اسباقِ فارسی

الف عین

لائبریرین
(۱)
برصغیر پاک و ہند کی تہذیب کا مطالعہ ظاہر کرتا ہے کہ یہاں کی ثقافت پر جتنا اثر فارسی نے چھوڑا ہے، شاید کسی اور زبان نے نہیں چھوڑا۔ سب سے اہم اور بنیادی حقیقت اردو کا رسم الخط ہے جو اسے فارسی نے عطا کیا۔ اس کے علاوہ ہم دیکھتے ہیں کہ جملے کی ساخت ہو، یا ترکیب سازی، معاملہ بندی ہو یا ایماءو اختصار ، فارسی کا نمایاں اثر ہر صاحبِ علم کو دکھائی دیتا ہے۔ اردو شاعری بالخصوص فارسی سے فیض یاب ہوئی ہے، اکثر شعری اصناف فارسی سے آئی ہیں یا فارسی کے وسیلے سے اردو میں متعارف ہوئی ہیں۔ اردو کے اساتذہ،چوٹی کے شعراء اور دیگر اہلِ ہنر کی ایک طویل فہرست بنتی ہے جو نہ صرف اردو بلکہ فارسی زبان و بیان میں بھی ماہر تسلیم کئے جاتے ہیں۔ بہت سوں نے اردو اور فارسی دونوں زبانوں میں شعر بھی کہے، نثر بھی لکھی۔ اقبال کے حوالے سے تو یہاں تک منقول ہے کہ ان کے نزدیک فارسی میں اظہار زیادہ محیط اور قوی ہے۔ ہماری اردو شاعری کی بنیاد رکھنے والوں کے ہاں غزل کے ایسے نمونے بھی ملتے ہیں جن میں ایک مصرع اردو میں تو دوسرا فارسی میں ہے۔ نثر کو لے لیجئے، جملے کی ساخت سے لے کر قواعد و انشاءتک فارسی کا اثر نمایاں ہے۔ ہماری گرامر اور گردان کی بنیاد فارسی پر ہے، اور ترکیب سازی کے سارے طریقے فارسی کے ہیں۔ ایک بڑی عجیب بات حرف و معنی سے تعلق رکھنے والے طبقے کے حوالے سے دیکھنے میں آئی ہے کہ فارسی کا رسمی علم نہ رکھنے کے باوجود ان کے ہاں فارسی کا صحیح استعمال پایا جاتا ہے(یہ در اصل فارسی کے اردو میں رچاؤ کا اثر ہے)۔ تاہم جب کہیں فارسی شاعری یا نثر سے براہ راست واسطہ پڑ جائے تو ایسے احباب کے لئے مشکل پیدا ہو جاتی ہے۔ ضروری ہے کہ اس مشکل پر قابو پایا جائے اور فارسی زبان کے قواعد سے لازمی حد تک شناسائی حاصل کی جائے۔ حرف و معنی سے وابستہ احباب کے پاس اتنا ذخیرہ الفاظ ضرور موجود ہوتا ہے کہ انہیں یہ قواعد نہ تو اجنبی محسوس ہوں گے اور نہ ہی وہ ان کے اطلاق میں کوئی دقت محسوس کریں گے۔
ان اسباق کو ترتیب دیتے وقت ہم نے ایسے ہی احباب کو پیشِ نظر رکھا ہے، تاہم اتنی تفصیلات ضرور فراہم کر دی ہیں کہ فارسی پڑھنے والا عام طالب علم بھی ان اسباق کو بہ آسانی سمجھ سکے۔آئیے ابتدا کرتے ہیں۔
 

الف عین

لائبریرین
کلمہ اور مہمل: ہر وہ بامعنی لفظ جو ہم ادا کرتے ہیں، کلمہ کہلاتا ہے۔ اس کے برعکس ایسی آوازیں یا الفاظ جو فی نفسہ کوئی معنیٰ نہ رکھتے ہوں انہیں مہمل کہا جاتا ہے۔ کلمہ کی تین صورتیں ہیں: اسم، فعل اور حرف
اسم: کسی بھی چیز، انسان، جگہ، حالت، وقت کے عام یا خاص نام کو جو اس کی شناخت بہم پہنچائے اسم کہا جاتا ہے۔ اسم کی چند اہم اقسام درج کی جاتی ہیں :
اسم نکرہ: وہ اسم جو کسی عام شے یا جگہ کو ظاہر کرے، اس سے مذکورہ شخص، شے یا جگہ پوری طرح مذکورنہیں ہو پاتا۔ مثلاً: مرد، شہر، گلستان، شارع، روز، فرس۔ ان اسماءمیں مرد کے بارے میں نہیں معلوم کہ اس کا نام کیا ہے، یہی معاملہ شہر اور شارع کا ہے اور یہ بھی مذکور نہیں کہ آیا فرس سے مراد کوئی خاص گھوڑا ہے یا گھوڑا بطور قِسم مذکور ہے، و علیٰ ھٰذاالقیاس۔
اسم معرفہ: جیسا کہ نام سے ظاہر ہے یہ کسی خاص شخص، جگہ، شے کو ظاہر کرتا ہے۔ مثلاً: محمد بن قاسم، احمد، سلطان، گلستانِ فاطمہ، دُلدُل، لاہور، تہران، وغیرہ میں اشیاءو انفس کے نام ان کی تخصیص کر دیتے ہیں۔
اسم ضمیر: بسا اوقات گفتگو اور جملوں میں ہم اشخاص کے ناموں کی بجائے ایسے مختصر کلمات استعمال کرتے ہیں جو، ان ناموں کی طرف مکمل حوالہ بناتے ہیں۔ یہ اسم ضمیر کہلاتے ہیں۔ مثلاً: میں، وہ، آپ، تجھے (من، اُو، شما، تُرا) وغیرہ۔ ضمیر کی دو صورتیں ہیں: منفصل اور متصل۔ منفصل وہ ہے جہاں اسم ضمیر ایک مکمل اور آزاد لفظ کی صورت میں ہو جس کی مثالیں اوپر آ چکی ہیں۔ متصل ضمیر مرکب اضافی اور گردان میں آتے ہیں۔ مثلاً: کتابم (میری کتاب) میں م، قلمت (تیرا قلم) میں ت۔ گفتم (میں نے کہا) میں م، شنیدی (تو نے سنا) میں ی، گرفتمش (میں نے اسے پکڑا) میں م اور ش۔ تفصیل بعد میں آئے گی۔
اسم اشارہ: کسی اسم یا کیفیت کی طرف اشارہ کرنے والے کلمات، یہ دو ہیں: اشارہ قریب (یہ: ایں۔ جمع: ایناں، اینہا) ، اور اشارہ بعید (وہ: آں۔ جمع: آناں، آنہا)۔
اسمِ استفہام: وہ اسم ہے جس میں سوال پایا جاتا ہو۔ مثلاً: کہ (کون)، کجا (کہاں)، کدام (کب)، کرا (کس شخص کو)، چرا (کس شے کو، کیوں)، چہ (کیا)۔
اسمِ موصول: اسمِ استفہام جہاں سوالیہ کی بجائے موصولی معنے دے گا اسمِ موصول کہلائے گا۔ مثلاً: کہ، ہرکہ (جو شخص)، چہ، ہر چہ (جو شے)،وغیرہ
اسمِ فاعل: وہ اسم ہے جو کسی مصدر سے مشتق ہو اور اس میں فاعل (کام کرنے والا) کے معنے پائے جائیں۔ مثلاً: کنندہ (کرنے والا)، جویندہ (ڈھونڈنے والا)، یابندہ (پانے والا)، وغیرہ
اسمِ مفعول: یہ بھی مصدر سے مشتق ہوتا ہے اور اس میں مفعول (جس پر کام واقع ہو) کے معنے پائے جاتے ہیں۔ مثلاً: کشیدہ (کھنچا ہوا)، کوفتہ (کوٹا ہوا)، دیدہ (دیکھا ہوا)، وغیرہ
اسمِ تصغیر: کسی اسم کے معنوں میں چھوٹائی، کمتری وغیرہ کا مفہوم داخل کرنے سے اسم تصغیر حاصل ہوتا ہے۔ مثلاً: صندوق سے صندوقچہ، طفل سے طفلک، مشک سے مشکیزہ، وغیرہ
اسمِ مکبّر: کسی اسم کے معنوں میں بڑائی کا مفہوم داخل کرنے سے حاصل ہوتا ہے۔ مثلاً: زور سے شہ زور، کمان سے دیو کمان، و غیرہ۔
اسم ظرف: یہ دو ہوتے ہیں، ظرفِ زمان، جس میں وقت کا معنیٰ پایا جائے جیسے: صبح، امروز، امشب، ماہ، دیروز، وغیرہ۔ ظرف مکان میں جگہ کا معنیٰ پایا جاتا ہے مثلاً: عیدگاہ، جاءنماز، دانش کدہ، قحبہ خانہ، وغیرہ۔
اسم حال: یہ بھی مصدر سے لیا جاتا ہے اور اس میں کسی اسم کی حالت یا کیفیت کا معنیٰ پایا جاتا ہے۔ مثلاً دَوِیدن سے دَواں (دوڑتا ہوا)، رفتن سے رواں (چلتا ہوا)، کردن سے کُناں (کرتا ہوا)، شائستن سے شایاں (جچتا ہوا)، گریستن سے گِریاں (روتا ہوا)، خندیدن سے خنداں (ہنستا ہوا)، وغیرہ۔ واضح رہے کہ اسمِ فاعل اور اسم حال میں بہت تھوڑا فرق ہے اور یہ دونوں ایک دوسرے کی جگہ بھی لے لیا کرتے ہیں، لہٰذا یہاں التباس سے بچنا ضروری ہے۔
اسمِ کیفیت اور اسمِ صِفَت: کسی کیفیت، خوبی، خامی، وصف کے نام کو اسم کیفیت کہا جاتا ہے۔ نیکی، بدی، خوشی، غم، تکبر، غرور، مسکنت، جہالت، وغیرہ۔ واضح رہے کہ اسمِ کیفیت کسی وصف کا نام ہے جبکہ اسمِ صفت کسی اسم پر کوئی وصف لاگو ہونے سے مشروط ہے گویا اسم صفت ایسا اسم ہے جو کسی دوسرے اسم کا کوئی وصف بیان کرے۔ اس کی صورت نیک، بد، خوش، مغموم، متکبر، مسکین، جاہل وغیرہ ہو گی۔
 

