آج جمعرات کا دن تھا اور میں اپنے دونوں بھانجوں کے ساتھ ہر جمعرات کی طرح آج عبداللہ شاہ غازی بابا کے مزار پر حاضری کے لئیے آیا ہواتھا۔۔ نیاز کی شیرینی لے کر ابھی میں نے اوپر جانے کے لئیے پہلی سیڑھی پر اپنا قدم رکھا ہی تھا کہ۔۔۔۔۔۔۔۔ مزار کے احاطے میں بیٹھے ہوئے فقیروں میں سے اک کی صدا اُبھری۔۔۔۔۔۔۔۔ اور وہ آواز تھی کیا تھی ! میرا اُٹھتا ہوا قدم مُجھے آگے لے جانے کے بجائے تیرہ (13) سال پیچھے کہیں ماضی میں لےگیا!

ہمارا شُمار غُلام ابن غُلاموں میں ہوتا تھا اور یہ وراثتی غُلامی پیڑی در پیڑی اک نسل سے دوسری نسل کوبالکل کسی خاندانی ورثےکے طور پر مُنتقل ہوتی چلی آرہی تھی۔ میری عُمر بارہ سال ہے میری پیدائش کے بعد اماں کا انتقال ہوگیا تھا اور جب پانچ سال کا تھا تو بابا بھی چل بسا۔ میری عُمر ابھی کم تھی تو غلامی کی یہ زنجیر میرے بجائے میری ادی سکینہ کے پیروں میں پڑی۔ ادی سکینہ اور میری عُمر میں دس سال کا فرق تھا اماں کو میں نے دیکھا نہیں تھا اور بابا بھی میری کم عُمری ہی میں چل بسا تو اُن دونوں سے وابستہ میرے ذہن میں کوئی بھی ایسی یاد یا واقعہ نہیں تھا جو اُن کو یاد کرنے کا سبب بنتا میری زندگی کا تمام دائرہ ادی سکینہ کی ذات کے ہی گرد گھوم رہا تھا۔

ادی سکینہ بتاتی ہے کہ بابا کا شُمار بڑے سائیں کے خاص خدمت گاروں میں ہوتا تھااور اسی وجہ سے بابا کے انتقال کے بعد حویلی کے ہی اک حصے میں جو خدمت گاروں کے لئیے مخصوص تھا ہم دونوں بہن بھائی کورہنے کے لئیے ایک کمرہ دے دیا گیا۔

بڑے سائیں نے دو شادیاں کی ہوئی تھیں جن میں بڑی سائین سے دو بیٹیاں ادی فاطمہ اور ادی زینب تھیں جبکہ چھوٹی سائین سے تین بیٹے تھے اور یہی وجہ تھی کہ حویلی سے جڑے ہوئے تمام فیصلوں میں چھوٹی سائین کو خصوصی اہمیت حاصل تھی اور بابا کے مرنے کے بعد جب ہم دونوں بہن بھائی اس حویلی میں آئے تو ادی سکینہ کے حصے چھوٹی سائین کی خدمت ہی آئی اوراس خدمت کی وجہ سے ہی کم از کم ہم دونوں بہن بھائیوں کو یہ فائدہ ہوا کہ ہمیں بُہت سی چیزوں میں رعائت ملنے لگی جیسے کسی بھی مرد خدمت گار کو حویلی کے اندرونی حصے میںقدم رکھنے کی اجازت نہیں تھی مگر مُجھے حویلی کے اندر جانے کی اجازت تھی ہوسکتا ہے اس رعائیت کی وجہ میری کم عُمری بھی رہی ہو جبکہ دوسرا فائدہ یہ تھا ادی سکینہ کے کہنے پر مُجھے گاؤں کے واحد پرائمری اسکول میں پڑھنے کے لئیے جانے کی اجازت دے دی گئی تھی ۔۔۔ ابھی میں دوسری جماعت میں تھا اور میرا واحد شوق صرف میری کتابیں تھیں ادی سکینہ صُبح حویلی جانے سے قبل ہی مُجھے ناشتہ وغیرہ کروا کے اسکول کے لئیے بھیج دیتی تھی اور دوپہر میں میری اسکول سے واپسی سے تھوڑی دیر پہلے آکر وہ اپنے اور میرے لئیے دوپہر کا کھانا تیارکرلیتی تھی اور پھرجب ہم دونوں بہن بھائی دوپہر کے کھانے سے فارغ ہوجاتے تو وہ واپس حویلی چلی جاتی جہاں سے اُس کی واپسی رات کے کھانے کے بعد ہی ہوتی تھی اور اس لگے بندھے دائرے میں میری اور ادی سکینہ کی زندگی چیونٹی کی رفتار سے چل رہی تھی۔

گو میری عُمرابھی کم تھی مگر میرے ذہن میں اک خیال بس گیا تھا کہ مُجھے بہت سارا پڑھنا ہے اور اک دن اپنی ادی سکینہ کو یہاں سے لے کر کہیں دور چلاجاؤں گا جہاں ہماری پہچان اس غلامی کے طوق کے بجائے ہماری اپنی ذات ہوگی!

