اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کی وجہ؟

جاسم محمد

محفلین
اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کی وجہ؟
13/04/2019 ڈاکٹر صغرا صدف


کسی کو تسلیم نہ کرنا اُس کی قابلیت، حیثیت اور موجودگی کو چیلنج کرنے کے مترادف ہوتا ہے۔ اگر معاملہ کسی ملک اور قوم کے تشخص کا ہو تو زیادہ شدید ہو جاتا ہے کیوں کہ جب کوئی ملک دنیا کے کسی ملک کو تسلیم کرنے سے انکار کرتا ہے تو وہ اس سے کھلم کھلا دشمنی کا اعلان کر کے اسے اپنے خلاف چوکس کر لیتا ہے۔ تسلیم نہ کرنے والا اپنے زعم میں رہتا ہے جب کہ دوسرا فریق اپنی بقا کے لئے ہر لمحہ سرگرم عمل رہتا ہے۔ بالکل یہی صورت حال پاکستان اور اسرائیل کی ہے۔ بظاہر ان دونوں ملکوں کے درمیان کوئی تنازعہ نہیں، نہ ہماری سرحدیں ملتی ہیں نہ کشمیر کا سا کوئی مسئلہ ہمارے درمیان حائل ہے پھر بھی دونوں ملکوں کو ایک خوفناک قسم کی رنجش درپیش ہے جو دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔ کچھ ہمارے بلند و بانگ اعلانات اور بڑھکیں بھی دوسروں کو تحفظات میں مبتلا کر کے وار کرنے کا موقع فراہم کرتی ہیں۔

دنیا میں بے شمار ممالک ہیں جہاں ابھی تک مجھے جانے کا موقع اور وقت نہیں ملا مگر میں ان کے حوالے سے پریشان نہیں ہوں کیوں کہ مجھے یہ حوصلہ اور یقین ہے کہ جب چاہوں اس ملک کا ویزا لے کر وہاں جا سکتی ہوں لیکن جب سے میں نے اسرائیل کے حوالے سے ایک بہت منفرد سفرنامہ پڑھا اور پھر عزیز دوست بینا گوئندی کے گھر ڈاکٹر سہیل سے اسرائیل کی زیارت کی باتیں سنی ہیں۔ مجھے ایک عجیب بے بسی اور محرومی کا احساس ہونے لگا ہے۔ وہ سرزمین جہاں ہر جا تاریخ کے نوادرات اور عقیدت کے مجسّمے ایستادہ ہیں، جہاں کی دیوار گریہ پر لاکھوں لوگوں نے اپنے نام لکھ کر منتیں مرادیں باندھی ہوئی ہیں۔ اس تک ہماری رسائی نہیں۔ اسرائیل یعقوب علیہ السلام کا لقب ہے جس کا مطلب عبداللہ یعنی خدا کا بندہ ہے اور ان کی اولاد بنی اسرائیل کہلاتی ہے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کو مسلمان، عیسائی اور یہودی سب نبی مانتے ہیں۔

پاکستانی پاسپورٹ پر درج اسرائیل کے علاوہ تمام ممالک کے لئے ویلڈ (valid) کا جملہ میرا منہ چڑاتا ہے اور بہت سے سوالات میرے سامنے آلتی پالتی مار کر بیٹھ جاتے ہیں۔ میں ابھی تک یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ آج کے ترقی یافتہ دور میں کن دلائل اور وجوہات کے باعث اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کا جواز باقی رہ گیا ہے۔ اگر اسرائیل اور فلسطین کے تنازعے کے پس منظر میں اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کو جواز بنایا جائے تو فلسطینی ہم سے زیادہ ہندوستان کو اپنا حمایتی سمجھتے ہیں۔ کئی بار ہندوستان کے ساتھ یکجہتی کے سلسلے میں وہ اپنا سفیر تک پاکستان سے واپس بلا چکے ہیں۔ اگر اسی بات کو بنیاد بنایا جائے تو پھر ہمیں ہندوستان کو بھی نہیں تسلیم کرنا چاہئے کیوں کہ کشمیر میں ڈھایا جانے والا ظلم و ستم فلسطین کے مقابلے کئی گنا زیادہ اور شدید نوعیت کا ہے۔ ہندوستان ہمارے اندرونی معاملات میں دخل دیتا رہتا ہے۔ ہمارے ہمسایہ ممالک کے ساتھ مل کر ریشہ دوانیاں جاری رکھتا ہے۔ سرحدی جھڑپوں میں معصوم لوگ جان سے جاتے ہیں مگر ہم پھر بھی امن اور اچھی ہمسائیگی کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔

یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ فلسطین کی آزادی صرف مسلمانوں کا مسئلہ نہیں۔ یاسرعرفات کے کئی حریت پسند ساتھی عیسائی تھے اور ابھی بھی وہ مشترکہ جدوجہد میں شامل ہیں۔ ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ اسرائیل نے فلسطین پر قبضہ نہیں کیا بلکہ فلسطینیوں سے زمین خرید کر وہاں اپنے قدم جمائے ہیں۔ اس طرح تو غلطی فلسطینیوں کی بھی ہے کہ انہوں نے خود ایسے مواقع پیدا کئے ہیں۔ بنی اسرائیل اور مسلمانوں میں مذہبی، تاریخی اور عقیدت کے حوالے سے بہت سی باتیں مشترک ہیں۔ مثلاً دونوں اہل کتاب ہیں اور دونوں کے درمیان مذہب تبدیل کئے بغیر شادی ہو سکتی ہے۔

بنی اسرائیل کا تذکرہ قرآن میں سب سے زیادہ ہے۔ یہودیت اسلام کی طرح الہامی مذہب ہے۔ سب سے زیادہ انبیاء بنی اسرائیل میں آئے۔ مسجد اقصیٰ کے قریب کئی انبیاء کی قبور ہیں۔ مسلمانوں اور یہودیوں کا جدِ امجد ایک ہے۔ مسلمان ہر عبادت میں حضرت ابراہیم علیہ السلام پر درود بھیجتے ہیں مگر عملی حوالے سے مختلف رویہ اختیار کرتے ہیں۔ اسی طرح دونوں میں ذبیحہ اور ”وحدانیت“، کے عقائد بھی مشترک ہیں۔ اتنے سارے اشتراکات کے ساتھ ساتھ مجھے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی ہر وجہ نظر آتی ہے مگر تسلیم نہ کرنے کا کوئی جواز میرے پاس نہیں۔

اسلام اجتہاد کا درس دیتا ہے۔ زمانے کے رنگ ڈھنگ کے ساتھ بدلنے کا حق بخشتا ہے۔ قرآنی آیات کو وسیع تر تناظر میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اسلام محدودیت اور زمانے سے کٹنے کا قائل نہیں۔ وقتی معاملات کے حوالے سے نازل ہونے والی آیات کو اسی تناظر میں لینا چاہئے کیوں کہ آج یہود و نصاریٰ نہیں بلکہ مسلمانوں کے مختلف فرقے ایک دوسرے سے دست و گریباں ہیں اور ایک دوسرے کو کفر کی سندیں جاری کرتے رہتے ہیں۔

سعودی عرب سمیت دیگر عرب اور اسلامی ممالک کے اسرائیل کے ساتھ انتہائی دوستانہ تعلقات ہیں، مسئلہ صرف پاکستان کو ہے۔ اس وقت دنیا میں زیادہ تر ایجادات کا سہرا یہودی قوم کے سر ہے جن سے ہم الحمدللہ پورے جوش و جذبے سے مستفید ہوتے ہیں۔ ہماری مساجد سے لے کر بیت اللہ تک میں ان کی ایجادات کے باعث روشنی ہے۔ اگر ہم فتووں اور نعروں سے خوفزدہ ہو کر اسرائیل کو تسلیم نہیں کر سکتے تو پھر ہمیں اسرائیل کو اپنے گھر سے بھی نکالنا ہو گا۔ ہمیں اپنی سواری سے بھی دستبردار ہونا پڑے گا، اپنے ذرائع ابلاغ سے بھی بغاوت کا اعلان کرنا پڑے گا بلکہ ہر اُس شے کو ترک کرنا ہو گا جس کی پیشانی پر ان کا نام اور جدوجہد درج ہے۔

