اردو میں مستعمل اور مانوس بحور کی فہرست

اردو میں مستعمل اور مانوس بحور کی فہرست


۱) بحر ہزج


i۔ مثمن سالم: مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن
ii۔ مثمن محذوف: مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن فعولن
iii۔ مثمن مقبوض: مفاعلن مفاعلن مفاعلن مفاعلن
iv۔ مثمن اشتر: فاعلن مفاعیلن فاعلن مفاعیلن
v۔ مثمن مقبوض سالم: مفاعلن مفاعیلن مفاعلن مفاعیلن
vi۔ مثمن اخرب مکفوف سالم: مفعولُ مفاعیل مفاعیل مفاعیلن
vii۔ مثمن اخرب سالم: مفعولُ مفاعیلن مفعولُ مفاعیلن
(درحقیقت بحر ہزج "مثمن اخرب مکفوف سالم" اور "مثمن اخرب سالم" ایک ہی وزن ہیں۔ اخرب مکفوف سالم میں دوسرے اور تیسرے رکن کے تسکین اوسط کی کارفرمائی سے مثمن اخرب سالم حاصل ہوتا ہے۔ ایک شعر، نظم یا غزل میں ان دونوں کا جمع کرنا درست ہے)
viii۔ مثمن اخرب مکفوف محذوف: مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن
(اس وزن میں چاروں ارکان کے درمیان تسکین اوسط کا استعمال ممکن ہے۔)
ix۔ مسدس سالم: مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن
x۔ مسدس محذوف: مفاعیلن مفاعیلن فعولن
xi۔ مسدس اخرب مقبوض محذوف: مفعول مفاعلن فعولن
xii۔ مسدس اخرم اشتر محذوف: مفعولن فاعلن فعولن
(درحقیقت بحر ہزج "مسدس اخرب مقبوض محذوف" اور "مسدس اخرم اشتر محذوف" ایک ہی وزن ہیں۔ اخرب مقبوض محذوف میں پہلے اور دوسرے رکن کے تسکین اوسط کی کارفرمائی سے مسدس اخرم اشتر محذوف حاصل ہوتا ہے۔ ایک شعر، نظم یا غزل میں ان دونوں کا جمع کرنا درست ہے)
xiii۔ مربع اشتر مقبوض مضاعف: فاعلن مفاعلن فاعلن مفاعلن
(اسے مربع مضاعف کرنے کی وجہ صرف دوسرا رکن مفاعلان مسبغ لانے کی اجازت کو برقرار رکھنا ہے)
xiv۔ مربع محذوف: مفاعیلن فعولن
xv۔ مربع محذوف مضاعف: مفاعیلن فعولن مفاعیلن فعولن

۲) بحر رجز

i۔ مثمن سالم: مستفعلن مستفعلن مستفعلن مستفعلن
ii۔ مثمن مطوی: مفتعلن مفتعلن مفتعلن مفتعلن
iii۔ مثمن مطوی مخبون: مفتعلن مفاعلن مفتعلن مفاعلن
iv۔ مثمن مخبون مطوی: مفاعلن مفتعلن مفاعلن مفتعلن
(مثمن مطوی، مطوی مخبون اور مخبون مطوی در اصل ایک ہی وزن ہے۔ مخبون اور مطوی کو ایک دوسرے کی جگہ لانے کی عروض میں اجازت ہے اس لیے یہ تینوں اوزان ایک نظم میں جمع کرنا بھی درست ہے)
v۔ مسدس سالم: مستفعلن مستفعلن مستفعلن
vi۔ مسدس مطوی: مفتعلن مفتعلن مفتعلن

