سید شہزاد ناصر
محفلین
تھریر: غلام جیلانی خان
14 اگست 1947ء کو جب پاکستان وجود میں آیا تو ہمیں مسلح افواج کے علاوہ تین اہم ادارے اور بھی انگریزوں سے ورثے میں ملے۔ یہ ادارے خانقاہی نظام‘ جاگیرداری نظام اور بیوروکریٹک نظام تھے۔ اوّل الذکر دونوں نظام محکوم تھے‘ لیکن آخرالذکر نظام یعنی بیوروکریسی محکوم ہوکر بھی اپنے آپ کو حاکم سمجھتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان بننے کے بعد جمہوریت کے نام پر جو حکومت بنی اس میں عوام کا کوئی رول نہ تھا۔ اسکندر مرزا ‘ غلام محمد‘ چوہدری محمد علی اور غلام اسحق خان وغیرہ جو 1947ء میں برطانوی بساط کے معمولی مہرے تھے، وہ اب خود بساط بن گئے بلکہ بساط ساز بن گئے۔ ان مہروں کو آدابِ محکومی سے تو آگاہی تھی‘ آدابِ حاکمی کا کوئی تجربہ نہ تھا۔ انگریز نے تو ان لوگوں کو فوج اور سویلین محکموں میں داخل ہونے کی اجازت دے کر صرف ان کا جوہرِ ادراک خرید اتھا۔ بقول اقبال:
شریکِ حکم غلاموں کو کر نہیں سکتے
خریدتے ہیں فقط ان کا جوہرِ ادراک
پاکستان آرمی کی آفیسرز کلاس کی تعداد ایک تو بہت قلیل تھی اور دوسرے برٹش انڈین آرمی کے کمانڈ اسٹرکچر میں مسلمان افسروں کا کوئی حصہ نہ تھا۔ (فی الحال غیر مسلموں کی بات رہنے دیں) کمانڈ اور انڈرکمانڈ کی مساوات بہت ہی غیر متوازن تھی۔ کمانڈروں کی زبان چونکہ انگریزی تھی اس لیے’’انڈر کمانڈ‘‘ کی زبان بھی انگریزی قرار دی گئی۔ انگریزوں نے ’’دیسی ٹروپس‘‘ کو جدید رموزِ سپہ گری سے ناواقف رکھنے کے لیے سولجرز کی زبان (اردو) کی طرف کوئی توجہ نہ دی۔ سب کچھ انگریزی میں تھا۔ انہوں نے عمدا ملٹری اور بیوروکریسی کی زبان انگریزی رکھی۔ سویلین دفتروں میں تمام نوٹنگ اور ڈرافٹنگ بھی انگریزی میں ہوتی رہی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ برصغیر کے عوام کی ایک بھاری اکثریت آدابِ حکمرانی سے بے خبر رہی۔ اس طرزِعمل نے سویلین خواندہ آبادی کو ’’بابو‘‘ اور فوجی خواندہ آبادی کو ’’یس سر ٹائپ فوجی‘‘ بنادیا۔
میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان بننے کے بعد عسکری تحریروں کی قومی زبان میں شدید کمی کی ایک وجہ یہ بھی تھی۔
انگریز آقائوں نے انگریزی زبان کی عسکری جہتوں کو غلاموں پر آشکارکرنے کا رسک مول نہ لیا۔ آج پاکستان کو وجود میں آئے 65 برس گزر چکے ہیں لیکن پرنالہ وہیں کا وہیں ہے۔ افواجِ پاکستان نے بھی اپنے ٹروپس کو انفارم اور ایجوکیٹ کرنے کے لیے اب تک خالص دفاعی موضوعات کو قومی زبان میں منتقل کرنے کی طرف کوئی سنجیدہ اقدام نہیں اٹھایا، اور پاکستان کے پڑھے لکھے سویلین حضرات کا بھی تقریباً یہی حال ہے۔
