امان زرگر
محفلین
متدارک مثمن سالم
فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن
وصل کی شب ہوا ظلم کیسا روا
چاند بادل نے پیچھے چھپا کیوں لیا
لفظ رقصاں مری سوچ میں تھے کئی
شوقِ گفتار تھا سامنا جب نہ تھا
وہ مسافر اسے کب تھا رکنا یہاں
آنسوؤں کا رواں ساتھ اک قافلہ
میری منزل مبارک مجھے ہی مگر
یہ مکاں وہ نہیں میں جدھر تھا چلا
دل کی حالت بیاں کس طرح ہو سکے
اک کہوں داستاں برلبِ نیم وا
عشق مجبور، سر مست ،گوشہ نشیں
حسن ہو زیر پردہ یا جلوہ نما
دست خوباں نے کی لاکھ کوشش مگر
شوخیاں حسن سے زلف کی برملا !
مطلع یوں بہتر لگے شاید
وصل کی شب رہا ظلم کیسا روا
اوٹ میں بادلوں کی گھرا چاند تھا
فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن
وصل کی شب ہوا ظلم کیسا روا
چاند بادل نے پیچھے چھپا کیوں لیا
لفظ رقصاں مری سوچ میں تھے کئی
شوقِ گفتار تھا سامنا جب نہ تھا
وہ مسافر اسے کب تھا رکنا یہاں
آنسوؤں کا رواں ساتھ اک قافلہ
میری منزل مبارک مجھے ہی مگر
یہ مکاں وہ نہیں میں جدھر تھا چلا
دل کی حالت بیاں کس طرح ہو سکے
اک کہوں داستاں برلبِ نیم وا
عشق مجبور، سر مست ،گوشہ نشیں
حسن ہو زیر پردہ یا جلوہ نما
دست خوباں نے کی لاکھ کوشش مگر
شوخیاں حسن سے زلف کی برملا !
مطلع یوں بہتر لگے شاید
وصل کی شب رہا ظلم کیسا روا
اوٹ میں بادلوں کی گھرا چاند تھا
آخری تدوین: