اسلامی عقیدہ ( محمد بن جمیل زینو)

شکیل احمد

محفلین
بسم الله الرحمن الرحیم
پیش لفظ
اسلامی عقائد کے موضوع پر اب تک سینکڑوں کتابیں لکھی جاچکیں ہیں ،ان میں سے کچھ تو قدیم یونانی فلسفہ یا جدید فکر سے متاثر ہیں ،اور بعض متکلمانہ ومناظرانہ اسلوب بیان کی حامل ہیں جن سے دماغ (عقل)کی آسودگی کا اگر تھوڑا بہت سامان ہوبھی جائے دل (قلب)مطمئن نہیں ہوتا ۔عصر حاضر میں کائنات اور انسان سے متعلق نو دریافت شدہ حقائق کو سامنے رکھ کر اسلامی عقائد کے اثبات کا ایک نیا رجحان پیدا ہوا ہے ،یہ کوشش اگرچہ مستحسن ہے ،مگر افسوس کہ اکثر موٴلفین اس سلسلے میں افراط وتفریط کا شکار ہوگئے ہیں ۔سائنس چونکہ غیبیات سے بحث نہیں کرتی اور عقائد کا دوارومدار ہی ایمان بالغیب پر ہے ۔اس لیے ایسے حقائق جو انسانی مشاہدات سے ماورا ہیں ان کے بارے میں سائنس ہمیں کیا رہنمائی کرسکتی ہے ظاہر ہے ۔زیادہ سے زیادہ چند ثابت شدہ حقائق سے بعض مخفی امور پر استدلال کیا جاسکتاہے ،اور شریعت کے بعض احکام کے اندر پوشیدہ حکمتیں سمجھی جاسکتی ہیں۔
ان رجحانات کے مقابلے میں ہمیں قرآن مجید کے اندر عقائد کے اثبات کا انداز زیادہ اپیل کرتا ہے ،جہاں نہ فلسفیانہ موشگافیاں ہیں ۔نہ متکلمانہ قیل وقال ،نہ ریاضیاتی فارمولے ،نہ نظام شمسی کی تشریح ،نہ اعضائے جسمانی کی سرجری مگر بہ ایں ہمہ حقائق کا سیدھا سادھا اظہارہے جو عقل اور قلب دونوں کو مطمئن کرتاہے ۔سلف صالحین (صحابہ ،تابعین ،تبع تابعین اور آئمہ عظام )نے اسلام کے دیگر شعبوں کی طرح عقائد کے باب میں بھی قرآن مجید پر اعتماد کیا ،اور اس کی مزید تشریح وتوضیح کے لیے صرف صحیح احادیث کا سہارا لیا ،عقائد کے باب میں خصوصاً انہوں نے اپنی رائے کا استعمال کرنے کے بجائے کتاب وسنت کے اندر مذکورہ حقائق کے بیان کردینے پر اکتفا کیا ہے ۔محدثین کی مستقل تصانیف کے علاوہ کتبِ حدیث کے اندر عقائد سے متعلق ابواب پر ایک نظر ڈالنے سے اس حقیقت کا بخوبی اظہار ہوسکتا ہے ۔الله جزائے خیر دے شیخ بدیع الدین شاہ رشدی کو ،کہ انہوں نے عقائد پر دوسری صدی سے اب تک اس رجحان کی نمائندہ تمام تالیفات کا مکمل تذکرہ ”ہدایة المستفید ترجمہ فتح المجید “کے مقدمہ میں کردیا ہے امید ہے کہ قارئین کرام اس پر ایک نظر ڈال لیں گے ۔
زیر نظر کتاب بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے ،مصنف نے اس میں سوال وجواب کے انداز میں تمام عقائد کا مختصر تذکرہ کردیا ہے ۔خوبی یہ ہے کہ ایک بات بھی بغیر دلیل نہیں کہی ہے ۔ہر جگہ کسی آیت یا صحیح حدیث کی طرف اشارہ مع حوالہ درج ہے ۔عوام اور خواص سب ہی اس سے یکساں مستفید ہوسکتے ہیں ۔مکتب اور اسکول کے بچوں کے لیے تو یہ کتاب بہت ہی مفید ہے ،ضرورت ہے کہ اسے زیادہ سے زیادہ مدارس ومکاتب میں ابتدائی درجوں میں داخل نصاب کرلیا جائے ۔
اس کتاب کے مصنف شیخ محمد بن جمیل زینو دارالحدیث مکہ مکرمہ میں مدرس ہیں ،انہوں نے عوام کی اصلاح کی خاطر چھوٹی چھوٹی کتابوں کی تالیف واشاعت کا ایک سلسلہ شروع کررکھا ہے ۔یہ اس سلسلے کی چوتھی کتاب ہے ،اس کا پہلا ایڈیشن مختصر تھا ،اس کے کئی اردو ترجمے برصغیر میں چھپ چکے ہیں ،زیر نظر دسویں ایڈیشن میں کتاب دوگنی سے زیادہ ہوگئی ہے ۔اس لیے ازسر نو اس کے ترجمے کی ضرورت محسوس ہوئی ۔مصنف محترم نے مجھ سے اسی خواہش کا اظہار کیا ۔میں نے کتاب لے کر اپنے دوست لیث محمد صاحب کے حوالے کردی ۔انہیں عربی سے اردو ترجمہ کے میدان میں پہلے سے تجربہ ہے ،اس سے قبل انہوں نے شیخ البانی ،محمد خلیل ہراس اور دیگر مصنفین کی تحریروں کے ترجمے کئے ہیں ،اس کتاب کا ترجمہ بھی انہوں نے تھوڑے دنوں میں مکمل کرلیا ۔اور اب یہ آپ لوگوں کے ہاتھ میں ہے۔
دعا ہے کہ الله تعالیٰ سے قارئین کے لیے مفید بنائے ،اور مصنف ،مترجم اور ناشر کو اجر عطا فرمائے

محمد عزیر
 

شکیل احمد

محفلین
اسلام و ایمان
س ۱:- اسلام کیا ہے ؟
ج۱:- اسلام کے معنی ہیں توحید کا اقرار کرتے ہوئے الله کے لیے سرِ تسلیم خم کردینا ،اس کی اطاعت بجالانا ،شرک سے دور رہنا۔
فرمان الٰہی: ” بَلَیٰ مَنْ اَسْلَمَ وَجْھَہُ ، لِلّٰہِ وَھُوَ مُحْسِنٌ فَلَہُ أَجْرُہُ عِنْدَ رَبِّہِ وَلَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ “
حق یہ ہے کہ جو بھی اپنی ہستی کو الله کی اطاعت میں سونپ دے اور عملاً نیک روش پر چلے ،اس کے لیے اس ربْ کے پاس ْ اس کا اجر ہے اور ایسے لوگوں کے لیے کسی خوف یا رنج کاموقع نہیں۔ (سورة البقرة:۱۱۲)
فرمان نبوی:- الاسلام أن تشھد أن لاالٰہ اِلاالله وأن محمداً رسول الله وتقیم الصلوٰة وتوٴتی الزکاة وتصوم رمضان وتحج البیت اِن استطعتَ اِلیہ سبیلاً ۔ (مسلم)
اسلام یہ ہے کہ تو اس بات کی گواہی دے کہ الله کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں ۔محمد صلی الله علیہ وسلم الله کے رسول ہیں ،نماز کو قائم کرے زکوٰة ادا کرے،رمضان کے روزے رکھے ،اگر استطاعت ہو تو حج کرے۔
س۲:- ایمان کی تعریف کیا ہے ؟
ج۲:- دل سے تصدیق ،زبان سے اقرار ،اعضاء وجوراح سے عمل کرنے کا نام ایمان ہے ۔
فرمان الٰہی: ” قَالَتِ اْلْأَعْرَابُ ءَ امَنَّا قُلْ لَّمْ تُوْمِنُواْ وَلٰکِنْ قُوْلُوٓاْ أَسْلَمْنَا وَلَمَّا یَدْخُلِ اْلْاِیْمٰنُ فِی قُلُوْبِکُمْ وَاِن تُطِیْعُواْللهَ وَرَسُولَہُ لَا یَلتِکُم مِّنْ أَعْمٰلِکُمْ شَےْئًا۔
یہ بدوی کہتے ہیں کہ ”ہم ایمان لائے “ان سے کہو تم ایمان نہیں لائے بلکہ یوں کہو کہ ہم مطیع ہوگئے ،ایمان ابھی تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا ہے۔ (الحجرات:۱۴)
فرمان نبوی:- الایمان أن تومن بالله وملائکتہ وکتبہ ورسلہ والیوم الاٰخر وتوٴمنَ بالقدر خیر وشرہ۔ (مسلم)
ایمان یہ ہے کہ تو الله،اس کے فرشتوں ،اس کی کتابوں ،اس کے رسولوں ،قیامت کے دن پر ایمان رکھے نیز بھلی بُری تقدیر پر بھی ایمان رکھے ۔
حسن بصری رحمہ الله کا قول ہے : لیس الاِیمان بالتّمنّی ، ولا بالتجلّی ولکن ھو ما وقر فی القلب وصدّقہ العمل ۔
ایمان تمنا اور ظاہری آرائش کا نام نہیں ،بلکہ وہ تو دل کی گہرائیوں میں پائی جانے والی چیزہے ،جس کی تصدیق عمل کرے۔
س۳:- تمہارا رب کون ہے؟
ج۳:- میرا رب الله کی وہ ذات ہے جس نے مجھے پیدا کیا اور اپنی نعمت سے میری اور تمام مخلوقات کی پرورش کی ،وہی میرا معبود حقیقی ہے،اُس کے علاوہ میرا کوئی معبود نہیں۔
فرمان الٰہی:- الحمد لله ربّ العالمین ۔
تعریف الله ہی کے لیے ہے جو تمام کائنات کا رب ہے۔ (سورة فاتحہ:۱)
س۴:- تمہارا دین کونسا ہے؟
ج۴:- ہمارا دین ،اسلام ہے اور وہ کتاب وسنت کے بیان کردہ تمام ہی عبادات واطاعت کا نام ہے ۔
فرمان الٰہی:- اِنَّ الْدِّیْنَ عِنْدَ اللهِ الْاِسْلَامُ۔
الله کے نزدیک دین صرف اسلام ہے۔
س۵:- تمہارے نبی کون ہیں ؟
ج۵:- ہمارے نبی محمد صلی الله علیہ وسلم ہیں،آپ کی ولادت باسعادت مکّہ میں ہوئی آپ تمام لوگوں کے نبی ورسول ہیں۔
فرمان الٰہی:- ” قُلْ یٰٰٓأَیُّھَااْلنَّاسُ اِنِّی رَسُولُ اللهِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعًا“۔
اے نبی آپ کہہ دیجئے کہ لوگو! میں تم سب کی جانب الله کا بھیجا ہوا رسول ہوں۔ (الاعراف:۱۵۸)
آپ خاتم النّبیّین ہیں آپ کے بعد کوئی نبی یا رسول آنے والا نہیں۔
فرمان الٰہی:- ” مَاکَانَ مُحَمَّدٌ أَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وِلٰکِنْ رَّسُولَ اللهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّینَ “ (الاحزاب:۴۰)
(لوگو) محمد (صلی الله علیہ وسلم)تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں :مگر وہ الله کے رسول اور خاتم النّبیّین ہیں ۔منصب نبوت آپ کو اس وقت ملا جب آپ پر درج ذیل ارشاد باری کا نزول ہوا ۔
اِقرأ بِاسمِ ربّکَ الَّذِیْ خَلَق ۔
(اے نبی) آپ پڑھئے اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا۔
اور آپ رسالت کے منصب سے اس وقت سرفراز ہوئے جب درج ذیل ارشاد کا نزول ہوا۔
” یَٰٓأَ یُّھَاالْمُدَّثِّرُ ، قُمْ فِأنْذِرْ “
اے اوڑھ لپیٹ کر لیٹنے والے ،اٹھو اور ڈراوٴ۔ (سورة مدثر:۱)
جب آپ چالیس سال کے ہوئے تو آپ پر وحی کا نزول ہوا ، ۱۳ ․ ء نبوت کو آپ مدینہ منورہ ہجرت کرگئے ،وہاں آپ دس سال باحیات رہے ،جب آپ تریسٹھ سال کے ہوئے تو خالق حقیقی سے جاملے ۔رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی دعوت کا آغاز توحید سے ہوا ،توحید نام ہے لا الہ الاالله کے اقرار کرنے کا یعنی الله کے علاوہ کوئی بھی معبود برحق نہیں ۔آپ کے رب نے آپ کو حکم دیا کہ آپ صرف الله کو پکاریں ،اس کی پکار میں کسی دوسرے کو شریک نہ کریں ،جیسا کہ مشرکین آپ کے زمانے میں کرتے تھے۔
فرمان الٰہی :- ” قُلْ اِنَّمَآ اَدْعُواْ رَبِّی وَلَا أُشْرِکُ بِہ أَحَدًا “
(اے نبی)کہو کہ میں تو اپنے رب کو پکارتا ہوں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا۔ (سورة الجن:۲۰)
فرمان نبوی:- الدعاء ھو العبادة۔ (حسن صحیح ،ترمذی)
پکار عبادت ہے ۔
مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ صرف الله کو پکاریں ،کسی غیر کو نہ پکاریں چاہے وہ نبی یا ولی ہی کیوں نہ ہو۔اس لیے کہ صرف الله تعالیٰ ہی قادر مطلق ہے ،اس کے علاوہ مُردے اپنی پریشانی دور کرنے سے عاجز ہیں۔
فرمان الٰہی:- وَالَّذِیْنَ یَدْعُونَ مِن دُونِ اللهِ لَا یَخْلُقُونَ شَےْئًا وَھُمْ یُخْلَقُونَ ، أَمْوَاتٌ غَیْرُ أَحْیَآءٍ وَمَا یَشْعُرُونَ أَیَّانَ یُبْعَثُونَ ۔
اور وہ دوسری ہستیاں جنہیں الله کو چھوڑ کر لوگ پکارتے ہیں وہ کسی بھی چیز کی خالق نہیں ہیں ،بلکہ خود مخلوق ہیں ،مردہ ہیں نہ کہ زندہ ،اور ان کو کچھ معلوم نہیں کہ انہیں کب (دوبارہ زندہ کرکے )اٹھایا جائے گا ۔ (النحل:۲۰-۲۱)
س۶:- دوبارہ اٹھائے جانے سے متعلق تمہارا کیا عقیدہ ہے ۔اس کے انکار کا حکم کیا ہے؟
ج۶:- دوبارہ اٹھائے جانے کے سلسلے میں میرا عقیدہ یہ ہے کہ اُس پر ایمان رکھنا واجب ہے نیز اُس پر بھی کہ وہ ایمان بالله کا لازمی جز ہے اور یہ کہ جو ذات مخلوقات کی تخلیق عدم سے کرسکتی ہے دوبارہ مخلوقات کا اعادہ کرسکتی ہے۔
اس کے انکار کا حکم:- کفر اور منکر کو جہنم میں ہمیشگی کا مستحق ٹہراتا ہے۔
دلیل فرمان الٰہی:- وَضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَنَسِیَ خَلْقَہُ قَالَ مَنْ یُحْیِ الْعِظٰمَ وَھِی رَمِیْمٌ ، قُلْ یُحْیِیھَا الَّذِیٓ أَنْشَأَھَآ أَوَّلَ مَرَّةٍ وَھُوَ بِکُلِّ خَلْقٍ عَلِیْمٌ ۔
اب وہ ہم پر مثالیں چسپاں کرتا ہے اور اپنی پیدائش کو بھول جاتا ہے کہتا ہے”کون ان ہڈیوں کو زندہ کرے گا ،جب کہ یہ بوسیدہ ہوچکی ہوں“اس سے کہو انہیں وہی زندہ کرے گا جس نے پہلے انہیں پیدا کیا تھا۔
س۷:- مُردے کے حُسن خاتمہ کی کیا علامات ہیں ؟
ج۷:- حسن خاتمہ کی بہت سی علامتیں ہیں ۔جس مسلمان میں مرتے وقت ان میں کوئی ایک پائی جاتی ہے وہ اس کے لیے خوشخبری ہوتی ہے
۱۔ مرتے وقت لَا اِلٰہَ اِلَّا اللهُ مُحَمَّد رَسُول الله کا زبان سے ادا کرنا ۔
۲۔ جمعہ کے دن یا رات کو مرنا۔
۳۔ رش الجبین میں مرنا یعنی مرتے وقت پیشانی پسینے سے تر ہو۔
۴۔ میدان جنگ میں شہید ہونا۔
۵۔ فی سبیل الله لڑتے ہوئے مرنا، اس میں مندرجہ ذیل تمام لوگ شامل ہیں جو فی سبیل الله قتل کردیا جائے،جو طاعون میں مرجائے،جوپیٹ کی کسی بھی بیماری میں مرجائے ۔
۶۔ جو جل کر یا ڈوب کرمرے۔
۷۔ حالت نفاس میں عورت کا مرجانا۔
۸۔ نمونیہ کی حالت میں مرنا۔
۹۔ تپ دق میں مرنا۔
۱۰۔ جان ومال اور دین کی حفاظت میں مرنا۔
۱۱۔ فی سبیل الله پہرے داری کرتے ہوئے مرنا۔
۱۲۔ کوئی عمل صالح کرتے ہوئے مرنا،مثلاً شہادتوں کا اقرار ،روزہ رکھنا صدقہ کرنا وغیرہ۔
 

شکیل احمد

محفلین
بندوں پر الله کے حقوق
س۱:- الله نے ہمیں کیوں پیدا کیا ؟
ج۱:- الله نے ہمیں پید اکیا تاکہ ہم اس کی عبادت کریں ،اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں ۔
فرمان الٰہی:- وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنَ۔
ہم نے جن اور انسانوں کو صرف اپنی بندگی کے لیے پیدا کیا ہے ۔ (ذاریات:۵۶)
فرمان نبوی:- حق الله علی العباد أن یعبدوہ ولا یشرکوا بہ شیئا۔
الله کا حق بندوں پر یہ ہے کہ وہ اس کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں۔ (بخاری ومسلم)
س۲:- عبادت کسے کہتے ہیں؟
ج۲:- عبادت ہر اُس گفتار وکردار کانام ہے جسے الله تعالیٰ پسند کرتاہے مثلاً دعا ،نماز ،خشوع وغیرہ۔
فرمان الٰہی:- قُلْ اِنَّ صَلَاتِی وَ نُسُکِی وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِی لِلّٰہِ رَبِّ الْعَٰلَمِیْنَ ۔
کہہ دیجئے! میری نماز میرے تمام مراسمِ عبودیت ،میرا جینا اور میرا مرنا سب کچھ الله ربّ العالمین کے لیے ہے۔ (الانعام:۱۶۲)
حدیث قدسی:- ما تقرّب اِليَّ عبدي بشیٴ اُحبّ اِليّ مما افترضتہُ علیہ ۔
میری قربت کے لیے بندہ جو بھی اعمال کرتاہے ان میں سے فرائض مجھے زیادہ پسند ہیں۔ (بخاری)
س۳:- عبادت کی قسمیں کیا کیا ہیں؟
ج۳:- عبادت کی بہت سی قسمیں ہیں ،جیسے دعاء ، خشیت الٰہی، توکل ،سجدہ ،طواف،قسم ،فرمان روائی وغیرہ وغیرہ۔
س۴:- ہم الله کی عبادت کیسے کریں ؟
ج۴:- جیسا کہ الله اور ا س کے رسول نے ہمیں حکم دیا ہے ۔
فرمان الٰہی:- یَٰٓأَ یُّھَاالَّذِیْنَ ءَ امَنُوٓا أَطِیْعُوا اللهَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطَلُوٓا أَعْمَٰلَکُمْ ۔
ایمان والو: تم الله کی اطاعت کرو اور رسول کا کہا مانو اور اپنے اعمال کو برباد نہ کرلو۔ (سورة محمد:۳۳)
حدیث نبوی:- من عمل عملًا لیس علیہ أمرنا فھو رد ۔ (مسلم)
جس کسی نے ایسا کام کیا جس کا ہم نے حکم نہیں دیا ہے تو وہ مردود ہے غیر مقبول ہے۔
س۵:- کیا ہمیں رحمت الٰہی کی امید اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہوئے عبادت کرنا چاہئے؟
ج۵:- ہاں ہمیں اسی طرح عبادت کرنا چاہیے۔
فرمان الٰہی:- وَادْعُوہُ خَوْفًا وَ طَمْعًا ۔
اور اسے خوف وطمع کے ساتھ پکارو۔
فرمان نبوی:- أسأل الله الجنة وأعوذ بہ من النار ۔
میں الله سے جنت کا سوال کرتا ہوں ،اور جہنم سے اس کی پناہ چاہتاہوں۔ (ابوداوٴد)
س۶:- عبادت میں احسان کا کیا مفہوم ہے ؟
ج:- عبادت میں الله تعالیٰ کی نگہداشت ومراقبہ کو احسان سے تعبیر کیا گیا ہے ۔
فرمان الٰہی:- الَّذِی یَرَاکَ حِیْنَ تَقُوْمُ ، وَتَقَلُّبَکَ فِی السّٰجِدِینَ ۔
وہ تمہیں اس وقت دیکھ رہا ہوتا ہے جب تم اٹھتے ہواور سجدہ گذار لوگوں میں تمہاری نقل وحرکت پر نگاہ رکھتا ہے۔ (شعراء : ۲۱۹)
فرمان نبوی:- الاِحسان أن تعبدَالله کأنک تراہ فاِن لم تکن تراہ فاِنہ یراک۔ (مسلم)
احسان یہ ہے کہ تم الله کی عبادت اس انداز پر کرو کہ تم اسے دیکھ رہے ہو ،اگر ایسا نہ ہو تو پھر الله تمہیں دیکھ رہا ہے ۔
س۷:- الله اور رسول کے حقوق کے بعد سب سے بڑا حق کس کا ہے؟
ج۷:- والدین کا ۔
فرمان الٰہی:- وَقَضَیٰ رَبُّکَ أَلَّا تَعْبُدُوا اِلَّا اِیَّاہُ وَبِالْوَٰلِدَیْنِ اِحْسَٰنًا اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَکَ الْکِبَرَ أَحَدُھُمَا أَوْ کِلَاھُمَا فَلَا تَقُلْ لَّھُمَآ أُفِّ وَلَا تَنْھَرْھُمَا وَقُلْ لَّھُمَا قَوْلًا کَرِیْمًا ۔ (سورة الاسراء:۲۳)
تیرے رب نے فیصلہ کردیا ہے کہ تم لوگ کسی کی عبادت نہ کرو،مگر صرف اس کی ،والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو ،اگر تمہارے پاس ان میں سے کوئی ایک ،یا دونوں بوڑھے ہوکر رہیں تو انہیں اف تک نہ کہو ،نہ انہیں جھڑک کر جواب دو ،بلکہ ان سے احترام کے ساتھ بات کرو ۔
حدیث نبوی:- عن أبی ھریرة قال : جاء رجل الی رسول الله صلی الله علیہ وسلم فقال : یا رسول الله من أحق الناسِ بحسن صحبتی قال : أمک ، قال : ثم من؟ قال : أمک ، قال : ثم من ؟ قال أمک ، قال : ثم من؟ قال : ابوک ۔
حضرت ابوہریرة رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا ایک شخص رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے پاس آیا اور پوچھا اے الله کے رسول میرے حسن سلوک کا لوگوں میں کون سب سے زیادہ حق دار ہے آپ نے فرمایا ،تیری ماں ۔دوبارہ پوچھا،پھر کون،آپ نے فرمایا،تیری ماں سہ بارہ پوچھا ، پھر کون ،آپ نے فرمایا تیری ماں ،چوتھی بار پوچھا،پھر کون ،آپ نے فرمایا ،تیرا باپ۔
 

شکیل احمد

محفلین
توحید کی قسمیں اور اس کے فوائد
س۱:- الله تعالیٰ نے رسولوں کو کیوں بھیجا؟
ج۱:- تاکہ لوگوں کو عبادت باری تعالیٰ کی دعوت دیں اور شرک کی نفی کریں ۔
فرمان الٰہی:- وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِی کُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولًا أَنِ اعبُدُوااللهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّٰغُوتَ ۔
اور ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیج دیا اور اس کے ذریعہ سب کو خبردار کردیا کہ ”الله کی بندگی کرو اور طاغوت کی بندگی سے بچو“ (طاغوت وہ ہے جسے لوگ الله کو چھوڑکر پوجیں اور پکاریں اور وہ اس پر راضی ہو)۔ (سورة النحل:۳۶)
حدیث نبوی:- والأنبیاء اِخوة ، ودینھم واحد۔ (بخاری ومسلم)
تمام انبیاء آپس میں بھائی بھائی ہیں․․․․․․․․․اور ان کا ایک ہی دین ہے ۔
س۲:- توحید ربوبیت کیا ہے؟
ج۲:- الله تعالیٰ کو اس کے افعال میں یکتا ماننا توحید ربویت ہے جیسے خلق اور تدبیر وغیرہ۔
فرمان الٰہی:- اَلًحَمًدُلله رَبِّ العٰالَمِیْن ۔
تمام تعریفیں الله ہی کے لیے ہیں جو تمام کائنات کا رب ہے ۔
حدیث نبوی:- أنتَ ربّ السَّمٰوٰتِ والأرض ۔ (بخاری ومسلم)
تو ہی زمین اور آسمانوں کا رب ہے ۔
س۳:- توحید الوہیت کسے کہتے ہیں؟
ج۳:- جملہ عبادات کا مستحق صرف الله کوماننا ،جیسے کہ دعا ،ذبیحہ ،نذر،فرمانروائی ،نماز ،امید رحمت،خوف عذاب،طلب مدداور توکل وغیرہ ۔
فرمان الٰہی:- وَاِلٰھُکُمْ اِلَہٌ وَاحِدٌ لَّآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ ۔
اور تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے اس رحمن اور رحیم کے علاوہ کوئی برحق معبود نہیں ہے۔
حدیث نبوی:- فلیکن أول ما تدعوھم الیہ شھادة أن لاالہ الّا الله ۔
تمہاری دعوت کا آغاز اس بات کی گواہی سے ہو کہ الله کے علاوہ کوئی مستحق عبادت نہیں۔ (بخاری ومسلم)
بخاری کی ایک روایت یوں ہے ”الی أن یوحدوا الله “ یعنی پہلے اس بات کی دعوت دی جائے کہ لوگ الله کی وحدانیت کے قائل ہوجائیں ۔
س۴:- توحید ربوبیت اور توحید الوہیت کی غرض وغایت کیا ہے ؟
ج۴:- توحید ربوبیت والوہیت کی غرض وغایت یہ ہے کہ لوگ اپنے معبود ورب کی عظمت کو پہچان لیں ،صرف اسی کی عبادت کریں ،اسی کے کہنے پر چلیں ،ایمان ان کے دلوں میں رَچ بس جائے نیز فی الواقع عملاً اس کا ظہور ہو۔
س۵:- توحید اسماء وصفات سے کیا مراد ہے؟
ج۵:- الله تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم نے جو اس کے اوصاف بیان فرمائے ہیں انہیں اس کے شایان شان بلا تاویل وتفویض اور بلا تمثیل وتعطیل تسلیم کرنا توحید اسماء وصفات کہلاتا ہے ،جیسا کہ استواء علی العرش ،اس کا نزول ،اور اس کا ہاتھ وغیرہ۔
فرمان الٰہی:- ” لَیْسَ کَمِثْلِہ شَیٴ ءٌ وَھُوَالسَّمِیْعُ البَصِیْرُ“
کائنات کی کوئی چیز اس کے مشابہ نہیں وہ سب کچھ دیکھنے اور سننے والا ہے۔
حدیث نبوی:- ینزل الله فی کل لیلة الی السماء الدنیا ۔ (مسلم)
الله تعالیٰ ہر رات آسمان دنیا کی طرف اپنی شایان شان نزول فرماتا ہے۔(اس کا یہ نزول کسی مخلوق کے نزول کے ہرگز مشابہ نہیں)
س۶:- الله تعالیٰ کہاں ہے ؟
ج۶:- الله تعالیٰ عرش پر مستوی ہے۔
فرمان الٰہی:- ” الرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوَیٰ“
وہ رحمان عرش پر مستوی ہے۔ (سورة طہٰ:۵)
بخاری شریف میں تابعین سے اس کی تفسیر یوں منقول ہے : یعنی چڑھا اور بلند ہوا۔
حدیث نبوی:- ان الله کتب کتاباً قبل أن یخلق الخلق ان رحمتی سبقت غضبی فھو مکتوب عندہ فوق العرش ۔
الله تعالیٰ نے مخلوقات کی تخلیق سے پہلے ایک دستاویز لکھی کہ ”میری رحمت میرے غضب پر سبقت لے گئی“ اور وہ عرش پر اس کے پاس محفوظ ہے ۔ (بخاری)
س۷:- کیا الله تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے ؟
ج۷:- الله تعالیٰ اپنی دید وشنید اور علم کے لحاظ سے ہمارے ساتھ ہے یعنی ہماری جملہ حرکات وسکنات اس کے سامنے ہیں۔
فرمان الٰہی:- ” قَالَ لَا تَخَافَآ اِنَّنِی مَعْکُمَآ اَسْمَعُ وَأَرَیٰ“
ڈرو مت میں تمہارے ساتھ ہوں ،سب کچھ سن رہا ہوں اور دیکھ رہاہوں۔ (سورة طہٰ:۴۶)
حدیث نبوی:- انکم تدعون سمیعًا قریبًا وھو معکم ۔ (مسلم)
تم ایسی ذات کو پکارتے ہو جو سننے والی اور قریب ہے ،(علم کے لحاظ سے)تمہارے ساتھ ہے ۔
س۸:- عقیدہ توحید کے فوائد کیا ہیں؟
ج۸:- اس کے فوائد یہ ہیں کہ :
۱۔ انسان آخرت کے ابدی عذاب سے محفوظ رہتا ہے ۔
۲۔ دنیا میں راست پر آجاتاہے ۔
۳۔ گناہوں کی بخشش ہوجاتی ہے ۔
فرمان الٰہی:- ” اَلَّذِیْنَ ءَ امَنُوا وَلَمْ یَلْبِسُوٓا اِیْمَانَھُمْ بِظُلْمٍ أُوْلٰئِکَ لَھُمُ الْأَمْنُ وَھُمْ مُھْتَدُونَ“
حقیقت میں امن انہیں کے لیے ہے اور راہ راست پر وہی ہیں جو ایمان لائے اور جنہوں نے اپنے ایمان کوظلم کے ساتھ آلودہ نہیں کیا۔ (ظلم سے مراد شرک ہے)۔ (سورہ انعام :۸۲)
حدیث نبوی:- حق العباد علی الله أن لایعذب من لا یشرک بہ شےئاً ۔ (بخاری ومسلم)
بندوں کا حق الله کے ذمہ یہ ہے کہ وہ ایسے تمام بندوں کو عذاب نہ دے جو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں ۔ (بخاری ومسلم)
 

