اردو صوتیات

اس موضوع پر ایک دھاگہ اردو محفل کے کمپیوٹر سیکشن میں آج سے کوئی سات آٹھ سال پہلے الف نظامی بھائی نے کھولا تھا۔ یہاں پر ہم اردو لسانیات کے حوالے سے اردو صوتیات کی بحث کو آگے بڑھانے کی کوشش کریں گے۔ ابتدا میں اس کی بنیادی تعریف اور اس پر ہم مبتدیوں کے لیے مواد وغیرہ کی فراہمی اور اس پر بنیادی ابحاث ۔

الف نظامی ، دوست ، الف عین نبیل ابن سعید محمد یعقوب آسی
 
آخری تدوین:
صوتیات اور زبان کی ترکیبی اہمیت
قاسم یعقوب


اُردو صوتیات (فونیمز) کی بنیادی تقسیم کے حوالے سے متعدد آرا ء موجود ہیں۔ بنیادی طور پر صوتیات کی تقسیم زبان میں عمل پیرا مختلف آوازوں کے اُتار چڑھاؤ سے وقوع پذیر صوتیاتی تبدیلیوں سے ہونی چاہیے۔ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نے اُردو صوتیات کو مصمتی، مصوّتی اور نیم مصوّتی درجہ بندیوں میں امتیاز کرتے ہوئے کل ۴۱ صوتیات (فونیمز) کی فہرست پیش کی ہے، جس میں و، ن، ہ، ی، ے، کو مزید ذیلی اصوات میں تقسیم کیا گیا۔(۱) اسی طرح مختلف لہجوں کے فرق سے فونیمز میں تبدیلی اور زیر، زبر اور پیش سے آوازوں کی صوتی تبدیلی سے معنیاتی کیفیت پر اثرات بھی دراصل فونیمز کے بنیادی امتیازی عناصر کے قریب تر عمل ہے۔ یہاں یہ بات یاد رہے کہ حروفِ تہجی ہی کسی زبان میں مصمتی اور نیم مصوّتی فونیمز کی نمائندگی کر رہے ہوتے ہیں، جیسے انگریزی میں A, B, C, D اور اُردو میں ا، ب، پ وغیرہ۔ ان کو بنیادی آوازیں (Segmental Phonemes) کہا جاتا ہے مگر جب مختلف بنیادی فونیمز آپس میں مل کر زبان میں مختلف لسانی تصورات کی تشکیل کرنے لگتے ہیں تو کچھ آوازیں ایسی بھی پیدا ہوتی ہیں جوSegmental فونیمز کے زمرے میں نہیں آتیں۔ یہ عمل عموماً ہر زبان کی عملی سطح پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔ اُردو میں بنیادی فونیمز کی تقسیم عربی اور فارسی کے لسانی نظام سے مستعار ہے، جس کی وجہ سے گرافک سطح پر موجود فونیمز اکثر اوقات دھوکہ دیتے ہیں۔ مثلاً :۰ س، ص، ث ۰ ز، ذ، ض، ظ، ژ ۰ ت، ط ۰ ح، ہکیا ہمارے لسانی ماہرین نے اُردو کے بنیادی فونیمز کی چنداں تبدیلی کی ضرورت محسوس نہیں کی اور ایسی بہت سی آوازیں جو بالاصوت امتیازی فونیمز (Supra Segmental Phonemes) کے زمرے میں رکھی جاتی رہی ہیں، کیا اُردو کے بنیادی حروفِ تہجی قرار نہیں پائی جا سکتیں؟اُوپر پیش کردہ ایک ہی بنیادی آواز کے نمائندہ مختلف صوری امیجز اب اُردو رسم الخط کا ایسا لازمی حصہ بن چکے ہیں کہ اُردو کی صوری شناخت کی بنیادی اکائی تصور ہوتے ہیں۔ لہٰذا مذکورہ ایک ہی فونیم کی مختلف اشکال کا خاتمہ یا تبدیلی پورے اُردو رسم الخط کے انہدام کی طرف اقدام ہو گا۔یہاں شان الحق حقی صاحب کا ایک اقتباس ملاحظہ کیجیے :
’’کہتے ہیں کہ وی وڈ مچ را ور لائک ٹو اڈائپ دی اُردو سکرپٹ۔۔۔ ان الفاظ کو پڑھنے میں آپ کو کتنی دقّت ہوئی اور یہ الفاظ صوتی اعتبار سے اچھی طرح ادا بھی نہیں ہوئے کیوں کہ یہ رسم الخط ان کے لیے بنا ہی نہیں۔ لیکن غورکیجیے تو الفاظ کا مفہوم بھی بعینہٖ وہ نہیں رہا۔ جتنا کچھ بھی فرق واقع ہوا ہے وہ جمالیاتی نقطۂ نظر سے بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ فقط ’’ایکسکوئزٹ‘‘ کی مکمل قیمت وہ نہیں ہو سکتی جو Exquisite کی ہے۔ جس طرح لہجے کے فرق سے بعض اوقات الفاظ کا مفہوم کچھ سے کچھ ہو سکتا ہے، اسی طرح رسم الخط کا اختلاف بھی وہی حکم رکھتا ہے جو تلفظ یعنی مخرج، لہجے، لحن اور حرکت و سکون کا۔ لفظ دوشیزہ کو ’’دو شے زا‘‘ کر دیجیے تو مفہوم غائب ہو جاتا ہے۔ جس طرح تقریر میں الفاظ کی ایک صوتی حیثیت ہوتی ہے۔ اسی طرح تحریر میں ان کی ایک صوری حیثیت بھی ہے، جس کا قائم رہنا نہ صرف مستحسن بلکہ لازم ہے۔‘‘(۲ )لفظوں کی تحریری شکل بھی دراصل زبان کی طرح ثقافت کے برسوں کے ثقافتی عمل کا نتیجہ ہوتی ہے، چوں کہ لفظ کے Signifier کے صوری اور صوتی امیجز میں Signified یا تصورِ شے کا عکس من مانا یا اختراعات پر مبنی نظام ہے۔ اصل میں اس (Structural Reality) کے ساتھ ساتھ ایک مانوسیت کی من مانی حقیقت بھی موجود ہوتی ہے جو حقی صاحب کو مذکورہ اقتباس میں معنی خیزی (Signification) کے عمل سے دور کر رہی ہے۔ ’’ایکسکوئزٹ‘‘ کیوں مکمل قیمت ادا نہیں کر رہا؟ اس لیے نہیں کہ یہ انگریزی کا لفظ ہے بلکہ اس کے تصور کی ثقافتی عمر اُردو کیassociation structural میں نہیں موجود، لہٰذا اس لفظ کا صوتی اور صوری ساختیہ دوسرے لفظوں سے اختلافی سطح پر کوئی معنی خیزی پیدا کرنے میں ناکام ہے۔ زبان میں بنیادی فونیمز کی ادائیگی سے قاصر الفاظ ہی اُس زبان کا حصہ نہیں بن سکتے ورنہ ہر لفظ اپنے مخصوص ثقافتی استعمال کے بعد زبان کے ساختیاتی نظام میں جگہ پا سکتا ہے۔ اُردو زبان تو اس حوالے سے بہت زرخیز ہے کہ اس میں غیرزبان کا لفظ دیسی ساخت کو قبولنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ اُردو میں افعال اور ان کے مصادر مثلاً، اٹھنا، پڑھنا، چلنا، پھرنا وغیرہ، حرف جار مثلاً، تک، کو، سے، میں، پر وغیرہ، اور تذکیر و تانیث، واحد/ جمع کے اُصول دیگر زبانوں کے لفظوں کو خالص مقامی سطح (ثقافتی اور لسانی) پر رَچ بسنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔ کیا انگریزی کا ہر لفظ اُردو میں نامانوس ہو گا، مثلاً سکول، یونیورسٹی، یوٹرن وغیرہ حقی صاحب کے بقول رسم الخط کے اختلاف میں آنے کے باوجود کیا کوئی معنی نہیں دے رہے؟ کیا ان الفاظ کی کوئی جمالیاتی قدر متعیّن نہیں ہوتی؟ یہ الفاظ، دراصل اُردو کے ثقافتی عمل کا حصہ بن چکے ہیں۔فونیمز کی تقسیم کے ساتھ ساتھ لفظوں کی جمالیاتی حیثیت (جو زبان کے ساختیاتی پھیلاؤ سے مانوسیت ہوتی ہے) بھی معنی خیزی کے قریب ترین تصور کو پیش کرتی ہے اسی لیے ’’دوشیزہ‘‘ کی بجائے ’’دو شے زا‘‘ غیر مانوس ہونے سے اپنے قریب ترین Trace سے ہٹ گیا حالاں کہ فونیمز کی ادائیگی دونوں صورتوں میں یکساں ہے۔