اسلامی سزائیں ۔۔۔

شرعی سزاؤں کی تعریف اور ان کی اقسام
دنیا کے عام قوانین میں جرائم کی تمام سزاؤں کو تعزیرات کا نام دیا جاتاہے‘ خواہ وہ کسی بھی جرم سے متعلق ہوں‘اس لئے تعزیرات ہند‘ تعزیرات پاکستان کے نام سے جو کتابیں ملک میں پائی جاتی ہیں‘ اس میں ہرقسم کے جرائم اور ہرطرح کی سزاؤں کا ذکر ہے جب کہ شریعت اسلامیہ میں جرائم کی سزاؤں کی تین قسمیں ہیں:
۱:․․․حدود ۲:․․․قصاص ۳:․․․تعزیرات۔
جرائم کی وہ سزا جو قرآن وسنت اور اجماع نے متعین کردی ہو‘ اس کی دو قسمیں ہیں:
۱:․․․حدود،۲:․․․․قصاص
حدود
شرعی اصطلاح میں ایسے جرم کی سزا کو کہا جاتاہے جس میں حق اللہ غالب ہو۔
قصاص
ایسی سزا جس میں حق العبد غالب ہو۔
تعزیرات
کسی بھی جرم کی وہ سزا جو قرآن وسنت نے متعین نہیں فرمائی‘ بلکہ اسے حاکم ِ وقت یا قاضی کی صوابدید پر چھوڑدیا۔
شریعت اسلام میں حدود کی تعداد چھ ہے: ۱:․․․ ڈاکہ‘ ۲:․․․چوری‘ ۳:․․․زنا‘ ۴:․․․تہمتِ زنا‘ ۵:․․․ شراب خوری‘ ۶:․․․مرتد کی سزا۔

حدود وقصاص میں فرق
جرائم کی وہ سزا جو قرآن وسنت نے متعین فرمادی ہے‘ اس کی دو قسمیں ہیں:۱:․․ ایک حد ۲:․․․ قصاص۔ بنیادی طور پر یہ دونوں اگرچہ اس امر میں مشترک ہیں کہ ان میں سزاکی تعیین قرآن کریم اور سنت رسول کریم ا سے کی جاتی ہے‘ لیکن ان دونوں کے حکم میں یہ فرق ہے کہ: حدود ․․․پانچ جرائم کی سزائیں․․․ جس طرح کوئی حاکم وامیر کم یا معاف نہیں کرسکتا اسی طرح توبہ کر لینے سے بھی معاف نہیں ہوتیں‘ البتہ اگر اخلاص کے ساتھ توبہ کرلے تو آخرت میں معافی ہوجاتی ہے۔ ان پانچ میں سے صرف ڈاکہ کی سزا ایسی ہے کہ اگر ڈاکو گرفتاری سے قبل توبہ کرلے اور معاملات سے اس کی توبہ کا اطمینان ہوجائے تو یہ حد ساقط ہوجائے گی‘ البتہ گرفتاری کے بعد کی توبہ کا اعتبار نہیں ہے۔ دوسری حدود توبہ سے بھی دنیا کے حق میں معاف نہیں ہوتیں ‘ خواہ توبہ گرفتاری سے قبل کرے یا بعد میں۔ قصاص کی سزا بھی اگرچہ حدود کی طرح قرآن کریم میں متعین ہے کہ جان کے بدلے میں جان اور زخموں کے بدلہ میں مساوی زخموں کی سزا دی جائے ‘ لیکن حدود کو چونکہ بحیثیت حق اللہ کے نافذ کیا جاتا ہے‘ اس لئے اگر صاحب حق معاف بھی کرنا چاہے تو معاف نہیں ہوگا اور حد ساقط نہیں ہوگی‘ مثلاً جس کا مال چوری کیا ہے وہ معاف بھی کردے تو چوری کی شرعی سزا معاف نہ ہوگی۔رہا قصاص کا معاملہ تو چونکہ اس میں حق العبد غالب ہے‘ اس لئے ولی مقتول کو اختیار ہے کہ وہ قصاص لے لے یا معاف کردے‘ اسی طرح زخموں کے قصاص میں بھی یہی حکم ہے۔