شکیل احمد

محفلین
لاالہ اِلاالله کا مفہوم اور اس کے شرائط
س۱:- لَااِلٰہَ اِلَّا الله کا مفہوم کیا ہے؟
ج۱:- برادران اسلام کو معلوم ہونا چاہیے کہ لَااِلٰہَ اِلَّا الله جنت کی کنجی ہے لیکن ہر کنجی کے دندانے ہوتے ہیں ،اگر تمہاری کنجی دندانے والی ہے تو تالا کھول سکتی ہے ورنہ نہیں ۔
اس کنجی کے دندانے لَااِلٰہَ اِلَّا الله کے درج ذیل شرائط ہیں:
۱۔ اس کے مفہوم سے واقفیت ،یعنی الله کے علاوہ کسی کو معبود برحق نہ سمجھنا فرمان الٰہی :- فَاعْلَمْ أَنَّہُ لَااِلٰہَ اِلَّا الله ۔ (سورة محمد:۱۹)
جان لو کہ الله کے علاوہ کوئی بھی معبود برحق نہیں۔
حدیث نبوی:- من مات وھو یعلم أنہ لا اِلہ الا الله دخل الجنة ۔ (مسلم)
جس کی موت عقیدہ توحید لَااِلٰہَ اِلَّا الله پر ہوگی جنت میں داخل ہوگا۔
۲۔ ایسا یقین جس میں کوئی شک کا شائبہ نہ ہو،یعنی لَااِلٰہَ اِلَّا الله پربلا کسی شک دل کو پورا یقین ہو۔
فرمان الٰہی:- اِنَّمَا المُوٴْمِنُونَ ءَ امَنُوا بِاللهِ وَرَسُولِہ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوا ۔
حقیقت میں مومن تو وہ ہیں جو الله اور اس کے رسول پر ایمان لائے پھر انہوں نے کوئی شک نہیں کیا۔ (الحجرات:۱۵)
حدیث نبوی:- أشھدأن لاالہ الاالله وأنی رسول الله لا یلقی الله بھما عبد غیر شاک فیحجب عن الجنة ۔ (مسلم)
میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ الله کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں اور میں الله کا رسول ہوں ،جو بندہ بغیر شک ان دونوں باتوں کی گواہی دیتے ہوئے الله سے جاملے گا وہ جنت سے روکا نہیں جاسکتا۔
کلمہ لَااِلٰہَ اِلَّا الله کے تما م مقتضیات کو زبان ودل سے قبول کرنا۔
فرمان الٰہی:- اِنَّہُم کَانُوا اِذا قِیْلَ لَھُمْ لَااِلٰہَ اِلَّا الله یَسْتَکْبِرُونَ ، وَیَقُولُونَ أَئِنَّا لَتَارِکُوٓا ءَ ا لِھَتِنَا لِشَاعِرٍ مَجْنُونِ ۔
یہ وہ لوگ تھے جب ان سے کہا جاتا الله کے سوا کوئی معبود برحق نہیں تو یہ گھمنڈ میں آجاتے تھے اور کہتے تھے کیا ہم ایک شاعر مجنون کی خاطر اپنے معبودوں کو چھوڑ دیں گے؟ (صافات:۳۵-۳۶)
حدیث نبوی:- أمرت أن أقاتل الناس حتّی یقولوا لَااِلٰہَ اِلَّا الله ، فمن قال لَااِلٰہَ اِلَّا الله فقد عصم منّی مَا لہ ونفسہ اِلّا بحقّ الاِسلام وحسابہ علی الله عزوجل ۔ (بخاری ومسلم)
مجھے لوگوں سے جنگ کا حکم دیا گیا یہاں تک کہ وہ لَااِلٰہَ اِلَّا الله کے قائل ہوجائیں ،جو بھی لَااِلٰہَ اِلَّا الله کاقائل ہوگیا ،اس نے مجھ سے اپنی جان ومال کو محفوظ کرلیا اِلّا یہ کہ وہ کسی اسلامی قانون کی زد میں آجائے اور اس کا حساب الله عزوجل پر موقوف ہے ۔
۴۔ جن چیزوں پر لَااِلٰہَ اِلَّا الله دلالت کرتا ہو ، ان کے لیے سرتسلیم خم کردینا
فرمان الٰہی:- وَأَنِیْبُوا اِلَیٰ رَبِّکُمْ وَأَسْلِمُوا لَہُ ۔
پلٹ آوٴ اپنے رب کی طرف اور مطیع بن جاوٴ۔ (زمر:۵۴)
۵۔ ایسی تصدیق جس میں تکذیب کا شائبہ تک نہ ہویعنی لَااِلٰہَ اِلَّا الله کاصدق دل سے قائل ہو۔
فرمان الٰہی:- الٓمٓ ، أَحَسِبَ النَّاسُ أَن یُتْرَکُوٓا أَن یَقُولُوٓا ءَ امَنَّا وَھُمْ لَا یُفْتَنُونَ ، وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِینَ مِنْ قَبْلِھِمْ فَلَیَعْلَمَنَّ اللهُ الَّذِیْنَ صَدَقُوا وَلَیَعْلَمَنَّ الْکَٰذِبِیْنَ ۔
ا۔ل۔م۔ کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ بس اتنا کہنے پر چھوڑ دئیے جائیں گے کہ ”ہم ایمان لائے“ اور ان کو آزمایا نہ جائے گا ،حالانکہ ہم ان سب لوگوں کی آزمائش کرچکے ہیں جو ان سے پہلے گذرے ہیں ،الله کو تو ضرور یہ دیکھنا ہے کہ سچے کون ہیں اور جھوٹے کون ہیں ؟
حدیث نبوی:- ما من أحد یشھد ان لَااِلٰہَ اِلَّا الله وأٴن محمدا عبدہ ورسولہ صِدقا من قلبہ اِلا حرمہ الله علی النار ۔
جو بھی صدق دل سے اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ الله کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور یہ کہ محمد صلی الله علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں ، اس پر الله تعالیٰ جہنم کی آگ حرام کردیتا ہے ۔ (بخاری ومسلم)
۶۔ اخلاص ،یعنی کسی بھی عمل کو اس طرح صالح نیت سے کرنا کہ اس میں شرک کا کوئی شائبہ نہ ہو۔
فرمان الٰہی:- وَمَا أُمِرُوٓا اِلَّا لِیَعْبُدُوا الله مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ حُنَفَآءَ ۔ (بینہ:۵)
اور ان کو اس کے سوا کوئی حکم نہیں دیا گیا تھا کہ الله کی بندگی کریں ،اپنے دین کو اس کے لیے خالص کرکے ،بالکل یک سو ہوکر ۔
حدیث نبوی :- أسعد الناس بشفاعتی یوم القیامة من قال لَااِلٰہَ اِلَّا الله خالصًا من قلبہ أو نفسہ ۔ (بخاری)
میری شفاعت کا حقدار وہی ہوگا جو صدق دل سے لَااِلٰہَ اِلَّا الله کاقائل ہوگا۔
حدیث نبوی:- ان الله حرّم علی النار من قال : لَااِلٰہَ اِلَّا الله یبتغی بذٰلک وجہ الله عزّوجل ۔ (مسلم)
جو رضائے الٰہی چاہتے ہوئے لَااِلٰہَ اِلَّا الله،کا قائل ہوتا ہے ،اس پر الله تعالیٰ جہنم کو حرام کردیتا ہے۔
۷۔ اس کلمہ طیبہ ،اس کے مقتضیات ومدلولات ،اس کے شروط کے ساتھ اس پر عمل کرنے والوں سے محبت کرنا،اور اس کے منکرین سے عداوت رکھنا۔
فرمان الٰہی:- وَمِنَ النَّاسِ مَن یَتَّخِذُ مِنْ دُونِ اللهِ أَنْدَادًا یُحِبُّونَہُمْ کَحُبِّ اللهِ وَالَّذِیْنَ ءَ امَنُوٓا أَشَدَّ حُبًّا لِلّٰہِ ۔ (البقرة:۱۶۵)
(وحدت الٰہی پر کھلے کھلے آثار کے ہوتے ہوئے بھی )کچھ لوگ ایسے ہیں جو الله کے سوا دوسروں کا اس کا ہمسر اور مدمقابل بناتے ہیں اور ان کے ایسے گرویدہ ہیں ،جیسی الله کے ساتھ گرویدگی ہونی چاہئے حالانکہ ایمان رکھنے والے لوگ سب سے بڑھ کر الله کو محبوب رکھتے ہیں۔
حدیث نبوی:- ثلاث من کن فیہ وجد بھن حلاوة الاِیمان : أن یکون الله ورسولہ أحب الیہ مما سواھما ، وأن یحب المرء لایحبہ اِلا لله وأن یکرہ أن یعود فی الکفر بعد اذا أنقذہ الله منہ ، کما یکرہ أن یُقذف فی النار ۔ (بخاری ومسلم)
تین خصلتیں جس کسی میں ہوں گی ،ایمان کی مٹھاس پالے گا ،یہ کہ اس کے نزدیک الله،اس کے رسول تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہوں ،یہ کہ وہ کسی دوسرے سے محبت صرف الله کے لیے کرے ،یہ کہ جب الله نے اسے کفر سے نجات دلادی ہے ،تو دوبارہ کفر کی جانب لوٹنے کو ویسے ہی ناپسند کرے جیسے کہ آگ میں ڈالے جانے کو ناپسند کرتا ہو۔ (بخاری ومسلم)
(ڈاکٹر محمد سعید قحطانی کی کتاب الولاء ولبراء سے منقول)
۸۔ طاغوتوں کا یعنی الله کے علاوہ دوسرے معبودان باطلہ کا انکار کرے اور الله ہی کو برحق رب ومعبود تسلیم کرے۔
فرمان الٰہی:- فَمَن یَکْفُرْ بِالطَّٰغُوتِ وَیُوٴمِن بِاللهِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقٰیٰ لَا اْنفِصَامَ لَھَا وَاللهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ۔
اب جو کوئی طاغوت کا انکار کرکے الله پر ایمان لے آیا اس نے ایک ایسا مضبوط سہارا تھام لیا جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں۔ (سورة البقرة)
حدیث نبوی:- من قال لَااِلٰہَ اِلَّا الله وکفر بما یعبد من دون الله حرم مالہ ودمہ ۔ (مسلم)
جو لَااِلٰہَ اِلَّا الله کاقائل ہوا اور الله کے علاوہ معبودان باطلہ کی تکذیب کی اس کا مال اور خون قابل حرمت ہوگیا۔


لاالہ اِلاالله کا مفہوم اور اس کے شرائط
س۱:- لَااِلٰہَ اِلَّا الله کا مفہوم کیا ہے؟
ج۱:- برادران اسلام کو معلوم ہونا چاہیے کہ لَااِلٰہَ اِلَّا الله جنت کی کنجی ہے لیکن ہر کنجی کے دندانے ہوتے ہیں ،اگر تمہاری کنجی دندانے والی ہے تو تالا کھول سکتی ہے ورنہ نہیں ۔
اس کنجی کے دندانے لَااِلٰہَ اِلَّا الله کے درج ذیل شرائط ہیں:
۱۔ اس کے مفہوم سے واقفیت ،یعنی الله کے علاوہ کسی کو معبود برحق نہ سمجھنا فرمان الٰہی :- فَاعْلَمْ أَنَّہُ لَااِلٰہَ اِلَّا الله ۔ (سورة محمد:۱۹)
جان لو کہ الله کے علاوہ کوئی بھی معبود برحق نہیں۔
حدیث نبوی:- من مات وھو یعلم أنہ لا اِلہ الا الله دخل الجنة ۔ (مسلم)
جس کی موت عقیدہ توحید لَااِلٰہَ اِلَّا الله پر ہوگی جنت میں داخل ہوگا۔
۲۔ ایسا یقین جس میں کوئی شک کا شائبہ نہ ہو،یعنی لَااِلٰہَ اِلَّا الله پربلا کسی شک دل کو پورا یقین ہو۔
فرمان الٰہی:- اِنَّمَا المُوٴْمِنُونَ ءَ امَنُوا بِاللهِ وَرَسُولِہ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوا ۔
حقیقت میں مومن تو وہ ہیں جو الله اور اس کے رسول پر ایمان لائے پھر انہوں نے کوئی شک نہیں کیا۔ (الحجرات:۱۵)
حدیث نبوی:- أشھدأن لاالہ الاالله وأنی رسول الله لا یلقی الله بھما عبد غیر شاک فیحجب عن الجنة ۔ (مسلم)
میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ الله کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں اور میں الله کا رسول ہوں ،جو بندہ بغیر شک ان دونوں باتوں کی گواہی دیتے ہوئے الله سے جاملے گا وہ جنت سے روکا نہیں جاسکتا۔
کلمہ لَااِلٰہَ اِلَّا الله کے تما م مقتضیات کو زبان ودل سے قبول کرنا۔
فرمان الٰہی:- اِنَّہُم کَانُوا اِذا قِیْلَ لَھُمْ لَااِلٰہَ اِلَّا الله یَسْتَکْبِرُونَ ، وَیَقُولُونَ أَئِنَّا لَتَارِکُوٓا ءَ ا لِھَتِنَا لِشَاعِرٍ مَجْنُونِ ۔
یہ وہ لوگ تھے جب ان سے کہا جاتا الله کے سوا کوئی معبود برحق نہیں تو یہ گھمنڈ میں آجاتے تھے اور کہتے تھے کیا ہم ایک شاعر مجنون کی خاطر اپنے معبودوں کو چھوڑ دیں گے؟ (صافات:۳۵-۳۶)
حدیث نبوی:- أمرت أن أقاتل الناس حتّی یقولوا لَااِلٰہَ اِلَّا الله ، فمن قال لَااِلٰہَ اِلَّا الله فقد عصم منّی مَا لہ ونفسہ اِلّا بحقّ الاِسلام وحسابہ علی الله عزوجل ۔ (بخاری ومسلم)
مجھے لوگوں سے جنگ کا حکم دیا گیا یہاں تک کہ وہ لَااِلٰہَ اِلَّا الله کے قائل ہوجائیں ،جو بھی لَااِلٰہَ اِلَّا الله کاقائل ہوگیا ،اس نے مجھ سے اپنی جان ومال کو محفوظ کرلیا اِلّا یہ کہ وہ کسی اسلامی قانون کی زد میں آجائے اور اس کا حساب الله عزوجل پر موقوف ہے ۔
۴۔ جن چیزوں پر لَااِلٰہَ اِلَّا الله دلالت کرتا ہو ، ان کے لیے سرتسلیم خم کردینا
فرمان الٰہی:- وَأَنِیْبُوا اِلَیٰ رَبِّکُمْ وَأَسْلِمُوا لَہُ ۔
پلٹ آوٴ اپنے رب کی طرف اور مطیع بن جاوٴ۔ (زمر:۵۴)
۵۔ ایسی تصدیق جس میں تکذیب کا شائبہ تک نہ ہویعنی لَااِلٰہَ اِلَّا الله کاصدق دل سے قائل ہو۔
فرمان الٰہی:- الٓمٓ ، أَحَسِبَ النَّاسُ أَن یُتْرَکُوٓا أَن یَقُولُوٓا ءَ امَنَّا وَھُمْ لَا یُفْتَنُونَ ، وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِینَ مِنْ قَبْلِھِمْ فَلَیَعْلَمَنَّ اللهُ الَّذِیْنَ صَدَقُوا وَلَیَعْلَمَنَّ الْکَٰذِبِیْنَ ۔
ا۔ل۔م۔ کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ بس اتنا کہنے پر چھوڑ دئیے جائیں گے کہ ”ہم ایمان لائے“ اور ان کو آزمایا نہ جائے گا ،حالانکہ ہم ان سب لوگوں کی آزمائش کرچکے ہیں جو ان سے پہلے گذرے ہیں ،الله کو تو ضرور یہ دیکھنا ہے کہ سچے کون ہیں اور جھوٹے کون ہیں ؟
حدیث نبوی:- ما من أحد یشھد ان لَااِلٰہَ اِلَّا الله وأٴن محمدا عبدہ ورسولہ صِدقا من قلبہ اِلا حرمہ الله علی النار ۔
جو بھی صدق دل سے اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ الله کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور یہ کہ محمد صلی الله علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں ، اس پر الله تعالیٰ جہنم کی آگ حرام کردیتا ہے ۔ (بخاری ومسلم)
۶۔ اخلاص ،یعنی کسی بھی عمل کو اس طرح صالح نیت سے کرنا کہ اس میں شرک کا کوئی شائبہ نہ ہو۔
فرمان الٰہی:- وَمَا أُمِرُوٓا اِلَّا لِیَعْبُدُوا الله مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ حُنَفَآءَ ۔ (بینہ:۵)
اور ان کو اس کے سوا کوئی حکم نہیں دیا گیا تھا کہ الله کی بندگی کریں ،اپنے دین کو اس کے لیے خالص کرکے ،بالکل یک سو ہوکر ۔
حدیث نبوی :- أسعد الناس بشفاعتی یوم القیامة من قال لَااِلٰہَ اِلَّا الله خالصًا من قلبہ أو نفسہ ۔ (بخاری)
میری شفاعت کا حقدار وہی ہوگا جو صدق دل سے لَااِلٰہَ اِلَّا الله کاقائل ہوگا۔
حدیث نبوی:- ان الله حرّم علی النار من قال : لَااِلٰہَ اِلَّا الله یبتغی بذٰلک وجہ الله عزّوجل ۔ (مسلم)
جو رضائے الٰہی چاہتے ہوئے لَااِلٰہَ اِلَّا الله،کا قائل ہوتا ہے ،اس پر الله تعالیٰ جہنم کو حرام کردیتا ہے۔
۷۔ اس کلمہ طیبہ ،اس کے مقتضیات ومدلولات ،اس کے شروط کے ساتھ اس پر عمل کرنے والوں سے محبت کرنا،اور اس کے منکرین سے عداوت رکھنا۔
فرمان الٰہی:- وَمِنَ النَّاسِ مَن یَتَّخِذُ مِنْ دُونِ اللهِ أَنْدَادًا یُحِبُّونَہُمْ کَحُبِّ اللهِ وَالَّذِیْنَ ءَ امَنُوٓا أَشَدَّ حُبًّا لِلّٰہِ ۔ (البقرة:۱۶۵)
(وحدت الٰہی پر کھلے کھلے آثار کے ہوتے ہوئے بھی )کچھ لوگ ایسے ہیں جو الله کے سوا دوسروں کا اس کا ہمسر اور مدمقابل بناتے ہیں اور ان کے ایسے گرویدہ ہیں ،جیسی الله کے ساتھ گرویدگی ہونی چاہئے حالانکہ ایمان رکھنے والے لوگ سب سے بڑھ کر الله کو محبوب رکھتے ہیں۔
حدیث نبوی:- ثلاث من کن فیہ وجد بھن حلاوة الاِیمان : أن یکون الله ورسولہ أحب الیہ مما سواھما ، وأن یحب المرء لایحبہ اِلا لله وأن یکرہ أن یعود فی الکفر بعد اذا أنقذہ الله منہ ، کما یکرہ أن یُقذف فی النار ۔ (بخاری ومسلم)
تین خصلتیں جس کسی میں ہوں گی ،ایمان کی مٹھاس پالے گا ،یہ کہ اس کے نزدیک الله،اس کے رسول تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہوں ،یہ کہ وہ کسی دوسرے سے محبت صرف الله کے لیے کرے ،یہ کہ جب الله نے اسے کفر سے نجات دلادی ہے ،تو دوبارہ کفر کی جانب لوٹنے کو ویسے ہی ناپسند کرے جیسے کہ آگ میں ڈالے جانے کو ناپسند کرتا ہو۔ (بخاری ومسلم)
(ڈاکٹر محمد سعید قحطانی کی کتاب الولاء ولبراء سے منقول)
۸۔ طاغوتوں کا یعنی الله کے علاوہ دوسرے معبودان باطلہ کا انکار کرے اور الله ہی کو برحق رب ومعبود تسلیم کرے۔
فرمان الٰہی:- فَمَن یَکْفُرْ بِالطَّٰغُوتِ وَیُوٴمِن بِاللهِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقٰیٰ لَا اْنفِصَامَ لَھَا وَاللهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ۔
اب جو کوئی طاغوت کا انکار کرکے الله پر ایمان لے آیا اس نے ایک ایسا مضبوط سہارا تھام لیا جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں۔ (سورة البقرة)
حدیث نبوی:- من قال لَااِلٰہَ اِلَّا الله وکفر بما یعبد من دون الله حرم مالہ ودمہ ۔ (مسلم)
جو لَااِلٰہَ اِلَّا الله کاقائل ہوا اور الله کے علاوہ معبودان باطلہ کی تکذیب کی اس کا مال اور خون قابل حرمت ہوگیا۔
 

شکیل احمد

محفلین
عقائد اور توحید کی اہمیت
س۱:- ہم توحید کو دوسری چیزوں سے زیادہ کیوں اہمیت دیتے ہیں ؟
ج۱:- اس کے بہت سے اسباب ہیں مثلاً :
۱۔ توحید (شرک کی ضد)ہی وہ بنیادی ستون ہے جس پر اسلام کی بنیاد رکھی جاتی ہے ،اور توحید لاالہ الاالله محمد رسول الله کی شہادت سے عیاں ہے ۔
۲۔ توحید ہی کے ذریعہ کافر حلقہ بگوش اسلام ہوکر قتل سے محفوظ ہوجائے گا اس کے انکار یا استہزاء سے مسلمان دین اسلام سے خارج ہوکر حالت کفر میں قتل کردیا جائے گا۔
۳۔ عقیدہٴ توحید ہی تمام رسولوں کی دعوت کا اصل مرکز رہا ہے ۔
فرمان الٰہی:- وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِی کُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولًا أَنِ اعبُدُوااللهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّٰغُوتَ ۔
اور ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیج دیا اور اس کے ذریعہ سب کو خبردار کردیا کہ ”الله کی بندگی کرو اور طاغوت کی بندگی سے بچو“۔(سورة النحل:۳۶)۔
فرمان الٰہی:- وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنَ۔
ہم نے جن اور انسانوں کو صرف اپنی بندگی کے لیے پیدا کیا ہے ۔ (لیعبدون) یعنی ہماری توحید کے قائل ہوجائیں اور صرف ہماری عبادت کریں ۔ (ذاریات:۵۶)
۵۔ توحید :- توحید ربوبیت ،توحید الوہیت،توحید اسماء وصفات اور ہر طرح کی عبادتوں کو شامل ہے۔
۶۔ توحید اسماء وصفات بہت اہم ہے میری ایک نوجوان مسلمان سے ملاقات ہوئی جو کہہ رہا تھا کہ الله تعالیٰ ہر جگہ ہے،میں نے اس سے کہا اگر تمہاری مراد ذات باری تعالیٰ ہے تو یہ بہت بڑی غلطی ہے اس لیے کہ فرمان الٰہی ہے ۔
فرمان الٰہی:- ” الرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوَیٰ“
وہ رحمان عرش پر مستوی ہے۔ (سورة طہٰ:۵)
اور اگر تمہاری مراد یہ ہے کہ الله تعالیٰ اپنی دیدوشنید اور علم کے لحاظ سے ہمارے ساتھ ہے تو یہ صحیح ہے ،چنانچہ اس نے اس تشریح کو قبول کرلیا ۔
۷۔ توحید ہی پر انسان کی دنیوی واخروی سعادت مندی وبدبختی موقوف ہے ۔
۸۔ توحید ہی نے دنیائے عرب کو شرک ،ظلم ،جہالت اور انتشار سے نکال کر عدل ،عزت ،علم ،اتحاد اور مساوات سے ہمکنار کیا ۔
۹۔ توحید ہی کے ذریعہ مسلمانوں نے ملکوں کو فتح کیا ،بندوں کو معبودانِ باطلہ کی پرستش سے نجات دلائی ،رب حقیقی کے عبادت پر لگایا ،مسخ شدہ ادیان کی ظلم وزیادتی سے خلاصی دلائی ،محفوظ اسلام کے عدل وانصاف سے ہمکنار کیا ۔
۱۰۔ عقیدہٴ توحید ہی مسلمانوں کو جہاد ،جاں نثاری اور قربانی پر اکساتا ہے ۔
۱۱۔ توحید ہی کے ذریعہ عرب وعجم کو متحد کرنے اور انہیں ایک امت بنانے کا تصور کیا جاسکتا ہے ۔بریں بناء جب مجددشیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ الله کی دعوت توحید حاجیوں کے ذریعہ ہندوستان پہنچی ،تو انگریز اس سے خوفزدہ ہوگئے ۔یہ تو دنیا کے تمام مسلمانوں کو متحد کرکے انہیں ان تمام ملکوں سے نکال دے گی جن پر ان کی فرماروائی چل رہی ہے ۔نتیجہ کے طور پر انگریز اپنے پٹھووٴں کو لے کر دعوت توحید کے خلاف صف آراء ہوگئے ۔اسے ”وہابی دعوت“سے موسوم کرنے لگے ،تاکہ لوگوں کو اس سے دور رکھیں ،جیسا کہ اس کا تذکرہ شیخ علی طنطاوی نے اپنی کتاب (الشہید احمد عرفان) اور (محمد بن عبدالوہاب) میں کیا ہے ۔
۱۲۔ توحید ہی مجاھد کے انجام کا تعین کرتی ہے ،اگر وہ اہل توحید میں سے ہے تو جنتی ہوگا ،اور اگر اہل شرک سے ہوگا تو جہنمی ہوگا۔
۱۳۔ توحید ہی کی خاطر تمام جنگیں وجود میں آئیں ،اسی کے لیے مسلمان شہید ہوئے اسی کے باعث کامیابی سے ہمکنار ہوئے ۔اسی کی خاطر مسلمان لڑتے رہے ،بغیر توحید کے ان کی عزت ونصرت کا تصور نہیں جس طرح زمانہٴ ماضی میں توحید نے مسلمانوں کو متحد کرکے ان کی ایک بہت بڑی حکومت بناڈالی ،ٹھیک اسی طرح آج بھی باِذن الله ان کی حکومت وعظمت رفتہ رفتہ واپس آسکتی ہے ،شرط یہ ہے کہ وہ دوبارہ عقیدہٴ توحید کو اپنالیں ۔
فرمان الٰہی :- یَٰٓأَ یُّھَاالَّذِیْنَ ءَ امَنُوٓا اِن تَنْصُرُوا اللهَ یَنْصُرْکُمْ وَیُثَبِّتْ أَقْدَامَکُمْ ۔ (سورة محمد:۷)
ایمان والو! اگر تم الله کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا ۔ (الله کی مدد کرنے سے مراد الله کا کلمہ بلند کرنے اور حق کو سربلند کرنے کے کام میں حصہ لینا ہے)۔
س۲:- انسان کے لیے دین وعقیدہ کیوں لازم ہے؟
ج۲:- اس لیے کہ انسان اپنی فطرت اور روئے زمین پر عبادت الٰہی کے تمام معافی کو بجالانے کی منجانب الله عائد کردہ ذمہ داری کے ساتھ مربوط ہے ،انسان فطرتاً ایک بے کار اڑتے ہوئے ذرہ کی مانند رہنا پسند نہیں کرسکتا ،بریں بناء اس کے مقام ومرتبے کی تعیین کرے،سعادت دارین کے لیے سیدھا راستہ دکھائے ،یہ عقیدہ ایک ایسی صاف شفاف روشنی ہے جہاں سے ہمیں احکام وقوانین ملتے ہیں ،جوانسان کی طرز زندگی کا تعین کرتے اور امن وامان سے بہرہ ور کرتے ہیں جس میں ہدایت ورہنمائی ،کامیابی وکامرانی ہے۔
فرمان الٰہی:- صِبْغَةَ اللهِ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللهِ صِبْغَةً وَنَحْنُ لَہُ عَٰبِدُونَ ۔
کہو :”الله کا رنگ اختیار کرو اس کے رنگ سے اچھا اور کس کا رنگ ہوگا اور ہم اسی کی بندگی کرنے والے ہیں ۔
س۳:- مبلغین اور اسلامی جماعتوں کے کیا فرائض ہیں؟
ج۳:- مبلغین اور اسلامی جماعتوں پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ کتاب وسنت صحیحہ کو اپنی مشعل راہ بنائیں ،جن چیزوں سے انبیاء کرام نے اپنی دعوت کاآغاز کیا ،اسی سے اپنی دعوت کا آغاز کریں ،ان میں سب سے مقدم ہمارے نبی محمد صلی الله علیہ وسلم نے اپنی دعوت کا آغاز توحید ،یعنی لا الہ الاالله کی شہادت سے کیا ،جس کا مفہوم یہ ہے کہ الله کے علاوہ کوئی برحق معبود نہیں ،مکہ میں آپ تیرہ سال اسی کی دعوت دیتے رہے ،تاآنکہ صحابہ کرام کے دلوں میں یہ بات بیٹھ گئی کہ عبادت صرف الله کیلئے ہوسکتی ہے ،صرف اسی کو پکارا جاسکتا ہے ،اس لیے کہ صرف وہی قادر مطلق ہے ،دوسرے عاجز ہیں ،قانون سازی اور حاکمیت صرف الله کے لیے ہے ،اس لئے کہ وہی خالق ہے ،اپنے بندوں کی مصلحتیں زیادہ جانتا ہے ،جب آپ ہجرت کرکے مدینہ منورہ پہنچے تو اسلامی حکومت کی داغ بیل ڈالی اور اسلام کی سربلندی کے لیے جہاد کی دعوت دی ۔
 

شکیل احمد

محفلین
مسلمان ہونیکے شرائِط
س۱:- مسلمان ہونے کے کیا شرائط ہیں؟
ج۲:- آدمی اس وقت تک صحیح معنوں میں مسلمان نہیں ہوسکتا جب تک کہ درج ذیل شروط اس میں نہ پائے جائیں ۔
۱۔ توحید الوہیت کوجانے اور اس کے مطابق عمل کرے۔
۲۔ رسول کی لائی ہوئی تمام باتوں کی تصدیق کرے ،اس کے اوامر ونواہی پرپوری طرح عمل کرے۔
۳۔ کفار ومشرکین سے دشمنی کرے ،بہت سے مسلمان مشرک تو نہیں لیکن اہل شرک کی دشمنی نہیں کرتے ،بایں سبب وہ حقیقی مسلمان نہیں ہوسکتے اس لیے کہ اس نے تمام رسولوں کے اصول کو چھوڑ دیا ہے،ابراہیم علیہ السلام اپنی قوم سے فرمارہے ہیں۔
کَفَرْنَا بِکُمْ وَبَدَا بَینَنَا وَبَیْنَکُمْ الْعَدَوَةُ وَالْبَغْضَآءُ أَبَدًا حَتَّیٰ تُوٴْمِنُوا بِاللهِ وَحْدَہُ ۔ (سورة الممتحنہ:۴)
ہم نے تم سے کفر کیا اور ہمارے تمہارے درمیان ہمیشہ کے لیے عداوت ہوگئی اور بَیر پڑگیا جب تک تم الله واحد پر ایمان نہ لاوٴ۔
عداوت کو بغضائسے پہلے ذکرکرنے پر غور کرو ،اس لیے کہ عداوت بغضاء سے زیادہ اہم ہے ،بسا اوقات مسلمان مشرکین سے بغض تو رکھتا ہے لیکن دشمنی نہیں کرتا ۔لیکن جب تک بغض وعداوت دونوں نہ پائی جائیں ،فرض ادا نہیں ہوسکتا،بعض دشمنی کھلم کھلا ہونی ضروری ہے قلبی بغض اس وقت تک مفید نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کے اثرات دشمنی اور قطع تعلق کی صورت میں ظاہر نہ ہوں۔
۴۔ نصیحت کے فریضے کو ادا کرے ،جو یہ کہے کہ مسلمان اگرچہ شرک ،کفر اور گناہوں کے مرتکب ہوں ،ہم ان سے چھیڑ چھاڑ نہیں کریں گے ،وہ حقیقی مسلمان نہیں ہوسکتا ،بلکہ اس پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ انہیں نصیحت کرے ،شرک ،کفر ،نافرمانی اور دیگر برے کاموں کے انجام سے آگاہ کرے ،لیکن درج ذیل فرمان الٰہی پر عمل کرتے ہوئے نرم لب ولہجہ اختیار کرے۔
فرمان الٰہی:- أُدْعُ اِلَیٰ سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَةِ وَالْمُوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَٰدِلْھُمْ بِالَّتِی ھِیَ أَحْسَنُ ۔ (النحل:۱۲۵)
اے نبی!اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت وحکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ ،اور لوگوں سے مباحثہ ایسے طریقہ پر جو بہترین ہو۔
س۲:- قبول توبہ کے کیا شرائط ہیں؟
ج:- قبول توبہ کے درج ذیل شرائط ہیں۔
۱۔ اخلاص یعنی گنہگار کی توبہ صرف الله کے لیے ہو۔
۲۔ گنہگار اپنی کردہ گناہوں پر نادم ہو۔
۳۔ گنہگار اپنی کردہ گناہوں کو چھوڑ دے۔
۴۔ گناہ کے دوبارہ نہ کرنے کا پختہ عزم کرے۔
۵۔ حقوق سے متعلق سرزد گناہوں پر الله سے مغفرت طلب کرے ۔
۶۔ لوگوں کے حقوق ادا کرے یا تو لوگ اسے معا ف کردیں ۔
۷۔ گنہگار کی توبہ سکرات الموت سے پہلے اس کی زندگی میں ہو۔
حدیث نبوی:- ان الله یقبل توبة العبد ما لم یغرغر۔ (ترمذی)
حالت نِزع سے پہلے پہلے تک الله تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ قبول کرتا ہے۔
 

شکیل احمد

محفلین
قبولیت عمل کے شروط
س۱: قبولیت عمل کے شروط کیا ہیں؟
ج:- قبولیت عمل کے چار شروط ہیں۔
۱۔ الله پر ایمان رکھنا اس وحدانیت کا قائل ہونا۔
فرمان الٰہی:- اِنَّ الَّذِیْنَ ءَ امَنُوْا وَعَمِلُوا الصَّٰلِحَٰتِ کَانَتْ لَھُمْ جَنَّٰتُ الْفِرْدَوْسِ نُزُلًا ۔ (الکہف)
البتہ وہ لوگ جو ایمان لائے ،اور جنہوں نے صالح عمل کیا ان کی میزبانی کیلئے فردوس کے باغات ہوں گے۔
حدیث نبوی:- قل اٰمنت بالله ثم استقم ۔ (مسلم)
(آپ نے ایک صحابی کو فرمایا تھا)کہدو میں الله پر ایمان لایا ،پھر اس پر ثابت قدم رہو۔
۲۔ اخلاص یعنی بغیر ریاکاری ومکاری ‘صرف الله کے لیے عمل کرنا ۔
فرمان الٰہی:- فَاعْبُدِ الله مُخْلِصًا لَّہُ الدِّیْنَ ۔
لہٰذا تم الله ہی کی بندگی کرو دین کو اسی کے لیے خالص کرتے ہوئے۔ (الزمر)
حدیث نبوی:- من قال لاالہ الاالله مخلصًا دخل الجنة۔ (صحیح بزار)
جو بھی صدق دل سے لاالہ الاالله کاقائل ہوگیا جنت میں داخل ہوگا۔
۳۔ رسول کی لائی ہوئی شریعت کی موافقت۔
فرمان الٰہی:- وَمَا ءَ اتَٰکُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوہُ وَمَا نَہَٰکُمْ عَنْہُ فَانْتَھُوا ۔
جوکچھ رسول تمہیں دیں وہ لے لو،اور جس چیز سے روکیں اس سے رُک جاوٴ۔ (سورہ حشر:۷)
حدیث نبوی:- من عمل عملاً لیس علیہ أمرنا فھو رَدّ ۔ (مسلم)
جس کسی نے ایسا کام کیا جس کا ہم نے حکم نہیں دیا وہ مردود وغیر مقبول ہے۔
۴۔ صاحب ِ عمل غیر الله کی عبادت کرکے اپنے ایمان کوکفر اور شرک سے تباہ نہ کرے،مثلاً انبیاء ،اولیاء اور مرُدوں کو پکارنا اور ان سے مددطلب کرنا۔
فرمان نبوی:- الدعا ھو العبادة ۔ پکارنا ہی عبادت ہے۔ (ترمذی)
فرمان الٰہی:- وَلَا تَدْعُ مِنْ دُوْنِ اللهِ مَا لَا یَنْفَعُکَ وَلَا یَضُرُّکَ فاِن فَعَلْتَ فَاِنَّکَ اِذًا مِّنَ الظَّٰلِمِیْنَ ۔ (سورة یونس)
اور الله کو چھوڑ کر کسی ایسی ہستی کو نہ پکار جو تجھے نہ فائدہ پہونچا سکتی ہے نہ نقصان اگر تو ایسے کرے گا تو ظالموں میں سے ہوگا۔
فرمان الٰہی:- لَئِنْ أَشْرَکْتَ لَیَحْبَطَنَّ عَمَلُکَ وَ لَتَکُونَنَّ مِنَ الخَاسِرِیْنَ ۔
اگر تم نے شرک کیا تو تمہارا عمل ضائع ہوجائے گا ،اور تم خسارے میں رہوگے۔ (سورة زمر:۶۵)
س۲:- نیت کسے کہتے ہیں؟
ج۲:- نیت نام ہے قصد کا ،اس کامحل وقوع دل ہے ،زبان سے اس کی ادائیگی جائز نہیں ،اس لیے کہ رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم اور صحابہ کرام نے ایسا نہیں کیا۔
فرمان الٰہی:- وَاَسِروْا قَولَکُمْ أَواجْھَرُوْا بِہ اِنَّہُ عَلِیْمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ ۔
تم خواہ چپکے بات کرو یا اونچی آواز سے (الله کے لیے یکساں ہے)وہ تو دلوں کا حال تک جانتا ہے ۔ (سورہ ملک:۱۳)
حدیث نبوی:- انّما الأعمال بالنیات وانما لکل امریٴ ما نویٰ ۔ (بخاری ومسلم)
اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے ،ہر شخص کا اجر حسب نیت ہوگا۔ (یعنی اعمال کی صحت ،قبولیت اور مکمل ادائیگی نیتوں پر موقوف ہے )
س۳:- لوگوں کا یہ کہنا کہ ”دین کا تعلق دل سے ہے “کیا معنی رکھتا ہے؟
ج۳:- اس کے قائل صرف تکالیف شرعیہ سے فرار چاہنے والے ہیں ،حالانکہ دین عقائد ،عبادات اور معاملات سب کو شامل ہے ۔
۱۔ عقائد کا تعلق دل سے ہے ،مثلاً درج ذیل حدیث نبوی میں بیان کردہ ایمان کے ارکان :
”الایمانُ أن توٴمنَ بالله وملائکتہ وکتبہ ورسلہ والیوم الاٰخر وبالقدر خیرہ وشرہ“
ایمان یہ ہے کہ تو الله،اس کے فرشتوں ،اس کی کتابوں ، اس کے رسولوں اور قیامت کے دن پر ایمان رکھے ،نیز بھلی بُری تقدیر پر بھی ایمان رکھے ۔
۲۔ عبادتیں دِلی نیت کے ساتھ اعضاء وجوارح سے سرزد ہوئی ہیں،مثلاً درج ذیل حدیث نبوی میں بیان کردہ اسلام کے ارکان :
بنی الاسلام علی خمسٍ : علی أن یُعبَدالله ویکفر بما دونہ ، واقام الصلاة وایتاء الزکوٰة وحج البیت وصیام رمضان ۔ (مسلم)
اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے ،غیر الله کی تکذیب کرتے ہوئے صرف الله کی عبادت کی جائے ،نماز قائم کی جائے ،زکوٰة ادا کی جائے ،حج کیاجائے ،رمضان کے روزے رکھے جائیں ۔ اور ان ارکان کی ادائیگی کیلئے اعتقاد بالقلب اورعمل بالجوارح ضروری ہے ۔
۳۔ اکثر ایساہوتا ہے کہ کسی مسلمان سے مثال کے طور پر نماز پڑھنے اور ڈاڑھی بڑھانے کے لیے کہو تو راہ فرار اختیار کرتے ہوئے کہتا ہے ،دین کا تعلق دل سے ہے!!
دل کی بات تو صرف الله تعالیٰ جانتا ہے ہم تو کسی مسلمان پر اس کے ظاہری اعمال کے مطابق حکم لگانے کے مکلف ہیں،اگر آدمی صالح دل ہو تو یقینا نماز ،زکوٰة اور دیگر فرائض ادا کرے گا ،نیز داڑھی رکھے گا۔
حدیث نبوی:- ألا وانّ فی الجسد مُضغة اذا صلحت صلح الجسد کلہ واذا فسدت فسد الجسد کلہ ألا وھي القلب۔ (بخاری ومسلم)
اس بات سے آگاہ رہو کہ جسم میں ایک ایسا ٹکڑا ہے کہ جس کی درستگی سے پورا جسم درست رہتا ہے اور جس کی خرابی سے پورا جسم خراب ہوجاتا ہے ،اور وہ دل ہے۔
حسن بصری رحمہ الله کا قول ہے” لیس الاِیمان بالتّمنّی ، ولا بالتجلّی ولکن ھو ما وقر فی القلب وصدّقہ العمل ۔
ایمان تمنا اور ظاہری آرائش کا نام نہیں ،بلکہ وہ تو دل کی گہرائیوں میں پائی جانے والی چیزہے ،جس کی تصدیق عمل کرے۔(بخاری)
امام شافعی رحمہ الله کا قول ہے، الایمان قول و عمل ویزید وینقص ۔ ایمان قول وعمل کا نام ہے ،جس میں زیادتی و کمی ہوتی رہتی ہے ۔
سلف صالحین کا قول ہے ، الایمان ھو اعتقاد بالقلب ونطق باللسان ، وعمل بالأرکان۔
دل سے تصدیق ،زبان سے اقرار کرنا ،اعضاء وجوراح سے عمل کرنے کا نام ایمان ہے ۔
امام بخاری رحمہ الله نے یہ باب باندھا ہے ۔
”باب تفاضل أھل الایمان فی الأعمال “ اہل ایمان کا اعمال کے سلسلے میں ایک دوسرے سے بڑھ کر ہونا۔
عقیدہ مقدم ہے یا حاکمیت؟
عالم اسلام کے بہت بڑے مبلغ ،شیخ محمد قطب نے دارالحدیث مکہ مکرمہ میں ہونے والی اپنی تقریر میں اس سوال کا جواب دیا ہے۔
سوال یہ ہے:
س۴: بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ اسلام کا بول بالا حاکمیت کے ذریعہ ہوسکتا ہے بعض دوسرے لوگوں کا کہنا ہے کہ اسلام کی سربلندی اجتماعی تربیت اور عقیدے کی تصحیح کے ذریعہ ہوسکتی ہے ،ان دونوں میں کس کا پلہ بھاری ہے ۔
ج۴:- اگر مبلغین عقیدے کی تصحیح نہ کریں ،صحیح ایمان نہ رکھیں ،دینی آزمائش پر صبر نہ کریں ،فی سبیل الله جہاد نہ کریں ،تو روئے زمین میں دین کی حاکمیت کہاں سے پائی جائے گی ؟ یہ ایک واضح سی بات ہے ،ہر چیز تو منجانب الله ہوتی ہے ،مگر حاکمیت آسمان سے نہیں ٹپک پڑے گی ،بلکہ انسان پر منجانب الله واجب کردہ کوشش ضروری ہے ۔
فرمان الٰہی:- ذَٰلِکَ وَلَوْ یَشَآءُ اللهُ لَأنْتَصَرَ مِنْہُمْ وَلٰکِنْ لِّیَبْلُوَا بَعْضَکُم بِبَعْضٍ ۔
الله چاہتا تو خود ہی ان لوگوں سے نمٹ لیتا ،مگر (یہ طریقہ اس نے اس لیے اختیار کیا ہے)تاکہ تم لوگوں کو ایک دوسرے سے آزمائے ۔
ضروری ہے کہ ہم جدید نسل کو صحیح عقیدے کی تربیت دیں ،تاکہ یہ نسل آزمائش کے وقت اسی طرح صبر کرے جیسا کہ پہلی نسل نے کیا ہے۔ (سورةمحمد:۴)
 

شکیل احمد

محفلین
اِسلام میں دوستی و دشمنی
س۵:- ولاء و براء کسے کہتے ہیں؟
ج۵:- الله اور اس کے رسول ،صحابہ کرام اور موحد مومنوں کی محبت ونصرت کو ولاء کہتے ہیں۔
کفار ،مشرکین اور غیر الله سے شفاء ،روزی اور ہدایت طلب کرنے والے بدعتیوں کے بغض کو براء کہتے ہیں۔
شرعی موجبات ِ کفرکو ترک کرنے والے ہر موحد مومن کی محبت ونصرت اور دوستی واجب ہے ،نیز اس کے برعکس لوگوں کی دشمنی اور زبان ودل سے لڑائی کرکے الله کا قرب حاصل کرنا ضروری ہے ۔
۱۔ فرمان الٰہی:- وَالْمُوٴمِنُونَ وَالْمُوٴمِنٰتُ بَعْضُھُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍ ۔
موٴمن مرد اور موٴمن عورتیں ایک دوسرے کے رفیق ہیں ۔ (التوبة:۷)
۲۔ حدیث نبوی:- أوثق عری الاِسلام الحبّ فی الله والبغض فی الله ۔ (حسنہ الالبانی)
اسلام کا سب سے مضبوط ربط رضائے الٰہی کے لیے محبت کرنا اور دشمنی کرنا ہے۔
۳۔ حدیث نبوی :- من أحب لله وأبغض لِلّٰہ وأعطی لله ومنع لله فقد استکمل الاِیمان۔ (صحیح ابوداوٴد وغیرہ)
جس نے رضائے الٰہی کے لیے ،محبت کی ،دشمنی کی ،دیا ،دینے سے انکار کیا اس نے ایمان کی تکمیل کرلی۔
۴۔ حدیث نبوی:- اِن عبادالله لأناسًا ماھم بأنبیاء ولا شہداء یغبطھم الأنبیاء والشہداء یوم القیامة بمکانتھم من الله تعالیٰ قالوا : یا رسول الله تُخبرنا من ھم ؟ قال : ”ھم قوم تحابوا بروح الله علی غیر أرحام بینھم ، ولا أموال یتعاطونھا ، فوالله اِن وجوھھم لَنور واِنھم لعلی نور ، لایخافون اِذا خاف الناس ولا یحزنون اِذا حزن الناس وقرأ ھذہ الآیة (ألا اِن أولیاء الله لا خوف علیھم ولا ھم یحزنون )۔ (ابوداوٴد و حسن عند صاحب جامع الأصول)
الله کے کچھ ایسے بندے ہیں جو نہ نبی ہیں نہ شہید ،لیکن قیامت کے دن انبیاء وشہداء الله کے نزدیک اُن کے مقام ومرتبے پر رشک کریں گے ،لوگوں نے کہا ،الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم وہ کون لوگ ہوں گے ، آپ نے فرمایا وہ ایسے لوگ ہیں جو بغیر مادی لالچ ورشتہ داری کے الٰہی روح یعنی قرآنی تعلیم کے مطابق باہمی محبت کرتے ہیں والله ان کے چہرے منور ہوں گے ،وہ خود روشنی میں ہوں گے ،جب لوگ غمگین وہراساں ہوں گے انہیں کوئی خوف وغم نہ ہوگا ،اور آپ نے اس آیت کریمہ کی تلاوت کی ”ألا اِن أولیاء الله لا خوف علیھم ولا ھم یحزنون “ سنو جو الله کے دوست ہیں ان کے لیے کسی خوف ورنج کا موقع نہیں ہے۔
۵۔ ابن عباس رضی الله عنہ نے فرمایا ،رضائے الٰہی کے لیے محبت وبغض دوستی ودشمنی کے ذریعہ الله کی دوستی مل سکتی ہے ،بغیر اس کے کوئی بندہ لذّت ایمان سے آشنا نہیں ہوسکتا ،چاہے وہ کتنا ہی غازی وروزہ دار ہو ،لوگوں کی عام بھائی چارگی دنیوی مقصد کے لیے ہوتی ہے ،جبکہ انہیں اس سے کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا ۔
۶۔ الله سے مدد طلب کرنے والے موحد مومنوں کو اگرچہ لوگ بُرے القاب سے پکاریں ،ان سے محبت کرتے رہو ،جو شخص غیر الله کو پکارے ،الله کے عرش پر ہونے کا انکار کرے ،ایسے بدعتی سے دوررہا کرو۔
 

شکیل احمد

محفلین
الله کے دوست ،شیطان کے دوست
س۱:- الله کے دوست کون ہیں؟
ج۱:- الله کے دوست کتاب وسنت پر عمل کرنے والے پرہیز گار مومن ہیں۔
فرمان الٰہی:- ألَآ اِنَّ أَولِیَآ اللهِ لَاخَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ ، الَّذِیْنَ ءَ امَنُوْا وَکَانُوا یَتَّقُونَ ۔
سنو جو لوگ الله کے دوست ہیں،جو ایما ن لائے اور جنہوں نے تقویٰ کا رویہ اختیار کیا ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں ہے۔ (سورة یونس:۶۲)
حدیث نبوی:- اِنما وَلِیَّيَ الله وصالح الموٴمنین ۔ (بخاری ومسلم)
الله تعالیٰ اور نیک مومنین میرے دوست ہیں ۔
س۲:- شیطان کے دوست کون ہیں؟
ج۲:- جو الله تعالیٰ کی مخالفت کرتے ہیں ،کتاب وسنت کو نہیں مانتے ،بدعات وخواہشات کے پجاری ہیں،غیر الله کوپکارتے اور الله کے عرش پر ہونے کا انکار کرتے ہیں ،لوہے کی چیزوں سے اپنے آپ کو مارتے ہیں ،آگ کھاجاتے ہیں،نیز مجوسی وشیطانی اعمال کے مرتکب ہوتے ہیں
فرمان الٰہی:- وَمَن یَعْشُ عَنْ ذِکرِ الرَّحْمٰنِ نُقَیِّضْ لَہُ شَیْطٰنًا فَھُوَ لَہُ قَرِیْنٌ ، وَاِنَّھُمْ لَیَصُدُّونَھُمْ عَنِ السَّبِیْلِ وَیَحْسَبُونَ أَنَّھُمْ مُھْتَدُونَ۔
جو شخص رحمان کے ذکر سے تغافل برتتا ہے ،ہم اس پر ایک شیطان مسلط کردیتے ہیں اور وہ اس کا رفیق بن جاتا ہے ،یہ شیاطین ایسے لوگوں کو راہ راست پر آنے سے روکتے ہیں ،اور وہ اپنی جگہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم ٹھیک جارہے ہیں۔
س۳:- کیا حق وباطل کے مابین کوئی راستہ ہے جس کے لوگ طالب ہیں؟
ج۳:- حق وباطل کے مابین کوئی راستہ نہیں جسے لوگ اختیار کریں ،الله تعالیٰ نے حق کے علاوہ چیزوں کو باطل وگمراہی قرار دیا ہے ،اس لیے حق کے علاوہ کوئی نیک را ہ نہیں۔
فرمان الٰہی:- فَمَا ذَا بَعْدَ الْحَقِّ اِلَّا الضَّلَٰل۔
پھر حق کے بعد گمراہی کے سوا اور کیا باقی رہ گیا؟ (سورةیونس:۳۲)
 

شکیل احمد

محفلین
شرک ِ اکبر اور اس کی قسمیں
س۱:- شرک اکبر کسے کہتے ہیں؟
ج۱:- غیر الله کے لیے کسی طرح کی عبادت کرنا شرک اکبر کہلاتا ہے جیسے پکار ،ذبیحہ وغیرہ۔
فرمان الٰہی:- وَلَا تَدْعُ مِنْ دُونِ اللهِ مَا لَا یَنْفَعُکَ وَلَا یَضُرُّکَ فَاِن فَعَلْتَ فَاِنَّکَ اِذًا مِنَ الظَّالِمِیْنَ ۔
اور الله کو چھوڑ کر کسی ایسی ہستی کو نہ پکار جو تجھے نہ فائدہ پہونچا سکتی ہے نہ نقصان ،اگر تو ایسا کرے گا تو ظالموں میں سے ہوگا(یعنی مشرکین میں سے ہوگا)جب رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے سوال ہوا کہ سب سے بڑا گناہ کیاہے آپ نے فرمایا ”أن تدعو لِلّٰہِ نِدًّا وھو خلقک“ کہ تم الله کے ساتھ شریک ٹھہراوٴ جبکہ اس نے تمہیں پید اکیا ہے۔
س۲:- الله کے نزدیک سب سے بڑا گناہ کیا ہے؟
ج۲:- الله کے نزدیک سب سے بڑا گناہ شرک اکبر ہے دلیل ․․․․․․․․․
فرمان الٰہی:- یَا بُنَیَّ لَا تُشْرِکْ بِاللهِ اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْم ۔
بیٹا ،الله کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا ،حق یہ ہے کہ شرک بہت بڑا ظلم ہے ۔
حدیث نبوی:- أکبر الکبائر : الاِشراک بالله وعقوق الوالدین وشھادة الزور ۔ (بخاری)
الله کے ساتھ شرک ،والدین کی نافرمانی ،جھوٹی گواہی سب سے بڑے گناہ ہیں۔
س۳:- کیا اس امت میں شرک موجود ہے؟
ج۳:- ہاں موجود ہے:
فرمان الٰہی:- وَمَا یُوٴمِنُ أَکْثَرُھُمْ بِاللهِ اِلَّا وَھُمْ مُشْرِکُونَ ۔
ان میں سے اکثر الله کو مانتے ہیں مگر اس طرح کہ اس کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھہراتے ہیں۔ (یوسف:۱۰۶)
حدیث نبوی:- لا تقوم الساعة حتی تلحق قبائل من وأمتی بالمشرکین و حتیٰ تعبد الأصنام ۔ (صحیح ترمذی)
جب تک میری امت کے بعض گروہ مشرکین کے ساتھ نہیں ہوجائینگے بتوں کی پوجا نہیں ہوگی ،قیامت نہیں آئے گی۔
س۴:- مردہ یا زندہ غیر موجود کو پکارنے کی کیا حقیقت ہے؟
ج۴:- انہیں پکارنا شرک اکبرہے۔
فرمان الٰہی:- وَلَا تَدْعُ مِنْ دُونِ اللهِ مَا لَا یَنْفَعُکَ وَلَا یَضُرُّکَ فَاِنْ فَعَلْتَ فَاِنَّکَ اِذًا مِنَ الظَّالِمِیْنَ ۔
اور الله کو چھوڑ کر کسی ایسی ہستی کو نہ پکارو جو تجھے نہ فائدہ پہونچاسکتی ہے نہ نقصان ،اگر تو ایسا کرے گا تو ظالموں میں سے ہوگا۔(یعنی مشرکین میں سے ہوگا) (سورةیونس:۱۰۶)
فرمان نبوی :- من مات وھو یدعو من دون الله نداً دخل النار ۔ (بخاری)
جسے غیر الله کو پکارتے ہوئے موت آئی وہ جہنمی ہوگا۔
س۵:- کیا پکار عبادت ہے؟
ج۵:- ہاں پکار عبادت ہے ۔
فرمان الٰہی:- وَقَالَ رَبُّکُمُ ادعُونِی اسْتَجِبْ لکُمْ اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِی سَیَدْخُلُونَ جَھَنَّمَ دَاخِرِیْنَ ۔
تمہارا رب کہتا ہے مجھے پکارو ،میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا جو گھمنڈ میں آکر میری عبادت سے منہ موڑتے ہیں ضرور وہ ذلیل وخوار ہوکر جہنم میں داخل ہوں گے،(عبادت سے مراد پکار ہے)
حدیث نبوی:- الدَّعَاءُ ھُوَالعِبَادَة ۔ (ترمذی نے اسے حسن صحیح کہا)
پکار عبادت ہے۔
س۶:- کیا مردے پکار کو سنتے ہیں؟
ج۶:- نہیں سنتے ۔
۱۔ فرمان الٰہی: وَمَا أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِی القُبُور ۔
(اے نبی)تم ان لوگوں کو نہیں سناسکتے جو قبروں میں مدفون ہیں ۔ (سورة فاطر:۲۲)
۲۔ فرمان الٰہی: اِنَّمَا یَسْتَجِیبُ الَّذِیْنَ یَسْمَعُونَ وَالمَوْتَیٰ یَبْعَثُھُمُ اللهُ ثُمَّ اِلَیْہِ یُرْجَِعُونَ ۔
دعوت حق پر لبیک وہی لوگ کہتے ہیں جو سننے والے ہیں ،رہے مردے تو انہیں تو الله بس قبروں ہی سے اٹھائے گا ۔اور پھر وہ اس کی عدالت میں پیش ہونے کے لیے واپس لائے جائیں گے۔ (مردوں سے مراد کفار ہیں ۔وہ مردہ دل ،اس لیے انہیں مُردوں سے تشبیہ دی گئی ہے)۔
۳۔حدیث نبوی : اِن الله ملائکةً سیّاحین فی الأرض یبلّغونی عن اُمتی السلام ۔
الله کے روئے زمین میں گھومنے پھرنے والے فرشتے مجھے میری امت کا سلام پہونچا دیتے ہیں ۔جب رسول الله صلی الله علیہ وسلم اپنا سلام نہیں سن سکتے اِلّا یہ کہ فرشتے پہونچائیں تو دوسرے بدرجہ اولیٰ نہیں سکتے ۔(حاکم نے اسے صحیح کہا اور ذہبی نے موافقت کی ہے)
۴۔حدیث نبوی: وعن ابن عمر رضی الله عنھما قال : وقف النبی ﷺ علی قلیب بدر (مکان قتلی المشرکین)فقال : ھل وجدتم ما وعد ربکم حقا ؟ ثم قال اِنھم الآن یسمعون ما أقول ، فذکر لعائشة فقالت : اِنما قال النبی ﷺ : اِنھم الٰان لیعلمون أن ما کنت أقول لھم ھو الحق ، ثم قرأت (انک لا تسمع الموتیٰ)۔
عبدالله بن عمررضی الله عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے قلیب بدر (مقتول مشرکین کی جگہ)کے پاس کھڑے ہوکر فرمایا”کیا تم اپنے رب کا وعدہ سچا پائے “؟ پھر فرمایا”یہ اس وقت میری باتیں سن رہے ہیں ،حضرت عائشہ رضی الله عنہا سے اس کا تذکرہ ہوا تو انہوں نے فرمایا کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے اس طرح فرمایا ہے۔وہ اس وقت جانتے ہیں کہ میری باتیں ہی سچی تھیں ،پھر اس آیت کو پڑھا انک لا تسمع الموتی۔ آپ مُردوں کا نہیں سناسکتے (سورة نحل:۸۰)۔
اس کے ہم معنیٰ حضرت ابو طلحہ رضی الله عنہ کی حدیث کے راوی قتادہ فرماتے ہیں الله تعالیٰ نے زندہ کرکے انہیں ازراہ توبیخ وتحقیر ،انتقام وحسرت اور ندامت آپ کی بات سنادی ۔
حدیث سے مستنبط مسائل
۱۔ مقتول مشرکین کی سماعت وقتی تھی ،دلیل نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا یہ قول ”انھم الاٰن یسمعون“ کہ وہ اس وقت سن رہے ہیں اس کا مطلب یہ کہ اس کے بعد نہیں سنیں گے ۔جیسا کہ راوی حدیث قتادہ کا قول ہے ”أحیاھم الله حتی أسمعھم قولہ توبیخا وتصغیراً ونقمةً وحسرة وندامة “ الله تعالیٰ نے انہیں زندہ کرکے ازراہ توبیخ وتحقیر ،انتقام وحسرت اور ندامت آپ کی بات سنادی۔
۲۔ حضرت عائشہ رضی الله عنہا کا ابن عمر رضی الله عنہ کی روایت کا آیت ”انک لا تسمع الموتی“سے استدلال کرکے انکار کرنا کہ آپ نے ”یَسْمَعُونَ“کے بجائے ”اِنھم الاٰن لیعلمون“کہا ہے۔
۳۔ حضرت عائشہ اور ابن عمررضی الله عنہم کی روایتوں کے مابین اس طرح تطبیق دی جاسکتی ہے کہ مردوں کا نہ سننا اصل ہے جیسا کہ قرآن نے اس کی صراحت کی ہے لیکن الله تعالیٰ نے رسول صلی الله علیہ وسلم کے ایک معجزے کے طور پر مقتول مشرکین کو زندہ کردیا اور وہ سن لیے ،جیسا کہ راوی حدیث قتادہ نے خود اس کی تصریح کردی ہے والله اعلم۔
 

