اردو نظم کے زوال پر بھارتی ادیبوں کی تشویش

مغزل

محفلین
اردو نظم کے زوال پر بھارتی ادیبوں کی تشویش
book-112_l.jpg

نئی دہلی: پاکستان کے قیام اور بھارت ی آزادی سے قبل برصغیر میں عوامی رابطے کی زبان ہندوستانی کہلاتی تھی۔ اگر اسے فارسی رسم الخط میں لکھا جاتا تو یہ اردو کہلاتی اور اگر دیوناگری اسکرپٹ میں تحریر کیا جاتا تو یہ ہندی تحریرمانی جاتی۔ لیکن اردو اور ہندی میں متعدد الفاظ اور لب و لہجہ قدر مشترک ہونے کے باوجود دونوں زبانوں کی قواعدمختلف تھی ، ہندی زبان پرسنسکرت کا غلبہ تھا جبکہ اردو پر عربی اور فارسی کی چھاپ نمایاں تھی۔

تقسیم کے بعد یہ فرق مزید نمایاں ہوتا چلا گیا۔ ادب شعر و شاعری افسانہ انشایئہ اور مضمون نگاری ، صحافتی زبان، ریڈیو اور ٹی وی کا لب ولہجہ غرض کہ ہر بات میں فرق نمایاں ہو گیا۔ پہلے تو بھارت میں بولی اور لکھی جانے والی اردو میں عرب فارسی محاوروں اور ضرب المثال کو خارج کیا گیا اور سنسکرت اور ہندی کے محاوروں کا بے محابا استعمال شروع ہوا۔نثر اور نظم دونوں ہی اس یلغار کی زد میں آگئے۔

بھارت میں دیکھتے ہی دیکھتے اس کثرت سے ہندی الفاظ کی اردو میںآ میزش کی گئی کہ اس وقت کے بھارتی وزیراعظم آنجہانی پنڈت نہرو کو کہنا پڑا،کہ آل انڈیا ریڈیو سے نشر ہونے والی اردوخبریں سمجھنے میں انہیں دقت ہوتی ہے اسلئے وہ انگریزی بلیٹن سنتے ہیں۔واضح رہے کہ پنڈت نہرو کشمیری پنڈت تھے اور ان کی مادری زبان اردو تھی۔غالباً بھارتی حکمرانوں کا یہی رویہ تھا جس کی بناء پرآج بھارت میں بولی جانے والی اردو اور ہندی دونوں زبانوں پر انگریزی زبان غالب آگئی ہے۔

حال ہی میں بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں دہلی اردو اکیڈمی نے اردو شاعری کے زوال پرایک دو روزہ مذاکرہ منعقد کیا جس کا موضو ع بحث تھا کہ کیا آزادی کے بعد اردو نظم کی نشو ونما ہوئی یا وہ ترقی معکوس کی جانب گامزن ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ انیسو سنتالیس کے بعد سے اردو نظم کی شکل اور ہیئت کے اعتبار سے متعدد تجربے ہوئے ہیں ، موضوع کے اعتبار سے تناؤآیا ہے، نتیجتاً اس صنف سخن کے استعمال میں وسعت آئی ہے۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک بدیہی حقیقت ہے کہ انسانی اور تہذیبی قدروں کے زوال نے اردو نظم کو بھی متاثرکیا۔مذاکرہ کے شرکاء کی اکثریت نے اس حقیقت کو تسلیم کیا کہ بھارت میں اردو نظم بری طرح زوال پذیر ہے جبکہ پاکستان میں بہر حال اچھی نظمیں کہی جارہی ہیں۔