حدود اور تعزیر کا فرق
حدود اللہ ان سزاؤں کو کہا جاتا ہے جو متعین سزائیں ہیں اور تعزیر غیر متعینہ سزاؤں کوکہا جاتاہے۔ تمام تعزیری جرائم میں صحیح اور جائز سفارش سنی جاسکتی ہے‘ لیکن حدود میں سفارش کرنا جائز نہیں ہے اور نہ ہی اس کا سننا جائز ہے۔ حدود کی سزائیں چونکہ سخت ہیں اور ان کی شرائط بھی کڑی ہیں‘ اس لئے شبہات سے ساقط ہوجاتی ہیں‘ چنانچہ مسلمہ قانون ہے : ”الحدود تندرئ بالشبہات“ جبکہ تعزیر شبہ سے ساقط نہیں ہوتی۔ تعزیری سزائیں حالات کے تحت ہلکی سے ہلکی بھی کی جاسکتی ہیں اور سخت سے سخت بھی اور یہ اختیار بھی ہے کہ انہیں معاف کردیا جائے اور حدود میں کسی حکومت‘ امیر اورحاکم کو نہ معاف کرنے کا اختیار ہے اور نہ ہی کسی قسم کے رد وبدل اور تغیر کا۔

تعزیر کے سلسلہ میں ایک وضاحت
جن جرائم میں شریعت نے سزا متعین نہیں فرمائی‘ ان میں دو صورتیں ہیں: ایک یہ کہ قاضی کے اختیار میں دیدیا جائے کہ وہ ہر زمانہ‘ ہر مکان اور ماحول کے لحاظ سے جیسی اور جتنی سزا انسداد جرم کے لئے ضروری سمجھے وہ جاری کرے۔ دوسرے یہ کہ اسلامی حکومت شرعی قواعد کا لحاظ کرتے ہوئے قاضیوں کے اختیارات پر کوئی پابندی لگادے اور جرائم کی سزاؤں کا کوئی خاص پیمانہ مقرر کردے‘ دونوں صورتیں جائز ہیں ‘ لیکن دوسری صورت آج کل کے حالات کے پیش نظر زیادہ بہتر ہے۔
ایک شبہ کا ازالہ
بعض حضرات کا شبہ ہے کہ جب قرآن وسنت میں مقررہ حد کا نفاذ نہ ہو سکے‘ یعنی حد کسی شبہ یا کسی شرط کے فقدان کی وجہ سے ساقط ہوجائے تو مجرم کو کھلی چھٹی مل جائے گی‘ جس سے اس کو جرم پر اور جرأت پیدا ہوگی اور جرائم بڑھتے چلے جائیں گے۔ یہ شبہ عام طور پر بیان کیا جاتاہے‘ لیکن اس کا جواب یہ ہے کہ حد کے عدم نفاذ سے یہ سمجھنا کہ مجرم کو کھلی چھٹی مل جائے گی‘ صحیح نہیں۔ کیونکہ اس صورت میں حاکم اسے مناسب تعزیری سزا دے سکتا ہے اور تعزیری سزا عموماً بدنی اور جسمانی سزائیں ہیں جو عبرت انگیز ہونے کی وجہ سے انسداد جرائم کا سبب بن سکتی ہیں۔ مثلاً: زنا کے ثبوت پر صرف تین گواہ ہیں اور گواہ بھی عادل اور ثقہ ہیں جن پر جھوٹ کا شبہ نہیں ہوسکتا‘ مگر از روئے قانون شرعاً چوتھا گواہ نہ ہونے کی وجہ سے اس پرحد شرعی جاری نہیں ہوگی‘ لیکن اس صورت میں بھی مجرم کو یوں نہیں چھوڑدیا جائے گا‘ بلکہ حاکم وقت اس کو مناسب سزا دے گا جو کوڑے لگانے کی صورت میں بھی ہوسکتی ہے جس سے آئندہ یہ شخص جرم پر بے باک نہیں ہوگا۔ اسی طرح چوری کے لئے جو شرائط مقرر ہیں ان میں کمی یا شبہ کی وجہ سے اگر مجرم پر حدِ شرعی یعنی قطع ید کی سزا نافذ نہ ہو سکے تو اسے بھی حسب حال دوسری مناسب سزا دی جاسکتی ہے۔ اسی طرح اگر قصاص ساقط ہوجائے تو اس سے یہ ہرگز لازم نہیں آتا کہ مجرم کو کھلی چھٹی دے دی جائے گی‘ کیونکہ حاکم تعزیری سزا دے سکتا ہے۔ اس پر یہ شبہ کہ اگر خود مجرم کو اولیاء مقتول معاف کردیں تو قاتل کو جرأت بڑھ جائے گی‘ صحیح نہیں‘ کیونکہ قاتل کی جان لینا ولی مقتول کا حق تھا‘ وہ اس نے معاف کردیا‘ لیکن دوسرے لوگوں کی جانوں کی حفاظت کی جو ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے‘ وہ اس کے تحفظ کے لئے قاتل کو عمر قید یا دوسری سزا دے کر اس خطرہ کا انسداد کر سکتی ہے۔

سرقہ کی اصطلاحی تعریف اور شرائط
قاموس میں ہے کہ: کوئی شخص کسی دوسرے کا مال کسی محفوظ جگہ سے بغیر اس کی اجازت کے چھپ کر لے لے ‘اس کو سرقہ کہتے ہیں۔ اس تعریف کے صادق آنے کے لئے درج ذیل شرطوں کا پایا جانا ضروری ہے:
اول: یہ کہ وہ مال کسی فرد یا جماعت کی ذاتی ملکیت ہو‘ چرانے والے کی اس میں نہ ملکیت ہو‘ نہ ملکیت کا شبہ ہو اور نہ ایسی چیزیں ہوں جن میں عوام کے حقوق مساوی ہیں‘ جیسے رفاہ عامہ کے ادارے اور ان کی اشیاء۔
اس سے معلوم ہوا کہ اگرکسی شخص نے کوئی ایسی چیز لے لی جس میں اس کی اپنی ملکیت یا ملکیت کا شبہ تھا یا ایسی چیز ہے جس میں عوام کے حقوق مساوی ہیں تو حد سرقہ اس پر جاری نہ کی جائے گی‘ البتہ حاکم وقت اپنی صوابدید کے مطابق تعزیر کے طور پر مناسب سزا جاری کرسکتا ہے۔
دوم: یہ کہ وہ مال محفوظ ہو یعنی مقفل مکان کے ذریعہ یا کسی نگران چوکیدار کے ذریعہ محفوظ ہو‘ جو مال کسی محفوظ جگہ میں نہ ہو اس کو کوئی شخص اٹھالے تو وہ بھی حد سرقہ کا مستوجب نہیں ہوگا اور اگر مال کے محفوظ ہونے میں شبہ ہوجائے تب بھی حدسرقہ ساقط ہوجائے گی‘ گناہ اور تعزیری سزا الگ چیز ہے۔
سوم: یہ کہ بلااجازت ہو‘ جس مال کے لینے یا اٹھاکر استعمال کرنے کی اجازت دے رکھی ہو وہ اس کو لے جائے تو حد سرقہ عائد نہیں ہوگی اور اگر اجازت کا شبہ پیدا ہوجائے تب بھی حد سرقہ ساقط ہو جائے گی۔
چہارم: چھپا کر لینا‘ کیونکہ دوسرے کا مال علانیہ لوٹا جائے تو وہ سرقہ نہیں بلکہ ڈاکہ ہے‘ لہذا اگر خفیہ نہ ہو تو حد سرقہ اس پر جاری نہ ہوگی۔ تشریح
مذکورہ بالا شرائط سے واضح ہے کہ شریعت اسلامیہ میں قطع ید (ہاتھ کاٹنے) کی سزا مطلقاً ہر چوری پر عائد نہیں ہوتی‘ جسے عرف عام میں چوری کہا جاتاہے‘ بلکہ سرقہ جس پر سارق کا ہاتھ کاٹا جاتاہے اس کی ایک مخصوص تعریف ہے کہ: کسی کا مال محفوظ جگہ سے سامان حفاظت توڑ کرناجائز طور پر خفیہ طریقہ سے نکال لیا جائے۔ اس تعریف کی رو سے بہت سی صورتیں جن کو عرفاً چوری کہا جاتاہے‘ حد سرقہ کی تعریف سے نکل جاتی ہیں‘ مثلاً محفوظ مکان کی شرط سے معلوم ہوا کہ عام پبلک مقامات: مثلاً مسجد‘ عیدگاہ‘ پارک‘ کلب‘ اسٹیشن‘ ویٹنگ روم‘ ریل‘ جہاز وغیرہ میں عام جگہوں پر رکھے ہوئے مال کی کوئی چوری کرے یا درختوں پر لگے ہوئے پھل چرالے یا شہد کی چوری کرے تو اس پر حد سرقہ جاری نہیں ہوگی ‘ بلکہ عام ممالک کے قوانین کی طرح تعزیری سزا دی جائے گی۔ اسی طرح وہ آدمی جس کو آپ نے اپنے گھر میں داخل ہونے کی اجازت دے رکھی ہے خواہ وہ آپ کا نوکر ہو یا مزدور ومعمار ہو یا کوئی دوست‘ عزیز ہو وہ اگر آپ کے مکان سے کوئی چیز لے جائے تو وہ اگرچہ عرفی چوری میں داخل اور تعزیری سزا کا مستحق ہے‘ مگر ہاتھ کاٹنے کی شرعی سزا اس پر جاری نہ ہوگی‘ کیونکہ وہ آپ کے گھر میں آپ کی اجازت سے داخل ہوا‘ اس کے حق میں حفاظت مکمل نہیں۔اسی طرح اگر کسی نے کسی کی جیب کاٹ لی یا ہاتھ سے زیور یا نقد چھین لیا یا دھوکہ دے کر وصول کرلیا یا امانت لے کردینے سے انکار کردیا مگر گیا یہ سب چیزیں حرام وناجائز اور عرفی چوری میں ضرور داخل ہیں مگر چونکہ شرعی سرقہ کی تعریف میں داخل نہیں‘ اس لئے ان پر ہاتھ نہ کاٹا جائے گا‘ بلکہ ان سب کی سزا تعزیری ہے جو حاکم کی صوابدید پر موقوف ہے۔ اسی طرح کفن کی چوری کرنے والے کا ہاتھ نہ کاٹا جائے گا‘ کیونکہ اول تو وہ محفوظ جگہ نہیں اور وہ کفن میت کی ملکیت نہیں‘ ہاں اس کا یہ فعل سخت حرام ہے‘ اس پر تعزیری سزا حسب صوابدید حاکم جاری کی جائے گی۔اسی طرح اگر کسی نے ایک مشترک مال میں چوری کرلی جس میں اس کا بھی کچھ حصہ ہے‘ خواہ میراث کا مشترک مال تھا یا شرکت اور تجارت کا مال تھا تو اس صورت میں چونکہ لینے والے کی ملکیت کا بھی کچھ حصہ اس میں شامل ہے‘ اس ملکیت کے شبہ کی وجہ سے حد شرعی ساقط ہوجائے گی اور تعزیری سزا دی جائے گی۔ (تفصیلات کے لئے تفسیر معارف القرآن‘ مولفہ حضرت مفتی محمد شفیع صاحب دیوبندی کو ملاحظہ کیا جائے)

سنت کی روشنی میں سرقہ کی وضاحت