میرے ذہن میں اکثر یہ سوال اُٹھتا تھا کہ بڑے سائیں کی زمنیں زیادہ بڑی ہیں یا اُس کی ہوس! جیسے جیسے وقت گُذر رہا تھا اُس کی زمینوں میں اضافہ ہتا جا رہا تھا۔۔۔۔ اور بڑے سائیں کی زمینوں سے یہ مُحبت ادی فاطمہ کے لئیے بُہت بھاری پڑی تھی جس کا بڑے سائیں نے حق بخشوالیا تھا!!
جس دن اُس کا حق بخشوایا گیا اُس کے دوسرے دن سے آجتک میری جب بھی اُس پر نگاہ پڑی وہ سیاہ رنگ کے لباس اور بڑی سی سیاہ چادر میں ہی لپٹی ہوئی نظرآتی تھی اُس کے اس سیاہ ملبوس کو دیکھ کر تو بعض اوقات مُجھے ایسا لگتا تھا کہ اُس کے بخت کی سیاہی اُس کے ہمراہ قدم بہ قدم چل رہی ہو! ادی فاطمہ اور ادی زینب میں بہنوں والی کوئی خاص قربت نظر نہیں آتی تھی اوراُس کے حق بخشوانے کے بعد تو ادی زینب ویسے بھی اُس کے سائے سے یوں بھاگنے لگی تھی ادی فاطمہ کے سیاہ ماتمی لباس کی نحوست اُس کو اپنی لپیٹ میں نہ لے لے!
نجانے کتنی بار ایسا ہوا تھا کہ جب کبھی میں ادی فاطمہ کے کمرے کے قریب سے گُذرا تھا تو مُجھے اُس کے کمرے میں سے ہنسنےباتیں کرنے کی ہلکی ہلکی سی آوازیں آتی تھیں اور میں یہ سوچتا کہ ادی فاطمہ کا دُولہا تو اُس کے ساتھ رہتا نہیں آخر یہ باتیں کس سے کرتی تھی ایسے ہی اک روز جب اُس کے کمرے میں سے ہلکے ہلکے باتیں کرنے کی آوازیں آرہی تھیں تو میں نے تجسس میں اک کھڑکی کی جھری سے آنکھ لگادی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور میری حیرت کی انتہا نہیں رہی جب میری نظر اپنی مسہری پر بیٹھی ادی فاطمہ پر پڑی وہ کبھی آہستہ سے ہنس رہی تھی تو کبھی اُس کے ہونٹ ایسے ہل رہے تھے جیسے کسی بات کا جواب دے رہی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ آخر باتیں کس سے کررہی تھی یہ سمجھ نہیں آرہا تھا میں پنجوں کے بل تھوڑا مزید اوپر ہوگیا اب وہ تھوڑی واضح نظر آرہی تھی اُس نے اپنی گود میں کُچھ رکھا ہوا تھا جس سے وہ باتیں کر رہی تھی۔۔۔۔۔ کیا ہے آخر کیا؟ کسی کی کوئی تصویر ہے؟ مگر میرے ہاتھ اس راز کا کوئی سرا نہیں آرہا تھا ما سوائے جُزدان کے اُس سرے کے جو اُس کی گود سے باہر کی جانب جھول رہا تھا!!!

دن ایسے ہی گُذر رہے تھے کہ اک دن ہم دونوں بہن بھائی اپنے کمرے میں سورہے تھے کہ رات کو کسی عورت کی چینخوں کی آوازوں سے ہم دونوں بہن بھائی کی آنکھ کُھل گئی گئ ۔۔۔۔ ابھی ہم دونوں بہن بھائی اپنی چارپائی پر بیٹھے اس شور کو سُن ہی رہے تھے کہ کسی نے بُری طرح ہمارے کمرے کا دروازہ پیٹ ڈالا ادی سکینہ نے آواز دے کہ پوچھا تو دوسری جانب سے اماں کُلثوم کی آواز آئی۔۔۔۔۔۔۔ سکینہ جلدی اُٹھ زینب بی بی کی طبیعیت خراب ہوگئی ہے بڑی سائین حویلی میں بُلارہی ہیں۔۔۔۔۔ اور ادی سکینہ ایسے ہی اُٹھ کر اماں کُلثوم کے ساتھ چلی گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ادی سکینہ تو اماں کُلثوم کے ساتھ حویلی چلی گئی مگر اب میں چارپائی پر لیٹا ادی زینب کے مُعتلق سوچ رہا تھا کہ آخر اُسے ایسے کیا ہوا ہے جس کی وجہ سے وہ اس بُری طرح چینخیں مار رہی ہے۔۔۔۔۔۔ اور اپنے انھی سوالوں کا سرا ڈھونڈتے ڈھونڈتے نجانے کس لمحے مُجھے نیند آگئی۔

