سترھویں سالگرہ اردو محفل فورم کی سترہویں سالگرہ کے موقعے پر آپ کی تحریر

سیما علی

لائبریرین
میں ہوں اور ماہا ہے۔ زندگی بحمد اللہ پر سکون ہے۔ یک سو ہو کر زندگی کے فیصلے کرتے ہیں، اور آپس میں محبت سے رہتے ہیں۔ یہ سمجھ میں آیا کہ غلامی میں آنکھ کھولنے والوں کے لئے غلامی اور آزادی میں کوئی فرق نہیں جب تک حقیقی آزادی کو وہ دیکھ نہ لیں اور اس سے پہلے غلامی گزر چکی ہو تو ہی یہ سمجھ آتی ہے کہ غلامی اور آزادی کن پرندوں کے نام ہیں۔ اللہ سب کو زندگی کے سفر میں آنے والے فتنوں اور آزمائشوں سے بخوبی کامیابی سے نمٹنے کی توفیق اور ہمت دے اور ہمیشہ ہمیں اپنی رحمت کے تلے اپنے ساتھ جوڑ کر رکھے۔



آمین ثم آمین
آمین الہی آمین
واقعی ایک محبت کرنے والی شریکِ حیات ایک بہت بڑی نعمت ہے ۔۔اسکا ساتھ ہے تو ہر غم خوشی میں نہیں تو سکون میں ضرور بدل دیتی ہے ۔۔اُنکا ساتھ اللہ کی بہترین نعمتوں میں شمار ہے ۔۔
اللہ آپکو اور آپکی نصف بہتر کو اپنی امان میں رکھے بہت ساری دعائیں ۔ماشاء اللہ سلامت رہیں آمین
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
آمین الہی آمین
واقعی ایک محبت کرنے والی شریکِ حیات ایک بہت بڑی نعمت ہے ۔۔اسکا ساتھ ہے تو ہر غم خوشی میں نہیں تو سکون میں ضرور بدل دیتی ہے ۔۔اُنکا ساتھ اللہ کی بہترین نعمتوں میں شمار ہے ۔۔
اللہ آپکو اور آپکی نصف بہتر کو اپنی امان میں رکھے بہت ساری دعائیں ۔ماشاء اللہ سلامت رہیں آمین
فیصل بھائی کی یہ تحریر مجھ سمیت بہت سوں کو اللہ پاک کی نعمت اور آزمائش میں نہ ڈالے جانے پر شکریہ کی متقاضی ہے۔
فیصل عظیم فیصل اللہ کرے جو آزمائشیں آپ کی ہو چکیں اس کے بعد سے جنت کے اعلیٰ ترین مقام پر آپ اور آپ کی بیگم کے قیام تک ہر قسم کی آزمائش سے اللہ پاک آپ کو محفوظ فرمائے آمین
اور ہمارے حق میں بھی اے اللہ اس التجاء کو قبول فرما۔ آمین
 

یاسر شاہ

محفلین
گھر کے کام کاج پر تو اماّں نے بچپن سے ہى لگا ديا تھا سب کے کام بانٹ ديے تھے برتن ، صفائى ، کھانا پکانا اور کپڑے دھونا استرى کرنا جو معمول کے ہوتے ہر ماہ بعد ہمارے کام تبديل کئے جاتے مطلب ڈيوٹياں بدل جاتيں جو برتن دھوتى اسے کوئى اور کام مل جاتا مجھے سمجھ نہیں آتى تھى ۔۔۔۔۔۔۔
اماّں ايسا کيوں کرتى ہیں کہ ايک کام سے جب واقفیت اور دوستى ہو جاتى ۔۔۔۔۔ تو کوئى دوسرا کام ذمے لگا ديتى ہیں ان کى سوچ يہ کہ بيٹى کو گھر کا ہر کام آتا ہو اور مہارت ہو!!!! خير زندگى گزرتى رہى اور پتہ ہى نہ چلا پڑھائى اور اماّں کى نصيحتوں سے نمپٹتے ہمارى شادى ہو گئى اور يوں ايک دن اس سانحہ سے دوچار ہونا پڑا جس رخصتی کا بڑا اہتمام کيا جاتا ہے بہت روپے لگائے جاتے ہیں خير اس سحر انگیز ہجرت کے بعد خير سے سسرال آ گئے سب کچھ بدل گيا اطوار انداز اور سمجھو اک امتحان شروع ہو گيا جس میں کمزورى پر صرف آپ کو ہى برا بھلا نہیں کہا جاتا بلکہ آپ کے والدين اور گھر کى تربيت پر نام آجاتا ہے ۔۔۔۔ مطلب پھونک پھونک کر قدم اٹھانا ہڑتا وہ سارے محارے ياد رکھنے پڑتے کہ ؀ پہلے تولو پھر بولو
آج کا کامُ کل پر مت ٹالو
با ادب با نصيب !!!!!!!!!!!!!!!!؟؟؟!
ہر وقت اماّں سنائیں کام پیارا ہوتا ہے چام کسی کو پیارا نہیں ہوتا
ہر گھڑى ہنسی خوشی تيار و کامران رہنا پڑتا !!!!!! رجب میں شادی ہوئی !!دو مہینے بعد سسرال میں پہلى عيد آگئی افف توبہ سارا دن کام کے علاوہ جو پورا دن تيار رہنا پڑا ہر آئے رشتہ دار کے سامنے جانا پڑا کہ يہ ہے ہمارى بہو ہر آنٹى چچى ہھپھو کى نصيحتوں پر اثبات میں سر ہلانا ان کى جوانى کے قصے سننا چوڑياں ايک ہاتھ میں کيوں آئے ہائے بہو دونوں ہاتھوں میں جب تک چوڑى کى کھنک نہ ہو تو!!!!!!!!فوراً بد شگونی ہوجاتی ۔۔۔ کہ اتنا حبس گرمى!!!! کچن کڑھائى والے کپڑے !!!! زيور چوڑى کا کوئى آپس میں تعلق رشتہ بنتا ہے۔بھلا ۔۔ پھر چوڑياں پہن کر آٹا گوندھنا روٹى بنانا برتن دھونا اچھا بھلا مشکل کام ہے اوپر سے ميک اپ بھى نہ بہنے پائے ايسے ايسے کرشموں سے گذر کر کامياب اور ہر دل عزیز بہو بننا بھی ہر ایک کا خواب ہے ۔۔۔۔ اب ياد آ ئیں ساری وہ پرانى عيديں جو اماں کے گھر گذريں کيا دور تھا کہ عيد پہلے ہى اماّں سے طے کر ليتے !!!!!! کہ عيد سے پہلے جتنے مرضى کام کروا ليں ليکن عيد کے تين دن نہ کچن میں قدم رکھیں گے!!!!!!! برتن نہ ڈسٹنگ اور ہماری معصوم اماّں سب شرائط مان لیتیں ۔۔۔۔ مزے سے جو دل چاہتا پہنتے !!!! کوئى شرط نہیں کہ يوں بيٹھو يوں اٹھو اور رات کو کچن کو سمیٹنے سے تو شديد الرجی تھى اب رات کو ايک آواز نند کى روز رات کو سنتى بھابھی کچن سميٹ ليں سب چيزيں فريج میں رکھ ديں يہ وہ فلاں فلاں ______ بہرحال زندگى کے ہر مرحلے سے لطف اندوز ہو کر آگے بڑھا جائے تو زيادہ اچھا ہے يہ ہماری سوچ ہے آگے آپ کى مرضى سے اگر رولا ڈالنا ہے تو دونوں کی زندگی مشکل !!!!!!!! ذاتی تجربات میں آپ سب کو شامل کرلیا۔۔۔۔جس سے کم و بیش ہر لڑکی کو گذرنا پڑتا ہے ۔۔۔۔
ماشاء اللہ اچھی کوشش ہے خالہ ۔لکھتی رہیے۔ان شاء اللہ ایک دن ایک لکھاری بن کے ابھریں گی ۔ لکھ کے نظر ثانی کی بھی عادت ڈالیں۔تاکہ املا کی اغلاط بھی کم سے کم ہوں۔
اور کیا کہوں ایک جملہ یاد آگیا:"ہا احمد حسین ہم بھی کبھی بہو تھے" (از لوز ٹاک):):):)
 

