ادب کیا ہے؟

استاد محترم اور نایاب بھیا نے تو آسان پیرایہ میں بتا ہی دیا تھا ۔۔۔
سرچ کے دورن مجھے یہ مضمون ملا تو سوچا وہ بھی یہاں شیر کر دوں ۔۔۔۔
تاکہ موضوع سے متعلق مواد ایک جگہ جمع ہو جائے ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ادب کیا ہے؟
ڈاکٹر جمیل جالبی
یہ سوال اکثر پوچھا جاتا ہے کہ ’’ادب‘‘ کیا ہے؟ اس کا جواب دینے سے پہلے اگر میں آپ سے یہ سوال کروں کہ ’’زندگی‘‘ کیا ہے تو آپ کے پاس اس کا کیا جواب ہو گا؟ اور دلچسپ بات یہ ہے کہ جو جواب بھی آپ دیں گے وہ جامع نہیں ہو گا، اس میں صرف وہ زاویہ ہو گا جس سے خود آپ نے زندگی کو دیکھا ہے یا دیکھ رہے ہیں۔ ضروری نہیں ہے کہ دوسرا بھی اس سے اتفاق کرے یا آپ کے جواب سے مطمئن ہو جائے۔ یہ سوال بھی کہ ادب کیا ہے، اسی نوعیت کا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ خود ادب بھی ’’زندگی‘‘ کے اظہار کا نام ہے۔ ادب چونکہ لفظوں کی ترتیب و تنظیم سے وجود میں آتا ہے اور ان لفظوں میں جذبہ و فکر بھی شامل ہوتے ہیں اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ لفظوں کے ذریعے جذبے، احساس یا فکر و خیال کے اظہار کو ادب کہتے ہیں۔ یہ ایک ایسی تعریف ہے جس میں کم و بیش ہر وہ بات جس سے کسی جذبے، احساس یا فکر کا اظہار ہوتا ہے اور جو منہ یا قلم سے نکلے، ادب کہلائے گی۔ لیکن میری طرح یہ آپ بھی جانتے ہیں کہ ہر وہ بات جو منہ سے نکلتی ہے یا ہر وہ بات جو قلم سے ادا ہوتی ہے، ادب نہیں ہے۔ عام طور پر اخبار کے کالم یا اداریئے ادب نہیں کہلاتے حالانکہ ان میں الفاظ بھی ہوتے ہیں اور اثر و تاثیر کی قوت بھی ہوتی ہے۔ ہم سب خط لکھتے ہیں لیکن ہمارے خطوط ادب کے ذیل میں نہیں آتے لیکن اس کے برخلاف غالب کے خطوط ادب کے ذیل میں آتے ہیں۔ غالب اور دوسرے خطوط کے فرق کو دیکھتے ہوئے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ایسی تحریر کو ادب کہا جا سکتا ہے جس میں الفاظ اس ترتیب و تنظیم سے استعمال کیے گئے ہوں کہ پڑھنے والا اس تحریر سے لطف اندوز ہو اور اس کے معنی سے مسرت حاصل کرے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب لفظ و معنی اس طور پر گھل مل گئے ہوں کہ ان میں ’’رس‘‘ پیدا ہو گیا ہو۔ یہی رس کسی تحریر کو ادب بناتا ہے۔ اس مسرت کا تعلق ہمارے باطن میں چھپے ہوئے اس احساس سے ہو گا جس کا ہمیں ادراک ہوا ہے۔ یہ وہ تحریر ہو گی جس نے ہمارے شعور اور ہمارے تجربوں کے خزانے میں اضافہ کیا ہے اور اَن دیکھے تجربات سے اس طرح مانوس کر دیا ہے کہ وہ تجربے ہمارے اپنے تجربے بن گئے ہیں۔ یہ وہ تحریر ہو گی جس کا اثر وقتی اثر کا حامل نہیں ہو گا بلکہ اس میں اَبدیت ہو گی اور جو زمان و مکان سے آزاد ہو کر آفاقیت کی حامل ہو گی۔ انہی خصوصیات کی وجہ سے مثنوی مولانا روم، دیوانِ حافظؔ ، کلامِ غالبؔ ، اشعارِ میر، تخلیقاتِ شیکسپئر اور مکالماتِ افلاطون ہمیں آج بھی متاثر کرتے ہیں اور ہمارے تجربات و شعور میں، احساس مسرت کے ساتھ اضافہ کرتے ہیں۔ جس تحریر میں بیک وقت یہ سب خصوصیات موجود ہوں گی وہ تحریر ادب کہلائے گی اور جتنی زیادہ یہ خصوصیات ہوں گی وہ تحریر اسی اعتبار سے عظیم ادب کے ذیل میں آئے گی۔