میرے وہ محترم قارئین جن کا تعلق پیشۂ سپاہ گری سے نہیں ان کو جدید عسکری اصطلاحات اور عسکری تحریروں کی بعض پروفیشنل جہتوں سے آشنائی نہیں، اور ہو بھی تو کم کم ہوگی۔ اس لیے یہ خیال کرنا کہ جب بھی کوئی عسکری تحریر ان حضرات کے مطالعے میں آئے تو جب تک متذکرہ بالا جہتوں سے ان کو شناسائی نہ ہو وہ اس تحریر سے کماحقہٗ حظ نہیں اٹھاسکتے، کچھ ایسی غلط بات نہیں ہوگی۔ بلکہ یہ بھی غلط نہیں کہ ان کی صحیح اور مکمل تفہیم بھی ان کے لے مشکل ہوگی۔ میں چند مثالوں سے اپنی بات کی توضیح کرنا چاہوں گا۔
لفظ ’’لڑائی‘‘ ہی کو لے لیں۔ یہ انگریزی کے لفظ Battleکا اردو ترجمہ ہے، لیکن اگر ہم اس کو کسی انگریزی اردو لغت میں دیکھیں تو اس کا معنی جنگ بھی لکھا ہوگا، جبکہ لڑائی اور جنگ اور مہم اور جھڑپ میں فرق ہے۔ جدید عسکری اصطلاحات میں ’’جنگ‘‘ کا مفہوم یہ ہے کہ کسی ملک کی اوّل تو تمام مسلح افواج (بری‘ بحری‘ فضائی) اس میں شامل ہوں، اور اگر ایسا نہ ہو تو کم از کم دو افواج ضرور شامل ہوں۔ جنگ کا دوسرا تقاضا یہ ہے کہ اس کی مدت نہایت مختصر نہ ہو (طوالت کی پروا نہیں جتنی بھی ہوجائے)…
جہاں تک لفظ ’’لڑائی‘‘ کا تعلق ہے تو اس کا اسکیل اور دورانیہ بمقابلہ جنگ کے کمتر ہوتا ہے۔ ایک جنگ میں کئی لڑائیاں شامل ہوتی ہیں۔ دوسری جنگِ عظیم میں چھ سات محاذ تھے اور ہر محاذ (Front) پر کئی کئی لڑائیاں لڑی گئیں۔ لڑائی کا جغرافیائی محیط بھی بمقابلہ جنگ کے تنگ تر اور محدود تر ہوتا ہے۔
انگریزی زبان میں ایک لفظ Compaign بھی ہے جس کا اردو ترجمہ مہم کیا جاتا ہے۔ یہ مہم ایک ایسا محاربہ ہے جو لڑائی سے بڑا اور جنگ سے چھوٹا ہوتا ہے۔ کسی مہم میں ایک سے زیادہ لڑائیاں (Battles) بھی شامل ہوسکتی ہیں۔ اردو خواں طبقہ جب تک اس پہلو سے واقف نہ ہو‘ تب تک وہ کسی انگریزی عسکری تحریرسے کاملاً مستفید نہیں ہوسکتا۔
جھڑپ کو انگریزی میں Skrimish کہا جاتا ہے۔ اس کا دورانیہ بھی محدود ہوتا ہے اور طرفین کی عددی اور اسلحی قوت بھی محدود ہوتی ہے۔
یوں تو سترہ روزہ پاک بھارت جنگ 1965ء کو بھی جنگ کا نام دیا جاتا ہے اور چھ برسوں پر پھیلی دوسری عالمی جنگ کو بھی جنگ ہی کہتے ہیں‘ لیکن انگلش ڈکشنری میں ’’بڑی‘‘ یا ’’عالمی جنگ‘‘ کے لیے چونکہ کوئی ایک لفظ (اصطلاح) نہیں ملتا‘ اس لیے ان کو ’’گریٹ وار‘‘ اور ’’ورلڈ وار‘‘ کہا گیا۔ جس طرح جھڑپ کے بعد لڑائی، لڑائی کے بعد مہم، اور مہم کے بعد جنگ کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے اسی طرح جنگ کے بعد جنگ ِعظیم کی اصطلاح وضع کرلی گئی۔
