استاد کاشف عمران کامل (ویلڈنگ، ترکھانی، ماسٹری اور اب شاعری)

ن

نامعلوم اول

مہمان
استاد نتھو خان (بے نتھ) کو ہمارا سلام بھی پہنچے!

سَلامُ اللہِ یا مَطَراً علیہا​
وَ لَیسَ علیکَ یا مَطَرُ السلامُ​
(اے بادل میں اپنی محبوبہ پر سلام بھیجتا ہوں۔ اور اے بادل تجھ پر سلام نہیں بھیجتا!)​
آپ نے عرب شاعر کی سنت چھوڑ کر استاد نتھو خان پر سلام ضائع کر دیا۔ خیر"و علیکم السلام"۔​
من کہ بُڑ بُڑ کردہ باشم، پانے سے پہلے سلام​
اب سلام آیا تو پھر میں کس لیے بُڑ بُڑ کنم​
 
میں رک گیا کہ خواہ مخواہ نئی نئی "استادی" ضائع ہو رہی ہے۔ آپ نے فرمائش کی تو یہ لیجے غزل مکمل۔ استادی کے نشے میں اب کی بار کچھ عر بی بھی۔ اب مان گئے "استاد"؟​
جی بالکل مان گئے۔ لیجیے آپ کے پہلے مراسلے میں آپ کی مکمل غزل چسپاں کردی ہے۔
 

موجو

لائبریرین
السلام علیکم
کاشف بھائی اردو نثر تو اس دفعہ بھی بہت خوب ہے آپ کی تحریری پڑھنے کو بار بار دل چاہتا ہے مگر اس دفعہ یہ جو فارسی ڈال دی ہے نا
مجھے تو ایسے ہی محسوس ہورہا ہے جیسے امی دودھ میں دیسی گھی ڈال کر زبردستی پلانے کی کوشش کررہی ہوں۔:unsure:
آپ ذرا ہم عجمیوں کے لئے ترجمہ بھی کردیں
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
السلام علیکم
کاشف بھائی اردو نثر تو اس دفعہ بھی بہت خوب ہے آپ کی تحریری پڑھنے کو بار بار دل چاہتا ہے مگر اس دفعہ یہ جو فارسی ڈال دی ہے نا
مجھے تو ایسے ہی محسوس ہورہا ہے جیسے امی دودھ میں دیسی گھی ڈال کر زبردستی پلانے کی کوشش کررہی ہوں۔:unsure:
آپ ذرا ہم عجمیوں کے لئے ترجمہ بھی کردیں

ہاہاہا۔ جو عربی، فارسی میں نے ڈالی ہے، وہ اگر ان زبانوں کے وارث پڑھ لیں، تو مجھے زندہ بھی نہ چھوڑیں۔ ترجمہ یوں بنے گا:

میں چونکہ "استاد" ہوں اس لیے صرف فارسی میں بُڑبُڑ کرتا ہوں​
جب مجھے قافیہ نہیں ملتا، تو پھر میں گُڑگُڑ کرتا ہوں​
اگر رات کو سو نہ سکوں تو پھر صبح سویرے​
چائے پیتا ہوں، وہ گرم لگے تو سُڑ سُڑ کرتا ہوں​
جب گلی میں کتا میرے قریب آ ئے، تو اس کو دھتکارتا ہوں​
اور وہ نہ بھاگے تو میں چیخ کر ہُڑہُڑ کرتا ہوں​
میں صبر سے بیٹھا ہوا ہوں، لیکن اگر تو نے مجھے تکلیف پہنچائی​
تو میں زخمی شکار کے مانند خوب پھُڑپھُڑ کروں گا​

سوچتا ہوں حضرتِ کامل ؔ ،کہ استادی کے بعد​
چھوڑ دوں اردو،اور بس فارسی میں بُڑ بُڑ کروں​
اب آ سمجھ گئے ہوں گے، کہ ترجمہ کیوں نہ کیا! کچھ تھا ہی نہیں۔ یہ تو استادی کا "ویلڈنگانہ" اور "ترکھانانہ" جشن تھا!​
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
ن

نامعلوم اول

مہمان
بہت خوب کاشف، معذرت استاد کامل، خوب بڑ بڑ در زبان ایرانیان کردید
آپ سے داد ملی، اس سے بڑی خوش قسمتی اور کیا ہو سکتی ہے!

رہی بات ایرانیوں کی، تو امید یہی ہے کہ وہ یہ لڑی نہیں پڑھیں گے۔ وہ اسے اپنی زبان کے خلاف سازش بھی سمجھ سکتے ہیں!
 
