محمد تابش صدیقی
منتظم
اردو تھا جس کا نام
اطہر ہاشمی
14 اگست کو پاکستان کا یومِ آزادی منایا گیا، لیکن ہر سال کی طرح اِس بار بھی یہ ابہام رہا کہ ’’کون سا سال؟‘‘ کسی اخبار نے 72 واں لکھا تو کسی نے 73 واں۔ یہی صورتِ حال اشتہارات میں بھی رہی۔ تقریبات کے دعوت ناموں میں بھی ترجیح 72 ویں یوم یا جشنِ آزادی کو دی گئی۔ سیدھی سی بات ہے کہ پاکستان 14 اگست 1947ء کو آزادا ہوا تھا اور یہ پہلا یومِ آزادی تھا۔ اب خود حساب لگا لیں کہ اس برس کون سا یوم آزادی بنتا ہے۔ اس طرح 73 واں یومِ آزادی بنتا ہے۔ یا پھر طے کرلیں کہ 14 اگست 1947ء کو یومِ آزادی نہیں تھا۔ تاہم اگر سالگرہ کی بات کریں تو یہ بے شک 72 ویں سالگرہ ہے، کیوں کہ سال گرہ ایک سال بعد ہی آتی ہے۔ لیکن یہ سال گرہ کیا ہے؟ برعظیم پاک و ہند میں امراء و نوابین بچے کا ایک سال پورا ہونے پر کسی ڈوری میں گرہ لگا دیتے تھے تاکہ یاد رہے۔ شاید ڈائری رکھنے کا رواج نہیں تھا۔ جو زیادہ صاحبِ ثروت ہوتے وہ ڈوری میں ایک موتی بڑھا دیا کرتے۔ عام لوگوں میں کسی کی پیدائش کا حساب رکھنے کے لیے کسی بڑے واقعے کا حوالہ دیا جاتا۔ یہی رواج عربوں میں بھی تھا، مثلاً جب ابرہہ نے مکہ پر چڑھائی کی تھی اُسے سالِ فیل کہا گیا، اور اسی حساب سے کسی کے سالِ پیدائش کا تعین کیا جاتا۔ اسی لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح تاریخ پیدائش پر اب تک اختلاف ہے اور کچھ لوگ سنت پر عمل کرنے کے بجائے اسی بحث میں اُلجھے رہتے ہیں۔اطہر ہاشمی
پنجاب کے اخبارات میں اختصار کی خاطر جملے میں سے ’’کے‘‘ اور ’’میں‘‘ نکالا جارہا ہے، جس سے جملہ نامکمل رہ جاتا ہے۔ مثلاً ایک کالم نگار اور معروف شاعر نے اپنے کالم میں لکھا ہے ’’کشمیر بارے حقائق‘‘۔ جب کہ مکمل جملہ یوں ہونا چاہیے ’’کشمیر کے بارے میں…‘‘ پتا نہیں ’’کے‘‘ اور ’’میں‘‘ نکال کر جملے کو گنجا کرنے کا کیا فائدہ ہے! یہ بدعت اردو کی خبر ایجنسیوں نے اختراع کی تھی جو اب عام ہوتی جارہی ہے۔ سرخی میں سمجھا جاسکتا ہے کہ الفاظ کی قید ہے، لیکن نثر میں اس کا کوئی جواز نہیں۔ ہمیں ڈر ہے کہ یہ بدعت کہیں عام نہ ہوجائے۔ گوکہ ایک کالم نگار سعد اللہ جان برق اپنے کالم میں لکھ چکے ہیں کہ اہلِ زبان کوئی ہے ہی نہیں۔ ہمیں بھی اہلِ زبان ہونے کا دعویٰ نہیں، اور جو دعوے دار ہیں انہیں کالم نگار نے ’’قابضین‘‘ قرار دیا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ کوئی ایسا فرد نہیں جس کو اردو کا اہلِ زبان کہا جائے، لیکن کچھ اساتذہ قسم کے حضرات اخبارات و رسائل میں اردو زبان کے بگاڑ اور الفاظ کی تصحیح پر مبنی مضامین لکھ رہے ہیں۔ بھئی! بہت بُرا کررہے ہیں۔ انگریزی روزنامہ ڈان میں ہفتے میں چھ دن ایک کالم ’’ورڈگیم‘‘ (WORD GAME) کے عنوان سے شائع ہوتا ہے جس میں کوئی ایک لفظ دے کر اس کا تلفظ دیا جاتا ہے اور اس کے معانی بیان کیے جاتے ہیں۔ یہ کام انگریزی کا کوئی اہلِ زبان ہی کرتا ہے۔ اور یہ کام کسی ایک کالم یا ایک اخبار تک محدود نہیں، بلکہ انگریزی کے اہلِ زبان اپنی زبان کی تصحیح اور اس کا بگاڑ دور کرنے کی سعی مسلسل کررہے ہیں۔ اردو تو 4 سو سال پرانی زبان ہے، لیکن انگریزی تو صدیوں پرانی زبان ہے، پھر بھی اس میں تصحیح اور اس کا تلفظ درست کرنے کی کوشش جاری ہے۔ یقینا اردو کئی زبانوں سے مل کر بنی ہے، لیکن کون سی زبان ایسی ہے جو دوسری زبانوں سے مل کر یا اُن کی آمیزش سے نہیں بنی؟ کبھی انگریزی کی کوئی مستند لغت اُٹھا کر دیکھیں تو کتنے ہی ایسے الفاظ کی نشاندہی ہوگی جو دوسری زبانوں سے انگریزی میں آئے، حتیٰ کہ عربی، فارسی اور اردو سے بھی۔ اس کی بنیاد لاطینی زبان ہے۔ اسی طرح موجودہ عربی بھی پہلے کچھ اور تھی اور اب بھی اس میں دوسری زبانوں کے الفاظ شامل ہورہے ہیں۔ انگریزی کے کئی الفاظ کو معرب کرلیا گیا ہے، فارسی کے کچھ الفاظ بھی عربی میں شامل ہوگئے ہیں۔ کیا عربی کے اہلِ زبان نہیں ہیں؟ عربی جتنی وسیع اور بھرپور زبان ہے اتنے ہی عربی کے ماہرینِ لسانیات موجود ہیں۔ جدی پشتی زبان تو عربی کے ماہرین کی بھی کچھ اور تھی۔ مثلاً صحاح ستہ (احادیث کے چھ مستند مجموعے) کے مرتبین پر غور کریں تو ان میں سے صرف صحیح مسلم کے مرتب عرب تھے۔ خود امام بخاری اور دیگر مرتبین جدی پشتی عرب نہیں تھے، تو کیا ان کو اہلِ زبان تسلیم نہ کیا جائے؟ اردو کی جائے پیدائش گنگ و جمن کی وادیاں ہیں، لیکن اب اردو وہیں مظلوم ہے۔ بھارت کے ایک مضمون نگار اشرف علی بستوی نے لکھا ہے کہ اترپردیش (یوپی) میں جہاں یہ زبان پیدا ہوئی اِس وقت ایک بھی اردو میڈیم اسکول نہیں رہ گیا، جب کہ پرائمری سطح پر اردو میڈیم کے متعدد اسکول تھے، اور اب ہماری آئندہ نسل صرف یوٹیوب پر اردو سنا کرے گی۔ بھارت میں تو اردو کو مسلمانوں کی زبان قرار دے کر اس کے ساتھ وہی کچھ کیا گیا جو اقلیتوں کے ساتھ ہورہا ہے۔ پاکستان کے قیام میں اردو کا اہم کردار تھا اور اس کے بانی نے اردو کو قومی زبان قرار دیا تھا، لیکن 72 سال گزر جانے پر بھی اردو کو بطور قومی زبان رائج نہیں کیا گیا۔ عدالتِ عظمیٰ نے حکم بھی جاری کیا لیکن محترم چیف جسٹس خود انگریزی میں خطاب کررہے تھے۔ اصل رکاوٹ افسر شاہی یا بیوروکریسی ہے، جسے سابق آقائوں کی زبان سے محبت ہے، یا وہ اردو میں اپنا مافی الضمیر ادا کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ شاید ان کا گمان یہ ہو کہ انگریزی بولنے سے رعب پڑتا ہے۔ ایک مضحکہ خیز صورت حال یہ ہے کہ ٹی وی چینلوں پر جو باورچی کھانے پکانے کے پروگرام کرتے ہیں اور باورچی کے بجائے ’’شیف‘‘ کہلاتے ہیں، وہ بھی کھانے میں استعمال ہونے والے مسالوں (یا مصالح) کا نام انگریزی میں لیتے ہیں، مثلاً اونین، گارلک، بلیک پیپر، سالٹ اور گارنش وغیرہ۔ انگریزی میں مسالوں سے ناواقف خواتین پڑوسیوں سے پوچھتی ہیں کہ یہ کیا چیز ہے؟ اگر یہ پروگرام پاکستانیوں کے لیے ہورہے ہیں تو لہسن، پیاز، کالی مرچ وغیرہ کہنے میں کیا ہرج ہے؟ لیکن مسالوں کے نام انگریزی میں لینے سے شاید سالن زیادہ چٹ پٹا ہوجاتا ہے۔ بیف اور مٹن کو گائے، بکرے کا گوشت کہنے سے ان باورچیوں کی فنی صلاحیت مجروح ہوتی ہے۔ ویسے تو کوئی شیف باورچی کہلانا بھی پسند نہیں کرے گا۔