اردو خوان طبقہ انگریزی عسکری تحریروں کو پڑھتا ہے اور ان کی معمولی معمولی تفصیلات اور چھوٹی چھوٹی جھڑپوں کو بیان کرنے کا انداز دیکھتا ہے تو وہ اپنی ناسمجھی کی وجہ سے بور ہونے لگتا ہے۔ مثلاً آپ جغرافیائی تفصیلات ہی کو لے لیں۔ جب بھی آپ کسی لڑائی کا حال پڑھتے ہیں تو سب سے پہلے جس جگہ یا علاقے میں وہ لڑائی لڑی جارہی ہوتی ہے اُس کی جغرافیائی کیفیات سے آگاہی شرطِ اوّل ہے‘ لیکن آپ زمینی‘ فضائی اور بحری جنگ کی جغرافیائی کیفیت کو اُس وقت تک نہیں سمجھ سکتے جب تک آپ کو طبعی جغرافیے کی اصطلاحات کا پتا نہ ہو۔ مثال کے طور پر اردو میں سمندر، بحر، بحیرہ‘ قلزم‘ ساگر وغیرہ ہم معنی الفاظ ہیں‘ لیکن عسکری ماحول کی بحری نقشہ کشی کے لیے ان کی مزید تفصیلات ضروری ہوجاتی ہیں۔ بحر‘ بحیرہ‘ خلیج‘ آبنائے‘ راس وغیرہ کے معانی جداجدا ہیں۔ ان کی تفصیل دیکھیے:
-1 بحر: (Ocean) پانی کے سب سے وسیع و عریض ٹکڑے کو بحر کہتے ہیں۔ دنیا میں تین بڑے بحر ہیں جن کا نام بحرالکاہل (Pacific Ocean)‘ بحر اوقیانوس (Atlantic Ocean) اور بحرہند (Indian Ocean) ہیں۔
-2 بحیرہ: (Sea) یہ اصطلاح بیشتر اردو خواں طبقے کو گمراہ کرتی ہے۔ ہم Sea اور Ocean کو سمندر ہی کہتے ہیں جبکہ انگریزی میں Sea کا وہی مفہوم ہے جو ہمارے ہاں ’’بحیرہ‘‘ کا ہے یعنی چھوٹا بحر… بحیرۂ عرب (Arabian Sea)، بحیرۂ بالٹک (Baltic Sea) اور بحیرۂ روم (Mediterranian Sea) وغیرہ ان کی چند مثالیں ہیں۔
-3 خلیج (Bay): یہ کسی سمندر کا وہ ٹکڑا ہے جو خشکی کے اندر دور تک چلا گیا ہو جیسے خلیج بنگال‘ خلیج فارس وغیرہ۔
-4 راس (Cape): عربی زبان میں لفظ ’’راس‘‘ کا مطلب ’’سر‘‘ ہے۔ اس لیے خشکی کا وہ تنگ سا حصہ جو سمندر میں ’’سر اور گردن‘‘ کی طرح اندر چلا گیا معلوم ہو اس کو راس کہا جاتا ہے، مثلاً راس امید (Cape of Good Hope) اور راس ہیلی (Cape of Helles) وغیرہ۔
-5 آبنائے (Straits): یہ سمندر کا وہ حصہ ہوتا ہے جس کی چوڑائی کم ہو اور خشکی کے دو ٹکڑوں کے درمیان واقع ہو، اور جس میں بحری جہازرانی بھی ہوسکے، مثلاً آبنائے ہرمز (Straits of Hurmaz) اور آبنائے دردانل (Straits of Dardanelle وغیرہ۔ ان چند ٹیکنیکل اور جیو گرافیکل اصطلاحوں کے علاوہ بھی سینکڑوں ایسی عسکری اصطلاحیں ہیں جن کو مغرب کے مصنفین اور وہاں کے قارئین عام لکھتے پڑھتے اور سمجھتے ہیں۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ اہلِ مغرب نے 300 سال تک جنگوں کا ارتقائی دور دیکھا ہے۔ جنگ میں استعمال ہونے والے چھوٹے بڑے ہتھیاروں کا ارتقائی زمانہ بھی ان کی نسلوں اور نظروں کے سامنے سے گزرا ہے۔ اس لیے مغرب میں ’’عسکری ادب‘‘ کی ایک مبسوط اور مکمل تاریخ موجود ہے۔ عسکری موضوعات پر سوانحی اور دستاویزی فلمیں تو کلاسیک بن چکی ہیں۔
