جاسم محمد
محفلین
اسرائیلی انتخابات کی پانچ اہم باتیں
تصویر کے کاپی رائٹEPA
اسرائیل میں منگل کے روز عام انتخابات ہونے جا رہے ہیں جس میں وزیر اعظم بنیامین نتن یاہو اپنی سیاسی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
ان انتخابات اور ان کے متعلق توقعات کے بارے میں پانچ باتیں یہاں پیش کی جا رہی ہیں۔
1۔ برسوں بعد اسرائیل کے انتخابات میں کانٹے کے مقابلے کی توقع کی جا رہی ہے۔
بنیامین نتن یاہو پانچویں مرتبہ وزیر اعظم کے منصب کے لیے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں اور اگر وہ منتخب ہوجاتے ہیں تو وہ اسرائیل کے بانی ڈیوڈ بین گریون کو سب سے زیادہ مدت کے لیے وزیر اعظم رہنے والی فہرست میں پیچھے چھوڑ دیں گے۔
بہرحال بنیامین نتن یاہو پر بد عنوانی کے سنگین الزامات ہیں جس پر ان کی ایک آخری سماعت ہونی باقی اور ان کے سامنے برسوں بعد بینی گینٹز کی شکل میں ایک سخت حریف ہیں۔
بینی گینٹز اسرائیلی فوج کے سابق سربراہ رہ چکے ہیں مگر وہ سیاست میں ابھی نئے ہیں۔ وہ صاف شفاف سیاست کرنے کا عہد کرتے ہیں اور نتن یاہو کا مقابلہ سکیورٹی امور پر کر سکتے ہیں جو کہ انتخابات کا ایک اہم معاملہ ہے۔
اسرائیل کے 21ویں عام انتخابات میں 63 لاکھ سے زائد اسرائیلی ووٹ ڈالنے کے اہل ہیں۔
ان کی اعتدال پسند بلو اینڈ وائیٹ اتحاد کو جس کی تشکیل میں دو سابقہ فوجی سربراہان سمیت سابق ٹی وی میزبان یئیر لیپیڈ بھی شامل ہیں، عوامی رائے شماری میں بینیامن نتن یاہو کی لیکود جماعت پر معمولی سی برتری حاصل تھی مگر بعد میں صورتحال مکمل طور پر تبدیل ہوچکی ہے۔
تصویر کے کاپی رائٹREUTERS
Image captionاسرائیل کے 21ویں عام انتخابات میں 63 لاکھ سے زائد اسرائیلی ووٹ ڈالنے کے اہل ہیں
انتخابات میں کانٹے دار مقابلے کے باعث ایک جارحانہ انتخابی مہم جاری ہے جس میں بیشتر اوقات مدمقابل حریف ایک دوسرے کی ساکھ کو متاثر کرنے کے لیے گند بھی اچھالتے ہیں۔ اسرائیلی ووٹر عمومی طور پر امیدواروں کی شخصیت کی بنیاد پر ووٹ ڈالتے ہیں نہ کہ ان کی پالیسیوں پر۔
2۔ یہ ضروری نہیں کہ سب سے زیادہ نشستیں لینے والی جماعت کے رہنما ہی وزیر اعظم بنیں
اسرائیل کی تاریخ میں آج تک کوئی جماعت پارلیمان میں اکثریت حاصل نہیں کر سکی۔ ملک میں ہمیشہ مخلوط حکومتوں کا ہی قیام سامنے آیا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ زیادہ نشستیں حاصل کرنے والی جماعت کے امیدوار کا وزیر اعظم بننا لازمی نہیں ہوتا، بلکہ وہ شخص وزیر اعظم بنتا ہے جو کنیسٹ (اسرائيلی پارلیمان) میں 120 میں سے کم از کم 61 سیٹیں حاصل کرنے والی پارٹیوں کو ایک ساتھ لا کر ان کی حمایت حاصل کرتا ہے۔
تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionایسا بھی ہوسکتا ہے کہ سب سے زیادہ سیٹیں حاصل کرنے والی پارٹی حکومت سازی میں کامیاب نہ ہو