صُبح میری آنکھ کُھلی تو ادی سکینہ ناشتہ بنانے میں لگی ہوئی تھی اور آج مُجھے ناشتے سے زیادہ رات والے واقعے کو جاننے کا اشتیاق ہورہا تھا۔۔۔۔۔ مگر ادی سکینہ تھی کے مُجھے کُچھ بتانے پر راضی ہی نہیں تھی آخر جب میرا اصرار بُہت بڑھ گیا اور میں نے ناشتہ کرنے سے انکار کیا تو اُس نے مُجھے اس شرط پر یہ بات بتائی کے میں کسی سے بھی اس کا ذکر نہیں کروں گا اور پھر ادی سکینہ نے بتایا کے کہ رات کو ادی زینب پر کسی آسیب کا سایہ ہوگیا ہے اُس کی طبعیت اسی لیئے بگڑ گئی تھی۔۔۔۔۔۔ میں نے نے پرجوش لہجے میں پوچھا۔۔۔۔۔۔۔۔ ہیں ادی واقعی کیا تُم نے اُس جِن کو دیکھا تھا؟۔۔۔۔۔۔ میری بات پر ادی سکینہ نے جھلاتے ہوئے کہا۔۔۔۔ چریا ہوا ہےکیا میں کیسے دیکھوں گی وہ تو مولوی صاحب بتا رہے ہیں کوئی بہت طاقتور جِن ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ تو جن ہی ہوگا!
اور اب یہ بات جاننے کے بعد میرا رات والا تجسس سرد پڑ گیا میں نے پوچھا تو ادی رات کو توحویلی سب لوگ ہی جمع ہوگئے ہونگےِ؟۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں نا فاطمہ بی بی کے سوا سبھی لوگ تھے۔۔۔۔ میں بولا لو ادی ۔۔۔۔۔۔ ادی فاطمہ تو اُس کی بڑی بہن ہے وہ اپنی بہن کی چینخوں کی آواز پر کیوں نہیں آئی؟۔۔۔۔۔۔۔۔ تو ادی سکینہ بولی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آئی ارے اُس نے تو اپنا دروازہ ہی بند کرلیا تھا۔۔۔۔۔ رات زینب بی بی کی حالت کی وجہ سے کسی کو کُچھ سمجھ ہی نہیں آرہا تھا سب گھبرائے ہوئے تھے وہ تو جب مولوی صاحب نے قرآن پاک مانگا کے زینب بی بی پر قرآن کی ہوا دیں تو اُس کی حالت صیح ہوجائے اسی لیئے میں فاطمہ بی بی کو اُٹھانے اور اُن سے قرآن لینے گئی تھی۔۔۔۔۔۔۔ میں نے پوچھا تو اُس نے دیا نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ادی سکینہ بولی۔۔۔۔۔۔۔ کہاں دیا اُس نے تو سختی سے دروازہ اندر سے بند کرلیا اور مُجھ سے اندر سے ہی بولی میں اپنا قرآن کسی کو نہیں دوں گی بابا سے بول زینب کی اتنی زمینیں بخشوائے گا ۔۔۔۔۔۔ اُس کے لئیے کیا ایک الگ سے دوسرا قرآن بھی نہیں لا کر دے سکتا جا تویہاں سے چلی جا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ادی پھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر کیا میں واپس آگئی تھی بس اسی طرح کل ہم لوگوں نےجاگ جاگ کر رات کاٹی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آج بڑا سائیں زینب بی بی کو مولوی صاحب کے پاس اُتارے کے لئیے لے کر جائے گا! یہ بول کر ادی سکینہ اپنے کاموں کو جلدی جلدی نمپٹانے لگی کہ اُسےیہ کام ختم کرنے کے بعد حویلی بھی جانا تھا۔ اور اب مُجھے ادی زینب کو دیکھنے کی خواہش ہورہی تھی کہ ذرا جاکر تو دیکھوں کہ وہ اب کیسی دکھ رہی ہے جن آنے کے بعد کیا حرکتیں کررہی ہے!