یاسر شاہ

محفلین
اب بھانجے ہم ہمیشہ سے تو ساس نہ تھے ۔۔۔۔
یہ قصہ ہے جب کا کہ آتشؔ جواں تھا😊😊
خالہ اپنا پتا ذاتی پیغام میں بھیجیں۔ اگر چپلی کباب بیگم لائی تو دو تین بطور تبرک وانعام آپ کو بھی بھیجوں گا ۔
ویسے بائکیا کومیرے ہاں سے آپ کے ہاں پہنچنے میں شاید پندرہ منٹ سے زیادہ نہ لگیں کہ آپ دور نہیں۔
 

صابرہ امین

لائبریرین
میٹرک کے امتحان سے فارغ ہوا ہی ہوں کہ مجھے آج ابو نے کلینک پر بلایا۔ امتحان سے فراغت کے بعد نتائج تک فارغ رہنے کی بجائے کچھ کر لو یہ لو دو ہزار روپیہ اور کچھ بن کے دکھاؤ۔ زندگی میں عملیت پسندی بہت ضروری ہے ابھی تمہاری عمر ہے ابھی سے عادت پڑ جائے گی تو ساری عمر کسی سے مانگنے یا ہاتھ پھیلانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ میں نے اس پر سوائے جی ڈیڈی کہنے کے اور کچھ نہیں کہا۔ جانتا تھا کہ والد محترم خود میٹرک کے بعد لاہور آگئے تھے اور اپنی تمام عمر کسی پر تکیہ نہیں کیا۔ خود ہی پڑھتے بھی رہے ، کلینک کیا، شادی کی اور اپنا گھر بھی بنایا۔ تو تین بھائیوں میں منجھلا ہونے کے ناطے مجھے ہی والد کے نقش قدم پر چلنا ہے۔ دوسرے ہی دن صبح اٹھا شریف قسطوں والے کے پاس جا کر سائیکل قسطوں پر لی۔ شریف مجھے جانتا تھا اور والد صاحب کو بھی لہذا کوئی جان پہچان بتانے کی ضرورت نہ پڑی چھے سو روپے ایڈوانس دیا اور ڈیڑھ سو روپے ماہوار پر سائیکل لے لی۔ والد کے دو ہزار سے اب چودہ سو روپے باقی بچے تھے۔ ایک محلے دار تھے صوفی بشیر صاحب ان سے بات کی اور ان سے گولیاں ٹافیاں خرید کر سائیکل کے پیچھے ایک کارٹن باندھ کر اس میں سجالیں۔ایک ایک دو دو روپے منافع رکھ کر نکل پڑا قسمت پڑیوں میں تین چار روپے بچ جاتے تھے جبکہ آٹھ روپے کی فانٹا گولی میں ڈیڑھ روپیہ بچتا تھا، بسکٹ میں تین روپے کی بچت تھی اس طرح تمام سامان کی قیمتیں لکھ کر ساتھ رکھیں اور شہر میں نکل پڑا، تین چار گھنٹے میں سامان بک گیا اور سائیکل خالی ہو گئی گھر آ کر پیسے گنے تو ایک سو تیرہ روپے کی بچت ہوئی تھی۔ امی کو ایک سو روپیہ دیا تو بلائیں لینے لگیں فورا کاشف کو بھیج کر نمک پارے اور بدانہ منگوا لیا ختم پڑھا کر شکر کر کے بانٹ دیا اور باقی پیسے ایک محلے کی بیوہ خاتون جسے مائی خیراں کہتے تھے ان کی خدمت میں بھیج دیا۔ یہ تھی اپنے بیٹے کی پہلی کمائی ۔ عمر چودہ پندرہ سال سائیکل پر جاکر گولیاں ٹافیاں بیچتا اور اسی طرح نتیجہ آگیا ۔ میٹرک میں باسٹھ فیصد نمبر لے کر پاس ہوا تو داخلے کے کاغذات گورنمنٹ کالج، ایف سی کالج اور سول لائنز کالج میں جمع کروائے۔ والدہ سے چھوٹی چھوٹی چخ چخ چلتی رہتی تھی کب سنجیدہ ہو گئی اور ان چھٹیوں میں ہی والد صاحب کی دوسری شادی ہوگئی اور وہ نئی زندگی کی طرف مشغول ہوگئے ۔پھر جیسا ہمارے معاشرے میں ہوا کرتا ہے پہلے والدہ کافی عرصہ ڈسٹرب رہیں اس دوران گھر کا خرچ گولیاں ٹافیاں اور سائیکل اٹھاتی رہی جبکہ شام کو ایک جاننے والے کے میڈیکل اسٹور پر ساتھ کے ساتھ بطور معاون کام بھی چلتا رہا۔ چھٹیوں کے بعد سول لائنز کالج میں پڑھائی شروع ہوئی ، کالج میں کشتی اور باکسنگ کی ٹیموں میں شرکت کی اور پڑھائی بھی چلتی رہی اور ساتھ ساتھ کاروبار بھی ۔ دوست یار ہنستے کہ کیا گولیاں ٹافیاں بیچتے ہو لیکن کبھی شرم نہ آئی کرتے کرتے کچھ عرصہ بعد والد صاحب نے گولیاں ٹافیاں بیچنے سے منع کیا کہ لوگ کہتے ہیں ڈاکٹر کا بیٹا گولیاں ٹافیاں بیچتا ہے۔ انٹر میڈیٹ کر لیا۔ میڈیکل اسٹور پر کام کرتے کرتے دواؤں کے نئے برانڈز سے تعارف ہو چکا تھا۔ فارمولیشن، مرہم پٹی کرنا، ٹانکے لگانا پہلے ہی آتا تھا۔ ڈاکٹر کے بیٹے تھے لہذا ڈاکٹر (عطائی) بن کر بیٹھ گئے۔ اپنا کلینک کر لیا۔ میٹھی گولیاں ٹافیاں بسکٹ بیچنے چھوڑ کر کڑوی گولیاں ، ٹیکے لگانے شروع کر دیئے ۔ اس دوران ایک دوست جس کے بھائی کی اپنی میڈیکل لیبارٹری تھی کی وساطت سے لیبارٹری کا کام سیکھنے لگے۔ رات کی ڈیوٹی لگوا لی نیا نیا دنیا میں نکلا نرسیں دیکھیں ، ایک پر لٹو ہو گیا۔ شام کلینک، رات لیبارٹری اور دن میں سول ڈیفنس میں کام کرنا شروع کر دیا۔ایک جانب یہ مصروفیات دوسری جانب عشق کا بھوت ۔ جوانی نرالی شے ہے جی ۔ پیسے، مصروفیت اور عشق کے ساتھ ساتھ وردی بھی ہو تو انسان اس دنیا میں گم ہوکر رہ جاتا ہے۔ آخرش ایک دن محبوبہ کو کسی اور میں دل چسپی لیتے دیکھ لیا۔ بریک اپ ہوگیا ۔ ذہنی طور پر ڈسٹرب ہوگیا۔ پھر ایک ماہر نفسیات سے رابطہ کیا اس نے لیگزوٹانل جیسی دوائیں دینا شروع کر دیں ۔جو کچھ دن استعمال کے بعد چھوڑ دیں کہ یہ فضول نشے پر لگا دیں گی۔ اداس شکل نہ آنے کا پتہ نہ جانے کا علم۔ ماں پریشان میرے بیٹے کو کیا ہو گیا۔ ایک گھر میں لڑکی پسند کر کے اس سے رشتہ طے کردیا۔ لیبارٹری کی نوکری اب ترقی کر چکی تھی اور اسسٹنٹ پیتھالوجسٹ کا کام کیا جا رہا تھا۔ ساتھ ساتھ سول ڈیفنس اور کلینک بھی جاری تھا ۔ چلتے چلتے شادی ہوگئی اور شازیہ گھر میں آگئی۔ شازیہ کا والد اور بھائی عمان میں ہوتے تھے۔ اس دوران والد کی بے توجہی اور والد کی نئی بیگم کی توجہ کے باعث گھر ٹوٹ رہا تھا۔ والدہ سے والد کی چپقلش کی وجہ سے ڈسٹرب ہو کر والد سے برگشتہ ہوگئے ۔ جھگڑے شروع ہوگئے ۔ والد اور والدہ میں علیحدگی اور بالآخر طلاق تک نوبت آن پہنچی ۔ سختیاں زیادہ ہوئیں تو گھر سے والد نے نکال باہر کیا۔ کلینک اور لیبارٹری کی نوکری چلتی رہی ۔ سول ڈیفنس کی طرف توجہ کم ہوگئی ۔ شازیہ کے بھائی نے عمان سے وزٹ ویزہ بھیج کر بلوایا وہیں پہلی نوکری دیار غیر میں بھی ملی جو شومئی قسمت ایک ماہ ہی چل سکی ۔ نئی نوکری جلد نہ ملی شازیہ کے بھائیوں نے آنکھیں بدلیں تو نکل پڑے کوئی بھی کام کرنے کو ایک عرب کیفے ٹیریا میں نوکری مل گئی رہائش اور کھانا انہی کی طرف سے تھا۔ یہ کیفے ٹیریا کمپیوٹر مارکیٹ میں تھا۔ لہذا کمپیوٹر والے دکانداروں سے سلام دعا ہوگئی۔ کچھ عرصہ بعد کیفے ٹیریا بیچ دیا گیا اور نوکری ختم ہو گئی۔ مارکیٹ میں دعا سلام کافی لوگوں سے بن چکا تھا دوپہر میں سڑکوں پر کھڑے ہوکر سی ڈی پروگرامز بیچنا شروع کردیا ساتھ ہی ساتھ کمپیوٹر ہارڈ ویئر کا کام سیکھنا شروع کر دیااور ایک دوکان بنا لی ۔اسی دوران پاکستان سے پتہ چلا کہ زوجہ کا جھگڑا ہو گیا ہے۔ ماموں کی طرف رہتی تھی ان سے کھٹ پٹ ہو گئی ہے۔ واپس لوٹے بیگم صاحبہ کو ساتھ لیا اور والد کی طرف جا پہنچے۔ شرم سے رات کو جاگ کر رکشہ چلاتے اور دن بھر اینٹھ کر سویا جاتا کہ حضرت باہر سے آئے ہیں۔ کچھ دنوں بعد شازیہ کے ایک ماموں آئے اور پاسپورٹ لے گئے کہ ٹکٹ کروا لائیں ۔ لیکن پاسپورٹ دبا کر بیٹھ گئے کہ شازیہ کی والدہ کوئی آپسی لین دین کا حساب کتاب باقی ہے چھے ماہ کے اندر اندر شازیہ کی والدہ نے پیسے کلیئر کر کے پاسپورٹ واپس دلوایا اور میں فورا واپس پہنچا ۔ پندرہ دن کے اندر اندر شازیہ کا ویزہ نکلوایا اور اسے عمان بلوا لیا۔ اس دوران دکان جا چکی تھی کیونکہ چھے ماہ سے کرایہ ادا نہ ہوا تھا ۔ فورا کمپیوٹر مارکیٹ میں نکلا ایک دکان میں معمولی تنخواہ پر نوکری مل گئی ۔ وہاں نوکری کرتے کرتے ایک واقعہ ایسا ہوا کہ کسی وجہ سے اس دکان کے پاکستانی مالک نے قرآن کا جھوٹا حلف اٹھا لیا۔ اللہ کی کرنی ایسی ہوئی کہ آٹھ دن کے اندر اندر اس کی دکان بند ہو گئی وجہ کفیل کا جھگڑا بنا۔ مجھے تو نئی نوکری چاہیئے تھی نکلے ایک اور دکان میں تین عرب دوستوں کے پاس ٹیکنیشن کی نوکری مل گئی۔اب ایک چھوٹا سا مکان دیکھا کرائے پر لیا اور کام کرتے رہے ۔وہ تینوں دوست جن کے پاس میں کام کرتا تھا کی آپس میں علیحدگی ہو گئی اور تینوں نے دکانیں الگ کر لیں ۔ میں نے ان میں سے ایک کے پاس کام کرنا پسند کیا، اس نے اپنی دکان امارات کے شہر العین میں بنائی اور اس طرح میں بھی العین ۔ متحدہ عرب امارات میں چلا گیا۔رہائش ابھی عمان میں ہی تھی۔کچھ عرصہ بعد مجھے اللہ نے طلحہ سے نوازا۔ شادی کے پانچ برس بعد پہلا بیٹا ہوا تھا ۔ اس دوران مجھے ایک مرتبہ عمرہ کی سعادت نصیب ہوئی۔ وہاں سے واپس آنے پر دبئی کی طرف چلے اور کمپیوٹر مارکیٹ کے قریب خالد بن ولید سٹریٹ پر ایک انٹرنیٹ کیفے میں نوکری مل گئی ۔ وہ کمپنی جس کے انٹرنیٹ کیفے میں میں کام کرتا تھا ایک اور اردنی شخص نے خرید لی جس کے پاس پھر میں بھی کام کرنے لگا۔ اس طرح کمپیوٹر مارکیٹ میں سلام دعا ہوگئی ۔ اب کام کے دوران ویب سائٹس بنانے کا سلسلہ چلتا رہا جبکہ فری وقت میں کمپیوٹر ، ڈرائیونگ سیکھنا وغیرہ چلتا رہا۔لائسنس بن گیا۔ گاڑی خرید لی پھر طلحہ اور شازیہ کا ویزہ پراسیس کروا کے انہیں بھی امارات کے ویزے پر لایا۔ کام چلتا رہا۔ بہتر نوکری ملی تو پہلی نوکری ترک کر دی اور بطور بزنس ڈیولپمنٹ مینیجر ایک سافٹ ویئر کمپنی میں کام شروع کردیا۔ اس دوران ایک لوکل دوست سے کہہ کر شازیہ کے بھائی کا بزنس لائسنس بنوا دیا۔ پھر اپنا کمپیوٹر کمپنی کا لائسنس بنوا کر کاروبار شروع کر دیا۔ زندگی بہتر سے بہتر کی طرف روانہ تھی۔ ساتھ ساتھ رینٹ اے کار کا کام شروع کر دیا۔ کاغذات وغیرہ کی تکمیل میں اچھی صلاحیت تھی جو کام آئی۔ فیسیں وغیرہ لگانا ان کا کام تھا کاغذات کی تکمیل میرا۔ لہذا شازیہ کا ایک بھائی پہلے بمع اہل و عیال برطانیہ بھیجا جہاں سے وہ پانچ ماہ میں واپس آگیا پھر اس کے کاغذات کی تکمیل کروا کر اسے امریکہ کا ویزہ لگوا کر دیا، اس دوران شازیہ کی ایک بہن کو کاغذات مکمل کر کے فرانس بھیجا ۔ اس طرح ایک بھائی کا دبئی میں کاروبار سیٹ ہو گیا، دوسرا امریکہ میں سیٹل ہو گیا، تیسری بہن فرانس میں سیٹل ہو گئی اور میں دبئی میں ہی اپنا کام کرتا رہا۔ جب کام ہوتا اپنا کام کرتا جب کوئی کام نہ ہوتا تو ٹورازم اور رینٹ اے کار والوں سے مل کر گاڑی چلا کر شوفر کے طور پر اپنا گزارا کر لیتا۔ اسی طرح ایک رینٹ اے کار کمپنی میں بطور سیلز مینیجر نوکری مل گئی اور ہر چیز اپنی جگہ پر ٹھیک بیٹھنے لگی۔ اچانک ایک دن پاکستان سے فون آتا ہے کہ والد صاحب کا ایکسی ڈنٹ ہو گیا ہے اور پاس کچھ بھی نہیں تھا اس لئے فورا کچھ کرو ورنہ والد سے ہاتھ دھو بیٹھو گے۔ ناراضگی، گلے شکوے سب بھول کر فورا ایمرجنسی چھٹی لے کر واپس پاکستان آیا۔ آ کر پتہ چلا کہ والد کا موٹر سائیکل پر حادثہ ہوا تھا جس میں سر میں خون جم جانے کی وجہ سے جان کو خطرہ ہے کمپنی نے چھٹی صرف تین دن کی دی جبکہ والد کا دماغ کا آپریشن ہونا ہے۔ لہذا چھٹی سے وقت پر واپس نہ آ سکا تو کمپنی نے نوکری سے نکال دیا۔ واپس پہنچنے پر ویزہ کینسل کر کے واپس بھیج دیا ۔ اس دوران کچھ پیسے جمع کر کے شازیہ کو اور طلحہ کو دبئی میں ہی ویزہ بچانے کے لئے چھوڑ کر میں اکیلا پاکستان آ گیا۔ شازیہ اور طلحہ دبئی میں ہیں جبکہ میں پاکستان میں ۔ ادھر ادھر سے ویزہ کی کوشش کرتا رہا۔پرانے پرانے دوست کام نہیں آئے۔جبکہ میں خود پاکستان میں پھنس کر رہ گیا۔ اور شازیہ اور طلحہ دبئی میں پھنسے ہوئے ہیں ۔ لیکن شازیہ اور طلحہ کے پاس شازیہ کے میکے ، والدہ ، والد، بھائی بطور سپورٹ موجود ہیں ۔بہرحال ایک جگہ سے وزٹ ویزہ کا بندو بست کر کے جب واپس دبئی پہنچا تو شازیہ نے گھر پہنچتے ہی فورا مجھے گھر سے نکل جانے کو کہا جب میں نکلنے لگا تو کہنے لگی یہ اپنے کپڑے وغیرہ شاپر میں ڈالو اور دفعہ ہو جاؤ یہاں سے ۔ غصے میں میں نے اسے تھپڑ جڑ دیا۔ فورا اپنی والدہ کو فون کیا اور انہیں بلانے لگی کہ فورا آپ ہمارے گھر آجائیں اور اسے پولیس کے حوالے کریں یہ بے غیرت انسان مجھے مارنے لگا ہے۔ والدہ نے اسے کہا تم پولیس کو فون کرو میں آ رہی ہوں ۔ میں نے غصے میں انہیں برا بھلا کہا کہ آپ کی لڑکی اگر غلط کر رہی ہے تو بجائے اسے سمجھانے کے آپ اسے پولیس بلوانے کا مشورہ دے رہی ہیں یہ کہاں کی انسانیت ہے۔ شازیہ کے بھائی کا فون آیا تو کوئی بات نہ کی کہنے لگا بے غیرت انسان جاؤ پہلے اپنی ماں سے یہ پوچھو تمہارا باپ کون ہے۔ میں نے غصے میں اسے ماں کی گالی دے دی اور فون بند کر دیا۔ ذہنی طور پر بے حد پریشان گھر سے نکلا تو جیب میں کوئی پیسہ نہ تھا۔ ایک دوست کو فون کر کے کچھ پیسے حاصل کئے اور عارضی رہائش کا بندو بست ہوا۔ پریشانی میں نوکری کا پتہ کرنا تو درکنار خود بیمار ہو گیا اس قدر کہ پیشاب سے خون آنا شروع ہو گیا۔ کچھ دنوں میں واپسی کا بندوبست کر کے پاکستان واپس آگیا۔ لیکن شازیہ اور طلحہ کا ویزہ میرے کفالت میں ہونے کی وجہ سے سیکیورٹی رکھوا کر جو منجمند کیا ہوا تھا کی وجہ سے وہ وہاں سے کہیں سفر نہ کر سکتے تھے ۔ البتہ وہاں رہتے ہوئے آزادی سے اپنے تمام معاملات سر انجام دے سکتے تھے ۔ شاید یہی وہ وقت تھا جب میں ہمیشہ کے لئے شازیہ کے دل سے اتر گیا۔ وہ مجھے فون کر کے بد دعائیں دیتی ہے کہ تم مر جاؤ، تمہارا ایکسیڈنٹ ہو ، تمہارا قیمہ ہو جائے اس طرح چپقلش بڑھ گئی اور میں نے بد دل ہو کر واپس دبئی آنے کی کوشش چھوڑ دی ۔ اس سے بھی تلخیاں مزید بڑھ گئیں ۔ اچانک شازیہ کی والدہ جو کافی عرصے سے کینسر کی مریضہ تھی اور اس کے علاج میں بھی میری کافی کوششیں تھیں۔فوت ہو گئیں ۔ ایسے میں تمام مخالفتیں بھلا کر میں نے شازیہ کے بھائی کو فون کیا اور تعزیت کی بہر حال ماں کی وفات کے کچھ عرصہ بعد آخر شازیہ نے مجھے فون کر کے اپنی بد تمیزی پر معذرت کرلی اور میں نے واپسی کا فیصلہ کر لیا۔ ایک بار پھر شدت سے کوشش کی تو ایک دوست سے کہہ کر معاملہ بن گیا اور وہ وزٹ پر واپس دبئی پہنچ گیا۔واپس جا کر وہ پھر نوکری تلاش کرنے لگا اسی دوران سابقہ کمپنی سےا س کی نوکری دوبارہ آفر ہوئی تو فورا انہیں جوائن کر لیا۔ شازیہ اور طلحہ کے ویزے درست کروائے اور پھر گھر سب اچھا ہو گیا۔ایک دن شازیہ مجھے کہنے لگی کہ کب تک ایسے دوڑ بھاگ کرتے رہیں گے ۔ پردیس ہے فیملی کے ساتھ گزارا آسان نہیں ہے۔ ایسا کرتے ہیں کہ پاکستان چلتے ہیں آپ مجھے پاکستان چھوڑ آئیں طلحہ وہاں تعلیم حاصل کرے آپ یہاں سے پیسے بھیجتے رہیں اور ہمارا اچھا چلتا رہے۔ میں نے اتفاق کیا اور فورا کچھ دنوں کی چھٹی لے کر پاکستان واپسی کا کیا۔ شازیہ اور طلحہ کے ویزے کینسل کروائے اور پاکستان آ کر علامہ اقبال ٹاؤن میں گھر کرائے پر لیا۔اس میں نیا فرنیچر لے کر ڈالا۔ طلحہ کو بیکن ہاؤس میں داخل کروایا مکمل سیٹنگز کرنے کے بعد شازیہ اور طلحہ کو چھوڑ کر واپس دبئی چلا گیا۔ جاکر شازیہ کے اکاؤنٹ میں پیسے بھیجتا رہا اور خود کام کرتا رہا۔ ایک دن شازیہ پوچھتی ہے کہ میرے بھائی نے لاہور میں گھر لیا ہے ۔ اگر کہیں تو میں وہاں شفٹ ہو جاؤں ۔ میں نے کہا کہ اگر کرایہ دینا ہے تو شفٹ ہو جاؤ مفت رہنا ہے تو نہیں ۔ بات آئی گئی ہو گئی اور طے یہ ہوا کہ شازیہ گھر تبدیل نہیں کرے گی ۔ مہینے بعد مالک مکان کا فون آتا ہے کہ بھائی آپ نے ہمیں جو ایڈوانس دیا تھا کیا آپ کی زوجہ کو واپس کر دیں ۔ میں نے پوچھا کہ کیوں کہنے لگے کہ وہ پچھلے مہینے سے گھر چھوڑ چکی ہیں ۔ میں نے کہا کہ اگر گھر چھوڑ چکی ہیں تو پھر انہیں واپس کر دیں۔ شازیہ کو فون کرتا ہوں وہ جواب نہیں دیتی۔ بار بار فون کا جواب نہ ملنے پر شازیہ کے بھائی کو جو دبئی میں ہے رابطہ کیا جاتا ہے تو پھر شازیہ سے بات ہو جاتی ہے۔ شازیہ کہتی ہے کہ اب میں یہاں رہ رہی ہوں تم خرچ بھیجتے رہو لیکن بھو ل جاؤ کہ میرے پاس کبھی آ سکو گے یا مجھے مل سکو گے ہاں ایک صورت ہو سکتی ہے کہ کوئی مکان جائیداد پاکستان میں بنا کر میرے نام لگاؤ تو پھر تم ہمیں مل سکو گے ورنہ نہیں۔ میں یہ بات سن کر فلیش بیک میں دیکھتا ہوں تو یہ تمام تر صلح اور واپسی اور سلوک اس لئے تھا کہ ویزے منجمند ہونے کی وجہ سے جو نقل و حرکت بند تھی وہ جاری ہو سکے اور وہ محتاجی ختم ہو جائے جس کی وجہ سے وہ مجھے ٹھیک طرح سے بلانے پر مجبور ہوئی تھی۔ایک بار پھر شدید ڈپریشن اور ٹینشن کا شکار ہو گیا۔ کام کاروبار پر اس کا برا اثر پڑا اور نوکری پھر سے جاتی رہی۔ واپس لوٹا نئے گھر کا پتہ نہیں تھا کہ شازیہ اور طلحہ کہاں رہتے ہیں ۔لہذا سیدھا اپنے والد کی طرف گیا۔ وہاں والد صاحب نے شازیہ کو فون کیا تو اس نے فون نہ اٹھایا۔ میں نے کوشش کی تو پھر فون کا جواب ندارد بار بار کوششوں کے بعد جب رابطہ نہ ہو سکا تو آخر اس کے بھائی کو فون کیا کہ کیا مسئلہ ہے شازیہ فون نہیں اٹھا رہی ۔ جوابا وہ کہنے لگا میں تمہیں یا کسی کو بھی اس کے متعلق جواب دہ نہیں ہوں ۔ یہ وہ جانے یا تم جانو بات کرتی ہے ٹھیک نہیں کرتی تو میں کیا کروں۔میں مزید پریشان ہوگیا۔ آخر ایک دن شازیہ سے بات ہو ہی گئی وہ کہنے لگی تم مجھے مل کر جاؤ میں فلاں جگہ پر ہوں ۔ میں دوڑا دوڑا وہاں گیا ۔ ملنے کے لئے تو ایک ہزار درہم دے کر کہنے لگی یہ لو پیسے واپس جاؤ اور وہاں سیٹل ہو کر اپنا گھر مکان بناؤ جب بن جائے تو مجھ سے بات کرنا تب تک مجھے اور طلحہ کو بھول جاؤ۔ خوش ہو گیا کہ گھر بچ گیا۔ واپس آیا خوش ہو کردبئی واپسی کو قصد کیا اور واپس دبئی پہنچ گیا۔ دوڑ بھاگ کر کے ایک نوکری کا بندوبست ہوا جنہوں نے واپس پاکستان بھیج دیا کہ آپ جائیں ہم آپ کو ویزہ بھیجیں گے ۔یہ کمپنی آرگوناٹ نام کی تھی یہاں نوکری کنفرم کر کے ، واپس پاکستان پہنچا اور ویزے کا انتظار کرنے لگا، شازیہ کی جانب سے پھر نہ ملاقات ہوئی نہ رابطہ۔ اچانک ایک دن شازیہ کے ایک ماموں کا فون آتا ہے کہ شازیہ کو طلاق دے دو اسے تمہارے ساتھ نہیں رہنا۔ میں پھر پریشان اور منتشر ہو گیا۔ فورا اپنے خاندان کو اکٹھا کیا ان کے سامنے تمام حقائق رکھے اور انہیں کہا کہ آپ لوگ میری مدد کریں اور کسی طرح میرا گھر بچائیں ۔ایک تایا زاد بہن نے شازیہ سے رابطہ کیا اور اسے کہا کہ کیا مسئلہ ہے تو جواب ملا کہ میں اس شخص سے ملنا ہی نہیں چاہتی نہ کوئی تعلق رکھنا چاہتی ہوں۔ میں نے تو تنسیخ نکاح کا کیس بھی فائل کر دیا ہے جو تین ماہ میں ویسے ہی مجھے طلاق دلوا دے گا۔لہذا تم نے اپنی ذاتی حیثیت میں فیصل کی بہن ہو کر نہیں میری دوست ہو کر اگر مجھے ملنا ہے تو مل لو اگر ایسا نہیں ہے تو تمہاری مرضی۔ تمام کوششیں ناکام ہوئیں ۔ میں نے ایک د ن طلحہ سے ملنے کی کوشش کی اور بیکن ہاؤس سکول چلا گیا ۔ وہاں جب طلحہ کو دیکھا تو طلحہ مجھے چھوڑ کر اندر چلا گیا اور سکول والوں کے کہنے کے باوجود دوبارہ نہ ملا۔ یہ وقت میرے لئے بہت سخت وقت تھا۔ میں نصف پاگل ہو چکا تھا۔ کئی کئی دن مسلسل جاگتا رہتا۔ بلاوجہ رونے لگتا ۔ سگریٹ بے تحاشا پینے لگا۔ آخر میرا ویزہ آگیا۔ دوڑ بھاگ کر ویزہ کے پراسیس میڈیکل ، پروٹیکٹر وغیرہ کروائے لیکن اندر سے بری طرح ٹوٹ چکا تھا۔ ایک دوست نے مشورہ دیا دوسری شادی کر لوایک خاتون ہے جو تمہیں بہت عزت دے گی اور میرے لئے میری بہن ہے، شازیہ کو کہا میں دوسری شادی کر لوں گا تو جواب ملا اجازت نامہ بنو کر بھیج دو دستخط کر دونگی ویسے بھی مجھے کون سا تمہارے ساتھ رہنا ہے جو مجھے کوئی پروا ہو۔ اجازت نامہ بنا کر اسے بھیجا تو دستخط کر دئیے گئے ۔اسے دیکھ کر یہ احساس ہوا کہ اب یہ رشتہ سچ میں ختم ہو گیا ہے۔ نیا رشتہ دیکھا تو جس خاتون سے رشتہ ہو رہا تھا وہ بھی اپنی زندگی کے پہلے سفر میں اسی عذاب یعنی زندگی کے سفر میں ساتھی کی طرف سے چھوڑ دیئے جانے کا عذاب سے گزر چکی تھیں جس سے میں گزر رہا تھا۔ سوچا دو ایک جیسے مل بیٹھیں گے تو شاید کچھ احساس کر سکیں ایک دوسرے کا۔ اور رشتے کے لئے کوشش کرنی شروع کر دی۔ آخر نکاح ہو گیا اور رخصتی کی تاریخ طے ہوگئی یہ سب کچھ دبئی میں ہو رہا تھا۔ رخصتی سے تین دن پہلے شازیہ کا فون آتا ہے کہ میں اب رشتہ نہیں توڑ رہی آپ بتائیں مجھے واپس قبول کرتے ہیں یا نہیں ۔ میں نے جواب دیا کہ اب میری زندگی میں یہ فیصلہ کرنے کا حق میرا اکیلے کا نہیں رہا کہ میں تمہیں واپس لے سکتا ہوں یا نہیں یہ فیصلہ میری نئی بیگم کا ہوگا جس نے مجھے اس ٹوٹی پھوٹی حالت میں قبول کیا ہے۔ فورا نئی دلہن سے بات کی کہ ایسے ایسے فون آیا ہے تو نئی دلہن نے جواب میں یہ کہا کہ اگر گھر بچتا ہے تو بچا لیں میں کسی طلاق کی حوصلہ افزائی نہیں کر سکتی ۔ آپ اسے قبول کریں میں آپ کو ناکام نہیں ہونے دوں گی ان شاء اللہ ۔ اور اس طرح شازیہ فیصل طلحہ اور ماہا کا خاندان بنا۔ رخصتی ہو کر ماہا اپنے گھر آئی تو شازیہ کو خرچ بھیجنے کے لئے اس نے اپنے گھر میں کم از کم راشن ڈالا اور باقی پیسے شازیہ کو بھجوا دیئے ۔ میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ یہ کیسے ۔ ہم دالیں کھاتے اور کم از کم زندگی کی حد تک اپنا گزر کرتے لیکن جو کماتے شازیہ کو بھییج دیتے ۔ایک دن شازیہ سے میسیج پر بات ہو رہی تھی تو شازیہ کہنے لگی کی تم یہ نہ سمجھو کہ میں نے تمہارے ساتھ واپس پیچ اپ تمہاری وجہ سے کیا ہے۔ یہ خرچ ہے جس کی وجہ سے تم سے بات کر رہی ہوں ورنہ میں تو تمہیں دیکھنے کی بھی روادار نہیں ہوں۔ ساتھ ہی اس نے ماہا کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا۔ میں کہ ماہا کی قربانی اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا اس بات پر شازیہ کی اصلیت سے ایک بار پھر آگاہ ہوا اور شازیہ کو ایک طلاق دے دی ۔ کہنے لگی باپ کے ہو تو اور طلاق دے کر دکھاؤ اسی دوران ایک اور طلاق دے دی گئی اس طرح دو طلاقیں دینے کے بعد ماہا نے دیکھا کہ کیا ہو رہا ہے اور اس نے فون ہاتھ سے پکڑ لیا کیا کر رہے ہیں کیوں ایسے طلاق پر طلاق دیئے جا رہے ہیں۔ بس کردیں ۔ اس طرح دو طلاق کے بعد بات رک گئی۔ اور میں نے خود کو مزید طلاق دینے سے ماہا کی وجہ سے باز رکھا۔ لیکن پھر اس دن کے بعد شازیہ سے بات نہ کی۔کچھ عرصے بعد اس کا والد کو فون آیا کہ میں اب آپ کے بیٹے کی زندگی میں باقی نہیں ہوں۔ میرے نام کے ساتھ اب اس کا نام بھی نہ ہوگا۔بہر حال میں نے ماہا کی مدد سے خود کو سنبھالا اور اپنی زندگی کو واپس ٹریک پر لانا شروع کر دیا۔آہستہ آہستہ کام چلتا رہا۔ زندگی گزرتی رہی پھر دبئی میں جس طرف بھی جاتا شازیہ اور طلحہ کی یادیں مجھے بار بار رلاتیں ۔ ماہا مجھے سنبھالنے کی کوشش کرتی رہی پھر ایک نئی جگہ نوکری ملی ۔ یہ نوکری ایک رینٹ اے کار کمپنی میں لیگل ایڈوائزر کی تھی جو قبول کی اور ویزہ تبدیلی کے لئے ماہا کے ساتھ پاکستان آگیا۔ اس طرح ماہا کو پاکستان چھوڑ کر واپس دبئی چلا گیا اور اس کمپنی میں کام شروع کر دیا۔ یہ ایک انڈین کی کمپنی تھی ایک دن ایک ملازم جو کمپنی میں کام کرتا تھا اسے نوکری چھوڑنے کی پاداش میں جھوٹے چوری کے کیس میں پھنسانے کا جب حکم ملا تو انصاف اور انسانیت کے تقاضے سے اس حکم ماننے سے انکار کردیا اور استعفیٰ دے کر پاکستا ن واپس لوٹ آیا۔اس طرح پاکستان پہنچنے پر کوئی پیسہ ماسوائے پاکستانی پندر ہ ہزار کے جیب میں نہ تھا جب پاکستان آیا۔ لیکن اللہ نے ہاتھ پکڑا اور اپنا ویب سائیٹ بنانے کا کام شروع کیا پہلے ایک دو آرڈرز اچھے ملے جس سے بہت جلد اللہ کے کرم سے گھر بھی بن گیا اور سواری سے بھی اسی مالک نے نوازا۔ ماہا دوسری طرف نہ صرف سمجھداری سے گھر چلاتی رہے بلکہ واقعتا اس نے اپنے طرز عمل اور سلوک سے یہ ثابت کیا کہ شادی شدہ پر سکون زندگی کسے کہتے ہیں۔کچھ عرصے بعد سول ڈیفنس میں بھی پروموشن نے ساتھ بحالی ہوگئی۔ البتہ اپنا کاروبار ملازمین کی کام چوریوں، اور بے پروائیوں کی وجہ سے بند کرنا پڑا۔ کیونکہ ملازمین میں وقت کی عدم پابندی، کام سے سنجیدگی کا فقدان اور دفتری وسائل جیسے فون وغیرہ کو اپنی ذاتی (گرل فرینڈز وغیرہ) ضرورتوں میں مس یوز کرنا ایک بنیادی عادت ہے جو مجھے قبول نہ تھی۔ اب میں ہوں اور ماہا ہے۔ زندگی بحمد اللہ پر سکون ہے۔ یک سو ہو کر زندگی کے فیصلے کرتے ہیں، اور آپس میں محبت سے رہتے ہیں۔ یہ سمجھ میں آیا کہ غلامی میں آنکھ کھولنے والوں کے لئے غلامی اور آزادی میں کوئی فرق نہیں جب تک حقیقی آزادی کو وہ دیکھ نہ لیں اور اس سے پہلے غلامی گزر چکی ہو تو ہی یہ سمجھ آتی ہے کہ غلامی اور آزادی کن پرندوں کے نام ہیں۔ اللہ سب کو زندگی کے سفر میں آنے والے فتنوں اور آزمائشوں سے بخوبی کامیابی سے نمٹنے کی توفیق اور ہمت دے اور ہمیشہ ہمیں اپنی رحمت کے تلے اپنے ساتھ جوڑ کر رکھے۔



آمین ثم آمین
اف !کیا اتنا کچھ سچ میں ہوا تھا؟ ذہن مان ہی نہیں رہا ۔ اللہ کریم آپ کو ڈھیروں ڈھیر حوصلہ عطا فرمائیں۔ آمین
 
اف !کیا اتنا کچھ سچ میں ہوا تھا؟ ذہن مان ہی نہیں رہا ۔ اللہ کریم آپ کو ڈھیروں ڈھیر حوصلہ عطا فرمائیں۔ آمین
سچ تو یہ ہے کہ جو کھل کر بیان ہو سکتا تھا وہ بیان کر دیا ۔ لیکن سبب اس سب کو لکھنے کا ہرگز یہ نہیں ہے کہ کوئی مجھ سے ہمدردی کرے یا کسی کو بھی براسمجھے بلکہ یہ جان لیجئے کہ زندگی کے ہزار رنگ ہیں اور ہر رنگ اپنے آپ میں ایک دنیا ہے۔ جو آج سچ ہے کبھی آشکار ہو سکتا ہے کہ ایک سراب تھا اور جسے سراب سمجھے بیٹھے رہیں کے معلوم کہ وہی حقیقت ہو ۔ بہت سے رشتے جن کے ٹوٹنے کا کبھی سوچا ہی نہیں ہوتا جب ٹوٹ جاتے ہیں تو اکھڑتے ہوئے اپنے ساتھ بہت کچھ اکھاڑ کر لے جاتے ہیں اور پھر وہ محل جو ہم نے خوابوں ، خیالوں اور اپنے خلوص سے بنا رکھا ہوتا ہے ۔ گاؤں سے باہر تقسیم سے پہلے کی کھنڈر نما حویلی سے بھی ڈراؤنا لگتا ہے الا ماشاء اللہ ۔ باقی رہا اپنے آپ اور اپنے اندر کی کمزوریوں تکلیفوں اور یادداشتوں کے ساتھ رہنا تو اسے سیکھنا بہت مشکل سا کام ہے جو صرف اللہ کی عطاء سے ہی ممکن ہے ۔

آمین ثم آمین
یقیناً۔۔۔۔ ایک محبت کرنے والے شریکِ حیات کا ساتھ، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان کے بعد سب سے بڑی نعمت ہے۔
اور اس کا احساس تب ہی ہوتا ہے جب آپ کو ایک ایسا مل جائے ۔ نہیں تو اندھے کو جیسے سارے رنگوں کی کیفیت کا پتہ ہوتا ہے ویسے ہی اٹکل پچو لگانے پڑتے ہیں
سمجھ نہیں آ رہا ہے کہ کیا ریٹنگ دوں۔ زندگی کے گرم اور سرد کا مزا ہر کوئی نہیں چکھ پاتا، اور یہ آزمائشیں بھی ہر کسی کے حصے میں نہیں آتیں۔ آپ نے تو پوری زندگی کی داستان کھول دی، یہ ہمت بھی خال خال ہی کسی میں ہوتی ہے اور کیتھارسس کے اپنے فوائد اور نقصانات ہوتے ہیں۔ قریبی رشتوں کا بدل جانا اذیت ناک ہوتا ہے جس کا مجھے کچھ تجربہ ہے۔ یہ جو آپ نے نیم دیوانہ ہونے کی بات کہی ہے، ایسا ہی ہوتا ہے۔ فیصل بھائی، بے شک مشکل کے ساتھ آسانی ہے، یہ اللہ کریم کا وعدہ ہے، اور میں دعا گو ہوں کہ آپ کا آنے والا وقت آپ کے حق میں خوشگوار ثابت ہو۔ میری خواہش ہو گی کہ آپ کے بیٹے کو آپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنا دے، آمین۔
آمین ثم آمین ۔ بے شک اللہ ہر شے پر قادر ہے
آمین الہی آمین
واقعی ایک محبت کرنے والی شریکِ حیات ایک بہت بڑی نعمت ہے ۔۔اسکا ساتھ ہے تو ہر غم خوشی میں نہیں تو سکون میں ضرور بدل دیتی ہے ۔۔اُنکا ساتھ اللہ کی بہترین نعمتوں میں شمار ہے ۔۔
اللہ آپکو اور آپکی نصف بہتر کو اپنی امان میں رکھے بہت ساری دعائیں ۔ماشاء اللہ سلامت رہیں آمین
جزاک اللہ خیرا
فیصل بھائی کی یہ تحریر مجھ سمیت بہت سوں کو اللہ پاک کی نعمت اور آزمائش میں نہ ڈالے جانے پر شکریہ کی متقاضی ہے۔
فیصل عظیم فیصل اللہ کرے جو آزمائشیں آپ کی ہو چکیں اس کے بعد سے جنت کے اعلیٰ ترین مقام پر آپ اور آپ کی بیگم کے قیام تک ہر قسم کی آزمائش سے اللہ پاک آپ کو محفوظ فرمائے آمین
اور ہمارے حق میں بھی اے اللہ اس التجاء کو قبول فرما۔ آمین
آمین ثم آمین ۔ جزاک اللہ خیرا
 