اردو اکیڈمی دہلی کا یہ مذاکرہ پندرہ اور سولہ نومبر کو جاری رہا اور اس میں گذشتہ چالیس سال کے دوران اردو نظم کے ارتقاء اور زوال پر سیر حاصل تبادل خیال کیا گیا۔اردو نظم کی مجموعی صورت حال کے حوالے سے جوش ملیح آبادی، فیض احمد فیض، ن م راشد، میراجی، ابن انشاء، اخترالایمان، علی سردار جعفری، کیفی آعظمی، اور دیگراردو نظم گو شعراء کے حوالے سے اس صنف سخن کی سمت و رفتار اور بر صغیر میں اردو زبان کے ارتقاء کی مجموعی صورتحال اور درپیش مسائل کا جائزہ لیا گیا۔

سیمنار کے بیشتر مقررین مجموعی طور پر اس امر پر متفق تھے کہ علامہ اقبال اردو کے سب سے بڑے نظم گو شاعر تھے ۔ انہوں نے اردو نظم کی تیکنیک کو بہتر بنانے کے سلسلہ میں جہاں ایک طرف مغرب سے استفادہ کیا وہیں دوسری جانب ہیئت اور موضوع کی سطح پر بھی تبدیلیاں کیں۔اقبال چونکہ عربی کے آہنگ شناس بھی تھے اس لئے انہوں نے اردو نظم کو ایک بہتر شکل و صورت عطا کی۔انہوں نے اردو نظم کے حوالے سے جو پیکر پیش کیا جونمونہ اختیار کیا وہ ایک معیار بن گیا۔بعد میں آنے والے اردو کے بڑے شعراء نے بھی اس پیمانہ کو اپنانے کی کوشش کی۔

اردو اکیڈمی کے اس دلچسپ اور بامعنی مذاکرہ کی تفصیل وائس آف امریکہ کے حوالے سے اے آر وائی کے قارئین کے ذوق مطالعہ کی نذر ہے۔اردو نظم کے ارتقا اور زوال کے بارے میں مذاکرہ کا افتتاح کرتے ہوئے انڈین کونسل فار کلچرل ریلیشن کے چیئر مین اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سابق وائس چانسلر سید شاہد مہدی نے بھارت کی آزادی کے بعد سے اب تک کی صورتحال کا تفصیلی طور پر جائزہ لیا۔

انہوں نے بتایا کہ ترقی پسندی، جدیدیت اور ما بعد جدیدیت کے دور میں بھی اردو
نظم کی زمین بڑی زرخیز رہی تاہم انہوں نے یہ تسلیم کرنے سے انکار کیا کہ اردونظم پر زوال آگیا ہے۔انہوں نے سوال کیا کہ ہم چالیس برس سے زوال زوال کا واویلا سن رہے ہیں لیکن زوال ہے کہاں۔۔؟ تاہم انہوں نے اس امر کا اعتراف کیا کہ گذشتہ آٹھ دس برسوں میں اردو نظم پر کوئی مسبوط کام نہیں ہوا البتہ انہوں نے بھی آزادی کے بعد اردو نظم میں ہیئتی تجربہ کا تذکرہ کیا ۔ شاہد مہدی نے تسلیم کیا کہ اردو شاعری میں فیمین ازم یا نسائیت میں اضافہ ہوا ہے ۔ انہوں نے خواتین میں شعریت اور شاعری میں خاتونیت کے دلچسپ پیرائے میں اردو ادب اور شاعری کا جائزہ لیا۔

مظہر امام نے مذاکرہ میں اس بحث کا آغاز کیا کہ آج کل اردو نظمیں کم کہی جارہی ہیں اور ان کا معیار بھی پہلے جیسا نہیں رہا ۔ انہوں نے گلہ کیا کہ انسانی اور تہذیبی قدروں کے زوال نے پہلے اردو زبان کو متاثر کیا اور اب اردو نظم کو نقصان پہنچایا۔انہو ں نے کہا کہ فی زمانہ اردو نظم کا ارتقاء تو ہوا لیکن لکھنے والوں میں سہل انگاری آگئی ۔ انہوں نے شکوہ کیا کہ نہ تو اب اردو ادب کے پہلے جیسے قاری رہے اور نہ ہی فکر کو مہمیز کرنے والی شاعری رہی۔انہوں نے یہ تسلیم کرنے سے انکار کیا کہ بھارت میں اخترالایمان کے بعدنظم گوئی کا فن ختم ہوگیا، اور کہا کہ منیب الرحمان کی شاعری اس صنف کی بھرپور عکاس ہے۔