میں جانتا تھا کہ وہ روز شام میں حویلی کے پچھلے حصے میں بنے ہوئے باغ میں جاکر بیٹھتی ہے اور اب مُجھے شام کا انتظار تھا جب میں اُس کو باغ میں جا کر دیکھ سکتا تھا۔
دوپہر میں نے دیکھ لیا تھا کہ بڑا سائیں ادی زینب کو لے کر کہیں گیا ہے۔۔۔۔۔ وہ یقیناَ اُسے مولوی صاحب کے پاس اُتارے کے لیئے لے گیا ہوگا۔
اور اب مُجھے شام کا انتطار تھا مُجھے نہیں معلوم تھا کہ رات والے واقعے کے بعد آج حسب روائت ادی زینب باغ کے اپنے اُس مخصوص حصے میں آگر بیٹھے گی بھی کہ نہیں۔
اور جب میں شام میں باغ کے اُس حصے میں گیا جہاں وہ بیٹھتی تھی میرا خیال صیح ثابت ہوا وہ وہیں باغ میں اپنی اک مخصوص جگہ پر بیٹھی تھی۔۔۔۔۔ باغ میں اک کافی اونچی قسم کا اک چبوترہ بنا ہوا تھا اور اُس کی اُونچائی اتنی تھی کہ اُس کے اوپر جانے کے لئیے پانچ چھ سیڑھیاں بنی ہوئی تھیں اور یہی ادی زینب کی وہ مخصوص جگہ تھی جہاں وہ بیٹھتی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں یہاں آتو گیا تھا مگر اب مزید آگے جانے کے لیئے تذبذب میں پڑا ہوا تھا۔۔۔۔۔ اور ابھی میں آگے جاؤں کہ نہیں اسی سوچ میں گِھراہواتھا کہ ادی زینب کی نظر خود ہی مُجھ پر پڑگئ پہلے تو اُس نے حیرت سے میری جانب دیکھا پھربولی۔۔۔۔ تو یہاں کیا کررہا ہے؟ ادھر آ۔۔۔۔۔ میں اپنے شوق میں یہاں تو آگیا تھا اب مُجھے یہ ڈر لگ رہا تھا کہ ادی زینب پر وہی جِن نہ آجائے۔۔۔۔۔ مگر ابھی جو اُس کی حالت تھی اور جس طرح اُس نے مُجھے مُخاطب کیا تھا اُس سے میری ہمت بندھی میں سمجھ گیا کہ ابھی اُس پر وہ جن نہیں ہے شاید کہیں گیا ہو!

میں چُپ چاپ جا کراُس کے پاس کھڑا ہوگیا۔۔۔۔۔۔ تھوڑی دیر تک وہ بڑے غور سے دیکھتی رہی پھر بولی۔۔۔۔۔۔ایسے کیوں کھڑا ہے بیٹھ جا! میں وہیں تیسری سیڑھی پر بیٹھ گیا اور اب ہم دونوں کے بیٹھنے کا انداز یوں تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ اوپر فرش پر تھی اور میں سیڑھی پر۔۔۔۔۔ دور سے دیکھنے پر یہ منظر یقیناَ ایسا لگ رہا ہوگا جیسے کوئی سوالی اپنے سوال کو پورا کروانے کے لئیے کسی کے قدموں میں جا بھیٹاہو!

تو ادھر کیا کرنے آیا تھا؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور میں نے سوچا کہ کوئی بہانہ بنانے سے بہتر ہے میں اُسے سچ بات ہی بتا دوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ ادی میں تجھے دیکھنے آیا تھا رات کو تیری طبعیت خراب ہوئی تھی نا اس لئیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میری بات پر وہ یکدم مُسکرادی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اچھا تو توبھی اُس جِن کو دیکھنا چاہتا ہوگا ہیں نا؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں خاموش رہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر وہ خود ہی بولی۔۔۔۔۔۔ بکواس کرتے ہیں یہ سب۔۔۔۔۔۔ انسان سے بڑا کون جِن ہوگا!
سب کی ذات میں اک آسیب چُھپا ہوا ہوتا ہے کوئی اس کو پوشیدہ رکھ لیتا ہے اور کسی سے پوشیدہ رکھنا مُشکل ہوجائے تو وہ ظاہر ہوجاتا ہےبس کل رات میرے ساتھ بھی یہی ہوا!

مُجھے ادی زینب کی کوئی بات سمجھ نہیں آرہی تھی میں صرف اثبات میں یوں سرہلارہا تھا جیسے میں سب کُچھ سمجھ رہا ہوں!