سیما علی

لائبریرین
بہت سے رشتے جن کے ٹوٹنے کا کبھی سوچا ہی نہیں ہوتا جب ٹوٹ جاتے ہیں تو اکھڑتے ہوئے اپنے ساتھ بہت کچھ اکھاڑ کر لے جاتے ہیں اور پھر وہ محل جو ہم نے خوابوں ، خیالوں اور اپنے خلوص سے بنا رکھا ہوتا ہے ۔ گاؤں سے باہر تقسیم سے پہلے کی کھنڈر نما حویلی سے بھی ڈراؤنا لگتا ہے الا ماشاء اللہ ۔ باقی رہا اپنے آپ اور اپنے اندر کی کمزوریوں تکلیفوں اور یادداشتوں کے ساتھ رہنا تو اسے سیکھنا بہت مشکل سا کام ہے جو صرف اللہ کی عطاء سے ہی ممکن ہے ۔
سچ اور وہ بھی ایسا کڑوا جسکی تلخی صرف وہی لوگ محسوس کرسکتے ہیں ۔جو ان سے گذرے ہوتے ہیں !!!پر کچھ تلخیاں آخری سانس تک ساتھ رہتی ہیں !!!ہماری اماّں کہا کرتیں تھیں جس نے لوہے کے چنے نہ چبائے ہوں اُنکو بھلا اُس سختی کا کیونکر پتہ ہو ۔آفرین ہے آپ پر کہ آپ پر گذری ہوئی تلخیوں کا شائبہ تک نظر نہیں آتا آپ کی بات چیت میں ۔اللہ کا کرم خاص ہے کہ تمام تلخیوں کے ساتھ انسان مثبت انداز میں سوچے آپ کے حوصلے کو سلام ۔اور ہمت کو داد کہ تمام حقائق کو سپردِ قلم کیا ۔۔۔ورنہ تلخیاں لکھتے پرُانے زخم ہرے ہوجاتے اور کسک یوں محسوس ہوتی ہے جیسے تازہ ہو ۔۔
 

علی وقار

محفلین
ایک واقعہ اور یاد آ گیا۔میں نے ایک عزیز کے بچے کی گمشدگی پر تلاش گمشدہ کا پیج بنایاتھا اور لکھا تھا کہ جسے بچہ ملے وہ قریبی پولیس اسٹیشن اطلاع دے تو اس بچے کی تصویر اتنی وائرل ہو گئی کہ سال ہا سال گردش میں رہی۔ شکر ہے کہ وہ بچہ تو مل گیا۔ جب تک وہ کچھ بڑا نہ ہو گیا تو ہمہ وقت گلہ کرتا پایا جاتا۔ وہ سب کی منت ترلا کر رہا ہوتا تھا کہ بھائی میں ایک سال/دوسال/تین سال سے گھر والوں کو مل چکا ہوں، یہ کیا تماشا ہے، تصویر دیکھ کر سب مجھے پھر پولیس سٹیشن چھوڑ آتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اب بھی سوشل میڈیا پر وہ تصویر تلاش گمشدہ کے عنوان سے کہیں نہ کہیں نظر آ جاتی ہے۔
 

سیما علی

لائبریرین
ایک واقعہ اور یاد آ گیا۔میں نے ایک عزیز کے بچے کی گمشدگی پر تلاش گمشدہ کا پیج بنایاتھا اور لکھا تھا کہ جسے بچہ ملے وہ قریبی پولیس اسٹیشن اطلاع دے تو اس بچے کی تصویر اتنی وائرل ہو گئی کہ سال ہا سال گردش میں رہی۔ شکر ہے کہ وہ بچہ تو مل گیا۔ جب تک وہ کچھ بڑا نہ ہو گیا تو ہمہ وقت گلہ کرتا پایا جاتا۔ وہ سب کی منت ترلا کر رہا ہوتا تھا کہ بھائی میں ایک سال/دوسال/تین سال سے گھر والوں کو مل چکا ہوں، یہ کیا تماشا ہے، تصویر دیکھ کر سب مجھے پھر پولیس سٹیشن چھوڑ آتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اب بھی سوشل میڈیا پر وہ تصویر تلاش گمشدہ کے عنوان سے کہیں نہ کہیں نظر آ جاتی ہے۔
بڑا افسوس ہوتا ہے کہ لوگ بس اس سے غرض رکھتے ہیں کہ لوگوں کو پہنچ جائے پر اس سے نہیں کہ آیا یہ سچ بھی ہے یا نہیں اس سے نہیں ۔۔۔۔
 

علی وقار

محفلین
بڑا افسوس ہوتا ہے کہ لوگ بس اس سے غرض رکھتے ہیں کہ لوگوں کو پہنچ جائے پر اس سے نہیں کہ آیا یہ سچ بھی ہے یا نہیں اس سے نہیں ۔۔۔۔
لوگ بھی پولیس اسٹیشن اسی نیت سے پہنچاتے ہوں گے کہ بچہ بار بار گھر سے بھاگ جاتا ہے اور پولیس والے پکا انتظام کریں گے۔ :)
 

محمد وارث

لائبریرین
یہ دسمبر جنوری کی ایک یخ بستہ رات تھی، میں دفتر سے دیر سے گھر جا رہا تھا کہ راستے میں حلوائی کی دکان پر گرما گرم جلیبیاں نکلتی نظر آئیں، ایسا سرد موسم اور اس میں بھوکے پیٹ گرما گرم جلیبی، بس سوچا کہ گھر لے چلتا ہوں بیوی بچے بھی خوش ہو جائیں گے۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ گیس بہت کم آ رہی تھی، حلوائی کے پاس کافی گاہک کھڑے تھے اور ان کے آرڈرز پورے نہیں ہو رہے تھے کہ بہت سست روی سے جلیبیاں بن رہی تھیں، اور جو چار پانچ بنتی تھیں وہ سائیڈ میں رکھ کر کسی طور اپنے گاہک بگھتا رہا تھا، خیر میں بھی ایک سگریٹ سلگا کر انتظار میں چولہے کے پاس ہی کھڑا ہو گیا۔کچھ دیر بعد دیکھا کہ حلوائی کا ایک ادھیڑ عمر ملازم جو اتنی سردی میں لنگوٹ کسے ٹھنڈے پانی سے کڑاھے مانجھ رہا تھا، نلکے کے پاس سے اٹھا اور جہاں تازہ نکلی ہوئی جلیبیاں پڑی ہوئی تھیں وہاں سے ایک گرم جلیبی اٹھا لی۔ مجھے بہت غصہ آیا کہ اتنے گاہک اتنی دیر سے اپنا اپنا آرڈر پورا ہونے کا انتظار کر رہے ہیں اور یہ لاٹ صاحب جو چند ایک جلیبیاں نکلی ہیں ان میں سے بھی اٹھا رہا ہے۔ لیکن اگلے ہی لمحے یہ غصہ کافور ہو گیا اور میں شرم سے پانی پانی، اس ٹھٹھرتے ہوئے شخص نے جلیبی کے دو ٹکڑے کیے اور دونوں ٹکڑے کچھ دور بیٹھے سردی کے مارے ہوئے ایک بھوکے کتے کے آگے پھینک دیئے اور پھر اپنے کام میں مصروف ہو گیا۔ کتا چپ چپ کرتے ہوئے جلیبی کھا گیا اور میں سوچتا ہی رہ گیا کہ جلد بازی میں کوئی نتیجہ اخذ نہیں کرنا چاہیئے۔ اس واقعے کو کئی سال بیت چکے ہیں لیکن میری یاد داشت سے کسی مقناطیس کی طرح چپکا ہوا ہے!
 