بعض تجزیوں میں یہ کہا جا رہا ہے کہ مسٹر گینٹز کے مقابلے میں مسٹر نتن یاہو کے امکانات زیادہ روشن ہیں کیونکہ وزیر اعظم کے دوسری دائیں بازو اور مذہبی جماعتوں سے قریبی رشتے ہیں۔
انہوں نے ایسی متنازعہ تبدیلیاں بھی متعارف کروائیں جن کے بعد انتہائی دائیں بازو کی جماعت کے ارکان کا پارلیمان میں داخلہ آسان ہو گیا ہے۔ اس جماعت پر نسل پرستی کا بھی الزام لگتا ہے۔
3۔ فلسطینوں کے ساتھ امن منصوبہ نمایاں نہیں
حالیہ ہفتوں کے دوران فلسطینی جنگجوؤں اور اسرائيل کے درمیان غزہ میں کشیدگی میں اضافہ دیکھا گیا ہے اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ انتخابات کے بعد اسرائيل اور فلسطین کے درمیان ایک زمانے سے جاری تنازع کو حل کرنے کا منصوبہ شائع کرنے والے ہیں۔
بہرحال امن کے عمل کی بحالی اس بار انتخابی بحث کا موضوع نہیں بنی۔ اسرائيلی عوام کو ’دو ریاستی حل‘ جیسے بین الاقوامی فارمولے میں کوئی امید نظر نہیں آتی۔
مسٹر نتن یاہو کا دائيں بازو کا برسراقتدرا اتحاد فلسطینی ریاست کے قیام کا کھل کر مخالف ہے اور وہ غرب اردن کے زیادہ تر مقبوضہ علاقے کو اسرائیل میں شامل کر لینا چاہتے ہیں۔
تصویر کے کاپی رائٹREUTERS
Image captionاسرائیل اور فلسطین امن اب ووٹروں میں مقبول امر نہیں ہے
بلو اینڈ وائٹ کے انتخابی پلیٹفارم سے فلسطین سے الگ ہونے کی بات تو ہو رہی ہے لیکن واضح طور پر انھیں ریاست دیے جانے کی بات نہیں کی گئی۔
یہ متحدہ یروشلم کو اسرائيل کے دارالحکومت کے طور پر دیکھتے ہیں حالانکہ فلسطینی شہر کے مشرقی حصے کو اپنے مستقبل کے دارالحکومت کے طور پر بیان کرتا ہے۔
بینی گينٹز کے اتحاد نے وادی اردن کے کنٹرول کو جاری رکھنے کی بات کہی ہے اور غرب اردن کی یہودی بستیوں کو اپنے قبضے میں رکھنے کی بات کہی ہے۔ خیال رہے کہ بین الاقوامی قانون کے تحت ان بستیوں کو غیر قانونی کہا جاتا ہے جبکہ اسرائیل اس سے اختلاف رکھتا ہے۔
اسرائیل کی لیبر پاٹی جس نے فلسطین کے ساتھ سنہ 1990 کی دہائی میں فلسطین کے ساتھ امن معاہدے میں پیش رفت کی تھی وہ اب ووٹروں میں مقبول نہیں۔
4۔ مختلف قسم کی آبادیوں کا کردار اہم
اسرائیل میں 63 لاکھ اہل ووٹر ہیں اور ان کے سماجی، نسلی اور مذہبی رجحانات انتخابات کے دن اہمیت کے حامل ہوں گے کہ وہ کس جانب ووٹ ڈالیں گے۔
اسرائيل کی ہاردیئي مذہبی آبادی کی تعداد دس لاکھ سے زیادہ ہے۔ روایتی طور پر یورپی نسل کے قدامت پسند اور مشرقی نسل کے یہودیوں نے اپنے مذہبی رہنماؤں کے ساتھ مشورے کے بعد ہی خاص پارٹیوں کو ووٹ دیا ہے۔ تاہم اب ان لوگوں میں بھی مرکزی دھارے کی جماعتوں کو ووٹ ڈالنے کا رجحان پیدا ہو رہا ہے۔ انتہائی قدامت پسند یہودیوں کے لیے سب سے اہم مسئلہ لازمی فوجی ٹریننگ ہے۔
تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionمذہب یہودیوں کو فوج میں خدمات انجام دینے سے استثنی دینے پر رائے منقسم ہے