الف عین

لائبریرین
(۲)
مصدر وہ کلمہ ہے جس میں کام کے معانی پائے جاتے ہیں (یہ فعل سے مختلف ہوتا ہے اور عربی میں اسمِ مصدر کہلاتا ہے۔ اس میں زمانے کا تصور نہیں ہوتا)۔ مصدر سے فعل مستقبل اور فعل مضارع حاصل کرنے کے لئے ایک کلمہ اخذ کیا جاتا ہے جسے مضارع کہتے ہیں۔ (فارسی میں مضارع مقررہ کلمات ہیں اور ان میں اہل زبان کا تتبع کیا جاتا ہے ، تاہم اس کی ایک پکی شناخت یہ ہے کہ اس کا آخری حرف ہمیشہ د ہوتا ہے اور ماقبل پر زبر آتا ہے)۔ مثلاً: مصدر کردن (کرنا) سے مضارع کُنَد ہے، گفتن (کہنا) سے گویَد، آمدن (آنا) سے آیَد، رفتن (جانا) سے رَوَد، شناختن (پہچاننا) سے شناسد،و علیٰ ھٰذاالقیاس (گویَد، آیَد کو گوئد، آئد بھی لکھا جاتا ہے اور بالعموم درست سمجھا جاتا ہے)۔
اسم فاعل بنانے کے لئے علامتِ مضارع د کو ہٹا دیتے ہیں یا اس کی جگہ ندہ ماقبل پر زیر لگا دیتے ہیں۔ مثلاً: کردن سے کُن یا کنندہ (کرنے والا)، گفتن سے گوے (ے غیر ناطق)، گویِندہ یا گوئندہ (کہنے والا)، رفتن سے رَو (جانے والا، چلنے والا) ، شناختن سے شناس (پہچانے والا) وغیرہ اسم فاعل بنتے ہیں۔
اسمِ مفعول بنانے کے لئے مصدر کی علامت ن ہٹا کر اس کی جگہ ہ لگاتے ہیں۔ مثلاً: شنیدن سے شنیدہ (سنا ہوا)، خوردن سے خوردہ (کھایا ہوا)، شناختن سے شناختہ (پہچانا ہوا) وغیرہ
اسمِ تصغیر بنانے کے لئے اسم کے بعد کوئی علامتِ تصغیر: ک، زہ، چہ وغیرہ لگا دیتے ہیں۔ مثالیں اوپر آ چکی ہیں۔ یاد رہے کہ کہاں کون سی علامتِ تصغیر لگے گی، یہ اہلِ زبان پر ہے، ہمیں ان کا تتبع کرنا ہے۔
اسی نہج پر اسم مکبر بنانے کے لئے اسم سے پہلے علامت تکبیر :دیو، خر،شہ، شاہ وغیرہ لگاتے ہیں۔ یہاں بھی ہمیں اہلِ زبان کے ساتھ چلنا ہے۔
اسمِ صفت کے تین درجے ہوتے ہیں جن کے نام عربی نہج پر تفضیلِ نفسی، تفضیلِ بعض اور تفضیلِ کل ہیں۔ پہلا درجہ موصوف کے اپنے حوالے سے ہوتا ہے۔ مثلاً شہرِبزرگ (بڑا شہر) کا تقابل کسی سے نہیں۔ دوسرا درجہ تقابل کا ہے (مثلاً بزرگ تر)، یہ تب استعمال ہو گا جب گفتہ یا ناگفتہ طور پر موصوف کا تقابل کسی دوسرے سے کیا جائے۔ تیسرا درجہ (بزرگ ترین) ایسی صورت میں آئے گا جب اس کا تقابل باقی تمام سے ہو۔
 

الف عین

لائبریرین
ترکیب (مرکب ناقص): کلمات کا وہ مجموعہ جس کا معنیٰ تو بنتا ہو مگر وہ مکمل جملہ نہ ہو، مرکب ناقص کہلاتا ہے، اسے ترکیب بھی کہتے ہیں ۔ فارسی میں چار طرح کی تراکیب عام مستعمل ہیں۔ ترکیب اضافی، ترکیب توصیفی، ترکیب عطفی اور ترکیب عددی۔
ترکیب اضافی: اس میں ایک اسم کا دوسرے اسم سے تعلق رکھنا ظاہر ہوتا ہے۔ علی کی کتاب (کتابِ علی)، لاہور کی سڑک (شارعِ لاہور) وغیرہ۔ نوٹ کریں کہ اردو کے بر عکس فارسی میں مضاف پہلے اور مضاف الیہ بعد میں آتا ہے۔ علامتِ اضافت (زیر) مضاف پر وارد ہوتی ہے۔ اگر مضاف الیہ کوئی اسم ضمیر ہو تو اس کی دو صورتیں ہوتی ہیں: پہلی ضمیر منفصل کے ساتھ جیسے، یارانِ من (میرے دوست)، شہرِ ما (ہمارا شہر)، سوئے تو (تیری طرف)۔ ان صورتوں میں علامتِ اضافت قائم رہتی ہے اور مضاف الیہ (اسمِ ضمیر) کی اصل(منفصل) صورت بھی۔ ضمیر منفصل کی صورتیں یہ ہیں: اُو (وہ: واحد)، اِیشاں (وہ: جمع)، تو (تُو)، شما (تم، آپ)، من (میں)، ما(ہم)۔ اسم ضمیر کے ساتھ ترکیبِ اضافی کی دوسری صورت میں ضمیر متصل ہوتا ہے۔ کتابش (اس کی کتاب)، دوستانم (میرے دوست)۔ ایسے میں حرف ضمیر کے ماقبل پر زبر ہو گا۔ متصل ضمیریں یہ ہیں: ش (اس کا، اس کی، اس کے)، شاں (ان کا، ان کی، ان کے)، ت (تیرا، تیرے، تیری)، تاں (تمہارا، تمہارے، تمہاری، آپ کا، آپ کے، آپ کی)، م (میرا، میری، میرے)، ماں (ہمارا، ہماری ہمارے)۔
ترکیب توصیفی: یہ صفت اور موصوف کے ملنے سے بنتی ہے۔ اچھا کام (کارِ خیر)، نیک لوگ (مردانِ نکو)، بڑا شہر (شہرِ بزرگ) وغیرہ۔ یہاں بھی اردو کے برعکس فارسی میں صفت بعد میں اور موصوف پہلے آتا ہے۔ علامتِ توصیف (زیر) موصوف پر وارد ہوتی ہے۔
ترکیب عطفی: دو یا زائد اسماءکو باہم ملانے کا نام ہے۔ اس مقصد کے لئے حرف عطف (و بمعنی اور) سے کام لیا جاتا ہے۔ مثلاً باد و باراں، بال و پر، شمس و قمر وغیرہ
ترکیب عددی: اس میں اردو کی طرح عدد پہلے اور معدود بعد میں آتا ہے۔ مثلاً: ہفت رنگ، چہل اشعار، دو آتشہ وغیرہ۔
جملہ (مرکب تام): الفاظ کا ایسا مجموعہ جس میں کم از کم ایک پوری بات یا ایک مکمل مفہوم پایا جائے اسے جملہ یا مرکب تام کہا جاتا ہے۔ جملہ کے متعدد اجزائے ترکیبی ہیں جن میں اسم، فعل اور حرف کی اہمیت بنیادی ہے۔ اسم کا بیان پہلے ہو چکا، فعل پر بحث کرنے سے پہلے مناسب ہو گا کہ ہم حرف سے شناسائی حاصل کر لیں۔ احتیاط رہے کہ حرف کے تصور کو حرفِ تہجی سے خلط ملط نہ کیا جائے۔ حروف تہجی مختلف آوازوں اور اعراب کی نمائندگی کرنے والی وہ اشکال ہےں جن کو ملا کر ہم الفاظ بناتے ہیں۔ ہم یہاں جس حرف کی بات کر رہے ہیں وہ در اصل ایسا لفظ ہے جو اسماءاور افعال کے مابین کسی نہ کسی تعلق کو ظاہر کرتا ہے۔
حرفِ عطف (و بمعنی اور):یہ دو یا زیادہ اسماء، افعال وغیرہ کو کسی ایک مفہوم، حالت، فعل وغیرہ کے حوالے سے جمع کرتا ہے۔
حرفِ شرط (گر، اگر، ار): یہ کسی شرط کا ذکر کرتے ہیں۔
حرفِ وصل (لیکن، ولے، لہٰذا، تاہم، بہ ایں ہمہ، پس): یہ بالعموم دو جملوں کو آپس میں ملاتے ہیں اور ان کے مفاہیم کے درمیان اثباتی، نافیہ یا کسی دیگر تعلق کو ظاہر کرتے ہیں۔
حرفِ ندا (اے، یا): یہ کسی کو مخاطب کرنے کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔
حرفِ وجہ و حاصل (کہ، چونکہ، تا، تا کہ، تا آنکہ، پس): یہ کسی کام، حالت، نتیجہ وغیرہ کی وجہ یا حاصل کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
حرفِ جار (ب، بہ، در، از، تا، بر، زیر، بالا، تحت، برائے، ورائے، برون، بیرون، درون، پس وغیرہ): یہ عام طور پر اسماءیا کیفیات کا ایک دوسرے سے تعلق ظاہر کرتے ہیں۔
حرفِ نافیہ (نہ، نخیر، ولے): یہ نفی کا معنیٰ پیدا کرتے ہیں۔
حرفِ اثبات (بلے، نَعَم): یہ اثبات کا معنیٰ پیدا کرتے ہیں۔
فارسی میں ایسے مرکب حروف کی مثالیں بہت عام ہیں جو مختلف حروف کو ملا کر بنا لئے جاتے ہیں ۔بسا اوقات یہ حروف اپنے متعلقہ اسماءو افعال کے ساتھ ملا دئے جاتے ہیں اور زبان میں حسن و اختصار پیدا کرتے ہیں۔ ذیل میں ایسے چند کثیر الاستعمال مرکبات کی وضاحت کی جا رہی ہے۔ اسی قیاس پر مزید مرکبات بنائے جاتے ہیں۔ کزو (تلفظ: کَ زُو): کہ (کہ)+ از (سے) + اُو (وہ) : کہ اُس سے، کہ اس کی طرف سے۔ کاں: کہ + آں (وہ) : کہ وہ۔ کیں: کہ + ایں (یہ): کہ یہ۔ ورنہ: و (اور) + ار(اگر) + نہ (نہیں) : اور اگر نہیں، اگر ایسا نہ ہوا تو۔ وغیرہ ، وغیرہ۔
 