۳) بحر رمل

i۔ مثمن سالم: فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن
ii۔ مثمن محذوف: فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن
iii۔ مثمن سالم مخبون محذوف: فاعلاتن فعِلاتن فعِلاتن فعِلن
iv۔ مثمن سالم مخبون محذوف مسکن: فاعلاتن فعِلاتن فعِلاتن فعْلن
v۔ مثمن مخبون محذوف: فعِلاتن فعِلاتن فعِلاتن فعِلن
vi۔ مثمن مخبون محذوف مسکن: فعِلاتن فعِلاتن فعِلاتن فعْلن
(یہ آخری چار اوزان ایک نظم میں جمع کرنا درست ہے۔ فعِلن اور فعْلن عین ساکن سے ایک دوسرے کے مقابل آسکتے ہیں اور پہلا رکن سالم اور مخبون ایک دوسرے کے مقابل آسکتے ہیں۔ حشوین فعلاتن میں سے کسی ایک کو مفعولن بنانا بھی جائز ہے۔ البتہ بیک وقت دونوں ارکان کو مفعولن کرنا جائز نہیں۔)
vii۔ مثمن مشکول(یعنی خبن اور کف کا مرکب): فعِلاتُ فاعلاتن فعِلاتُ فاعلاتن
viii۔ مثمن مشکول مسکّن(یا بحر مضارع مثمن اخرب): مفعول فاعلاتن مفعول فاعلاتن
ix۔ مثمن مخبون: فعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلاتن
x۔ مسدس سالم: فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن
xi۔ مسدس محذوف: فاعلاتن فاعلاتن فاعلن
xii۔ مسدس سالم مخبون محذوف: فاعلاتن فعِلاتن فعِلن
xiii۔ مسدس سالم مخبون محذوف مسکن: فاعلاتن فعِلاتن فعْلن
xiv۔ مسدس مخبون محذوف: فعِلاتن فعِلاتن فعِلن
xv۔ مسدس مخبون محذوف مسکن: فعِلاتن فعِلاتن فعْلن
xvi۔ مسدس مخبون: فعلاتن فعلاتن فعلاتن

۴) بحر متقارب

i۔ مثمن سالم: فعولن فعولن فعولن فعولن
ii۔ مثمن سالم مضاعف: فعولن فعولن فعولن فعولن فعولن فعولن فعولن فعولن
iii۔ مثمن محذوف: فعولن فعولن فعولن فعَل
iv۔مثمن اثرم مقبوض: فعْلُ فعول فعول فعولن
v۔ مثمن اثرم مقبوض محذوف: فعْلُ فعول فعول فعَل
vi۔ مثمن اثرم مقبوض محذوف مضاعف: فعلُ فعول فعول فعول فعول فعول فعول فعَل
vii۔ مثمن اثرم مقبوض مضاعف: فعلُ فعول فعول فعول فعول فعول فعول فعولن
(بحر متقارب مثمن اثرم مقبوض، مثمن اثرم مقبوض محذوف اور مضاعف میں ہر دو رکن کے درمیان تسکین اوسط کا استعمال جائز ہے۔ ان کی اجازتیں اور تصرفات کی تفصیل میرے مضمون "میر کی ہندی بحر کی حقیقت" میں ملاحظہ فرمائیں)
viii۔ مسدس سالم: فعولن فعولن فعولن
ix۔ مسدس محذوف: فعولن فعولن فعَل
x۔ مربع اثلم سالم مضاعف: فعلن فعولن فعلن فعولن
(عروضی حضرات کے لیے صراحت کی جاتی ہے کہ زحاف "ثلم" صرف صدر و ابتدا سے خاص ہے اس لیے اسے مثمن نہیں کہا جاسکتا۔ یوں ہم نے بطور حیلہ اسے مربع" فعلن فعولن" کرکے اسے دوگنا کردیا ہے)

۵) بحر متدارک

i۔ مثمن سالم: فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن
ii۔ مثمن مخبون: فعِلن فعِلن فعِلن فعِلن
iii۔ مثمن مخبون مضاعف: فعِلن فعِلن فعِلن فعِلن فعِلن فعِلن فعِلن فعِلن
(مثمن مخبون اور مثمن مخبون مضاعف میں کسی بھی فعِلن کے عین کو ساکن کرکے فعْلن کرنا جائز ہے۔)
iv۔ مثمن سالم مقطوع: فاعلن فاعلن فاعلن فعلن
v۔ مسدس سالم: فاعلن فاعلن فاعلن
vi۔ مربع مخلع مضاعف: فاعلن فعَل فاعلن فعَل
(گو کہ یہ وزن کوئی مشہور یا مستعمل نہیں ہے لیکن اس لیے عرض کردیا کہ یہ ایسا نا مطبوع بھی نہیں اگر کوئی استعمال کرنا چاہے تو شوق سے کرے۔)