مُجھے خاموش دیکھ کر بولی چُپ کیوں بیٹھا ہے بولنا میری باتوں کا جواب دے۔۔۔۔۔۔ ادی میری سمجھ ہی نہیں آرہا کیا بولوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ پھر مُسکرائی۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں بعض دفعہ یہی ہوتا ہے لفظ بُہت ہوتے ہیں پر سمجھ نہیں آتا بولیں کس سے کُچھ لوگ دیواروں کی طرح ہوتے ہیں اگر اُن سے کُچھ بولوتو لفظ واپس پلٹ کر آجاتے ہیں دیوار کے پار تک جانا اُن کا مُقدر ہی نہیں ہوتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے پوچھا ادی دیوار؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں میں دیوار کا ہی بول رہی ہوں مگر شاید ہوا دیواروں سے زیادہ اچھی ہوتی ہےجسے محسوس تو کیا جاسکتا ہے پر کوئی اُسے قید کر کے نہیں رکھ سکتا یہ اُونچی اُونچی دیواریں بھی اُسے نہیں روک پاتیں!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بلال تُجھے پتا ہے کہ میرا دل کیا چاہتا ہے؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں چاہتی ہوں میرے بھی پر نکال آئیں پھر میں اتنا اونچا اتنا اونچا اُڑوں کے اس حویلی کی دیواروں کو کہیں بُہت پیچھے چھوڑ جاؤں۔۔۔۔۔۔۔۔ گُذرتے ہوئے ہر لمحے کے ساتھ میرے سر پر سے اُس کی باتیں گُذرتی ہی جارہی تھیں اور اب مُجھے ادی سکینہ کی بات پر یقین آنے لگا کہ ادی زینب پر واقعی کوئی جِن آگیا ہے!

مُجھے خاموش بُت کی طرح بیٹھا دیکھ کراب اُس کی جنجھلاہٹ بڑھتی جارہی تھی۔۔۔۔۔۔۔ تو کُچھ بولے گا بھی یا یونہی خاموش مٹی کا بے جان ٹیلہ بنا رہے گا؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اپنی اسی بات پر وہ ایسے چونکی جیسے اُسے پھر کوئی بات یاد آگئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بلال تُجھے پتا ہے بعض اوقات بادل پیاسے صحراؤں کی پیاس کو نظر انداز کرتے ہوئے دریا سمندر پر ہی کیوں برستے رہتے ہیں؟ اور وہ سمجھ گئی کے اپنے اس سوال کا جواب بھی اُسے خود ہی دینا ہوگا تھوڑی دیر بعد بولی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیوں کے صحرا تو اپنی پیاس کے باوجود بھی اپنا وجود زندہ رکھ لیتے ہیں مگر دریا اور ندی کے بہتے ہوئے پانی کی بقاء اسی میں ہے کہ اُس پر بادل آ آ کر برستے رہیں ندی کتنی بھی زرخیز و سیراب ہو اور اُس پر بادل آکر نہ برسیں تو وہ کب تک زندہ رہے گی اُس کا بہتا ہوا پانی نیچے کی زمین آہستہ آہستہ جذب کرنے لگتی ہے اور پھر اک دن وہ ندی خشک ہوجاتی ہے اور اک نیا صحرا وجود میں آجاتا ہے جہاں صرف جلتی ہوئی ریت ہوتی ہے ازل سے بدنصیب ریت۔۔۔۔۔۔۔ جو نہ کسی کے قدموں کے لئیے زمین بنتی ہے نہ قبر کی صورت کسی کو اپنے اندر پناہ دے سکتی ہے۔۔۔۔۔۔۔ کھوکھلی بے جان ریت بس زمینوں میں شُمار کی جاسکتی ہے اور یہ زمینوں سے مُحبت کرنے والے اُس جلتی ہوئی ریت پر بھی خوش ہوجاتےہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پتا نہیں یہ ہم دونوں بہنوں کو دو دو گز زمین بھی دیں گے یا نہیں ان کا بس چلے تو اُس پر بھی ہمارا حق بخشوالیں گے!
تونے فاطمہ کو دیکھا ہےنا؟ کیسےاپنی سیاہ بختی وہ سیاہ رنگ میں اپنے ہمراہ لئیے پھرتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ میں دوسری فاطمہ نہیں بننا چاہتی بلال کہ عبادت کرنے والی مُقدس کتاب سے باتیں کرنے لگوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے ساتھ ہی اُس کی نظریں آسمان کی جانب یوں دیکھنے لگی جیسے بادلوں کے یہاں آکر نہ برسنے کا شکوہ کرہی ہوں!
وہ گھنٹے بھر سے جو بات کررہی تھی آسمان کو یوں گھورنے بیٹھ گئی جیسے میرے وہاں ہونے یا نہ ہونے کا اُسے علم ہی نہ ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں چُپ چاپ اُٹھ کر چل دیا میں باغ والے حصے سے باہر کی جانب کے لئیے قدم اُٹھا رہا تھا کہ مُجھے اُس کے گُنگنانے کی آواز آنے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے پَلٹ کر دیکھا تو اُس کی نظریں ابھی تک وہیں آسمان پر ٹکی ہوئی تھیں اور وہ گُنگنانے میں مَگن تھی۔

چلے بھی آؤ اےبادل تُمہیں ندی بُلاتی ہے
نگاہ بار بارمری آسمان پہ جاتی ہے
چلے بھی آؤ بادل کہیں نہ ریت بن جاؤں!

بس ادی زینب سے اس طرح یہ میری پہلی اور آخری مُلاقات تھی تھوڑے دن بعد ہی ادی سکینہ اور میری زندگی میں اُس وقت بھونچال آگیا جب بڑے سائیں نے ادی سکینہ کی شادی کے لئیے اپنے اک پچپن سالہ خدمت گار کو مُنتخب کرلیا۔۔۔۔۔۔ اور ادی سکینہ جانتی تھی کہ انکار کی صورت میں ہم دُونوں بہن بھائی کے ساتھ کیا ہونے والا ہے!

بس پھر ایک رات کی تاریکی میں ہم وقار بھائی کے ساتھ کراچی کے لئیے نکل پڑے۔۔۔۔۔۔ وقار بھائی گاؤں کی واحد ڈسپنسری کے ڈاکٹر تھے اور میں اور ادی جب بھی بیمار پڑتے تو وقار بھائی کے پاس ہی جاتے تھے جنھیں ہماری زندگی کے شروع سے لے کر آخرتک حالات پتا تھے اور جب ادی سکینہ کی شادی کا شوراُس بوڑھے شخص کے ساتھ اُٹھا تو یہ وقار بھائی ہی تھے جنہوں نے ادی زینب کو گاؤں چھوڑنے پر راضی کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر ہم وہاں سے کیسے نکلے اور کراچی تک کیسے پُہنچے یہ اک الگ داستان ہے۔۔۔۔ مگر یہ ضرور ہوا کہ کراچی آتے ہی یوں لگا کہ ہماری زندگی میں جو خوشیاں نہ جانے کہیں کھوگیئں تھییں اک اک کرکے ہماری زندگی میں آنے لگیں۔۔۔۔۔۔۔ وقار بھائی نے کراچی آنے کے کُچھ دنوں بعد ہی ادی سکینہ سےنہ صرف شادی کرلی بلکہ مُجھے بھی اک بہت اچھے اسکول میں داخل کروادیاتھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اب تو میں بھی میڈیکل کے فائنل ائیر میں آگیا تھا۔۔۔۔۔ ادی سکینہ کے دو پیارے پیارے بیٹے تھے اور اب میری جان اُن دونوں میں بس گئی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کراچی آکر بھی گاؤں کی اُن گلیوں کو نہیں بھولا تھا۔۔۔۔۔۔۔ خاص طور پر میں جب بھی اکیلا ہوتا تو ادی زینب سے میری اُس مُلاقات کا اک اک لفظ میرے ذہن میں زندہ ہوجاتا تھا۔۔۔۔۔ اور جو باتیں اُس وقت کم عُمری کے باعث مُجھے سمجھ نہیں آسکیں تھیں آج اُس گُفتگوکا اک اک لفظ مُجھ پر آشکار ہوچکا تھا کہ وہ کس بادل کی چاہ میں تھی اور کس ندی کے خُشک ہونے کا خوف اُسے گھیرے ہوئے تھا!

اور آج جب شاہ غازی بابا کہ مزارکی سیڑھی پر چڑھتے ہوئے جس آواز نے میرے قدم روکے تھے وہ یہی تھے

چلے بھی آؤ اے بادل تُمہیں ندی بُلاتی ہے
نگاہ بار بارمری آسمان پہ جاتی ہے

یہ آواز۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ آواز اور لہجہ تو میں لاکھوں میں بھی پہچان سکتا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرے قدم فوراَ آواز کی جانب پلٹے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بہت ساری مانگے والیوں کے بیچ میں وہ بیٹھی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنا یہ جمُلہ دُہراتے ہوئے آج بھی اس کی نظریں آسمان پر ہی ٹکی ہوئی تھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں جاکر اُس کے قریب بیٹھ گیا اور یہ گُنگناتے ہوئے آج میرے وجود سے ایسے ہی بےنیاز تھی جیسےآج سے برسوں پہلے اُس وقت ہوگئی تھی جب میں اُس شام اُس سے باغ میں ملا تھا۔۔۔۔۔۔ اور آج بھی میرے وجود سے وہ یکسر لاتعلق بنی بیٹھی تھی۔۔۔۔۔ میں نے اُس کےقریب بیٹھ کر اُس کے چہرے پر غور سے نظر ڈالی تواُس کے چہرے نے مُجھے اُن تیرہ سالوں کو سوچنے پر مجبور کردیا۔۔۔۔۔۔۔ تیرہ سال اتنے زیادہ تو نہیں ہوتے جتنے نشان وہ اپنے جانے کا اس کے چہرے پر چھوڑگئے تھے اُس کا جُھریوں زدہ چہرہ یوں لگ رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جیسے کسی نے ریت پر اُنگلیوں سے سینکڑوں لکیریں بنادی ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور آج مُجھ پر یہ عیاں ہوگیا تھا کہ اس ندی پر کوئی بادل آکر نہیں برس سکا!!!
اور اب میرے ذہن میں ادی زینب کا وہ جمُلہ گونج رہا تھا کہ۔۔۔۔۔۔۔ میں چاہتی ہوں میرے بھی پر نکال آئیں پھر میں اتنا اونچا اتنا اونچا اُڑوں کے اس حویلی کی دیواروں کو کہیں بُہت پیچھے چھوڑ جاؤں۔۔۔۔۔۔۔۔ اور مُجھے خبر نہیں کہ ادی زینب کی پرواز کب اتنی بُلند یا مظبوط ہوئی ہوگی کہ وہ بڑے سائیں کی اونچی دیواروں کو کہیں بہت پیچھے چھوڑ آئی تھی!

اُس کے حال پر پتا نہیں کیوں مُجھے رونا آرہا تھا۔۔۔۔۔۔۔ اور وہ ابھی تک اپنا وہی جمُلہ دُہرارہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔

چلے بھی آؤاے بادل تُمہیں ندی بُلاتی ہے
نگاہ بار بارمری آسمان پہ جاتی ہے

اور اب مُجھے احساس ہوا کہ وہ بس یہی دو جُملے مسُلسل گُنگنارہی ہے!

میں نے اُسے آواز ادی۔۔۔۔۔۔۔۔ ادی ۔۔۔۔۔۔۔ادی زینب۔۔۔۔۔۔۔۔ میری آواز پر اُس کی آنکھوں میں اک لمحے کے لیئے اک عجب سی چمک آکر مانند پڑگئی۔۔۔۔۔ جیسے آج اپنا نام سُن کر اُسے بھی حیرت ہوئی ہو۔۔۔۔۔۔ پتانہیں وہ یہاں کب سے تھی اور کب سے اُس نےاپنا نام بھی نہیں سُنا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اُس کی آنکھوں میں پھروہی بیگانگی کے رنگ اُبھرنے لگے۔۔۔۔۔۔۔۔ اور وہ دوبارہ اپنے اُنھی دو جملوں کو دُہرانے لگی۔۔۔۔۔۔ میں سمجھ چُکا تھا کہ میں اتنا بڑا ہوگیا ہوں اور جو آج ادی زینب کی حالت ہے میں اُسے کُچھ یاد بھی دلاؤنگا تو اُسے کُچھ یاد نہیں آنے والا!

اور اب جب اُس نے اپنا وہی دو جًملہ دُہرایا۔۔۔۔۔ چلے بھی آؤ اے بادل تُمہیں ندی بُلاتی ہے
نگاہ بار بارمری آسماں پرجاتی ہے!
تو مُجھے اچانک یاد آگیا کہ وہ اپنے اس گُنگُنانے میں کُچھ بھول رہی ہے۔

وہ جس فرش پر بیٹھی تھی میں اُس کے ساتھ بنی ہوئی سیڑھی پر بیٹھ گیا۔۔۔۔۔۔ اور آج اک بار پھر وہی تیرہ سال پہلے والا منظر تھا۔۔۔۔۔۔۔ وہ فرش پر بیٹھی اور میں نیچے سیڑھی پر یوں بیٹھا تھا جیسے کوئی سوالی اپنے سوال پورا کئیے جانے کے انتظار میں ہو!

وہ اپنے آپ میں یوں گُم تھی کہ اُسے احساس ہی نہیں تھا کہ کوئی ٹکٹکی باندھے ہوئے اُس کے چہرے پر گُذرے ہوئے وقت کے نشانات کی کھوج میں لگا ہوا ہے!