تحریر کو پڑھتے ہوئے صوری امیجز، فونیمز کی تقسیم کا کام کر رہے ہوتے ہیں، لہٰذا تحریری شکل میں موجود الفاظ کو اُن کی جمالیاتی مانوس اشکال میں قرأت کے دوران فونیمز کی درست ادائیگی کا نمائندہ ہونا چاہیے۔اُردو میں بہت سے الفا ظ مرکب شکل میں نئے تصور کو جنم دیتے ہیں۔ جیسے یکساں، دلچسپ، بلکہ، راہنمائی، پسپائی وغیرہ، جو اصل میں بالترتیب یک ساں، دل چسپ، بل کہ، راہ نمائی، پس پائی کو یکجا کرنے کا عمل ہے۔ یہ الفاظ دیگر مختلف لفظوں کی مرکب شکل ہیں، ان کو جدا یا اکٹھے لکھنے کے لیے زبان کی ساختی صوری تقسیم (Typological Classification) کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے۔ جو دراصل زبان کے ارتقا کے تدریجی پھیلاؤ میں Intonation System کا لازمہ ہوتی ہے۔ یہ Intonation System زبان کی ساختیاتی سطح پر لفظوں کی صوتیاتی توڑپھوڑ سے نئے صرفیے (Morphemes) پیدا کر رہا ہوتا ہے۔ یہ عمل کسی خاص وقت میں شروع ہو کر مکمل نہیں ہو جاتا، بلکہ زبان کے استعمال کرنے والوں میں مسلسل جاری رہتا ہے۔ فونیمز کی طرح مارفیمز بھی زبان کی معنی خیزی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ دنیا کی ہر زبان کی ابتدائی شکل تحلیلی (Analytic) ہوتی ہے۔(۳) اپنے خودکار نظام کی ترقی یافتہ شکل میں آنے تک ترکیبی سطح (Synthetic) پر پہنچ جاتی ہے۔ زبان کی ساختی یا صوری (Typological) تقسیم اصل میں فونیمز کے آپس میں ادغام اور تفریق سے نئے لفظوں کی صوتیاتی تقسیم ہی کا نام ہے۔ مثلاً جدا سے جدائی، آنا سے آہٹ وغیرہ کی تبدیلیاں پابند صرفیے (Bound Morpheme) اور آزاد صرفیے (Free Morpheme) سے ترکیب پاتی ہیں۔ لفظوں کی ترکیبی (Synthetic)شکل کو توڑ کر تحلیلی سطح میں تقسیم مجموعی معنی خیزی سے دور کرنے کا عمل ہوتا ہے۔ہر لفظ زبان میں اپنے مخصوص تصور کا قریب ترین نمائندہ ہوتا ہے۔ ڈریڈا کے ہاں تصورِ معنی (Signified) کا یک معیناتی انکار اصل میں لفظ کی من مانی حیثیت اور کسی حد تک فونیمز سے مارفیمز تک صوتی اور صوری شکل بھی ہے۔ ایک لفظ اپنی ’’تخلیقی‘‘ درجہ بندی میں اپنے مادے کی مختلف حالتوں یا سماجی تناظرات سے گزر کے ساختی نظام کا حصہ بنتا ہے۔(۴ )گھر سے گھریلو بناتے ہوئے گھر کا Trace ناگزیر ہے۔ جھگڑا سے جھگڑالو، مکتب میں کتاب، ادب میں ادیب، آداب کے Trace لفظی یا صوری سطح پر بھی موجود ہیں۔ متن کا مطالعہ کرتے ہوئے تحریری سطح پر موجود لفظیات کا گرافک تاثر ہی فونیمز کی تقسیم میں مدد دیتا ہے۔ ایک ہی لفظ مختلف طریقوں سے لکھا گیا ہو تو پڑھتے ہوئے آواز کی بنیادی تبدیلیوں کا باعث بنتا ہے، لہٰذا ’’پس پائی‘‘ میں پس اور پائی اُردو زبان کی ساختی ترتیب میں الگ الگ تصورات کو لیے موجود ہیں۔ پسپائی کی ترکیبی شکل کی دو حصوں میں تقسیم پس اور پائی دراصل پسپائی کے تصور معنی (Signifier) کو دو واضح اور ناگزیر Trace میں تقسیم کرنے کا عمل ہے اور ہر ان دو کے مزید دیگر Traces ، جو لفظ کی ترکیبی حالت سے بہت مختلف ہو سکتے ہیں، میں بھی جھانکنے کا باعث ہو سکتے ہیں۔ یوں یہ زبان کے قریب ترین معیناتی عمل سے دور لے جانے کی کوشش ہے۔فونیمز کی درست ادائیگی کے قریب جانے کی کوشش میں مارفیمز کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ زبان کی ترکیبی سطح (Synthetic) فونیمز کی اُلٹ پلٹ (Permutation) کے بعد کا عمل ہوتا ہے۔ اگر مارفیمز کی ارتقائی اہمیت سے انکار کرتے ہوئے صوتیے (phonemes)کے قریب ترین تقسیم سے زبان کا عمل آسان اور درست ہو سکتا ہے تو ایسے صوتیے (Phonemes) رکھنے کا کیا جواز ہو سکتا ہے جو ایک ہی بنیادی آواز کی کئی شکلوں میں نمائندگی کر رہے ہیں۔ اگر صابر کو سابر لکھنے کے عمل کو زبان کے صوری نظام (Graphic Structure) میں بگاڑ کہا جا سکتا ہے تو دلچسپ، راہنمائی وغیرہ کو مادے کے قریب کرنے سے مارفیمز کے ارتقائی، غیرشعوری اور تاریخی سطح پر کانٹ چھانٹ سے تعمیر نظام میں بگاڑ کیوں نہیں کہا جاسکتا۔زبان کی ترکیبی بُنت، اس میں موجود تجربات کی ثقافتی معنی خیزی کو زیادہ پُراثر بنانے کی جہت ہوتی ہے۔ ثقافتی عمل سے وجود پانے والے تصورات اپنے صوری اور صوتی ساختیے خود تخلیق کرتے ہیں جو زبان کے اندر توڑ پھوڑ سے بھی اور زبان سے باہر پڑے الفاظ کو جوں کا توں اُٹھا کے زبان کا خمیر بنا لینے سے وجود میں آتے ہیں۔ ہمیں زبان کے اس ثقافتی ڈھانچے کا لسانی احترام کرتے ہوئے انہیں خوش آمدید کہناچاہیے۔ حواشی
(۱ ) گوپی چند نارنگ، ڈاکٹر:اردو کی بنیادی اور ذیلی آوازیں،مشمولہ مقالہ در’اردو املا و قواعد‘ مرتّب:ڈاکٹر فرمان فتح پوری،مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد،۱۹۹۰ء
(۲ ) حقی، شان الحق:رسم الخط کی الجھن،مشمولہ مقالہ در’اردو رسم الخط‘،مرتّب:شیما مجید،مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد، ۱۹۸۹ء
(۳ ) البتہ کچھ زبانیں ایسی بھی ہیں جن میں الفاظ اپنے مادے ) roots (کے قریب یامادے ہی ہوتے ہیں۔مادہ لفظ ہی جملے میں مختلف حالتوں کے استعمال سے مختلف معنی پیدا کرتا ہے۔ایسی زبانیں عموماً پابند اور آزاد صرفیوں سے ماورا ہوتی ہیں۔چینی زبان اور اس سے ملتی جلتی بولیاں اس کی مثال ہیں۔
(۴ ) ڈریڈا نے معنی کی عدم قطعیت کی بجائے کثیرالمعنیت پر زور دیتے ہوئے لفظ کے حاضر اور غائب tracesکا نظریہ پیش کیا ہے۔کثیر المعنیت کا مطلب یہ نہیں کہ لفظ کا معنی آزاد پرواز کرتا خطوں کی حدود سے ماورا ہو جائے۔اس کے لیے وہ استعمال شدہ لفظ کے تناظرات کا خیال رکھتاہے۔کوئی بھی لفظ اپنے تہذیبی،تاریخی اور زبان میں موجود اپنی نحوی (syntex) درجہ بندی کے تناظرات سے بھی ماورا ہو کے کوئی معنی نہیں پیدا کر سکتا۔معنی خیزی کے عمل میں وہ معنی پیدا کر رہا ہوتا ہے مگرحتمی نہیں بلکہ اپنے تناظر کے پھیلاؤ میں اپنی موجودگی کے اثبات کے حد تک۔وہ اپنی کتاب Of Grammatology میں لکھتا ہے:۔