شکیل احمد

محفلین
شرک اکبر کی قِسمیں
س۱:- کیا ہم مردہ یا زندہ غیر موجود سے فریاد کرسکتے ہیں؟
ج۱:- نہیں،بلکہ ہم فریاد تو الله ہی کرسکتے ہیں۔
فرمان الٰہی:- وَالَّذِیْنَ یَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللهِ لَا یَخْلُقُونَ شَےئًا وَھُمْ یُخْلَقُونَ أَمْوَاتٌ غَیْرُ أَحْیَاءٍ وَمَا یَشْعُرُوْنَ أَیَّانَ یُبْعَثُونَ․
اور دوسری ہستیاں جنہیں الله کو چھوڑ کر لوگ پکارتے ہیں وہ کسی چیز کی بھی خالق نہیں ہیں،بلکہ خود مخلوق ہیں،مردہ ہیں نہ کہ زندہ ،اور انہیں کچھ معلوم نہیں کہ انہیں کب اٹھایا جائے گا۔ (نحل :۲۰)
۲۔فرمان الٰہی:- اِذْ تَسْتَغِیْثُونَ رَبَّکُمْ فَاسْتَجَابَ لَکُمْ ۔
جب کہ تم اپنے رب سے فریاد کررہے تھے تو اس نے تمہاری فریاد کو قبول فرمایا۔
۳۔حدیث نبوی:- یا حي یا قیوم برحمتک أستغیث ۔ (ترمذی حسن )
اے زندہ وجاوید اور کائنات کو سنبھالنے والے میں تیری رحمت کی فریاد کرتا ہوں۔
س۲:- کیا ہم زندوں سے فریاد کرسکتے ہیں ؟
ج۲:- ہاں ، ان کے حسب استطاعت تعاون طلب کرسکتے ہیں،موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں :
فرمان الٰہی:- فَاْسْتَغٰثَہُ الَّذِی مِنْ شِیعَتِہِ عَلَی الَّذِی مِنْ عَدُوِّہِ فَوَکَزَہُ مُوسَیٰ فَقَضَیٰ عَلَیہِ ۔
اس کی قوم کے آدمی نے دشمن قوم والے کے خلاف اسے مدد کے لیے پکارا موسیٰ علیہ السلام نے اس کو ایک گھونسا مارا ،اور اس کا کام تمام کردیا۔ (سورة القصص:۱۵)
س۳:- کیا غیر الله سے مدد طلب کرسکتے ہیں؟
ج۳:- جن کاموں پر صرف الله تعالیٰ قادر ہوان میں غیر الله سے مدد طلب کرنا جائز نہیں ۔
فرمان الٰہی:- اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِینُ ۔
ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں۔ (سورة فاتحہ:۴)
حدیث نبوی:- اذا سألت فاسأل الله واذا استعنت فاستعن بالله حضرت ابن عباس رضی الله عنہ کو آپ نے فرمایا تھا۔جب سوال کرنا ہو تو الله سے کرو اور مدد مانگنا ہو تو الله سے مانگو۔(ترمذی حسن صحیح )
س۴:- کیا ہم زندوں سے مدد مانگ سکتے ہیں؟
ج۴:- ہاں، ان کی حسب استطاعت قرض یا مدد مانگ سکتے ہیں۔
فرمان الٰہی:- وتعاونوا علی البر والتقویٰ ۔
اور جو کام نیکی اور الله سے ڈرنے کے ہیں ان میں سب سے تعاون کرو۔ (سورة مائدہ:۳)
حدیث نبوی:- والله فی عون العبد ما کان العبد فی عون أخیہ۔
جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا رہتا ہے ،الله تعالیٰ اس کی مدد کرتا ہے لیکن شفاء ، روزی اور ہدایت وغیرہ جیسی چیزیں صرف الله سے مانگی جاسکتی ہیں،اس لیے کہ مُردوں کو کون کہے ،زندے بھی اس سے عاجز ہیں، (مسلم)
فرمان الٰہی:- اَلَّذِی خَلَقَنِی فَھُوَ یَھْدَیْنِ ، وَالَّذِی ھُوَ یُطْعِمُنِی وَیَسْقِیْنِ ، وَاِذَا مَرِضْتُ فَھُوَ یَشْفِیْنِ ۔ (الشعراء)
جس نے مجھے پیدا کیا وہی میری رہنمائی فرماتا ہے ،جو مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے اور جب بیمار ہوجاتا ہوں تو وہی مجھے شفا دیتا ہے۔
س۵:- کیا غیر الله کیلئے نذر ماننا درست ہے؟
ج:- نذر صرف الله کے لیے مانی جاسکتی ہے ،جیسا کہ الله تعالیٰ نے عمران کی بیوی کے قول کو نقل کیاہے:
رَبِّ اِنِّی نَذَرْتُ لَکَ مَا فِی بَطَنِی مُحَرَّرًا ۔
میرے پروردگار میں اس بچے کو جو میرے پیٹ میں ہے تیری نذر کرتی ہوں ۔ (آل عمران:۳۵)
حدیث نبوی:- من نذر أن یطیع الله فلیطعہ ومن نذر أن یعصیہ فلا یعصہ ۔ (بخاری)
جس نے الله کا کہا ماننے کی نذر مانی اسے چاہئے کہ پورا کرے اور جس نے الله کی نافرمانی کی نذر مانی تو اس کی نافرمانی نہ کرے۔
س۶:- کیا غیر الله کے لیے ذبیحہ درست ہے؟
ج:- ہرگز نہیں،دلیل․․․․․․․․․․․․
فرمان الٰہی:- فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ ۔ (سورة کوثر:۲)
پس اپنے رب ہی کے لیے نماز پڑھو اور قربانی کرو۔
حدیث نبوی:- لعن الله من ذبح لغیر الله ۔ (مسلم)
جس نے غیر الله کے لیے ذبح کیا اس پر الله کی لعنت ہو۔ نیز قبروں اور مزاروں کے پاس بھی ذبیحہ درست نہیں اگرچہ الله کے نام پر ہو ،اس لیے یہ مشرکین کا عمل ہے۔
حدیث نبوی:- من تشبہ بقوم فھو منھم ۔ (صحیح ابوداوٴد)
جس شخص نے (دینی امور میں )کسی قوم کی مشابہت اختیار کی وہ اسی میں سے ہے ۔
س۷:- کیا تقرب کے حصول کے لیے قبروں کا طواف کرنا درست ہے؟
ج۷:- ہرگزنہیں ،طواف تو صرف بیت الله کا کرنا چاہئے۔
فرمان الٰہی:- وَلْیَطّوّفُوا بِالْبَیْتِ العَتِیْقِ ۔
اور چاہیے کہ اس قدیم گھر کا طواف کریں ۔ (سورة الحج:۳۹)
حدیث نبوی:- من طاف بالبیت سبعًا و صلّی رکعتین کان کعتق رقبة ۔
بیت الله کے سات چکر اور دورکعت پڑھنے کا اتنا ثواب ہے گویا گردن کو آزاد کردیا ہو۔ (صحیح ابن ماجہ)
س۸:- جادو کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
ج۸:- جادوگناہ کبیرہ ہے ،بسا اوقات کفر بھی۔
فرمان الٰہی:- وَلَکِنَّ الشَیَاطِیْنَ کَفَرُوا یُعَلِّمُوْنَ النَّاسَ السِّحْرَ ۔
اور لیکن کفر کے مرتکب تو وہ شیاطین تھے جو لوگوں کو جادوگری کی تعلیم دیتے تھے۔ (سورة بقرة:۱۰۲)
حدیث نبوی:- اجتنبوا السبع الموبقات ، الشرک بالله والسحر۔ (مسلم)
سات ہلاکت آفریں چیزوں سے بچو ،الله کے ساتھ شرک کرنا ،جادو کرنا بسا اوقات جادوگر مشرک یا کافر یافسادی ہوتا ہے ،اور اچانک قتل نظر بندی ،دین میں فتنہ انگیزی ،فسادی کی مدد ،جرائم کی ستر پوشی شوہر وبیوی میں جدائی ،زندگی اور عقل کو ختم کردینے والے اعمال ایسے جرائم کے مرتکب ہونے کے باعث جرم کے مطابق قصاصًا قتل یا مقررہ حد یا سزا کا مستحق ہوگا۔
س۹:- علم غیب سے متعلق دست شناس اور کاہن کی بات مانی جاسکتی ہے یا نہیں؟
ج۹:- ہمیں اس کی باتوں پر یقین نہیں کرنا چاہیے۔
فرمان الٰہی:- قُلْ لَا یَعْلَمُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالأَرْضِ الْغَیْبَ اِلَّا اللهُ ۔
کہہ دیجئے :الله کے سوا آسمانوں اور زمینوں میں کوئی غیب کا علم نہیں رکھتا۔ (نمل:۶۵)
حدیث نبوی:- من أتٰی عّرافا أو کاھناً فصدَّقہ بما یقولُ فقد کفر بما أُنزِلَ علیٰ محمد ۔(مسند امام احمد صحیح)
جو دست شناس یا کاہن کے پاس آیا اور ان کی باتوں پر یقین کیا،اس نے گویا نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم پر نازل شدہ شریعت کا انکار کیا۔
س۱۰:- کیا کوئی غیب کی باتیں جانتا ہے ؟
ج۱۰:- الله تعالیٰ کے سوا کسی کو بھی علم غیب حاصل نہیں۔
فرمان الٰہی:- وَعِنْدَہُ مَفَاتِحُ الغَیْبِ لَا یَعْلَمُھَا اِلَّا ھُوَ ۔
اسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں ،جنہیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ (انعام:۵۹)
حدیث نبوی:- لا یعلم الغیب الا الله ۔ (طبرانی)
الله کے سوا کسی کو بھی علم غیب نہیں۔
س۱۱:- اسلام مخالف قوانین پر عمل کرنا کیساہے؟
ج۱۱:- اسلام کے مخالف قوانین پر ،انہیں جائز سمجھتے ہوئے ،یا اسلام کی عدم صلاحیت اور ان کی صلاحیت کا اعتقاد رکھتے ہوئے عمل کرنا کفر ہے
فرمان الٰہی:- وَمَنْ لَمْ یَحْکُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللهُ فأُولٰئِکَ ھُمُ الکٰافِرُوْنَ ۔
جو لوگ الله کے کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی کافر ہیں۔ (سورة مائدہ:۴۴)
حدیث نبوی:- وما لم تحکم أئمتھم بکتاب الله ویتخیّرُوا مما انزل الله الا جعل الله بأسھم بینھم ۔ (ابن ماجہ وغیرہ)
جب تک فرمانروائے وقت قرآن کی روشنی میں فیصلہ نہیں کریں گے الله کی نازل کردہ شریعت کو نہیں اپنائیں گے ،منجانب الله آپس میں لڑتے رہیں گے۔ (صحیح ابن ماجہ)
س۱۲:- الحاد کسے کہتے ہیں اور ملحد کا کیا حکم ہے؟
ج۱۲:- مختلف اعتقادات وتاویلات کے ذریعہ راہ حق سے انحراف کرنا الحاد کہلاتا ہے ،باطل تاویل اور شکوک کا اظہار کرتے ہوئے الله کے سیدھے راستے سے انحراف اور اس کے حکم کی مخالفت کرنیوالا ملحد کہلاتا ہے ۔ہر وہ شخص ملحد ہوگا جو رب کا انکار کرے یا دوسرے کو اس کے برابر سمجھ کر معبود بنائے ،اس کی عبادت کرے،اسے پکارے،اس سے محبت اور اس کی تعظیم کرے،شریعت الٰہیہ کے مخالف اس کے قوانین اور اصول ومبادی کو قبول کرے،جو آیات واحادیث کی من مانی اور اپنی عقل کے مطابق تاویل کرے تو وہ اسماء وصفات ،آیات واحادیث میں الحاد کا مرتکب ہوا ۔
فرمان الٰہی:- وَلِلّٰہِ الأَسْمَاءُ الحُسْنٰی فَادْعُوہُ بِھَا ، وَذَرُوا الَّذِیْنَ یُلْحِدُونَ فِي أَسْمَائِہ ، سَیُجْزَوْنَ مَا کَانُوا یَعْمَلُوْنَ۔
الله تعالیٰ اچھے ناموں کا مستحق ہے ،اس کو اچھے ہی ناموں سے پکارواور ان لوگوں کو چھوڑ دو جواس کے نام رکھنے میں راستی سے منحرف ہوجاتے ہیں ۔جو کچھ وہ کرتے ہیں اس کا بدلہ پاکر رہیں گے۔
قتادہ کا قول ہے : یلحدون یشرکون فی اسمائہ ۔یعنی أسماء سے متعلق شرک کا ارتکاب کرتے ہیں۔ابن عباس رضی الله عنہ کے نزدیک الحاد کا معنی جھٹلانا ہے ۔
فرمان الٰہی:- اِنَّ الَّذِیْنَ یُلْحِدُوْنَ فِی اٰیَاتِنَا لَا یَخْفَوْنَ عَلَیْنَا ۔
جو لوگ ہماری آیات کو الٹے معنی پہناتے ہیں وہ ہم سے کچھ چھپے ہوئے نہیں ہیں۔ (فصلت:۴۰)
ابن عباس رضی الله عنہ کا قول ہے: وضع الکلام علی غیرہ موضعہ ، یعنی بات کو الٹ دینا الحاد ہے۔
قتادہ وغیر کا قول ہے : ھو الکفر والعناد ،یعنی الحاد کفر اور دشمنی کوکہتے ہیں۔ (تفسیر ابن کثیر:۴/۱۰۲)
اسی طرح جس کا عقیدہ یہ رہا کہ شریعت اسلامیہ ایسے قطعی العمل یقین کا فائدہ نہیں دیتی جو عقل سے میل کھائے وہ بھی ملحد ہوگا،اس لیے کہ وہ اپنی فاسد عقل کو دین اسلامی کا ہمسر ٹھہراتا ہے ،ملحد کا حکم الحاد کے مطابق بدلتا رہتا ہے۔
۱۔ وہ ملحد کافر ہوگا،جو رب کے وجود یا اس کے ثابت شدہ کسی اسم وصفت کا انکار کرتاہو۔
۲۔ وہ ملحد اعمال کو تباہ کرنے والے شرک کا مرتکب ہوگا ،جو غیر الله کو پکارتا ہو اور مُردوں سے مدد طلب کرتاہو۔
۳۔ وہ ملحد سراسر گمراہ ہوگا ،جو کتاب وسنت صحیحہ میں ثابت شدہ اسماء وصفات کی تاویل کرتا ہو۔
اللھم نعوذبک من الاِلحاد بجمیع أنواعہ یعنی اے الله ہم الحاد کی تمام قسموں سے تیری پناہ چاہتے ہیں۔ (دّوسری کی کتاب”الاجوبة المفیدة“ سے بتصرف منقول)
س۱۳:- الله کو کس نے پیدا کیا؟
ج۱۳:- جب شیطان کسی کے دل میں اس سوال کا وسوسہ پیداکرے تو اسے الله کی پناہ مانگنی چاہیے ۔
فرمان الٰہی:- وَاِمََّا یَنْزَغَنَّکَ مِنَ الشَّیْطٰنِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللهِ اِنَّہُ ھُوَالسَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ ۔
اگر تم شیطان کی طرف سے کوئی اکساہٹ محسوس کرو تو الله کی پناہ مانگ لو وہ سب کچھ سنتااور جانتا ہے۔ (سورة فصلت:۳۶)
حدیث نبوی:- وعلمنا الرسول صلی الله علیہ وسلم أن نرد کید الشیطان ونقل اٰمنت بالله ورسلہ الله احد ، الله الصمد ،لم یلد ولم یولد ولم یکن لہ کفواً احد ، ثم لیتفل عن یسارہ ثلاثا ولیستعذ من الشیطان ولینتہ فِان ذٰلک یذھب عنہ۔ (ھٰذہ خلاصة الأحادیث الواردةن فی البخاري ومسلم وأحمد وأبی داوٴد)
میں الله اور اس کے رسولوں پر ایمان لایا ،الله ایک ہے ،الله بے نیاز ہے ، نہ اس کی کوئی اولاد ہے ،اور نہ وہ کسی کی اولاد ،اور اس کا کوئی ہمسر نہیں ،پھر وہ اپنے بائیں طرف تین بار تھوکے ،اور شیطان سے پناہ طلب کرکے رُک جائے تو شیطان کی چال ناکام ہوجائے گی۔
(یہ صحیح بخاری ومسلم ،مسند احمد ،سنن ابی داوٴد میں وارد صحیح حدیثوں کا خلاصہ ہے)
یہ کہنا کہ الله خالق ہے مخلوق نہیں،واجب وضروری ہے ،بآسانی سمجھنے کے لیے مثال کے طور پر ہم کہیں گے ،
یہ عدد دو ہے ،اس سے پہلے ایک ہے ،ایک سے پہلے کچھ نہیں ،اس طرح الله ایک ہے اس سے پہلے کچھ نہیں۔
حدیث نبوی:- اللھم أنت الاول فلا شئي قبلک۔ (مسلم)
اے الله تو ہی اول ہے تجھ سے پہلے کچھ نہیں ۔
س۱۴:- ما قبل اسلام مشرکین کے کیا عقائد تھے؟
ج۱۴:- اولیاء کو تقرب اور طلب شفاعت کے لیے پکارتے تھے ۔
فرمان الٰہی:- وَالَّذِیْنَ اتَّخَذُوا مِنْ دُوْنِہ وأُوْلیَاءَ مَا نَعْبُدُ ھُمْ اِلَّا لِیُقَرِّبُونَا اِلَی اللهِ زُلْفٰی ۔
یہ لوگ جنہوں نے اس کے سوا دوسرے سرپرست بنارکھے ہیں(اور اپنے اس فعل کی توجیہ یہ کرتے ہیں کہ )ہم تو اُن کی عبادت صرف اسی لیے کرتے ہیں کہ وہ الله تک ہماری رسائی کرادیں ۔
فرمان الٰہی:- وَیَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللهِ مَا لَا یَضُرُّھُمْ وَلَا یَنْفَعُھُمْ وَیَقُولُوْنَ ھٰوٴُلَاءِ شُفٰعٰوٴُنَا عِنْدَ اللهِ ۔
یہ لوگ الله کے سوا ان کی پرستش کررہے ہیں جو ان کو نہ نقصان پہونچاسکتے ہیں نہ نفع ،اور کہتے ہیں کہ یہ الله کے یہاں ہمارے سفارشی ہیں مشرکین کی طرح بعض مسلمان بھی ایسا کرتے ہیں۔
س۱۵:- خوف کسے کہتے ہیں،اس کے اقسام کیا ہیں؟
ج۱۵:- بزدلی کا نام خوف ہے،اس کی دوقسمیں ہیں۔
پہلی اعتقادی ، دوسری فطری
۱۔ اعتقادی خوف : مُردوں سے ڈرنا ہے۔جو شرک اکبر اور شیطان کا کام ہے ۔
فرمان الٰہی:- اِنَّمَا ذٰلِکُمْ الشَّیْطٰنُ یُخَوِّفُ أَولِیَآءَ ہُ ، فَلَا تَخَافُوھُمْ وَخَافُونِ اِن کُنْتَم مُوٴمِنِیْنَ ۔
اب تمہیں معلوم ہوگیا کہ وہ دراصل شیطان تھا جو اپنے دوستوں سے خوامخواہ ڈرا رہا تھا ،لہٰذا آئندہ تم انسانوں سے نہ ڈرنا ،مجھ سے ڈرنا،(یعنی تم کو اپنے دوستوں سے ڈراتا اور تمہارے اندر یہ وہم پیدا کرتاہے کہ وہ طاقت وقوت والے ہیں،جب وہ بات بنائے اور تمہیں وہم میں ڈالے تو مجھ پر بھروسہ کرکے میری طرف رجوع کرو ،میں ان کے برخلاف تمہارا مددگار ہوں گا )مردوں سے خوف ،مشرکین کا عمل اور عقیدہ ہے :
فرمان الٰہی:- أَلَیْسَ اللهُ بِکٰافٍ عَبْدَہُ وَیُخَوِّفُونَکَ بَالَّذِیْنَ مِنْ دُونِہ ۔
(اے نبی)کیا الله اپنے بندے کے لیے کافی نہیں ہے یہ لو گ اس کے سوا دوسروں سے تم کو ڈراتے ہیں۔ (سورة زمر:۳۶)
(یعنی مشرکین رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو اپنے بتوں اور (مردوں)معبودوں سے دھمکاتے اور ڈراتے تھے ،یہ ان کی سراسر جہالت اورگمراہی تھی )۔ (ابن کثیر)۔ جس طرح قوم ہود نے حضرت ہود علیہ السلام سے کہا تھا۔
فرمان الٰہی :- اِن نَّقُولُ اِلَّا اعْتَرَکَ بَعْضُ ءَ الِھَتِنَا بِسُوٓءٍ ۔ (ہود:۵۴)
ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ تیرے اوپر ہمارے معبودوں میں سے کسی کی مار پڑ گئی ہے۔(یعنی ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے بعض معبودوں نے تمہیں صرف اس وجہ سے مجنون اور پاگل بنادیا ہے کہ تم ان کی برائی بیان کرتے اور ان کی عبادت سے روکتے ہو تو ہود علیہ السلام نے انہیں جواب دیا ۔
فرمان الٰہی:- قَالَ اِنِّی أُشْہِدُ اللهَ وَاشْھَدُوا أَنِّی بَرِیٴٌ مِمَّا تُشْرِکُونَ مِنْ دُونِہ فَکِیْدُونِی جَمِیْعًا ثُمَّ لَا تُنْظِرُوْنَ ۔ (ھود)
ہود نے کہا:”میں الله کی شہادت پیش کرتا ہوں ،اور تم لوگ گواہ رہو کہ یہ جو الله کے سوا دوسروں کو تم نے الله کا شریک ٹھہرارکھا ہے اس سے بیزار ہوں تم سب کے سب مل کر میرے خلاف اپنی کرنی میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھو اور مجھے ذرا مہلت نہ دو۔یہ اس بات کی دلیل ہے کہ مُردوں سے خوف کھانا شرک ہے اس میں ملوث ہوکر بعض مسلمان مردوں سے ڈرنے لگے ہیں،حالانکہ وہ اپنی ہی پریشانی دور کرنے سے عاجز ہیں۔دوسروں کو تکلیف دینے کی بات ہی اور ہے ،مردہ اگر جلنے لگے تو بھاگ نہیں سکتا بلکہ پوری طرح جل جاتا ہے ۔ (ابن کثیر)
۲۔ فطری خوف :انسان کا ظالم یا وحشی جانور وغیرہ سے ڈرنا ہے ،یہ شرک نہیں ۔
فرمان الٰہی:- فَأَوْجَسَ فِی نَفْسِہ خِیْفَةً مُّوسَیٰ ۔
اور موسیٰ علیہ السلام اپنے دل میں ڈر گئے ۔ (سورہٴ طہٰ:۶۷)
فرمان الٰہی:- وَلَھُمْ عَلَیَّ ذَنْبٌ فَأَخَافُ اَنْ یَقْتُلُوْن ۔
اور مجھ پر ان کے ہاں ایک جرم کاالزام بھی ہے اس لیے میں ڈرتاہوں کہ وہ مجھے قتل کردیں گے۔ (شعراء:۱۴)
 

شکیل احمد

محفلین
شرک اکبر کی قِسمیں
س۱:- کیا ہم مردہ یا زندہ غیر موجود سے فریاد کرسکتے ہیں؟
ج۱:- نہیں،بلکہ ہم فریاد تو الله ہی کرسکتے ہیں۔
فرمان الٰہی:- وَالَّذِیْنَ یَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللهِ لَا یَخْلُقُونَ شَےئًا وَھُمْ یُخْلَقُونَ أَمْوَاتٌ غَیْرُ أَحْیَاءٍ وَمَا یَشْعُرُوْنَ أَیَّانَ یُبْعَثُونَ․
اور دوسری ہستیاں جنہیں الله کو چھوڑ کر لوگ پکارتے ہیں وہ کسی چیز کی بھی خالق نہیں ہیں،بلکہ خود مخلوق ہیں،مردہ ہیں نہ کہ زندہ ،اور انہیں کچھ معلوم نہیں کہ انہیں کب اٹھایا جائے گا۔ (نحل :۲۰)
۲۔فرمان الٰہی:- اِذْ تَسْتَغِیْثُونَ رَبَّکُمْ فَاسْتَجَابَ لَکُمْ ۔
جب کہ تم اپنے رب سے فریاد کررہے تھے تو اس نے تمہاری فریاد کو قبول فرمایا۔
۳۔حدیث نبوی:- یا حي یا قیوم برحمتک أستغیث ۔ (ترمذی حسن )
اے زندہ وجاوید اور کائنات کو سنبھالنے والے میں تیری رحمت کی فریاد کرتا ہوں۔
س۲:- کیا ہم زندوں سے فریاد کرسکتے ہیں ؟
ج۲:- ہاں ، ان کے حسب استطاعت تعاون طلب کرسکتے ہیں،موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں :
فرمان الٰہی:- فَاْسْتَغٰثَہُ الَّذِی مِنْ شِیعَتِہِ عَلَی الَّذِی مِنْ عَدُوِّہِ فَوَکَزَہُ مُوسَیٰ فَقَضَیٰ عَلَیہِ ۔
اس کی قوم کے آدمی نے دشمن قوم والے کے خلاف اسے مدد کے لیے پکارا موسیٰ علیہ السلام نے اس کو ایک گھونسا مارا ،اور اس کا کام تمام کردیا۔ (سورة القصص:۱۵)
س۳:- کیا غیر الله سے مدد طلب کرسکتے ہیں؟
ج۳:- جن کاموں پر صرف الله تعالیٰ قادر ہوان میں غیر الله سے مدد طلب کرنا جائز نہیں ۔
فرمان الٰہی:- اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِینُ ۔
ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں۔ (سورة فاتحہ:۴)
حدیث نبوی:- اذا سألت فاسأل الله واذا استعنت فاستعن بالله حضرت ابن عباس رضی الله عنہ کو آپ نے فرمایا تھا۔جب سوال کرنا ہو تو الله سے کرو اور مدد مانگنا ہو تو الله سے مانگو۔(ترمذی حسن صحیح )
س۴:- کیا ہم زندوں سے مدد مانگ سکتے ہیں؟
ج۴:- ہاں، ان کی حسب استطاعت قرض یا مدد مانگ سکتے ہیں۔
فرمان الٰہی:- وتعاونوا علی البر والتقویٰ ۔
اور جو کام نیکی اور الله سے ڈرنے کے ہیں ان میں سب سے تعاون کرو۔ (سورة مائدہ:۳)
حدیث نبوی:- والله فی عون العبد ما کان العبد فی عون أخیہ۔
جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا رہتا ہے ،الله تعالیٰ اس کی مدد کرتا ہے لیکن شفاء ، روزی اور ہدایت وغیرہ جیسی چیزیں صرف الله سے مانگی جاسکتی ہیں،اس لیے کہ مُردوں کو کون کہے ،زندے بھی اس سے عاجز ہیں، (مسلم)
فرمان الٰہی:- اَلَّذِی خَلَقَنِی فَھُوَ یَھْدَیْنِ ، وَالَّذِی ھُوَ یُطْعِمُنِی وَیَسْقِیْنِ ، وَاِذَا مَرِضْتُ فَھُوَ یَشْفِیْنِ ۔ (الشعراء)
جس نے مجھے پیدا کیا وہی میری رہنمائی فرماتا ہے ،جو مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے اور جب بیمار ہوجاتا ہوں تو وہی مجھے شفا دیتا ہے۔
س۵:- کیا غیر الله کیلئے نذر ماننا درست ہے؟
ج:- نذر صرف الله کے لیے مانی جاسکتی ہے ،جیسا کہ الله تعالیٰ نے عمران کی بیوی کے قول کو نقل کیاہے:
رَبِّ اِنِّی نَذَرْتُ لَکَ مَا فِی بَطَنِی مُحَرَّرًا ۔
میرے پروردگار میں اس بچے کو جو میرے پیٹ میں ہے تیری نذر کرتی ہوں ۔ (آل عمران:۳۵)
حدیث نبوی:- من نذر أن یطیع الله فلیطعہ ومن نذر أن یعصیہ فلا یعصہ ۔ (بخاری)
جس نے الله کا کہا ماننے کی نذر مانی اسے چاہئے کہ پورا کرے اور جس نے الله کی نافرمانی کی نذر مانی تو اس کی نافرمانی نہ کرے۔
س۶:- کیا غیر الله کے لیے ذبیحہ درست ہے؟
ج:- ہرگز نہیں،دلیل․․․․․․․․․․․․
فرمان الٰہی:- فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ ۔ (سورة کوثر:۲)
پس اپنے رب ہی کے لیے نماز پڑھو اور قربانی کرو۔
حدیث نبوی:- لعن الله من ذبح لغیر الله ۔ (مسلم)
جس نے غیر الله کے لیے ذبح کیا اس پر الله کی لعنت ہو۔ نیز قبروں اور مزاروں کے پاس بھی ذبیحہ درست نہیں اگرچہ الله کے نام پر ہو ،اس لیے یہ مشرکین کا عمل ہے۔
حدیث نبوی:- من تشبہ بقوم فھو منھم ۔ (صحیح ابوداوٴد)
جس شخص نے (دینی امور میں )کسی قوم کی مشابہت اختیار کی وہ اسی میں سے ہے ۔
س۷:- کیا تقرب کے حصول کے لیے قبروں کا طواف کرنا درست ہے؟
ج۷:- ہرگزنہیں ،طواف تو صرف بیت الله کا کرنا چاہئے۔
فرمان الٰہی:- وَلْیَطّوّفُوا بِالْبَیْتِ العَتِیْقِ ۔
اور چاہیے کہ اس قدیم گھر کا طواف کریں ۔ (سورة الحج:۳۹)
حدیث نبوی:- من طاف بالبیت سبعًا و صلّی رکعتین کان کعتق رقبة ۔
بیت الله کے سات چکر اور دورکعت پڑھنے کا اتنا ثواب ہے گویا گردن کو آزاد کردیا ہو۔ (صحیح ابن ماجہ)
س۸:- جادو کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
ج۸:- جادوگناہ کبیرہ ہے ،بسا اوقات کفر بھی۔
فرمان الٰہی:- وَلَکِنَّ الشَیَاطِیْنَ کَفَرُوا یُعَلِّمُوْنَ النَّاسَ السِّحْرَ ۔
اور لیکن کفر کے مرتکب تو وہ شیاطین تھے جو لوگوں کو جادوگری کی تعلیم دیتے تھے۔ (سورة بقرة:۱۰۲)
حدیث نبوی:- اجتنبوا السبع الموبقات ، الشرک بالله والسحر۔ (مسلم)
سات ہلاکت آفریں چیزوں سے بچو ،الله کے ساتھ شرک کرنا ،جادو کرنا بسا اوقات جادوگر مشرک یا کافر یافسادی ہوتا ہے ،اور اچانک قتل نظر بندی ،دین میں فتنہ انگیزی ،فسادی کی مدد ،جرائم کی ستر پوشی شوہر وبیوی میں جدائی ،زندگی اور عقل کو ختم کردینے والے اعمال ایسے جرائم کے مرتکب ہونے کے باعث جرم کے مطابق قصاصًا قتل یا مقررہ حد یا سزا کا مستحق ہوگا۔
س۹:- علم غیب سے متعلق دست شناس اور کاہن کی بات مانی جاسکتی ہے یا نہیں؟
ج۹:- ہمیں اس کی باتوں پر یقین نہیں کرنا چاہیے۔
فرمان الٰہی:- قُلْ لَا یَعْلَمُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالأَرْضِ الْغَیْبَ اِلَّا اللهُ ۔
کہہ دیجئے :الله کے سوا آسمانوں اور زمینوں میں کوئی غیب کا علم نہیں رکھتا۔ (نمل:۶۵)
حدیث نبوی:- من أتٰی عّرافا أو کاھناً فصدَّقہ بما یقولُ فقد کفر بما أُنزِلَ علیٰ محمد ۔(مسند امام احمد صحیح)
جو دست شناس یا کاہن کے پاس آیا اور ان کی باتوں پر یقین کیا،اس نے گویا نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم پر نازل شدہ شریعت کا انکار کیا۔
س۱۰:- کیا کوئی غیب کی باتیں جانتا ہے ؟
ج۱۰:- الله تعالیٰ کے سوا کسی کو بھی علم غیب حاصل نہیں۔
فرمان الٰہی:- وَعِنْدَہُ مَفَاتِحُ الغَیْبِ لَا یَعْلَمُھَا اِلَّا ھُوَ ۔
اسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں ،جنہیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ (انعام:۵۹)
حدیث نبوی:- لا یعلم الغیب الا الله ۔ (طبرانی)
الله کے سوا کسی کو بھی علم غیب نہیں۔
س۱۱:- اسلام مخالف قوانین پر عمل کرنا کیساہے؟
ج۱۱:- اسلام کے مخالف قوانین پر ،انہیں جائز سمجھتے ہوئے ،یا اسلام کی عدم صلاحیت اور ان کی صلاحیت کا اعتقاد رکھتے ہوئے عمل کرنا کفر ہے
فرمان الٰہی:- وَمَنْ لَمْ یَحْکُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللهُ فأُولٰئِکَ ھُمُ الکٰافِرُوْنَ ۔
جو لوگ الله کے کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی کافر ہیں۔ (سورة مائدہ:۴۴)
حدیث نبوی:- وما لم تحکم أئمتھم بکتاب الله ویتخیّرُوا مما انزل الله الا جعل الله بأسھم بینھم ۔ (ابن ماجہ وغیرہ)
جب تک فرمانروائے وقت قرآن کی روشنی میں فیصلہ نہیں کریں گے الله کی نازل کردہ شریعت کو نہیں اپنائیں گے ،منجانب الله آپس میں لڑتے رہیں گے۔ (صحیح ابن ماجہ)
س۱۲:- الحاد کسے کہتے ہیں اور ملحد کا کیا حکم ہے؟
ج۱۲:- مختلف اعتقادات وتاویلات کے ذریعہ راہ حق سے انحراف کرنا الحاد کہلاتا ہے ،باطل تاویل اور شکوک کا اظہار کرتے ہوئے الله کے سیدھے راستے سے انحراف اور اس کے حکم کی مخالفت کرنیوالا ملحد کہلاتا ہے ۔ہر وہ شخص ملحد ہوگا جو رب کا انکار کرے یا دوسرے کو اس کے برابر سمجھ کر معبود بنائے ،اس کی عبادت کرے،اسے پکارے،اس سے محبت اور اس کی تعظیم کرے،شریعت الٰہیہ کے مخالف اس کے قوانین اور اصول ومبادی کو قبول کرے،جو آیات واحادیث کی من مانی اور اپنی عقل کے مطابق تاویل کرے تو وہ اسماء وصفات ،آیات واحادیث میں الحاد کا مرتکب ہوا ۔
فرمان الٰہی:- وَلِلّٰہِ الأَسْمَاءُ الحُسْنٰی فَادْعُوہُ بِھَا ، وَذَرُوا الَّذِیْنَ یُلْحِدُونَ فِي أَسْمَائِہ ، سَیُجْزَوْنَ مَا کَانُوا یَعْمَلُوْنَ۔
الله تعالیٰ اچھے ناموں کا مستحق ہے ،اس کو اچھے ہی ناموں سے پکارواور ان لوگوں کو چھوڑ دو جواس کے نام رکھنے میں راستی سے منحرف ہوجاتے ہیں ۔جو کچھ وہ کرتے ہیں اس کا بدلہ پاکر رہیں گے۔
قتادہ کا قول ہے : یلحدون یشرکون فی اسمائہ ۔یعنی أسماء سے متعلق شرک کا ارتکاب کرتے ہیں۔ابن عباس رضی الله عنہ کے نزدیک الحاد کا معنی جھٹلانا ہے ۔
فرمان الٰہی:- اِنَّ الَّذِیْنَ یُلْحِدُوْنَ فِی اٰیَاتِنَا لَا یَخْفَوْنَ عَلَیْنَا ۔
جو لوگ ہماری آیات کو الٹے معنی پہناتے ہیں وہ ہم سے کچھ چھپے ہوئے نہیں ہیں۔ (فصلت:۴۰)
ابن عباس رضی الله عنہ کا قول ہے: وضع الکلام علی غیرہ موضعہ ، یعنی بات کو الٹ دینا الحاد ہے۔
قتادہ وغیر کا قول ہے : ھو الکفر والعناد ،یعنی الحاد کفر اور دشمنی کوکہتے ہیں۔ (تفسیر ابن کثیر:۴/۱۰۲)
اسی طرح جس کا عقیدہ یہ رہا کہ شریعت اسلامیہ ایسے قطعی العمل یقین کا فائدہ نہیں دیتی جو عقل سے میل کھائے وہ بھی ملحد ہوگا،اس لیے کہ وہ اپنی فاسد عقل کو دین اسلامی کا ہمسر ٹھہراتا ہے ،ملحد کا حکم الحاد کے مطابق بدلتا رہتا ہے۔
۱۔ وہ ملحد کافر ہوگا،جو رب کے وجود یا اس کے ثابت شدہ کسی اسم وصفت کا انکار کرتاہو۔
۲۔ وہ ملحد اعمال کو تباہ کرنے والے شرک کا مرتکب ہوگا ،جو غیر الله کو پکارتا ہو اور مُردوں سے مدد طلب کرتاہو۔
۳۔ وہ ملحد سراسر گمراہ ہوگا ،جو کتاب وسنت صحیحہ میں ثابت شدہ اسماء وصفات کی تاویل کرتا ہو۔
اللھم نعوذبک من الاِلحاد بجمیع أنواعہ یعنی اے الله ہم الحاد کی تمام قسموں سے تیری پناہ چاہتے ہیں۔ (دّوسری کی کتاب”الاجوبة المفیدة“ سے بتصرف منقول)
س۱۳:- الله کو کس نے پیدا کیا؟
ج۱۳:- جب شیطان کسی کے دل میں اس سوال کا وسوسہ پیداکرے تو اسے الله کی پناہ مانگنی چاہیے ۔
فرمان الٰہی:- وَاِمََّا یَنْزَغَنَّکَ مِنَ الشَّیْطٰنِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللهِ اِنَّہُ ھُوَالسَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ ۔
اگر تم شیطان کی طرف سے کوئی اکساہٹ محسوس کرو تو الله کی پناہ مانگ لو وہ سب کچھ سنتااور جانتا ہے۔ (سورة فصلت:۳۶)
حدیث نبوی:- وعلمنا الرسول صلی الله علیہ وسلم أن نرد کید الشیطان ونقل اٰمنت بالله ورسلہ الله احد ، الله الصمد ،لم یلد ولم یولد ولم یکن لہ کفواً احد ، ثم لیتفل عن یسارہ ثلاثا ولیستعذ من الشیطان ولینتہ فِان ذٰلک یذھب عنہ۔ (ھٰذہ خلاصة الأحادیث الواردةن فی البخاري ومسلم وأحمد وأبی داوٴد)
میں الله اور اس کے رسولوں پر ایمان لایا ،الله ایک ہے ،الله بے نیاز ہے ، نہ اس کی کوئی اولاد ہے ،اور نہ وہ کسی کی اولاد ،اور اس کا کوئی ہمسر نہیں ،پھر وہ اپنے بائیں طرف تین بار تھوکے ،اور شیطان سے پناہ طلب کرکے رُک جائے تو شیطان کی چال ناکام ہوجائے گی۔
(یہ صحیح بخاری ومسلم ،مسند احمد ،سنن ابی داوٴد میں وارد صحیح حدیثوں کا خلاصہ ہے)
یہ کہنا کہ الله خالق ہے مخلوق نہیں،واجب وضروری ہے ،بآسانی سمجھنے کے لیے مثال کے طور پر ہم کہیں گے ،
یہ عدد دو ہے ،اس سے پہلے ایک ہے ،ایک سے پہلے کچھ نہیں ،اس طرح الله ایک ہے اس سے پہلے کچھ نہیں۔
حدیث نبوی:- اللھم أنت الاول فلا شئي قبلک۔ (مسلم)
اے الله تو ہی اول ہے تجھ سے پہلے کچھ نہیں ۔
س۱۴:- ما قبل اسلام مشرکین کے کیا عقائد تھے؟
ج۱۴:- اولیاء کو تقرب اور طلب شفاعت کے لیے پکارتے تھے ۔
فرمان الٰہی:- وَالَّذِیْنَ اتَّخَذُوا مِنْ دُوْنِہ وأُوْلیَاءَ مَا نَعْبُدُ ھُمْ اِلَّا لِیُقَرِّبُونَا اِلَی اللهِ زُلْفٰی ۔
یہ لوگ جنہوں نے اس کے سوا دوسرے سرپرست بنارکھے ہیں(اور اپنے اس فعل کی توجیہ یہ کرتے ہیں کہ )ہم تو اُن کی عبادت صرف اسی لیے کرتے ہیں کہ وہ الله تک ہماری رسائی کرادیں ۔
فرمان الٰہی:- وَیَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللهِ مَا لَا یَضُرُّھُمْ وَلَا یَنْفَعُھُمْ وَیَقُولُوْنَ ھٰوٴُلَاءِ شُفٰعٰوٴُنَا عِنْدَ اللهِ ۔
یہ لوگ الله کے سوا ان کی پرستش کررہے ہیں جو ان کو نہ نقصان پہونچاسکتے ہیں نہ نفع ،اور کہتے ہیں کہ یہ الله کے یہاں ہمارے سفارشی ہیں مشرکین کی طرح بعض مسلمان بھی ایسا کرتے ہیں۔
س۱۵:- خوف کسے کہتے ہیں،اس کے اقسام کیا ہیں؟
ج۱۵:- بزدلی کا نام خوف ہے،اس کی دوقسمیں ہیں۔
پہلی اعتقادی ، دوسری فطری
۱۔ اعتقادی خوف : مُردوں سے ڈرنا ہے۔جو شرک اکبر اور شیطان کا کام ہے ۔
فرمان الٰہی:- اِنَّمَا ذٰلِکُمْ الشَّیْطٰنُ یُخَوِّفُ أَولِیَآءَ ہُ ، فَلَا تَخَافُوھُمْ وَخَافُونِ اِن کُنْتَم مُوٴمِنِیْنَ ۔
اب تمہیں معلوم ہوگیا کہ وہ دراصل شیطان تھا جو اپنے دوستوں سے خوامخواہ ڈرا رہا تھا ،لہٰذا آئندہ تم انسانوں سے نہ ڈرنا ،مجھ سے ڈرنا،(یعنی تم کو اپنے دوستوں سے ڈراتا اور تمہارے اندر یہ وہم پیدا کرتاہے کہ وہ طاقت وقوت والے ہیں،جب وہ بات بنائے اور تمہیں وہم میں ڈالے تو مجھ پر بھروسہ کرکے میری طرف رجوع کرو ،میں ان کے برخلاف تمہارا مددگار ہوں گا )مردوں سے خوف ،مشرکین کا عمل اور عقیدہ ہے :
فرمان الٰہی:- أَلَیْسَ اللهُ بِکٰافٍ عَبْدَہُ وَیُخَوِّفُونَکَ بَالَّذِیْنَ مِنْ دُونِہ ۔
(اے نبی)کیا الله اپنے بندے کے لیے کافی نہیں ہے یہ لو گ اس کے سوا دوسروں سے تم کو ڈراتے ہیں۔ (سورة زمر:۳۶)
(یعنی مشرکین رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو اپنے بتوں اور (مردوں)معبودوں سے دھمکاتے اور ڈراتے تھے ،یہ ان کی سراسر جہالت اورگمراہی تھی )۔ (ابن کثیر)۔ جس طرح قوم ہود نے حضرت ہود علیہ السلام سے کہا تھا۔
فرمان الٰہی :- اِن نَّقُولُ اِلَّا اعْتَرَکَ بَعْضُ ءَ الِھَتِنَا بِسُوٓءٍ ۔ (ہود:۵۴)
ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ تیرے اوپر ہمارے معبودوں میں سے کسی کی مار پڑ گئی ہے۔(یعنی ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے بعض معبودوں نے تمہیں صرف اس وجہ سے مجنون اور پاگل بنادیا ہے کہ تم ان کی برائی بیان کرتے اور ان کی عبادت سے روکتے ہو تو ہود علیہ السلام نے انہیں جواب دیا ۔
فرمان الٰہی:- قَالَ اِنِّی أُشْہِدُ اللهَ وَاشْھَدُوا أَنِّی بَرِیٴٌ مِمَّا تُشْرِکُونَ مِنْ دُونِہ فَکِیْدُونِی جَمِیْعًا ثُمَّ لَا تُنْظِرُوْنَ ۔ (ھود)
ہود نے کہا:”میں الله کی شہادت پیش کرتا ہوں ،اور تم لوگ گواہ رہو کہ یہ جو الله کے سوا دوسروں کو تم نے الله کا شریک ٹھہرارکھا ہے اس سے بیزار ہوں تم سب کے سب مل کر میرے خلاف اپنی کرنی میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھو اور مجھے ذرا مہلت نہ دو۔یہ اس بات کی دلیل ہے کہ مُردوں سے خوف کھانا شرک ہے اس میں ملوث ہوکر بعض مسلمان مردوں سے ڈرنے لگے ہیں،حالانکہ وہ اپنی ہی پریشانی دور کرنے سے عاجز ہیں۔دوسروں کو تکلیف دینے کی بات ہی اور ہے ،مردہ اگر جلنے لگے تو بھاگ نہیں سکتا بلکہ پوری طرح جل جاتا ہے ۔ (ابن کثیر)
۲۔ فطری خوف :انسان کا ظالم یا وحشی جانور وغیرہ سے ڈرنا ہے ،یہ شرک نہیں ۔
فرمان الٰہی:- فَأَوْجَسَ فِی نَفْسِہ خِیْفَةً مُّوسَیٰ ۔
اور موسیٰ علیہ السلام اپنے دل میں ڈر گئے ۔ (سورہٴ طہٰ:۶۷)
فرمان الٰہی:- وَلَھُمْ عَلَیَّ ذَنْبٌ فَأَخَافُ اَنْ یَقْتُلُوْن ۔
اور مجھ پر ان کے ہاں ایک جرم کاالزام بھی ہے اس لیے میں ڈرتاہوں کہ وہ مجھے قتل کردیں گے۔ (شعراء:۱۴)
 

