کو امن سے بدل دے گا ،بس وہ میری بندگی کریں اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں ۔
فرمان الٰہی:- وَأَعِدُّوا لَھُم مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ ۔ (الانفال:۶۰)
اور تم لوگ جہاں تک تمہارا بس چلے ان کے مقابلے کے لیے زیاد ہ سے زیادہ طاقت مہیا رکھو۔
حدیث نبوی:- أَلَا اِنّ القوة الرمی ۔ (مسلم)
تیر اندازی ہی قوت کا سرچشمہ ہے۔
 

شکیل احمد

محفلین
قبروں کی زیارت ،قبروں میں آرام وعذاب
س۱:- ہم قبروں کی شرعی زیارت کس طرح اور کیوں کریں ؟
ج۱:- ہر وقت قبروں کی زیارت مستحب ہے ،اس کے بہت سارے آداب وفوائد ہیں۔
۱۔ اس میں زندوں کے لیے اس بات کی نصیحت اور عبرت ہے کہ وہ بھی مریں گے اس لیے عمل کی تیاری کریں۔
حدیث نبوی:- نھیتکم عن زیارة القبور فزروھا ۔ (مسلم)
میں نے تمہیں قبروں کی زیارت سے منع کردیا تھا ،اب ان کی زیارت کیا کرو ۔ایک روایت ہے ۔ فانھا تذکرکم بالآخرة ۔یہ قبریں تمہیں آخرت کی یاد دلاتی ہیں۔ (احمد)
۲۔ ہم مردوں کے مغفرت کی دعا کریں،الله کو چھوڑکر نہ انہیں پکاریں اور نہ ہی اُن سے دعا کی طلب کریں،رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے قبروں کی زیارت کیلئے صحابہ کرام رضی الله عنہم کو درج ذیل دعا سکھایا تھا ۔
السلام علیٰ أھل الدیار من الموٴمنین والمسلمین وانا ان شاء الله بکم لاحقون أسال الله لنا ولکم العافیة ۔
اے اس دیار کے مومنو! اور مسلمانو! تم پر سلامتی ہو ،ان شاء الله ہم بھی تمہارے پیچھے آنے والے ہیں ،الله سے اپنے اور تمہارے لیے عذاب سے عافیت کی دعا مانگتے ہیں۔ (مسلم)
۳۔ قبروں پر نہ بیٹھیں ،ان کی جانب نماز نہ پڑھیں ۔ دلیل:
حدیث نبوی:- لا تصلوا الی القبور ولا تجلسوا علیھا ۔ (مسلم)
قبروں کی جانب نہ نماز پڑھو اور نہ ان پر بیٹھو۔
۴۔ مطلق قرآن نہ پڑھیں حتی کہ فاتحہ بھی۔
حدیث نبوی:- لا تجعلوا بیوتکم مقابر فان الشیطان ینفر من البیت الذی تقرأ فیہ سورة البقرة۔ (مسلم)
تم اپنے گھروں کو قبرستان مت بناوٴ، جس گھر میں سورہ بقرہ پڑھی جاتی ہے اس سے شیطان بھاگتا ہے۔
حدیث نبوی سے پتہ چلتا ہے کے گھروں کے برعکس قبرستان میں قرآن مجید پڑھنے کی جگہ نہیں ۔رسول الله صلی الله علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی الله عنہم سے یہ ثابت نہیں کہ مُردوں کیلئے قرآن مجید پڑھے ہوں ،البتہ ان کے لیے دعا کئے ہیں۔
رسول الله صلی الله علیہ وسلم جب مُردے کی تدفین سے فارغ ہوتے تھے تو وہاں کھڑے ہوکر فرماتے تھے ۔