میں عالم اسلام کی بات تو نہیں کروں گا‘ اپنے برصغیر کا ذکر ضرور کروں گا۔ یہاں 800 برس تک مسلمانوں کو رموزِ سپہ گری سے پالا پڑتا رہا۔ خاندانِ غلاماں سے لے کر پاکستان کے موجودہ جمہوری دور تک مسلم افواج نے ایک طویل عرصہ جنگوں کی چھائوں تلے گزارا۔ پاکستان آرمی گزشتہ ایک ڈیڑھ عشرے سے جن کم شدت والے آپریشنوں (Low Intensity ops) سے گزری اور گزر رہی ہے اس کے پیش نظر اردو زبان میں ہمارے پاس عسکری تحریروں کا فقدان نہیں ہونا چاہیے جو آج دیکھنے کو ملتا ہے۔ پاک فوج کی تین نسلیں پاکستانی ماحول میں پلی بڑھی ہیں۔ آج پاکستان کا کوئی فوجی آفیسر ایسا نہیں جس نے پاکستان ملٹری اکیڈمی کے بجائے کسی ڈیرہ دون یا سینڈھرسٹ سے ابتدائی ملٹری ٹریننگ حاصل کی ہو۔ انگریزی زبان کا وہ بھوت جو پاکستانی فوج کے سروں پر ابتدائی تین عشروں تک سوار رہا وہ اب اتر چکا ہے۔ اب پاکستان کا ہر افسر اور جوان اردو زبان میں اپنے پروفیشن کی بڑی واضح تشریح کرسکتا ہے‘ لیکن اس کے باوجود ابھی تک ہمارے ہاں اردو عسکری لٹریچر کی شدید کمی ہے اور جنگ و جدل کے موضوع پر دستاویزی یا سوانحی فلموں کا بھی فقدان ہے۔ عسکری پس منظر والے ڈرامے اور ناول شاذ ہی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اس میں ہمارے ’’راجائوں‘‘ کا قصور بھی ہوگا، مگر ’’پرجا‘‘ کا گناہ بھی معاف نہیں کیا جاسکتا۔ 18کروڑ عوام میں سے کم از کم 18 لکھاری تو ایسے ہونے چاہئیں جو اپنی قومی زبان میں آج کے عسکری ماحول کی تحریری ترجمانی کرسکیں۔
[غلام جیلانی سابق لیفٹیننٹ کرنل، عسکری و دفاعی تجزیہ نگار اور عسکری امور پر کئی کتابوںکے مصنف اور مترجم ہیں]
ربط
http://beta.jasarat.com/magazine/fri/news/16376
عسکری
14 اگست 1947ء کو جب پاکستان وجود میں آیا تو ہمیں مسلح افواج کے علاوہ تین اہم ادارے اور بھی انگریزوں سے ورثے میں ملے۔ یہ ادارے خانقاہی نظام‘ جاگیرداری نظام اور بیوروکریٹک نظام تھے۔ اوّل الذکر دونوں نظام محکوم تھے‘ لیکن آخرالذکر نظام یعنی بیوروکریسی محکوم ہوکر بھی اپنے آپ کو حاکم سمجھتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان بننے کے بعد جمہوریت کے نام پر جو حکومت بنی اس میں عوام کا کوئی رول نہ تھا۔ اسکندر مرزا ‘ غلام محمد‘ چوہدری محمد علی اور غلام اسحق خان وغیرہ جو 1947ء میں برطانوی بساط کے معمولی مہرے تھے، وہ اب خود بساط بن گئے بلکہ بساط ساز بن گئے۔ ان مہروں کو آدابِ محکومی سے تو آگاہی تھی‘ آدابِ حاکمی کا کوئی تجربہ نہ تھا۔ انگریز نے تو ان لوگوں کو فوج اور سویلین محکموں میں داخل ہونے کی اجازت دے کر صرف ان کا جوہرِ ادراک خرید اتھا۔ بقول اقبال:
شریکِ حکم غلاموں کو کر نہیں سکتے
خریدتے ہیں فقط ان کا جوہرِ ادراک