دنیا کے گلوبل امیج میں سفارتی تعلقات کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اسرائیل صرف ایک ملک کا نام نہیں بلکہ ان کے خیر خواہ دنیا کے تمام طاقتور ملکوں میں موجود ہیں۔ ہمیں جوش و جذبات کی بجائے عقل و فراست سے سب سے اپنے تعلقات بہتر کر کے پاکستان کو معتبر ملک بنانا ہے۔ موجودہ حکومت نے جہاں اور بہت سے جرات مندانہ اقدامات کئے ہیں اسے اسرائیل کو بھی تسلیم کر کے دنیا کے ساتھ مفاہمت کا سفر آغاز کرنا چاہئے اور اپوزیشن اور مذہبی جماعتوں کو بھی اس مسئلے پر سیاست نہیں کرنی چاہئے کیوں کہ معاملہ مذہب کا نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو تمام اسلامی ممالک ہمارے ساتھ کھڑے ہوتے مگر ماشاءاللہ ہمارے ہمسائے بھی ہمارے ساتھ نہیں۔ تنہائی سے نکلنے اور معاشی استحکام کی خاطر ہمیں سخت فیصلے کرنے پڑیں گے۔

ہو سکتا ہے اسرائیل میں بہت برائیاں ہوں، اُس سے ہمارے نظریاتی، سیاسی اور دیگر اختلافات موجود ہیں مگر کیا باقی پوری دنیا دودھ کی دُھلی ہے۔ کیا اُن سے ہماری سو فیصد نظریاتی ہم آہنگی ہے جنہیں ہم نے منظور کر رکھا ہے۔ سوچنے کی بات ہے۔ میں اُس مقدس سرزمین کی زیارت کرنا چاہتی ہوں جسے کبھی حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت اسحاق علیہ السلام اور حضرت یعقوب علیہ السلام جیسے عظیم اور جلیل القدر انبیاءکے قدموں کا لمس نصیب ہوا تھا۔ میں اُن ہواﺅں میں سانس لینا چاہتی ہوں جس میں ابھی تک روحانی سرشاری برقرار ہے، میں اس منظر کا حصہ بن کر تصور میں تاریخ کو حرکت کرتے محسوس کرنا چاہتی ہوں جس میں جادوئی کشش ہے اور میں دیوارِ گریہ کے پاس بیٹھ کر کھُل کر رونا چاہتی ہوں۔ اُس سرزمیں پر اپنے اشک نچھاور کر کے نیکی اور خیر کے بیجوں کو سر اٹھانے کی درخواست کرنا چاہتی ہوں۔ آخر مجھے اجازت کیوں نہیں کہ میں اُن انبیاءکے مزاروں پر جا سکوں جن کا ذکر قرآن میں بھی ہے اور جن کی نسبت میرے نبی ﷺ سے بھی ہے؟
 

فاخر رضا

محفلین
فلسطین سر زمین مسلمین
اسرائیل کا وجود تسلیم نہیں
قائد اعظم محمد علی جناح یہی کہتے ہیں
پاکستان میں اسرائیل کو کبھی تسلیم نہیں کیا جائے گا چاہے فلسطینی بک جائیں اور اس کو تسلیم کر لیں
اسرائیل illegitimate ریاست ہے اسے تسلیم نہیں کیا جا سکتا
 

فاخر رضا

محفلین
اگر کسی کو اسرائیل کی زیارت کا زیادہ شوق ہے تو پاکستان کی قومیت سے دستبردار ہوکر انڈیا کی قومیت لے لے. کس نے روکا ہے پھر دل بھر کر زیارت کرے
 

فلسفی

محفلین
اگر کسی کو اسرائیل کی زیارت کا زیادہ شوق ہے تو پاکستان کی قومیت سے دستبردار ہوکر انڈیا کی قومیت لے لے. کس نے روکا ہے پھر دل بھر کر زیارت کرے
غالبا اس کا ایک دوسرا طریقہ بھی ہے۔ تفصیل معلوم نہیں لیکن کہیں پڑھا تھا کہ اردن سے شاید عارضی پاسپورٹ لے کر اسرائیل جاسکتے ہیں۔ واللہ اعلم