الف عین

لائبریرین
(٣)
معنی کے اعتبار سے جملہ دو طرح کا ہوتا ہے جملہ اسمیہ اور جملہ فعلیہ۔
جملہ اسمیہ وہ ہے جس کی بنیاد اسم پر ہو اور اس میں ایک یا زائد اسماءکے بارے میں کوئی خبر دی گئی ہو ۔مثلاً: ایں کتاب از من است (یہ کتاب میری ہے)، آن صندلی خوب نیست (وہ کرسی اچھی نہیں ہے)، پدرِ نوشیرواں صاحبِ فراش بود (نوشیروان کا باپ بیمار تھا) و غیرہ۔ اس میں جس اسم کے بارے میں کوئی خبر دی گئی ہو اسے مبتدا اور باقی جملے کو خبر کہا جاتا ہے۔
جملہ فعلیہ وہ ہے جس کی بنیاد فعل پر ہو اور اس کا مفہوم زمانے (ماضی، حال، مستقبل، امر، نہی) کے حوالے سے ہو۔ مثلاً: حمید نامہ می نویسد (حمید خط لکھتا ہے یا لکھ رہا ہے)۔ استاذِ من مرا پند می کرد (میرا استاذ مجھے نصیحت کرتا تھا یا کیا کرتا تھا)، تو برائے من چہ آوردہ ای (تو میرے لئے کیا لایا ہے؟)۔ واضح رہے کہ اس جملے میں فاعل ’تو‘ نہ لگا یا جائے تو بھی مفہوم واضح ہے، لہٰذا جہاں فاعل (ضمیر کی صورت میں) لگائے بغیر بات واضح ہو جائے وہاں فاعل نہ لگانا بہتر ہے۔
مناسب یہی ہے کہ یہاں مصدر کا تصور واضح تر کر لیا جائے۔ اردو میں مصدر (آنا، جانا، لکھنا، کھانا، پڑھنا، سونا وغیرہ)، انگریزی میں infinitive verb اور عربی اور فارسی میں اسمِ مصدر وہ اسم ہے جس سے تمام افعال نکلتے ہےں۔ فارسی مصدر کی بڑی شناخت یہ ہے کہ اس کے آخری حروف ہمیشہ تَن یا دَن ہوتے ہیں اردو میں اس کا معنیٰ فعل تام کی صورت میں ہوتا ہے۔ مثلاً: گفتن (کہنا)، شنیدن (سننا)، رفتن (جانا)، شناختن (پہچاننا)، نوشیدن (پینا)، دمیدن (پھونکنا) وغیرہ۔ مصدر سے مضارع اخذ کرنے کا بیان پہلے ہو چکا۔ مضارع در اصل اہل زبان کے مقرر کردہ وہ کلمات ہیں جن کا ہمیں تتبع کرنا ہو گا۔ اس کا کوئی لگا بندھا کلیہ نہیں ہے۔
گردان کا تصور: جس طرح عربی میں صَرف کا تصور ہے اسی طرح اردو اور فارسی میں گردان کا تصور ہے جو جملہ فعلیہ کو سمجھنے میں مددگار ہوتا ہے۔ اس کا بنیادی وصف فعل کی صورت کا فاعل کے لحاظ سے منصرف ہونا ہے۔فاعل کے اعتبار سے گردان کے چھ صیغے ہوتے ہیں، ان کی مستقل ترتیب یہ ہے: واحد غائب (وہ: او)، جمع غائب (وہ: ایشاں)، واحد حاضر (تُو: تو)، جمع حاضر (تم، آپ: شما)، واحد متکلم (میں: من) اور جمع متکلم (ہم: ما)۔ یہاں دو باتیں خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں: فارسی میں فعل اور فاعل کے حوالے سے مذکر مؤنث کا تصور نہیں ہے، اردو میں ترجمہ کرتے وقت ہم معنوی لحاظ سے مذکر یا مؤنث اخذ کرتے ہیں۔ اوپر قوسین میں لکھے گئے اسمائے ضمیرمنفصل صرف تفہیم کے لئے ہیں، گردان میں یہ نہیں لکھے جاتے بلکہ وہاں ضمیر متصل (فاعل بصورتِ ضمیر متصل) گردان کے صیغوں کے اندر ہی پنہاںہوتے ہیں۔
جس طرح اردو میں فعل ناقص اور انگریزی میں helping verb ہوتا ہے، اسی طرح فارسی میں بھی فعل ناقص ہوتا ہے جو دوسرے افعال کے ساتھ مل کر اس کے معانی اور زمانے میں تبدیلی پیدا کرتا ہے بعض فعل ناقص جب اکیلے استعمال ہوں تو اپنی جگہ مکمل یا مختلف معانی دیتے ہیں، ان کا تفصیلی مطالعہ فی الحال مؤخر کر کے یہاںکچھ فعل ناقص (اردو میں قریب ترین ممکنہ معانی کے ساتھ) درج کئے جاتے ہیں (واضح رہے کہ فعل ناقص کا معنیٰ موقع محل کے مطابق تغیر پذیر ہوتا ہے): است، ہست (ہے)، بود (تھا)، بَوَد (ہووے)، شد (ہوا)، شَوَد (ہووے)، باشد (ہووے)، باید (چاہئے)۔ ان کی گردانیں درج کی جا رہی ہیں۔ مختصر طور پر یہ سمجھ لیں کہ مصدر کی علامت ن ہٹا دیں تو فعل ماضی مطلق کا صیغہ واحد حاضر حاصل ہوتا ہے۔اس پر کچھ مقررہ حروف کا اضافہ کر کے صیغے بنائے جاتے ہیں۔ تفصیل فعل ماضی مطلق کے تحت آئے گی۔
 

الف عین

لائبریرین
است در اصل مصدر ہستن سے ماخوذ ہے ۔ اس میں ماضی کا تصور نہیں ہوتا: ہست (وہ ہے)، ہستند (وہ ہیں)، ہستی (تو ہے)، ہستید (تم ہو)، ہستم (میں ہوں)، ہستیم (ہم ہیں)۔ است کی گردان بھی اسی نہج پر ہوتی ہے مگر یہ اکیلا نہیں آتا بلکہ کسی فعل کا حصہ بن کر آتا ہے۔ اتصال و اختصار کا عمل ہو کر صیغے یوں بنتے ہیں: است ، اند ، ای، اید، ام، ایم۔
بودن (ہونا، ہو جانا، واقع ہونا) سے ماضی مطلق کی گردان: بو ُد، بودند، بودی، بودید، بودم، بودیم۔ اس کا مضارع بَو َد (تلفظ: بَ وَد) ہے یعنی ہووے، ہو جائے۔ عام طور پر بو َد کی گردان نہیں کی جاتی۔
شدن (ہونا، ہو جانا) سے ماضی مطلق کی گردان: شد، شدند، شدی، شدید، شدم، شدیم۔ اس کا مضارع شَوَد (تلفظ: شَ وَد) ہے یعنی ہووے، ہو جائے اور گردان: شَوَد، شَوَند، شَوِی، شَوِید، شَوَم، شَوِیم۔
باشیدن (ہونا، رہنا) سے ماضی مطلق کی گردان: باشید، باشیدند، باشیدی، باشیدید، باشیدم، باشیدیم۔ اس کا مضارع باشد ہے یعنی ہووے، ہو جائے اور گردان: باشد، باشند، باشی، باشید، باشم، باشیم۔
بائستن (ہونا، چاہنا) سے ماضی مطلق کی گردان: بائست، بائستند، بائستی، بائستید، بائستم، بائستیم۔ اس کا مضارع باید (تلفظ: با یَد) ہے یعنی چاہئے۔ عام طور پر اس کی گردان نہیں کی جاتی۔
خواستن (چاہنا) سے ماضی مطلق کی گردان: خواست، خواستند، خواستی، خواستید، خواستم، خواستیم۔ اس کا مضارع خواہد (تلفظ: خا ہَد) واوِمعدولہ کے ساتھ ہے یعنی ہو گا اور گردان: خواہد، خواہند، خواہی، خواہید، خواہم، خواہیم (تلفظ: خاہد، خاہَند، الخ)۔
آپ نے دیکھا کہ ان تمام مصادر کے معانی میں ’ہونا، ہو جانا‘ واضح ہے۔ یاد رہے کہ ان کا استعمال متعلقہ قواعد کے مطابق اپنے اپنے مقام پر ہوتا ہے، لہٰذا ضروری ہے کہ انہیں خلط ملط نہ کیا جائے۔
 

الف عین

لائبریرین
(۴)
بنیادی طور پر زمانے تین ہیں: ماضی، حال اور مستقبل۔ عربی میں فعل مضارع حال اور مستقبل دونوں کے معنی دیتا ہے جب کہ فارسی میں یہ ان دونوں کے بین بین کا زمانہ ہے، دو دونوں پر محیط بھی ہو سکتا ہے۔ اردو میں رسمی طور پر اسے یوں بیان کرتے ہیں: وہ لکھے، میں پڑھوں، تو جائے، ہم آئیں، وہ سوئیں وغیرہ۔ فعل امر زمانے سے آزاد ہوتا ہے، اس میں کسی کام کا حکم، درخواست یا التجا پائی جاتی ہے۔ فعل امر کی نفی یعنی نہ کرنے کے حکم، درخواست وغیرہ کو فعل نہی کہتے ہیں۔ فارسی میں فعل ماضی کی چھ صورتیں ہیں جبکہ باقی کی ایک ایک۔ اس لئے مناسب ہو گا کہ ہم فعل ماضی کا بیان مؤخر کر کے باقی پر پہلے بات کر لیں۔
فعل مضارع ، فعل حال، فعل امر اور فعل نہی کی گردان ’مضارع‘ پر استوار ہوتی ہے۔فعل مضارع کی چند مثالیں دیکھئے:
مصدر آوردن (لانا) کا مضارع آرد ہے۔ اس کی گردان یوں ہو گی:
پہلا صیغہ (واحد غائب): آرد (وہ لائے) تلفظ: آ رَد بظاہر مضارع ہی پہلا صیغہ بنا (کوئی تبدیلی نہیں ہوئی)۔ در حقیقت علامتِ مضارع د غائب ہو گئی اور اس کی جگہ پہلے صیغے کی د نے لے لی۔
دوسرا صیغہ (جمع غائب): آرند (وہ لائیں) تلفظ: آ رَن د۔ علامتِ مضارع د غائب ہو گئی اور اس کی جگہ ند نے لے لی۔
تیسرا صیغہ (واحد حاضر): آری (تو لائے) علامتِ مضارع د غائب ہو گئی اور اس کی جگہ ی نے لے لی۔
چوتھا صیغہ (جمع حاضر): آرِید (تم لاؤ) علامتِ مضارع بدستور غائب رہی، اور اس کی جگہ ید نے لے لی۔
پانچواں صیغہ (واحد متکلم): آ رَم (میں لاؤں) علامتِ مضارع بدستور غائب رہی اور اس کی جگہ م نے لے لی۔
چھٹا صیغہ (جمع متکلم): آ ریم (ہم لائیں) علامتِ مضارع بدستور غائب رہی اور اس کی جگہ یم نے لے لی۔
 

الف عین

لائبریرین
آپ نے نوٹ کیا کہ فعل مضارع کی گردان کرنے کے لئے سب سے پہلے علامتِ مضارع د ہٹا دی جاتی ہے اور اس کی جگہ پہلے سے چھٹے صیغے تک (بالترتیب) د، ند، ی، ید، م، یم لگا دیا جاتا ہے۔
مصدر کشیدن (کھینچنا) سے مضارع کَشَد ہے اور فعل مضارع کی گردان: کَشَد(وہ کھینچے)، کَشَند (وہ کھینچیں)، کَشی (تو کھینچے)، کَشید (تم کھینچو)، کَشَم (میں کھینچوں)، کشیم (ہم کھینچیں)۔
مصدر نشستن (بیٹھنا) سے مضارع نشِینَد ہے اور فعل مضارع کی گردان: نشینَد (وہ بیٹھے)، نشینند (وہ بیٹھیں)، نشینی (تو بیٹھے)، نشینید (تم بیٹھو)، نشینم (میں بیٹھوں)، نشینیم (ہم بیٹھیں)۔
فعل حال: فعل مضارع کے متعلقہ صیغے سے پہلے مے (اس کا تلفظ ’مے‘ اور ’می‘ دونوں طرح رائج ہے) داخل کرنے سے فعل حال حاصل ہوتا ہے۔ مثلاً: مے کشد (وہ کھینچتا ہے)، مے نشینید (تم بیٹھتے ہو)، مے بینم (میں دیکھتا ہوں: دیدن دیکھنا، مضارع بینَد)، مے کُنیم (ہم کرتے ہیں: کردن کرنا، مضارع کُنَد)، مے آیم (میں آتا ہوں)، مے ترسَند (وہ ڈرتے ہیں)، مے خورید (تم کھاتے ہو)۔ یاد رہے کہ : میں آتا ہوں، میں آ رہا ہوں، میں آیا کرتا ہوں سب کا فارسی ترجمہ ’مے آیم‘ ہے۔ بعض اوقات مے کی جگہ ہمے لگایا جاتا ہے جس سے فعل میں تواتر کا معنی شامل ہو جاتا ہے۔ مثلاً: ہمے ترسند (وہ ڈر رہے ہیں یا وہ ڈرا کرتے ہیں)، ہمے رَوَم (میں جا رہا ہوں، میں جایا کرتا ہوں)، و علیٰ ہٰذاالقیاس۔
فعل امر اور فعل نہی: فعل امر کے صرف دو صیغے ہوتے ہیں: واحد حاضر اور جمع حاضر ۔ علامتِ مضارع د ہٹا دینے سے فعل امر صیغہ واحد حاضر، اور پھر اس پر ید داخل کرنے سے فعل امر صیغہ جمع حاضر حاصل ہوتا ہے۔ کَش (کھینچ)، کشید( کھینچو)، کُن (کر)، کنید (کرو)، نشین (بیٹھ جا)، نشینید (بیٹھ جاؤ)، نوِیس (لکھ)، نویسید (لکھو)، خواں (پڑھ)، خوانید (پڑھو)۔ یہاں آپ نے نوٹ کیا کہ فعل امر کا صیغہ واحد حاضر بالکل اسم فاعل کی طرح ہے یعنی کش (کھینچنے والا): محنت کش، دُود کش۔ کن (کرنے والا): کار کن، تباہ کن۔ نشین (بیٹھنے والا): گوشہ نشین، مسند نشین۔ نویس (لکھنے والا): خوش نویس، وثیقہ نویس۔ خوان (پڑھنے والا): نوحہ خوان، نغمہ خواں، وغیرہ ۔ ادھر فعل مضارع اور فعل امر کے صیغہ جمع حاضر میں کوئی فرق نہیں۔ ایسے میں معانی کا کیا ہو گا؟ کرتے یہ ہیں کہ جہاں التباس کا اندیشہ ہو، وہاں فعل امر سے پہلے بَ لگا دیتے ہیں، اور معانی فعل امر کے ہی لیتے ہیں: بکش، بکشید، بکن، بکنید، بنویس، بنویسید، بخواں، بخوانید، وغیرہ۔ فعل نہی بنانے کے لئے فعل امر سے پہلے مَ داخل کرتے ہیں: مَکُن (نہ کر، مت کر)، مَکُنید (نہ کرو، مت کرو)، مَکَش (نہ کھینچ، مت کھینچ)، مَکَشید (نہ کھینچو، مت کھینچو) وغیرہ۔ کبھی کبھی اس م کی بجائے ن بھی داخل ہوتا ہے، جس کی وضاحت افعالِ نافیہ کی ذیل میں آئے گی۔
 