ادب کے سلسلے میں یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ ادب زندگی میں کسی چیز کا ’’بدل‘‘ نہیں ہے اور اگر اس کی حیثیت کسی اور چیز کے بدل کی ہے تو پھر وہ ادب نہیں ہے۔ ادب ایسا اظہار ہے جو زندگی کا شعور و ادراک حاصل کرنے کے لیے بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ ادب میں انسان کے تخیلی تجربے کو ابھارنے کی ایسی زبردست قوت ہوتی ہے کہ پڑھنے والا اس تجربے کا ادراک کر لیتا ہے۔ ادب میں متحرک کرنے اور ہماری روح میں موجود خفتہ صلاحیتوں کو بیدار کرنے کی غیر معمولی قوت ہوتی ہے۔ ادب کے ذریعے ہم زندگی کا شعور حاصل کرتے ہیں۔ یہ ادب کا خاص منصب ہے۔ ادیب ایک ایسا انسان ہے جس میں ادراک کی صلاحیت بھی ہوتی ہے اور اس کے اظہار کی قوت بھی۔ اس کے ادراک و اظہار میں اتنی داخلی و خارجی وسعت اور تہ داری ہوتی ہے کہ ادب انفرادی و ذاتی ہوتے ہوئے بھی آفاقی ہوتا ہے۔ جتنا بڑا ادیب ہو گا اس کے تجربے کا تنوع، اس کا شعور و ادراک اور اس کا اظہار اتنا ہی بڑا اور آفاقی ہو گا۔

ادب کے ذریعے جیسا کہ میں نے کہا ہے، ہم دوسروں کے تجربوں میں شریک ہو جاتے ہیں اسی لیے ادب کی سطح پر ہم اپنی ذات سے بلند ہو جاتے ہیں۔ ادب عمل ادراک کی غیر معمولی قوت کے ذریعے ہماری عام ہستی کو بیدار کر کے شعور کی ایسی سطح پر لے آتا ہے جو اس کے بغیر خفتہ رہتی۔ اگر ادیب نہ ہوتا اور سعدیؔ ، میرؔ ، غالبؔ ، اقبالؔ ، حافظؔ ، شیکسپیئر، گوئٹے، دانتے وغیرہ نہ ہوتے تو انسان آج بھی معصوم بچے کی طرح ہوتا۔ ادب کے ذریعے ہی ہم بلوغت کے درجے پر آئے ہیں۔ زندگی بسر کرتے ہوئے ہم پر بہت سے جذبے گزرتے ہیں، بہت سے ادھورے معنی ہمارے ذہن میں ابھرتے ہیں، نامعلوم احساس سے ہمیں واسطہ پڑتا ہے، ہم میں بغاوت کا میلان پیدا ہوتا ہے لیکن یہ سب ہمارے لیے گونگے اور بے نام ہوتے ہیں۔ اور یونہی گزر جاتے ہیں لیکن جب ان سے ہمارا واسطہ ناول، افسانے، شاعری، ڈرامے یا مضمون میں لفظوں کی حسین، پُر رس اور جاندار ترتیب و تنظیم کے ساتھ پڑتا ہے تو ہم ان کا ادراک حاصل کر لیتے ہیں اور یہ جذبے، یہ احساس، یہ میلان، یہ تجربے ہمارے شعور کا حصہ بن جاتے ہیں اور اس طرح ہم زندگی میں نئے معنی تلاش کر لیتے ہیں۔