اب جیسے ہی اُس نے اپنا جمُلہ دُہرایا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چلے بھی آؤ اے بادل تُمہیں ندی بُلاتی ہے
نگاہ بار بار مری آسماں پرجاتی ہے۔۔۔۔۔۔
اور جیسے ہی وہ اس جملے پر آکر رُکی میں نے فوراَ اُس کے دونوں ہاتھ تھام لئیے۔۔۔۔۔۔۔۔
بولو ادی یہ دو جملےبول کر رُک کیوں جاتی ہو؟
اک لمحے کو مُجھے لگا کہ میرے اس سوال پر اُس کی آنکھوں میں پہچان کا کوئی رنگ اُترا ہو۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر دوسرےہی لمحے اُس کی آنکھیں پھر بے جان ہوگئیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ پھرمیرے وجود سے یکسر لاتعلق ہوکر دوبارہ گُنگنانے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چلے بھی آؤ اے بادل تُمہیں ندی بُلاتی ہے
نگاہ بار بار مری آسماں پر جاتی ہے
اور جیسے ہی وہ اس جُملے پر آکر رُکی میں نے دوبارہ اُس کے ہاتھوں کو تھام لیا
ادی رکو مت
اور جس جُملے کو وہ بھولی ہوئی تھی میں نے دُہرانا شروع کردیا
چلے بھی آؤ بادل کہیں نہ ریت بن جاؤں۔۔۔۔۔۔۔۔

چلے بھی آؤ بادل کہیں نہ ریت بن جاؤں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں بول رہا تھا اور میری دونوں آنکھوں سے آنسومُسلسل بہہ رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔
اُس نے اس جُملے پر چونک کر میری طرف دیکھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر آہستہ سے اپنے ہاتھوں کو میرے ہاتھ کی گرفت سے نکال کر اپنی ہتھیلی کی پُشت سے میرے بہتے ہوئے آنسوؤں کو پونچھتے ہوئے بولی

بلال میرے بچےمیں یہ جُملہ بھولی نہیں ہوں بس وقت تیری ادی کو ریت بناگیا ہے تو اب میں یہ جُملہ کیسے دُہراؤں؟
یہ بول کر وہ دوبارہ اپنا مُنہ پھیر کر بیٹھ گئی جیسے اُس شام بیٹھی تھی جب میں اُس سے ملا تھا!
اور اب میرا کُچھ کہنا سُننا بے کار تھا! میں نے اپنے دونوں بھانجوں کا ہاتھ تھاما جو میرے پاس ہی کھڑے ہوئے حیرت سے کبھی مُجھے روتا ہوا دیکھ رہے تھےاور کبھی اُس فقیرنی کو دیکھ رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں ادی زینب کا وجود جو اُسے نہیں جانتے تھے اُن کے لئیے مزار کی اک فقیرنی سے زیادہ کیا تھا!

میں نے اپنے دونوں بھانجوں کا ہاتھا تھاما اور مزار کے اوپر والے حصے کے بجائے باہر جانے والے دروازے کی طرف قدم بڑھادئیے میرے مرُدہ قدم بیرونی دروازے کی طرف بڑھ رہے تھے۔۔۔۔۔ اور پیچھے سے آتی ہوئی ادی زینب کی آوازاب تک میرے کانوں سے ٹکرارہی تھی۔ مگر اب اُس کے گُنگنائے جانے والے جمُلے بدل چُکے تھے جن کو میری سماعت واضح طور پر سُن رہی تھی

نہ آئے بادل تُمہیں ندی بُلاتی تھی
نگاہ بار بارمری آسماں پر جاتی تھی
اب نہ آنا یہاں اے بادلوں تُم
میں ریت ہوگئی ہوں
میں ریت ہو گئی ہوں!



ندیم جاوید عُثمانی
 

شمشاد

لائبریرین
بہت ہی اچھی تحریر ہے۔ دل کو چُھونے والی، آنکھ کو رُلانے والی۔

ہمارے معاشرے کا ناسور جس پر آپ نے بہت ہی خوبصورتی سے لکھا۔

بہت شکریہ شریک محفل کرنے کا۔
 
اسلام وعلیکم
اس پزیرائی کے لئیے آپ کا تہہ دل سے مشکور ہوں۔۔۔۔۔ آئندہ آنے والے دنوں میں اپنا لکھا ہوا کُچھ مزید کام آپ دوستوں کے ساتھ شئیر کروں گا آپ لوگوں کی رائے کا انتطار رہے گا۔

واسلام
 

شمشاد

لائبریرین
اسلام وعلیکم
اس پزیرائی کے لئیے آپ کا تہہ دل سے مشکور ہوں۔۔۔۔۔ آئندہ آنے والے دنوں میں اپنا لکھا ہوا کُچھ مزید کام آپ دوستوں کے ساتھ شئیر کروں گا آپ لوگوں کی رائے کا انتطار رہے گا۔

واسلام

ہمیں بھی آپ کی مزید تحریروں کا انتظار رہے گا۔
 
انشااللہ بُہت جلد آپ دوستوں کی خدمت میں اپنی نئی تحریر کے ساتھ حاضر خدمت ہونے والا ہوں۔ اس سے قبل میں "کُتیا" اور "دہلیز" لکھ چُکا ہوں اُمید ہے کہ اُن پر بھی اپنی دوست اپنی رائے سے نوازیں گے۔

خوش رہیں
 
Top