پاکستان آرمی کی آفیسرز کلاس کی تعداد ایک تو بہت قلیل تھی اور دوسرے برٹش انڈین آرمی کے کمانڈ اسٹرکچر میں مسلمان افسروں کا کوئی حصہ نہ تھا۔ (فی الحال غیر مسلموں کی بات رہنے دیں) کمانڈ اور انڈرکمانڈ کی مساوات بہت ہی غیر متوازن تھی۔ کمانڈروں کی زبان چونکہ انگریزی تھی اس لیے’’انڈر کمانڈ‘‘ کی زبان بھی انگریزی قرار دی گئی۔ انگریزوں نے ’’دیسی ٹروپس‘‘ کو جدید رموزِ سپہ گری سے ناواقف رکھنے کے لیے سولجرز کی زبان (اردو) کی طرف کوئی توجہ نہ دی۔ سب کچھ انگریزی میں تھا۔ انہوں نے عمدا ملٹری اور بیوروکریسی کی زبان انگریزی رکھی۔ سویلین دفتروں میں تمام نوٹنگ اور ڈرافٹنگ بھی انگریزی میں ہوتی رہی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ برصغیر کے عوام کی ایک بھاری اکثریت آدابِ حکمرانی سے بے خبر رہی۔ اس طرزِعمل نے سویلین خواندہ آبادی کو ’’بابو‘‘ اور فوجی خواندہ آبادی کو ’’یس سر ٹائپ فوجی‘‘ بنادیا۔
میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان بننے کے بعد عسکری تحریروں کی قومی زبان میں شدید کمی کی ایک وجہ یہ بھی تھی۔
انگریز آقائوں نے انگریزی زبان کی عسکری جہتوں کو غلاموں پر آشکارکرنے کا رسک مول نہ لیا۔ آج پاکستان کو وجود میں آئے 65 برس گزر چکے ہیں لیکن پرنالہ وہیں کا وہیں ہے۔ افواجِ پاکستان نے بھی اپنے ٹروپس کو انفارم اور ایجوکیٹ کرنے کے لیے اب تک خالص دفاعی موضوعات کو قومی زبان میں منتقل کرنے کی طرف کوئی سنجیدہ اقدام نہیں اٹھایا، اور پاکستان کے پڑھے لکھے سویلین حضرات کا بھی تقریباً یہی حال ہے۔
میرے وہ محترم قارئین جن کا تعلق پیشۂ سپاہ گری سے نہیں ان کو جدید عسکری اصطلاحات اور عسکری تحریروں کی بعض پروفیشنل جہتوں سے آشنائی نہیں، اور ہو بھی تو کم کم ہوگی۔ اس لیے یہ خیال کرنا کہ جب بھی کوئی عسکری تحریر ان حضرات کے مطالعے میں آئے تو جب تک متذکرہ بالا جہتوں سے ان کو شناسائی نہ ہو وہ اس تحریر سے کماحقہٗ حظ نہیں اٹھاسکتے، کچھ ایسی غلط بات نہیں ہوگی۔ بلکہ یہ بھی غلط نہیں کہ ان کی صحیح اور مکمل تفہیم بھی ان کے لے مشکل ہوگی۔ میں چند مثالوں سے اپنی بات کی توضیح کرنا چاہوں گا۔
لفظ ’’لڑائی‘‘ ہی کو لے لیں۔ یہ انگریزی کے لفظ Battleکا اردو ترجمہ ہے، لیکن اگر ہم اس کو کسی انگریزی اردو لغت میں دیکھیں تو اس کا معنی جنگ بھی لکھا ہوگا، جبکہ لڑائی اور جنگ اور مہم اور جھڑپ میں فرق ہے۔ جدید عسکری اصطلاحات میں ’’جنگ‘‘ کا مفہوم یہ ہے کہ کسی ملک کی اوّل تو تمام مسلح افواج (بری‘ بحری‘ فضائی) اس میں شامل ہوں، اور اگر ایسا نہ ہو تو کم از کم دو افواج ضرور شامل ہوں۔ جنگ کا دوسرا تقاضا یہ ہے کہ اس کی مدت نہایت مختصر نہ ہو (طوالت کی پروا نہیں جتنی بھی ہوجائے)…
جہاں تک لفظ ’’لڑائی‘‘ کا تعلق ہے تو اس کا اسکیل اور دورانیہ بمقابلہ جنگ کے کمتر ہوتا ہے۔ ایک جنگ میں کئی لڑائیاں شامل ہوتی ہیں۔ دوسری جنگِ عظیم میں چھ سات محاذ تھے اور ہر محاذ (Front) پر کئی کئی لڑائیاں لڑی گئیں۔ لڑائی کا جغرافیائی محیط بھی بمقابلہ جنگ کے تنگ تر اور محدود تر ہوتا ہے۔
