اردو کی پہلی کتاب

تفسیر

محفلین


بسم اللہ الرحمنٰ الرحیم

دُعا

میرے اللہ، میرے مولا
تُو ہے مالِک ، تُو ہے داتا

تُو نے کِیا ہے ہم کو پُیدا
کوئی نہیں ہے ساجھی تیرا

ہم ہَیں تیرے بندے یارب
تیرے ہی مُحتاج ہَیں ہم سب

اپنی مَحبت ہم کو عطا کر
دِین کی دولت ہم کو عطاکر

سِیدھا رستہ ہم کو دِکھا دے
سچّا مومِن ہم کو بنادے

مِحنت صُبح و شام کریں ہم
اُونچا تیرا نام کریں ہم

border3.jpg


پیارے رسُول

یہ ایک مسجِد ہے۔ یہ ہمارے رسوُل کی مسجِد ہے۔ مدینہ میں ہمارے رسوُل کا رَوضہ بھی ہے۔ یہ رَوضہ بھی اُسی مسجِد میں ہے۔ ہمارے رسوُل کا نام مُحَمَّد (صلی اللہ علیہ وسلم)ہے۔ آپ کے والد کا نام حضرت عبدُاللہ تھا۔ آپ کی والِدہ کا نام حضرت آمنہ تھا آپ کے والِد اور والِدہ مکّہ میں رہتے تھے۔ آپ بھی مکّہ میں پَیدا ہُوئے ۔ اللہ نے آپ کو رسوُل بنایا۔ اللہ نے آپ پر قُرآن اُتارا۔ قُرآن اللہ کی آخِری کتاب ہے۔آپ اللہ کے آخِری رسُول ہیں۔ آپ نے بتایا کِہ اللہ ایک ہے۔ وہ نیکی کو پسند کرتا ہے۔ وہ نیکی کرنے والے کو پسند کرتا ہے- ہم کو چاہَیے کہ ہم نیک بنیں۔ ہم کو یہ چاہِیے کہ ہم سچ بولیں۔ بڑوں کا ادب کریں۔ اللہ اِن باتوں کو پسند کرتا ہے۔ اللہ اِن باتوں سے خُوِش ہوتا ہے۔

border3.jpg


ہمارا جَھنڈا

ایک رات چاند اور سِتارے آسمان پر چمک رہے تھے۔ چمکتے چمکتے تھک گئے تھے۔ چاند کہنے لگا۔ مَیں ہر روز چمکتا چمکتا تنگ آگیا ہُوں ۔ سِتارے بولے۔ ہم بھی روز روز چمتے چمکتے تھک گئے ہیں۔ چاند بولا چلو ایک رات زمیں کی سَیر کو چلیں۔ ایک ستارہ بولا۔ مَیں بھی تُھارے ساتھ سَیر کو جاؤُں گا سب سِتارے بولے۔ ہم سب تُمہارے ساتھ سَیر کو جائیں گے۔

اگلی رات سِتارے چمتے چمکتے سوگئے۔ چاند جاگ رہا تھا۔ اُس کےساتھ ایک سِتارہ بھی جاگ رہا تھا۔چاند چُپکےسے زمین پراُتر آیا۔ سِتارہ بھی اُس کے ساتھ زمِین پر اُتر آیا۔ وہ دونوں پاکِستان میں اُترے۔ چاند کہنے لگا۔ مُجھے یہاں کےلمبےلمبےدریا بُہت پسند ہیں۔ سِتارہ بولا مجھے یہاں کے ہرے بھرے مَیدان بُہت پسند ہیں۔ وہ پاکِستان کی سَیر کرتے رہے۔ سَیر کرتے کرتے وہ سب کچھ بھول گئے۔ وہ یہ بھی بھول گئے کہ اُنھیں واپس جانا ہے۔ اِتنے میں صُبح ہوگئی۔ چاند بولا چلواب گھر واپس چلیں۔ سِتارہ بولا۔ چلو جلدی چلیں۔ اِتنے میں سُورج نِکل آیا۔ اُس کی کرنیں اِن پر پڑیں۔وہ اپنا راستہ بھول گئے۔ سِتارے نے ایک جَھنڈا دیکھا۔ جَھنڈا روشنی میں چمک رہا تھا۔چاند بولا مَیں تو اپنا گھر اِس پر بناؤُں گا۔ تارہ بولا۔ ہم دونوں اپنا گھر اِس جَھنڈے پر بنائیں گے۔