آیت قرآنی: ”السارق والسارقة“ سے معلوم ہورہا تھاکہ یہ حکم ہرقسم کے چور کے لئے عام ہے‘ خواہ اس نے ایک روپیہ چوری کیا ہو یا ایک لاکھ‘ لیکن سنت نے اس حکم میں تخصیص کی اور حکم دیا کہ نصاب سے کم مالیت کی چوری کرنے والے کا ہاتھ نہیں کٹے گا‘ گویا سنت نے آیت کے حکم کو صرف اس چور کے ساتھ مخصوص کردیا جس نے کم از کم نصاب کی مالیت چرائی ہو۔ اسی طرح مذکورہ آیت میں اس بات کی کوئی تفصیل نہیں تھی کہ چور کا ہاتھ کس زمانے میں کاٹا جائے اور کس زمانہ میں نہ کاٹا جائے۔سر کار دو عالم ا نے فرمایا کہ: قحط سالی کے زمانے میں چوروں کے ہاتھ نہ کاٹے جائیں‘ چنانچہ حضرت ابو امامہ سے مروی ہے:
”لاقطع فی زمن المجاع“۔(کنز العمال ج:۳‘ص:۷۹)
․․․”قحط سالی کے زمانہ میں ہاتھ کاٹنے کی سزا نہیں ہے“۔ اس حدیث کی بناء پر حضرت عمر نے زمانہٴ قحط میں یہ سزا موقوف فرمادی‘ اسی طرح قرآن کریم کے عام حکم میں ہر چوری داخل ہے خواہ وہ پھلوں ہی کی کیوں نہ ہو‘ لیکن آنحضرت ا نے فرمایا:”ولاقطع فی ثمر“۔ (کنز العمال ‘ج:۳‘ص:۷۹) عدالتی فیصلے ج:۱

حدود میں شہادت کی شرائط
حدود کے نفاذ میں شریعت اسلامیہ نے ضابطہٴ شہادت بھی عام معاملات سے ممتاز اور بہت محتاط بنایاہے‘ زنا کی سزا میں تو دو گواہوں کی بجائے چار گواہوں کو شرط قرار دے دیا اور وہ بھی جبکہ وہ ایسی عینی گواہی دیں جس میں کوئی لفظ مشتبہ نہ رہے۔ چوری وغیرہ کے معاملہ میں اگرچہ دوہی گواہ کافی ہیں‘ مگر ان دو کے لئے عام شرائط شہادت کے علاوہ کچھ مزید شرطیں بھی عائد کی گئی ہیں‘ مثلاً دوسرے معاملات میں مواقع ضرورت میں قاضی کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ کسی فاسق آدمی کے بارہ میں اگر قاضی کو اطمینان ہوجائے کہ عملی فاسق ہونے کے باوجودیہ جھوٹ نہیں بولتا تو قاضی اس کی گواہی کو قبول کرسکتا ہے‘ لیکن صرف حدود میں قاضی کو اس کی گواہی قبول کرنے کا اختیار نہیں‘ عام معاملات میں ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی پر فیصلہ کیا جاسکتا ہے‘ مگر حدود میں دو مردوں کی گواہی ضروری ہے۔ عام معاملات میں شریعت اسلام نے تمادی (مدت دراز گذر جانے) کو عذر نہیں قرار دیا‘ واقعہ کے کتنے ہی عرصہ کے بعد کوئی گواہی دے تو قبول کی جاسکتی ہے‘ لیکن حدود میں اگر فوری گواہی نہ دی‘ بلکہ ایک مہینہ یا اس سے زائد دیر کرکے گواہی دی تو وہ قابل قبول نہیں۔ ”بدائع الصنائع“ میں ہے:

اسلامی سزاؤں پر اعتراض کا جواب