اسرائیلی عرب ملک کی آبادی کا پانچواں حصہ ہیں لیکن سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ان میں سے نصف سے کم ہی ووٹ دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
سنہ 2015 میں عرب نسل کے ووٹروں کی ووٹنگ میں اضافہ دیکھا گیا۔ اس وقت چار پارٹیوں نے ’متحدہ عرب لسٹ‘ کے تحت انتخابات میں شمولیت اختیار کی تھی اور 13 سیٹیں حاصل کی تھیں۔لیکن اس بار یہ اتحاد ٹوٹ گیا ہے۔
5۔ کوئی چھپا رستم بھی کنگ میکر بن کر سامنے آ سکتا ہے
تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionگانجے اور چرس کو قانونی بنائے جانے کا مطالبہ
انتہائی قوم پرست آزادی پسند پارٹی زیہوت کے موشے فیگلن مستقبل کے اتحاد میں کنگ میکر کے روپ میں ابھر کر سامنے آ سکتے ہیں۔ اور سروے میں یہ کہا جا رہا ہے کہ وہ چار سیٹیں حاصل کر سکتے ہیں۔
مسٹر فیگلن کا کہنا ہے کہ انہیں بنیامین نتن یاہو اور بینی گینٹز میں سے کوئی بھی وزیر اعظم کے لیے زیادہ پسند نہیں ہیں۔
مسٹر فیگلن بھنگ گانجے وغیر کو قانونی بنائے جانے کے اپنے مطالبے کے لیے جانے جاتے ہیں لیکن ان کی پارٹی اصطفائیت پسندانہ ہے۔
فلسطین پر ان کا سخت موقف ہے اور وہ انھیں غرب اردن اور غزہ سے ترک وطن کرنے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔
وہ یروشلم میں الاقصی مسجد کی جگہ پر ایک تیسری یہودی عبادت گاہ کی تعمیر کی بات کرتے ہیں۔

تصویر کے کاپی رائٹEPA
اسرائیل میں منگل کے روز عام انتخابات ہونے جا رہے ہیں جس میں وزیر اعظم بنیامین نتن یاہو اپنی سیاسی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
ان انتخابات اور ان کے متعلق توقعات کے بارے میں پانچ باتیں یہاں پیش کی جا رہی ہیں۔
1۔ برسوں بعد اسرائیل کے انتخابات میں کانٹے کے مقابلے کی توقع کی جا رہی ہے۔
بنیامین نتن یاہو پانچویں مرتبہ وزیر اعظم کے منصب کے لیے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں اور اگر وہ منتخب ہوجاتے ہیں تو وہ اسرائیل کے بانی ڈیوڈ بین گریون کو سب سے زیادہ مدت کے لیے وزیر اعظم رہنے والی فہرست میں پیچھے چھوڑ دیں گے۔
بہرحال بنیامین نتن یاہو پر بد عنوانی کے سنگین الزامات ہیں جس پر ان کی ایک آخری سماعت ہونی باقی اور ان کے سامنے برسوں بعد بینی گینٹز کی شکل میں ایک سخت حریف ہیں۔
بینی گینٹز اسرائیلی فوج کے سابق سربراہ رہ چکے ہیں مگر وہ سیاست میں ابھی نئے ہیں۔ وہ صاف شفاف سیاست کرنے کا عہد کرتے ہیں اور نتن یاہو کا مقابلہ سکیورٹی امور پر کر سکتے ہیں جو کہ انتخابات کا ایک اہم معاملہ ہے۔
اسرائیل کے 21ویں عام انتخابات میں 63 لاکھ سے زائد اسرائیلی ووٹ ڈالنے کے اہل ہیں۔