اُس دِن سے وہ دونوں جَھنڈے پر رہِتے ہیں۔ جَھنڈا جہاں جاتا ہے، اُس کے ساتھ جاتے ہیں۔

border3.jpg


ننّھی مُنّی چِڑیا

ایک تھی چِڑیا ، ننّھی مُنّی پیاری پیاری ۔ایک تھا لڑکا ، سِیدھا سادا، بھولا بھالا۔ چِڑیا ایک درخت پر آبَیٹھی۔ لڑکا بولا۔چِڑیا چِڑیا ، میرے پاس آ۔ میرے ساتھ کھیل۔“

چِڑیا بولی: “ چُوں چُوں، چُوں چُوں، ہم نہیں آتے۔ چُوں چُوں، چُوں چُوں۔ ہم نہیں کھیلتے۔ تُم ایک نَٹ کَھٹ لڑکے ہو۔ مَیں ایک بھولی چِڑیا ہُوں۔ تُم مُجھے پکڑ لو گے۔ گھر لے جاؤ گئے اَور قَید کر دوگے۔ میں تمہارے پاس نہیں آؤں گی۔ دور سے گانا سُناؤُں گی اَور پُھر سے اُڑ جاؤُں گی۔

border3.jpg


اندھا اور لنگڑا

ایک تھا اندھا، ایک تھا لنگڑا۔ دونوں ایک ہی گاؤں میں رہتے تھے۔ دونوں میں بڑی دوستی تھی۔ ایک دِن گاؤں میں آگ لگ گئ۔ سب لوگ بھاگے۔ اندھے کو دِکھائی نہیں دیتا تھا۔ لنگڑے سے چلا نہیں جاتا تھا۔ بھلا وہ کِس طرح بھاگتے۔ اندھے نے لنگڑے سے کہا۔“ تُم میری پِیٹھ پر بَیٹھ جاؤ اور مُجھے راستہ بتاؤ۔ مَیں تمھیں لے چَلُوں گا۔“۔ لنگڑا اندھے کی پِیٹھ پر بَیٹھ گیا اور اُس کو راستہ بتانے لگا۔ اندھا جلدہ جلدی چلنے لگا۔

تھوڑی دیر میں دونوں دُور نکل گئےاور آگ سے بچ گئے۔ اندھے نے لنگڑے کی مدد کی اور لنگڑے نے اندھے کی مدد کی۔ اِس طرح دونوں کی جان بچ گئی ۔

border3.jpg


اَچّھی چِڑیا

ایک تھی اَچّھی چِڑیا پیاری
داہ چُگتی تھی بے چاری

دُوسری چِڑیا اُڑ کر آئی
بھُوکی پیاسی تھی بے چاری

اَچّھی چِڑیا نے جو دیکھا
اُس کو اپنے پاس بُلایا

آؤ، میری پیاری ، آؤ
بھوکی ہو تُم دانہ کھاؤ

دانہ دُنکا جو کُچھ پائیں
ہم تُم دونوں مِل کر کھائیں

border3.jpg


پیاسا کوّا

ایک کوّا بُہت پیاسا تھا۔ اُسے ایک پانی کا برتن دِکھائی دِیا۔ اُر کر اُس پر بیٹھ گیا۔ برتن میں پانی بُہت کم تھا۔ کوےّ نے اپنی چونچ برتن میں ڈالی۔ اُس کی چونچ پانی تک نہ پُہنچی۔ اور وُہ پانی نہ پی سکا۔

کوئے نے کچھ دیر سوچا پھر کائیں کائیں کر کے اُڑا۔ اِدھر اُدھر دیکھا۔ زمین پر چھوٹے چھوٹے کنکر پڑے تھے۔اُس نےایک کنکر چونچ میں اُٹھا کرپانی میں ڈال دیا۔ پھر ایک اور کنکر لایا، اُسے بھی پانی میں ڈال دِیا۔ اِسی طرح کنکر لا لا کر پانی میں ڈالتا رہا۔ جب پانی اُپر آگیا تو جی بھر کر پیا اور اُڑ گیا۔

border3.jpg


بہن کی محبّت

ایک لڑکی تھی۔ اُس کا نام حمِیدہ تھا ۔ حامِد اُس کا چھوٹا بھائی تھا۔ حمِیدہ کو اپنے بھائی سےمحبت تھی۔ حامِد کو بھی اُس سے بُہت محبّت تھی۔ ایک دِن اُس کے باپ دو سیب لائے ۔ ایک بڑا تھا۔ دوسرا چھوٹا ۔ حامِد نے کہا ۔" میں بڑا سیب لوں گا۔

اُس کے ابا نے کہا " نہیں بیٹا چھوٹا سیب لو ۔ حمِیدہ بڑی ہے، بڑا سیب لے گی۔
حامِد رونے لگا اور کہنے لگا۔" میں چھوٹا سیب نہیں لوں گا۔"