شکیل احمد

محفلین
الله کے ساتھ شرک کی نفی
س۱:- ہم الله کے ساتھ شرک کی نفی کس طرح کریں؟
ج۱:- درج ذیل چیزوں کی نفی سے ہی الله کے ساتھ شرک کی نفی ہوسکتی ہے :
۱۔ الله تعالیٰ کے افعال میں شرک کی نفی ،یعنی اس اعتقاد کی نفی کہ بعض قطب واولیاء کائنات کے نظم ونسق کو چلا رہے ہیں۔
فرمان الٰہی:- وَمَنْ یُدَبِّرُ الأمْرَ فَسَیَقُوْلُوْنَ الله ۔
اور کون اس نظمِ عالَم کی تدبیر کررہا ہے وہ ضرور کہیں گے کہ الله۔ (سورة یونس:۳۱)
۲۔ عبادت سے متعلق شرک کی نفی ، جیسے کہ انبیاء واولیاء کو پکارنے کی نفی ۔
فرمان الٰہی:- قُلْ اِنَّمَا أَدْعُوْا رَبِّیْ وَلَا أُشْرِکُ بِہ أَحَدًا ۔ (جن :۲۰)
(اے نبی)کہو کہ میں تواپنے رب کو پکارتا ہوں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا۔
حدیث نبوی:- الدعاء ھوا العبادة ۔ پکار عبادت ہے ۔ (ترمذی)
۳۔ صفات الٰہیہ میں شرک کی نفی ،مثلاً اس اعتقاد کی نفی کہ انبیاء واولیاء غیب جانتے ہیں۔
فرمان الٰہی:- قُلْ لَا یَعْلَمُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالأَرْضِ الْغَیْبَ اِلَّا اللهُ ۔
ان سے کہو ،الله کے سوا آسمانوں اور زمینوں میں کوئی غیب کا علم نہیں رکھتا ۔ (نمل :۶۵)
حدیث نبوی:- لا یعلم الغیب اِلا الله ۔ (طبرانی حدیث حسن)
الله کے سوا کوئی غیب کا علم نہیں رکھتا۔
۴۔ تشبیہ سے متعلق شرک کی نفی ،یعنی اس بات کی نفی ،کہ الله کی پکار کے وقت واسطہ ضروری ہے،جس طرح بادشاہ کے پاس بغیر واسطہ کے نہیں جاسکتے ،اسی طرح خالق کی مخلوق سے تشبیہ دے دی ،اور یہ شرک ہے دلیل :
فرمان الٰہی:- لَیْسَ کَمِثْلِہ شَیْیٴٌ ۔
کائنات کی کوئی چیز اس کے مشابہ نہیں۔ (سورة شوریٰ:۱۱)
س۲:- زمانہ ٴ جاہلیت کا شرک اِس وقت پایا جاتا ہے یا نہیں؟
ج:- پایا جاتا ہے۔
۱۔ پہلے کے مشرکین الله کے خالق ورازق ہونے کا عقیدہ رکھتے تھے ،لیکن وہ اولیاء کے بت بناکر پکارتے تھے اور انہیں تقرب الٰہی کا واسطہ سمجھتے تھے ،ان کا یہ واسطہ الله کو پسند نہ آیا ،بلکہ انہیں کافر گردانا۔
فرمان الٰہی:- وَالَّذِیْنَ اتَّخَذُواْ مِنْ دُوْنِہِ أَوْلِیَآءَ مَا نَعْبُدُھُمْ اِلَّا لِیُقَرِّبُوْنَآ اِلَی اللهِ زُلْفٰیٰٓ اِنَّ اللهَ یَحْکُمُ بَیْنَھُمْ فِی مَا ھُمْ فِیْہِ یَخْتَلِفُوْنَ اِنَّ اللهَ لَا یَھْدِی مَنْ ھُوَ کَٰذِبٌ کَفَّارٌ ۔
وہ لوگ جنہوں نے اس کے سوا دوسرے سرپرست بنارکھے ہیں (اور اپنے اس فعل کی توجیہ یہ کرتے ہیں)ہم تو ان کی عبادت صرف اس لیے کرتے ہیں کہ وہ الله تک ہماری رسائی کرادیں ،الله یقینا ان کے درمیان ان باتوں کا فیصلہ کردے گا جن میں وہ اختلاف کررہے ہیں ،الله کسی ایسے شخص کو ہدایت نہیں دیتا جو جھوٹا اور منکر حق ہو ۔ (سورة زمر:۳)
الله تعالیٰ کے لیے کسی بھی واسطے کی ضرورت نہیں،وہ سب سے قریب اور سب کچھ سننے والا ہے۔
فرمان الٰہی:- وَاِذَا سَأَلَکَ عِبَادِی عَنِّی فَاِنِّی قَرِیْبٌ ۔
اور اے نبی ،میرے بندے تم سے میرے متعلق پوچھیں تو بتادوکے میں ان سے قریب ہی ہوں ۔ (بقرة:۱۸۶)
دورحاضر میں بہت سے مسلمان قبروں میں مدفون اولیاء کو قربت الٰہی کے لیے پکارتے ہیں ،مشرکین مردہ اولیا ء کے بت بناکر پوجتے تھے ،آج مسلمان مُردہ اولیاء کی قبریں بناکر پوجتے ہیں،جبکہ قبر کا فتنہ بُت سے زیادہ خطرناک ہے ۔
۲۔ پہلے کے مشرکین سختیوں میں صرف الله کو پکارتے تھے ،آسانیوں کے وقت اس کے ساتھ شریک کرتے تھے۔
فرمان الٰہی:- فَاِذَا رَکِبُوا فِی الْفُلْکِ دَعَوُاللهَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ فَلَمَّا نَجَّٰھُمْ اِلَی البَرِّ اِذَا ھُمْ یُشْرِکُوْنَ ۔ (عنکبوت)
جب یہ لوگ کشتی پر سوار ہوتے ہیں ، تو اپنے دین کو الله کے لیے خالص کرکے اس سے دعامانگتے ہیں ،پھر جب وہ انہیں بچا کر خشکی پر لے آتا ہے ۔تو یکایک یہ شرک کرنے لگتے ہیں،بریں بناء یہ کیسے جائز ہوسکتا ہے کہ مسلمان سختی یا آسانی میں غیر الله کو پکاریں ؟





شرک اکبر کے نقصانات
س۱:- شرک اکبر کا کیا نقصان ہے؟
ج۱:- شرک اکبرجہنم میں ہمیشگی کا سبب بنتاہے ،
فرمان الٰہی:- اِنَّہُ مَن یُشْرِکْ باللهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللهُ عَلَیْہِ الجَنَّةَ وَمَأْوٰہُ النَّارُ وَمَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ أَنْصَارِ ۔
جس نے الله کے ساتھ شریک ٹھہرایا اس پر الله نے جنت حرام کردی اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہے ،اور ایسے ظالموں کا کوئی مددگار نہیں۔
حدیث نبوی:- من مات یشرک بالله شےئًا دخل النار ۔ (مسلم)
جس نے حالت شرک میں وفات پائی ،جہنمی ہوگا۔
س۲:- کیا شرک کے ہوتے ہوئے کوئی عمل نفع بخش ہوگا؟
ج۲:- شرک کے ہوتے ہوئے کوئی عمل نفع بخش نہیں ہوسکتا ،اس لیے کہ الله تعالیٰ نے انبیاء کے بارے میں فرمایا:
وَلَوْ أَشْرَکُوا لَحَبِطَ عَنْھُمْ مَا کَانُوا یَعْمَلُونَ ۔
اگر کہیں یہ لوگ شرک کیے ہوتے تو ان کا سب کیا کرایا غار ہوجاتا۔ (انعام :۸۸)
حدیث قدسی: أنا أغنی الشرکاء عن الشرک من عمل عملا أشرک معي فیہ غیری ترکتہ وشرکہ ۔ (مسلم)
میں شرک سے پوری طرح مستغنی ہوں ،جس کسی نے کسی عمل میں میرے ساتھ کسی غیر کو شریک کیا ،تو وہ جانے اوراس کا شرک۔
 

شکیل احمد

محفلین
پھیلے ہوئے خطرناک نظرئیے
س۱:- کیا حاکمیت قوم کی ،اور مال قوم کا ہے؟
ج۱:- یہ من گھڑت الفاظ ہیں ،ان کے گھڑنے والے خود اس پر عمل پیرا نہیں ،بلکہ قوم کی آراء کے بالمقابل اپنی کسی بھی رائے کو نہیں بدلتے ،بلکہ یہ ایسا نغمہ ہے جسے ایسی قوموں کو دھوکہ دینے کے لیے استعمال کررہے ہیں جو اپنی پہلی حکومت سے چھٹکاراپانا چاہتی ہیں ،اس طرح انہیں دوسری حکومت میں مبتلا کردیتے ہیں جو پہلی سے زیادہ ظالم وگمراہ ہوتی ہے ،صحیح بات تو یہ ہے کہ انسانی قوموں کی عزت محفوظ رہنی چاہیے ،انہیں صحیح آزادی وانصاف ملنا چاہئے،انہیں جانوروں کی مانند ہانکا نہ جائے ۔
ٍ اصل تو یہ ہے کہ حاکمیت صرف اس الله کے لیے ہے جس کی وحی کی روشنی میں قوم کی رہنمائی ضروری ہے ،اور اس کی حاکمیت اس کی شریعت کے مطابق ہوگی ،اس کے برعکس اس شخص کا کہنا ”حاکمیت قوم کے لیے ہے “ غلط ہے ،جو قوموں کو اپنی من مانی رہنمائی کرتاہے ۔حقیقت یہ ہے کہ وہ مادہ مذاہب کو مانتاہے ۔شریعت الٰہیہ کے مخالف بُت پرستی پر مبنی اصول کو برتتاہے ،مکروفریب سے پر نعرے دے کر زبردستی ان پر اپنی بالادستی منواتا ہے ۔
اسی طرح مال الله کا ہے ،جس کے مصارف ،رفاہ عامہ کی چیزیں ،مسلمانوں کے سرحدوں کی حفاظت ،مشرق ومغرب میں ان کے تمام مسائل کا دفاع دعوت الیٰ الله کا فریضہ ،بعض مسلمانوں پر ظلم وزیادتی اورافتراء پردازی کرنے والوں کے خاتمے کے لئے ،نیز ضرورت مندوں کی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے ہر طرح کی وسائل فراہم کرناہیں ،ان مذکورہ چیزوں میں جو سب سے زیادہ ضروری ہوگی ،اس میں الله کے مال کو صرف کیا جائے گا ،انسانیت زدہ اسے لوٹ نہیں سکتے ،اسے فضول خرچی اور شان وشوکت کے بے جا اظہار میں خرچ نہیں کرسکتے ،فسق وفجور ،اخلاق سے گرے کلبوں کی بات ہی دوسری ہے یہ کہنا ہرگز درست نہیں کہ مال قوم کا ہے۔اس لیے اگر یہ تسلیم کرلیا جائے تو قوم کے لوگ ،اپنی حکومت کی حفاظت ،جاسوسی اور لوگوں کے ذہن وضمیر خریدنے وغیرہ پر بہت سارا مال برباد کریں گے۔ (دَوسرِی کی کتاب”الاجوبة المفیدة“ سے منقول)
س۲:- کمیونزم کِن بنیادوں پر قائم ہے ؟
ج۲:- کمیونزم کی بہت ساری بنیادیں مثلاً :
۱۔ الله کا ،تمام ادیان ،رسل، اور ان کی رسالتوں کا انکار ،ان کا نعرہ ہے ”کوئی معبود نہیں، زندگی کا وجود مادے سے ہے)
۲۔ تمام فضائل اور اخلاقی قدروں کا صفایا۔
۳۔ مالداروں اور غریبوں کے مابین کینہ ودشمنی پیداکرنا۔
۴۔ اپنے لیڈروں کو چھوڑ کر ،دوسروں کی انفرادی ملکیت کا خاتمہ ،اور یہ انسانی فطرت میں داخل ہے۔
س۳:- اسلام کے خاتمے کے لیے کمیونزم کے کیا وسائل ہیں؟
ج۳:- بہت سے وسائل ہیں ، مثلاً :
۱۔ یہ کہ کمیونزم کا مبلغ دین اسلامی اور اس کے متعلق پیدا کردہ شکوک وشبہات سے واقف ہو ،جس معاشرے میں کمیونزم کی تبلیغ کررہا ہو اس کے عادات واطوار سے آگاہ ہو۔
۲۔ مسلمان عورتوں کے مابین اس ہلاکت آفریں مذہب کی تبلیغ کے لیے عورتوں کا استعمال ،اس لیے کہ اسلامی معاشرے میں غیر مرد عورتوں سے نہیں مل سکتے ۔
۳۔ اس مذہب کی تبلیغ کے لیے معمر لوگوں کا استعمال ،اس لیے کہ وہ اپنے معاشروں میں لوگوں کے نزدیک قابل احترام ہوتے ہیں۔
۴۔ کمیونزم کی تبلیغ کے لیے ڈاکٹروں کا استعمال ،اس لیے کہ وہ بیمار کی عاجزی ،کمزوری اور دوا کی ضرورت سے غلط فائدہ اٹھا سکتا ہے ۔
۵۔ حکومت پر قبضہ کرکے قوموں سے لڑنا ،اور وہاں سے کمیونزم کا پرچار کرنا ۔
س۴:- کیا کافر حکومتیں اسلام دشمنی میں متحد ہیں؟
ج۴:- یہ بات ظاہر وباہر ہے کہ تمام کافر حکومتیں (اگرچہ اسلام سے متعلق ان کے نظریے مختلف ہوں)اسلام دشمنی میں متحدہیں ،یہ الگ بات ہے کہ دشمنی کے مختلف اسلوب ہیں،چنانچہ کمیونزم اسلام دشمنی کا اظہار کرتے ہوئے چاہتا ہے اسلام اور مسلمانوں کو ملیامیٹ کردے ،عیسائیت اسلام کے لیے ہلاکت خیز نظریوں کے پیچھے چھپ کر مسلمانوں کے مابین عیسائی مشنریاں چلاتی ہیں ۔تاکہ وہ اپنے دین کو بدل ڈالیں ،بالخصوص یہودیت تو تمام مذاہب اور ہر تباہ کن اور اخلاقی قدروں کو ملیا میٹ کرنے والے نظرئیے کے پیچھے کام کررہی ہے ،جیسے کہ ماسونیت ،عالمی صہیونیت اور بابیت ہے۔
س۵:- عیسائی مشنری کیا ہے۔اس کے کیا خطرات ہیں ،اس کا مقابلہ کیسے کیا جائے ؟
ج۵:- عیسائی مشنری ایک نہایت تباہ کن تحریک ہے ،جو اسلام کے خاتمے کی کوشش میں لگا ہے، ان کے بعض اصول یہ ہیں :
۱۔ اسلام میں شکوک وشبہات پید اکرنا۔
۲۔ مسلمانوں کو نصرانیت کی رغبت دلانا ۔
۳۔ ان کا یہ دعویٰ کرنا کہ عیسیٰ علیہ السلام الله کے لڑکے ہیں۔
۴۔ تمام میدانوں میں اپنے زہریلے اثرات پھیلانا ۔
۵۔ غریب وکمزورقوموں کا ناجائز استحصال کرنا۔
اس سے نمٹنے کے طریقے:
۱۔ کتاب وسنت کو مضبوطی سے تھام لینا۔
۲۔ لازماً مسلمانوں کا ہم جماعت ہونا۔
۳۔ اسلامی تعلیمات سے آگاہی ۔
۴۔ دین نصاریٰ کے محرف ہونے کی واقفیت۔
۵۔ مالداروں کا غریبوں کی مدد کرنا۔
س۶:- کیا اسلام میں صوفیانہ طریقے اور جماعتیں ہیں؟
ج۶: اسلام میں صوفیانہ طریقے اور جماعتیں نہیں ہیں۔
فرمان الٰہی:- اِنَّ ھٰذِہ أُمَّتُکُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَأَنَا رَبُّکُمْ فَاعْبُدُونِ ۔ (انبیاء:۹۲)
یہ تمہاری امت حقیقت میں ایک ہی امت ہے اور میں تمہارا رب ہوں پس تم میری عبادت کرو۔
فرمان الٰہی:- وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللهِ جَمِیْعًا وَلَا تَفَرَّقُوْا ۔ (آل عمران:۱۰۳)
سب مل کر الله کی رسی کو مضبوط پکڑلو اور تفرقہ میں نہ پڑو۔
فرمان الٰہی:- وَلَا تَکُونُوا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ ، مِنَ الَّذِیْنَ فَرَّقُوا دِیْنَھُمْ وَکَانُوا شِیَعًا کُلُّ حِزْبِ م بِمَا لَدَیْھِمْ فَرِحُوْنَ ۔
ان مشرکین میں سے نہ ہوجاوٴ ،جنہوں نے اپنا اپنا دین الگ بنالیا ،اور گروہوں میں بٹ گئے ہیں ،ہر ایک گروہ کے پاس جو کچھ ہے وہ اسی میں مگن ہے ۔ (روم:۳۱-۳۲)
حدیث نبوی:- عن ابن مسعود قال : خطَّ لنا رسول الله صلی الله علیہ وسلم خطاً بیدہ ، ثم قال : ھذا سبیل الله مستقیما ، وخطّ خطوطاً عن یمینہ وشمالہ ، ثم قال : ہذہ السبل ، لیس منھا سبیل الّا علیہ شیطان یدعو اِلیہ ثم قرأ قولہ تعالیٰ :وَأَنَّ ھٰذَا صِرَاتِی مُسْتَقِیْمَا فَاتَّبِعُوہُ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیْلِہ ․ (انعام : ۱۵۳)
عبدالله بن مسعود رضی الله عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے ایک سیدھی لکیر کھینچی ،پھر فرمایا ،یہی الله کا سیدھا راستہ ہے ،اور اس کے دائیں بائیں بہت سی لکیریں کھینچیں ،پھرفرمایا،ان راستوں میں سے ہر راستے پر ایک شیطان بیٹھا اس راستہ کی طرف بلاتا ہے ۔پھر آپ نے یہ آیت پڑھی وَأَنَّ ھٰذَا صِرَاتِی مُسْتَقِیْمَا فَاتَّبِعُوہُ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیْلِہ (انعام : ۱۵۳) اس کی ہدایت یہ ہے کہ یہی میرا سیدھا راستہ ہے ۔لہٰذا تم اسی پر چلو اور دوسرے راستوں پر نہ چلو،وہ اس کے راستے سے ہٹاکرتمہیں پراگندہ کردیں گے ۔ (احمد ونسائی نے روایت کیااور حاکم نے صحیح فرمایا اور ذہبی نے موافقت کی )
۵۔ حدیث نبوی:- ضرب الله تعالیٰ مثلاً صراطاً مستقیماً ، وعلی جنبي الصراط سوران فیھا أبواب مفتحة ، وعلی الأبواب ستور مرخاة ، وعلیٰ باب الصراط داع یقول : یا أیھاالناس ادخلوا الصراط المستقیم ولا تفرقوا ، وداع یدعو من فوق الصراط ، فاذا أراد الانسان أن یفتح شےئًا من تلک الأبواب قال : ویحک لا تفتحہ، فانک ان تفتحہ تلجہ، فالصراط : الاِسلام والسوران : حدودالله تعالیٰ : والأبواب المفتحة محارم الله ، وذلک الداعی علی رأس الصراط : کتاب الله ، والداعی من فوق الصراط واعظ الله فی قلب کل مسلم ۔
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ الله تعالیٰ نے صراط مستقیم کی مثال بیان کی ،کہ صراط مستقیم کے دونوں کنارے دواونچی دیواریں ہیں ،جن میں کھلے دروازے ہیں ،دروازوں پر پردے لٹک رہے ہیں ،اور صراط مستقیم کے دروازے پر ایک پکارنے والا کہہ رہا ہے ،لوگو! صراط مستقیم میں داخل ہوجاوٴ ادھر ادھر منتشر مت ہو،صراط مستقیم کے اوپر سے ایک پکارنے والا پکارتا ہے اور جب انسان ان دروازوں میں سے کسی کو کھولنا چاہتا ہے تو کہتاہے ،تیرا برا ہو ،اس کو مت کھول اگر کھولوگے تو اس میں چلے جاوٴ گے ،تو صراط مستقیم ،اسلام ہے دونوں دیواریں ،الله کی مقرر کردہ حدود ہیں ۔کھلے ہوئے دروازے ،الله کی حرام کردہ چیزیں ہیں ،صراط مستقیم کے دروازے پر پکارنے والا ،کتاب الله ہے ،صراط مستقیم کے اوپر سے پکارنے والا ،منجانب الله ہر مسلمان کا نصیحت آموز دل ہے ۔ (احمد نے روایت کیا اور حاکم نے صحیح سند کے ساتھ توثیق کی )
س۷:- کیا دین الله کا ،اور وطن سب کا ہے؟
ج۷:- اہل یورپ نے علم سے برسر جنگ اور ظالم کنیسے کی حکومت سے راہ فرار اختیار کرنے کے لیے اس شرکیہ منصوبے کی ایجاد کی ،پھر اس کے ذریعہ اہل اسلام کو ان کے دین سے برگشتہ کرنا چاہا ،ان لوگوں نے کہا کہ دین الله کا ہے اسے پیٹھ کے پیچھے ڈال دیا جائے ،ہمارے وطنی امور ،سیاست ،علم اور معیشت وغیرہ میں اسے دخل اندازی کاکوئی حق نہیں ،اس گمراہ کن ومن گھڑت بات سے اہل استعمار نے یہ چاہا کہ وطن کے نام پر تمام امور ومسائل سے الله کے احکامات کو دور کردیا جائے ،گویا وطن کو الله کاہمسر ٹھہراکر اس کے نتیجے میں دین کو حکومت سے جدا کردیا۔
فرمان الٰہی:- یَٰٓأَیُّھَاالَّذِیْنَ ءَ امَنُوٓا اِن تُطِیْعُوا الَّذِیْنَ کَفَرُوا یَرُدُّوکُمْ عَلَیٰٓ أَعْقَٰبِکُمْ فَتَنْقَلِبُوا خَسِرِیْنَ ۔
اے لوگو!جو ایمان لائے ہواگرتم ان لوگوں کے اشاروں پر چلوگے جنہوں نے کفر کی راہ اختیار کی ہے وہ الٹا پھیرلے جائیں گے اور تم نامراد ہوجاوٴگے۔ (آل عمران :۱۴۹)
فرمان الٰہی:- یَٰٓأَیُّھَاالَّذِیْنَ ءَ امَنُوٓا اِن تُطِیْعُوا فَرِیْقًا مِّنَ الَّذِیْنَ أُوتُوا الکِتَٰبَ یَرُدُّوْکُمْ بَعْدَ اِیْمَانِکُمْ کٰفِرِیْنَ۔(آل عمران)
اے لوگو! جو ایمان لائے ہو اگر تم نے اہل کتاب میں سے ایک گروہ کی بات مانی ،تو یہ تمہیں ایمان سے پھر کفر کی طرف پھیر لے جائیں گے،اس تحریک نے ،نصرانیت کے پروپیگنڈے اور مسلمانوں کے برخلاف انہیں کے گھروں میں الحاد ودہریت پھیلانے کی راہیں ہموار کردیں ،نیز اسی راہ کو اپنانے والی نصرانی اقلیت کوخوش کرنے کے لیے اسلام کے بڑھتے ہوئے قدموں کو روک دیا ،اور جب مسلمانوں نے اس تحریک کو مستردکردیا تو اسے گروہی فتنہ کہا گیا۔ (کتاب ”الاجوبة المفیدہ“ سے بتصرف منقول)
س۸:- کیا اسلام گروہ بندی اور انتشار سکھلاتا ہے؟
ج۸:- صحیح اسلامی دین حقیقی اتحاد کا منبع ہے ،اس دین پر چل کرہی ،عزت ومرتبت ،باہمی اتحاد ورحم دلی ،سخاوت وایثار اور غیر مسلموں سے امان مل سکتی ہے ۔گروہ بندی کا تصور ہی ایسے دین میں کیسے کیا جاسکتا ہے جو اپنے ماننے والوں کو یہ تعلیم دیتا ہو:
قُلْ ءَ امَنَّا بِاللهِ وَمَا أُنْزِلَ عَلَیٰٓ اِبْرَاھِیْمَ وَ اِسْمَٰعِیْلَ وَ اِسْحَٰقَ وَ یَعْقُوْبَ وَالْأَسْبَاطِ وَمَاأُوْتِیَ مُوْسَیٰ وَ عِیْسَیٰ وَالنَّّبِیُّوْنَ مِنْ رَّبِّھِمْ لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ أَحَدٍ مِّنْھُمْ وَ نَحْنُ لَہُ مُسْلِمُونَ ۔ (آل عمران :۸۴)
(اے نبی )کہو کہ ہم الله کو مانتے ہیں ،اس تعلیم کو مانتے ہیں جو ہم پر نازل کی گئی ،ان تعلیمات کو بھی مانتے ہیں جو ابراہیم،اسماعیل ،اسحاق ،یعقوب اور اولاد یعقوب پر نازل ہوئی تھیں۔اوران ہدایات پربھی ایمان رکھتے ہیں جو موسیٰ اور عیسیٰ علیہم السلام اور دوسرے پیغمبروں کو ان کے رب کی طرف سے دی گئیں ،ہم ان کے درمیان فرق نہیں کرتے ،اور ہم الله کے تابع فرمان (مسلم)ہیں۔
س۹:- کیا لوگوں کا ارادہ الله کے ارادے سے ہوتاہے ؟
ج۹:- مذاہب باطلہ کے محض فلسفیوں کی الله تعالیٰ پر یہ ایسی گھٹیا بہتان تراشی ہے ،جس کی جرأت ابوجہل اور اس کے ہم مسلکوں نے نہیں کی ،جب کہ وہ اسلام دشمنی اور خباثت میں حد درجہ بڑھے ہوئے تھے ان کے بارے میں الله تعالیٰ نے صرف یہ بیان کیا ہے کہ وہ اپنے اعمال کو الله کی مشیت پرمعلق سمجھتے تھے ۔
فرمان الٰہی:- وَقَالَ الَّذِیْنَ أَشْرَکُوا لَوشَآءَ اللهُ مَا عَبَدْنَا مِنْ دُوْنِہِ مِنْ شَیْ ءٍ نَّحْنُ وَلَا ءَ ابَآوٴُنَا وَلَا حَرَّمْنَا مِنْ دُوْنِہِ مِنْ شَیْ ءٍ ۔ (نحل:۳۵)
چنانچہ الله نے ان کو جھوٹا گردانا ۔لیکن ان لوگوں کے قول سے (کہ قوم کا ارادہ الله کے ارادے سے ہوتا ہے)یہ خرابی لازم آتی ہے کہ قوم جو چاہے کرے ،قرآن وشریعت الٰہیہ سے آزاد ہوکر جس طرح چاہے زندگی گذارے خواہشات ،مادہ شہوت اور قوت کو معیار زندگی بنالے ۔
یہی کہنا قوم کو الله کے سوا الٰہ بنانا ہے نیز خواہشات کوشریعت الٰہیہ کے احکام کا ہمسر بنانا ہے ۔بالفاظ دیگر،الله کے احکام ،حدود اور شریعت سے فرار ہے ۔
س۱۰:- یہ کہنے والا کہ دین قوموں کے حق میں افیون ہے کیا کہنا چاہتا ہے ؟
ج۱۰:- یہ یہودی ”کارل مارکس“کا قول ہے ،جس نے یہودی ،مزدکی ،کمیونزم کو پھر سے جنم دیا جبکہ اسلام اس کا خاتمہ کرچکا تھا ،اس کا خیال ہے کہ دین قوموں کو بدمست کرکے سلادینے والی چیز ہے ،یہ بات من گھڑت باطل ادیان کے بارے میں درست ہوسکتی ہے اس لئے کہ ان کے متبعین خرافات میں ملوث ہوتے ہیں ۔لیکن صحیح دین حنیف (جس کو اجاگر کرنے کا حکم الله نے اپنے بندوں کو دے رکھا ہے )ایسا دین ہے جو دلوں میں تڑپ پیدا کرتا ہے ،تمام احساسات اور قوموں کو جھنجوڑ کر آگے بڑھاتا ہے اپنے ماننے والوں کی ذلت ورسوائی اور ظلم کے آگے جھک جانے کو برداشت نہیں کرسکتا ،دین و شریعت کے چھوڑنے والوں سے برأت بہتان تراشوں کے خاتمہ اور اعلاء کلمة الله کیلئے مختلف طرح کی ،مختلف طریقے سے جہاد کرنا واجب قرار دیتا ہے ۔ (دَوسری کی کتاب ”الاجوبة المفیدة“سے منقول)
س۱۱:- اسلام کی نظر میں کمیونزم کی کیا حیثیت ہے ؟
ج۱۱:- کمیونزم پر حکم لگانے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ مسلمان اس کے عربی نام سے دھوکہ نہ کھائیں ،بلکہ اس کے مصادر ومراجع پر غور کریں ۔کیا اس کے مراجع مارکس لینن اور اس کے ہمنواوٴں کی کتابیں ہیں؟جنہوں نے نظریہٴ کمیونزم کی تشریح کی ہے ،یا اس کا مرجع صرف کتاب وسنت سے ماخوذ ہے ،تاآنکہ مسلمان اسے قبول کرلیں ؟
اگر مراجع مارکس ولینن اور ان کے ہمنواہیں،تو مسلمان اسے ہرگز ،ہرگز قبول نہیں کرسکتے ،بلکہ سرے سے اس کا انکار واجب ہے اور یہ بات مسلم ہے کہ کسی بھی صاحب عقل کو شک نہیں ہوسکتا کہ تمام کے تمام مراجع ومصادر ان کے خود ساختہ معبود ہیں ،ایسی صورت میں اس کاانکار لاالہ الاالله محمد رسول الله کی شہادت کے لوازمات میں سے ہے ۔اور اس شہادت کے لوازمات پر عمل کیے بغیر کوئی صحیح معنوں میں مومن نہیں ہوسکتا ۔ (دَوسری کی کتاب ”الاجوبة المفیدة“)
صحیح بات تو یہ ہے کہ منجانب الله منزّل مُنصف مزاج اسلام ،کمیونزم ،راسمالیت ،غرضیکہ انسان کے مقرر کردہ تمام ہی نظامہائے حیات سے مستغنی کردیتا ہے ،بالخصوص جب ان کا اسلام سے ٹکراوٴ ہو،اسلام نے تو اہل اسلام کو انصاف ،مساوات ،آزادی اور دنیوی واخروی سعادت سے نوازا ہے۔
فرمان الٰہی:- صِبْغَةَ اللهِ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللهِ صِبْغَةً وَنَحْنُ لَہُ عَابِدُوْنَ ۔ (سورة بقرة: ۱۲۸)
س۱۲:- ماسونیت کسے کہتے ہیں؟
ج۱۲:- ماسونیت ایک پراسرار یہودی جمیعت ہے ،جسے ”مخفی قوت“کا نام دیتے ہیں ،ابتداء میں عیسائیوں کے خلاف اس کا قیام عمل میں آیا ،تاکہ ان کی انجیلوں کی تحریف ،ان کے عقائد وافکار کی بگاڑ اور مختلف اختلاف وانتشار سے ان کو کمزور کرنے کا فریضہ انجام دے ،جب اسلام آیا تو اسے بھی اپنی لپیٹ میں لیا ۔عالمی یہودیت تمام ماسونی جمعیتوں کی،مفکروں ،مکاروں اور دغابازوں کے ذریعہ مددکرتی ہے ،یہ لوگ ہرزمانہ ،بلکہ ہر امت ،قوم اور ملک کے مطابق اپنا چولہ بدل لیتے ہیں،یہاں تک کہ ہر شخص پر اس کی نفسیات اور اس کے مخصوص ذوق کے راستے اثر انداز ہوکر فتنے میں مبتلا کردیتے ہیں یہ جانتے ہوئے بھی ،مختلف اوقات میں بہت سے اس نظرئیے کے معترف ہوئے ،کہ ماسونیت کا وجود ہی اس لیے ہوا ہے کہ یہودیوں کے بُرے مقاصد بجالائے ،قائدین کے عقل پر چھا جانے ،ان کے تشخص کوختم کرنے اورانہیں ماسونیت کاغلام بنادینے کا فریضہ انجام دے ،اس لیے کہ ماسونی مکروفریب میں بڑی چمک دمک اوردلوں پر سختی سے اثر انداز ہونے کی صلاحیت ہے ،بریں بناء مشرق ومغرب کے اکثر بڑے بڑے قائدین اس کا شکار ہوگئے ،یورپ اور یورپ کے تہذیبی عقلا بعض عربی ممالک کے حکمراں طبقوں اور فرمانروا خاندانوں میں ماسونیت اپنے پنجے گاڑچکی ہے ،جب قومیں ماسونیت کے خطرات کو بھانپنے لگتی ،اور ماسونیت سے متہم حکام سے ناراض ہونے لگتی ہیں تو ماسونیوں کے پاس ان کو دھوکہ دینے کے بہت سے طریقے ہیں ،جو بھی ادارہ ماسونیت سے پردہ اٹھاتا ہے اسے بند کرادیتے ہیں اور اسی کے بقایا پر دوسرے نام کا ادارہ قائم کرتے ہیں جو حقیقت میں بعینہ یہودیوں کی ہے ۔تاکہ ذمہ دار اس کے عیب سے اپنے آپ کو بری کرسکے ،اور یہودیوں کی خدمت کے لیے نیا اعتماد حاصل کرسکے ۔
پیرس میں ۰۰ ۱۹ء ء میں منعقد ہونے والی ماسونی کانفرنس میں یہ قرار پاس ہوئی ،ماسونیت کی غرض وغایت ایسی لادینی جمہوریتوں کا قیام ہے ۔جو ماسونی اتحاد کی نفع رسانی اورہم آغوشی کو اپنا بنیادی مقصد بنائیں اس کے پرانے نتائج یہ ہیں:
۱۔ مقدس کتابوں کی تحریف ،ادیان وجماعات کے مابین تفریق،قوموں کے مابین دشمنی اور جنگوں کی آگ بھڑکانا۔
۲۔ عہد اسلامی کی ابتداء میں اس کے نتائج:
۱۔ خلیفہ ثانی حضرت عمر بن خطاب رضی الله عنہ کے قتل کی سازش۔
۲۔ تیسرے خلیفہ حضرت عثمان بن عفان رضی الله عنہ کے خلاف جھوٹی باتیں گھڑنا۔
۳۔ خطوط میں فریب کاری کرنا نیز حقائق کو مسخ کرنا یہانتک کہ حضرت عثمان رضی الله عنہ کا حادثہٴ قتل ہوا۔
۴۔ قوموں کی عقلوں سے کھیلنا ،حتی کہ خوارج اور شیعہ جیسے فرقوں کو جنم دیا۔
۵۔ مختلف علاقوں میں جہمیہ ،معتزلہ ،قدریہ ، قرامطہ،باطنیہ وغیرہ جیسے گمراہ فرقوں کو رواج دینا ۔
۶۔ امویوں کے خلاف جھوٹی باتیں ،انہیں ہلاک کرنے کے لیے عجمیوں کا تعاون تا آنکہ ان مذاہب کی ترویج ہوسکے ،مختار ثقفی کا فتنہ کھڑا ہوا جیسا کہ ”تاریخ الجمعیات السریة والحرکات الہدامة فی الاسلام“ کے مصنف نے ذکر کیا ہے۔یہ کتاب ہر شخص کے پاس رہنی چاہئے ۔
۷۔ صلیبی جنگوں کی آگ بھڑکانا ،ان میں حصہ لینے والوں کو نمایاں کرنا ،مشرق کے عیسائیوں کے لیے نصیر طوسی ،ابن علقمی جیسے لوگوں کو اچانک قتل کردینے کی راہ ہموارکرنا ،انہیں دشمنی پر اکسانا تاکہ مسلمانوں کے خلاف جنگ کرنے والے بھائیوں کی مدد کریں ،ان کے لیے جاسوسی کریں ،انہیں ہر راستے کی رہنمائی کریں ،جس کا اعتراف خود قائدین جنگ نے عرب عیسائیوں کی تعریف کرتے ہوئے کی ہے ۔بات ایسی نہیں ،جیسا کہ ”جورج حبش “جیسے قوم پرست لوگوں کے متبعین نادانی وجہالت کی بنیاد پر سمجھتے ہیں۔
س۱۳:- اسلام کی نظر میں تصوف کاکیا حکم ہے؟
ج۱۳:- رسول الله صلی الله علیہ وسلم ،صحابہ کرام ،تابعین کے دور میں تصوف کا وجود نہ تھا ،جب یونانی کتب کا عربی میں ترجمہ ہوا تب تصوف کا وجود ہوا ، صوفیت ، ”صوفیاء“سے ماخوذ ہے ،ان کی زبان میں ”صوفیاء “حکمت کوکہتے ہیں،بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ ”صفاء“سے ماخوذ ہے ،یہ بالکل سراسر غلط ہے ،اس لیے کہ ایسی صورت میں صوفی کے بجائے صفائی ہوتی ،صوفیت اسلام سے بہت امور میں ٹکراتی ہے ،مثلاً:
۱۔ غیر الله کو پکارنا، اکثر صوفیاء الله کے علاوہ مردوں کو پکارتے ہیں :
حدیث نبوی:- الدُّعاء ھُوَ العِبَادة ۔ پکار عبادت ہے ۔ (ترمذی نے روایت کیا اور حسن صحیح کہا)
اور غیر الله کی عبادت شرک اکبر ہے جو تمام اعمال کو ضائع کردیتا ہے ۔
فرمان الٰہی:- وَلَا تَدْعُ مِنْ دُوْنِ اللهِ مَا لَا یَنْفَعُکَ وَلَا یَضُرُّکَ فَاِنْ فَعَلْتَ فَاِنَّکَ اِذًا مَنَ الظَّالِمِیْنَ ۔ (سورة یونس:۱۰۶)
اور الله کو چھوڑ کر کسی ایسی ہستی کو نہ پکار جو تجھے نہ فائدہ پہونچاسکتی ہے نہ نقصان اگر تو ایسا کرے گا تو ظالموں میں سے ہوگا۔
حدیث نبوی:- من مات وھویدعو من دون الله ندا ، دخل النار ۔ (بخاری)
جسے الله کے ساتھ شریک ٹھہراتے ہوئے موت آئی وہ جہنم میں داخل ہوگا۔
فرمان الٰہی:- لَئِنْ أَشْرَکْتَ لَیَحْبَطَنَّ عَمَلُکَ وَلَتَکُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِیْنَ ۔
اگر تم نے شرک کیا تو تمہارا عمل ضائع ہوجائے گا ،اور تم خسارے میں رہو گے۔ (زمر)
۲۔ قرآن کریم کی مخالفت کرتے ہوئے اکثر صوفیاء یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ الله تعالیٰ کی ذات ہر جگہ موجود ہے ۔
فرمان الٰہی:- اَلرَّحْمٰنُ عَلَی العَرْشِ اسْتَویٰ ۔
وہ رحمن عرش پرمستوی ہے ۔ (طہٰ:۵) نیز اس حدیث کی بھی مخالفت کرتے ہیں :
حدیث نبوی:- اِنَّ اللهَ کتبَ کتابًا فھو عندہ فوق العرش ۔ (بخاری و مسلم)
الله نے ایک دستاویز لکھی ،جو اس کے پاس عرش پر ہے ۔
فرمان الٰہی :- وھو مَعکم أینما کنتم ۔
وہ تمہارے ساتھ ہے جہاں پر بھی تم ہو۔ (حدید:۴۴)
اس کا مطلب یہ ہے کہ الله تعالیٰ تمہارے ساتھ اپنی دیدوشنید اور علم کے ساتھ رہتا ہے ،جیسا کہ مفسرین نے بیان کیا ہے۔
۳۔ بعض صوفیاء یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ الله تعالیٰ اپنی تمام مخلوقات میں حلول کرگیا ہے ۔
یہاں تک کہ دمشق میں مدفون ابن عربی نے کہا۔
الحق عبد والعبد حق ۔ یا لیت شعری من المکلف
الله بندہ ہے ،بندہ الله ہے ،کاش مجھے معلوم ہوتا کہ کون مکلف ہے
ان کے طاغوت کا کہنا ہے :
وما الکلب والخنزیر اِلا اِلھنا ۔ وما الله اِلا راھب فی کنیسة
کتا ، سور ،کنیسے کا راہب ،سب کے سب معبود ہیں۔
۴۔ اکثر صوفیاء یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ الله نے دنیا کو محمد صلی الله علیہ وسلم کے باعث پید اکیا ہے ۔یہ قرآن کی اس تعلیم کے مخالف ہے :
فرمان الٰہی:- وَمَا خَلَقْتُ الجِنَّ وَالاِنْسَ اِلَّا لیَعْبُدُونِ ۔
میں نے جن اور انسانوں کو اس کے سوا کسی کام کے لیے پیدا نہیں کیا ہے ۔کہ وہ میری بندگی کریں ۔ (ذاریات:۵۶)
فرمان الٰہی :- وَأَنَّ لَنَا لَلآخِرَةُ وَالأُوْلیٰ ۔
اور درحقیقت آخرت اور دنیا ،دونوں کے ہم ہی مالک ہیں۔ (لیل :۱۳)
۵۔ اکثر صوفیاء یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ الله تعالیٰ نے محمد صلی الله علیہ وسلم کو اپنے نور سے پیدا کیا ہے ،اور پھر الله نے نبی کے نور سے تمام چیزوں کو پیدا کیا ،نیز یہ کہ محمد صلی الله علیہ وسلم الله کے سب سے پہلے مخلوق ہیں ۔یہ تمام باتیں قرآن کی اس تعلیم کے مخالف ہیں۔
فرمان الٰہی:- اِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلَٰٓکَةِ اِنِّی خٰلِقُ م بَشَرًا مِّنْ طِیْنٍ ۔
جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا ”میں مٹی سے اے بشر بنانے والا ہوں“۔ (ص:۷۱)
صحیح بات تو یہ ہے کہ آدم علیہ السلام سب سے پہلے انسان ہیں ،جنہیں الله نے مٹی سے پیداکیا ،غیر انسان میں سے پانی اور عرش کے بعد سب سے پہلے قلم کو پید اکیا ،پہلے پہل الله نے قلم کو پید اکیا : اِنّ اوّل ما خلق اللهُ القلم ۔ رہی یہ حدیث : أول ما خلق الله نور نبیک یا جابر ۔ ”اے جابر الله نے سب سے پہلے تمہارے نبی صلی الله علیہ وسلم کے نور کوپیدا کیا “ تو اس حدیث کے بارے میں محدثین کہتے ہیں کہ اس کی کوئی سند نہیں یہ سراسر موضوع اور باطل ہے ۔
۶۔ صوفیاء اسلام کی مخالف کرتے ہوئے ”اولیاء کے لیے نذریں“مانتے ہیں ان کی ”قبروں کا طواف“کرتے ،اور ان پر مزار بناتے ہیں،غیر مشروع حالات وکیفیات کے ساتھ اوراد و وظائف کرتے ہیں ۔ذکر واذکار کے وقت ناچ ،سینہ کوبی ،آگ کھانا ،تعویذات ،جادو ،نظر بندی ،لوگوں کا زبردستی مال ہڑپ کرنا ،ان کے خلاف حیلہ سازی ،جیسے جرائم کے مرتکب ہوتے ہیں۔
س۱۴:- جو اسلام کو رجعت پسندی سے متہم کرے اس کا کیا حکم ہے ؟
ج۱۴:- دشمنان اسلام نے اسلام کو اس طرح متہم کرکے مسلمانوں کو اس کی اتباع سے روکنا چاہا ہے ۔اگر ان کی مراد یہ ہے کہ اسلام رجعت پسند اور تہذیب وتمدن میں بچھڑا ہوا ہے تو یہ سراسر جھوٹ اور بہتان تراشی ہے ،اس لیے کہ اسلام ترقی وتقدم کا حکم دیتا ہے ،نیز نفع بخش امور اور نئی ایجادات کے میدان میں نئے انقلابات کی دعوت دیتاہے ۔
فرمان الٰہی:- وَأَعِدُّوْا لَھُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ ۔
اور اے مسلمانو! تم کافروں کے مقابلہ کے لیے جہاں تک ہوسکے اپنا زور تیار رکھو ۔ (انفال:۶۰)
حدیث نبوی:- أنتم أعلم بأمر دنیاکم ۔ (مسلم)
تم اپنے دنیوی امور کو اچھی طرح جانتے ہو۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام کتاب وسنت اور عمل صحابہ کرام رضی الله عنہم کی جانب رجوع کا حکم دیتا ہے ،یہی وہ صحابہ کرام ہیں جنہوں نے جہاد ،اخلاق عقائد اور ایمان کے ذریعہ ملکوں کو فتح کیا ،بندوں کو بندوں کی عبادت سے نکال کر عبادت الٰہی پر لگادیا ،محرف ادیان کے ظلم وزیادتی سے چھٹکارا دلا کر اسلامی عدل وانصاف سے نوازا ،بغیر دین کی جانب رجوع کئے مسلمانوں کی عزّت کا کوئی تصور ہی نہیں۔
س۱۵:- کیا ہمیں دور جدید کے افکار ،تصوف کی راہوں کو جاننا چاہیے؟
ج۱۵:- ہاں ہمیں جاننا چاہیے ،تاکہ ہم ان سے بچ سکیں ،دلیل حضرت حذیفہ بن یمان رضی الله کا درج ذیل قول ہے:
حدیث نبوی:- ”کان الناس یسألون رسول الله ﷺ عن الخیر وکنت أسألہ عن الشر مخافة أن یدرکنی فقلت یارسول الله اِنا کنا فی جاھلیة وشر فجاء نا الله بھذا الخیر ، فھل بعد ھذا الخیر من شر؟ قال نعم ‘ قلت ! ھل بعد ذلک الشر من خیر؟ قال : نعم وفیہ دخن ، قلت وما دخنہ؟ قال قوم یستنّون بغیر سنتی ‘ ویھتدون بغیر ھدي ، تعرف منھم وتنکر ، فقلت ھل بعد ذلک الخیر من شر؟ قال نعم دعاة علی أبواب جھنم من أجابھم قذفوہ فیھا ، فقلت : یارسول الله صفھم لنا ، قال:قوم من جلدتنا ،ویتکلمون بألسنتنا ، قلت:یارسول الله فما تری اِن أدرکنی ذلک؟ قال تلزم جماعة المسلمین واِمامھم ، فقلت فان لم تکن لھم جماعة ولا اِمام ؟ قال فاعتزل تلک الفرق کلھا ، ولو أن تعض علی أصل شجرة حتی یدرکک الموت وأنت علی ذٰلک“۔
لوگ رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے خیر کے بارے میں پوچھتے تھے ،اور میں شر کے بارے میں پوچھتا تھا تاکہ بچ سکوں ،میں نے کہا اے الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم ہم جاہلیت وشر میں تھے ،پھر الله نے ہمیں اس خیر سے نوازا ،کیا اس خیر کے بعد بھی شر ہے ؟آپ نے فرمایا ،ہاں،میں نے کہا ،کیا اس شرکے بعد بھی خیر ہے ؟آپ نے فرمایا ،ہاں لیکن اس میں اختلاف وفساد ہوگا ،میں نے کہا فساد سے کیا مراد ہے ؟آپ نے فرمایا ،کچھ لوگ ہمارے راستے اور طریقے کو چھوڑکر دوسرا راستہ اور طریقہ اپنائیں گے ،وہ بھلائی بھی کریں گے برائی بھی ،میں نے کہا ،کیا اس خیر کے بعد بھی شر ہوگا ؟آپ نے فرمایا ،ہاں جہنم کے سِرے پر کچھ داعی ہوں گے ،جوان کی بات سن لے گا اسے جہنم میں پھینک دیں گے ،میں نے کہا ،اے الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم ان کے کچھ اوصاف بیان کیجئے ،آپ نے فرمایا ،وہ ہمیں لوگوں میں سے ہوں گے ،ہماری ہی زبان بولیں گے ،میں نے کہا اے الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم اگر میں اُس زمانے میں رہوں تو آپ کا خیال ہے ،آپ نے فرمایا ،لازمی طور پر مسلمانوں کی جماعت اور امام کے ساتھ رہنا ،میں نے کہا اگر ان کی کوئی جماعت اور امام نہ ہوتو ،آپ نے فرمایا کہ تم ان تمام فرقوں سء علیحدہ رہنا ،یہاں تک کہ کسی درخت کی جڑ پر منہ کے بل پڑے پڑے تمہاری موت ہی کیوں نہ آجائے ۔ (مسلم)
حدیث کے فوائد
اس سے پتہ چلتا ہے کہ شر کے داعی اپنی زندگی ،سلوک اور حکومت میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی سیرت وعادت کو اسوہ نہیں بناتے ،عادات واطوار اور لباس میں آپ کے بتائے ہوئے اصولوں پر عمل نہیں کرتے مسلمانوں کو ایسے لوگوں سے بچنا چاہئے۔
 