الف عین

لائبریرین
فعل مستقبل بنانے کے لئے فعل ماضی مطلق سے پہلے خواہد کا متعلقہ صیغہ داخل کرتے ہیں۔ رفتن سے فعل ماضی مطلق رفت (وہ گیا) اور فعل مستقبل خواہد رفت (وہ جائے گا)، آمدن سے فعل مستقبل خواہد آمد (وہ آئے گا)، گفتن سے خواہد گفت (وہ کہے گا)، وغیرہ۔ ان کی گردانیں :
رفتن سے خواہد رفت، خواہند رفت، خواہی رفت، خواہید رفت، خواہم رفت، خواہیم رفت۔
آمدن سے خواہد آمد، خواہند آمد، خواہی آمد، خواہید آمد، خواہم آمد، خواہیم آمد۔
گفتن سے خواہد گفت، خواہند گفت،خواہی گفت، خواہید گفت، خواہم گفت، خواہیم گفت۔
فعل ماضی مطلق: گزرے ہوئے زمانے میں ہونے والا کام ، جس میں کوئی مزید تخصیص (قریب، بعید، استمرار) وغیرہ نہ ہو۔ مصدر کا ن ہٹا دیں تو فعل ماضی مطلق کا پہلا صیغہ حاصل ہوتا ہے۔ آمدن سے آمد (وہ آیا)، رفتن سے رفت (وہ گیا)، خوردن سے خورد (اس نے کھایا)، نوشتن سے نوشت (اس نے لکھا)۔
ساختن (بنانا)سے فعل ماضی مطلق معروف کی گردان : ساختن کا ن ہٹانے سے ساخت حاصل ہوا (اس نے بنایا)۔ یہ گردان کا پہلا صیغہ ہے۔
پہلا صیغہ(واحد غائب): ساخت (اس نے بنایا): کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ (تلفظ : ساخ ت؛ دوسرا صیغہ(جمع غائب): ساختند (انہوں نے بنایا): پہلے صیغے پر ند کا اضافہ ہوا۔ تلفظ: ساخ تَن د؛ تیسرا صیغہ (واحد حاضر): ساختی (تو نے بنایا): پہلے صیغے پر ی کا اضافہ ہوا؛ چوتھا صیغہ (جمع حاضر): ساختید (تم نے بنایا): پہلے صیغے پرید کا اضافہ ہوا؛ پانچواں صیغہ (واحد متکلم): ساختم (میں نے بنایا): پہلے صیغے پر م کا اضافہ ہوا۔ تلفظ: ساخ تَم؛ چھٹا صیغہ (جمع متکلم): ساختیم (ہم نے بنایا): پہلے صیغے پر یم کا اضافہ ہوا۔
اسی طرح رفتن (جانا) کا ن ہٹانے سے رفت (وہ گیا)۔ پہلا صیغہ(واحد غائب): رفت (وہ گیا): کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ تلفظ: رَف ت؛ دوسرا صیغہ(جمع غائب): رفتند (وہ گئے): پہلے صیغے پر ند کا اضافہ ہوا۔ تلفظ: رف تَن د؛ تیسرا صیغہ (واحد حاضر): رفتی (تو گیا): پہلے صیغے پر ی کا اضافہ ہوا۔ تلفظ: رف تی؛ چوتھا صیغہ (جمع حاضر): رفتید (تم گئے): پہلے صیغے پرید کا اضافہ ہوا؛ پانچواں صیغہ (واحد متکلم): رفتم (میں گیا): پہلے صیغے پر م کا اضافہ ہوا۔ تلفظ: رف تَم؛ چھٹا صیغہ (جمع متکلم): رفتیم (ہم گئے): پہلے صیغے پر یم کا اضافہ ہوا۔
فعل ماضی مطلق میں صیغہ سازی کا خلاصہ یہ ہے: ۱ () ، ۲ (ند)، ۳ (ی)، ۴(ید)، ۵ (م)، ۶ (یم)۔ مصدر کی علامت ن ہٹا کر اس پر قوسین کے اندر دئے گئے حروف داخل کریں۔ خالی قوسین کا مطلب ہے کچھ بھی نہیں۔
 

الف عین

لائبریرین
رنجیدن (ناخوش ہونا، فکرمند ہونا) سے فعل ماضی مطلق معروف کی گردان: رنجید (وہ ناخوش ہوا) رنجیدند (وہ ناخوش ہوئے)، رنجیدی (تو ناخوش ہوا)، رنجیدید (تم ناخوش ہوئے)، رنجیدم (میں ناخوش ہوا)، رنجیدیم (ہم ناخوش ہوئے) ۔
رَبُودَن (اچکنا) سے : رَبُود (اس نے اچک لیا)، ربودند، ربودی، ربودید، ربودم، ربودیم۔
فعل ماضی قریب: وہ ماضی ہے جس میں قریب کے معنے پائے جائیں مثلاً: وہ آیا ہے یا آ گیا ہے، میں نے خط لکھ لیا ہے، حمید جا چکا ہے، وغیرہ۔ مصدر کی علامت ن ہٹا کر اس کی جگہ ہ لگاتے ہیں۔ پھر اس پر فعل ناقص است داخل کرکے اس کی گردان مکمل کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر: نَوِش تن (لکھنا) کی علامتِ مصدر ن ہٹا کر ہ لگایا تو نَوِش تہ حاصل ہوا (اس کو اسم مفعول سے خلط ملط نہ کریں)۔ اس پر است داخل کر کے گردان مکمل کی تو: نوشتہ است (اس نے لکھا ہے)، نوشتہ اند (انہوں نے لکھا ہے)، نوشتہ ای (تو نے لکھا ہے)، نوشتہ اید (تم نے لکھا ہے)، نوشتہ ام (میں نے لکھا ہے)، نوشتہ ایم (ہم نے لکھا ہے)۔
آمدن (آنا) سے فعل ماضی قریب کی گردان: آمدہ است (وہ آیا ہے)، آمدہ اند (وہ آئے ہیں)، آمدہ ای (تو آیا ہے)، آمدہ اید (تم آئے ہو)، آمدہ ام (میں آیا ہوں)، آمدہ ایم (ہم آئے ہیں)۔ اسی نہج پر خوردن (کھانا) سے ماضی قریب کی گردان: خوردہ است (اس نے کھایا ہے)، خوردہ اند، خوردہ ای، خوردہ اید، خوردہ ام، خوردہ ایم بنتی ہے۔
فعل ماضی بعید: وہ ماضی ہے جس میں بعید کے معنی پائے جاتے ہوں مثلاً: اس نے دیکھا تھا، وہ جا چکا تھا، ٹیم ہار گئی تھی، وغیرہ۔ فعل ماضی قریب میں است کی بجائے بُود لگا کر اس کی گردان مکمل کر لیتے ہیں۔ مثال کے طور پر: آمدہ بودم (میں آیا تھا)، رفتہ بودید (تم جا چکے تھے)، کُشتہ بودند (انہوں نے مارا تھا)۔
فعل ماضی شکیہ: وہ ماضی ہے جس میں شک کا معنیٰ پایا جائے مثلاً: وہ آیا ہو گا، تم نے سنا ہو گا، آپ نے دیکھا ہو گا، وغیرہ۔ فعل ماضی قریب میں است کی بجائے باشد لگا کر اس کی گردان مکمل کر لیتے ہیں۔ مثلاً: آمدہ باشد (وہ آیا ہو گا)، شنیدہ باشی (تو نے سنا ہو گا)، دیدہ باشید (تم نے دیکھا ہو گا)، وغیرہ۔
فعل ماضی استمراری: وہ ماضی جس میں استمرار اور جاری رہنے کے معنے پائے جائیں، مثلاً: میں جاتا تھا، وہ آ رہا تھا، ہم سو رہے تھے، حمید سن رہا تھا، آپ جانتے تھے، تو پوچھا کرتا تھا، وغیرہ۔ فعل ماضی مطلق سے پہلے مے لگاکر گردان مکمل کرتے ہیں۔ مثلاً: مے رفتم (میں جاتا تھا)، مے آمد (وہ آ رہا تھا)، مے خوابیدیم (ہم سوتے تھے)، مے گفتید (تم کہا کرتے تھے)، وغیرہ۔ واضح رہے کہ مثال کے طور پر ہم سنا کرتے تھے، ہم سن رہے تھے، ہم سنتے تھے ان تینوں صورتوں کا فارسی ترجمہ ایک ہی ہو گا یعنی مے شنیدیم۔ فعل حال کی طرح یہاں بھی فعل میں تواتر کا مفہوم دینے کے لئے مے کو ہمے سے بدل دیتے ہیں ، مثلاً: ہمے رفتم (میں جارہا تھا، میں جایا کرتا تھا)، و علیٰ ہٰذا القیاس۔
ماضی شرطی یا ماضی تمنائی: ماضی کی وہ صورت ہے جو شرط، تمنا وغیرہ کے ساتھ خاص ہے۔ اس کی گردان معمول سے کسی قدر ہٹ جاتی ہے۔ در اصل تین صیغے (۱۔واحد غائب، ۲۔جمع غائب اور٥۔ واحد متکلم) اس کے اپنے ہیں جن میں فعل ماضی مطلق پر ے داخل کرتے ہیں۔ باقی تین صیغے (٣۔واحد حاضر، ۴۔جمع حاضر اور ٦۔جمع متکلم) ماضی استمراری سے لے لئے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر:
کردن (کرنا) سے ماضی شرطی یا تمنائی کی گردان: کردے (وہ کرتا)، کردندے (وہ کرتے)، مے کردی (تو کرتا)، مے کردید (تم کرتے)، کردمے (میں کرتا)، مے کردیم (ہم کرتے)۔ گفتن (کہنا) سے ماضی شرطی یا تمنائی کی گردان: گفتے (وہ کہتا)، گفتندے (وہ کہتے)، مے گفتی (تو کہتا)، مے گفتید (تم کہتے)، گفتمے (میں کہتا)، مے گفتیم (ہم کہتے)۔ اور جُستن (ڈھونڈنا سے) : جُستے، جُستندے، مے جُستی، مے جُستید، جُستمے، مے جُستیم۔
 