استغفروا لأخیکم وسلوا لہ التثبیت فانہ الاٰن یسأل ۔ اپنے بھائی کی مغفرت چاہو، اس کے ثابت قدمی کے لیے دعا کرو ابھی اس سے سوال ہوگا۔ (صحیح ،مستدرک حاکم)
۵۔ قبروں پر پھول نہ چڑھائیں ،اس لیے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی الله عنہم سے یہ ثابت نہیں،نیز اس میں عیسائیوں سے مشابہت بھی ہے اگر ہم پھولوں کی قیمت غریبوں کو دے دیں تو اس کا فائدہ مُردے کو ملے گا اور غریبوں کو بھی۔
۶۔ نہ تو ہم قبروں پر مقبرہ تعمیر کریں اور نہ ہی وارنش اور چوناوغیرہ لگائیں ۔
حدیث نبوی:- نھیٰ صلی الله علیہ وسلم أن یجصص القبر وأن یبنیٰ علیہ ۔
قبروں کو پختہ بنانے اور ان پر مقبروں کی تعمیر سے رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے منع کیا ہے۔
۷۔ مسلمانو! مُردوں کو پکارنے اور ان سے مدد طلب کرنے سے بچو،یہ بلاشبہ شرک اکبر ہے ،مردے کسی بھی چیز کے مالک نہیں ،صرف الله کو پکارو وہی قادر اور پکار سننے والا ہے ۔
س۲:- قبروں میں آرام وعذاب کی کیا دلیل ہے؟
ج۲:- فرمان الٰہی:- وَحَاقَ بِئَالِ فِرْعَوْنَ سُوٓءُ العَذَابِ ، النَّار یُعْرِضُوْنَ عَلَیْھَا غُدُوًّا وَ عَشِیًّا وَیَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَةُ أَدْخِلُوا ءَ الَ فِرْعَونَ أَشَدَّ العَذَاب ۔ (غافر)
اور فرعون کے ساتھی خود بدترین عذاب کے پھیرمیں آگئے دوزخ کی آگ ہے جس کے سامنے صبح وشام وہ پیش کئے جاتے ہیں اورجب قیامت کی گھڑی آجائے گی تو حکم ہوگا کہ آل فرعون کو شدید تر عذاب میں داخل کردو۔
فرمان الٰہی:- یُثَبِّتَ اللهُ الَّذِیْنَ ءَ امَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الحَیَٰوةِ الدُّنْیَا وَفِی الأَخِرَةِ ۔ (سورة ابراھیم:۲۷)
ایمان لانے والوں کو الله ایک قول ثابت کی بنیاد پر دنیا اور آخرت دونوں میں ثبات عطاکرتاہے۔
حدیث نبوی:- ان أحدکم اذا مات عُرِض علیہ مقعدہ بالغداة والعشي ان کان من اھل الجنة فمن أھل الجنة وان کان من أھل النار ،فمن أھل النار ، فیقال ھذا مقعدک حتی یبعثک الله الی یوم القیامة ۔ (بخاری ومسلم)
جب کوئی مرجاتا ہے توا س پرصبح وشام اس کا ٹھکانہ پیش کیا جاتا ہے ،اگر جنتی ہے تو جنتیوں کا ٹھکانہ ،اور اگر جہنمی ہے توجہنمیوں کاٹھکانہ ،اور یہ کہا جاتا ہے کہ یہی تمہارا ٹھکانہ ہے ،تاوقتیکہ الله تعالیٰ تمہیں قیامت کے دن دوبارہ اٹھائے۔
س۳:- قبر میں انسان سے کون سے سوالات کئے جاتے ہیں؟
ج:- حدیث میں آیا ہے کہ مومن کے پاس دوفرشتے آتے ہیں اسے بیٹھا کر پوچھتے ہیں۔
۱۔ تمہارا رب کون ہے ؟ وہ کہتا ہے میرا رب الله ہے۔
۲۔ تمہارا دین کیا ہے؟ وہ کہتا ہے میرا دین اسلام ہے ۔
