اسرائیلی انتخابات کی پانچ اہم باتیں

جاسم محمد

محفلین
اسرائیلی انتخابات کی پانچ اہم باتیں
_106341684_b67f7462-00da-45d4-8a59-6042c0f8752f.jpg

تصویر کے کاپی رائٹEPA
اسرائیل میں منگل کے روز عام انتخابات ہونے جا رہے ہیں جس میں وزیر اعظم بنیامین نتن یاہو اپنی سیاسی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔

ان انتخابات اور ان کے متعلق توقعات کے بارے میں پانچ باتیں یہاں پیش کی جا رہی ہیں۔

1۔ برسوں بعد اسرائیل کے انتخابات میں کانٹے کے مقابلے کی توقع کی جا رہی ہے۔
بنیامین نتن یاہو پانچویں مرتبہ وزیر اعظم کے منصب کے لیے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں اور اگر وہ منتخب ہوجاتے ہیں تو وہ اسرائیل کے بانی ڈیوڈ بین گریون کو سب سے زیادہ مدت کے لیے وزیر اعظم رہنے والی فہرست میں پیچھے چھوڑ دیں گے۔

بہرحال بنیامین نتن یاہو پر بد عنوانی کے سنگین الزامات ہیں جس پر ان کی ایک آخری سماعت ہونی باقی اور ان کے سامنے برسوں بعد بینی گینٹز کی شکل میں ایک سخت حریف ہیں۔

بینی گینٹز اسرائیلی فوج کے سابق سربراہ رہ چکے ہیں مگر وہ سیاست میں ابھی نئے ہیں۔ وہ صاف شفاف سیاست کرنے کا عہد کرتے ہیں اور نتن یاہو کا مقابلہ سکیورٹی امور پر کر سکتے ہیں جو کہ انتخابات کا ایک اہم معاملہ ہے۔

اسرائیل کے 21ویں عام انتخابات میں 63 لاکھ سے زائد اسرائیلی ووٹ ڈالنے کے اہل ہیں۔

ان کی اعتدال پسند بلو اینڈ وائیٹ اتحاد کو جس کی تشکیل میں دو سابقہ فوجی سربراہان سمیت سابق ٹی وی میزبان یئیر لیپیڈ بھی شامل ہیں، عوامی رائے شماری میں بینیامن نتن یاہو کی لیکود جماعت پر معمولی سی برتری حاصل تھی مگر بعد میں صورتحال مکمل طور پر تبدیل ہوچکی ہے۔
_106341685_0a9a8885-8609-46af-9079-e86ff46c444e.jpg

تصویر کے کاپی رائٹREUTERS
Image captionاسرائیل کے 21ویں عام انتخابات میں 63 لاکھ سے زائد اسرائیلی ووٹ ڈالنے کے اہل ہیں
انتخابات میں کانٹے دار مقابلے کے باعث ایک جارحانہ انتخابی مہم جاری ہے جس میں بیشتر اوقات مدمقابل حریف ایک دوسرے کی ساکھ کو متاثر کرنے کے لیے گند بھی اچھالتے ہیں۔ اسرائیلی ووٹر عمومی طور پر امیدواروں کی شخصیت کی بنیاد پر ووٹ ڈالتے ہیں نہ کہ ان کی پالیسیوں پر۔

2۔ یہ ضروری نہیں کہ سب سے زیادہ نشستیں لینے والی جماعت کے رہنما ہی وزیر اعظم بنیں
اسرائیل کی تاریخ میں آج تک کوئی جماعت پارلیمان میں اکثریت حاصل نہیں کر سکی۔ ملک میں ہمیشہ مخلوط حکومتوں کا ہی قیام سامنے آیا ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ زیادہ نشستیں حاصل کرنے والی جماعت کے امیدوار کا وزیر اعظم بننا لازمی نہیں ہوتا، بلکہ وہ شخص وزیر اعظم بنتا ہے جو کنیسٹ (اسرائيلی پارلیمان) میں 120 میں سے کم از کم 61 سیٹیں حاصل کرنے والی پارٹیوں کو ایک ساتھ لا کر ان کی حمایت حاصل کرتا ہے۔
_106341686_b71901cd-a3bf-48e1-8cd9-a1f8f09707ef.jpg

تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionایسا بھی ہوسکتا ہے کہ سب سے زیادہ سیٹیں حاصل کرنے والی پارٹی حکومت سازی میں کامیاب نہ ہو
بعض تجزیوں میں یہ کہا جا رہا ہے کہ مسٹر گینٹز کے مقابلے میں مسٹر نتن یاہو کے امکانات زیادہ روشن ہیں کیونکہ وزیر اعظم کے دوسری دائیں بازو اور مذہبی جماعتوں سے قریبی رشتے ہیں۔

انہوں نے ایسی متنازعہ تبدیلیاں بھی متعارف کروائیں جن کے بعد انتہائی دائیں بازو کی جماعت کے ارکان کا پارلیمان میں داخلہ آسان ہو گیا ہے۔ اس جماعت پر نسل پرستی کا بھی الزام لگتا ہے۔

3۔ فلسطینوں کے ساتھ امن منصوبہ نمایاں نہیں
حالیہ ہفتوں کے دوران فلسطینی جنگجوؤں اور اسرائيل کے درمیان غزہ میں کشیدگی میں اضافہ دیکھا گیا ہے اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ انتخابات کے بعد اسرائيل اور فلسطین کے درمیان ایک زمانے سے جاری تنازع کو حل کرنے کا منصوبہ شائع کرنے والے ہیں۔

بہرحال امن کے عمل کی بحالی اس بار انتخابی بحث کا موضوع نہیں بنی۔ اسرائيلی عوام کو ’دو ریاستی حل‘ جیسے بین الاقوامی فارمولے میں کوئی امید نظر نہیں آتی۔

مسٹر نتن یاہو کا دائيں بازو کا برسراقتدرا اتحاد فلسطینی ریاست کے قیام کا کھل کر مخالف ہے اور وہ غرب اردن کے زیادہ تر مقبوضہ علاقے کو اسرائیل میں شامل کر لینا چاہتے ہیں۔

_106341687_f5117483-ea17-404b-8018-9ee1df8cd025.jpg

تصویر کے کاپی رائٹREUTERS
Image captionاسرائیل اور فلسطین امن اب ووٹروں میں مقبول امر نہیں ہے
بلو اینڈ وائٹ کے انتخابی پلیٹفارم سے فلسطین سے الگ ہونے کی بات تو ہو رہی ہے لیکن واضح طور پر انھیں ریاست دیے جانے کی بات نہیں کی گئی۔

یہ متحدہ یروشلم کو اسرائيل کے دارالحکومت کے طور پر دیکھتے ہیں حالانکہ فلسطینی شہر کے مشرقی حصے کو اپنے مستقبل کے دارالحکومت کے طور پر بیان کرتا ہے۔

بینی گينٹز کے اتحاد نے وادی اردن کے کنٹرول کو جاری رکھنے کی بات کہی ہے اور غرب اردن کی یہودی بستیوں کو اپنے قبضے میں رکھنے کی بات کہی ہے۔ خیال رہے کہ بین الاقوامی قانون کے تحت ان بستیوں کو غیر قانونی کہا جاتا ہے جبکہ اسرائیل اس سے اختلاف رکھتا ہے۔

اسرائیل کی لیبر پاٹی جس نے فلسطین کے ساتھ سنہ 1990 کی دہائی میں فلسطین کے ساتھ امن معاہدے میں پیش رفت کی تھی وہ اب ووٹروں میں مقبول نہیں۔

4۔ مختلف قسم کی آبادیوں کا کردار اہم
اسرائیل میں 63 لاکھ اہل ووٹر ہیں اور ان کے سماجی، نسلی اور مذہبی رجحانات انتخابات کے دن اہمیت کے حامل ہوں گے کہ وہ کس جانب ووٹ ڈالیں گے۔

اسرائيل کی ہاردیئي مذہبی آبادی کی تعداد دس لاکھ سے زیادہ ہے۔ روایتی طور پر یورپی نسل کے قدامت پسند اور مشرقی نسل کے یہودیوں نے اپنے مذہبی رہنماؤں کے ساتھ مشورے کے بعد ہی خاص پارٹیوں کو ووٹ دیا ہے۔ تاہم اب ان لوگوں میں بھی مرکزی دھارے کی جماعتوں کو ووٹ ڈالنے کا رجحان پیدا ہو رہا ہے۔ انتہائی قدامت پسند یہودیوں کے لیے سب سے اہم مسئلہ لازمی فوجی ٹریننگ ہے۔
_106344138_367116a6-cf87-4917-b735-e030f5d03b20.jpg

تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionمذہب یہودیوں کو فوج میں خدمات انجام دینے سے استثنی دینے پر رائے منقسم ہے
اسرائیلی عرب ملک کی آبادی کا پانچواں حصہ ہیں لیکن سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ان میں سے نصف سے کم ہی ووٹ دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

سنہ 2015 میں عرب نسل کے ووٹروں کی ووٹنگ میں اضافہ دیکھا گیا۔ اس وقت چار پارٹیوں نے ’متحدہ عرب لسٹ‘ کے تحت انتخابات میں شمولیت اختیار کی تھی اور 13 سیٹیں حاصل کی تھیں۔لیکن اس بار یہ اتحاد ٹوٹ گیا ہے۔

5۔ کوئی چھپا رستم بھی کنگ میکر بن کر سامنے آ سکتا ہے
_106344139_bbc45c78-905e-4c13-8d71-93e651fc823e.jpg

تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionگانجے اور چرس کو قانونی بنائے جانے کا مطالبہ
انتہائی قوم پرست آزادی پسند پارٹی زیہوت کے موشے فیگلن مستقبل کے اتحاد میں کنگ میکر کے روپ میں ابھر کر سامنے آ سکتے ہیں۔ اور سروے میں یہ کہا جا رہا ہے کہ وہ چار سیٹیں حاصل کر سکتے ہیں۔

مسٹر فیگلن کا کہنا ہے کہ انہیں بنیامین نتن یاہو اور بینی گینٹز میں سے کوئی بھی وزیر اعظم کے لیے زیادہ پسند نہیں ہیں۔

مسٹر فیگلن بھنگ گانجے وغیر کو قانونی بنائے جانے کے اپنے مطالبے کے لیے جانے جاتے ہیں لیکن ان کی پارٹی اصطفائیت پسندانہ ہے۔

فلسطین پر ان کا سخت موقف ہے اور وہ انھیں غرب اردن اور غزہ سے ترک وطن کرنے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔

وہ یروشلم میں الاقصی مسجد کی جگہ پر ایک تیسری یہودی عبادت گاہ کی تعمیر کی بات کرتے ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
اب دیکھنا یہ ہے کہ آج 9 اپریل کے اسرائیلی الیکشن میں یہودی اپنے منتقلی اقتدار کے ساتھ کیسی کیسی گھناؤنی "سازشیں" کرتے ہیں :)
 

جاسم محمد

محفلین
اسرائیلی عرب ملک کی آبادی کا پانچواں حصہ ہیں لیکن سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ان میں سے نصف سے کم ہی ووٹ دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
سنہ 2015 میں عرب نسل کے ووٹروں کی ووٹنگ میں اضافہ دیکھا گیا۔ اس وقت چار پارٹیوں نے ’متحدہ عرب لسٹ‘ کے تحت انتخابات میں شمولیت اختیار کی تھی اور 13 سیٹیں حاصل کی تھیں۔لیکن اس بار یہ اتحاد ٹوٹ گیا ہے۔
پچھلے الیکشن میں اسرائیلی عرب اتحاد نے 13سیٹیں حاصل کر کے ملک کی تیسری بڑی سیاسی قوت کا اعزاز اپنے نام کر لیا تھا۔ لیکن افسوس امن پسند بائیں بازو او ر اعتدال پسند سنٹرسٹ پارٹیز کے ساتھ مخلوط حکومت بنانے میں ناکام ہو گئیں۔ اور یوں ایک بار پھر انتہا پسند دہشت گرد نیتانیاہو وزیر اعظم بن گئے۔
اس بار تو یہ عرب اسرائیلی اتحاد بھی تتر بتر ہو چکا ہے۔ پتا نہیں ان اسرائیلی عربوں کو کب عقل آئے گی۔ فلسطینیوں کا نہیں تو کم از کم اسرائیل کے عربوں کا ہی احساس کر کے اپنی بقا کیلئے کھڑے ہو جائیں۔
election_results_cartoon2.jpg
 