الف عین

لائبریرین
(۵)
ہم جملہ فعلیہ اور افعال کی جملہ صورتوں سے تعارف حاصل کر چکے ہیں۔ تاہم ابھی تک ہم نے سوالیہ اور نافیہ جملوں کی مشق نہیں کی اور نہ ہی فعل مجہول پر بحث کی ہے۔ آگے چلنے سے پہلے مناسب ہو گا کہ مفعول کے حوالے سے فعل کی دونوں صورتوں یعنی فعل لازم اور فعل متعدی کا مطالعہ کر لیا جائے۔ فعل لازم وہ ہے جو اپنے معانی کی تکمیل کے لئے کسی مفعول کا تقاضا نہ کرے، مثلاً: چلنا، پھرنا، بولنا، سوچنا، سونا، جاگنا، مرنا وغیرہ۔ فعل متعدی اپنے معانی کی تکمیل کے لئے مفعول کا تقاضا کرتا ہے، مثلاً: چلانا، بلانا، جگانا، کھانا، پکڑنا، پیٹنا، سمجھانا، پکانا وغیرہ۔ یاد رہے کہ بے شمار افعال ایسے ہیں جو موقع محل کے مطابق لازم یا متعدی ہوتے ہیں، ایسے افعال کو فعل لازم و متعدی کہا جاتا ہے۔ دیگر، ایسے افعال بھی ہوتے ہیں جو بیک وقت ایک سے زیادہ مفعول کا تقاضا کرتے ہیں، مثلاً: اٹھوانا، لکھوانا، پکوانا، کھلانا، پلانا وغیرہ۔ انہیں متعدی المتعدی کہا جاتا ہے۔ ان مصادر کا فارسی ترجمہ کسی بھی اچھی قاموس، لغت یادرسی کتاب میں دیکھا جا سکتا ہے۔
فاعل اور مفعول کے حوالے سے فعل کی دو صورتیں ہیں۔ فعل معروف فاعل کے حوالے سے ہوتا ہے۔ اوپر ہم افعال پر جتنی بحث کر آئے، سب میں فعل معروف استعمال کیا ہے۔ فعل مجہول فاعل کی بجائے مفعول کے حوالے سے ہوتا ہے۔ جیسے، وہ مارا گیا، خط لکھا جا چکا، چائے پی جاتی ہے، سڑک بنائی جائے گی، چور پکڑا جاتا، تصویر بنا لی گئی ہوتی، وغیرہ۔ یاد رہے کہ فعل مجہول صرف فعل متعدی یا متعدی المتعدی کی صورت میں درست ہو سکتا ہے، فعل لازم سے فعل مجہول نہیں بن سکتا ۔ وجہ ظاہر ہے: فعل لازم اپنے معانی کے اعتبار سے مفعول کا متقاضی نہیں ہوتا اور فعل مجہول ہوتا ہی مفعول کے حوالے سے ہے۔ مثال کے طور پر ’آمدہ شد‘، ’رفتہ شد‘ اور ایسے مجہول افعال جو فعل لازم سے بنائے گئے ہوں، غلط اوربے معنی سمجھے جائیں گے۔
فعل مجہول بنانے کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ فعل (زمانے) کی ہر صورت کو الگ الگ دیکھا جائے، جو یقینا ایک طویل اور تھکا دینے والا عمل ہے۔ دوسرا براہِ راست طریقہ ہے جسے ہم نے انگریزی میں passive voice بنانے کے طریقے سے اخذ کیا ہے۔ فعل ماضی قریب بنانے کے قاعدے میں ذکر ہوا کہ مصدر کا ن ہٹا کر اس پر ہ داخل کرنے سے جو حاصل ہوتا ہے وہ اسم مفعول بھی ہوتا ہے۔ یہ اسم مفعول انگریزی میں verb کی تیسری حالت سے منطبق ہوتا ہے۔ اور وہ لوگ passive voice بنانے کے لئے verb کی زمانی حالت کی جگہ، اسی تیسری فارم کے ساتھ be کی زمانی حالت (is, are, am, was, were, been, shall be, will be, has been, had been) وغیرہ لاتے ہیں۔ ہم بھی یہی قاعدہ لگائیں گے۔انگریزی کا be فارسی کے شدن (ہونا) کا ہم معنی ہے اور shall, will فارسی کے خواہد کے ہم معنی ہیں۔ ہم اس خاصیت سے فائدہ اٹھائیں گے اور معاملے کو آسان رکھنے کے لئے جہاں ضروری ہوا، صرف ایک مصدر کردن (کرنا،do) پر مشق کریں گے۔ جملہ مصادر کا قیاس اسی پر ہوتا ہے۔
فعل مجہول بنانے کا براہ راست طریقہ: آپ کے سامنے فعل معروف کا جو بھی جملہ ہے (زمانے، سوال، نفی، وغیرہ سے قطع نظر)، اس میں بنیادی فعل کا تعین کریں ۔ آپ نے افعال نکالے مثال کے طور پر: کردہ است، مے کرد، مے کنم، کردہ بودی، کردمے، خواہیم کرد، کردہ باشند، کردہ اند۔ (ان کے معانی یہ ہیں: اس نے کیا ہے، وہ کرتا تھا، میں کرتا ہوں، تو نے کیا تھا، میں کرتا، ہم کریں گے، انہوں نے کیا ہوگا، انہوں نے کیا ہے)۔ ان کی جگہ مصدر شدن کی وہی صورت رکھ دیں: شدہ است، مے شد، مے شود، شدہ بودی، شدمے، خواہیم شد، شدہ باشد، شدہ اند۔ اب ان سے پہلے اسم مفعول (کردہ) لگا دیں: کردہ شدہ است، کردہ مے شد،کردہ مے شود،کردہ شدہ بودی، کردہ شدمے،کردہ خواہیم شد،کردہ شدہ باشد، کردہ شدہ اند ۔ ان کے معانی یہ ہیں: وہ کیا گیا ہے، وہ کیا جاتا تھا، وہ کیا جاتا ہے، تو کیا گیا تھا، میں کیا جاتا، ہم کئے جائیں گے، وہ کئے گئے ہوں گے، وہ کئے گئے ہیں۔ اسی قیاس پر ہم کسی بھی مصدر سے حاصل شدہ کسی بھی زمانے اور کسی بھی ضمیر کے فعل معروف سے فعل مجہول بنا سکتے ہیں۔
 

الف عین

لائبریرین
نافیہ: فعل میں نفی کے معنے دینا مقصود ہو تو اس سے پہلے نہ داخل کرتے ہیں۔ بسا اوقات اس نافیہ نہ کی ہ ہٹا دی جاتی ہے اور اکیلا بچ جانے والا ن فعل سے متصل ہو جاتا ہے۔ مثلاً: کردہ بود سے نہ کردہ بود، مے رفتم سے نمی رفتم، خواہم گفت سے نخواہم گفت، وغیرہ۔ اگر فعل کا پہلا حرف آ ہو تو اس کی نفی بناتے وقت اسے یا سے بدل دیتے ہیں اور پھر اس پر ن داخل کیا جاتا ہے۔ مثلاً: آمدم سے نیامدم، آوردن سے نیاوردن، وغیرہ۔
فاعل غیر نمایاں: بعض جملوں میں فاعل معنوی سطح پر موجود ہوتا ہے مگر فعل کے مقابلے میں اس کی نمائندگی چنداں اہم نہیں ہوتی۔ مثلاً: لوگ کہتے ہیں، لوگ اسے پکڑ کر بادشاہ کے پاس لے گئے، وغیرہ۔ ایسے جملوں کو صیغہ جمع غائب میں بیان کیا جاتا ہے۔ مثلاً: مے گویند (وہ کہتے ہیں: لوگ کہتے ہیں)، ابلہے را گرفتہ، بہ پیشِ فقیرے بردند (وہ : مراد ہے لوگ: ایک دیوانے کو پکڑ کر ایک فقیر کے پاس لے گئے)، وغیرہ۔
اسماء، حروف، مصادر، افعال اور گردانوں پر ابتدائی بحث مکمل ہو چکی۔ان قواعد کے عملی اطلاق کے لئے ضروری ہے کہ ہمارے پاس مناسب ذخیرۂ الفاظ بھی موجود ہو۔ آپ جانتے ہیں کہ ذخیرۂ الفاظ بڑھانے کے لئے مطالعہ اشد ضروری ہے۔ علاوہ ازیں چند متفرق تصورات ایسے ہیں جو قواعد سے شناسائی کے ساتھ ساتھ اس ذخیرہ میں اضافہ بھی کرتے ہیں، مثال کے طور پر، واحد اور جمع، مذکر اور مؤنث، اسمِ صِفَت کی تین حالتیں، عدد اور معدود وغیرہ۔ مناسب ہو گا کہ ہم پہلے ان تصورات کو سمجھ لیں۔
واحد اور جمع: فارسی میں واحد سے جمع بنانے کے چاربڑے قواعد ہیں۔
 

الف عین

لائبریرین
پہلا قاعدہ: واحد اگر عاقل ہو تو اس پر ان کا اضافہ کرتے ہیں۔ مثلاً: مرد سے مردان یا مردمان، بزرگ سے بزرگان، استاذ سے استاذان، مہمان سے مہمانان، زن سے زنان، اسپ سے اسپان، کودک سے کودکان، طفل سے طفلان، وغیرہ۔ اگر واحد کا آخری حرف ہ ہو تو اسے گ سے بدل کر اس پر ان کا اضافہ کرتے ہیں۔ مثلاً: بچہ سے بچگان۔ یہی قاعدہ ایسے اسم مفعول اور اسم فاعل پر بھی لاگو ہوتا ہے جہاں واحد کا آخری حرف ہ ہو: مردہ سے مردگان، کشتہ سے کشتگان، درندہ سے درندگان، زندہ سے زندگان، وغیرہ۔مزید، اگر واحد کا آخری حرف ا یا و ہو تو اس پر یان بڑھاتے ہیں، جیسے: گدا سے گدایان، جنگجو سے جنگجویان، وغیرہ۔
دوسرا قاعدہ: واحد اگر غیر عاقل ہو تو اس پر ہا کا اضافہ کرتے ہیں، مثلاً: ذرہ سے ذرہ ہا، ہزار سے ہزارہا، شجر سے شجر ہا، نہال سے نہال ہا، زمزمہ سے زمزمہ ہا، سال سے سال ہا، قلم سے قلم ہا، وغیرہ۔
تیسرا قاعدہ: بعض واحد اسماءکی جمع بنانے کے لئے ان پر ات یا جات کا اضافہ کرتے ہیں، مثلاً: مکان سے مکانات، مندرج سے مندرجات، باغ سے باغات، پرچہ سے پرچہ جات، ضمیمہ سے ضمیمہ جات، رسالہ سے رسالہ جات، وغیرہ۔
چوتھا قاعدہ: واحد اور جمع میں عربی قواعد(جمع سالم، جمع مکسر) کا تتبع بھی کیا جاتا ہے۔مثال کے طور پر: جاہل سے جاہلون اور جہلا، ارم سے آرام،دِقَّت سے دقائق، حقیقت سے حقائق، کتاب سے کتب، وغیرہ۔
 