حمِیدہ نے کہا۔"اباجان ! حامِد میر ا چھوٹا بھائی ہے ۔ مجھے اس سے بُہت محبّت ہے۔ اِس کا رونا مجھ سے دیکھا نہیں جاتا۔آپ بڑا سیب اُس کو دے دیں اور چھوٹا مجھے دے دیں ۔ میں اِسی میں خُوش ہُوں "۔

حمِیدہ کے ابا نے کہا ۔" شاباش بیٹی، حمِیدہ ، تُم بُہت اچّھی لڑکی ہو۔ دیکھا بہنیں اپنے بھائیوں سے کِتنی محبّت کرتی ہَیں۔"

حامِد بولا۔" میں اپنے سیب میں سے آ پا کو بھی کِھلاوں گا۔

border3.jpg


بَس آئی بَس گئی

محمود سویرے اُٹھتا ہے۔ مُنہ ہاتھ دھوتا ہے۔ ناشتا کرتا ہے اور ٹِھیک وقت پر سکول جاتا ہے۔ آج اُسے کُچھ دیر ہو گئی ۔ بستہ لے کر گھر سے نِکلا اور جلَدی جلَدی چلا۔ سڑک کے کَنارے بہت سے لوگ کھڑے تھے۔ وُہ ایک لمبی قطار میں کھڑے تھے۔ تھوڑی دیر میں بس آگئی۔ آگے کے لوگ بس میں بَیٹھ گئے اور بَس چل دی۔ محمود کو بَس نہ مَلی۔ اس لئے اُسے پیدل سکُول جانا پڑا۔ اُستاد صاحب نے پُوچھا۔“ محُمود ، تُم دیر سے کیوں آئے؟“
محمود نے سارا حال بتایا۔اُستاد صاحب نے کہا۔ “کل سے دیر نہ کرنا جلدی آؤگے تو بس میں جگہ مِل جائے گی۔ بس کِسی کے لیے نہیں رُکتی اِدھر آئی اُدھر گئی۔“

border3.jpg


نِندیا پُور

دُور بُہت ہی دُور یہاں سے
اور اُس سے بھی دُور

ندّی اِک نِکلی ہے جہاں سے
اور اُس سے بھی دُور

دَلدَل ہے گہری سی جہاں پر
دَلدَل سے بھی دُور

جنگل میں ہے بُڑھیا کا گھر
جنگل سے بھی دُور

یاد ہے اُس کو ایک کہانی
ہے اُس میں اک حُور

حور یہ ہے اِک ملک کی رانی
مُلک ہے نِندیا پور

اُس جنگل کو دیکُھوں گا مَیں
جنگل سے بھی دُور

حُور کے ملک میں جاؤُں گا مَیں
یعنی نِندیا پُور

border3.jpg


ننّھی رشِیدہ

دیکھو، سڑک پر ایک لڑکی جارہی ہے۔ وُہ ننّھی رشِیدہ ہَے۔ اُس کا بستہ اُس کے ہاتھ میں ہے۔ وُہ سکُول جارہی ہے۔ سڑک کے کنِارے کِنارے چل رہی ہے۔ جب موڑ آتا ہے تو اِدھر اُدھر دیکھ لیتی ہےکہ کوئی گاڑی تو نہیں آرہی۔ جب کوئی گاڑی دیکھتی تو رُک جاتی ہے۔
ننّھی رشِیدہ ہر روز وقت پر سکُول جاتی ہے۔ جب چُھٹی ہوتی ہے تو گاڑیوں سے بچتی بچاتی گھر آتی ہے۔ کھانا کھاتی ہے۔ کھلیتی ہے۔ پڑھتی لِکھتی ہے۔ رات ہوتی ہے تو کہانی سُنتی اور سوجاتی ہے۔

border3.jpg


اَسلم اور پھل

اَسلم کو پَھل بُہت پسند ہیں ۔ ایک دِن وُہ پَھلوں کی دُکان پرگیا اور سوچنے لگا کہ کون سا پَھل لُوں - سب پَھل اَسلم کو دیکھ کر اُچھل پڑے۔

انار بولا: “اچھّے مِیاں آپ میری طرف دیکھیے۔ میرے دانے کیَسے لال لال ہیں ۔اِن میں رَس ہی رَس بھرا ہے۔“

سیب اُچھل کر بولا “چھوٹے مِیاں، آپ انار کی باتوں میں نہ آیئے۔ مُجھے چِھیل کر کھایئے۔ دیکھیے کَیسا نرم اور میٹھا ہوُں“۔