جاسم محمد

محفلین
اسرائیل میں عام انتخابات کیلئے پولنگ، نیتن یاہو وزارت عظمیٰ کی دوڑ میں شامل
198833_2641582_updates.jpg

اگر نیتن یاہو انتخابات میں کامیاب ہوئے تو وہ اسرائیل کی تاریخ کے سب سے زیادہ مدت تک وزیراعظم رہنے والے شخص بن جائیں گے۔ فوٹو: فائل

مقبوضہ بیت المقدس: اسرائیل میں آج عام انتخابات کے لیے پولنگ جاری ہے اور انتخابی نتائج کا اعلان بھی آج ہی ہوگا۔

مقامی وقت کے مطابق صبح 7 بجے پولنگ کا عمل شروع ہوا، دائیں بازو کی جماعت لیکوڈ پارٹی کے سربراہ اور اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو پانچویں مرتبہ وزارت عظمیٰ کی دوڑ میں شامل ہیں۔

اگر بن یامین نیتن یاہو انتخابات میں کامیاب ہوئے تو وہ اسرائیل کی تاریخ کے سب سے زیادہ مدت تک وزیراعظم رہنے والے شخص بن جائیں گے۔

نیتن یاہو کے مخالف اور سابق فوجی سربراہ بینی گینٹز بلیو اینڈ وائٹ پارٹی کی قیادت کر رہے ہیں اور انہیں سابق وزیر خزانہ اور ٹی وی سے وابستہ شخصیت ییر لیپڈ کا اتحاد حاصل ہے۔

انتخابات سے قبل سیکیورٹی، کرپشن اور معیشت اسرائیل کے نمایاں مسائل ہیں جب کہ ابتدائی جائزوں کے مطابق 37 فیصد عوام نیتن یاہو اور 35 فیصد بینی گینٹز کے حق میں دکھائی دیے۔
 

جاسم محمد

محفلین
اسرائیل کے انتخابات میں کانٹے کا مقابلہ، نتن یاہو کے پانچویں بار وزیراعظم منتخب ہونے کا امکان
  • 10 اپريل 2019

Image copyrightREUTERS
_106365406_7238dba3-99f5-4255-bb13-a5289e8316d9.jpg

اسرائیل کے انتخابات کے تقریباً مکمل نتائج کے مطابق وزیراعظم نتن یاہو پانچویں بار وزیراعظم منتخب ہو جائیں گے جس سے دائیں بازو کا نیا اتحاد وجود میں آئے گا۔

امید کی جا رہی ہے کہ نتن یاہو کی جماعت لیکوڈ اپنے حریف سابق فوجی سربراہ بینی گینٹز کی سربراہی میں ’بلو اینڈ وائٹ اتحاد‘ کے برابر نشستیں حاصل کر لے گی۔

مقامی میڈیا کے مطابق نتن یاہو کی جماعت لیکوڈ اور دائیں بازو کے اتحادی اسرائیلی پارلیمان نیسیٹ میں 120 میں سے 65 نشستیں حاصل کر کے سب سے بڑا بلاک بن جائیں گے۔

69 سالہ نتن یاہو کو بدعنوانی کے الزامات کا سامنا ہے جنھیں وہ مسترد کرتے ہیں۔

تاہم نتن یاہو پانچویں بار منتخب ہونے کی صورت میں اسرائیل کے بانی ڈیوڈ بین گورین کے سب سے زیادہ مدت تک وزیر اعظم رہنے کا ریکارڈ توڑ دیں گے۔

اس سے قبل ایگزٹ پولز میں یہ کہا جا رہا تھا کہ کانٹے کے مقابلے کے بعد کسی بھی جماعت کو واضح اکثریت حاصل نہیں ہوئی ہے۔

یہ بھی کہا جا رہا تھا کہ سابق فوجی سربراہ بینی گینٹز کی سربراہی میں ’بلو اینڈ وائٹ اتحاد‘ کو 36 سے 37 سیٹیں مل سکتی ہیں، جبکہ وزیر اعظم بنیامین نتن یاہو کی لیکوڈ پارٹی کو 33 سے 36 سیٹیں ملنے کی پیش گوئی کی گئی۔