ان کی اعتدال پسند بلو اینڈ وائیٹ اتحاد کو جس کی تشکیل میں دو سابقہ فوجی سربراہان سمیت سابق ٹی وی میزبان یئیر لیپیڈ بھی شامل ہیں، عوامی رائے شماری میں بینیامن نتن یاہو کی لیکود جماعت پر معمولی سی برتری حاصل تھی مگر بعد میں صورتحال مکمل طور پر تبدیل ہوچکی ہے۔

تصویر کے کاپی رائٹREUTERS
Image captionاسرائیل کے 21ویں عام انتخابات میں 63 لاکھ سے زائد اسرائیلی ووٹ ڈالنے کے اہل ہیں
انتخابات میں کانٹے دار مقابلے کے باعث ایک جارحانہ انتخابی مہم جاری ہے جس میں بیشتر اوقات مدمقابل حریف ایک دوسرے کی ساکھ کو متاثر کرنے کے لیے گند بھی اچھالتے ہیں۔ اسرائیلی ووٹر عمومی طور پر امیدواروں کی شخصیت کی بنیاد پر ووٹ ڈالتے ہیں نہ کہ ان کی پالیسیوں پر۔
2۔ یہ ضروری نہیں کہ سب سے زیادہ نشستیں لینے والی جماعت کے رہنما ہی وزیر اعظم بنیں
اسرائیل کی تاریخ میں آج تک کوئی جماعت پارلیمان میں اکثریت حاصل نہیں کر سکی۔ ملک میں ہمیشہ مخلوط حکومتوں کا ہی قیام سامنے آیا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ زیادہ نشستیں حاصل کرنے والی جماعت کے امیدوار کا وزیر اعظم بننا لازمی نہیں ہوتا، بلکہ وہ شخص وزیر اعظم بنتا ہے جو کنیسٹ (اسرائيلی پارلیمان) میں 120 میں سے کم از کم 61 سیٹیں حاصل کرنے والی پارٹیوں کو ایک ساتھ لا کر ان کی حمایت حاصل کرتا ہے۔

تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionایسا بھی ہوسکتا ہے کہ سب سے زیادہ سیٹیں حاصل کرنے والی پارٹی حکومت سازی میں کامیاب نہ ہو
بعض تجزیوں میں یہ کہا جا رہا ہے کہ مسٹر گینٹز کے مقابلے میں مسٹر نتن یاہو کے امکانات زیادہ روشن ہیں کیونکہ وزیر اعظم کے دوسری دائیں بازو اور مذہبی جماعتوں سے قریبی رشتے ہیں۔
انہوں نے ایسی متنازعہ تبدیلیاں بھی متعارف کروائیں جن کے بعد انتہائی دائیں بازو کی جماعت کے ارکان کا پارلیمان میں داخلہ آسان ہو گیا ہے۔ اس جماعت پر نسل پرستی کا بھی الزام لگتا ہے۔
3۔ فلسطینوں کے ساتھ امن منصوبہ نمایاں نہیں
حالیہ ہفتوں کے دوران فلسطینی جنگجوؤں اور اسرائيل کے درمیان غزہ میں کشیدگی میں اضافہ دیکھا گیا ہے اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ انتخابات کے بعد اسرائيل اور فلسطین کے درمیان ایک زمانے سے جاری تنازع کو حل کرنے کا منصوبہ شائع کرنے والے ہیں۔
بہرحال امن کے عمل کی بحالی اس بار انتخابی بحث کا موضوع نہیں بنی۔ اسرائيلی عوام کو ’دو ریاستی حل‘ جیسے بین الاقوامی فارمولے میں کوئی امید نظر نہیں آتی۔
مسٹر نتن یاہو کا دائيں بازو کا برسراقتدرا اتحاد فلسطینی ریاست کے قیام کا کھل کر مخالف ہے اور وہ غرب اردن کے زیادہ تر مقبوضہ علاقے کو اسرائیل میں شامل کر لینا چاہتے ہیں۔

تصویر کے کاپی رائٹREUTERS
Image captionاسرائیل اور فلسطین امن اب ووٹروں میں مقبول امر نہیں ہے
بلو اینڈ وائٹ کے انتخابی پلیٹفارم سے فلسطین سے الگ ہونے کی بات تو ہو رہی ہے لیکن واضح طور پر انھیں ریاست دیے جانے کی بات نہیں کی گئی۔
یہ متحدہ یروشلم کو اسرائيل کے دارالحکومت کے طور پر دیکھتے ہیں حالانکہ فلسطینی شہر کے مشرقی حصے کو اپنے مستقبل کے دارالحکومت کے طور پر بیان کرتا ہے۔
بینی گينٹز کے اتحاد نے وادی اردن کے کنٹرول کو جاری رکھنے کی بات کہی ہے اور غرب اردن کی یہودی بستیوں کو اپنے قبضے میں رکھنے کی بات کہی ہے۔ خیال رہے کہ بین الاقوامی قانون کے تحت ان بستیوں کو غیر قانونی کہا جاتا ہے جبکہ اسرائیل اس سے اختلاف رکھتا ہے۔
اسرائیل کی لیبر پاٹی جس نے فلسطین کے ساتھ سنہ 1990 کی دہائی میں فلسطین کے ساتھ امن معاہدے میں پیش رفت کی تھی وہ اب ووٹروں میں مقبول نہیں۔
4۔ مختلف قسم کی آبادیوں کا کردار اہم
اسرائیل میں 63 لاکھ اہل ووٹر ہیں اور ان کے سماجی، نسلی اور مذہبی رجحانات انتخابات کے دن اہمیت کے حامل ہوں گے کہ وہ کس جانب ووٹ ڈالیں گے۔
اسرائيل کی ہاردیئي مذہبی آبادی کی تعداد دس لاکھ سے زیادہ ہے۔ روایتی طور پر یورپی نسل کے قدامت پسند اور مشرقی نسل کے یہودیوں نے اپنے مذہبی رہنماؤں کے ساتھ مشورے کے بعد ہی خاص پارٹیوں کو ووٹ دیا ہے۔ تاہم اب ان لوگوں میں بھی مرکزی دھارے کی جماعتوں کو ووٹ ڈالنے کا رجحان پیدا ہو رہا ہے۔ انتہائی قدامت پسند یہودیوں کے لیے سب سے اہم مسئلہ لازمی فوجی ٹریننگ ہے۔

تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionمذہب یہودیوں کو فوج میں خدمات انجام دینے سے استثنی دینے پر رائے منقسم ہے
اسرائیلی عرب ملک کی آبادی کا پانچواں حصہ ہیں لیکن سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ان میں سے نصف سے کم ہی ووٹ دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
سنہ 2015 میں عرب نسل کے ووٹروں کی ووٹنگ میں اضافہ دیکھا گیا۔ اس وقت چار پارٹیوں نے ’متحدہ عرب لسٹ‘ کے تحت انتخابات میں شمولیت اختیار کی تھی اور 13 سیٹیں حاصل کی تھیں۔لیکن اس بار یہ اتحاد ٹوٹ گیا ہے۔
5۔ کوئی چھپا رستم بھی کنگ میکر بن کر سامنے آ سکتا ہے

تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionگانجے اور چرس کو قانونی بنائے جانے کا مطالبہ
انتہائی قوم پرست آزادی پسند پارٹی زیہوت کے موشے فیگلن مستقبل کے اتحاد میں کنگ میکر کے روپ میں ابھر کر سامنے آ سکتے ہیں۔ اور سروے میں یہ کہا جا رہا ہے کہ وہ چار سیٹیں حاصل کر سکتے ہیں۔
مسٹر فیگلن کا کہنا ہے کہ انہیں بنیامین نتن یاہو اور بینی گینٹز میں سے کوئی بھی وزیر اعظم کے لیے زیادہ پسند نہیں ہیں۔
مسٹر فیگلن بھنگ گانجے وغیر کو قانونی بنائے جانے کے اپنے مطالبے کے لیے جانے جاتے ہیں لیکن ان کی پارٹی اصطفائیت پسندانہ ہے۔
فلسطین پر ان کا سخت موقف ہے اور وہ انھیں غرب اردن اور غزہ سے ترک وطن کرنے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔
وہ یروشلم میں الاقصی مسجد کی جگہ پر ایک تیسری یہودی عبادت گاہ کی تعمیر کی بات کرتے ہیں۔