کچھ ہی دیر قبل "اساتذہ شعراء" والے دھاگے میں، مہربان و مربّی محمد بلال اعظم صاحب نے میرا نام بھی شامل کر دیا۔ پہلے تو ایک "شاک" لگا۔ پھر جب اوسان بحال ہوئے تو جی میں عجیب عجیب خیال اور یادیں آنے لگیں۔ پہلے تو سوچا سب وہیں لکھ دوں۔ مگر وہاں موجود اساتذہ کے دبدبے نے ایسا کرنے سے باز رکھا۔ اس لیے "استادی" ملنے کے بعد ذہن میں آنے والے عظیم الشّان خیالات کو اس دھاگے میں لکھ رہا ہوں۔

زندگی میں سب سے پہلے مجھے "استاد" کا خطاب اس وقت ملا تھا، جب ویلڈنگ میں ہاتھ صاف کرنے کے بعد، میں نے تنِ تنہا ایک کھڑکی کا جنگلا بنایا تھا۔ کیا عظیم دن تھا۔ صاف نظر آ رہا تھا اب عمر بھر روزگار کے معاملے میں کوئی مشکل پیش نہ آئے گی۔ مگر برا ہو آنکھوں کی الرجی کا۔ سارے منصوبے خاک میں مل گئے۔ اور مجھے نئے سرے سےایک ترکھان کی شاگردی کر کے پھر سے "چھوٹو" بننا پڑا۔

کچھ طبیعت کی تیزی، کچھ میری محنت چند دنوں میں یہاں بھی کام میں ہاتھ بیٹھ گیا۔ استادی مگر اب بھی دور تھی۔ پھر نصیبوں نے یاوری کی۔ ایک دن لیا قت "استاد" ایک پرانی لکڑی سے کیل نکال رہے تھے۔ ہاتھ پھسلا، اور کیل نکل کر سیدھا ان کی دائیں آنکھ میں جا گھسی۔ ذبح ہوتے بکرے جیسی آواز ان کے حلق سے نکلی۔ اوزار پھینک کر وہیں زمین پر لیٹ گئے۔ اور آنکھ پر ہاتھ رکھے کیل کے شجرہءِ نسب پر شکوک کا اظہار کرنے لگے۔ قصہ مختصر، کانی آنکھ کی وجہ سے وہ اب مزید "استادی" کے قابل نہ رہے۔ اور مجھے مجبورا "چھوٹو" سے "استاد" بنانا پڑا کہ کارخانہ بھی چلانا تھا!

تیسری مرتبہ مجھے استادی کا شرف ایک پرائیویٹ اسکول میں عربی کا معلّم بن کر ملا تھا۔ اس کا قصہ میں پہلے لکھ چکا۔ دہرانے کا فائدہ نہیں۔ جس نے نہ پڑھا ہو، میرے مکرر تعارف، المعروف بہ "ٹارزن کی واپسی" میں جا کر پڑھ لے۔

آج یہ زندگی میں چوتھا موقع ہے کہ میرے نام کے ساتھ "استاد" کا لفظ جڑا ہے۔ جو احباب مجھے جان چکے ہیں، انھیں معلوم ہے کہ میں بہت سی اہم باتیں شعر کی شکل میں کرتا ہوں۔ تو پھر آج استادی کی خوشی میں شعر کیوں نہ ہوں۔ اور چونکہ خوشی استادی کی ہے، تو فارسی لازم ٹھہری:

من کہ استادم، فقط در فارسی بُڑ بُڑ کنم
قافیہ گر در نمی یابم، تو پھر گُڑگُڑ کنم
شب نمی خوابم اگر تو پھر بہ ہنگامِ صبوح
چائے می نوشم، اگر ہو گرم تو سُڑ سُڑ کنم
جب گلی میں سگ قریب آجائے، دھتکاروں اسے
اور وہ نہ بھاگے تو پھر میں چیخ کر ہُڑہُڑ کنم
صبر سے بیٹھا ہوا ہوں میں وَ اِن آذَیتَنِی
پھر مثالِ صیدِ بسمل بسکہ من پھُڑپھُڑ کنم
سوچتا ہوں حضرتِ کامل ؔ ،کہ استادی کے بعد
چھوڑ دوں اردو، فقط در فارسی بُڑ بُڑ کنم
-----------------​
توبہ ہے استاد جی
اللہ آپ کے شاگردوں پر رحم فرمائے
جیسے آپ خود بگڑے ہوئے ہیں اپنے شاگردوں کو تو آدھا تیتر آدھا بٹیر بنا کر چھوڑیں گے

:laugh::laugh::laugh:




 
ن

نامعلوم اول

مہمان
نوازش ہے آپ کی!