تاہم دونوں ہی امیدواروں نے منگل کی رات اپنی اپنی جیت کا دعوی کیا۔

دو ایگزٹ پولز میں یہ بات سامنے آئی کہ نتن یاہو کی دائیں بازو کی اتحادی پارٹیاں مل کر حکومت سازی کریں گی۔

لیکن ایک تیسرے ایگزٹ پول میں کہا گیا کہ مسٹر گینٹز کی اتحادی سینٹرسٹ اور بائيں بازو کی پارٹیاں مل کر حکومت بنائیں گی۔
Image copyrightEPA
_106375660_hi053387047.jpg

Image captionنتن یاہو اگر پانچویں بار منتخب ہوئے تو وہ اسرائیل کے بانی ڈیوڈ بین گورین کے سب سے زیادہ مدت تک وزیراعظم رہنے کا ریکارڈ توڑ دیں گے
بلو اینڈ وائٹ نے ایک بیان میں کہا: 'ہم نے جیت حاصل کی! اسرائیل کی عوام نے اپنا موقف ظاہر کر دیا ہے! ان انتخابات میں واضح فاتح اور واضح شکست خوردہ ہیں۔'

لیکن تل ابیب میں اپنے پارٹی ہیڈکوارٹر میں نتن یاہو بھی جیت کا جشن منا رہے ہیں۔

انھوں نے کہا: 'یہ عظیم فتح کی شب ہے۔ میں اس بات پر فرط جذبات سے مغلوب ہوں کہ لوگوں نے پانچویں بار مجھ پر یقین کیا ہے۔'

خیال رہے کہ آج تک کوئی بھی پارٹی اسرائیلی پارلیمان نیسیٹ میں واضح اکثریت حاصل نہیں کر سکی ہے اور ملک میں ہمیشہ اتحاد کی حکومت رہی ہے۔

تل ابیب سے بی بی سی کے ٹام بیٹ مین کا تجزیہ
تل ابیب میں انتخاب کی رات جوں ہی پہلا ایگزٹ پول جاری ہوا بینی گینٹز کے لیے زبردست نعرہ تحسین بلند ہوا۔

ان کے حامیوں نے اس اعتماد کا اظہار کیا کہ اسرائیل ایک نئی سینٹرسٹ حکومت سازی کے دہانے پر ہے۔

ایک رضاکار نے جشن کے شور میں مجھ سے کہا کہ 'تبدیلی آنے کو ہے۔'

لیکن نتیجہ ابھی بہت واضح نہیں ہے۔ گذشتہ انتخابات میں ایگزٹ پول ڈرامائی انداز میں غلط ثابت ہوئے تھے۔

اگر نتائج بہت ہی ٹکر کے ہوتے ہیں تو اصل سیاست اب شروع ہوگی کیونکہ دونوں اہم پارٹیاں اسرائیل کے صدر کو یہ باور کرانے کی کوشش کریں گی کہ انھیں اتحاد کے لیے بات چیت شروع کرنے کا حق حاصل ہے۔

پس منظر کیا ہے؟
69 سالہ نتن یاہو نے انتخابی مہم کے آخری ایام میں ایک اہم اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اگر ان کی حکومت بنتی ہے تو وہ غرب اردن کی یہودی بستیوں کو اسرائیل میں شامل کر لیں گے۔

بین الاقوامی قانون کے تحت یہ بستیاں غیر قانونی ہیں لیکن اسرائیل اس کی نفی کرتا ہے۔

ایک علیحدہ تنازع میں منگل کو اسرائیل کے عرب نژاد سیاستدانوں نے لیکوڈ پارٹی پر عرب برادریوں کے پولنگ سٹیشن پر 1200 آبزروز کو پوشیدہ جسمانی کیمرے کے ساتھ بھیجنے پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

عرب اتحاد حدش تال نے کہا کہ غیر قانونی عمل ہے اور یہ عربوں کو ڈرانے کے لیے کیا گیا ہے۔ لیکوڈ پارٹی کا کہنا ہے کہ وہ اس بات کی یقین دہانی چاہتی تھی کہ صرف 'جائز ووٹ' ہی ڈالے جا سکیں۔