مادری زبان ترک کرنے کی بہت سی وجوہات ہیں۔ مغربی مفکر ابراہام ڈی سوان کہتے ہیں کہ ’’مادری زبان ترک کرنے والے ایسا یا تو نقلِ مکانی کی وجہ سے کرتے ہیں، اس لیے کہ انہوں نے کسی اور چیز کو اختیار کرلیا ہے، اور کسی دوسری زبان سے ان کی توقعات زیادہ وابستہ ہوجاتی ہیں، یا وہ اپنی مادری زبان کو اس لیے نظرانداز کرتے ہیں کہ اسکول، کالج، سرکاری محکموں یا عدالتوں میں کسی دوسری زبان کو ترجیحی حیثیت حاصل ہوتی ہے، اور ان کی مادری زبان کو حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے، یا انہیں اس کا استعمال اس لیے ترک کرنا پڑتا ہے کہ ان پر کسی دوسری قوم کی حکمرانی ہوتی ہے جو اپنی زبان ان پر تھوپ دیتی ہے، اور دلبرداشتہ ہوکر وہ اپنی زبان کا تحفظ کرنا ترک کردیتے ہیں‘‘۔ مغربی مفکر کا یہ تجزیہ اردو پر حرف بہ حرف صادق آتا ہے۔ بھارت میں ایک جملہ بہت عام ہے: ’’روزی، روٹی سے جڑی زبان‘‘۔ یعنی جس زبان کو اختیار کرنے سے ملازمت ملے اور روزی روٹی کا بندوبست ہو۔ ایسی زبان کو تو ’’شکم پرور‘‘ کہنا چاہیے، یا صرف ’’شکمی‘‘۔ یہی وجہ ہے کہ بھارتی مسلمانوں نے اردو سے ناتا توڑ لیا۔ روزگار کی مجبوری اپنی جگہ، لیکن اردو کی تعلیم و تربیت کا اہتمام تو گھر میں کرنا چاہیے بشرطیکہ اردو کی بقا منظور ہو۔ سلاطین اور مغلوں کے دورِ حکومت میں برعظیم کی سرکاری زبان فارسی تھی۔ ہندوئوں نے بھی سیکھی تاکہ سرکاری ملازمت مل سکے، لیکن وہ اپنی زبان سنسکرت یا ہندی نہیں بھولے۔ ایک ہندو دانشور کا کہنا ہے کہ ہم جب گھر میں داخل ہوتے تو جوتوں کے ساتھ فارسی بھی دہلیز پر اُتار دیتے اور گھر میں اپنی مادری زبان ہی استعمال کرتے۔ چنانچہ طویل عرصے تک فارسی کی حکمرانی کے باوجود موقع ملتے ہی ہندوستان میں ہندی کے نام سے ایک جناتی زبان مسلط کردی گئی جس میں سنسکرت کے الفاظ کی ٹھونس ٹھانس ہے۔ بھارت کے پہلے وزیراعظم پنڈت نہرو نے کہا تھا کہ یہ زبان تو میری سمجھ میں بھی نہیں آتی۔ پنڈت جی بڑی شستہ اردو بولتے تھے۔ دوسری مثال یہودیوں کی ہے۔ انہوں نے بے وطن ہوکر دربدر ہونے کے باوجود عبرانی زبان کو سینے سے لگائے رکھا جو مُردہ زبانوں میں شمار ہونے لگی تھی، لیکن اسرائیل کا قیام ہوتے ہی اپنی زنبیل سے عبرانی نکالی اور اسے قومی زبان بنادیا، گو کہ بہت سے یہودیوں کے لیے، جو اس عرصے میں مختلف ممالک میں بٹے رہے، یہ نامانوس زبان تھی جو صرف یہودی ربیوں تک محدود تھی۔ سنسکرت پر بھی ہندو پنڈتوں کی اجارہ داری تھی۔
جہاں تک پاکستان اور اہلِ پاکستان کا تعلق ہے، تو ان پر بھی ایک عرصے تک انگریز کی حکمرانی رہی جس نے اپنی زبان مسلط کیے رکھی۔ برطانوی تسلط دوسرے ملکوں پر بھی رہا، لیکن پاکستان کی اشرافیہ اس ذہنی غلامی سے آزاد ہونے پر تیار نہیں۔ کیا ستم ہے کہ فوج میں کمیشن حاصل کرنے کے لیے بھی انگریزی بولنا لازمی ہے۔ کیا دشمن سے لڑنے کے لیے یا عام سپاہی کو حکم دینے کے لیے انگریزی بولنا ضروری ہے؟