۶) بحر کامل

i۔ مثمن سالم: متفاعلن متفاعلن متفاعلن متفاعلن
ii۔ مسدس سالم: متفاعلن متفاعلن متفاعلن
(اس بحر میں کسی بھی متفاعلن کو مستفعلن کیا جاسکتا ہے۔ لیکن تمام ارکان کو بیک وقت مستفعلن میں بدلنا جائز نہیں)

۷) بحر وافر

i۔ مثمن سالم: مفاعلتن مفاعلتن مفاعلتن مفاعلتن
ii۔ مسدس سالم: مفاعلتن مفاعلتن مفاعلتن
iii۔ مسدس مقطوف: مفاعلتن مفاعلتن فعولن
(کسی بھی مفاعلتن کو مفاعیلن سے بدلا جاسکتا ہے۔ لیکن تمام مفاعلتن کو بیک وقت بدل کر مفاعیلن کرنا جائز نہیں)

۸) بحر مضارع
(یہ بحر سالم مستعمل نہیں اور عروضی طور پر اجازت بھی نہیں)

i۔ مثمن سالم: مفاعیلن فاع لاتن مفاعیلن فاع لاتن
ii۔ مثمن مکفوف محذوف: مفاعیل فاعلات مفاعیل فاعلن
iii۔ مثمن اخرب(یا رمل مثمن مشکول مسکن): مفعول فاعلاتن مفعول فاعلاتن
iv۔ مثمن اخرب مکفوف محذوف: مفعول فاعلاتُ مفاعیل فاعلن
v۔ مثمن اخرب محذوف: مفعول فاعلاتن مفعول فاعلن
(مضارع مثمن اخرب مکفوف محذوف اور مضارع مثمن اخرب محذوف کو ایک دوسرے کے مقابل لانا درست ہے۔ اس میں تسکین اوسط کارفرما ہے)
vi۔ مسدس اخرب مکفوف: مفعول فاع لاتُ مفاعیلن

۹) بحر مجتث
(یہ بحر سالم استعمال کرنا عروضی طور پر جائز نہیں)

i۔ مثمن سالم: مس تفع لن فاعلاتن مس تفع لن فاعلاتن
ii۔ مثمن مخبون: مفاعلن فعلاتن مفاعلن فعلاتن
iii۔ مثمن مخبون محذوف: مفاعلن فعلاتن مفاعلن فعِلن
iv۔ مثمن مخبون محذوف مسکن: مفاعلن فعلاتن مفاعلن فعْلن
(یہ دونوں اوزان ایک غزل یا نظم میں جمع کرنا جائز ہے۔)
v۔ مسدس مخبون: مفاعلن فعلاتن مفاعلن
(بحر مجتث میں تمام فعلاتن کو تسکین اوسط سے مفعولن بنانے کی ہر جگہ اجازت ہے)

۱۰) بحر منسرح
(یہ بحر سالم مستعمل نہیں)

i۔ مثمن سالم: مستفعلن مفعولاتُ مستفعلن مفعولاتُ
ii۔ مثمن مطوی مکسوف: مفتعلن فاعلن مفتعلن فاعلن
iii۔ مثمن مطوی موقوف: مفتعلن فاعلاتُ مفتعلن فاعلان
(یہ دونوں اوزان یعنی مکسوف اور موقوف کا خلط جائز ہے۔ دوسرا رکن فاعلن کی جگہ فاعلاتُ بھی ایک دوسرے کے مقابل آسکتے ہیں۔)
iv۔ مثمن مطوی منحور: مفتعلن فاعلاتُ مفتعلن فع
(عروضی حضرات کی خاطر واضح کیا جاتا ہے کہ مفتعلاتن یعنی "مطوی مرفل" کا وزن اور "مفتعلن فع" یعنی مفعولاتُ منحور کا وزن ایک ہی ہے۔ لیکن مثمن استعمال کرنے سے مجدوع فاع کا استعمال جائز رہتا ہے۔ مرفل کے بعد مزید ایک ساکن کا اضافہ جائز نہیں)
v۔ مسدس مطوی مکسوف: مفتعلن فاعلن مفتعلن

۱۱) بحر مقتضب
(یہ بحر سالم مستعمل نہیں)

i۔ مثمن سالم: مفعولاتُ مستفعلن مفعولاتُ مستفعلن
ii۔ مثمن مطوی: فاعلاتُ مفتعلن فاعلاتُ مفتعلن