"why of the trace?what led us to the choise of this word?I have begun to answer this question.but this question is such the nature of my answer,that the place of the one and of the other must constanly be in movement.If words and concepts receive meaning only in sequences of differences.one can justify one's language,and one's choise of terms,only within a topic(an orientation in space)and an historical strategy.the justification can therefore never be absolute and definite."Derrida,jacques:Of Grammatology (translated by bayatri chakrroth), johan hopkins university press,1976.

http://nlpd.gov.pk/uakhbareurdu/march2012/March_2.html
 
اردو لسانیات-صوتیات: آوازوں کی اقسام اور درجه بندی

زبان کی آوازیں دو قسم کی هوتی هیں:مصوتے- ایسی آوازیں جن میں آواز پیدا کرنے والے اعضاء گونج کے خلا بناتے هیں اور جن میں سے سانس کی هوا رگڑ کھایے بغیر گزرتی هے.مصمتے- ایسی آوازیں جن میں سانس کی هوا کے راستے میں کویی رکاوٹ هوتی هے جو رگڑ پیدا کرتی هے. ایسی رکاوٹ هوا کو پوری طرح روک کر یا هوا کو ایک تنگ راستے سے گزارنے پر پیدا هوتی هے.مصوتوں کو پیدا کرنے کے وقت صوت تانت تھرتھراتے هیں.اس کا مطلب یه هوا که مصوتے مسموع هوتے هیں جبکه مصمتے کے لیے ایسی کویی شرط نهیں.پس مصمتے دونوں طرح کے هو سکتے هیں یعنی مسموع بھی اور غیر مسموع بھی.نیم مصوتے: یه آوازوں کی تیسری قسم هے.ان سے مراد وه آوازیں هیں جن کے پیدا هوتے وقت صوت تانت تھرتھراتے هیں لیکن زبان سے کویی رگڑ یا رکاوٹ پیدا نهیں هوتی .

مصوتوں کی درجه بندی:مصوتوں کی درجه بندی کرتے وقت تین نکات کا خیال رکھا جاتا هے:ا: زبان کی اونچایی:یعنی زبان کتنی اونچی اٹھتی هے، یه تالو کے نزدیک آتی هے یا اس سے دور رهتی هے. اونچایی کو اونچا، نیچا اور وسط میں تقسیم کیا جا سکتا هے.ب: زبان کا حصه: زبان کا کون سا حصه محرک هوتا هے یعنی اگلا حصه، رجمی حصه یا وسطی حصه.ج: هونٹوں کی گولایی: یه بات بھی مدنظر رکھی جاتی هے که هونٹوں کی شکل گول هے یا یه پھیلے هویے هیں یا معمولی هیں .چونکه مندرجه بالا تینوں باتوں میں لاتعداد اختلافات هو سکتے هیں اس وجه سے مصوتوں کی تعداد بھی لامحدود هے.ڈینیل جونس کے خیال میں آٹھ مصوتوں کے ایک مجموعے کو معیاری مصوتے مانا گیا هے.یه مصوتے کسی خاص زبان سے متعلق نهیں بلکه فرضی هیں.ان مصوتوں کا مقصد صرف یه هے که کسی زبان کے واقعی مصوتوں کو ان سے مقابله کرکے بیان کرنے میں آسانی هو.معیاری مصوتوں کا چارٹ آخر میں دیا گیا هے.
معیاری مصوته نمبر١:: اس میں اونچی زبان، زبان کا سامنےوالا حصه اور پھیلے هویے هونٹ استعمال هوتے هیں.
معیاری مصوته نمبر٢:[e]: اس میں نیچی اونچی زبان، زبان کا سامنے والا حصه اور کم پھیلے هویے هونٹ استعمال هوتے هیں.
معیاری مصوته نمبر٣:[€]: یهاں زبان اونچی نیچی، زبان کا سامنے والا حصه اور کم پھیلےهویےهونٹ استعمال هونگے.
معیاری مصوته نمبر٤:[ae]: اس میں نیچی زبان، زبان کا سامنے والا حصه اور کم کھلے وکم پھیلے هویے هونٹ کام آتے هیں.
معیاری مصوته نمبر٥:[a]: اس میں نیچی زبان، زبان کا پچھلاحصه اور کھلے و پھیلے هویے هونٹ استعمال هونگے.
معیاری مصوته نمبر٦:[<]: اس میں اونچی نیچی زبان، زبان کا پچھلا حصه اور گولایی کے ساتھ کھلے هونٹ استعمال هونگے.
معیاری مصوته نمبر٧:[o]: اس میں نیچی اونچی زبان، زبان کا پچھلا حصه اورگول هونٹ استعمال هوتے هیں.
معیاری مصوته نمبر ٨:: اس میں اونچی زبان، زبان کاپچھلا حصه اور آگے کو نکلے هویے گول هونٹ استعمال هوتے هیں.