میرے خیال میں اسرائیل کو چاہیے کہ اپنے پیٹی بھائیوں (جن کے پاکستانی پاسپورٹ پر خاص نشانہ ہوتی ہے) کے لیے بغیر پاسپورٹ کے انٹری کا کوئی قانون بنائے تاکہ ڈھکی چھپی محبت کا اعلان ہوسکے۔ :p
 

جاسم محمد

محفلین
غالبا اس کا ایک دوسرا طریقہ بھی ہے۔ تفصیل معلوم نہیں لیکن کہیں پڑھا تھا کہ اردن سے شاید عارضی پاسپورٹ لے کر اسرائیل جاسکتے ہیں۔ واللہ اعلم
جی، مصر اور اردن نے ہمسایہ ملک اسرائیل کو یکے بعد دیگرے جنگوں کے بعد 1979 اور 1994 میں تسلیم کر لیا تھا۔ یوں سفارتی تعلقات بحال ہونے پر ان مسلم ممالک کے شہری اسرائیل آجا سکتے ہیں۔ اسی طرح اسرائیلی شہری بھی با آسانی مصر اور اردن جا سکتے ہیں۔ ہمسایہ ممالک سے امن معاہدہ اور سفارتی تعلقات کی بحالی کے بعد اسرائیل ان دونوں مسلم ممالک کی سالمیت کیلئے کوئی خطرہ نہیں رہا ہے۔ البتہ جو ممالک اسرائیل سے مسلسل جنگ کر رہے ہیں ان کی وہ اکھاڑ بھی رہا ہے اور بجا بھی رہا ہے۔ اور یہ سلسلہ جاری رہے گا جب تک اسرائیل کو آزاد و خودمختار ملک تسلیم نہیں کر لیا جاتا :)
 

فلسفی

محفلین
اسی طرح اسرائیلی شہری بھی با آسانی مصر اور اردن جا سکتے ہیں۔ ہمسایہ ممالک سے امن معاہدہ اور سفارتی تعلقات کی بحالی کے بعد اسرائیل ان دونوں مسلم ممالک کیلئے کوئی خطرہ نہیں رہا۔
اسی لیے صدر مرسی کی حکومت کا خاتمہ کروایا تھا، شورش تو اردن میں بھی اٹھی تھی پھر معاملات طے ہو گئے تھے :)
لہذا اسرائیل پر شرافت لبادہ ڈالنے کا کوئی فائدہ نہیں۔
البتہ جو ہمسایہ ممالک اسرائیل سے مسلسل جنگ کر رہے ہیں ان کی وہ اکھاڑ بھی رہا ہے اور بجا بھی رہا ہے۔ :)
زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں وہ وقت آنے والا ہے جب ان بدبخت یہودیوں کو کہیں پناہ نہیں ملے گی سوائے ایک درخت کے، آپ تو اچھی طرح جانتے ہوگے۔ :whistle:
 

جاسم محمد

محفلین
اسی لیے صدر مرسی کی حکومت کا خاتمہ کروایا تھا، شورش تو اردن میں بھی اٹھی تھی پھر معاملات طے ہو گئے تھے :)
آپ کو اچھی طرح معلوم ہے کہ صدر مرسی مصر-اسرائیل امن معاہدہ ختم کر کے اسرائیل کے دشمن ایران سے تعلقات بڑھانے چاہتے تھے۔ جس سے خطے میں ایک نئی عظیم جنگ چھڑ سکتی تھی۔ دونوں اطراف لاکھوں جانوں کا زیاں اور اس جنگ کا نتیجہ پھر وہی 1979 کی طرح امن معاہدہ پر ختم ہونا تھا۔
اس متوقع جنگ سے بچنے کیلئے مصری فوج نے صدر مرسی کا تختہ اُلٹ دیا۔
 