۳۔ تم میں یہ بھیجا ہوا شخص کون ہے؟ وہ کہتا ہے وہ الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم ہیں ۔
۴۔ تمہارے اعمال کیاہیں ؟ وہ کہتاہے میں قرآن مجید کو پڑھتا رہا ،اس پر ایمان لایا ،اس کی تصدیق کی۔
تو آسمان سے ایک پکارنے والا پکارتا ہے کہ میرا بندہ سچا ہے ،اس کے لیے جنتی فرش بچھا دو ،اسے جنتی لباس پہنادو، اس کے لیے جنت کی ایک کھڑکی کھول دو ، تاکہ اس کے پاس اس کی ہوا اور خوشبو آتی رہے ،اور تاحدّ نگاہ اس کی قبر کشادہ کردی جاتی ہے ۔
لیکن کافر کے پاس دوفرشتے آتے ہیں اوربیٹھاکر اس سوالات کرتے ہیں۔
۱۔ تمہارا رب کون ہے؟ وہ کہتاہے افسوس ،افسوس میں نہیں جانتا ۔
۲۔ تمہارا دین کیا ہے؟ وہ کہتا ہے افسوس ،افسوس میں نہیں جانتا۔
۳۔ تم میں بھیجا ہوا یہ شخص کون ہے؟ وہ کہتا ہے افسوس ،افسوس میں نہیں جانتا ۔
تو آسمان سے ایک پکارنے والا پکارتا ہے ،میرا بندہ جھوٹا ہے ، اس کے لیے جہنمی فرش بچھا دو ،اور جہنم کی ایک کھڑکی کھول دو ،اس تک اس کی گرمی اور لپٹ پہونچتی رہے ،اس پر قبر اس طرح تنگ ہوجاتی ہے کہ پسلیاں ٹوٹ جاتی ہیں۔ (احمد ،ابوداوٴد، صحیح الجامع)
س۴:- بقصدزیارت کیا قبروں کی جانب سفر درست ہے؟
ج۴:- نہیں، بالخصوص جب تبرک نیز قبر کے پاس یا صاحب قبرسے طلب دعاء مقصود ہو چاہے وہ کسی ولی یا رسول ہی کی قبر کیوں نہ ہو۔
فرمان الٰہی:- وَمَا اٰتَاکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَا نَھَاکُمْ عَنْہُ فَانْتَھُوْا۔ (حشر:۷)
جو کچھ رسول الله صلی الله علیہ وسلم تمہیں دے دیں وہ لے لواور جس چیز سے وہ تم کو روک دیں رُک جاوٴ۔
حدیث نبوی:- لا تشدّ الرحال الا الی ثلاثة مساجدً المسجد الحرام ومسجدی ھٰذا والمسجد الأقصیٰ ۔
(بقصد زیارت )صرف تین مسجدوں کا سفر درست ہے ،مسجد حرام ،میری یہ مسجد (یعنی مسجد نبوی)اور مسجد اقصیٰ۔
اس حدیث کی روشنی میں مدینہ کا سفر زیارت قبر رسول صلی الله علیہ وسلم کے بجائے زیارت مسجد نبوی کی نیت سے ہونا چاہئے ۔اس لیے کہ مسجد نبوی میں نماز کا ثواب دیگر مسجدوں کے بالمقابل ایک ہزار نماز کے برابر ہے البتہ مسجد نبوی میں داخل ہوتے ہوئے رسول الله صلی الله علیہ وسلم پر درود پڑھا جائے گا۔
س۵:- مومن کا مقصود کیا ہے اور کافر کا کیا؟
ج:- دنیا میں مومن کا مقصود رضائے الٰہی اور قربت الٰہی ہے اس کا وسیلہ اچھے اعمال ہیں۔
یَٰأَ یُّھَا الَّذِیْنَ ءَ امَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَابْتَغُوٓا اِلَیْہِ الوَسِیلَةَ وَجَٰھِدُوا فِی سَبِیْْلِہ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ ۔ (مائدہ:۳۵)