۱۲) بحر سریع
(یہ بحر سالم مستعمل نہیں)

i۔ مسدس سالم: مستفعلن مستفعلن مفعولاتُ
ii۔ مسدس مطوی مکسوف : مفتعلن مفتعلن فاعلن
iii۔ مسدس مخبون مکسوف: مستفعلن مستفعلن فعولن

۱۳) بحر خفیف
(یہ بحر سالم مستعمل نہیں)

i۔ مثمن سالم: فاعلاتن مس تفع لن فاعلاتن مس تفع لن
ii۔ مسدس سالم: فاعلاتن مس تفع لن فاعلاتن
iii۔ مسدس مخبون: فعلاتن مفاعلن فعلاتن
iv۔ مسدس مخبون محذوف: فَعِلاتن مفاعلن فعِلُن
v۔ مسدس سالم مخبون محذوف: فاعلاتن مفاعلن فعِلُن
(اوپر دونوں اوزان میں پہلا رکن فعلاتن کی جگہ فاعلاتن آسکتا ہے۔ اور آخری رکن فعَلن کے عین کو ساکن کرکے فعْلن بھی کرنا درست ہے۔ اور خلط ان سب کا جائز ہے۔)
vi۔ مسدس سالم مخبون محجوف: فاعلاتن مفاعلن فع
vii۔ مسدس مخبون محجوف: فعلاتن مفاعلن فع
(اوپر کے دو اوزان بھی ایک دوسرے کے مقابل لانا جائز ہے۔)

۱۴) بحر طویل

i۔ مثمن سالم: فعولن مفاعیلن فعولن مفاعیلن
ii۔ مثمن سالم مقبوض: فعولن مفاعیلن فعولن مفاعلن
iii۔ مثمن مقبوض: فعولن مفاعلن فعولن مفاعلن

۱۵) بحر مدید

i۔ مثمن سالم: فاعلاتن فاعلن فاعلاتن فاعلن
ii۔ مثمن مخبون: فعلاتن فعِلُن فعلاتن فعِلُن
(اس وزن میں تسکین اوسط کی کسی بھی ایک جگہ اجازت ہے۔ ایک سے زائد جگہ تسکین اوسط کی اجازت نہیں)
iii۔ مثمن سالم مخبون: فاعلاتن فعِلُن فاعلاتن فعِلُن

۱۶) بحر بسیط

i۔ مثمن سالم: مستفعلن فاعلن مستفعلن فاعلن
ii۔ مثمن مخبون: مفاعلن فعِلُن مفاعلن فعِلُن

۱۷) بحر قریب
(یہ بحر سالم مستعمل نہیں)

i۔ مسدس سالم: مفاعیلن مفاعیلن فاع لاتن
ii۔ مسدس اخرب مکفوف: مفعول مفاعیل فاع لاتن

۱۸) بحر جدید

i۔ مسدس سالم: فاعلاتن فاعلاتن مس تفع لن
ii۔ مسدس مخبون: فعلاتن فعلاتن مفاعلن

۱۹) بحر مشاکل

i۔ مسدس سالم: فاع لاتن مفاعیلن مفاعیلن
ii۔ مسدس مکفوف محذوف: فاعلاتُ مفاعیل فعولن

۲۰) بحر جمیل

مثمن سالم: مفاعلاتن مفاعلاتن مفاعلاتن مفاعلاتن

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہاں تک تمام بحور جو اردو میں مستعمل ہیں ان کی فہرست مکمل ہوئی۔ اب چند باتیں جو ضروری ہیں وہ سمجھ لیں:

1۔ اس فہرست میں سے کچھ وہ بحور بھی ہیں جو سالم حالت میں مستعمل نہیں، اس بات کی نشاندہی میں نے بحر کے نام کے ساتھ کردی ہے لیکن سالم بحر کا وزن بھی لکھ دیا ہے تاکہ کم از کم بحر کے اصل ارکان سے واقفیت ہو جائے۔

2۔ تمام اوزانِ مستعملہ جو فہرست میں درج کیے گئے ہیں ان میں تصرفات اور اجازات کو قوسین میں واضح کردیا ہے۔

3۔ بحر ۲۰ یعنی بحر جمیل (مفاعلاتن) کو دائرہ طوسیہ کے تحت استخراج کرکے اسے باقاعدہ سالم بحر تسلیم کیا گیا ہے۔ اس لیے اس بحر کو وزن "فعول فعلن" یعنی متقارب کے تحت ذکر نہیں کیا گیا۔

4۔ جس بحر کے کسی خاص وزن میں زحافات کا اختلاف ملتا ہے وہاں قوسین میں عروضی حضرات کے لیے وضاحت کرکے اپنی رائے لکھ دی ہے۔ پھر بھی کسی بھی قسم کے اشکال کا جواب دینے لیے خاکسار ہمہ وقت حاضر ہے۔

5۔ جو بحر سالم مستعمل نہیں اس سے مراد یہ ہے کہ وہ بحر نہ مثمن سالم مستعمل ہے، نہ مسدس نہ مربع۔ البتہ زحافات کے ساتھ جو اوزان دیے گئے ہیں وہ استعمال کیے جاتے ہیں۔

6۔ وہ بحور جن میں یہ وضاحت کی گئی ہے کہ عروض میں انکا سالم استعمال ہونا جائز نہیں ان کا استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ باقی تمام بحور چاہے وہ مستعمل ہوں یا نہ ہوں، استعمال کی جاسکتی ہیں البتہ گمان یہ ہے کہ ایسی بحور نا مطبوع یا خارج از وزن ٹھہرائی جائینگی جس کی وجہ عام طور پر عروض سے نا واقفیت ہے۔

7۔ دائرہ منعکسہ سے جو بحور نکلی ہیں ان کو سرے سے شامل نہیں کیا گیا کہ وہ تمام بحور مستعمل نہیں۔

8۔ دائرہ مختلفہ سے صرف بحر طویل، مدید اور بسیط کو ذکر کیا ہے۔ بحر عمیق اور بحر عریض کو ذکر نہیں کیا گیا کہ وہ مستعمل نہیں۔ تاہم بحر عریض سالم کا وزن (مفاعیلن فعولن مفاعیلن فعولن) بحر ہزج مربع محذوف کے تحت لکھ دیا گیا ہے کیونکہ یہ وزن بحر ہزج سے نکالنا زیادہ بہتر اور مانوس ہے۔

9۔ تمام اوزان کے آخری رکن کے آگے ایک حرف ساکن کے اضافے کی عام اجازت ہے، گو کہ اسے ہر جگہ علیحدہ سے واضح نہیں کیا گیا۔ مثلاً اگر کسی وزن کا آخری رکن مفاعیلن ہے تو اسے مفاعیلان، مستفعلن کو مستفعلان، فعولن کو فعولان، فاعلاتن کو فاعلیّان، مفعولن کو مفعولان ، فاعلن کو فاعلان، فعِلُن کو فعِلان، فعْلن کو فعْلان، فعَل کو فعول، فع کو فاع وغیرہ کرنے کی عام اجازت ہے۔

پس نوشت
میری دانست میں ان تمام اوزان کا محاصرہ کرلیا گیا ہے جو اردو میں کسی طور بھی مستعمل ہیں۔ اس کے با وجود اگر آپ میں سے کوئی صاحب یہ سمجھتے ہوں کہ ان اوزان میں کوئی وزن رہ گیا ہے تو اطلاع فرما کر احقر کو شکریہ کا موقع دیں۔

مزمل شیخ بسملؔ
 
مدیر کی آخری تدوین:
واہ! زبردست!

بہت شکریہ اتنی محنت سے یہ لسٹ بنانے کا۔ (y)

محنت نہیں بھائی۔ بس جو علم تھا اس کو ترتیب دے دیا ہے۔ ہاں ٹائپنگ کی محنت کہا جاسکتا ہے اسے۔ :)
اگر اس محنت سے کسی کو فائدہ ہوجائے تو میرے لیے اس سے بڑی اور کوئی بات نہیں۔
 
واہ جناب واہ ۔۔۔ کیا ہی خوب کام سرانجام دیا ہے۔
دل کر رہا ہے ہر بحر میں ایک مصرع شکرانے کے طور پر لکھوں ۔۔۔ :)