urdu%20wovels_zpstcyrx25r.jpg



http://urdu-classics.blogspot.com/2014/01/blog-post_18.html
 
آخری تدوین:
فونیمیات یا علم الصوتیہ لسانیات

Phonemicsیہلسانیاتکی دوسری اہم شاخ فونیمیات ہے۔ اس کی بنیادصوتی اکائیکے تصور پر رکھی گئی ہے جسےصوتیہیافونیمPhonemeکہتے ہیں۔ ہم جب بولتے ہیں تو ہمارے منھ سے جو الفاظ نکلتے ہیں وہ مختلف آوازوں کے سلسلے ہوتے ہیں جن میں ایک آواز اپنے آگے پیچھے آنے والی آوازوں سے متاثر ہوتی رہتی ہے۔ مثال کے طور پر ذیل کے فقروں کو بول کر دیکھیے۔
((۱)) سات دن، ((۲)) آجشام، ((۳)) ایک گھر، ((۴)) کب تک۔ان میں پہلے فقرے میں "ت" دوسرے میں "ج" تیسرے میں "ک" اور چوتھے میں "ب" اپنے بعد آنے والی آوازوں سے علی الترتیب متاثر ہو کر "د" "ش" "گ" اور "ت" سنائی دیں گی۔رسم الخطکے دھوکے میں ہم سمجھتے ہیں کہ ہم اسی طرح بول رہے ہیں جیسے یہ اوپر لکھے ہوئے ہیں۔ اس طرح ہر ایک زبان میںسیاق و سباقکی آوازوں کے اثر سے آوازوں کی تعداد بے شمار ہو جاتی ہے لیکن ہر زبان ان بے شمار آوازوں میں سے صرف ایسی آوازوں کو اپنا لیتی ہے جو ممیز Distinct ہوتی ہیں اور جنہیںاصطلاحمیں صوتیے یا فونیم کہتے ہیں۔ ان کے مطالعہ و تجزیے کے علم کو علم الصوتیہ یا فونیمیات کہتے ہیں۔صوتیے ایسی اکائیاں ہیں جن سے الفاظ کے معنی کے فرق کی وضاحت ہوتی ہے۔ جیسے پال، بال، تال، چال، کال، گال، لال، مال وغیرہ الفاظ میں "ا ل" آوازیں مشترکہ ہیں مگر ہر ایک میں ابتدائی آواز بدلنے سے لفظ کے معنی میں فرق آ گیا۔ چنانچہ پ ب ت چ ج ک گ ل م ممیز آوازیں یعنی صوتیے ہیں۔ایسی آوازیں جو صوتی اعتبار سے Phonetically تو مختلف ہوں مگر فونیمیاتی اعتبار سے Phonemically مختلف نہ ہوں یعنی ایک کی جگہ دوسری لانے سے معنی میں کوئی فرق نہ پڑتا ہو تو وہ ذیلی صوتیے یاذیلی فانیحAllophone کہلاتی ہیں۔اردومیں اس کی مثال گڈھا اور گڑھا الفاظ سے دی جا سکتی ہے۔ ذیلی صوتیوں کے الگ الگمحل وقوعکو اصطلاح میںتکملی بٹوارہکہتے ہیں جس میں "ڈ" اور "ڑ" صوتی اعتبار سے الگ الگ آوازیں ہیں۔ مگر فونیمیاتی اعتبار سے ہم گڈھا کہیں یا گڑھا معنی ایک ہی ہیں۔کسی زبان میں کتنے صوتیے ہیں اور ان میں سے ہر ایک کے کتنے ذیلی صوتیے ہیں اور مختلف صوتیے زبان کے صوتیاتی نظام میں کس طرح سے اپنا کام Function انجام دیتے ہیں، کن کن صوتیوں میں تقابل Contrast ہوتا ہے، کن کن میں آزادانہ تغیر Free Variation ہوتا ہے اور کون کون سے صوتیے ایک دوسرے کے تسلسل میں آ سکتے ہیں، ان سب کا مطالعہ و تجزیہ فونیمیات کی حدود میں آتا ہے۔صوتیاتاور فونیمیات دونوں شاخوں کو ملا کر اہم مجموعی اصطلاحفونولوجیPhonologyبنائی گئی ہے جس کے تحت زبان کے صوتی اور فونیمیاتی دونوں پہلوؤں کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ صوتیات میں انسان کے منھ سے نکلنے والی تمام آوازوں کا عمومی مطالعہ کیا جاتا ہے اور فونیمیات میں کسی مخصوص زبان کی ممیز آوازوں کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔

http://www.urduencyclopedia.org/general/index.php?title=فونیمیات_یا_علم_الصوتیہ
 
آخری تدوین:
اردو مارفالوجی ایپلیکیشن
ارسال کردہ از Muhammad Shakir Aziz

آپ احباب انٹرنیٹ میری گفتگو سے یہ تو جان گئے ہونگے کہ میں نے بی کام کے بعد لسانیات میں ٹانگ اڑا لی ہے۔ یہ لمبی کہانی ہے بس یہ سمجھ لیں کہ کچھ راہنما مل گئے جنھوں نے مجھے پکڑ کر گھما ڈالا۔ کہنے کو تو میں انگلش لینگوئج ٹیچنگ میں ڈپلومہ کررہا ہوں جو اگلے سال ایم ایس سی میں بدل جائے گا (یعنی ایک سال کی ایم ایس سی) لیکن انگریزی تو زبردستی ساتھ لگ گئی ہے۔ سمجھ لیں روزی روٹی کا معاملہ ہے ورنہ اپنی دلچسپی تو ازل سے اردو میں ہے۔ سوچا لسانیات میں رہ کر اردو کے لیے کچھ کیا جاسکتا ہے۔ اردو کی صوتیات (فونولوجی) پر فاسٹ لاہور میں بہت اچھا کام ہورہا ہے لیکن اس کے مشینی تجزیے کے سلسلے میں کوئی قابل ذکر کام نہیں ہوسکا۔ مشینی تجزیے سے مراد ہے کہ سافٹویر بنائے جائیں جو عبارت یعنی ٹیکسٹ کا تجزیہ کریں۔ اس کے ہر ہر لفظ کی گرامر کے لحاظ سے زمرہ بندی کریں۔ پھر اس بل پر شماریاتی فارمولے لگا کر زبان کے ٹرینڈز بتائے جائیں۔ میرا علم اس سلسلے میں ابھی محدود ہے۔ تاہم آپ مزید جاننا چاہیں تو Computational Linguistics اور Corpus Linguistics کے نام سے وکی پیڈیا اور گوگل پر تلاش کرکے جان سکتے ہیں۔
میرے اساتذہ پاکستانی انگلش کے کارپس پر کام کررہے ہیں۔ جو کہ پاکستان میں کسی بھی زبان پر پہلا کارپس بیسڈ کام ہے۔ انھیں انگریزی پر کام کرنے کے لیے سافٹویرز کے حصول میں اچھی بھلی دشواریاں پیش آئیں تو مجھے اردو کے لیے کیا مل سکتا تھا بھلا۔ لیکن اتنا اندھیر بھی نہیں مچا۔ کہتے ہیں ڈھونڈنے والے کو خدا بھی مل جاتا ہے۔ چناچہ مجھے بھی پہلے سن گن ملی کہ جرمنی میں ایک پاکستانی صاحبہ ایک یوینورسٹی میں اردو گرامر پر کام کررہی ہیں۔اور اب ایک دن ایویں سرچ کرتے ہوئے میرے ہاتھ ایک پی ڈی ایف لگا جس میں سے ایک پاکستانی محمد ہمایوں جو کہ لاہور سے تعلق رکھتے ہیں اور اب سویڈن کی ایک یونیورسٹی میں ہوتے ہیں کا لکھا ہوا ایک آرٹیکل ملا۔ اس کی خصوصیات آپ کو کیا بتاؤں مجھے تو خزانہ مل گیا ہے۔ ایک تو اوپن سورس اطلاقیہ دوسرے یونیکوڈ کو سپورٹ کرتا ہے۔ ٹیکسٹ یونیکوڈ میں دیں اور ماحصل بھی یونیکوڈ میں۔ البتہ ٹیگز انگریزی میں ہوتے ہیں۔ ان کو اردو میں شائع کروانے کے لیے ہم ترجمہ کروا لیں گے۔
ہمایوں بھائی نے میری بہت مدد کی۔ میں نے تو ایسے ہی ای میل کردی تھی کہ شاید جواب آئے شاید نہیں۔ لیکن انھوں نے ذاتی دلچسپی لے کر مجھے ہر ممکن تفصیل بتائی تاکہ میں سورس کوڈ کو کمپائل کرسکوں۔ جب میں نے بتایا کہ میرے پاس لینکس بھی ہے تو انھوں نے مجھے لینکس میں کمپائلیشن کی کمانڈز تک لکھ بھیجیں (اب یہ تو آپ اورمیں جانتے ہیں کہ اس طرح کے کام مجھے لینکس پر کرتے ہوئے عرصہ ہوچلا ہے)۔ خیر ان کی اس مدد کے بعد آج میں نے یہ ایپلی کیشن کمپائل کرکے چلالی۔ اپنے بلاگ کی ایک عدد پوسٹ کا اس سے تجزیہ بھی کروایا۔ جس کا ماحصل اس پوسٹ کے آخر میں ایک زپ فائل میں موجود ہےاور آپ دیکھ سکتے ہیں کہ یہ سافٹویر کافی اچھا کام کرتا ہے۔ اگرچہ اس کی ڈیٹا بیس چھوٹی ہے۔ کچھ الفاظ جیسے اسماء کو ابھی شناخت نہیں کرپاتا لیکن میرا ارادہ ہے کہ اس پر مزید کام کروں۔ اگرچہ میں پروگرامر نہیں ہوں۔ لیکن جاوا اور ہسکیل (شاید یہی لنگوئج ہے ) جس میں یہ لکھا گیا کے لیے اپنے اردو محفل کے احباب اور اس پروگرام کے خالق ہمایوں بھائی کو ضرور تنگ کروں گا۔
میرا پکا ارادہ بن گیا ہے کہ اسی سافٹویر کو استعمال کرکے اگلے سال اپنا ایم ایس سی کا تھیسس اردو مافولوجی پر لکھوں۔ ارے یہ تو میں بھول ہی گیا کہ مارفولوجی کا بتا دوں۔ مارفولوجی اصل میں لسانیات کی وہ شاخ ہے جو الفاظ کی تشکیل میں استعمال ہونے والے عوامل کو دیکھتی ہے۔ جیسے کرنا سے کیا، کیے ، کرتے، کرتا، کرتی ،کرتا تھا وغیرہ وغیرہ۔ وہی گردانیں جو کبھی مڈل میں ہم رٹے لگایا کرتے تھے۔ لیکن یہ صرف فعل کے ساتھ نہیں واحد سے جمع میں تبدیلی وغیرہ اور اسم مشتق وغیرہ جن سے کئی الفاظ بنتے ہیں، دو الفاظ کو ملا کر ایک بنا لینا وغیرہ وغیرہ سب اسی کے ذیل میں آجاتے ہیں۔ یہ ہمیں کسی زبان کی اہلیت کے بارے میں بتاتی ہے کہ اس میں الفاظ کس کس طرح سے بنتے ہیں۔ جو دوست محفل پر آج کل اوپن آفس کے لیے اردو پڑتال کار فہرست پر کام کررہے ہیں وہ مارفولوجی کو اچھی طرح سمجھ سکیں گے۔ بنیادی شکل یعنی کرنا اور پھر اس سے ثانوی اشکال کیا، کیا تھا، کرتا، کرتا تھا، کیے ، کیے تھے، کرنا تھا، کرتی، کرتی تھی، وغیرہ وغیرہ۔ اگر آپ کو مارفولوجی کی سمجھ نہ آئے تو وکی پیڈیا کو زحمت دے لیجیے وہاں پر پورا آرٹیکل موجود ہے اس بارے میں۔
اور آخرمیںاردو مارفولوجی ایپلیشکن کا ہوم پیج
اور یہ دیکھ کر آپ کو حیرت ہوگی کہ اس کے روابط میں اردو ویب کا ربط بھی شامل ہے۔ اس کی موجودہ اردو الفاظ کی ڈیٹا بیس (سکرین شاٹس دیکھ کر لگتا ہے کہ) اردو محفل ، اردو لائبریری اور اردو سیارہ کے بلاگز سے ٹیکسٹ لے کراس کا تجزیہ کرکے بنائی گئی ہے۔
میرے بلاگ کی ایک پوسٹ کا اردو تجزیہ اور میرے علم کے مطابق اس میں بہتری کی گنجائشیں۔


http://awaz-e-dost.blogspot.com/2007/08/blog-post_27.html
 
Vowel:

صوتیاتی تعریف کے مطابق ایسی آوازیں جن کی ادائیگی میں مخرج اصل (حلق) سے نکلی ہوا کی راہ میں کوئی عضو حائل نہ ہو۔


consonant:

ایسی آوازیں جن کا کوئی معاون مخرج ہو اور حلق سے نکلی ہوا کے راہ میں حائل ہو کر جھٹکے سے راستہ دے۔ اس طرح مختلف آوازوں کی ادائیگی مختلف مقامات پر مختلف اعضاء کے حائل ہونے کا نتیجہ ہوتی ہے۔

مثلاً ب کی ادائیگی میں دونوں ہونٹ مل کر ہوا کی راہ میں حائل ہوتے ہیں۔
ٹ کی ادائگی میں سرا زبان اندر کی جانب مڑ کر تالو سے جا ملتا ہے اور اس طرح ہوا کی راہ میں حائل ہوتا ہے اور جھٹکے سے راستہ دیتا ہے۔

و علیٰ ھٰذا القیاس دوسرے کانسونینٹس کو آزما لیں۔

پھر انشا اللہ ہیاں جمع کرنے کی کوشش کریں گے اور بعد میں ترتیب دے لیں گے۔
 

اُردو زبان میں حروفِ ہجاء


اُردو زبان میں حروفِ ہجاء دو طرح سے ہیں :

( ا ) مُصّوَتے / حروفِ علت (Vowels)
(ب) مُصّمتے / حروفِ صحیح (Consonants)

مصوتے یعنی حرکا ت یا حروفِ علت ، انہیں سنسکرت میں انہیں سوَر اور انگریزی میں واولز کہتے ہیں ۔ ہندی میں انہیں اکشر بھی کہتے ہیں جو الف (ا) اور کشر سے مل کر بنا ہے ۔ اس کے لفظی معنی حرکت دینے والے کے ہیں ۔ مصوتے دراصل حروفِ صحیح کو باہم جوڑنے میں مدد کرتے ہیں اور ان کے ذریعے (صحیح آوازوں کو جوڑنے سے) مختلف بامعنی کلمے بنتے ہیں اور یہ کلمے پھر جملے بناتے ہیں جو ہم اپنی گفتگو اور تحریر میں استعمال کرتے ہیں ۔

اردو میں مصوتے سہل یا آسان ہیں اور ان کی دو اقسام ہیں

قصیر مصوتے
طویل مصوتے

قصیر مصوتوں میں زیر ، زبر اور پیش تینوں حرکات شامل ہیں اور ان کی طویل صورتیں ا ، و ، ی ، ے ہیں ۔

خاص خاص صورتوں میں جب قصیر مصوتوں کے بعد حرف ج یا ع ہو تو اردو میں ان علتوں کی خفیف آواز بھی سننے میں آتی ہیں جیسے احرام (اے) کی خفیف آواز ہے ۔

مراٹھی اور بنگلہ کی طرح اردو کا اعرابی نظام پیچیدہ یا گرہ دار نہیں ہے بلکہ سادہ ہے اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ اردو دو مصوتوں کو ایک ساتھ برداشت نہیں کرتی ۔


مصمتے یعنی حروفِ صحیح ، سنسکرت میں ان کو وینجن اور انگریزی میں Consonant کہتے ہیں ۔ اردو میں ان کے لئے حروفِ صحیح کی اصطلاح مستعمل ہے۔ یہ زبان کی اصل اور بنیادی آوازیں ہیں جنہیں ہم مصمتہ کہتے ہیں ۔ اس کے معنی ٹھوس کے ہیں یا یہ کہ وہ چیز جو اندر سے خالی نہ ہو ۔ سنسکرت کا لفظ وینجن سے اس کی تائید ہوتی ہے وینجن یعنی جو بھرا ہوا ہو اپنے اندر معنی رکھتا ہو۔ سنسکرت کے ماہرینِ صوتیات کا بیان ہے کہ حروفِ صحیح وینجن اس لئے کہلاتے ہیں کہ وہ الفاظ کے معنوں کی تشریح کرتے ہیں اور ان کے بغیر جملہ بنانا نہایت دشوار بلکہ ناممکن ہے البتہ مصمتے مصوتوں کے بغیر قائم نہیں رہ سکتے ۔

صوتیہ :

یہ لفظ فونیٹک کا ترجمہ ہے ۔ صوتیات کے معنی یہ ہیں کہ جو شئے آواز یا صوت سے منسوب ہو۔ صوتیہ کا تعلق انسانی آواز سے ہے ۔ ایک صوتی اکائی کو ہم فنالوجیکل یونٹ بھی کہتے ہیں ۔ ایک فنالوجیکل یونٹ مزید یونٹس یا اکائیوں میں تقسیم نہیں ہو سکتا ۔ ماہرینِ صوتیات نے صوتیہ کے لئے ایک میزان مقرر کیا ہے اور یہ میزان اختلافِ معنٰی کی صورت میں ہے یعنی کسی لفظ کی صوتی اکائی کو بدلنے سے معنٰی تبدیل ہو جائے تو معلوم ہوگا یہ آواز ایک صوتیہ ہے ۔ اگر اس تبدیلی سے کوئی بامعنٰی کلمہ حاصل ہو تو ہم اس حرف کو صوتیہ کہتے ہیں۔ مثلا چال ایک کلمہ ہے جس میں حرف چ ایک صوتیہ ہے ۔ اگر ہم اس کلمے چال میں چ کو د سے بدل دیں تو جو نیا لفظ ہمیں حاصل ہو گا وہ ہے دال ۔ اور یہ کلمہ دال اردو میں ایک بامعنٰی کلمہ کے طور پر موجود و مستعمل ہے ۔ پس چ اور د اردو کے دو بامعنٰی صوتیہ ہیں ۔

جو حروف (آوازیں) اس معیار پر پُورے نہیں اُترتے وہ صوتیہ شمار نہیں ہوتے ۔

دو صوتہ مصوتے :

مصوتوں کی ایک شکل جو کہ مرکب ہوتی ہے اس کو دو صوتہ مصوتے کہتے ہیں ۔ یہ تقسیم بہت پُرانی ہے چنانچہ سنسکرت کے قواعدِ نو میں سادہ اور مرکب دو قسم کے مصوتے بنائے گئے ہیں ۔ ان کی تشریح یجروید میں اس طرح ہے

اگر دو صوتہ مصوتے مصوتوں کا ایک مرکب ہیں تو ان کو ایک عدد حرف ہی سمجھا جائے گا مثلا آئی ۔ گئی ۔ لائی ۔ پائی
 