اے لوگو! جو ایمان لائے ہو الله سے ڈرو اور اس کی جناب میں باریابی کاذریعہ تلاش کرو ،اس کی راہ میں جدوجہد کرو شاید کہ تمہیں کامیابی نصیب ہوجائے ۔
حضرت قتادہ کا قول ہے : تقربوا الیة بطاعتہ والعمل بما یرضیہ ۔ الله کی اطاعت اور اس کے پسندیدہ اعمال کے ذریعہ اس کا قرب حاصل کرو ،رہا کافر تو اس کا مقصد زندگی آخری انجام سے غافل ہوکر دنیاوی لذتوں کا حصول ہے ،اس کی مثال جانوروں کی سی ہے ۔
 

شکیل احمد

محفلین
دعوت الی الله اورعربوں کی ذمہ داریاں
۱:- دعوت الی الله اور اسلام کی نشرواشاعت کا کیا حکم ہے ؟
۱:- یہ ہرمسلمان کا فریضہ ہے ،الله نے اسے نبی صلی الله علیہ وسلم کی وراثت کتاب وسنت عطاکی ہے ،الله تعالیٰ کے اس عمومی حکم میں تمام کے تمام مسلمان داخل ہیں۔
فرمان الٰہی:- ادْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَةِ وَالمَوعِظَةِ الحَسَنَةِ ۔
اے نبی ، اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت و حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ ،اور لوگوں سے مباحثہ کرو ایسے طریقہ پر جو بہترین ہو
فرمان الٰہی:- وَ جَاھِدُوا فِی اللهِ حَقَّ جِہَادِہ ۔ (حج:۷۸)
الله کی راہ میں جہاد کرو جیسا کہ جہاد کرنے کا حق ہے۔
ہر مسلمان پر ضروری ہے کہ ہر طرح کے جہاد میں شرکت کے لئے کوئی کسر نہ اٹھارکھے ،بالخصوص ایسے زمانے میں جب کہ دعوت الی الله اور اسلام کی نشرواشاعت اور اس کی جدوجہد ضروری ہوایسی صورت میں جو مسلمان بھی اس سلسلے میں کوتاہی کرے گا یا اس فریضہ کو ترک کردے گا ۔وہ الله کی نظر میں گنہگار ہوگا۔
۲:-کیا انسان کو اپنے نفس کی اصلاح کافی ہے ؟
۲:-اولاً اپنے نفس کی تو کی جائے لیکن پھر دوسروں کی اصلاح شروع کی جائے ۔
فرمان الٰہی:- وَلْتَکُن مِّنکُمْ أُمَّةٌ یَدْعُونَ اِلَی الخَیْرِ وَیَامُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَ یَنْھُوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَأُوْلَئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُونَ
تم میں کچھ تو ایسے ضرور ہی ہونے چاہئیں جو بھلائی کی طرف بلائیں بھلائی کا حکم دیں اور برائیوں سے روکتے رہیں جو لوگ یہ کام کریں گے وہی فلاح پائیں گے ۔
حدیث نبوی :- من رأی منکم منکرأ فلیغیرہ بیدہ فان لم یستطع فبلسانہ فان لم یستطع فبقلبہ وذلک أضعف الایمان۔ (مسلم)
تم میں سے جو بھی غلط چیز دیکھے ،اپنے ہاتھ سے روکے ،اگر استطاعت نہ ہو تو زبان سے ،اور اگر اس کی بھی استطاعت نہ ہو تو دل سے ،اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔ (مسلم)