انگریزی زبان میں ایک لفظ Compaign بھی ہے جس کا اردو ترجمہ مہم کیا جاتا ہے۔ یہ مہم ایک ایسا محاربہ ہے جو لڑائی سے بڑا اور جنگ سے چھوٹا ہوتا ہے۔ کسی مہم میں ایک سے زیادہ لڑائیاں (Battles) بھی شامل ہوسکتی ہیں۔ اردو خواں طبقہ جب تک اس پہلو سے واقف نہ ہو‘ تب تک وہ کسی انگریزی عسکری تحریرسے کاملاً مستفید نہیں ہوسکتا۔
جھڑپ کو انگریزی میں Skrimish کہا جاتا ہے۔ اس کا دورانیہ بھی محدود ہوتا ہے اور طرفین کی عددی اور اسلحی قوت بھی محدود ہوتی ہے۔
یوں تو سترہ روزہ پاک بھارت جنگ 1965ء کو بھی جنگ کا نام دیا جاتا ہے اور چھ برسوں پر پھیلی دوسری عالمی جنگ کو بھی جنگ ہی کہتے ہیں‘ لیکن انگلش ڈکشنری میں ’’بڑی‘‘ یا ’’عالمی جنگ‘‘ کے لیے چونکہ کوئی ایک لفظ (اصطلاح) نہیں ملتا‘ اس لیے ان کو ’’گریٹ وار‘‘ اور ’’ورلڈ وار‘‘ کہا گیا۔ جس طرح جھڑپ کے بعد لڑائی، لڑائی کے بعد مہم، اور مہم کے بعد جنگ کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے اسی طرح جنگ کے بعد جنگ ِعظیم کی اصطلاح وضع کرلی گئی۔
اردو خوان طبقہ انگریزی عسکری تحریروں کو پڑھتا ہے اور ان کی معمولی معمولی تفصیلات اور چھوٹی چھوٹی جھڑپوں کو بیان کرنے کا انداز دیکھتا ہے تو وہ اپنی ناسمجھی کی وجہ سے بور ہونے لگتا ہے۔ مثلاً آپ جغرافیائی تفصیلات ہی کو لے لیں۔ جب بھی آپ کسی لڑائی کا حال پڑھتے ہیں تو سب سے پہلے جس جگہ یا علاقے میں وہ لڑائی لڑی جارہی ہوتی ہے اُس کی جغرافیائی کیفیات سے آگاہی شرطِ اوّل ہے‘ لیکن آپ زمینی‘ فضائی اور بحری جنگ کی جغرافیائی کیفیت کو اُس وقت تک نہیں سمجھ سکتے جب تک آپ کو طبعی جغرافیے کی اصطلاحات کا پتا نہ ہو۔ مثال کے طور پر اردو میں سمندر، بحر، بحیرہ‘ قلزم‘ ساگر وغیرہ ہم معنی الفاظ ہیں‘ لیکن عسکری ماحول کی بحری نقشہ کشی کے لیے ان کی مزید تفصیلات ضروری ہوجاتی ہیں۔ بحر‘ بحیرہ‘ خلیج‘ آبنائے‘ راس وغیرہ کے معانی جداجدا ہیں۔ ان کی تفصیل دیکھیے:
-1 بحر: (Ocean) پانی کے سب سے وسیع و عریض ٹکڑے کو بحر کہتے ہیں۔ دنیا میں تین بڑے بحر ہیں جن کا نام بحرالکاہل (Pacific Ocean)‘ بحر اوقیانوس (Atlantic Ocean) اور بحرہند (Indian Ocean) ہیں۔
-2 بحیرہ: (Sea) یہ اصطلاح بیشتر اردو خواں طبقے کو گمراہ کرتی ہے۔ ہم Sea اور Ocean کو سمندر ہی کہتے ہیں جبکہ انگریزی میں Sea کا وہی مفہوم ہے جو ہمارے ہاں ’’بحیرہ‘‘ کا ہے یعنی چھوٹا بحر… بحیرۂ عرب (Arabian Sea)، بحیرۂ بالٹک (Baltic Sea) اور بحیرۂ روم (Mediterranian Sea) وغیرہ ان کی چند مثالیں ہیں۔
-3 خلیج (Bay): یہ کسی سمندر کا وہ ٹکڑا ہے جو خشکی کے اندر دور تک چلا گیا ہو جیسے خلیج بنگال‘ خلیج فارس وغیرہ۔