ملا اور انشا دونوں کا تعلق لکھنے سے ہے۔ یہ ٹھیک ہے؛ مگر جو کچھ لکھا گیا ہے، اسے پڑھا بھی جائے گا، یوں تلفظ بھی اس عمل کا ضروری حصہ بن جاتا ہے۔ جس طرح غلط املا پر اعتراض کیا جائے گا، اسی طرح غلط تلفظ پر بھی ٹوکا جائے گا۔ لفظوں کا صحیح تلفظ نہ معلوم ہو تو بار بار شرمندگی اٹھانا پڑے گی۔ سبق پڑھنے یا پڑھانے کے دوران کسی لفظ کو صحیح طور پر نہیں پڑھا، تو درجے میں سب کے سامنے شرمندہ ہونا پڑے گا۔ کوئی مضمون پڑھ کر سنایا اور کسی ایک لفظ کا تلفظ بھی غلط ہو گیا تو بڑی رسوائی ہوگی۔ یہ امید کی جاتی ہے کہ اچھے طالب علم لفظوں کو صحیح طور پر ادا کریں گے۔ ہم اپنے صحیح لکھے ہوئے کو غلط کر کے پڑھیں، یہ کوئی اچھی بات نہیں۔
مثال کے طور پر ایک لفظ "گذشتہ" کو لیجیے۔ اسے "گزشتہ" لکھا گیا تو یہ املا کی غلطی ہوگی۔ لکھا تو صحیح طور پر "گذشتہ" (ذال کے ساتھ) لیکن جب پڑھنے کھڑے ہوئے تو "گذشتہ" (ذال کے نیچے زیر)، یہاں لکھاوٹ صحیح رہی، تلفظ غلط ہوگیا۔ اس لفظ کا صحیح تلفظ "گُذَشتہ" ہے(گاف پر پیش، ذال پر زبر)۔ کاغذ پر لفظ صحیح طور پر لکھا ہوا ہے، مگر وہ کاغذ تو آپ کی آنکھوں کے سامنے ہے، سننے والے تو آپ کی زبان سے غلط تلفظ سن رہے ہیں۔
لفظ کا صحیح املا معلوم ہو، یہ ضروری ہے۔ یہ بھی اسی قدر ضروری ہے کہ اس لفظ کا صحیح تلفظ بھی معلوم ہو۔ سبق پڑھتے ہوئے اگر "تَوَ جِّہ" کیا گیا تو ٹوکا جائے گا۔ کہا جائے گا کہ "تَوَ جُّہ" کہنا چاہیے۔ عُلما، اُدبا، طَلبہ کہا جائے ، تب بھی ٹوکا جائے گا۔ یوں کہ ان کا صحیح تلفظ ُعلَما، اُدَبا اور طَلَبہ ہے۔
زیادہ مشکل ان لفظوں میں پیش آتی ہے جن میں تلفظ کی تبدیلی سے معنی بدل جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر لفظ "مجاز" کو لیجیے۔ اسے "مَجا ز" (میم کے زبر کے ساتھ) پڑھا جائے تو یہ حقیقت کا متضاد ہوگا۔ اقبال کے اس شعر میں یہ لفظ اسی معنی میں آیا ہے:
کبھی اے حقیقت منتظر نظر آ لباس مجاز میں
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبین نیاز میں
اب اس جملے کو دیکھیے: "ہم نے ان کو مجاز کردیا ہے کہ وہ ہماری طرف سے یہ کام کریں گے"۔ اس جملے میں بھی "مجاز" آیا ہے، مگر یہاں یہ دوسرے لفظ کے طور پر آیا ہے۔ اس کے معنی ہیں: اجازت رکھنے ولا، جس کو اجازت دی گئی ہو۔ اگر اس جملے میں "مَجاز" پڑھا جائے گا تو مفہوم خبط ہوجائے گا۔ مطلب یہ ہوا کہ "مَجا ز" اور "مُجا ز" دو الگ الگ لفظ ہیں۔ املا ایک ہے، تلفظ مختلف ہے اور اسی نسبت سے معنی بھی الگ الگ ہیں۔
"شہید" کی جمع "شُہَد ا" ہے (شین پر پیش، ہ پر زبر)، جیسے شہداے کربلا۔ ایک اور لفظ ہے "شُہد ا" (شین پر پیش ، ہ ساکن)۔ یہ آوارہ ، بدکردار جیسے مفہوم میں آتا ہے (پہلے اس کے کچھ اور معنی تھے)۔ اگر "شُہَد ا" کو "شُہد ا" کہا جائے تو مفہوم پر کیا گذر جائے گی؟
"فاضِل" کی جمع "فُضَلا" ہے (ف پر پیش، ض پر زبر)۔ ایک اور لفظ ہے "فُضلہ" (جیسے، سارا فضلہ خارج ہوگیا)۔ املا مختلف ہے، تلفظ ایک ہے۔ "فُضَلا" کو اگر "فُضلا" پڑھا جائے گا تو پھر یہ لفظ تلفظ میں آ کر "فضلہ" بن جائے گا۔ آپ اس سے اتفاق کریں گے کہ یہ کچھ اچھی بات نہیں ہوگی۔
ہم کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ صحیح تلفظ مَرَض یا مَر ض، حَلَق ہے یا حَلق، عَرَ ق ہے یا عَر ق، عِطر ہے کہ عِطَر، وَرَق ہے کہ وَرق (وغیرہ)۔ جب ہم مَرَ ض، وَرَق، عَرَ ق، حَلق، عِطر کہیں گے، تب سمجھا جائے گا کہ ہمیں ان لفظوں کا تلفظ معلوم ہے۔
ایک لفظ ہے "شادی مرگ"۔ اصل میں "مرگِ شادی" تھا۔ اضافت مقلوب نے اسے "شادی مرگ " بنا دیا ۔ اسے "شادیِ مرگ" کہا جائے تو تلفظ غلط ہوجائے گا ٭۔ یا جیسے"پس منظر" کو "پسِ منظر" کہا جائے، تب بھی یہی کہا جائے گا کہ تلفظ غلط ہوگیا۔ یا جیسے "سرورق" اور "سرِ ورق" ، دو مختلف لفظ ہیں۔ دونوں کے معنی الگ الگ ہیں۔ مثلاً یہ کہا جائے کہ اس کتاب کا سرِ ورق خوب صورت ہے، تو مفہوم بگڑ جائے گا۔ یہاں "سرورق" کہنا چاہیے تھا (اضافت کے بغیر)۔ ان لفظوں کو یہاں محض بہ طور مثال لکھا گیا ہے۔ ان کی مفصل بحث اسی کتاب کے دوسرے حصے میں "اضافت کا زیر" کے عنوان کے تحت ملے گی۔
مرزا غالب کا مشہور شعر ہے:
چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک تیز رو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہ بر کو میں
"تیز رَو" (رے پر زبر) کے معنی ہیں: تیز چلنے ولا۔ فارسی کا ایک مصدر ہے "رفتن"، اس کے معنی ہیں: چلنا۔ "رفتار" اسی سے بنا ہے۔ اسی سے "رَو" بنا ہے اور اسی "رَو" سے "تیز رَو" بنا ہے۔