بہت بہت شکریہ شیخ صاحب۔۔۔۔
اللہ تعالیٰ جزائے خیر عطا فرمائے۔۔۔
 
واہ جناب واہ ۔۔۔ کیا ہی خوب کام سرانجام دیا ہے۔
دل کر رہا ہے ہر بحر میں ایک مصرع شکرانے کے طور پر لکھوں ۔۔۔ :)

بہت بہت شکریہ شیخ صاحب۔۔۔ ۔
اللہ تعالیٰ جزائے خیر عطا فرمائے۔۔۔

نیلا مصرع ہی ہمارے لیے کافی ہے۔ یقین کیجیے کہ اس وقت اسی مصرعے کی سب سے زیادہ ضرورت ہے مجھے۔ :)
 
مزمل بھائی اسے ای بک کی شکل میں بھی بنوالیجیے ۔۔۔ یہ آپ کی مستقل تالیف ہے۔

اسامہ بھائی در اصل محض اسی کو ای بک بنانا میرے خیال میں بے سود ہے۔ میرا ارادہ یہ تھا کہ عروض پر ایک مستقل تحقیقی اور تفصیلی کتاب لکھوں۔ لیکن اس کے لیے وقت بہت زیادہ درکار ہے۔ لیکن اب سوچا ہے کہ جو میرے بلاگ پر اسباق ہیں ان کی تعداد آٹھ ہے۔ ان میں اضافہ کرکے عروض کے تقریباً تمام پہلؤوں کو سمیٹ کر ایک جگہ کردوں۔ ساتھ میں یہ لسٹ بھی آجائے گی۔
 
جیسے آپ مناسب سمجھیں ۔۔۔ اگر اسے الگ سے ای بک کی شکل دے دی جائے پھر عروض کے اسباق کو الگ ای بک کی شکل دی جائے پھر آپ کے عروض کے بارے میں متفرقات کو تیسری ای بک کی شکل دی جائے تو یہ سلسلہ زیادہ مناسب رہے گا ۔۔۔ پھر بعد آپ جب مناسب سمجھیں ان تمام کتابچوں کو ”رسائلِ بسمل“ کے نام سے کتابی شکل دے سکتے ہیں۔
باقی جیسے آپ کو بہتر لگے۔۔۔ :)
 
جیسے آپ مناسب سمجھیں ۔۔۔ اگر اسے الگ سے ای بک کی شکل دے دی جائے پھر عروض کے اسباق کو الگ ای بک کی شکل دی جائے پھر آپ کے عروض کے بارے میں متفرقات کو تیسری ای بک کی شکل دی جائے تو یہ سلسلہ زیادہ مناسب رہے گا ۔۔۔ پھر بعد آپ جب مناسب سمجھیں ان تمام کتابچوں کو ”رسائلِ بسمل“ کے نام سے کتابی شکل دے سکتے ہیں۔
باقی جیسے آپ کو بہتر لگے۔۔۔ :)

یہ مشورہ بھی اچھا ہے۔ فی الوقت تو میں اس بات کا انتظار رہا ہوں کہ اگر مذکورہ بالا فہرست میں کہیں کوئی کمی رہ گئی ہے تو اس کی طرف اساتذہ یا ان کے علاوہ کوئی بھی اس کی نشاندہی کردے۔ تاکہ میں اس غلطی یا کمی و کوتاہی کی اصلاح کرسکوں۔
 
یقیناً آپ اصحابِ نظریہ میں سے ہیں!

جی۔ جس کا کوئی نظریہ نہ ہو وہ تو مکمل انسان ہی نہیں ہے نا جی۔ اب فرق یہ ہے کہ کسی کا نظریہ ذاتی ہوتا ہے، کسی کا مستعار نظریہ ہوتا ہے۔ کوئی اپنا نظریہ دریافت کرتا ہے۔ اکثر ایسے بھی لوگ ہیں جو اپنے ذہنی انتشار کو مطمئن کرنے کی خاطر اپنے دماغ کے اندر خود ہی سے غیر منطقی مناظروں میں غیر منطقی دلائل خود ہی کو دے کر خود ہی مناظرہ جیت کر ایک نظریہ قائم کر لیتے ہیں۔ :)
 
ان پیج تھری پر پہلا صفحہ کچھ یوں ترتیب دیا ہے:
1525549_567760896651246_959202458_n.jpg
 
آخری تدوین:
Top