۳:- عربوں کی کیا ذمہ داریاں ہیں؟
۳:- عرب ہی اسلام کا پیغام لے کر اٹھے تھے ،انہیں کی زبان میں قرآن کا نزول ہوا ،یہ اگر اسلامی نظام کا نفاذ کرتے ہیں تو یہی خیر امت ہیں جس کا مقصد وجود لوگوں کی رہنمائی ہے۔
تمام عربوں کی درج ذیل ذمہ داریاں ہیں:
۱:- وہ اسلامی عقائد ،عبادات ،قوانین کو مضبوطی سے تھام لیں ،دوسری قوموں کی تقلید چھوڑ دیں ۔
۲:- لادینی علمانیت ،ظا لمیت راسمالیت ،مارکسی اشتراکیت ،ملحدانہ شیوعیت ،یہودی ماسونیت غرضیکہ اسلام مخالف تمام ہی تباہ کن نظریات سے علیحدہ رہیں ‘درآمدافکار کا کسی صورت سے نفاذ نہ کریں اور نہ ہی ایسا کریں کہ ہر چیز کی غرض وغایت وطن اور مادیت ہی کو سمجھیں اور دین کو کوئی حیثیت نہ دیں ۔اس لیے کہ ایسا کرنے سے اگر فرض کرلیا جائے کہ کسی عرب اقلیت کو اس کے ملک میں فائدہ پہنچ رہا ہے تو -اوّلا- یہ تحصیل حاصل ہے ۔ ثانیاً - یہ نقصان عظیم ہے اس لیے کہ عرب قوم اپنے رب کے پیغامات کو پس پشت ڈال رہی ہے اور قوموں کی قیادت اور لوگوں کی ہدایت سے علیحدہ ہورہی ہے ساتھ ہی ساتھ دنیا کے تمام مسلمانوں کی محبت کی محبت اور روحانی لگاوٴ سے ہاتھ دھوبیٹھے گی ۔پھر دوسری حکومتیں اس چیز کو ان مسلمانوں کے خلاف بطور دلیل پیش کریں گے ۔جن کا تعلق ان بے دین سے ہو ۔اس طرح وہ روحانی مقام ومرتبہ کھوبیٹھے گے جو انہیں دین کی بدولت نصیب ہوا تھا ،نیز روحانی اتحاد اور کروڑوں مسلمانوں سے محروم ہوجائیں گے پھر اس قلیت کو وہ فائدہ نہیں مل سکتا جو اسلام کے نفاذ کی صورت میں ملتا ۔ (دَوسَري کی کتاب ”الاجوبة المفیدہ“ سے ماخوذ )
س۴:- سود مندطریق زندگی کسے کہتے ہیں؟
ج۴:- سود مندطریق زندگی یہ ہے کہ الله کی واجب کردہ رسول صلی الله علیہ وسلم اور صحابہٴ کرام کی راہ ، صراط مستقیم پر چلا جائے ،ہم اسلام کی ایسی تعمیر کریں جس سے اس کی روح اور تعلیمات جلوہ گر ہوں ،ہم بذریعہ اسلام قابل اقتداء مثال بن جائیں ،استعماری تہذیب کی دین کسی بھی مادی مقصود ،وطنیت اور قومی عصبیت کے پیش نظر ہم کسی ایسے شخص سے تعلقات نہ رکھیں جو دین سے دور ہوچکا ہو ،ہم اسلامی تعلیمات سے بال برابر نہ ہٹیں ،ہماری دوستی دشمنی الله کیلئے ہو،دوستی اور دشمنی کا اسلام کو چھوڑ کر کوئی دوسرا معیار نہ ہو ،بلکہ دنیا کے تمام مسلمان بھائیوں کے ساتھ سیسہ پلائی ہوئی دیوار کے مانند کھڑے ہوکر ان کی مدد اور ان کا دفاع کریں ،جو بھی انہیں رسو اکرے یا تکلیف دے یا ان پر ذرائع معاش تنگ کرے ہم اس کی دشمنی کریں ،اس کے خلاف آواز اٹھائیں ،تاکہ اسے دنیا کے سامنے ننگا اور رسواء