بھاگل پور یونیورسٹی کے سابق صدرشعبہ اردو پروفیسر لطف الرحمان نے انسانی شعور و ادراک اور فنون لطیفہ کے رشتوں پر روشنی ڈالتے ہوئے اردو نظم کا جائزہ لیا۔ انہوں نے تخلیق کار کو نقاد سے بڑا قرار دیتے ہوئے کہا کہ ادب زندگی کے بطن سے پیدا ہوتاہے اور تنقید ادب سے جنم لیتی ہے۔لطف الرحمان نے یہ سوال اٹھایا کہ نثری نظم میں جو درمیانی طبقہ آیا ہے اس کا تعین ابھی تک کیوں نہیں کیا گیا۔۔؟کیا بقول ان کے اسکی وجہ یہ ہے کہ کی نثری نظم شعریت سے قریب تر نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ انیسو ساٹھ کے بعد کی نظموں نے وسیع پیمانے پر اجتماعی اور انفرادی زندگی کے درد، کسک، محرومیوں اور المناکیوں کو پیش کیا ہے۔اس وقت ہم جس دنیا میں رہ رہے ہیں وہ المناک نہیں بلکہ ہولناک دنیا ہے۔انہوں نے اس کا ذمہ دارسائنسی ترقی اورانسانی و تہذیبی اقدار کے زوال کو ٹہرایا، اور کہا کہ صنعتی تمدن کی بنیاد زرعی تمدن کے ملبہ پر رکھی گی ہے، اور اس کا اظہارہماری شاعری میں بھی ہورہا ہے۔

صدر شعبہ اردو مسلم یونیورسٹی علی گڑھ پروفیسر ابوالکلام قاسمی نے اردو نظم کی روایت اور پس منظر پر روشنی ڈالتے ہوئے موجودہ صورتحال کا احاطہ کیا اور کہا کہ میراجی، ن م راشد اور اختر الایمان وغیرہ کے ہاں ڈرامائی تاثر پایا جاتا ہے جو نظم کے لئے ضروری ہے۔انہوں نے بھی اقبال کو ایک بڑا نظم گو شاعر قرار دیا اور کہا کہ اقبال نے بھی اپنی نظموں میں ڈرامائیت پیدا کی تھی۔قاسمی کا کہنا تھا کہ اختر الایمان کی زبان جادو نگری کی زبان نہیں ہے لیکن ان کی نظمیں ایک مجموعی تاثر پیدا کرتی ہیں اور زندگی کے تضادات اورنفسیاتی گتھیوں کو سلجھاتی ہیں۔


دہلی اردو اکیڈمی کے سربراہ پروفیسر قمر رئیس نے اعتراف کیا کہ گذشتہ چالیس برسوں میں ہند وپاک میں اردوشاعری خصوصاً غزل و نظم پر بڑا زوال آیا ہے لیکن ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ آزادی کے بعد ہیئتی اور موضوعاتی اعتبار سے اردو نظم میں خاصے تجربے ہوئے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ نظم میں شعریت اور معنویت بھی آئی ہے۔