مسٹر نتن یاہو کے اہم مخالف مسٹر گینٹز ایک ریٹائرڈ لفٹینینٹ جنرل ہیں جنھوں نے فروری میں بلو اینڈ وائٹ اتحاد قائم کیا ہے اور یہ وعدہ کیا ہے کہ وہ ایک ایسے ملک کو متحد کریں گے جو اپنی راہ کھو بیٹھی ہے۔

59 سالہ سابق فوجی سربراہ سکیورٹی کے معاملے پر نتن یاہو کو کڑا مقابلہ دے سکتے ہیں اور وہ زیادہ شفاف سیاست کا وعدہ کر رہے ہیں۔

مسٹر گينٹز کے انتخابی پلیٹ فارم سے فلسطین سے 'علیحدہ' ہونے کی بات تو ہو رہی ہے لیکن واضح طور پر انھیں ریاست دیے جانے کی بات نہیں کی گئی۔ بینی گينٹز کے اتحاد نے وادی اردن کے کنٹرول کو جاری رکھنے کی بات کہی ہے اور غرب اردن کی یہودی بستیوں کو اپنے قبضے میں رکھنے کی بات بھی کہی ہے۔

_106375541_israeli_election_exit_polls2_640-nc.png

اگزٹ پول میں کیا پیش گوئی کی جا رہی ہے؟
تین اسرائیلی ٹی وی نے تین مختلف ایگزٹ پول کرائے ہیں۔

سرکاری براڈکاسٹر کین نے پیش گوئي کی کہے کہ بلو اینڈ وائٹ کو 37 نشستیں مل رہی ہیں جبکہ لیکوڈ کو 36 سیٹیں مل رہی ہیں۔ تاہم اس نے کہا ہے کہ دائیں بازو کے بلاک کو ان انتخابات میں 64 سیٹیں ملنے کی امید ہے جب کہ سینٹر لیفٹ بلاک کو 56 سیٹیں مل رہی ہیں۔

چینل 13 نے پیش گوئی کی کہ دونوں پارٹیوں کو 36-36 سیٹیں ملیں گی لیکن دائیں بازو کے بلاک کو 66 سیٹیں حاصل ہوں گی جبکہ سینٹر لیفٹ کو 54 سیٹیں۔

چینل 12 نیوز نے پیش گوئی کی ہے کہ بلو اینڈ وائٹ کو 37 سیٹیں ملیں گی جبکہ لیکوڈ کو 33 نشستیں حاصل ہوں گی۔ لیکن سینٹر لیفٹ اور ڈائیں بازو دونوں بلاک کو 60-60 سیٹیں ملیں گی۔

تینوں نے یہ دعوی کیا ہے کہ بائیں بازو کی لیبر پارٹی کو چھ سے آٹھ سیٹیں مل سکتی ہیں جبکہ بائيں بازو کی میرٹز پارٹی کو چار سے پانچ سیٹیں مل سکتی ہیں۔

ابھی یہ واضح نہیں کہ انتخابات میں شامل 40 چھوٹی پارٹیوں میں سے کتنی پارٹیوں کو قومی ووٹ کا سوا تین فیصد ووٹ حاصل ہوگا یہ پارلیمان میں چار سیٹوں کے ساتھ داخل ہونے کی حد ہے۔

دو ایگزٹ پول میں کہا گیا ہے کہ اپنی مدت ختم کرنے والے وزیر تعلیم نفٹالی بینٹ کی نیو رائٹ پارٹی اور موشے فیگلن کی انتہائي قوم پرست زیہوٹ پارٹی اس حد کو عبور نہیں کر سکے گی۔
———

ربیع م بظاہر دہشت گرد اور انتہا پسند نیتن یاہو نے ایک بار پھر الیکشن جیت لیا ہے۔ البتہ متعدد کرپشن کیسز کی تلوار ابھی بھی سر پر لٹک رہی ہے۔ ماضی قریب میں ایک سابقہ وزیر اعظم کرپشن کیس میں سزا بھگت چکے ہیں
Former Israeli PM Olmert sentenced to six years for corruption
 
Top