کردیں ،اختلافات کی تما م راہیں مسدود کرنے کے لئے سر جوڑ کوشش اور اخلاص سے کام لیں ،اس کے لیے دین کو ان تمام بدعات اور راہوں کی آلائشوں سے پاک وصاف کردیں جو سیاسی اغراض ومقاصد کے لیے معرض وجود میں آگئی یا لائی گئیں ہیں دین کو چھوڑ کر کسی دوسری بنیاد پر اتحاد کی کی پکار یا امید سے دھوکہ نہ کھائیں ،بے دین ،انگریز وں کے پٹھو جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ ”موقعہ پرستی اور رجعت پسندی کو ختم کرنا چاہتے ہیں “ سراسر جھوٹ اور خیالی وہم ہے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔اس لیے ان کا پلان ہی موقع پرستی ہے ،نیز عین رجعت پرستی ہے جس کے ذریعہ وہ مختلف قسم کی مادہ پرستیوں میں مبتلا اور تمام برے اخلاق سے دوچار ہیں ،موقعہ پرستی اور انانیت کاخاتمہ تو صرف دین حنیف کے ذریعہ ہوسکتا ہے۔
فرمان الٰہی:- صِبْغَةَ اللهِ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللهِ صِبْغَةً وَ نَحْنُ لَہُ عٰبِدُونَ۔ (بقرہ:۱۳۸)
(ہدایت اور نجات کی راہ کسی رسمی اصطباغ یعنی رنگ دینے کی محتاج نہیں ،جیسا کہ عیسائیت کا شیوہ ہے) یہ الله کا رنگ ہے اور (بتلاوٴ)الله سے بہتر اور کس کا رنگ ہوسکتا ہے۔
والله یہ درست ہی نہیں کہ اسلامی قومیں بالخصوص عرب ان مغربی افکار کو اپنائیں جنہیں مادہ پرست یورپی قومیں اپنانے پر مجبور تھیں ایسے افکار نہ تو مسلمانوں کی کرامت سے میل کھاتے ہیں اورنہ ہی اُن پر الله کی عائد کردہ ذمہ داریوں کے موافق ہیں ،بلکہ یہ افکار انہیں روئے زمین کے ربانی معلمین اورنظام الٰہی کے مطابق دنیا کے حکمرانوں کے درجے سے ہٹا کر کمزور ،بے سہارا اور دوسروں کے محتاج چیلوں کی صف میں لاکھڑاکریں گے اور انہیں احساس تک نہ ہوگا ۔اس طرح قوموں کے مابین ان کا تشخص ختم ہوجائے گا ،نیز الله کی عطاکردہ مابہ الامتیاز خصوصیت کھوبیٹھیں گے ،انہیں افکار کی بدولت لادینی اور علمانی ملکوں اور قوموں میں شامل ہوجائیں گے۔اپنی سرداری وعزت اور خیر امت کا لقب کھوبیٹھیں گے ،اسی لیے الله تعالیٰ نے کسی قوم کے شعائر اور شعار کو اپنانے سے روکا ہے تاکہ یہ امت اپنا معیار نہ کھو بیٹھیں ۔
قدیم وجدید جاہلیت
س۱:- کیا جاہلیت کا تعلق صرف گذشتہ صدیوں سے تھا یا لوگوں میں پائی جاتی رہے گی؟
ج۱:- اس کا تعلق صرف گذشتہ صدیوں سے نہیں بلکہ جاہلیت آنیوالی صدی میں بالمقابل گذشتہ صدی کے زیادہ پائی جاتی ہے ۔اس لیے کہ جاہلیت کی کچھ مخصوص صفتیں ہیں جن سے وہ تمام افراد اور قومیں متصف ہوتی ہیں،جو اپنے رب اور رسولوں کی نافرمان ہوجائیں ہر چیز میں خواہشات کی پیروی کریں ۔
