اسرار المشتاق :۔ منتخب کلام

راجہ صاحب

محفلین

آرزو ئے وصل جاناں میں سحر ہونے لگی
زندگی مانند شمع مختصر ہونے لگی

راز الفت کھل نہ جائے بات رہ جائے مری
بزم جاناں میں الہیٰ چشم تر ہونے لگی

اب شکیب دل کہاں حسرت ہی حسرت رہ گی
زندگی اک خواب کی صورت بسر ہونے لگی

یہ طلسم حسن ہے یا کہ مآل عشق ہے
اپنی ناکامی ہی اپنی راہ بر ہونے لگی

سن رہا ہوں آرہے ہیں وہ سر بالیں آج
میری آہ نارسا با اثرہونے لگی

ان سے وابستہ امیدیں جو بھی تھی وہ مٹ گئیں
اب طبیعت آپ اپنی چارہ گر ہونے لگی


وہ تبسم تھا کہ برق حسن کا اعجاز تھا
کائنات جان و دل زیر و زبر ہونے لگی

دل کی ڈھڑکن بڑھ گئی آنکھوں میں آنسو آگئے
غالباً میری طرف ان کی نظر ہونے گی

جب چلا مشتاق اپنا کارواں سوئے عدم
یاس ہم آغوش ہو کر ہم سفر ہونے لگی
 

راجہ صاحب

محفلین


نہیں زخم دل اب دکھانے کے قابل
یہ ناسور ہے بس چھپانے کے قابل

تیرے رو برو آوں کس منہ سے پیارے
نہیں اب رہا منہ دکھانے کے قابل

وفور غم یاس نے ایسا گھیر ا
نہ چھوڑا کہیں آنے جانے کے قابل

شب ہجر کی تلخیاں کچھ نہ پوچھو
نہیں داستاں یہ سنانے کے قابل

یہ ٹھکرا کے دل پھر کہا مسکرا کر
نہ تھا دل یہ دل سے لگانے کے قابل

جو دیکھا مجھے پھیر لیں اپنی آنکھیں
نہ جانا مجھے منہ لگانے کے قابل

تیری بزم میں سینکڑوں آئے بیٹھے
ہمی ایک تھے کیا اٹھانے کے قابل

یہ کافر نگاہیں یہ دلکش ادائیں
نہیں کچھ رہا اب بچانے کے قابل

دیار محبت کے سلطاں سے کہہ دو
یہ ویرا ں کدہ ہے بسانے کے قابل

کیا ذکر دل کا تو ہنس کر وہ بولے
نہیں ہے یہ د ل رحم کھانے کے قابل

نگاہ کرم یونہی رکھنا خدارا
نہ میں ہوں نہ دل آزمانے کے قابل

نشان کف پائے جاناں پہ یارب
ہمارا یہ سر ہو جھکانے کے قا بل

کبھی قبر مشتاق پر سے جو گزرے
کہا یہ نشاں ہے مٹانے کے قابل

 
Top