فارسی میں ایک اور مصدر ہے"روئیدن"۔ اس کے معنی ہیں: اُگنا۔ "روئیدگی" اسی سے بنا ہے۔ اس مصدر سے فعل امر"رُو" بنتا ہے۔ اس سے ایک اسم فاعل "خود رُو" بنا ہے۔ اس کے معنی ہیں: اپنے آپ اُگ آنے والا؛
لالۂ خود رُو نہیں ہے خون نے فرہاد کے
جوش میں آکر لگا دی کوہ کے دامن میں آگ
"لالہ" مشہور پھول ہے سرخ رنگ کا۔ اس کا اصلی وطن ایران ہے، جہاں یہ پہاڑوں کے دامن میں کھلتا ہے۔ بے شمار پھول ہوتے ہیں۔ دور سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پہاڑ کے دامن میں آگ لگی ہوئی ہے، دہکتے ہوئے انگارے بکھرے ہوئے ہیں۔ "لالۂ خود رو" کے معنی ہیں: اپنے آپ اُگ آنے والا لالہ۔ اسے اگر "لالۂ خود رَو" پڑھا جائے تو اس کے معنی ہوں گے: اپنے آپ چلنے والا لالہ۔ مطلب چوپٹ ہوگیا نا! تیز رَو: تیز چلنے والا۔ خود رُو: اپنے آپ اُگنے والا۔ یہ معنوی فرق نہ معلوم ہو تو ظاہر ہے کہ "رو" کا تلفظ غلط ہوسکتا ہے۔ تلفظ غلط ہو تو معنی بدل جائیں گے، بلکہ یہ کہیے کہ بگڑ جائیں گے۔
فراق گورکھپوری نے ایک نظم لکھی ہے جس میں بچپن کا ذکر کیا ہے کہ بچہ کس چیز کو کیا سمجھتا ہے۔ اسی نظم کا ایک ٹکڑا ہے:
سمجھ سکے کوئی اے کاش عہد طفلی کو
نمود لالہ ٔ خود رو میں دیکھنا جنت
کرے نظارۂ کونین اک گھروندے میں
اس میں بھی "لالۂ خود رو" (رے کے پیش کے ساتھ) ہے۔
میر تقی میر کا مشہور شعر ہے:
دلّی کے نہ تھے کوچے اوراق مصور تھے
جو شکل نظر آئی تصویر نظر آئی
ہمیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ "مُصَوِّر" اور "مُصَوَّر" دو مختلف لفظ ہیں۔ "مُصَوِّر" کے معنی ہیں: تصویر بنانے والا۔ یہ عربی کا اسم فاعل ہے۔'مُصَوَّر" (واو کے زبر کے ساتھ) اسم مفعول ہے۔ معنی ہیں: وہ تصویر جسے بنایا گیا ہے۔ "اوراقِ مُصَوَّر" کا مطلب ہے ایسے ورق جن پر تصویریں بنی ہوئی ہیں۔ (مرقع ایسے ہی اوراق کے مجموعے کو کہتے ہیں)۔ شاعر نے دلّی کے گلی کوچوں کو "اوراق مصور" کہا ہے اور ان دنوں کو یاد کیا ہے جب دلّی کی ہر گلی خوب صورت چہروں سے معمور تھی۔
فیض احمد فیض کی ایک مشہور نظم کا عنوان ہے: "آج بازار میں پابہ جولاں چلو"۔ نظم اس طرح شروع ہوتی ہے:
چشم نم جان شوریدہ کافی نہیں
تہمت عشق پوشیدہ کافی نہیں
آج بازار میں پا بہ جولاں چلو
"جُولاں" (جیم پر پیش) کے معنی ہیں: بیڑی۔ "پابہ جُولاں" کے معنی ہوئے: جس کے پیروں میں بیڑیاں پڑی ہوئی ہوں۔
ایک اور لفظ ہے "جَو لاں" (جیم کے زبر کے ساتھ)۔ اسی سے "جَو لانی" بنتا ہے اور اس سے "جولانیِ طبع" بنا ہے، جس کے معنی ہیں: طبیعت کی روانی ، امنگ۔ "جَو لاں" کے لفظی معنی ہیں: گھوڑا دوڑانا، کدانا۔
مطلب یہ ہوا کہ "جُولاں" اور "جَو لاں" دو مختلف لفظ ہیں۔ فیض کی اس نظم میں "پابہ جُولاں" (جیم کے پیش کے ساتھ) آیا ہے۔ اسے اگر جیم کے زبر کے ساتھ "پابہ جَولاں" پڑھا جائے تو مطلب بدل جائے گا۔ بدل کیا جائے گا، بگڑ جائے گا۔
مرزا غالب کا مشہور شعر ہے:
چاک مت کر جیب بے ایام گل
کچھ ادھر کا بھی اشارہ چاہیے
پہلے مصرعے میں ایک لفظ "جیب" آیا ہے۔ اس کی دو صورتیں ہیں؛ جَیب، جِیب۔ "جِیب " کے معنی ہیں: پاکٹ، مثلاً قمیص کی جیب میں روپے ہیں۔ "جَیب" کے معنی ہیں: گریبان، جسے شاعروں کی روایت کے مطابق عاشق جوش میں آ کر چاک کردیا کرتا تھا۔ غالب کے اس شعر میں "جَیب" ہے۔ اسے "جِیب" پڑھا جائے، یعنی؛ چاک مت کر جیب بے ایام گل۔ توشعر کے معنی چوپٹ ہوجائیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ سننے والے یہی راے قائم کریں گے کہ اس شخص کو اس لفظ کا نہ تلفظ معلوم ہے اور نہ یہ اس کے معنی جانتا ہے۔ یہ کچھ اچھی بات تو نہیں ہوگی۔
تلفظ کے بیان کو اب ختم کیا جاتا ہے۔ لکھنے کو تو بہت کچھ ہے، مگر بات گنجایش کی ہے۔ اصل مقصد یہ تھا بھی نہیں کہ بہت سی مثالیں جمع کی جائیں۔ اصل مقصد یہ تھا کہ اس طرف متوجہ کیا جائے کہ لفظوں کے املا کے ساتھ ساتھ ان کا صحیح تلفظ بھی معلوم ہونا چاہیے۔ لغت دیکھنے کی عادت ڈالنا چاہیے اور جاننے والوں سے پوچھتے بھی رہنا چاہیے۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
اس موضوع پر ایک دھاگہ اردو محفل کے کمپیوٹر سیکشن میں آج سے کوئی سات آٹھ سال پہلے الف نظامی بھائی نے کھولا تھا۔ یہاں پر ہم اردو لسانیات کے حوالے سے اردو صوتیات کی بحث کو آگے بڑھانے کی کوشش کریں گے۔ ابتدا میں اس کی بنیادی تعریف اور اس پر ہم مبتدیوں کے لیے مواد وغیرہ کی فراہمی اور اس پر بنیادی ابحاث ۔

الف نظامی ، دوست ، الف عین نبیل ابن سعید محمد یعقوب آسی
اس مضمون کو نشان زد کردیا ہے اور مناسب وقت پر پڑھنے کا ارادہ ہے۔
خلیل بھائی ، مضمون کے لئے بہت شکریہ!
 
آخری تدوین:
Top