عابدہ پروین ارے لوگو تمہارا کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ عابدہ پروین

زونی

محفلین
جناب من میں نے تو کہیں بھی اشارہ نہیں دیا کہ آج علماء کو اس 'حقیقت' کی آگہی نصیب ہو گئی ہے۔۔ اگر ایسا ہوتا بھی تو میں انکے لئیے بجائے لفظ 'علماء' کہ لفظ 'عارفین' استعمال کرتا۔:)۔
رقابتِ علم و عرفاں میں غلط بینی ہے منبر کی
کہ وہ حلاج کی سولی کو سمجھا ہے رقیب اپنا
جہاں تک اس "آگہی" کی تشریح کی بات ہے، اس سلسلے میں یہی عرض کروں گا کہ اس آگہی کا تعلق علم سے نہیں بلکہ حال سے ہے۔ اور فی الحال مجھے یہ حال نصیب نہیں۔ حال سے خالی علم کو توحیدِ علمی کہیں گے۔ جسکا کما حقہ ایسا بیان نہیں ہو سکتا جس سے سائل کو کلی طور پر انشراحِ صدر حاصل ہو۔ بقول اقبال۔۔۔
بیاں میں نکتہء توحید آ تو سکتا ہے
تیرے دماغ میں بت خانہ ہو تو کیا کہیئے


اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ سائل کی کنفیوژن میں مزید اضافہ ہو جائے۔ اور کسی اندیکھے اور کائنات سے دور کسی اونچی جگہ پر ایک تخت پر براجمان خدا کا تصور درہم برہم ہوجائے:)
میں اس پر علیحدہ سے دھاگہ کھولنے کی ضرورت اسلئی محسوس نہیں کرتا کہ خوامخواہ کا بحث مباحثہ اور جنگ و جدل کا اندیشہ ہے۔ اگر آپ اس مو ضوع پر گفتگو کے خواہشمند ہیں تو پرسنل مسیجز کے ذریعے تبادلہء خیالات کر لیتے ہیں۔:)







ضرب کلیم ہی میں اقبال نے نظریہ ء تصوف پہ کیا خوب کہا ھے ۔۔۔۔۔۔۔


یہ حکمتِ ملکوتی ، یہ علمِ لاحوتی !
حرم کے درد کا درماں نہیں تو کچھ بھی نہیں
یہ ذکرِ نیم شبی ، یہ مراقبے یہ سرور
تری خودی کے نگہباں نہیں تو کچھ بھی نہیں


:)



ِِِ
 
Top