الف عین

لائبریرین
مذکر اور مؤنث: عام طور پر مذکر اور مؤنث عربی کے قاعدہ مؤنث سماعی کے مطابق ہیں اور کسی خاص لفظی ساخت کے پابند نہیں ، مثلاً: داماد (دولھا)، عروس (دلہن)، پدر (باپ)، مادر (ماں)، بانو (بیوی)، کنیز (لونڈی، نوکرانی، خادمہ)، آتون (استانی)، خاشتہ (سالی)، زن (عورت)، دختر (بیٹی)، خواہر (بہن)، وغیرہ۔ اس کے ساتھ ساتھ بہت سے اسماءمذکر اور مؤنث کے لئے ایک ہی صورت مروج ہے، جیسے: خیاط (درزی، درزن)، دکتر (ڈاکٹر)، خر (گدھا، گدھی)، سگ (کتا، کتیا)، وغیرہ۔ ایسے میں تخصیص کی خاطر مذکر اور مؤنث کی مرکب صورت لائی جاتی ہے، مثلاً: خیاط زن (درزن)، بیوہ مرد (رنڈوا) اور بیوہ زن (رانڈ)، کد خدا (شوہر)، کد بانو (بیوی)، جادوگر مرد، جادوگرزن، پدرِ بزرگ (دادا، نانا)، مادرِ بزرگ (دادی، نانی)، وغیرہ۔ حیوانات کے لئے بھی مرکب کی کوئی صورت لاتے ہیں، جیسے: بُز نر (بکرا)، بُز مادہ (بکری)، گوسفند نر (مینڈھا، قوج)، گوفند مادہ (بھیڑ، میش) وغیرہ۔
 

الف عین

لائبریرین
(۶)
تفضیل (اسمِ صفَت کی صورتیں): جیسا کہ ہم پہلے جان چکے ہیں، اسمِ صفت وہ اسم ہے جو کسی دوسرے اسم کی کسی خوبی، خامی، وصف وغیرہ کو ظاہر کرے۔ مثلاً: خوب، بزرگ، تیز، زیرک، سیاہ، سفید، جری، وغیرہ۔ اسمِ صفت کی تین صورتیں ہوتی ہےں۔ تفضیلِ نفسی یعنی جب صفت کے حوالے سے کسی دوسرے سے تقابل نہ ہو۔ تفضیلِ بعض یعنی جب اس حوالے سے کسی ایک یا زائد اسما سے موازنہ مقصود ہو۔ اس صورت میں اسمِ صفت پر تر کا اضافہ کرتے ہیں، جیسے: خوب تر، تیز تر، بد تر، کم تر، تشنہ تر، وغیرہ۔ تفضیلِ کل میں یہ تقابل بقیہ سب سے ہوتا ہے، جیسے: بد ترین، بزرگ ترین، خوب ترین، وغیرہ۔
مصدر اور اسمِ حاصل مصدر: مصدر وہ ہے جس سے تمام زمانے اور افعال اخذ کئے جاتے ہیں۔ مصدر ہی سے اس کا ہم معنی ایک ایسا کلمہ بھی اخذ کیا جاتا ہے، جس کے معانی تو اسی مصدر کے ہوتے ہیں، مگر حیثیت مصدرکی نہیں رہتی۔ اسے اسمِ حاصل مصدر کہا جاتا ہے ۔ اسمِ حاصل مصدر سے افعال اور زمانے اخذ نہیں ہوتے۔ مثالیں: کردن (کرنا) سے کردار، کار، کار کردگی۔ گفتن (کہنا) سے گفتار، گوئی۔ آمدن (آنا) سے آمد۔ آوردن (لانا) سے آوری، آورد۔ شکستن (ٹوٹنا، توڑنا) سے شکست، شکن۔ برخاستن (اٹھنا) سے برخاست، بر خیزی۔ پیراستن (سنورنا، سنوارنا) سے پیرائش، پیرایہ۔ پیچیدن (لپیٹنا، لپٹنا) سے پیچ، پیچش، پیچیدگی۔ مالیدن (مَلنا) سے مالش۔ نمودن (دکھانا) سے نمائش۔ گریستن (رونا) سے گریہ، نوشتن (لکھنا) سے نوشت، نویسی۔ پرستیدن (پوجنا) سے پرستش، پرستی، وغیرہ۔
دیگر اہم مشتقات کا اجمالی ذکر: مصدر کی علامت ن ہٹا کر اس کی جگہ ہ لگادینے سے اسمِ مفعول حاصل ہوتا ہے۔ مثلاً: بوسیدن (گھِسنا) سے بوسیدہ (گھِسا ہوا)، آزمودن (آزمانا) سے آزمودہ (آزمایا ہوا)، وغیرہ۔ مضارع کی علامت د ہٹا دینے سے اسمِ فاعل حاصل ہوتا ہے۔ کردن: کند سے کن (کرنے والا)، نوشتن: نویسد سے نویس (لکھنے والا)، گفتن: گوید سے گو (کہنے والا)، وغیرہ۔ یہ ماحصل فعل امر کے صیغہ واحد حاضر سے مشاکل ہوتا ہے اس لئے سلاست کی غرض سے فعل امر سے پہلے ب لگا دیتے ہیں، مثلاً: کن: بکن (کر)، نویس: بنویس (لکھ)، گو: بگو (کہہ)، وغیرہ۔ مضارع کی علامت د ہٹا کر اس کی جگہ ندہ لگانے کا حاصل بھی اسمِ فاعل ہوتا ہے۔ مندرجہ بالا مثالوں میں کند سے کنندہ، نویسد سے نویسندہ، گوید سے گویندہ، وغیرہ۔ مضارع کی علامت ہٹا کر ان لگانے سے اسمِ کیفیت حاصل ہوتا ہے، مثلاً رفتن:رَوَد سے رواں (جاتا ہوا)، دَوِیدن: دَوَد سے دَواں (دوڑتا ہوا)، افتادن: افتد سے افتاں (گرتا ہوا)، شائستن: شاید سے شایاں (پھبتا ہوا)، پرسیدن: پُرسد سے پُرساں، وغیرہ۔ واضح رہے کہ بسا اوقات اسمِ کیفیت اور اسم فاعل ہم معنی ہو جاتے ہیں۔ مزید واضح رہے کہ فارسی میں نون غنہ عام طور پر لفظ کا آخری حصہ ہوتا ہے اور اسے نون ناطق بھی پڑھا جاتا ہے۔ اہلِ زبان نون غنہ کو یوں ادا کرتے ہیں کہ نہ وہ مکمل طور پر ناطق ہوتا ہے اور نہ مکمل غنہ، بلکہ ان کے بین بین ہوتا ہے۔ یہ نون غنہ زیرِ اضافت، زیرِ توصیفی، واوِ عطفی وغیرہ کے زیرِ اثر متحرک ہو کر نون ناطق بن جاتا ہے۔ اسی طرح، اہلِ زبان کے ہاں، کسی لفظ کے آخر میں واقع ہونے والی ’یے‘ کا تلفظ یائے مجہول (ے) اور یائے معروف (ی) کے بین بین ہوتا ہے اور املا میں بھی دونوں صورتیں درست سمجھی جاتی ہیں۔ مثلاً مے: می، کسے: کسی، وغیرہ۔ یائے لِین (جہاں ’ے‘ سے پہلے حرف پر زبر ہو) کی صورت میں بھی یہ جائز ہے۔ ہم یائے لین کی صورت میں ’ے‘ اوریائے معروف ( جہاں ’ے‘ سے پہلے حرف پر زیر ہو) کی صورت میں ’ی‘ لکھنے کی سفارش کریں گے۔
 

الف عین

لائبریرین
(۷)
کلمۂ مرکب اور اتصال: فارسی زبان کا ایک امتیازی وصف اختصار اور اتصال ہے جس کی کچھ مثالیں ہم ابتدائی اسباق میں بیان کر چکے ہیں۔ایک سے زیادہ کلمات کو (اس سے قطع نظر کہ وہ قواعد کی رو سے اسم ہیں، یا فعل کا کوئی صیغہ، حرف، اسم ضمیر، وغیرہ وغیرہ)، اگر تلفظ اور املاءکے حوالے سے آپس میں یوں مل سکیں کہ معانی میں کوئی ابہام یا تبدیلی نہ آ جائے تو آپس میں ملا دئے جاتے ہیں۔ اسے ہم اپنی سہولت کے لئے مرکب لفظ یا کلمۂ مرکب کا نام دیتے ہیں۔اتصال کا کوئی لگا بندھا قانون نہیں تاہم چند موٹی موٹی باتیں ذہن میں رکھنی ہوں گی۔ اشارات دئے جا رہے ہیں :کہ ، نہ ، وغیرہ کی ہ ہٹائی جا سکتی ہے۔ ا، آ وغیرہ اپنے ماقبل سے متصل ہو سکتے ہیںیا حذف ہو سکتے ہیں، مثلاً: کزو (کہ، از، اُو)، ازاں (از، آں)، زِ من (از، من)، کیں (کہ، ایں)، زِ تو (از، تو)، چگونہ (چہ، گُونہ)، گُفتمش (گفتم، اش : میں نے اس سے کہا)، کیست (کہ، است: کون ہے)، چیست (چہ، است: کیا ہے)، نیست (نہ است: نہیں ہے)، بدیں (بہ، ایں)، بدوں: بداں (بہ، آں)، و علیٰ ہٰذاالقیاس۔
اسمِ اشارہ، اسمِ ضمیر اور ان کی مختلف حالتیں: اشارے دو ہیں، قریب (این) اور بعید (آن)۔ این کی جمع عاقل اینان اور غیر عاقل اینہا، آن کی جمع عاقل آنان اور جمع غیر عاقل آنہا ہے۔ان سے حروفِ مرکب یوں بنتے ہیں: ازیں (اِس سے، اِس کا)، ازاں (اُس سے، اُس کا)، این را (اِسے)، آن را (اُسے)، اینہا را: اینان را (اِن کو)،آنہا را: آنان را (اُن کو)، وغیرہ۔
اسمِ ضمیر کا بیان پہلے ہو چکا، تاہم یہاں آموختہ دہرانا ضروری محسوس ہوتا ہے، اس کی دو صورتیں ہیں، منفصل اور متصل۔ منفصل کی صورتیں اور مرکبات یہ ہیں: من (میں)، از من: زِمَن (مجھ سے، میرا)، مَرا (مجھے)، ما (ہم)، از ما: زِما (ہم سے، ہمارا)، ما را (ہمیں)، تو (تُو)، از تو: زِتو (تیرا، تجھ سے)، تُرا (تجھے)، شما (تم)، از شما: زِشُما (تم سے، تمہارا)، شما را (تمہیں)، اُو (وہ)، اَزُو: زِاُو: زُو (اُس سے، اُس کا)، اُو را (اُسے)، ایشان (وہ: جمع)، اَز ایشان، زِشان (اُن کا،اُن سے)، ایشان را (اُنہیں) ۔ ضمیر متصل اپنے ماقبل سے ملا ہوا ہوتا ہے۔ اس کی صورتیں یہ ہیں: اَم (میرا) جیسے کتابم (میری کتاب)، ماں (ہمارا) جیسے کتابماں (ہماری کتاب)، اَت (تیرا) جیسے قلمَت (تیرا قلم)، تاں (تمہارا) جیسے کتابتاں (تمہاری کتاب)، اَش (اُس کا) جیسے قلمَش (اُس کا قلم)، شاں (اُن کا) جیسے کتابشاں (ان کی کتاب)۔ واضح رہے کہ جہاں ضمیر کا ماقبل متصل نہ ہو وہاں ضمیر منفصل کے ساتھ اضافت معمول کے مطابق بنے گی، جیسے: خانۂ او، بہ حوالۂ ایشاں، طریقِ شما، دین ِما، برادرِ من، وغیرہ۔
 

الف عین

لائبریرین
عدد، عددِ ترتیبی اور عددِ ضعفی: فارسی میں اعداد کی ترتیب اردو کی نسبت آسان ہے۔ وہ یوں کہ اردو میں ایک سے سو تک ہر عدد کے لئے ایک خاص لفظ ہے (یا ہر عدد کا ایک نام ہے)۔ فارسی میں ایک سے بیس تک ہر عدد کا اور پھر ہر دہائی کا ایک نام ہے۔ بیس اور اس سے زیادہ ہر دہائی کے بعد ایک سے نوتک کو دہائی کے ساتھ عطف کر دیتے ہیں۔ یَک، دو، سہ، چہار، پنج، شش، ہفت، ہشت، نُہ، دہ (دَس)، یازدہ، دوازدہ، سیزدہ، چہاردہ، پانزدہ: پانژدہ، ششدہ، ہفدہ، ہشدہ: ہژدہ، نوازدہ، بیست (بیس)، بیست و یک، بیست و دو، بیست و سہ، سی (تیس)، سی و یَک، سی و دو، ، چِہل (چالیس)، پنجاہ (پچاس)، شصت (ساٹھ)، ہفتاد (سَتّر)، ہشتاد (اَسّی)، نَود (نَوّے)، صد (سَو)، ہزار، و علیٰ ھٰذاالقیاس۔یاد رہے کہ معدود ہمیشہ واحد،اور اس اعتبار سے اس کا فعل بھی واحد ہوگا۔ مثال کے طور پر چہار نفر آمد (چار لوگ آئے)، وغیرہ۔ اعداد ترتیبی یعنی پہلا، دوسرا، تیسرا کے لئے عدد پر ’م‘ کا اضافہ کرتے ہیں: یکم، دُوَم، سِوَم، چہارم، یازدہم، دوازدہم بیستم (بیسواں)، بیست و یکم، بیست و دوم، سِیَم (تیسواں)، سی و یکم، سی و دوم، سی و سوم، چِہلم (چالیسواں)، پنجاہم (پچاسواں)، صَدَم (سَوواں)، و علیٰ ھٰذاالقیاس۔اعداد ضعفی یعنی دگنا، تگنا، چو گنا، پانچ گنا دس گنا تک کے لئے عدد کے ساتھ چند یا برابر لگاتے ہیں اور اس سے زیادہ کے لئے برابر۔ دو چند: دو برابر، سہ چند: سہ برابر، نُہ چند: نُہ برابر، دہ چند: دہ برابر۔ یازدہ برابر، دوازدہ برابر۔ بیست برابر۔ صد برابر، و علیٰ ھٰذاالقیاس۔ ایک خاص بات نوٹ کر لیں بعض جملوں میں لفظ ایک گنتی کی بجائے ذکر کے طور پر آتا ہے، جیسے، ایک تھا بادشاہ، میں نے ایک شخص کو دیکھا، ایک رات بہت بارش ہو رہی تھی، وغیرہ۔ اس کے لئے اسم کے ساتھ ے لگاتے ہیں، مثلاً: پادشاہے، شبے، روزے، وقتے، وغیرہ۔ فارسی میں ترکیب یکے بمعنی ایک عام مستعمل ہے، تاہم اس کے بعد حرف جار از لگایا جاتا ہے، مثلاً: یکے از سلاطینِ خراسان را شنیدہ ام کہ خیلے نکو بود ۔اس جملے کا لفظی ترجمہ ہے: میں نے خراسان کے سلاطین سے ایک کو سنا ہے کہ وہ بہت نیک تھا۔ بامحاورہ ترجمہ ہو گا: سنا ہے، خراسان کا ایک بہت نیک بادشاہ تھا۔ و علیٰ ھٰذاالقیاس۔
 