اسلامی سزاؤں پر اہلِ یورپ اور ان کی تعلیم وتہذیب سے متأثر لوگوں کا یہ عام اعتراض ہے کہ یہ سزائیں سخت ہیں اور بعض ناعاقبت اندیش لوگ تو یہ کہنے سے بھی باز نہیں آتے کہ یہ سزائیں وحشیانہ اور شرافت انسانی کے خلاف ہیں۔ اس پروپیگنڈے کے جواب سے قبل یہ حقیقت پیش نظر رکھنی ضروری ہے کہ یہ اعتراض ان لوگوں کی طرف سے کیا جاتاہے جو تہذیب انسانی اور حقوق انسانی کے دعویدار ہیں اور اس کے باوجود وہ جرائم پیشہ لوگوں پر تو رحم کھاتے ہیں مگر پوری عالم انسانیت پر رحم نہیں کھاتے‘ جن کی زندگیوں کو ان جرائم پیشہ لوگوں نے اجیرن بنارکھا ہے‘ حالانکہ یہ روش سراسر عقل کے خلاف اور انصاف سے متصادم ہے‘ کیونکہ ایک مجرم پر ترس کھانا پوری انسانیت پر ظلم کے مترادف ہے‘ جب کہ امن عامہ کو مختل کرنے کا سب سے بڑا سبب بھی یہی ہے‘ اس لئے خالق کائنات رب العالمین جو نیک‘ بد‘ فاسق وفاجر‘ ابرار واشرار ہرایک کو رزق عطا کرتا ہے‘ سانپوں‘ بچھوؤں کو رزق دیتا ہے اور جس کی رحمت سب پر حاوی ہے‘ اس نے جب اپنی حکمت بالغہ کے تحت حدود کو بیان فرمایا تو ساتھ ہی یہ بھی فرمایا:
”ولاتأخذکم بہما رأفة فی دین الله“
یعنی اللہ تعالیٰ کی حدود کے جاری کرنے میں ہرگز ترس نہ کھانا چاہئے۔ اسی طرح قصاص کو عالم انسانی کی حیات قرار دیا اور فرمایا :
”ولکم فی القصاص حیٰوة یا اولی الالباب“۔
اس سے صاف واضح ہے کہ جرائم کا انسداد حدود اللہ کے نفاذ کے بغیر ممکن ہی نہیں‘ اب جو لوگ ان حدود پر اعتراض کرتے ہیں‘ معلوم ہوا کہ وہ یہ نہیں چاہتے کہ جرائم کا انسداد ہو‘ ورنہ جہاں تک رحمت وشفقت کا معاملہ ہے وہ شریعت اسلام سے زیادہ کوئی نہیں سکھا سکتا‘ جس نے عین میدان جنگ میں اپنے قاتل دشمنوں کا حق پہچانا اور حکم دیا کہ عورت اگر سامنے آجائے تو ہاتھ روک لو‘ اسی طرح بچہ سامنے آجائے تو بھی ہاتھ روک لیا جائے‘ بوڑھا سامنے آجائے تب بھی یہی حکم ہے‘ اسی طرح مذہبی عالم جو تمہارے مقابلہ پر قتل میں شریک نہ ہو‘ بلکہ اپنے طرز کی عبادت میں مشغول ہو‘ اس کو قتل نہ کرو۔ سب سے زیادہ عجیب بات یہ ہے کہ اسلامی سزاؤوں پر اعتراض کے لئے ان لوگوں کی زبانیں دراز ہورہی ہیں اٹھتی ہیں جن کے ہاتھ ابھی تک ہیروشیما کے لاکھوں ایسے بے گناہ اور بے قصور انسانوں کے خون سے رنگین ہیں جن کے دل میں شاید کبھی مقابلہ اور مقاتلہ کا تصور بھی نہ آیا‘ ان میں بچے‘ عورتیں اور بوڑھے سب ہی شامل ہیں اور پھر یہ وہی لوگ ہیں جن کی آتش غضب ہیروشیما کے حادثہ سے بھی ٹھنڈی نہیں ہوئی‘ بلکہ روز کسی نئے سے نئے بم بنانے اور اس کے تجربہ میں مشغول ہیں۔ اس کے بعد اگر ان حدود کا تحقیقی تجزیہ کیا جائے جو حق تعالیٰ نے مختلف سنگین قسم کے جرائم پر مقرر فرمائی ہیں تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ ان سنگین جرائم کے انسداد کا اس کے سوا کوئی حل ہی نہیں‘ یہ ایسے گھناؤ نے جرائم ہیں جو معاشرے کے لئے باعث ہلاکت ہیں جب تک ایسے مجرموں کو کیفر کردار تک نہیں پہنچایاجائے گا عالم میں کبھی امن پیدا نہیں ہوگا۔ ان جرائم کی سنگین نوعیت کے پیش نظر یہ سزائیں ہرگز ہرگز سخت نہیں ہیں‘ بلکہ یہ حکمت وعقل کے تقاضا اور اس کے عین مطابق ہیں۔ پھر جن مخصوص پانچ یا چھ جرائم کی سزائیں بطور حد مقرر ہیں ان میں بھی اگرچہ جرم کا ثبوت شریعت کے مقرر کردہ ضابطہٴ شہادت کے مطابق نہ ہو سکے یا جرم کے ثبوت کے بعد حد جاری کرنے کی شرائط مکمل نہ ہوں تو حد جاری نہیں ہوگی۔ اسی طرح اگر شبہ پڑجائے تب بھی حد ساقط ہو جائے گی‘ اگرچہ تعزیر پھر بھی جاری ہو سکے گی۔ اس سے واضح ہے کہ حدود میں بھی بہت سی صورتیں ایسی نکل آتی ہیں جہاں ان کا نفاذ نہیں ہوتا‘ بلکہ وہ تعزیری سزا میں منتقل ہوجاتی ہیں‘ لیکن جب کہیں تکمیل جرم تکمیل ثبوت کے ساتھ جمع ہو تب حد نافذ کی جاتی ہے اور ایسی عبرتناک سزا مجرم کو دی جاتی ہے جس کی ہیبت لوگوں کے قلب ودماغ پر مسلط ہوجائے اور اس جرم کے پاس جاتے ہوئے بھی بدن پر لرزہ پڑجائے جو ہمیشہ کے لئے انسدادِ جرائم اور امن عامہ کا ذریعہ بنتی ہے‘ جبکہ مروجہ تعزیری قوانین میں یہ سقم ہے کہ وہ جرائم پیشہ لوگوں کی نظر میں ایک کھیل سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے‘ اس لئے وہ جیل خانہ میں بیٹھے ہوئے بھی آئندہ اس جرم کو خوبصورتی سے کرنے کے پروگرام بناتے رہتے ہیں۔ جن اسلامی ممالک میں جرائم پر حدود نافذ ہیں ان کا جائزہ لینے سے یہ حقیقت روز روشن کی طرح کھل کر سامنے آتی ہے کہ وہاں نہ بہت سے افراد ہاتھ کٹے نظر آتے ہیں نہ برسہا برس تک سنگساری کا کوئی واقعہ پیش آتا ہے‘ اسلامی سزاؤں کا مسلمانوں کے قلوب پر اس قدر رعب اور دبدبہ ہے کہ وہاں چوری ‘ ڈاکہ اور بے حیائی کا نام نظر نہیں آتا‘ اس کی مثال میں مملکت اسلامیہ سعودیہ عربیہ کو پیش کیا جاسکتا ہے کہ وہاں دن میں پانچ مرتبہ ہر شخص دیکھتا ہے کہ دکانیں کھلی ہوئی ہیں‘ لاکھوں کا سامان ان میں پڑا ہوا ہے اور دکان کا مالک بغیر دکان بند کئے ہوئے نماز کے لئے حرم میں پہنچ جاتا ہے‘ اس کو یہ وسوسہ بھی نہیں ہوتا کہ اس کا مال دکان سے غائب ہوجائے گا‘ اس کی مثال دنیا کے کسی متمدن اور مہذب ملک میں پیش نہیں کی جاسکتی۔ (ملاحظہ ہو معارف القرآن: ج:۳‘ص:۱۳۳تا۱۳۷)
(مولانا مفتی سید عبد القدوس ترمذی)
اقتباس ۲۰۰۸ ماہنامہ بینات , رجب: ۱۴۲۹ھ اگست۲۰۰۸ء, جلد 71, شمارہ 7
 
Top