جاسم محمد

محفلین
زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں وہ وقت آنے والا ہے جب ان بدبخت یہودیوں کو کہیں پناہ نہیں ملے گی سوائے ایک درخت کے، آپ تو اچھی طرح جانتے ہوگے۔ :whistle:
وہ وقت پتا نہیں کب آنا ہے۔ 70 سال سے تو اسرائیل ہی مسلمانوں کی بجا رہا ہے :)
 

فلسفی

محفلین
وہ وقت پتا نہیں کب آنا ہے۔ 70 سال سے تو اسرائیل ہی مسلمانوں کی بجا رہا ہے :)
کیا خوب انداز گفتگو ہے۔

جب اللہ پاک چاہیں گے تو وہ وقت ضرور آئے گا جس کا ہمیں آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کی روشنی میں ایسے ہی یقین ہے جیسے جھوٹے نبوت کے دعوےداروں کے دوزخی ہونے کے بارے میں یقین ہے۔ (الحمد للہ)
 

فرقان احمد

محفلین
کئی مسلم ممالک نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا ہے۔ اس کی کوئی وجہ تو رہی ہو گی۔ :) کیا مسئلہء فلسطین واقعی ختم ہو چکا ہے؟ کیا کئی ملکوں نے اس مسئلے کے حوالے سے اصولی موقف اختیار نہیں کیا تھا؟ کیا ان ممالک میں بسنے والے افراد کے کوئی احساسات و جذبات نہیں؟ :) آپ اسرائیل کے ظلم و ستم کو دفاعی حکمت عملی تصور کرتے ہیں حالانکہ اس سے بالکل اُلٹ اور متضاد سوچ رکھنے والے افراد بھی اس دنیا میں موجود ہیں ۔۔۔!
 

جاسم محمد

محفلین
جب اللہ پاک چاہیں گے تو وہ وقت ضرور آئے گا
بقول اسرائیلیوں کے یہودی قبائل کا دنیا بھر سے اسرائیل میں دوبارہ آباد ہونا بھی خدا کا ایک وعدہ تھا جو پورا ہوا۔ اور اس کے ثبوت کیلئے وہ قرآن کریم سے بنی اسرائیل کی یہ آیت پیش کرتے ہیں:


اب کون بہتر تشریح کر رہا ہے۔ وہ وقت ثابت کر دے گا :)
 

جاسم محمد

محفلین
کئی مسلم ممالک نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا ہے۔ اس کی کوئی وجہ تو رہی ہو گی۔ :) کیا مسئلہء فلسطین واقعی ختم ہو چکا ہے؟
فلسطین سر زمین مسلمین
اسرائیل کا وجود تسلیم نہیں
قائد اعظم محمد علی جناح یہی کہتے ہیں
پاکستان میں اسرائیل کو کبھی تسلیم نہیں کیا جائے گا چاہے فلسطینی بک جائیں اور اس کو تسلیم کر لیں
اسرائیل illegitimate ریاست ہے اسے تسلیم نہیں کیا جا سکتا
اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کا تعلق مسئلہ فلسطین سے نہیں ہے۔ کیونکہ یہ لوگ اس وقت تک خوش نہ ہوں گے جب تک اسرائیل کا وجود مکمل طور پر ختم نہیں ہوجاتا۔ ان کو خطے میں صرف مسلمین چاہئے، یہود نہیں۔ یہ ہے بنیادی مسئلہ :)
 

آصف اثر

معطل
کسی بھی مسلم ملک کے مشکوک اور قابض حکمرانوں کا اسرائیل کو تسلیم کرنا کوئ معنی نہیں رکھتا۔ یہ سازباز صرف ان کے درمیان ہے۔ اس کا مسلم امہ سے کوئی تعلق نہیں۔
اسرائیل کو تو مسلمان کیا تسلیم کریں گے خود سمجھدار اور دور اندیش یہودی بھی اس صہیونی لابی کے خلاف سرگرمی سے متحرک ہیں۔ تاکہ یہ زمین اتنی جلدی بھی یہودیوں کا مذبح خانے نہ بنے۔ ان کے بقول ابھی ہم نے دیکھا ہی کیا ہے؟:) کیوں کہ جتنی یہ قوم اس زمین پر مجتمع ہوگی اتنی ہی جلدی یہ نافرمان اور سازشی قوم اپنے منطقی انجام کو پہنچے گی۔
 