-4 راس (Cape): عربی زبان میں لفظ ’’راس‘‘ کا مطلب ’’سر‘‘ ہے۔ اس لیے خشکی کا وہ تنگ سا حصہ جو سمندر میں ’’سر اور گردن‘‘ کی طرح اندر چلا گیا معلوم ہو اس کو راس کہا جاتا ہے، مثلاً راس امید (Cape of Good Hope) اور راس ہیلی (Cape of Helles) وغیرہ۔
-5 آبنائے (Straits): یہ سمندر کا وہ حصہ ہوتا ہے جس کی چوڑائی کم ہو اور خشکی کے دو ٹکڑوں کے درمیان واقع ہو، اور جس میں بحری جہازرانی بھی ہوسکے، مثلاً آبنائے ہرمز (Straits of Hurmaz) اور آبنائے دردانل (Straits of Dardanelle وغیرہ۔ ان چند ٹیکنیکل اور جیو گرافیکل اصطلاحوں کے علاوہ بھی سینکڑوں ایسی عسکری اصطلاحیں ہیں جن کو مغرب کے مصنفین اور وہاں کے قارئین عام لکھتے پڑھتے اور سمجھتے ہیں۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ اہلِ مغرب نے 300 سال تک جنگوں کا ارتقائی دور دیکھا ہے۔ جنگ میں استعمال ہونے والے چھوٹے بڑے ہتھیاروں کا ارتقائی زمانہ بھی ان کی نسلوں اور نظروں کے سامنے سے گزرا ہے۔ اس لیے مغرب میں ’’عسکری ادب‘‘ کی ایک مبسوط اور مکمل تاریخ موجود ہے۔ عسکری موضوعات پر سوانحی اور دستاویزی فلمیں تو کلاسیک بن چکی ہیں۔
میں عالم اسلام کی بات تو نہیں کروں گا‘ اپنے برصغیر کا ذکر ضرور کروں گا۔ یہاں 800 برس تک مسلمانوں کو رموزِ سپہ گری سے پالا پڑتا رہا۔ خاندانِ غلاماں سے لے کر پاکستان کے موجودہ جمہوری دور تک مسلم افواج نے ایک طویل عرصہ جنگوں کی چھائوں تلے گزارا۔ پاکستان آرمی گزشتہ ایک ڈیڑھ عشرے سے جن کم شدت والے آپریشنوں (Low Intensity ops) سے گزری اور گزر رہی ہے اس کے پیش نظر اردو زبان میں ہمارے پاس عسکری تحریروں کا فقدان نہیں ہونا چاہیے جو آج دیکھنے کو ملتا ہے۔ پاک فوج کی تین نسلیں پاکستانی ماحول میں پلی بڑھی ہیں۔ آج پاکستان کا کوئی فوجی آفیسر ایسا نہیں جس نے پاکستان ملٹری اکیڈمی کے بجائے کسی ڈیرہ دون یا سینڈھرسٹ سے ابتدائی ملٹری ٹریننگ حاصل کی ہو۔ انگریزی زبان کا وہ بھوت جو پاکستانی فوج کے سروں پر ابتدائی تین عشروں تک سوار رہا وہ اب اتر چکا ہے۔ اب پاکستان کا ہر افسر اور جوان اردو زبان میں اپنے پروفیشن کی بڑی واضح تشریح کرسکتا ہے‘ لیکن اس کے باوجود ابھی تک ہمارے ہاں اردو عسکری لٹریچر کی شدید کمی ہے اور جنگ و جدل کے موضوع پر دستاویزی یا سوانحی فلموں کا بھی فقدان ہے۔ عسکری پس منظر والے ڈرامے اور ناول شاذ ہی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اس میں ہمارے ’’راجائوں‘‘ کا قصور بھی ہوگا، مگر ’’پرجا‘‘ کا گناہ بھی معاف نہیں کیا جاسکتا۔ 18کروڑ عوام میں سے کم از کم 18 لکھاری تو ایسے ہونے چاہئیں جو اپنی قومی زبان میں آج کے عسکری ماحول کی تحریری ترجمانی کرسکیں۔
[غلام جیلانی سابق لیفٹیننٹ کرنل، عسکری و دفاعی تجزیہ نگار اور عسکری امور پر کئی کتابوںکے مصنف اور مترجم ہیں]
ربط
http://beta.jasarat.com/magazine/fri/news/16376
عسکری