زندگی میں پے بہ پے عجیب و غریب تجربات کیے ہیں (جتنے پیشے بدلے اسی سے اندازہ لگا لیجیے!)۔ اگر بیچ میں سے "المیہ واقعات" نکال دوں (جن کی تعداد کچھ کم نہیں)، تو جو باقی بچتا ہے، کسی چلتی پھرتی مزاحیہ فلم سے کم نہ ہو گا۔ جلد ہی اپنی زندگی کے انہی پر لطف لمحوں کو کچھ کچھ فکشن کا تڑکا لگا کر ایک سلسلہ شروع کرنے کا ارادہ ہے۔ دیکھیے کب ہمت ہوتی ہے۔ المیہ البتہ شیئر نہیں کرتا کہ وہ صرف میرا ہے۔ اور پھر (ظاہر ہے) پر لطف بھی نہیں۔
 

مہ جبین

محفلین
نوازش ہے آپ کی!

زندگی میں پے بہ پے عجیب و غریب تجربات کیے ہیں (جتنے پیشے بدلے اسی سے اندازہ لگا لیجیے!)۔ اگر بیچ میں سے "المیہ واقعات" نکال دوں (جن کی تعداد کچھ کم نہیں)، تو جو باقی بچتا ہے، کسی چلتی پھرتی مزاحیہ فلم سے کم نہ ہو گا۔ جلد ہی اپنی زندگی کے انہی پر لطف لمحوں کو کچھ کچھ فکشن کا تڑکا لگا کر ایک سلسلہ شروع کرنے کا ارادہ ہے۔ دیکھیے کب ہمت ہوتی ہے۔ المیہ البتہ شیئر نہیں کرتا کہ وہ صرف میرا ہے۔ اور پھر (ظاہر ہے) پر لطف بھی نہیں۔
تھوک کے حساب سے پیشے بدلنے کا سبب غیر مسقل مزاجی یا پھر خوب سے خوب تر کی جستجو؟؟؟؟
 
ن

نامعلوم اول

مہمان
تھوک کے حساب سے پیشے بدلنے کا سبب غیر مسقل مزاجی یا پھر خوب سے خوب تر کی جستجو؟؟؟؟
مہ جبین صاحبہ - غیر مستقل مزاجی! کبھی خود بھی تنگ آ جاتا ہوں۔

پل میں تولہ، پل میں ماشہ۔ ابھی خوش، ابھی غمزدہ۔ ابھی پر امید، ابھی مایوس۔ ابھی زندہ، ابھی مردہ۔ عقل کی بات کرتے کرتے اچانک بے پر کی ہانکنا شروع۔ ابھی دوست، ابھی اجنبی۔ جسے کل گلے لگایا، اسے آج پہچان نہ پایا۔ جس سے کل لڑا، اسے آج بھائی بنایا۔ پھر اسے بھی خدا حافظ کہا۔

شاعری - ویلڈنگ - ترکھانی - مدرسہ - یونیورسٹی - ٹیچنگ - افسری (آٹھ سال میں آٹھ محکمے، محکموں کے اندر سیٹوں کی تبدیلی الگ) - پروگرا منگ - شاعری ------

آٹھ سال سرکاری نوکری کرنے کے بعد کیریئر بننے لگا تو اسے چھوڑ کر، بغیر کسی تجربے یا جاب کی امید کے، پروگرامنگ شروع۔ اکثر لوگ سمجھے کہ سچ مچ پاگل ہو گیا ہوں، کہ کچھ عرصے سے حرکتیں اور لڑائیاں بھی ویسی ہی کر رہا تھا۔

کل میتھ کر رہا تھا۔ آج شعر کہہ رہا ہوں۔ بیٹھے بیٹھے شعر سے نفرت ہو گئی، تو اسے چھوڑ کر پروگرامنگ شروع۔ ایک پراجیکٹ ملا۔ خوب دل لگایا۔ اچانک لگا کہ یہ کیا بکواس ہے۔ایک کے بعدایک انگریزی سٹ کام دیکھنے بیٹھ گیا۔ دس بیس دن بعد دل بھرا، تو شیکسپئر نکال لیا۔ اس سے دل بھرا، تو جاسوسی ڈائجسٹ پڑھنے لگ گیا۔ پھر تنگ آیا، تو حافظ نکال لیا۔

ایسی حالات میں زندگی گزارنا، اور پھر کچھ تخلیقی کام بھی کر لینا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ کوئی اور ہو تو یا پاگل خانے پہنچ جائے یا ۔۔۔۔۔۔
 

مہ جبین

محفلین
کاشف عمران بھائی آپکے حالتِ زندگی جان کر سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ سے ہمدردی کی جائے یا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حیرانی؟؟؟
حقیقتاً آپ جیسے لوگ کم ہی ہوتے ہیں ۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ آپ ایک باصلاحیت شخص ہیں اپنی تمام صلاحیتوں سے کسی ایک شعبے میں مستقل مزاجی سے کام لیں تو یقیناً بہت آگے جائیں گے۔ ( ویسے اس سے آپ متفق ہو بھی گئے تو کچھ بعد غیر متفق ہوجائیں گے :))
اللہ آپکو مستقل مزاجی اور سکونِ قلب کی دولت سے مالامال فرمائے آمین
 