بزرگ بھارتی افسانہ نگار جوگندر پال نے بھی اردو نظم میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کا تذکرہ کیا اور کہا کہ تقسیم کے بعد اس صنف سخن میں خاصی تبدیلیاں آئی ہیں۔لیکن چونکہ بھارت میں اردو زبان کے قاری ہی ختم ہورہے ہیں اس لیے اس صنف سخن کا متاثر ہونا ضروری تھا۔اس مذاکرہ کے تمام شرکاء نے بالخصوص بھارت میں اور بالعمو م پاکستان میں اردو قارئین کی کم ہوتی ہوئی تعداد پر شدید اظہار تشویش کیا جس کی وجہ سے اردو ادیب اپنے پیسے سے کتابیں چھاپ کر مفت تقسیم کرنے پر مجبور ہیں۔ اس دو روزہ سیمینار میں تقریباً دو درجن مقالے پڑھے گئے اور اردو نظم کے محاسن و عواقب کابحثیت مجمواعی جائزہ لیا گیا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
شکریہ مغل صاحب شیئر کرنے کیلیئے!

کیا یہ آپ کی تحریر ہے، بصورتِ دیگر اگر ہو سکے تو مصنف کا حوالہ دے دیں، نوازش!
 

الف عین

لائبریرین
تحریر تو کسی پاکستانی کی ہے۔ کہ ہندوستان کو اس میں بھی بھارت کہا گیا ہے جو ہندوستان میں اردو میں کوئی نہیں کہتا۔
دوسری بات۔۔ مجھے شک ہے کہ اس سیمنار کا موضوع محض ’بھارت‘ کی نظم ہو، موضوع ہند و پاک کی نظم ہوگا۔۔ اردو ادب میں ملکوں کی سرحد کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔
اور تمہید میں حقیقت کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے۔ یہاں کی اردو میں کوئی تبدیلی پیش نہیں آئی۔۔ ہاں ہندی میں ضرور آئی ہے کہ اس میں ثقیل الفاظ کو شامل کر دیا گیا ہے شعوری طور پر۔ اور اس پر ہی وزیر اعظم نہرو کا یہ کہنا تھا کہ ان کو ہندی کی خبریں سمجھ میں نہیں آتیں۔
ویسے آل انڈیا ریڈیو کی خبروں میں اردو کو آسان بنانے کی مہم شروع ہوئی تھی، اور وزیر اعظم کو بھی ’بڑے وزیر‘ کہا گیا۔ لیکن کچھ عرصے بعد یہ تحریک اپنی موت آپ مر گئی۔ اب پھر’ وزیر اعظم ‘ ہی استعمال کیا جاتا ہے۔
 

مغزل

محفلین
یہ خبر میں نے انڈیا سے آنے والے ایک رسالے ’’ افلک ‘‘ میں بھی پڑھی ہے ۔اور وہیں سے اسے
آے آر وائے (پاکستان) اور ای ٹی وی اردو (ہندوستان) سے نشر کیا گیا ۔۔ جبکہ کراچی میں ہونے
والی عالمی ادبی کانفرنس میں بھی ہندوستانی نقاد حضرات نے اس بات سے اتفاق کیا ۔۔ مزید یہ کہ کل
کراچی میں ہونے والی نظم کانفرنس میں بھی یہی مقالہ پیش کیا گیا۔ بزم کے رکن شین زاد بھی موجود
تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کانفرنس کی رپورٹ جلد ہی آپ کے سامنے پیش کی جائے گی۔ آئندہ جمعرات کو
ایکسپریس میں ناچیز کی رپورٹ بھی شامل ہوگی۔ جوا نہی خطوط پر ہے۔
والسلام
 

الف عین

لائبریرین
رسالہ ہندوستان میں معروف تو نہیں۔ ایسی کون سی کانفرینس ہو گئی دہلی میں جس کی خبریں اور کہیں نہیں آئیں۔ بہر حال یہ لفظ بلفظ تو درست نہیں۔ جیسا کہ میں لکھ چکا ہوں۔ خاص کر ’بھارت‘ جیسے ہندی لفظ کا استعمال۔
 

مغزل

محفلین
بہت شکریہ بابا جانی ۔
ممکن ہے کہ خبر غلط ہو ۔ اور یقینا ہوگی ۔
میں تلاش کرکے ربط پیش کرتا ہوں۔
 
Top