ایک طرف سے انگُور بولا: “ ننّھے مِیاں ، آپ سیب کے رنگ پرنہ جائیے۔ مُجھے دیکھیے مَیں کِتنا نرم ہُوں۔ منہ میں گیا اور گُھل گیا۔“

اَسلم نے اِن سب کی باتیں سُنیں اور مُسکرا کر کہا۔ بھئی تُم سب اچّھے ہو۔ ہرایک کا الگ الگ مزہ ہے ۔ اِس لِیے مُجھے تُم سب ہی پسند ہو۔ مَیں تُم سب کو گھر لے جاؤُں گا“۔

border3.jpg


آؤ کھیل جمائیں

آؤ آؤ کھیل جمائیں
کھیل جمائیں، ہاتھ مِلائیں

ہاتھ مِلائیں گھیرا باندھیں
گھیرا باندھیں کُودیں پھاندیں

کُودیں پھاندیں چکّر کھائیں
چکّر کھائیں دائیں بائیں

دائیں بائیں آئیں جائیں
آئیں جائیں گانا گائیں

گانا گائیں جی بہلائیں
جی بہلائیں خُوِش ہو جائیں

خُوِش ہو جائیں دِل سے کھیلیں
دِل سے کھیلیں مِل کے کھیلیں

مِل کے کھیلیں ہو نہ لڑائی
ہو نہ لڑائی پیارے بھائی

پیارے بھائی کھیل چُکیں جب
کھیل چُکیں جب خوب پڑھیں تَب

آؤ آؤ کھیل جمائیں
ہاتھ ملائیں چکّر کھائیں

border3.jpg


کراچی کی سَیر

اکبر اور انور دونوں دوست تھا۔ ایک دِن اکبر کہنے لگا۔ مَیں آج کراچی کی سَیر کرؤں گا۔ وہ دونوں بَس میں بَیٹھے۔ وہ بَس میں بَیٹھے۔ وہ بَس میں صدر سے بندر روڈ گئے۔ اُنھوں نے وہاں میمن مَسجِد دیکھی۔ یہ مَسجد بُہت بڑی اور خوب صُورت تھی۔ آگے بڑھے تو گھنٹہ گھرآگیا۔ گھنٹہ گھر سے آگے ایک پُل تھا۔ اُنھوں نے پُل پار کِیا اور سمندر پر پہنچ گئے۔ اُنھوں نے سمندر کی سَمندر کی سَیر کی جہاں بڑے بڑے جہاز تھے۔ اِن میں سے ایک مال کا جہاز تھا۔ اس پرمال لادا جارہا تھا۔ سامنے منوڑا دِکھائی دے رہا تھا۔ وہاں ایک اُونچا مِینار تھا۔ یہ رَوشنی کا مِینار تھا۔ یہ میں سے تیز رَوشنی آرہی تھی۔ اب شام ہوچُکی تھی۔ اکبر کہنے لگا۔ گھر واپس چلیں۔ دونوں بَس میں بُیٹھے اور گھر واپس آگئے۔

border3.jpg


کُکڑُوں کُوں

ہم نے اُٹھ کر دڑبا کھوکا
مرغا نِکل کر تَن کر بولا
کُکڑُوں کُوں
کُکڑُوں کُوں بھئی کُکڑوں کُوں

ہم نےصُبح نہاری کھائی
مُرغے نے آواز لگائی
کُکڑُوں کُوں
کُکڑُوں کُوں بھئی کُکڑُوں کُوں

ہم سے لے کر روٹی کھالی
لیکن پھر آواز نِکالی
کُکڑُوں کُوں
کُکڑُوں کُوں بھئی کُکڑُوں کُوں

ہم نے لیا اِسکوُل کا رستہ
رہ گیا وہ آوازے کَستا
کُکڑُوں کُوں
کُکڑُوں کُوں بھئی کُکڑُوں کُوں

border3.jpg


قومی ترانہ

پاک سَر زمیں شاد باد
کِشور حسین شاد باد
تو نشانِ عزم عالی شان
ارضِ پاکِستان!
مرکزِ یقین شاد باد

پاک سَر زمین کا نظام
قُوّتِ اُخُوتِ عوام
قوم ، مُلک ، سلطنت
پائندہ تابندہ باد
شاد باد منزلِ مراد

پرچم ستارہ وہلال
رہبرِ ترقی و کمال
ترجمانِ ماضی ، شانِ حال
جانِ استقبال
سایہ خُدائے ذُو الجلال
 
مدیر کی آخری تدوین:
Top