شکیل احمد

محفلین
پھیلے ہوئے خطرناک نظرئیے
س۱:- کیا حاکمیت قوم کی ،اور مال قوم کا ہے؟
ج۱:- یہ من گھڑت الفاظ ہیں ،ان کے گھڑنے والے خود اس پر عمل پیرا نہیں ،بلکہ قوم کی آراء کے بالمقابل اپنی کسی بھی رائے کو نہیں بدلتے ،بلکہ یہ ایسا نغمہ ہے جسے ایسی قوموں کو دھوکہ دینے کے لیے استعمال کررہے ہیں جو اپنی پہلی حکومت سے چھٹکاراپانا چاہتی ہیں ،اس طرح انہیں دوسری حکومت میں مبتلا کردیتے ہیں جو پہلی سے زیادہ ظالم وگمراہ ہوتی ہے ،صحیح بات تو یہ ہے کہ انسانی قوموں کی عزت محفوظ رہنی چاہیے ،انہیں صحیح آزادی وانصاف ملنا چاہئے،انہیں جانوروں کی مانند ہانکا نہ جائے ۔
ٍ اصل تو یہ ہے کہ حاکمیت صرف اس الله کے لیے ہے جس کی وحی کی روشنی میں قوم کی رہنمائی ضروری ہے ،اور اس کی حاکمیت اس کی شریعت کے مطابق ہوگی ،اس کے برعکس اس شخص کا کہنا ”حاکمیت قوم کے لیے ہے “ غلط ہے ،جو قوموں کو اپنی من مانی رہنمائی کرتاہے ۔حقیقت یہ ہے کہ وہ مادہ مذاہب کو مانتاہے ۔شریعت الٰہیہ کے مخالف بُت پرستی پر مبنی اصول کو برتتاہے ،مکروفریب سے پر نعرے دے کر زبردستی ان پر اپنی بالادستی منواتا ہے ۔
اسی طرح مال الله کا ہے ،جس کے مصارف ،رفاہ عامہ کی چیزیں ،مسلمانوں کے سرحدوں کی حفاظت ،مشرق ومغرب میں ان کے تمام مسائل کا دفاع دعوت الیٰ الله کا فریضہ ،بعض مسلمانوں پر ظلم وزیادتی اورافتراء پردازی کرنے والوں کے خاتمے کے لئے ،نیز ضرورت مندوں کی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے ہر طرح کی وسائل فراہم کرناہیں ،ان مذکورہ چیزوں میں جو سب سے زیادہ ضروری ہوگی ،اس میں الله کے مال کو صرف کیا جائے گا ،انسانیت زدہ اسے لوٹ نہیں سکتے ،اسے فضول خرچی اور شان وشوکت کے بے جا اظہار میں خرچ نہیں کرسکتے ،فسق وفجور ،اخلاق سے گرے کلبوں کی بات ہی دوسری ہے یہ کہنا ہرگز درست نہیں کہ مال قوم کا ہے۔اس لیے اگر یہ تسلیم کرلیا جائے تو قوم کے لوگ ،اپنی حکومت کی حفاظت ،جاسوسی اور لوگوں کے ذہن وضمیر خریدنے وغیرہ پر بہت سارا مال برباد کریں گے۔ (دَوسرِی کی کتاب”الاجوبة المفیدة“ سے منقول)
س۲:- کمیونزم کِن بنیادوں پر قائم ہے ؟
ج۲:- کمیونزم کی بہت ساری بنیادیں مثلاً :
۱۔ الله کا ،تمام ادیان ،رسل، اور ان کی رسالتوں کا انکار ،ان کا نعرہ ہے ”کوئی معبود نہیں، زندگی کا وجود مادے سے ہے)
۲۔ تمام فضائل اور اخلاقی قدروں کا صفایا۔
۳۔ مالداروں اور غریبوں کے مابین کینہ ودشمنی پیداکرنا۔
۴۔ اپنے لیڈروں کو چھوڑ کر ،دوسروں کی انفرادی ملکیت کا خاتمہ ،اور یہ انسانی فطرت میں داخل ہے۔
س۳:- اسلام کے خاتمے کے لیے کمیونزم کے کیا وسائل ہیں؟
ج۳:- بہت سے وسائل ہیں ، مثلاً :
۱۔ یہ کہ کمیونزم کا مبلغ دین اسلامی اور اس کے متعلق پیدا کردہ شکوک وشبہات سے واقف ہو ،جس معاشرے میں کمیونزم کی تبلیغ کررہا ہو اس کے عادات واطوار سے آگاہ ہو۔
۲۔ مسلمان عورتوں کے مابین اس ہلاکت آفریں مذہب کی تبلیغ کے لیے عورتوں کا استعمال ،اس لیے کہ اسلامی معاشرے میں غیر مرد عورتوں سے نہیں مل سکتے ۔
۳۔ اس مذہب کی تبلیغ کے لیے معمر لوگوں کا استعمال ،اس لیے کہ وہ اپنے معاشروں میں لوگوں کے نزدیک قابل احترام ہوتے ہیں۔
۴۔ کمیونزم کی تبلیغ کے لیے ڈاکٹروں کا استعمال ،اس لیے کہ وہ بیمار کی عاجزی ،کمزوری اور دوا کی ضرورت سے غلط فائدہ اٹھا سکتا ہے ۔
۵۔ حکومت پر قبضہ کرکے قوموں سے لڑنا ،اور وہاں سے کمیونزم کا پرچار کرنا ۔
س۴:- کیا کافر حکومتیں اسلام دشمنی میں متحد ہیں؟
ج۴:- یہ بات ظاہر وباہر ہے کہ تمام کافر حکومتیں (اگرچہ اسلام سے متعلق ان کے نظریے مختلف ہوں)اسلام دشمنی میں متحدہیں ،یہ الگ بات ہے کہ دشمنی کے مختلف اسلوب ہیں،چنانچہ کمیونزم اسلام دشمنی کا اظہار کرتے ہوئے چاہتا ہے اسلام اور مسلمانوں کو ملیامیٹ کردے ،عیسائیت اسلام کے لیے ہلاکت خیز نظریوں کے پیچھے چھپ کر مسلمانوں کے مابین عیسائی مشنریاں چلاتی ہیں ۔تاکہ وہ اپنے دین کو بدل ڈالیں ،بالخصوص یہودیت تو تمام مذاہب اور ہر تباہ کن اور اخلاقی قدروں کو ملیا میٹ کرنے والے نظرئیے کے پیچھے کام کررہی ہے ،جیسے کہ ماسونیت ،عالمی صہیونیت اور بابیت ہے۔
س۵:- عیسائی مشنری کیا ہے۔اس کے کیا خطرات ہیں ،اس کا مقابلہ کیسے کیا جائے ؟
ج۵:- عیسائی مشنری ایک نہایت تباہ کن تحریک ہے ،جو اسلام کے خاتمے کی کوشش میں لگا ہے، ان کے بعض اصول یہ ہیں :
۱۔ اسلام میں شکوک وشبہات پید اکرنا۔
۲۔ مسلمانوں کو نصرانیت کی رغبت دلانا ۔
۳۔ ان کا یہ دعویٰ کرنا کہ عیسیٰ علیہ السلام الله کے لڑکے ہیں۔
۴۔ تمام میدانوں میں اپنے زہریلے اثرات پھیلانا ۔
۵۔ غریب وکمزورقوموں کا ناجائز استحصال کرنا۔
اس سے نمٹنے کے طریقے:
۱۔ کتاب وسنت کو مضبوطی سے تھام لینا۔
۲۔ لازماً مسلمانوں کا ہم جماعت ہونا۔
۳۔ اسلامی تعلیمات سے آگاہی ۔
۴۔ دین نصاریٰ کے محرف ہونے کی واقفیت۔
۵۔ مالداروں کا غریبوں کی مدد کرنا۔
س۶:- کیا اسلام میں صوفیانہ طریقے اور جماعتیں ہیں؟
ج۶: اسلام میں صوفیانہ طریقے اور جماعتیں نہیں ہیں۔
فرمان الٰہی:- اِنَّ ھٰذِہ أُمَّتُکُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَأَنَا رَبُّکُمْ فَاعْبُدُونِ ۔ (انبیاء:۹۲)
یہ تمہاری امت حقیقت میں ایک ہی امت ہے اور میں تمہارا رب ہوں پس تم میری عبادت کرو۔
فرمان الٰہی:- وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللهِ جَمِیْعًا وَلَا تَفَرَّقُوْا ۔ (آل عمران:۱۰۳)
سب مل کر الله کی رسی کو مضبوط پکڑلو اور تفرقہ میں نہ پڑو۔
فرمان الٰہی:- وَلَا تَکُونُوا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ ، مِنَ الَّذِیْنَ فَرَّقُوا دِیْنَھُمْ وَکَانُوا شِیَعًا کُلُّ حِزْبِ م بِمَا لَدَیْھِمْ فَرِحُوْنَ ۔
ان مشرکین میں سے نہ ہوجاوٴ ،جنہوں نے اپنا اپنا دین الگ بنالیا ،اور گروہوں میں بٹ گئے ہیں ،ہر ایک گروہ کے پاس جو کچھ ہے وہ اسی میں مگن ہے ۔ (روم:۳۱-۳۲)
حدیث نبوی:- عن ابن مسعود قال : خطَّ لنا رسول الله صلی الله علیہ وسلم خطاً بیدہ ، ثم قال : ھذا سبیل الله مستقیما ، وخطّ خطوطاً عن یمینہ وشمالہ ، ثم قال : ہذہ السبل ، لیس منھا سبیل الّا علیہ شیطان یدعو اِلیہ ثم قرأ قولہ تعالیٰ :وَأَنَّ ھٰذَا صِرَاتِی مُسْتَقِیْمَا فَاتَّبِعُوہُ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیْلِہ ․ (انعام : ۱۵۳)
عبدالله بن مسعود رضی الله عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے ایک سیدھی لکیر کھینچی ،پھر فرمایا ،یہی الله کا سیدھا راستہ ہے ،اور اس کے دائیں بائیں بہت سی لکیریں کھینچیں ،پھرفرمایا،ان راستوں میں سے ہر راستے پر ایک شیطان بیٹھا اس راستہ کی طرف بلاتا ہے ۔پھر آپ نے یہ آیت پڑھی وَأَنَّ ھٰذَا صِرَاتِی مُسْتَقِیْمَا فَاتَّبِعُوہُ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیْلِہ (انعام : ۱۵۳) اس کی ہدایت یہ ہے کہ یہی میرا سیدھا راستہ ہے ۔لہٰذا تم اسی پر چلو اور دوسرے راستوں پر نہ چلو،وہ اس کے راستے سے ہٹاکرتمہیں پراگندہ کردیں گے ۔ (احمد ونسائی نے روایت کیااور حاکم نے صحیح فرمایا اور ذہبی نے موافقت کی )
۵۔ حدیث نبوی:- ضرب الله تعالیٰ مثلاً صراطاً مستقیماً ، وعلی جنبي الصراط سوران فیھا أبواب مفتحة ، وعلی الأبواب ستور مرخاة ، وعلیٰ باب الصراط داع یقول : یا أیھاالناس ادخلوا الصراط المستقیم ولا تفرقوا ، وداع یدعو من فوق الصراط ، فاذا أراد الانسان أن یفتح شےئًا من تلک الأبواب قال : ویحک لا تفتحہ، فانک ان تفتحہ تلجہ، فالصراط : الاِسلام والسوران : حدودالله تعالیٰ : والأبواب المفتحة محارم الله ، وذلک الداعی علی رأس الصراط : کتاب الله ، والداعی من فوق الصراط واعظ الله فی قلب کل مسلم ۔
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ الله تعالیٰ نے صراط مستقیم کی مثال بیان کی ،کہ صراط مستقیم کے دونوں کنارے دواونچی دیواریں ہیں ،جن میں کھلے دروازے ہیں ،دروازوں پر پردے لٹک رہے ہیں ،اور صراط مستقیم کے دروازے پر ایک پکارنے والا کہہ رہا ہے ،لوگو! صراط مستقیم میں داخل ہوجاوٴ ادھر ادھر منتشر مت ہو،صراط مستقیم کے اوپر سے ایک پکارنے والا پکارتا ہے اور جب انسان ان دروازوں میں سے کسی کو کھولنا چاہتا ہے تو کہتاہے ،تیرا برا ہو ،اس کو مت کھول اگر کھولوگے تو اس میں چلے جاوٴ گے ،تو صراط مستقیم ،اسلام ہے دونوں دیواریں ،الله کی مقرر کردہ حدود ہیں ۔کھلے ہوئے دروازے ،الله کی حرام کردہ چیزیں ہیں ،صراط مستقیم کے دروازے پر پکارنے والا ،کتاب الله ہے ،صراط مستقیم کے اوپر سے پکارنے والا ،منجانب الله ہر مسلمان کا نصیحت آموز دل ہے ۔ (احمد نے روایت کیا اور حاکم نے صحیح سند کے ساتھ توثیق کی )
س۷:- کیا دین الله کا ،اور وطن سب کا ہے؟
ج۷:- اہل یورپ نے علم سے برسر جنگ اور ظالم کنیسے کی حکومت سے راہ فرار اختیار کرنے کے لیے اس شرکیہ منصوبے کی ایجاد کی ،پھر اس کے ذریعہ اہل اسلام کو ان کے دین سے برگشتہ کرنا چاہا ،ان لوگوں نے کہا کہ دین الله کا ہے اسے پیٹھ کے پیچھے ڈال دیا جائے ،ہمارے وطنی امور ،سیاست ،علم اور معیشت وغیرہ میں اسے دخل اندازی کاکوئی حق نہیں ،اس گمراہ کن ومن گھڑت بات سے اہل استعمار نے یہ چاہا کہ وطن کے نام پر تمام امور ومسائل سے الله کے احکامات کو دور کردیا جائے ،گویا وطن کو الله کاہمسر ٹھہراکر اس کے نتیجے میں دین کو حکومت سے جدا کردیا۔
فرمان الٰہی:- یَٰٓأَیُّھَاالَّذِیْنَ ءَ امَنُوٓا اِن تُطِیْعُوا الَّذِیْنَ کَفَرُوا یَرُدُّوکُمْ عَلَیٰٓ أَعْقَٰبِکُمْ فَتَنْقَلِبُوا خَسِرِیْنَ ۔
اے لوگو!جو ایمان لائے ہواگرتم ان لوگوں کے اشاروں پر چلوگے جنہوں نے کفر کی راہ اختیار کی ہے وہ الٹا پھیرلے جائیں گے اور تم نامراد ہوجاوٴگے۔ (آل عمران :۱۴۹)
فرمان الٰہی:- یَٰٓأَیُّھَاالَّذِیْنَ ءَ امَنُوٓا اِن تُطِیْعُوا فَرِیْقًا مِّنَ الَّذِیْنَ أُوتُوا الکِتَٰبَ یَرُدُّوْکُمْ بَعْدَ اِیْمَانِکُمْ کٰفِرِیْنَ۔(آل عمران)
اے لوگو! جو ایمان لائے ہو اگر تم نے اہل کتاب میں سے ایک گروہ کی بات مانی ،تو یہ تمہیں ایمان سے پھر کفر کی طرف پھیر لے جائیں گے،اس تحریک نے ،نصرانیت کے پروپیگنڈے اور مسلمانوں کے برخلاف انہیں کے گھروں میں الحاد ودہریت پھیلانے کی راہیں ہموار کردیں ،نیز اسی راہ کو اپنانے والی نصرانی اقلیت کوخوش کرنے کے لیے اسلام کے بڑھتے ہوئے قدموں کو روک دیا ،اور جب مسلمانوں نے اس تحریک کو مستردکردیا تو اسے گروہی فتنہ کہا گیا۔ (کتاب ”الاجوبة المفیدہ“ سے بتصرف منقول)
س۸:- کیا اسلام گروہ بندی اور انتشار سکھلاتا ہے؟
ج۸:- صحیح اسلامی دین حقیقی اتحاد کا منبع ہے ،اس دین پر چل کرہی ،عزت ومرتبت ،باہمی اتحاد ورحم دلی ،سخاوت وایثار اور غیر مسلموں سے امان مل سکتی ہے ۔گروہ بندی کا تصور ہی ایسے دین میں کیسے کیا جاسکتا ہے جو اپنے ماننے والوں کو یہ تعلیم دیتا ہو:
قُلْ ءَ امَنَّا بِاللهِ وَمَا أُنْزِلَ عَلَیٰٓ اِبْرَاھِیْمَ وَ اِسْمَٰعِیْلَ وَ اِسْحَٰقَ وَ یَعْقُوْبَ وَالْأَسْبَاطِ وَمَاأُوْتِیَ مُوْسَیٰ وَ عِیْسَیٰ وَالنَّّبِیُّوْنَ مِنْ رَّبِّھِمْ لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ أَحَدٍ مِّنْھُمْ وَ نَحْنُ لَہُ مُسْلِمُونَ ۔ (آل عمران :۸۴)
(اے نبی )کہو کہ ہم الله کو مانتے ہیں ،اس تعلیم کو مانتے ہیں جو ہم پر نازل کی گئی ،ان تعلیمات کو بھی مانتے ہیں جو ابراہیم،اسماعیل ،اسحاق ،یعقوب اور اولاد یعقوب پر نازل ہوئی تھیں۔اوران ہدایات پربھی ایمان رکھتے ہیں جو موسیٰ اور عیسیٰ علیہم السلام اور دوسرے پیغمبروں کو ان کے رب کی طرف سے دی گئیں ،ہم ان کے درمیان فرق نہیں کرتے ،اور ہم الله کے تابع فرمان (مسلم)ہیں۔
س۹:- کیا لوگوں کا ارادہ الله کے ارادے سے ہوتاہے ؟
ج۹:- مذاہب باطلہ کے محض فلسفیوں کی الله تعالیٰ پر یہ ایسی گھٹیا بہتان تراشی ہے ،جس کی جرأت ابوجہل اور اس کے ہم مسلکوں نے نہیں کی ،جب کہ وہ اسلام دشمنی اور خباثت میں حد درجہ بڑھے ہوئے تھے ان کے بارے میں الله تعالیٰ نے صرف یہ بیان کیا ہے کہ وہ اپنے اعمال کو الله کی مشیت پرمعلق سمجھتے تھے ۔
فرمان الٰہی:- وَقَالَ الَّذِیْنَ أَشْرَکُوا لَوشَآءَ اللهُ مَا عَبَدْنَا مِنْ دُوْنِہِ مِنْ شَیْ ءٍ نَّحْنُ وَلَا ءَ ابَآوٴُنَا وَلَا حَرَّمْنَا مِنْ دُوْنِہِ مِنْ شَیْ ءٍ ۔ (نحل:۳۵)
چنانچہ الله نے ان کو جھوٹا گردانا ۔لیکن ان لوگوں کے قول سے (کہ قوم کا ارادہ الله کے ارادے سے ہوتا ہے)یہ خرابی لازم آتی ہے کہ قوم جو چاہے کرے ،قرآن وشریعت الٰہیہ سے آزاد ہوکر جس طرح چاہے زندگی گذارے خواہشات ،مادہ شہوت اور قوت کو معیار زندگی بنالے ۔
یہی کہنا قوم کو الله کے سوا الٰہ بنانا ہے نیز خواہشات کوشریعت الٰہیہ کے احکام کا ہمسر بنانا ہے ۔بالفاظ دیگر،الله کے احکام ،حدود اور شریعت سے فرار ہے ۔
س۱۰:- یہ کہنے والا کہ دین قوموں کے حق میں افیون ہے کیا کہنا چاہتا ہے ؟
ج۱۰:- یہ یہودی ”کارل مارکس“کا قول ہے ،جس نے یہودی ،مزدکی ،کمیونزم کو پھر سے جنم دیا جبکہ اسلام اس کا خاتمہ کرچکا تھا ،اس کا خیال ہے کہ دین قوموں کو بدمست کرکے سلادینے والی چیز ہے ،یہ بات من گھڑت باطل ادیان کے بارے میں درست ہوسکتی ہے اس لئے کہ ان کے متبعین خرافات میں ملوث ہوتے ہیں ۔لیکن صحیح دین حنیف (جس کو اجاگر کرنے کا حکم الله نے اپنے بندوں کو دے رکھا ہے )ایسا دین ہے جو دلوں میں تڑپ پیدا کرتا ہے ،تمام احساسات اور قوموں کو جھنجوڑ کر آگے بڑھاتا ہے اپنے ماننے والوں کی ذلت ورسوائی اور ظلم کے آگے جھک جانے کو برداشت نہیں کرسکتا ،دین و شریعت کے چھوڑنے والوں سے برأت بہتان تراشوں کے خاتمہ اور اعلاء کلمة الله کیلئے مختلف طرح کی ،مختلف طریقے سے جہاد کرنا واجب قرار دیتا ہے ۔ (دَوسری کی کتاب ”الاجوبة المفیدة“سے منقول)
س۱۱:- اسلام کی نظر میں کمیونزم کی کیا حیثیت ہے ؟
ج۱۱:- کمیونزم پر حکم لگانے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ مسلمان اس کے عربی نام سے دھوکہ نہ کھائیں ،بلکہ اس کے مصادر ومراجع پر غور کریں ۔کیا اس کے مراجع مارکس لینن اور اس کے ہمنواوٴں کی کتابیں ہیں؟جنہوں نے نظریہٴ کمیونزم کی تشریح کی ہے ،یا اس کا مرجع صرف کتاب وسنت سے ماخوذ ہے ،تاآنکہ مسلمان اسے قبول کرلیں ؟
اگر مراجع مارکس ولینن اور ان کے ہمنواہیں،تو مسلمان اسے ہرگز ،ہرگز قبول نہیں کرسکتے ،بلکہ سرے سے اس کا انکار واجب ہے اور یہ بات مسلم ہے کہ کسی بھی صاحب عقل کو شک نہیں ہوسکتا کہ تمام کے تمام مراجع ومصادر ان کے خود ساختہ معبود ہیں ،ایسی صورت میں اس کاانکار لاالہ الاالله محمد رسول الله کی شہادت کے لوازمات میں سے ہے ۔اور اس شہادت کے لوازمات پر عمل کیے بغیر کوئی صحیح معنوں میں مومن نہیں ہوسکتا ۔ (دَوسری کی کتاب ”الاجوبة المفیدة“)
صحیح بات تو یہ ہے کہ منجانب الله منزّل مُنصف مزاج اسلام ،کمیونزم ،راسمالیت ،غرضیکہ انسان کے مقرر کردہ تمام ہی نظامہائے حیات سے مستغنی کردیتا ہے ،بالخصوص جب ان کا اسلام سے ٹکراوٴ ہو،اسلام نے تو اہل اسلام کو انصاف ،مساوات ،آزادی اور دنیوی واخروی سعادت سے نوازا ہے۔
فرمان الٰہی:- صِبْغَةَ اللهِ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللهِ صِبْغَةً وَنَحْنُ لَہُ عَابِدُوْنَ ۔ (سورة بقرة: ۱۲۸)
س۱۲:- ماسونیت کسے کہتے ہیں؟
ج۱۲:- ماسونیت ایک پراسرار یہودی جمیعت ہے ،جسے ”مخفی قوت“کا نام دیتے ہیں ،ابتداء میں عیسائیوں کے خلاف اس کا قیام عمل میں آیا ،تاکہ ان کی انجیلوں کی تحریف ،ان کے عقائد وافکار کی بگاڑ اور مختلف اختلاف وانتشار سے ان کو کمزور کرنے کا فریضہ انجام دے ،جب اسلام آیا تو اسے بھی اپنی لپیٹ میں لیا ۔عالمی یہودیت تمام ماسونی جمعیتوں کی،مفکروں ،مکاروں اور دغابازوں کے ذریعہ مددکرتی ہے ،یہ لوگ ہرزمانہ ،بلکہ ہر امت ،قوم اور ملک کے مطابق اپنا چولہ بدل لیتے ہیں،یہاں تک کہ ہر شخص پر اس کی نفسیات اور اس کے مخصوص ذوق کے راستے اثر انداز ہوکر فتنے میں مبتلا کردیتے ہیں یہ جانتے ہوئے بھی ،مختلف اوقات میں بہت سے اس نظرئیے کے معترف ہوئے ،کہ ماسونیت کا وجود ہی اس لیے ہوا ہے کہ یہودیوں کے بُرے مقاصد بجالائے ،قائدین کے عقل پر چھا جانے ،ان کے تشخص کوختم کرنے اورانہیں ماسونیت کاغلام بنادینے کا فریضہ انجام دے ،اس لیے کہ ماسونی مکروفریب میں بڑی چمک دمک اوردلوں پر سختی سے اثر انداز ہونے کی صلاحیت ہے ،بریں بناء مشرق ومغرب کے اکثر بڑے بڑے قائدین اس کا شکار ہوگئے ،یورپ اور یورپ کے تہذیبی عقلا بعض عربی ممالک کے حکمراں طبقوں اور فرمانروا خاندانوں میں ماسونیت اپنے پنجے گاڑچکی ہے ،جب قومیں ماسونیت کے خطرات کو بھانپنے لگتی ،اور ماسونیت سے متہم حکام سے ناراض ہونے لگتی ہیں تو ماسونیوں کے پاس ان کو دھوکہ دینے کے بہت سے طریقے ہیں ،جو بھی ادارہ ماسونیت سے پردہ اٹھاتا ہے اسے بند کرادیتے ہیں اور اسی کے بقایا پر دوسرے نام کا ادارہ قائم کرتے ہیں جو حقیقت میں بعینہ یہودیوں کی ہے ۔تاکہ ذمہ دار اس کے عیب سے اپنے آپ کو بری کرسکے ،اور یہودیوں کی خدمت کے لیے نیا اعتماد حاصل کرسکے ۔
پیرس میں ۰۰ ۱۹ء ء میں منعقد ہونے والی ماسونی کانفرنس میں یہ قرار پاس ہوئی ،ماسونیت کی غرض وغایت ایسی لادینی جمہوریتوں کا قیام ہے ۔جو ماسونی اتحاد کی نفع رسانی اورہم آغوشی کو اپنا بنیادی مقصد بنائیں اس کے پرانے نتائج یہ ہیں:
۱۔ مقدس کتابوں کی تحریف ،ادیان وجماعات کے مابین تفریق،قوموں کے مابین دشمنی اور جنگوں کی آگ بھڑکانا۔
۲۔ عہد اسلامی کی ابتداء میں اس کے نتائج:
۱۔ خلیفہ ثانی حضرت عمر بن خطاب رضی الله عنہ کے قتل کی سازش۔
۲۔ تیسرے خلیفہ حضرت عثمان بن عفان رضی الله عنہ کے خلاف جھوٹی باتیں گھڑنا۔
۳۔ خطوط میں فریب کاری کرنا نیز حقائق کو مسخ کرنا یہانتک کہ حضرت عثمان رضی الله عنہ کا حادثہٴ قتل ہوا۔
۴۔ قوموں کی عقلوں سے کھیلنا ،حتی کہ خوارج اور شیعہ جیسے فرقوں کو جنم دیا۔
۵۔ مختلف علاقوں میں جہمیہ ،معتزلہ ،قدریہ ، قرامطہ،باطنیہ وغیرہ جیسے گمراہ فرقوں کو رواج دینا ۔
۶۔ امویوں کے خلاف جھوٹی باتیں ،انہیں ہلاک کرنے کے لیے عجمیوں کا تعاون تا آنکہ ان مذاہب کی ترویج ہوسکے ،مختار ثقفی کا فتنہ کھڑا ہوا جیسا کہ ”تاریخ الجمعیات السریة والحرکات الہدامة فی الاسلام“ کے مصنف نے ذکر کیا ہے۔یہ کتاب ہر شخص کے پاس رہنی چاہئے ۔
۷۔ صلیبی جنگوں کی آگ بھڑکانا ،ان میں حصہ لینے والوں کو نمایاں کرنا ،مشرق کے عیسائیوں کے لیے نصیر طوسی ،ابن علقمی جیسے لوگوں کو اچانک قتل کردینے کی راہ ہموارکرنا ،انہیں دشمنی پر اکسانا تاکہ مسلمانوں کے خلاف جنگ کرنے والے بھائیوں کی مدد کریں ،ان کے لیے جاسوسی کریں ،انہیں ہر راستے کی رہنمائی کریں ،جس کا اعتراف خود قائدین جنگ نے عرب عیسائیوں کی تعریف کرتے ہوئے کی ہے ۔بات ایسی نہیں ،جیسا کہ ”جورج حبش “جیسے قوم پرست لوگوں کے متبعین نادانی وجہالت کی بنیاد پر سمجھتے ہیں۔
س۱۳:- اسلام کی نظر میں تصوف کاکیا حکم ہے؟
ج۱۳:- رسول الله صلی الله علیہ وسلم ،صحابہ کرام ،تابعین کے دور میں تصوف کا وجود نہ تھا ،جب یونانی کتب کا عربی میں ترجمہ ہوا تب تصوف کا وجود ہوا ، صوفیت ، ”صوفیاء“سے ماخوذ ہے ،ان کی زبان میں ”صوفیاء “حکمت کوکہتے ہیں،بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ ”صفاء“سے ماخوذ ہے ،یہ بالکل سراسر غلط ہے ،اس لیے کہ ایسی صورت میں صوفی کے بجائے صفائی ہوتی ،صوفیت اسلام سے بہت امور میں ٹکراتی ہے ،مثلاً:
۱۔ غیر الله کو پکارنا، اکثر صوفیاء الله کے علاوہ مردوں کو پکارتے ہیں :
حدیث نبوی:- الدُّعاء ھُوَ العِبَادة ۔ پکار عبادت ہے ۔ (ترمذی نے روایت کیا اور حسن صحیح کہا)
اور غیر الله کی عبادت شرک اکبر ہے جو تمام اعمال کو ضائع کردیتا ہے ۔
فرمان الٰہی:- وَلَا تَدْعُ مِنْ دُوْنِ اللهِ مَا لَا یَنْفَعُکَ وَلَا یَضُرُّکَ فَاِنْ فَعَلْتَ فَاِنَّکَ اِذًا مَنَ الظَّالِمِیْنَ ۔ (سورة یونس:۱۰۶)
اور الله کو چھوڑ کر کسی ایسی ہستی کو نہ پکار جو تجھے نہ فائدہ پہونچاسکتی ہے نہ نقصان اگر تو ایسا کرے گا تو ظالموں میں سے ہوگا۔
حدیث نبوی:- من مات وھویدعو من دون الله ندا ، دخل النار ۔ (بخاری)
جسے الله کے ساتھ شریک ٹھہراتے ہوئے موت آئی وہ جہنم میں داخل ہوگا۔
فرمان الٰہی:- لَئِنْ أَشْرَکْتَ لَیَحْبَطَنَّ عَمَلُکَ وَلَتَکُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِیْنَ ۔
اگر تم نے شرک کیا تو تمہارا عمل ضائع ہوجائے گا ،اور تم خسارے میں رہو گے۔ (زمر)
۲۔ قرآن کریم کی مخالفت کرتے ہوئے اکثر صوفیاء یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ الله تعالیٰ کی ذات ہر جگہ موجود ہے ۔
فرمان الٰہی:- اَلرَّحْمٰنُ عَلَی العَرْشِ اسْتَویٰ ۔
وہ رحمن عرش پرمستوی ہے ۔ (طہٰ:۵) نیز اس حدیث کی بھی مخالفت کرتے ہیں :
حدیث نبوی:- اِنَّ اللهَ کتبَ کتابًا فھو عندہ فوق العرش ۔ (بخاری و مسلم)
الله نے ایک دستاویز لکھی ،جو اس کے پاس عرش پر ہے ۔
فرمان الٰہی :- وھو مَعکم أینما کنتم ۔
وہ تمہارے ساتھ ہے جہاں پر بھی تم ہو۔ (حدید:۴۴)
اس کا مطلب یہ ہے کہ الله تعالیٰ تمہارے ساتھ اپنی دیدوشنید اور علم کے ساتھ رہتا ہے ،جیسا کہ مفسرین نے بیان کیا ہے۔
۳۔ بعض صوفیاء یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ الله تعالیٰ اپنی تمام مخلوقات میں حلول کرگیا ہے ۔
یہاں تک کہ دمشق میں مدفون ابن عربی نے کہا۔
الحق عبد والعبد حق ۔ یا لیت شعری من المکلف
الله بندہ ہے ،بندہ الله ہے ،کاش مجھے معلوم ہوتا کہ کون مکلف ہے
ان کے طاغوت کا کہنا ہے :
وما الکلب والخنزیر اِلا اِلھنا ۔ وما الله اِلا راھب فی کنیسة
کتا ، سور ،کنیسے کا راہب ،سب کے سب معبود ہیں۔
۴۔ اکثر صوفیاء یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ الله نے دنیا کو محمد صلی الله علیہ وسلم کے باعث پید اکیا ہے ۔یہ قرآن کی اس تعلیم کے مخالف ہے :
فرمان الٰہی:- وَمَا خَلَقْتُ الجِنَّ وَالاِنْسَ اِلَّا لیَعْبُدُونِ ۔
میں نے جن اور انسانوں کو اس کے سوا کسی کام کے لیے پیدا نہیں کیا ہے ۔کہ وہ میری بندگی کریں ۔ (ذاریات:۵۶)
فرمان الٰہی :- وَأَنَّ لَنَا لَلآخِرَةُ وَالأُوْلیٰ ۔
اور درحقیقت آخرت اور دنیا ،دونوں کے ہم ہی مالک ہیں۔ (لیل :۱۳)
۵۔ اکثر صوفیاء یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ الله تعالیٰ نے محمد صلی الله علیہ وسلم کو اپنے نور سے پیدا کیا ہے ،اور پھر الله نے نبی کے نور سے تمام چیزوں کو پیدا کیا ،نیز یہ کہ محمد صلی الله علیہ وسلم الله کے سب سے پہلے مخلوق ہیں ۔یہ تمام باتیں قرآن کی اس تعلیم کے مخالف ہیں۔
فرمان الٰہی:- اِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلَٰٓکَةِ اِنِّی خٰلِقُ م بَشَرًا مِّنْ طِیْنٍ ۔
جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا ”میں مٹی سے اے بشر بنانے والا ہوں“۔ (ص:۷۱)
صحیح بات تو یہ ہے کہ آدم علیہ السلام سب سے پہلے انسان ہیں ،جنہیں الله نے مٹی سے پیداکیا ،غیر انسان میں سے پانی اور عرش کے بعد سب سے پہلے قلم کو پید اکیا ،پہلے پہل الله نے قلم کو پید اکیا : اِنّ اوّل ما خلق اللهُ القلم ۔ رہی یہ حدیث : أول ما خلق الله نور نبیک یا جابر ۔ ”اے جابر الله نے سب سے پہلے تمہارے نبی صلی الله علیہ وسلم کے نور کوپیدا کیا “ تو اس حدیث کے بارے میں محدثین کہتے ہیں کہ اس کی کوئی سند نہیں یہ سراسر موضوع اور باطل ہے ۔
۶۔ صوفیاء اسلام کی مخالف کرتے ہوئے ”اولیاء کے لیے نذریں“مانتے ہیں ان کی ”قبروں کا طواف“کرتے ،اور ان پر مزار بناتے ہیں،غیر مشروع حالات وکیفیات کے ساتھ اوراد و وظائف کرتے ہیں ۔ذکر واذکار کے وقت ناچ ،سینہ کوبی ،آگ کھانا ،تعویذات ،جادو ،نظر بندی ،لوگوں کا زبردستی مال ہڑپ کرنا ،ان کے خلاف حیلہ سازی ،جیسے جرائم کے مرتکب ہوتے ہیں۔
س۱۴:- جو اسلام کو رجعت پسندی سے متہم کرے اس کا کیا حکم ہے ؟
ج۱۴:- دشمنان اسلام نے اسلام کو اس طرح متہم کرکے مسلمانوں کو اس کی اتباع سے روکنا چاہا ہے ۔اگر ان کی مراد یہ ہے کہ اسلام رجعت پسند اور تہذیب وتمدن میں بچھڑا ہوا ہے تو یہ سراسر جھوٹ اور بہتان تراشی ہے ،اس لیے کہ اسلام ترقی وتقدم کا حکم دیتا ہے ،نیز نفع بخش امور اور نئی ایجادات کے میدان میں نئے انقلابات کی دعوت دیتاہے ۔
فرمان الٰہی:- وَأَعِدُّوْا لَھُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ ۔
اور اے مسلمانو! تم کافروں کے مقابلہ کے لیے جہاں تک ہوسکے اپنا زور تیار رکھو ۔ (انفال:۶۰)
حدیث نبوی:- أنتم أعلم بأمر دنیاکم ۔ (مسلم)
تم اپنے دنیوی امور کو اچھی طرح جانتے ہو۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام کتاب وسنت اور عمل صحابہ کرام رضی الله عنہم کی جانب رجوع کا حکم دیتا ہے ،یہی وہ صحابہ کرام ہیں جنہوں نے جہاد ،اخلاق عقائد اور ایمان کے ذریعہ ملکوں کو فتح کیا ،بندوں کو بندوں کی عبادت سے نکال کر عبادت الٰہی پر لگادیا ،محرف ادیان کے ظلم وزیادتی سے چھٹکارا دلا کر اسلامی عدل وانصاف سے نوازا ،بغیر دین کی جانب رجوع کئے مسلمانوں کی عزّت کا کوئی تصور ہی نہیں۔
س۱۵:- کیا ہمیں دور جدید کے افکار ،تصوف کی راہوں کو جاننا چاہیے؟
ج۱۵:- ہاں ہمیں جاننا چاہیے ،تاکہ ہم ان سے بچ سکیں ،دلیل حضرت حذیفہ بن یمان رضی الله کا درج ذیل قول ہے:
حدیث نبوی:- ”کان الناس یسألون رسول الله ﷺ عن الخیر وکنت أسألہ عن الشر مخافة أن یدرکنی فقلت یارسول الله اِنا کنا فی جاھلیة وشر فجاء نا الله بھذا الخیر ، فھل بعد ھذا الخیر من شر؟ قال نعم ‘ قلت ! ھل بعد ذلک الشر من خیر؟ قال : نعم وفیہ دخن ، قلت وما دخنہ؟ قال قوم یستنّون بغیر سنتی ‘ ویھتدون بغیر ھدي ، تعرف منھم وتنکر ، فقلت ھل بعد ذلک الخیر من شر؟ قال نعم دعاة علی أبواب جھنم من أجابھم قذفوہ فیھا ، فقلت : یارسول الله صفھم لنا ، قال:قوم من جلدتنا ،ویتکلمون بألسنتنا ، قلت:یارسول الله فما تری اِن أدرکنی ذلک؟ قال تلزم جماعة المسلمین واِمامھم ، فقلت فان لم تکن لھم جماعة ولا اِمام ؟ قال فاعتزل تلک الفرق کلھا ، ولو أن تعض علی أصل شجرة حتی یدرکک الموت وأنت علی ذٰلک“۔
لوگ رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے خیر کے بارے میں پوچھتے تھے ،اور میں شر کے بارے میں پوچھتا تھا تاکہ بچ سکوں ،میں نے کہا اے الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم ہم جاہلیت وشر میں تھے ،پھر الله نے ہمیں اس خیر سے نوازا ،کیا اس خیر کے بعد بھی شر ہے ؟آپ نے فرمایا ،ہاں،میں نے کہا ،کیا اس شرکے بعد بھی خیر ہے ؟آپ نے فرمایا ،ہاں لیکن اس میں اختلاف وفساد ہوگا ،میں نے کہا فساد سے کیا مراد ہے ؟آپ نے فرمایا ،کچھ لوگ ہمارے راستے اور طریقے کو چھوڑکر دوسرا راستہ اور طریقہ اپنائیں گے ،وہ بھلائی بھی کریں گے برائی بھی ،میں نے کہا ،کیا اس خیر کے بعد بھی شر ہوگا ؟آپ نے فرمایا ،ہاں جہنم کے سِرے پر کچھ داعی ہوں گے ،جوان کی بات سن لے گا اسے جہنم میں پھینک دیں گے ،میں نے کہا ،اے الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم ان کے کچھ اوصاف بیان کیجئے ،آپ نے فرمایا ،وہ ہمیں لوگوں میں سے ہوں گے ،ہماری ہی زبان بولیں گے ،میں نے کہا اے الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم اگر میں اُس زمانے میں رہوں تو آپ کا خیال ہے ،آپ نے فرمایا ،لازمی طور پر مسلمانوں کی جماعت اور امام کے ساتھ رہنا ،میں نے کہا اگر ان کی کوئی جماعت اور امام نہ ہوتو ،آپ نے فرمایا کہ تم ان تمام فرقوں سء علیحدہ رہنا ،یہاں تک کہ کسی درخت کی جڑ پر منہ کے بل پڑے پڑے تمہاری موت ہی کیوں نہ آجائے ۔ (مسلم)
حدیث کے فوائد
اس سے پتہ چلتا ہے کہ شر کے داعی اپنی زندگی ،سلوک اور حکومت میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی سیرت وعادت کو اسوہ نہیں بناتے ،عادات واطوار اور لباس میں آپ کے بتائے ہوئے اصولوں پر عمل نہیں کرتے مسلمانوں کو ایسے لوگوں سے بچنا چاہئے۔
 

شکیل احمد

محفلین
دعوت اور کتابوں میں مشغول رہنے کے فوائد
س۱۶:- دعوت دینے اور کتابوں کی نشرواشاعت کرنے کاکیا فائدہ جبکہ مسلمان ذبح کئے جارہے ہیں؟
ج۱۶:- ہر مسلمان اسلام کے کسی نہ کسی سرحد پر لگا ہوا ہے،بعض مسلمان جہاد وقتال میں ماہر ہیں،بعض بذریعہ زبان جہاد کرتے ہیں ،بعض جہاد کے لیے مال ودولت خرچ کرتے ہیں ،رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے جہاد کی ان تمام قسموں کی جانب اشارہ کیا ہے ۔
حدیث نبوی:- جاھدوا المشرکین بأموالکم وأنفسکم وألسنتکم ۔ (صحیح ابوداوٴد)
مشرکین سے ،جان ومال اور زبان سب کے ذریعہ جہاد کرو ،بنابریں حضرت حسان رضی الله عنہ اسلام کا دفاع تلوار کے بجائے اپنی زبان وشعر سے کرتے تھے ۔
کسی مسلمان کو اس میں شک نہیں کہ مسلمانوں پر مختلف آلات جنگ کے ذریعہ حسب استطاعت جہاد واجب ہے ،مضامین اور کتابوں کے ذریعہ جہاد کے لیے مسلمانوں کی ہمت افزائی بھی جہاد کے لوازمات میں سے ہے ۔نیز کتاب وسنت پر مبنی کتابوں کی نشرواشاعت کے ذریعہ ،اس دین سے ،عقائد وعبادات اورمعاملات کی تمام بدعات وخرافات کا صفایا کیا جاسکتا ہے ۔اور یہ بہت اہم چیز ہے ۔کتابوں کی نشرواشاعت آج کے اہم ترین ذرائع ابلاغ میں سے ہے ،اس سے خرافات کا صفایا ،اور ایسے نوجوانوں کی تربیت ہوسکتی ہے ،جو اسلامی عقائد ،عبادات فرمانروائی ،جہاد وجاں نثاری ،اخلاق وسلوک وغیرہ کو مانتے ہوں ۔
س۷۱:- الله تعالیٰ نے فتنے کو قتل سے زیادہ سخت کیوں قرار دیا ہے ،کیوں؟
ج:- دین کی صحت ،حسن اخلاق ،عقل وعقیدے کی شرک سے پاکیزگی ہی میں انسان کی حقیقی زندگی مضمر ہے ۔اس کا دینی فتنہ ،شرک کے ذریعہ اخلاق وعقیدے کی خرابی حقیقت میں روحانی قتل اور عقل کی بربادی ہے اور روحانی قتل جسمانی قتل سے سخت ہے ۔
فرمان الٰہی:- وَالفِتْنَةُ أَشَدُّ مِنَ القَتْلِ ۔
اور کفر (فتنہ)قتل سے سخت ہے ۔ (بقرہ:۱۹۱)
والفتنة أکبر من القتل ۔ اور فتنہ (دین کی خرابی)قتل سے بھی بڑھ کر ہے ۔ (بقرہ:۲۱۷)
س۱۸:- کیا اسلام سے انحراف کرنے والوں کی تعریف کی جاسکتی ہے ؟
ج۱۸:- ان کی تعریف نہیں کی جاسکتی ،اس لیے کہ ملت ابراہیمی اور شریعت محمدیہ سے دور لوگوں کو ہی الله تعالیٰ نے بیوقوف قرار دیا ہے ۔
فرمان الٰہی:- وَمَنْ یَرْغَبُ عَن مِّلَّةِ اِبْرَاھِیْمَ اِلَّا مَنْ سَفِہَ نَفْسَہُ ۔
آسمانی کتابوں سے مستفید نہ ہونے والوں کی تشبیہ الله تعالیٰ نے گدھوں سے دی ہے ۔
فرمان الٰہی:- مَثَلُ الَّذِیْنَ حُمِّلُوا التَّورٰةَ ثُمَّ لَمْ یَحْمِلُوھَا کَمَثَلِ الحِمَارِ یَحْمِلُ أَسْفَارَما ۔
اور الله کی آیات کو چھوڑنے والوں کی تشبیہ کتے سے دی ہے ۔
فرمان الٰہی:- وَاتْلُ عَلَیْھِمْ نَبَأَ الَّذِیٓ ءَ اتَیْنٰہُ ءَ ایٰتِنَا فَانْسَلَخَ مِنْھَا فَأَتْبَعَہُ الشَّیْطٰنُ فَکَانَ مِنَ الغَاوِینَ ، وَلَوشِئْنَا لَرَفَعْنٰہُ بَہَا وَلَکِنَّہُ أَخْلَدَ اِلَی الأَرْضِ وَاتَّبَعَ ھَوَاہُ فَمَثَلُہُ کَمَثَلِ الْکَلْبِ اِن تَحْمِلْ عَلَیْہِ یَلْھَثُ أَوْ تَترُکْہُ یَلْھَث ذٰلِکَ مَثَلُ الْقَومِ الَّذِیْنَ کَذَّبُوا بِئَایَٰتِنَا فَاقْصُصِ القَصَصَ لَعَلَّھُمْ یَتَفَکَّرُونَ ۔ (الاعراف:۱۷۵-۱۷۶)
جن کے طور وطریقے کو الله نے بُرا قرار دیا ،ان کی جو بھی تعریف کرے وہ الله کی حدود کو تجاوز کرنے والا ہوگا ۔اسلامی تعلیمات سے انحراف ،اور اسلامی حدود کا انکار کرنے والے نیز شریعت الٰہیہ کو چھوڑ کر دوسری شریعت کے ماننے والے کی کسی طرح سے تعریف کرنا جائز نہیں ۔
حدیث نبوی:- لا تقولوا للمنافق سیدنا فانہ ان لم یکن سیدکم فقد اسخطتم ربکم۔ (صحیح - احمد ابوداوٴد صحیح الجامع برقم ۶۳۸۳)
منافق کو اپنا سید مت کہو ،اگر اسے اپنا سید مان لوگے تو اپنے رب کو ناراض کردوگے۔ (ماخوذ از کتاب الاجوبة المفیدة)
 

شکیل احمد

محفلین
معاشرتی باہمی تعاون تباہ کن مذاہب کاخاتمہ کردیتا ہے
س۱- باہمی تعاون کے لیے اسلام نے کون کون سے وسائل مہیا کئے ہیں؟
ج۱- اسلام نے بہت سارے وسائل مہیا کئے ہیں ، جیسے :
۱۔ مسلمانوں کے حالات کے سدھار ،جیسے کہ غریبوں کو زکوٰة دینا ۔
۲۔ ان کی معاشرتی زندگی کو ترقی دینا ،جیسے کہ مستحقین کو ھِبہ وصدقہ دینا ۔
۳۔ انہیں باہم متحد کرنا ۔
۴۔ ایمان ،باہمی تعاون ونصیحت اور محبت کی مضبوط بنیادوں پر ایک دوسرے کے دلوں کوملانا ۔
س۲:- اسلام میں معاشرتی باہمی تعاون کی غرض وغایت کیا ہے ؟
ج:- اس کی غرض وغایت ایک ایسا نیک معاشرہ تیارکرنا جو ارتقاء وتقدم کی صلاحیت رکھتا ہو۔اسلام ہی پہلی شریعت ہے جس نے معاشرہ میں باہمی تعاون کو جنم دیا ۔اسلام اور مسلمانوں نے معاشرتی باہمی تعاون کی مختلف صورتوں پر توجہ دی ۔
۱۔ لوگوں کی رہنمائی اور نصیحت کی ۔
۲۔ ہر عاجز ومحتاج کے لیے مال کا معین حصہ مقرر کیا۔
۳۔ ہر باصلاحیت شخص کے لیے ذریعہ معاش مہیا کیا ۔
۴۔ مسافروں ،عاجزوں اور مریضوں کے لیے گھر تیار کیا ۔
۵۔ مسکینوں اور یتیموں کی کفالت کی ۔
۶۔ صدقات وزکوٰة لے کر مستحقین پر تقسیم کیا۔ (کتاب ”الاجوبة المفیدة)
س۳:- فلسطین ،لبنان اور افغانستان سے متعلق ہماری کیا ذمہ داریاں ہیں ۔
ج:- ان سے متعلق ہماری ذمہ داریاں ہیں کہ ہم ان کے لیے درج ذیل چیزیں مہیا کریں :
۱۔ ضروری مال ،ہتھیار،لباس اور غذا سے ہم ان کی مدد کریں ۔
۲۔ باصلاحیت داعیوں کو فراہم کرنا ،تاکہ مسائل سے نمٹنے اور باہم متحد کرنے میں ان کی مدد کریں ،نیز عقیدہ توحید کی وضاحت کریں تاکہ وہ صرف الله سے نصرت کے طلب گار ہوں۔
فرمان الٰہی:- وَمَا النَّصرُ اِلَّا مِنْ عِنْدِ اللهِ العَزِیْزِ الحَکِیْمِ ۔ (آل عمران :۱۲۶)
فتح ونصرت الله کی طرف سے ہے جو بڑی قوت والا اور دانا وبینا ہے ۔
۳۔ ڈاکٹروں کی فراہمی تاکہ مریضوں اور زخمیوں کے علاج میں مدد کریں ۔
۴۔ جنگ کے طریق کا ر،منصوبہ بندی غرضیکہ جنگ کے تمام شعبوں میں تجربہ کار لوگوں کو مہیا کرنا۔
۵۔ مسلمان صحافیوں کو بھیجنا تاکہ سچی خبریں شائع ہوسکیں ۔
۶۔ ان کے ساتھ مل کر جہاد کی رغبت رکھنے والوں کو بھیجنا ۔
۷۔ ان کی خبروں کو اہمیت دینا ،اور مختلف ذرائع ابلاغ سے نشرہونے والی خبروں کی تلاش وجستجو کرنا۔
۸۔ اخبار ورسائل اور ذرائع ابلاغ سے مجاہدین کی خبروں کو نشرکرنا۔
۹۔ ان کے خلاف تمام سازشوں کا پردہ چاک کرنا ،تاکہ ان سے آگاہ رہ کر انہیں ناکام کیا جاسکے ۔
۱۰۔ فلسطین ۔لبنان اور عالم اسلام میں یہودیوں کے خطرات سے آگاہ کرنا ۔
۱۱۔افغانستان میں کمیونزم (اور اب امریکن ازم)کے خطرات نیز مسلمانوں پر عقیدتاً اس کے برے اثرات کو بیان کرنا ،اس لیے کہ کمیونزم (امریکہ ازم ) میں خالق ،معبود اخلاق اور دین نام کی کوئی چیز نہیں۔
مسلمانوں کا اپنے مجاہدین بھائیوں کی نصرت وتائید کے لیے دُعا کرنا ۔
اللھم انصرالمسلمین فی کل مکان ، ووفقھم للتمسک بدینھم۔ اے الله تو ہر جگہ مجاہد مسلمانوں کی مدد فرما ،اور انہیں دین کے پابند ہونے کی توفیق عطا فرما ۔
 

شکیل احمد

محفلین
شرک اصغر
س۱:- شرک اصغر کسے کہتے ہیں؟
ج:- شرک اصغر ریاکاری ونمائش کا نام ہے۔
فرمان الٰہی:- فَمَنْ کَانَ یَرْجُوا لِقَآءَ رَبِّہ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صٰلِحًا وَلَا یُشْرِکْ بِعِبَادَةِ رَبِّہ أَحَدَما ۔ (الکہف)
پس جو کوئی اپنے رب کی ملاقات کا امیدوار ہو اسے چاہئے کہ صالح عمل کرے ،اور بندگی میں اپنے رب کے ساتھ کسی اور کو شریک نہ کرے۔ وقال ﷺ : ان أخوف ما أخاف علیکم الشرک الأصغر الریاء ۔ تمہارے سلسلے میں مجھے سب سے زیادہ خوف شرک اصغر یعنی ریاکاری سے ہے یہ بھی شرک اصغر ہے کہ آدمی یوں کہے ”اگر الله تعالیٰ اور فلاں نہ ہوتا تو ایسا ہوتا ،جو الله تعالیٰ اور آپ چاہیں ،اگر کتا نہ ہوتا تو چور آجاتا،
حدیث نبوی:- لا تقولوا ماشاء الله ، وشاء فلان ، ولکن قولوا !ماشاء الله ثم شاء فلان ۔(صحیح ۔ مسند احمد)
یوں نہ کہوں کہ جس طرح الله اور فلاں چاہے گا ،بلکہ اس طرح کہو ،کہ پہلے جو الله کو منظور ہوگا،پھر جو فلاں چاہے ۔
س۲:- کیا غیر الله کی قسم کھانا جائز ہے ؟
ج۲:- غیر الله کی قسم کھانا درست نہیں۔ بدلیل :
فرمان الٰہی:- قُلْ بَلٰی وَرَبِّی لَتُبْعَثَنَّ۔ (سورہ تغابن :۷)
کہہ دیجئے کیوں نہیں میرے رب کی قسم تم ضرور اٹھائے جاوٴگے۔
حدیث نبوی:- من حلف حالفا فلیحلف بالله أو لیصمت ۔ (بخاری ومسلم)
جس کوقسم کھانی ہو وہ صرف الله کی قسم کھائے یا خاموش رہے۔
بسا اوقات انبیاء واولیاء کی قسمیں کھانا شرک اکبر میں شمار ہوتا ہے جب قسم کھانے والا یہ عقیدہ رکھے ،کہ ولی کو ضرر رسانی کا تصرف حاصل ہے۔
س۳:- کیا ہم شفاء کے لیے چھلّہ اور دھاگا پہن سکتے ہیں؟
ج۳:- یہ بالکل درست نہیں ، بدلیل:
فرمان الٰہی:- وَاِن یَمْسَسْکَ اللهُ بِضُرٍّ فَلَا کَاشِفَ لَہُ اِلَّا ھُوَ ۔ (انعام :۱۷)
اور اگر الله تعالیٰ تمہیں کسی قسم کا نقصان پہنچائے تو کوئی نہیں جو تمہیں اس نقصان سے بچاسکے ۔ دلیل
حدیث نبوی:- عن حذیفة أنہ رأی رجلا فی یدہ خیط من الحمی فقطعہ وتلا قول الله تعالیٰ :
وَمَا یُوٴْمِنُ أَکْثَرَھُمْ بِاللهِ اِلَّا وَھُمْ مُشْرِکُوْنَ ۔ حضرت حذیفہ رضی الله عنہ نے مروی ہے کہ انہوں نے ایک ایسے شخص کو دیکھا جس نے بخار سے نجات کے لیے ہاتھ میں دھاگہ پہن رکھاتھا ،تو اسے کاٹ کر اس آیت کو پڑھا۔
س۴:- کیانظر بد سے بچنے کے لیے گھونگا یا کوڑی گردن میں لٹکا سکتے ہیں؟
ج۴:- ایسا نہیں کرسکتے ۔ بدلیل:
فرمان الٰہی:- وَاِن یَمْسَسْکَ اللهُ بِضُرٍّ فَلَا کَاشِفَ لَہُ اِلَّا ھُوَ ۔ (انعام :۱۷)
اور اگرالله تجھے کسی مصیبت میں ڈالے تو کوئی نہیں جو اس مصیبت کو ٹال سکے۔
حدیث نبوی:- من علق تمیمة فقد أشرک ۔ (صحیح ۔ مسند احمد)
جس نے تمیمہ لٹکایا اس نے شرک کیا۔
نوٹ:- تمیمہ اس گھونگے یا کوڑی یا تعویذ کو کہتے ہیں جو نظر بد سے بچنے کے لیے لٹکایا جاتاہے ۔
 

شکیل احمد

محفلین
وسیلہ اور طلب شفاعت
س۱:- الله کی جانب کس چیز کو وسیلہ بنایا جاسکتا ہے؟
ج:- وسیلے کی دو قسمیں ہیں:
الف : وسیلہ جائز ، ب: وسیلہ ممنوع ․
وسیلہ جائز یہ ہے کہ الله کے نام اور اس کی صفات کا واسطہ دے کر الله سے دعا کریں ،یا اپنے نیک اعمال کو بطور وسیلہ استعمال کریں ، یازندہ نیک انسان سے دعا کرائیں ۔
فرمان الٰہی:- وَلِلّٰہِ الأَسْمَاءُ الحُسْنیٰ فَادْعُوْہُ بِھَا ۔ (الاعراف:۱۸۰)
اور الله کے تمام نام ہی اچھے ہیں تو اسے اچھے ہی ناموں سے پکارو
فرمان الٰہی:- یَا أَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَابْتَغُوا اِلَیْہِ الوَسِیلَةَ ۔ (مائدہ:۳۵)
ایمان والو: الله سے ڈرو اور اس کی جناب میں باریابی کا وسیلہ تلاش کرو۔ (ابن کثیر قتادہ سے نقل کرتے ہیں کہ الله کی اطاعت اور پسندیدہ عمل کے ذریعہ الله کا قرب حاصل کرو )۔
حدیث نبوی:- أسالک بکل اسم ھو لک سمیت بہ نفسک ۔ (صحیح - احمد)
اے الله! میں تیرے ہرنام کے وسیلہ سے تجھ سے مانگتا ہوں۔
ایک صحابی نے جنت میں آپ کے ساتھ رہنے کا سوال کیا تو آپ نے فرمایا : أَعِنّي عَلیٰ نفسکَ بکثرة السُّجود۔ (مسلم)
اپنے بارے میں کثرت سجدہ (یعنی نماز)سے میرا تعاون کرو(اور یہ عمل صالح ہے)اسی طرح غار والوں کا قصہ مشہور ہے ،کہ انہوں نے اپنے اعمال کو وسیلہ بناکر الله تعالیٰ سے دعا مانگی تو انہیں نجات دی گئی ،اسی طرح حبّ الٰہی وحبّ نبوی اور اولیاء سے محبت کو بطور وسیلہ استعمال کرسکتے ہیں اس لیے یہ محبتیں اعمال صالحہ میں سے ہیں ۔ مثلاً ہم کہیں:
اللھم بحبک لرسولک واوٴلیائک انصرنا وبحبنا لرسولک ووأولیائک اشفنا۔
اے الله! اپنے رسول اور محبوب بندوں سے اپنی محبت کے وسیلے سے ہماری مدد فرما ،اور تیرے رسول اور محبوب بندوں سے ہماری محبت کے وسیلہ سے ہمیں شفا دے۔
ممنوع وسیلہ: جیسے :
مُردوں کو پکارنا ،انہیں حاجت روا سمجھنا (جیسا کہ آج کل ہورہا ہے)اور یہ شرک اکبر کی قسم سے ہے۔ بدلیل:
فرمان الٰہی:- وَلَا تَدْعُ مِنْ دُوْنِ اللهِ مَالَا یَنْفَعُکَ وَلَا یَضُرُّکَ فَاِن فَعَلْتَ فَاِنَّکَ اِذًا مِنَ الظَّالِمِیْنَ ۔( یونس:۱۰۶)
اور الله کو چھوڑ کر کسی ایسی ہستی کو نہ پکار جو تجھے نہ فائدہ پہنچاسکتی ہے نہ نقصان ،اگر تو ایسا کرے گا تو ظالموں میں سے ہوگا:(یعنی مشرکین میں سے ہوگا)
رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے مقام وجاہ کو وسیلہ بنانا مثلاً یہ کہنا ،اے الله! مجھے محمد صلی الله علیہ وسلم کے جاہ سے شفا دے ،بدعت ہے ،اس لیے صحابہ کرام نے ایسا نہیں کیا ،بلکہ عمر رضی الله عنہ نے بحالت حیات حضرت عباس رضی الله عنہ کی دعا کو وسیلہ بنایا ،وفات کے بعد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو وسیلہ نہیں بنایا ،بعض اوقات اس طرح کا وسیلہ انسان کو شرک تک پہونچا دیتا ہے اور یہ ایسی صورت میں ہوگا جب یہ اعتقاد رکھاجائے کہ الله تعالیٰ بھی افسران بالا اور حکام دنیا کے مانند کسی انسان کے واسطہ کا محتاج ہے ،کیونکہ ایسا کرنے سے خالق کی مخلوق سے تشبیہ لازم آتی ہے (جو شرک ہے)
س۲:- کیا دُعا کے لیے کسی انسان کا واسط ضروری ہے؟
ج:- ہرگز نہیں دُعا کسی انسان کے واسطہ کی محتاج نہیں ، (بلکہ براہ راست الله تعالیٰ سے دعا مانگنی چاہیے) بدلیل:
فرمان الٰہی:- وَاِذَا سَأَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّيْ فَاِنِیْ قَرِیْبٌ ۔ (بقرہ:۱۸۶)
اے نبی: میرے بندے اگر تم سے میرے متعلق پوچھیں تو انہیں بتادوکہ میں ان سے قریب ہی ہوں ۔
حدیث نبوی :- انکم تدعون سمیعًا قریبًا وھو معکم ۔ (مسلم)
بلا شبہ تم ایک ایسی ہی ہستی کو پکارتے ہو جو سننے والی ہے ،نیز قریب اور تمہارے ساتھ ہے۔
س۳:- کیا زندہ سے دعاکرائی جاسکتی ہے؟
ج:- ہاں کرائی جاسکتی ہے۔
الله تعالیٰ اپنے رسول صلی الله علیہ وسلم کو (جب آپ بقید حیات تھے )مخاطب کرکے فرماتا ہے :
فرمان الٰہی:- وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِکَ وَلِلمُوٴمِنِیْنَ وَالمُوٴْمِنَاتِ ۔ (محمد:۱۹)
اور معافی مانگو اپنے قصور کے لیے بھی اور مومن مردوں اور عورتوں کے لیے بھی۔
حدیث نبوی :- أن رجلا ضریر البصر أتی النبی ﷺ فقال : ادع الله أن یعافینی قال : اِن شئت دعوتُ لک وان شئت صبرت فھو خیر لک۔ (صحیح - ترمذی)
ایک نابینا شخص نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا:الله سے دعا کیجئے کہ وہ مجھے شفا دیدے ،آپ نے فرمایا اگر تم چاہو تو میں دعا کردیتا ہوں اور صبر کرجاوٴ تو بہتر ہے ۔
س۴:- رسول الله صلی الله علیہ وسلم کاکون سا واسطہ ہے؟
ج۴:- آپ کا واسطہ ”دعوت وتبلیغ “ ہے (یعنی آپ دعوت الٰہی کا ذریعہ ہیں) بدلیل :
فرمان الٰہی:- یَا أَیُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَبِّکَ ۔ (مائدہ:۶۷)
اے پیغمبر: جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے وہ لوگوں تک پہنچا دو، بدلیل :
حدیث نبوی:- آپ نے صحابہ کرام رضی الله عنہم سے پوچھا کیا میں نے الله کا پیغام پہونچادیا ہے ،تو صحابہ کرام نے بیک زبان ہوکرکہا نشھد أٴنک قد بلغت ہم آپ کے متعلق الله کا پیغام دینے کی گواہی دیتے ہیں ،اس کے بعد آپ نے فرمایا اللھم اشھد اے الله گواہ رہنا ۔ (مسلم)
س۵:- رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی شفاعت ہم کس طرح طلب کریں ؟
ج۵:- ہمیں آپ کی شفاعت الله تعالیٰ سے طلب کرنی چاہئے ۔ بدلیل :
فرمان الٰہی:- قُلْ لِلّٰہِ الشَّفَٰعَةُ جَمِیْعًا ۔(سورہ زمر :۴۴)کہو شفاعت ساری کی ساری الله کے اختیار میں ہے۔
حدیث نبوی:- آپ نے ایک صحابی کو دُعا کے لیے یہ کہنے کی تعلیم دی تھی ، اَلَّلھُمَّ شَفِّعَہُ فِيِّ میرے متعلق نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی شفاعت قبول فرما۔ (ترمذی نے روایت کیا اور حسن صحیح کہا)
حدیث نبوی:- انی اختبأت دعوتی شفاعة القیامة مَن مات من أمتی لا یشرک بالله شےئًا ۔ (مسلم)
میں اپنی دعاء مستجاب کو قیامت کے دن امت کے ہر اس فرد بشر کی شفاعت کے لیے رکھ چھوڑی ہے جو الله کے ساتھ شرک نہ کرنے کی حالت میں مرا ہوگا۔
س۶:- کیا زندہ سے سفارش کرائی جاسکتی ہے ؟
ج۶:- دنیوی امورمیں زندوں سے سفارش کرائی جاسکتی ہے بدلیل :
مَنْ یَشْفَعْ شَفَاعَةً حَسَنَةً یکُنْ لَہُ نَصِیبٌ مِنْھَا ، وَمَنْ یَشْفَعْ شَفَاعَةً سَےِّئَةً یَکُنْ لَہُ کِفْلٌ مِنْھَا۔ (سورہٴ نساء)
جو بھلائی کی سفارش کرے گا وہ اس میں سے حصہ پائے گا ،اور جو برائی کی سفارش کرے گا وہ اس میں حصہ پائے گا ۔ دلیل:
حدیث نبوی:- اشفعوا توٴجروا ۔(صحیح ابوداوٴد)سفارش کیا کرو ،اجر سے نوازے جاوٴگے۔
س۷:- نعت رسول میں مبالغہ آمیزی کاکیا حکم ہے؟
ج:- مبالغہ آمیزی وغلو ہرگز جائز نہیں۔ بدلیل:
فرمان الٰہی:- قُلْ اِنَّمَآ أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ یُوحَیٰٓ اِلَیَّ أَنَّمَآ اِلَٰھُکُمْ اِلٰہٌ وَاحِدٌ ۔ (الکھف:۱۱۰)
اے محمد: کہو میں تو تمہیں جیساایک انسان ہوں ،میری طرف وحی کی جاتی ہے کہ تمہارا معبود صرف ایک ہی معبود ہے ۔
حدیث نبوی:- لا تطرونی کما أطرت النصاری عیسی بن مریم فانما أنا عبدٌ فقولوا عبدا لله ورسولہ۔
مجھے میرے مقام سے مت بڑھاوٴ جیسا کہ نصاریٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ان کے مقام سے ہٹادیا ،میں صرف بندہ ہوں ، اور مجھے الله کا بندہ اور اس کا رسول کہاکرو۔
س۸:- سب سے پہلے الله نے کسے پیدا کیا ؟
ج:- انسانوں میں سب سے پہلے آدم علیہ السلام کو ،چیزوں میں پانی کو ،عرش کو پھر قلم کو۔ بدلیل:
فرمان الٰہی:- اِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلَائِکَةِ اِنِّی خَالِقٌ بَشَرًا مِنْ طِیْنٍ ۔(ص:۷۱)جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا میں مٹی سے ایک بشر بنانے والاہوں ۔ ودلیل:
حدیث نبوی:- کلکم بنو آدم وآدم خلق من تراب۔(بزار وصححہ الالبانی)تم سب آدم علیہ السلام کی اولاد ہو اور آدم علیہ السلام کی تخلیق مٹی سے ہے ۔ ودلیل:
حدیث نبوی:- اِنّ أول ما خلق الله القلم ۔(ابوداوٴد ،ترمذی،قال حسن صحیح)پہلے پہل الله نے قلم کو پیدا کیا (یعنی پانی اور عرش کے بعد)
اور یہ حدیث ”أول ما خلق الله نور نبیک یا جابر“(یعنی اے جابر الله تعالیٰ نے سب سے پہلے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے نور کو پیدا کیا)سراسر جھوٹی اور موضوع ہے ،کتاب وسنت ،عقل ونقل کسی سے بھی نہیں میل کھاتی ،علامہ سیوطی نے کہا کہ اس کی کوئی سند ہی نہیں ،غماری نے کہا موضوع ہے ،ناصرالدین الالبانی  نے کہا ،باطل ہے ،جو یہ کہے کہ الله تعالیٰ تمام چیزوں کو اپنے نور یا محمد صلی الله علیہ وسلم کے نور سے پیدا کیا ہے ،وہ سراسر قرآن کو جھٹلا رہا ہے ،قرآن تو اس بات کی صراحت کرتاہے کہ الله تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو مٹی سے اور شیطان کو آگ سے پیداکیاہے۔
جہاد ، دوستی اور حکومت
س۱:- جہاد کسے کہتے ہیں، اس کی غرض وغایت اور اقسام کیا ہیں؟
ج۱:- جہاد دین کی سربلند ومضبوط چوٹی ہے ،صاحبِ استطاعت پر واجب ہے ،صاحب استطاعت ہوتے ہوئے جو اس سے کترائے اس کا دین خطرے میں ہے ۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ الله وغیرہ نے ذکر کیا ہے کہ جہاد کا حکم حسب استطاعت بدلتا رہتا ہے ،قطع تعلقی اور جہاد سے کنارہ کشی پر مشتمل مکی آیتیں مسلمانوں کی کمزور حالت میں نازل ہوئیں جب کہ قتال وجہاد پر مشتمل مدنی آیتیں ایسی حالت میں نازل ہوئیں جب مسلمان قوی ہوچکے تھے ،یعنی تدریجی اسلوب اپنایا گیا تاکہ مسلمانوں کا تشخص ہی نہ ختم ہوجائے ۔
الله تعالیٰ نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو مکہ ومدینہ دونوں جگہ جہاد کا حکم دیا ۔مکہ میں درج ذیل آیتیں نازل کیں :
فرمان الٰہی:- وَجَٰھِدْھُم بِہ جِھَادًا کَبِیْرًا ۔ (سورہ فرقان:۵۲)
اور اس قرآن کو لے کر ان کے ساتھ زبردست جہاد کرو ،
فرمان الٰہی:- وَلَمَنِ انتَصَرَ بَعَدَ ظُلْمِہِ فَأُوْلَِٰٓکَ مَا عَلَیْھِمْ مِنْ سَبِیْلٍ ۔ (شوریٰ:۴۱)
اور جو لوگ ظلم ہونے کے بعد بدلہ لیں ان کو ملامت نہیں کی جاسکتی ۔
مذکورہ بیان کی روشنی میں جہاد کی چار قسمیں ہوسکتی ہیں:
۱۔ جہاد شیطان ۲۔ جہاد نفس
۳۔ جہاد کفار ۴۔ جہاد منافقین (کتاب الاجوبة المفیدة سے ماخوذ)
س۲:- الله تعالیٰ نے جہاد کیوں مشروع قرار دیا؟
ج۲:- اس کے بہت سے مقاصد ہیں مثلاً :
۱۔ شرک اور مشرکین سے نمٹنا ۔اس لئے الله تعالیٰ شرک کو قبول ہی نہیں کرتا ۔
۲۔ دعوت الی الله کی راہ کی تمام رکاوٹوں کو ختم کردینا۔
ٍ ۳۔ عقیدہٴ اسلامیہ کو پیش آنے والے تمام خطرات سے محفوظ رکھنا۔
۴۔ مسلمان اور ان کے وطنوں کا دفاع ۔ (کتاب الاجوبة المفیدہ سے ماخوذ)
س۳:- جہاد فی سبیل الله کا کیا حکم ہے ؟
ج:- حسب استطاعت ،جان ومال اور زبان سے جہاد کرنا واجب ہے ۔
فرمان الٰہی:- انفِرُوا خِفَافًا وَثِقَالًا وَجَٰھِدُوا بِأَمَولِکُمْ وَأَنْفُسِکُمْ فِی سَبِیْلِ اللهِ ۔
نکلو: خواہ ہلکے ہو یا بوجھل اور الله کی راہ میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں سے جہاد کرو۔
مشرکین سے اپنی مال وجان اور زبان سے جہاد کرتے رہو۔ (صحیح ابوداوٴد)
س۴:- ولاء کسے کہتے ہیں؟
ج۴:- ولاء موحد مومنوں کے باہمی تعاون اور محبت کا نام ہے ۔
فرمان الٰہی:- وَالمُوٴمِنُوْنَ وَالمُوٴْمِنَاتُ بَعْضُھُمْ أَوْلِیَاءُ بَعْضٍ۔
مومن مرد اور مومن عورتیں یہ سب ایک دوسرے کے رفیق ہیں ۔ (توبہ:۷۱)
حدیث نبوی :- الموٴمن للموٴمن کالبنیان یشد بعضہ بعضا ۔ (مسلم)
ایک مومن دوسرے کے لیے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح ہے جس کا ایک حصہ دوسرے کے لیے مضبوطی کاباعث ہے ۔
س۵:- کیا کفار سے دوستی کرنا اور ان کی مدد کرنا جائز ہے ؟
ج۵:- ہرگز نہیں ، بدلیل :
فرمان الٰہی:- وَمَنْ یَتَوَلَّھُمْ مِّنْکُمْ فَاِنَّہُ مِنْھُمْ ۔ (المائدہ:۵۱)
اگر تم میں سے کوئی انہیں اپنا دوست بناتا ہے تو اس کا شمار انہیں میں سے ہوگا۔ ودلیل:
حدیث نبوی:- انّ آل فلانٍ لیسوا بأولیاء ۔ (بخاری ومسلم)
فلاں قبیلے سے میرے تعلقات نہیں ہیں (اس عدم تعلق کا سبب ان کا کفر تھا )
س۶:- مسلمان کس چیز کو فیصل بنائیں ؟
ج۶:- مسلمان کتاب وسنت صحیحہ کو فیصل بنائیں ، بدلیل :
فرمان الٰہی:- وَأَنِ احْکُمْ بَیْنَھُمْ بِمَآ أَنْزَلَ اللهُ ۔ (مائدہ:۴۹)
پس اے نبی : تم الله کے نازل کردہ قانون کے مطابق ان لوگوں کے معاملات کا فیصلہ کرو۔ ودلیل:
حدیث نبوی:- أما بعد، ألا أیھاالناس فانما بشر یوشک ان یاتی رسول ربی فأجیب وأنا تارک فیکم ثقلین ، أولھما کتاب الله ، فیہ الھدیٰ والنور ،فخذوا کتاب الله واستمسکوا بہ ، فحث علیٰ کتاب الله ورغب فیہ ثم قال : وأھل بیتی ۔ (مسلم)
لوگو! میں ایک انسان ہو قریب ہے کہ میرے رب کا فرستادہ فرشتہ موت کا پیغام لے کر پہونچے ،او رمیں اس پر لبیک کہوں ،میں تمہارے مابین دوچیزیں چھوڑے جارہاہوں ،پہلی کتاب الله ہے جسمیں ہدایت وروشنی ہے ،پس کتاب الله کو تھام لو اور اس پر جمے رہو آپ نے کتاب الله کی ترغیب دے کر فرمایا ”واھل بیتی“ یعنی اہل بیت کی رعایت کا حکم ۔ ودلیل :
حدیث نبوی:- ترکت فیکم أمرین لن تضلوا ما تمسکم بھما ، کتاب الله وسنة رسولہ۔ (مالک فی الموطا صححہ الالبانی فی صحیح الجامع الصغیر)
میں تم میں دوا یسی چیزیں چھوڑے جارہا ہوں ،جن پر عمل کرتے ہوئے تم گمراہ نہیں ہوسکتے،اور وہ کتاب الله اور سنت رسول ہیں۔
 
Top