جاسم محمد

محفلین
کسی بھی مسلم ملک کے مشکوک اور قابض حکمرانوں کا اسرائیل کو تسلیم کرنا کوئ معنی نہیں رکھتا۔
مسلم ممالک میں قابض حکمرانوں کو جانچنے کا یہ اچھا پیمانہ ڈھونڈ نکالا ہے۔ اس پیمانہ کے مطابق ایرانی حکمران قابض نہیں ہیں کیونکہ وہ اسرائیل کے وجود کے سخت خلاف ہیں۔ اور کسی صورت اسے تسلیم نہیں کرتے :)
 

جاسم محمد

محفلین
کیوں کہ جتنی یہ قوم اس زمین پر مجتمع ہوگی اتنی ہی جلدی یہ نافرمان اور سازشی قوم گاجر مولی بنے گی۔
یہودیوں کی گاجر مولی کرنے کیلئے ہمسایہ عرب ممالک نے تین بڑی جنگیں لڑی ہیں۔ اب تک کے نتائج:
  • 1948 :اسرائیل کی آزادی کی جنگ۔ نتیجہ: النکبہ یعنی لاکھوں فلسطینیوں کی خطے سے بے دخلی
  • 1967: 6 روزہ جنگ۔ نتیجہ: النکسہ یعنی ہمسایہ عرب ممالک کی مکمل پسپائی۔ شام کی گولانی پہاڑیاں، اردن کا مغربی کنارہ اور مصر کا جزیرہ نما سینا اسرائیل کے قبضہ میں چلا گیا۔
  • 1973: یوم کپور جنگ۔ نتیجہ : مصر نے اپنے مقبوضہ علاقے واپس کرنے کے عوض اسرائیل سے امن معاہدہ کر کے اسے تسلیم کر لیا۔ شام نے کوئی معاہدہ نہیں کیا اور جنگ جاری رکھی۔ نتیجہ اپنی گولانی پہاڑیاں کھو دیں۔ اردن نے فلسطین-اسرائیل امن معاہدہ کے بعد 1994 میں اسرائیل کو تسلیم کر لیا
 
آخری تدوین:

فرقان احمد

محفلین
اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کا تعلق مسئلہ فلسطین سے نہیں ہے۔ کیونکہ یہ لوگ اس وقت تک خوش نہ ہوں گے جب تک اسرائیل کا وجود مکمل طور پر ختم نہیں ہوجاتا۔ ان کو خطے میں صرف مسلمین چاہئے، یہود نہیں۔ یہ ہے بنیادی مسئلہ :)
ہماری دانست میں پاکستان نے اس حوالے سے جناح مرحوم کے وقت سے ایک اصولی موقف اختیار کر رکھا ہے اور اب تک ریاست پاکستان کا یہی موقف رہا ہے۔ مزید یہ کہ، پاکستان میں بسنے والے مسلم افراد بھی ریاست کی طرف سے اختیار کردہ اس موقف کی حمایت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اگر تمام عرب ریاستیں اور مسلم ممالک اسرائیل کو باقاعدہ طور پر تسلیم کر لیں گے تو شاید پاکستان بھی اپنے اصولی موقف سے رجوع کرے گا۔ اس کے بغیر، ہمیں کیا ضرورت پڑی ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرتے پھریں؟
 

آصف اثر

معطل
مسلم ممالک میں قابض حکمرانوں کو جانچنے کا یہ اچھا پیمانہ ڈھونڈ نکالا ہے۔ اس پیمانہ کے مطابق ایرانی حکمران قابض نہیں ہیں کیونکہ وہ اسرائیل کے وجود کے سخت خلاف ہیں۔ اور کسی صورت اسے تسلیم نہیں کرتے :)
افسوس کے آپ کا اندازہ درست نہیں۔
 
Top