الف عین

لائبریرین
(۸)
فارسی زبان کے قواعد کا خلاصہ بیان ہو چکا۔ اب ہم کچھ نمونے لے کر ان کا ترجمہ کریں گے۔ لیکن اس سے پہلے ایک بہت اہم بات، کہ محاورے اور ضرب الامثال کا لفظی ترجمہ ممکن نہیں ہوتا، اس کا بامحاورہ ترجمہ کرنا پڑتا ہے یا یوں کہئے کہ محاورہ کے مفہوم پر مبنی جملہ بنانا پڑتا ہے۔ اس کے ساتھ ذخیرۂ الفاظ بھی ضروری ہے اور یہ بھی کہ جہاں تراکیب کا ترجمہ کرنا ہو یا ترجمے میں تراکیب حاصل ہوں، وہاں غیر ضروری مشکل پسندی سے گریز ہی مناسب ہے۔شاعری کا ترجمہ کرتے وقت ان شعری صنعتوں کو بھی پیشِ نظر رکھنا پڑتا ہے جو کسی نہ کسی حوالے سے مفاہیم و مطالب پر اثر انداز ہوتی ہوں۔ اس کے برعکس لفظی بازی گری کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ بدیں وجہ ترجمہ میں اصل کی سی چاشنی باقی نہیں رہتی۔ شعر سے شعر میں ترجمہ کوئی آسان کام نہیں ہے اور ایسا کوئی پختہ کارشاعر ہی کر سکتا ہے بشرطیکہ وہ دونوں زبانوں کا مزاج آشنا ہو، ورنہ ایسی کوشش بجائے خود مضحکہ خیز ہو سکتی ہے۔
آئیے، مولانا جامی کی ”بہارستان“ سے کچھ منتخب حکایات کا اردو میں ترجمہ کرتے ہیں:
(۱) نابینایی در شب ِ تاریک چراغی در دست و سبویی بر دوش در راہی می رفت۔ فضولی بہ وی رسید و گفت: ”اَی نادان! روز و شب پیشِ تو یکسان است و روشنی و تاریکی در چشمِ تو برابر، ایں چراغ را فایدہ چیست؟“ نابینا بخندید و گفت: ”این چراغ نہ از بہرِ خود است، از برایِ چوں تو کُور دلانِ بے خرد است تا با من پہلو نرنند و سبویِ مرا نشکنند۔
مباحث: نابینایی: ایک نابینا۔ اس میں آخری ’ی‘ کا معنی ’ایک‘ ہے اور اس سے پہلی ’ی‘ فارسی سے خاص ہے۔ یہ ایسے اسماءکے آخرمیں لایا کرتے ہیں جو حرفِ علت ’الف‘ یا ’واؤ‘ پر ختم ہوں۔ چراغی، سبویی، فضولی میں بھی ’ی‘ کا معنی ’ایک‘ ہے۔ نوٹ کریں کہ فارسی لکھتے ہوئے ’ی‘ اور ’ے‘ میں کوئی امتیاز نہیں کیا جاتا۔مے رفت: وہ جاتا تھا، وہ جا رہا تھا، وَی: وہ، بہ وَی: اسے، گفت: کہا، کہنے لگا، پیشِ تو: تیرے سامنے، تیرے لئے، در چشم تو برابر: تیری آنکھ (نظر) میں برابر، را: کو (کبھی کبھی اس کا معنی کا، کے لئے بھی کیا جاتا ہے)، بخندید: خندیدن مصدر سے خندید فعل ماضی مطلق ، صیغہ واحد غائب اور ’ب‘ تاکیدی (وہ ہنسا، وہ ہنس دیا)، نہ از بہرِ خود است: اپنے لئے نہیں ہے، چون: جب، جیسا، کور: اندھا، کور دلان: دل کے اندھے، تا: تا کہ، با من: میرے ساتھ، مجھے، نزنند: زدن (مارنا) مصدر سے مضارع زند، فعل مضارع صیغہ جمع غائب زنند،اور ’ن‘ نافیہ: وہ نہ ماریں۔ سبویِ مرا: میرے سبو کو، اسے ’سبویم را‘ بھی لکھا جا سکتا ہے۔ نشکنند: شکستن (توڑنا) مصدر سے فعل مضارع منفی، صیغہ جمع غائب: نہ توڑیں، توڑ نہ دیں۔
ترجمہ: ایک نابینا، اندھیری رات میں، ہاتھ میں دیا اور کندھے پر صراحی، راہ میں جارہا تھا۔ایک بیہودہ شخص اس تک پہنچا (اسے ملا) اور بولا: ”اے نادان! تیرے لئے دن اور رات ایک ہیں اور روشنی اور اندھیرا تیرے لئے برابر، اس دیے کا کیا فائدہ؟“ نابینا ہنس دیا اور بولا: ”یہ دیا میرے اپنے لئے نہیں ہے، تیرے جیسے بے وقوف، دل کے اندھوں کے لئے ہے کہ میرے ساتھ ٹکرا نہ جائیں اور میری صراحی نہ توڑ دیں۔
(۲) اعرابی ای شتری گم کردہ، سوگند خورد کہ چون بیابد بہ یک درم بفروشد۔ چون شتر یافت، از سوگندِ خود پشیمان شد۔ گربہ ای در گردنِ شتر آویخت و بانگ می زد کہ: ”کہ می خَرد شتری بہ یک درم و گربہ ای بہ صد درم؟ امّا، بی یک دیگر نمی فروشم۔“
مباحث: اعرابی ای، شتری میں ’ی‘ بمعنی ’ایک‘۔ سوگند خورد: قسم کھائی، بیابد: یافتن (پانا، حاصل کرنا) مصدر سے فعل مضارع، ب تاکیدی، بفروشد: فروختن (بیچنا) مصدر سے فعل مضارع، ب تاکیدی۔ گربہ ای: ایک بلی، آویخت: آویختن (سجانا، لگانا، ڈالنا) مصدر سے فعل ماضی مطلق، بانگ می زد: آواز دیتا تھا، آواز دینے لگا، کہ: کون، مے خَرَد: خریدن (خریدنا) مصدر سے فعل حال، یاد رہے کہ اس کا تلفظ خَ رَد ہے، خَرِد (عقل) کا تلفظ خِ رَد ہے۔ کہ می خَرد: کون خردیدتا ہے؟ یک: ایک، صد: سو، اما: لیکن، مگر، بے یک دیگر: ایک کے بغیر دوسرا، الگ الگ، نمے فروشم: فروختن مصدر سے فعل مضارع منفی، صیغہ واحد متکلم۔ میں نہ بیچوں ، نہ بیچوں گا۔
ترجمہ: ایک بدو کا اونٹ گم ہو گیا۔ اس نے قسم کھائی کہ اونٹ مل گیا تو ایک درم میں بیچ دوں گا۔ جب اونٹ اسے مل گیا تو اپنی قسم پر پشیمان ہوا۔ ایک بلی اونٹ کی گردن سے لٹکا دی اور آواز دینے لگا: ”کوئی ہے جو ایک درم میں اونٹ اور ایک سو درم میں بلی خرید لے، مگر میں (ان دونوں) کو الگ الگ نہیں بیچوں گا۔“
(۳) طبیبی را دیدند کہ ہرگاہ بہ گورستان رسیدی، ردا در سر کشیدی۔ از سببِ آنش سوال کردند۔ گفت: ”از مُردگانِ این کورستان شرم می دارم۔ بر ہر کہ می گزرم ضربتِ من خوردہ است، و در ہر کہ می نگرم از شربتِ من مردہ“۔
مباحث: طبیبی: ایک طبیب، دیدند: انہوں نے دیکھا۔ لوگوں نے دیکھا، ہرگاہ: جب بھی، جب کبھی، رسیدی، کشیدی: یہ ماضی شرطی کے صیغے (واحد غائب) ہیں، ان کو ماضی مطلق کے صیغوں (واحد حاضر) سے خلط ملط نہ کیا جائے، یہاں معنی ماضی استمراری کا آ رہا ہے، وہ پہنچتا، وہ کھینچ لیتا، سببِ آنش: یہاں ’آن‘ اسم اشارہ عمل کی طرف ہے اور ’ش‘ ضمیر طبیب کی طرف۔ از سبب آنش سوال کردند: (لوگ) طبیب سے اس کی وجہ پوچھتے، بر ہر کہ: جس کسی پر۔ مے گزرم: میں گزرتا ہو، مے نگرم: میں دیکھتا ہوں۔
ترجمہ: لوگوں نے ایک طبیب کو دیکھا کہ وہ جب کبھی قبرستان میں جاتا، چادر کو سر پر کھینچ لیتا (منہ چھپا لیتا)۔ طبیب سے اس کا سبب دریافت کیا، وہ کہنے لگا: مجھے اس گورستان کے مُردوں سے شرم آتی ہے، میں جس کے پاس سے گزرتا ہوں، میری چوٹ کھایا ہوا ہے، اور جسے دیکھتا ہوں، میرے شربت کا (میرا شربت پینے کی وجہ سے) مرا ہوا ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
(۴) روباہ را گفتند: ”ہیچ توانی کہ صد دینار بِسِتانی و پیغامی بہ سگانِ دِہ رسانی؟“ گفت: ”واللہ، مُزدی فراوان است، اما در این معاملہ خطرِ جان است“۔
مباحث: روباہ: لومڑی، عیاری اور چالاکی کی علامت، ہیچ توانی: ہیچ کا لفظی معنی ہے ’کم، تھوڑا‘ مصدر توانیدن (طاقت ہونا) سے فعل مضارع صیغہ واحدحاضر، تو کر سکتا ہے۔ با محاورہ ترجمہ ہوا: کیا تیرے لئے ممکن ہے؟ ستانی: تو لے لے، ب تاکیدی، پیغامی: ایک پیغام، سگانِ دِہ: گاؤں یا بستی کے کتے، رسانی: تو پہنچائے، مزدی: اجرت، فراوان: بہت، زیادہ۔
ترجمہ: کسی نے لومڑی سے کہا: کیا تو یہ کر سکتی ہے کہ ایک سو دینار لے لے اور ایک پیغام بستی کے کتوں تک پہنچا دے؟ اس نے کہا: خدا کی قسم، اجرت بہت (مناسب) ہے مگر اس معاملے میں جان کا خطرہ ہے۔
(۵) روباہ بچہ ای با مادرِ خود گفت: ”مرا حیلہ ای بیاموز کہ چون بہ کشا کشِ سگ درمانم، خود را از او برہانم“۔ گفت: ”حیلہ فراوان است، اما بہترین ہمہ آن است کہ در خانہ خود بنشینی، نہ او ترا بیند نہ تو او را بینی“۔
مباحث: حیلہ: چال، مکر، طریقہ، مرا: مجھے، بیاموز: آموختن (سکھانا) مصدر سے فعل امر: آموز، ب تاکیدی، کشا کش: کشتی، ہاتھا پائی، کھینچا تانی، درمانم: درماندن (عاجز آ جانا) سے فعل مضارع صیغہ واحد متکلم: میں بے بس ہو جاؤں، برہانم: ب تاکیدی، رہانم: چھڑا لوں، بہترینِ ہمہ آن است: سب سے بہتر یہی ہے، بنشینی: تو بیٹھ رہ۔
ترجمہ: لومڑی کے بچے نے اپنی ماں سے کہا: ”مجھے ایسی چال سکھا کہ جب کتے سے کھینچا تانی میں بے بس ہوجاؤں تو خود کو چھڑا لوں“۔ اس نے کہا: ”طریقے بہت ہیں، مگر بہترین یہی ہے کہ تو اپنے گھر میں بیٹھ رہ، نہ وہ تجھے دیکھے اور نہ تو اسے دیکھے۔
مولانا جلال الدین رومی کے متعلق ڈاکٹر عبدالحسین زرین کوب کے مضمون کے منتخب حصے کا ترجمہ کرتے ہیں:
(۶) مولانا، صحبت با فقرای اصحاب را بیش از ہر چیز دوست می داشت و آن را بر صحبت با اکابرِ شہر ترجیح می داد۔ شفقتِ او شامل حیوانات ہم می شد وہ یاران را از آزارِ جانوران مانع می آمد۔بہ یاران تعلیم می داد کہ جوانمرد از رنجاندنِ کس نمی رنجد، و کسی را نمی رنجاند۔ در گزر از کویی، یک روز دو تن را در حالِ نزاع دید۔ یکی بہ دیگری پرخاش می کرد کہ: ”اگر یکی بہ من گوئی، ہزار بشنوی“۔ مولانا رو بہ آن دیگری کرد و گفت: ”ہر چہ خواہی بہ من گوی کہ اگر ہزار گویی یکی ہم نشنوی“۔ زندگی وی با قناعت و گاہ با قرض می گزشت۔ اما ازین فقرِ اختیاری ہیچ گونہ نا خورسندی نشان نمی داد۔ سادہ، بی تجمل و عاری از رُوی و ریا بود۔ با اہل خانہ دوستانہ می زیست۔ لباس و غذا و اسباب خانہ اش سادہ بوہ۔ غذای او غالباً از نان و ماست یا ما حضری محَقَّر تجاوز نمی کرد۔ از زندگی فقط بہ قدرِ ضرورت تمتع می برد۔
مباحث: باذوق احباب کو مندرجہ بالا اقتباس کی لفظیات نامانوس نہیں لگی ہو گی۔ پہلے ایک نظر ان الفاظ کو دیکھ لیں جو اردو اور فارسی میں معمولی معنوی فرق کے ساتھ یا یکساں مستعمل ہیں: مولانا، صحبت با فقرا، اصحاب، بیش، ہر چیز، دوست، داشت، صحبت، اکابرِ شہر، ترجیح، شفقت، شامل، حیوانات، یاران، آزار، جانوران، مانع، آمد، تعلیم، کہ، جوانمرد، رنج، کس، کسے، در گزر، کوی، یک روز، دو، در حالِ نزاع، دید، یکے بہ دیگرے، پرخاش، اگر، گوئی، ہزار، رو، ہر چہ، زندگی، با قناعت، گاہ، با قرض ، گزشت، فقرِ اختیاری، ہیچ، گونہ، نا خورسندی، نشان، سادہ، بی تجمل، عاری از رُوی و ریا، اہل خانہ، دوستانہ، لباس و غذا و اسباب خانہ، سادہ، غذا، غالباً، نان و ماست، ما حضر، تجاوز، فقط، بہ قدرِ ضرورت، تمتع۔آپ نے دیکھا کہ الفاظ کی یہ فہرست اصل (مکمل) عبارت کے تین چوتھائی کے قریب ہے، باقی ایک چوتھائی حصہ افعال اور گردان وغیرہ کا ہے، جس کی تفہیم چنداں مشکل نہیں، بہت سے افعال و الفاظ پر مولانا جامی کی حکایات کی ذیل میں بحث ہو چکی، چند قابل توجہ نکات ملاحظہ فرمائیے: اس اقتباس میں زیادہ جملے فعل ماضی استمراری کے ہیں، ایک آدھ جملہ فعل مضارع اور فعل ماضی مطلق کا ہے۔ بعض الفاظ کے ساتھ ’ے‘ غیر ناطق آئی ہے۔یاد رہے کہ فارسی میں ایسے اسماءاور افعال کے آخر میں جو کسی حرف علت پر ختم ہوں، ’ے‘ غیر ناطق موجود ہوتا ہے جسے بالعموم لکھا نہیں جاتا (ڈاکٹر عبدالحسین زرین کوب نے اسے لکھا ہے) مثلاً کوے (گلی)، گوے (کہہ)، وغیرہ۔ دوست می داشت: عزیز رکھتا تھا، بیش از ہر چیز: سب سے زیادہ، ہم: بھی، مانع می آید: منع کرتا تھا، رنجیدن: دکھ ہونا، رنجانیدن: دکھ دینا، کس کسے: کوئی شخص، دو تن: دو شخص، اگر یکی بہ من گویی، ہزار بشنوی: اگر تو مجھے ایک کہے گا تو ہزار سنے گا، ہر چہ خواہی بہ من گوی: مجھے جو چاہے کہہ لے، اگر ہزار گویی یکی ہم نشنوی: اگر تو ہزار کہہ لے گا تو ایک بھی نہیں سنے گا، گاہ: کبھی، ہیچ گونہ: ذرہ بھر، ناخرسندی: ناخوشی، غم، رنج، نشان نمی داد: دکھائی نہ دیتی تھی، بے تجمل: دکھلاوے سے پاک، عاری از روی و ریا: ٹھاٹ باٹ اور شہرت سے پاک، اسبابِ خانہ اش: اس کے گھر کا سامان، نان و ماست: روٹی اور دہی، ما حضری محقر: روکھی سوکھی، تمتع می برد: فائدہ اٹھاتا تھا۔ ایک خاص بات نوٹ کریں کہ فارسی میں ’ی‘ اور ’ے‘ کی املا میں فرق نہیں رکھا جاتا، اس لئے یہاں اِشکال سے بچنے کے لئے الفاظ سے شناسائی بہت ضروری ہے۔
ترجمہ: مولانا فقیر لوگوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے کو ہر شے پر مقدم رکھتے تھے اور اسے شہر کے اکابرین کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے پر ترجیح دیتے تھے۔ آپ کی شفقت حیوانات پر بھی تھی اور ساتھیوں کو جانوروں پر آزار سے منع کیا کرتے۔ ساتھیوں کو تعلیم دیتے کہ جوانمرد وہ ہے جسے کوئی دکھ دے تو وہ رنجیدہ نہ ہو اور خود کسی کو دکھ نہ دے، ایک گلی سے گزرتے ہوئے، ایک دن، دو آدمیوں کو جھگڑتے دیکھا، ایک دوسرے سے کہہ رہا تھا: اگر تو مجھے ایک کہے گا تو ہزار سنے گا۔ مولانا نے اس کی طرف منہ کیا (مخاطب کیا، توجہ دلائی) اور کہا: مجھے جو چاہے کہہ لے، اگر تو ہزار کہہ لے گا تو ایک بھی نہیں سنے گا۔ آپ (مولانا) کی زندگی قناعت کے ساتھ اور بارہا قرض کے ساتھ گزرتی، مگر اس اختیاری فقر کی وجہ سے کسی رنج کا نشان نہ ملتا۔ (آپ کی زندگی) سادہ، ٹھاٹ باٹ سے اور نام و نمود سے پاک تھی۔ اہلِ خانہ کے ساتھ آپ دوستوں کی طرح رہتے۔ آپ کا لباس، غذا اورگھر کا سامان سادہ تھا۔ آپ کی غذا میں روٹی اور دہی یا بچے کھچے کھانے سے زیادہ کچھ نہ ہوتا۔ وہ زندگی سے بہ قدرِ ضرورت فائدہ اٹھاتے۔
 
Top