کچھ ہی دیر قبل "اساتذہ شعراء" والے دھاگے میں، مہربان و مربّی محمد بلال اعظم صاحب نے میرا نام بھی شامل کر دیا۔ پہلے تو ایک "شاک" لگا۔ پھر جب اوسان بحال ہوئے تو جی میں عجیب عجیب خیال اور یادیں آنے لگیں۔ پہلے تو سوچا سب وہیں لکھ دوں۔ مگر وہاں موجود اساتذہ کے دبدبے نے ایسا کرنے سے باز رکھا۔ اس لیے "استادی" ملنے کے بعد ذہن میں آنے والے عظیم الشّان خیالات کو اس دھاگے میں لکھ رہا ہوں۔

زندگی میں سب سے پہلے مجھے "استاد" کا خطاب اس وقت ملا تھا، جب ویلڈنگ میں ہاتھ صاف کرنے کے بعد، میں نے تنِ تنہا ایک کھڑکی کا جنگلا بنایا تھا۔ کیا عظیم دن تھا۔ صاف نظر آ رہا تھا اب عمر بھر روزگار کے معاملے میں کوئی مشکل پیش نہ آئے گی۔ مگر برا ہو آنکھوں کی الرجی کا۔ سارے منصوبے خاک میں مل گئے۔ اور مجھے نئے سرے سےایک ترکھان کی شاگردی کر کے پھر سے "چھوٹو" بننا پڑا۔

کچھ طبیعت کی تیزی، کچھ میری محنت چند دنوں میں یہاں بھی کام میں ہاتھ بیٹھ گیا۔ استادی مگر اب بھی دور تھی۔ پھر نصیبوں نے یاوری کی۔ ایک دن لیا قت "استاد" ایک پرانی لکڑی سے کیل نکال رہے تھے۔ ہاتھ پھسلا، اور کیل نکل کر سیدھا ان کی دائیں آنکھ میں جا گھسی۔ ذبح ہوتے بکرے جیسی آواز ان کے حلق سے نکلی۔ اوزار پھینک کر وہیں زمین پر لیٹ گئے۔ اور آنکھ پر ہاتھ رکھے کیل کے شجرہءِ نسب پر شکوک کا اظہار کرنے لگے۔ قصہ مختصر، کانی آنکھ کی وجہ سے وہ اب مزید "استادی" کے قابل نہ رہے۔ اور مجھے مجبورا "چھوٹو" سے "استاد" بنانا پڑا کہ کارخانہ بھی چلانا تھا!

تیسری مرتبہ مجھے استادی کا شرف ایک پرائیویٹ اسکول میں عربی کا معلّم بن کر ملا تھا۔ اس کا قصہ میں پہلے لکھ چکا۔ دہرانے کا فائدہ نہیں۔ جس نے نہ پڑھا ہو، میرے مکرر تعارف، المعروف بہ "ٹارزن کی واپسی" میں جا کر پڑھ لے۔

آج یہ زندگی میں چوتھا موقع ہے کہ میرے نام کے ساتھ "استاد" کا لفظ جڑا ہے۔ جو احباب مجھے جان چکے ہیں، انھیں معلوم ہے کہ میں بہت سی اہم باتیں شعر کی شکل میں کرتا ہوں۔ تو پھر آج استادی کی خوشی میں شعر کیوں نہ ہوں۔ اور چونکہ خوشی استادی کی ہے، تو فارسی لازم ٹھہری:

من کہ استادم، فقط در فارسی بُڑ بُڑ کنم
قافیہ گر در نمی یابم، تو پھر گُڑگُڑ کنم
شب نمی خوابم اگر تو پھر بہ ہنگامِ صبوح
چائے می نوشم، اگر ہو گرم تو سُڑ سُڑ کنم
جب گلی میں سگ قریب آجائے، دھتکاروں اسے
اور وہ نہ بھاگے تو پھر میں چیخ کر ہُڑہُڑ کنم
صبر سے بیٹھا ہوا ہوں میں وَ اِن آذَیتَنِی
پھر مثالِ صیدِ بسمل بسکہ من پھُڑپھُڑ کنم
سوچتا ہوں حضرتِ کامل ؔ ،کہ استادی کے بعد
چھوڑ دوں اردو، فقط در فارسی بُڑ بُڑ کنم
-----------------​
السلام علیکم
بہت خوب ماشاءاللہ
پہلے شاگرد بن جاؤں تبھی استاذ کہوں گا
سوچتاہوں حضرت کامل ،کہ شاگردی کے بعد
توڑ لوں دانت و در فارسی فر فر کنم
 
Top