سیما علی

لائبریرین
کتا چپ چپ کرتے ہوئے جلیبی کھا گیا اور میں سوچتا ہی رہ گیا کہ جلد بازی میں کوئی نتیجہ اخذ نہیں کرنا چاہیئے۔ اس واقعے کو کئی سال بیت چکے ہیں لیکن میری یاد داشت سے کسی مقناطیس کی طرح چپکا ہوا ہے!
بالکل صحیح کہا وارث میاں ہم جلد باز ہیں ۔اور جلد نتیجہ اخذ کرلیتے ہیں ۔۔پھر دکھ رہتا ہے اور یاداشت سے نہیں جاتی ۔۔بہت خوب لکھا ۔۔
جیتے رہیے ،شاد و آباد رہیے آمین
 
آخری تدوین:
یہ دسمبر جنوری کی ایک یخ بستہ رات تھی، میں دفتر سے دیر سے گھر جا رہا تھا کہ راستے میں حلوائی کی دکان پر گرما گرم جلیبیاں نکلتی نظر آئیں، ایسا سرد موسم اور اس میں بھوکے پیٹ گرما گرم جلیبی، بس سوچا کہ گھر لے چلتا ہوں بیوی بچے بھی خوش ہو جائیں گے۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ گیس بہت کم آ رہی تھی، حلوائی کے پاس کافی گاہک کھڑے تھے اور ان کے آرڈرز پورے نہیں ہو رہے تھے کہ بہت سست روی سے جلیبیاں بن رہی تھیں، اور جو چار پانچ بنتی تھیں وہ سائیڈ میں رکھ کر کسی طور اپنے گاہک بگھتا رہا تھا، خیر میں بھی ایک سگریٹ سلگا کر انتظار میں چولہے کے پاس ہی کھڑا ہو گیا۔کچھ دیر بعد دیکھا کہ حلوائی کا ایک ادھیڑ عمر ملازم جو اتنی سردی میں لنگوٹ کسے ٹھنڈے پانی سے کڑاھے مانجھ رہا تھا، نلکے کے پاس سے اٹھا اور جہاں تازہ نکلی ہوئی جلیبیاں پڑی ہوئی تھیں وہاں سے ایک گرم جلیبی اٹھا لی۔ مجھے بہت غصہ آیا کہ اتنے گاہک اتنی دیر سے اپنا اپنا آرڈر پورا ہونے کا انتظار کر رہے ہیں اور یہ لاٹ صاحب جو چند ایک جلیبیاں نکلی ہیں ان میں سے بھی اٹھا رہا ہے۔ لیکن اگلے ہی لمحے یہ غصہ کافور ہو گیا اور میں شرم سے پانی پانی، اس ٹھٹھرتے ہوئے شخص نے جلیبی کے دو ٹکڑے کیے اور دونوں ٹکڑے کچھ دور بیٹھے سردی کے مارے ہوئے ایک بھوکے کتے کے آگے پھینک دیئے اور پھر اپنے کام میں مصروف ہو گیا۔ کتا چپ چپ کرتے ہوئے جلیبی کھا گیا اور میں سوچتا ہی رہ گیا کہ جلد بازی میں کوئی نتیجہ اخذ نہیں کرنا چاہیئے۔ اس واقعے کو کئی سال بیت چکے ہیں لیکن میری یاد داشت سے کسی مقناطیس کی طرح چپکا ہوا ہے!
وارث بھائی ، سلام عرض ہے !
آپ كے ساتھ گزرے اِس واقعہ کو سن کر مجھے ایک ناچیز افسانچہ یاد آ گیا جو میں نے ایک عرصۂ دراز سے لکھ رکھا تھا لیکن کہیں بھیجا نہیں . میں نے وہ افسانچہ افسانوں والے زمرے میں چَسْپاں کیا ہے .(https://www.urduweb.org/mehfil/threads/افسانچہ-جرم.118868/) احباب اسے میری آپ بیتی تسلیم کر لیں .
 
یہ دسمبر جنوری کی ایک یخ بستہ رات تھی، میں دفتر سے دیر سے گھر جا رہا تھا کہ راستے میں حلوائی کی دکان پر گرما گرم جلیبیاں نکلتی نظر آئیں، ایسا سرد موسم اور اس میں بھوکے پیٹ گرما گرم جلیبی، بس سوچا کہ گھر لے چلتا ہوں بیوی بچے بھی خوش ہو جائیں گے۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ گیس بہت کم آ رہی تھی، حلوائی کے پاس کافی گاہک کھڑے تھے اور ان کے آرڈرز پورے نہیں ہو رہے تھے کہ بہت سست روی سے جلیبیاں بن رہی تھیں، اور جو چار پانچ بنتی تھیں وہ سائیڈ میں رکھ کر کسی طور اپنے گاہک بگھتا رہا تھا، خیر میں بھی ایک سگریٹ سلگا کر انتظار میں چولہے کے پاس ہی کھڑا ہو گیا۔کچھ دیر بعد دیکھا کہ حلوائی کا ایک ادھیڑ عمر ملازم جو اتنی سردی میں لنگوٹ کسے ٹھنڈے پانی سے کڑاھے مانجھ رہا تھا، نلکے کے پاس سے اٹھا اور جہاں تازہ نکلی ہوئی جلیبیاں پڑی ہوئی تھیں وہاں سے ایک گرم جلیبی اٹھا لی۔ مجھے بہت غصہ آیا کہ اتنے گاہک اتنی دیر سے اپنا اپنا آرڈر پورا ہونے کا انتظار کر رہے ہیں اور یہ لاٹ صاحب جو چند ایک جلیبیاں نکلی ہیں ان میں سے بھی اٹھا رہا ہے۔ لیکن اگلے ہی لمحے یہ غصہ کافور ہو گیا اور میں شرم سے پانی پانی، اس ٹھٹھرتے ہوئے شخص نے جلیبی کے دو ٹکڑے کیے اور دونوں ٹکڑے کچھ دور بیٹھے سردی کے مارے ہوئے ایک بھوکے کتے کے آگے پھینک دیئے اور پھر اپنے کام میں مصروف ہو گیا۔ کتا چپ چپ کرتے ہوئے جلیبی کھا گیا اور میں سوچتا ہی رہ گیا کہ جلد بازی میں کوئی نتیجہ اخذ نہیں کرنا چاہیئے۔ اس واقعے کو کئی سال بیت چکے ہیں لیکن میری یاد داشت سے کسی مقناطیس کی طرح چپکا ہوا ہے!
ہائے ہائے ۔ میرے وارث بھائی ۔ آپ اور آپ کی باتیں ۔ آنکھوں میں آنسو آگئے ۔۔ کسے معلوم تھا کہ آج ہم آپ کو یاد کر کر کے روئیں گے۔ اللہ پاک آپ کی منزلیں آسان فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمادے ۔ یا رب کریم قبول فرما مولا ہمارے بھائی کو معاف فرما کر بلند مقام عطا فرما دے مولا۔
 
ہائے ہائے ۔ میرے وارث بھائی ۔ آپ اور آپ کی باتیں ۔ آنکھوں میں آنسو آگئے ۔۔ کسے معلوم تھا کہ آج ہم آپ کو یاد کر کر کے روئیں گے۔ اللہ پاک آپ کی منزلیں آسان فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمادے ۔ یا رب کریم قبول فرما مولا ہمارے بھائی کو معاف فرما کر بلند مقام عطا فرما دے مولا۔
الله اکبر! یہ کب اور کیسے ہوا ؟ الله اپنی رحمتوں سے نوازے (آمین )
 

سیما علی

لائبریرین
۔ لیکن اگلے ہی لمحے یہ غصہ کافور ہو گیا اور میں شرم سے پانی پانی، اس ٹھٹھرتے ہوئے شخص نے جلیبی کے دو ٹکڑے کیے اور دونوں ٹکڑے کچھ دور بیٹھے سردی کے مارے ہوئے ایک بھوکے کتے کے آگے پھینک دیئے اور پھر اپنے کام میں مصروف ہو گیا۔ کتا چپ چپ کرتے ہوئے جلیبی کھا گیا اور میں سوچتا ہی رہ گیا کہ جلد بازی میں کوئی نتیجہ اخذ نہیں کرنا چاہیئے۔ اس واقعے کو کئی سال بیت چکے ہیں لیکن میری یاد داشت سے کسی مقناطیس کی طرح چپکا ہوا ہے!
سچ ابھی منہ سے نکلا ہی کہ جیتے رہیے ۔۔پھر سوچا کہاں غلط ہے وہ جیتے ہی رہیں گے ان شاء اللہ اپنے تحاریر میں ۔۔کیسی سچی بات کہی ہے یہی اصل اسلام ہے قیاس اور گمان سے بچنے کا حکم ۔۔کیسے مبلغ کی طرح بات سمجھائی نہ ہنٹر اٹھایا نہ نہ ہی کسی کو کہا اور بات کسقدر گہری کہی ۔۔ ایسی نہ جانے کتنی باتیں جوہم جانے انجانے میں دماغ میں لاتے ہیں اور کبھی کبھی زبان سے بھی کہہ جاتے ہیں ۔۔وہ ندامت کی صورت میں ہماری یاداشت میں اس طرح پیوست ہوجاتی ہیں اور پھر نکالے نہیں نکلتیں ۔۔۔
پروردگار کے حضور دعا ہے کہ ان کے درجات بلند فرمائے۔ قبر اور آخرت کی تمام منزلیں آسان فرمائے۔ ان کو حضرت محمد ﷺ کی شفاعت نصیب فرمائے اور جنت الفردوس میں اللہ تعالیٰ ان کو اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ ان کی بخشش و مغفرت عطا فرمائے آمین یا رب العالمین ۔۔
 
Top