حدیہ ہے کہ موجودہ جاہلیت گذشتہ تمام جاہلیت سے بدتر ہے اس لئے کہ اس میں کفرانِ نعمت پر اکسانا،خالق کا انکار ،ا سکے دین وشریعت کو نہ ماننا ،اس کی حکمت وعزت کا مذاق اڑانا ،غنڈہ گردی ،برائی اور فسق وفجور کو سراہنا ،غیرت وحیاکا ختم ہوجانا وغیرہ وغیرہ پایا جاتا ہے جو نہ ابوجہل کے یہاں پایا جاتا تھا اور نہ ابولہب کے یہاں اور نہ ہی اس کے ماقبل کی جاہلیتوں میں ،بات یہیں نہیں ختم ہوتی بلکہ انسانیت اپنے حدود سے تجاوز کرکے نظام الٰہی کو پس پشت ڈال چکی ہے ،اس پر الله کے عذاب کسی وقت آسکتے ہیں تاں آں کہ حکم الٰہی کی پابند ہوجائے اور اس کی شریعت کا نفاذ کردے۔
 

شکیل احمد

محفلین
دعائے مستجاب
۱:- نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب کسی کو کوئی پریشانی لاحق ہو یا حزن وملال سے دوچار ہو تو درج ذیل دعا پڑھے الله تعالیٰ اپنی بے پایاں رحمت سے اس کی پریشانی اور غم کو دورکرکے اسے فرحت وشادمانی سے شاد کام کرتے ہیں ۔
اللھم انی عبدک وابن عبدک وابن أمتک ، ناصیتی بیدک ماضٍ فی حکمک عدل فی قضا وٴک ، أسالک بکل اسم ھو لک سمیت بہ نفسک أو أنزلتہ فی کتابک أو علّمتہ أحداً مّن خلقک أو استأثرت بہ فی علم الغیب عندک أن تجعل القرآن ربیع قلبی ، ونور بصری وذھا ب حمّی وغمّی ۔
اے الله! میں تیر اغلام ہو، اور تیرے غلام اور باندی کا بیٹا ہوں ،میری پیشانی تیرے ہاتھ میں ہے ،میرے حق میں تیرا حکم جاری ہے، میرے متعلق تیر فیصلہ مبنی برانصاف ہے، میں سوال کرتا ہوں تیرے اُس نام کے ذریعہ جسے تو نے اپنے لیے پسند فرمایا یا تو نے اپنی کتاب میں نازل کیا ،یا اپنی مخلوق میں سے کسی کو سکھایا ،یا اپنے علم غیب میں اسے محفوظ رکھا ،قرآن کریم کو میرے دل کی بہار اور میری آنکھوں کا نور اور میرے رنج وغم کا مداوا کردے۔ (صحیح ،احمد وابن حبان)
۲:- حضرت یونس علیہ السلام کی دعاء جسے مچھلی کے پیٹ میں مانگ رہے تھے :
لَا اِلٰہ اِلّا أنت سبحانک اِنی کنت من الظالمین ۔
مسلمان جس چیز سے متعلق اس دعاء کو مانگتاہے الله تعالیٰ قبول کرلیتا ہے ۔ (صحیح احمد وغیرہ)
۳:- یا حي یا قیوم برحمتک أستغیث ۔
اے رب حیّ وقیوم میں تیری رحمت کا آسرا چاہتا ہوں ۔ (ترمذی ،حسن)

تمت بالخیر

لیث محمد لال محمد
۲۷ رمضان المبارک ۱۴۰۸ئھ

الحمدلله الذی بنعمتہ تتم الصالحات۔
 

Ukashah

محفلین
السلام علیکم !
جزاک اللہ خیرا
واقعی آپ نے بہت اچھی کتاب ہمارے ساتھ شئر کی ۔
یونی کوڈ میں‌ پیش کرنے پر بہت شکریہ
اگر آپ کے پاس محمد بن جمیل زینو کی اور بھی کتب ہیں تو ضرور شئر کریں ۔
 
Top