ادب زندگی میں نئے معنی تلاش کرنے کا نام ہے اور اسی لیے ادب زندگی کے شعور کا نام ہے۔ اسی شعور کے ذریعے ہم بدلتے ہیں۔ ہم وہ نہیں رہتے جو اس وقت ہیں اور اسی سے ہمارے اندر قوت عمل پیدا ہوتی ہے۔ زندگی کے ایسے تجربے جن سے ہمیں کبھی واسطہ نہیں پڑا، ادب کے ذریعے براہِ راست ہمارے تجربے بن جاتے ہیں اور ہمیں اور ہمارے اندازِ فکر کو بدل دیتے ہیں۔ جب میں یہ کہتا ہوں کہ ادب کے ذریعے ہم دوسروں کے تجربوں میں اس طور پر شریک ہو جاتے ہیں کہ وہ ہمارے تجربے بن جاتے ہیں تو شاید یہ بات آپ کو پراسرار معلوم ہو لیکن اسے ایک انتہائی مثال سے یوں سمجھیے کہ اپنی محبوبہ کو رقابت یا حسدکی شدت کے زیر اثر قتل کرنے کا تجربہ ہمارے لیے حاصل کرنا آسان نہیں ہے لیکن شیکسپیئر کے اوتھیلو کے ساتھ شریک ہو کر یہ تجربہ ہمارا اپنا تجربہ بن جاتا ہے۔ اسی طرح لیڈی میکبتھ کا تجربہ میرا اپنا تجربہ بن جاتا ہے۔ فاؤسٹ کو پڑھ کر گوئٹے کے اور اینا کرینا، پڑھ کر ٹالسٹائی کے تجربات میرے تجربات بن جاتے ہیں۔ مولانا روم کی مثنوی اور گلستان و بوستان کے تجربے میرے اپنے تجربات بن جاتے ہیں۔ ادب کا یہی کام ہے۔

اب آپ یہاں یہ سوال اٹھا سکتے ہیں کہ آخر کیا ان تجربات کا ادراک کیے بغیر زندگی نہیں گزار سکتے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یقیناًگزار سکتے ہیں لیکن یہ زندگی حیوانی سطح پر بسر ہو گی اگر ہم زندگی کو صرف اپنے تجربات تک محدود کر لیں تو زندگی اندھا کنواں بن کر رہ جائے اور عین ممکن ہے کہ ہمارے تجربات کوئی خطرناک صورت اختیار کر لیں اور ہمارے اندر ایک ایسا عدم توازن پیدا ہو جائے جو زندگی کو آگے بڑھانے کے بجائے اسے مثبت راستے سے ہٹا دے۔ ادب کے ذریعے جب دوسروں کے بے شمار چھوٹے بڑے تجربے ہمارے شعور و ادراک کا حصہ بنتے ہیں تو نہ صرف ہمارا تزکیہ (کیتھارس) ہو جاتا ہے بلکہ اس سے زندگی کا توازن بھی درست رہتا ہے۔ عام تجربہ گونگا ہوتا ہے۔ ادیب اسے زبان دے کر نہ صرف ہمیں اس کا ادراک کرا دیتا ہے بلکہ ہمارے باطن کو بھی روشن کر دیتا ہے۔

ہم نے اکثر یہ کہتے سنا ہے کہ یہ بات حقیقت نہیں محض شاعری یا افسانہ ہے۔ کہنے والا جب یہ بات کہتا ہے تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ شاعری اور افسانہ دراصل جھوٹ ہوتے ہیں لیکن انہیں اگر تجربے کے حوالے سے دیکھا جائے تو اس ’’بظاہر‘‘ جھوٹ میں انسانی تجربے کی وہ سچائی چُھپی ہوتی ہے جو ہمیں نیا شعور عطا کرتی ہے۔ آپ چاہیں تو اسے یوں کہہ سکتے ہیں کہ ادب ایسا جھوٹ ہے جو ہمیں سچائی کا نیا شعور عطا کرتا ہے اوراسی لیے اب تک انسان اورانسانی معاشرہ زندہ و باقی ہے۔ ہمیں ہوا کی طرح ادب کی ضرورت بھی ہمیشہ باقی رہے گی۔ ادب آزادی کی روح کا اظہار ہے۔ ادب سچائی کی تلاش کا مؤثر ذریعہ ہے لفظ چونکہ ہر دوسرے میڈیم سے زیادہ طاقتور چیز ہے اسی لیے ادب دوسرے فنونِ لطیفہ سے زیادہ مؤثر چیز ہے۔

آج کی جدید زندگی میں سائنس پر غیر معمولی زور ہے۔ سائنس نے اشیا کو تو ہمارے شعور میں داخل کر دیا ہے لیکن فکر و احساس کو زندگی سے نکال باہر کیا ہے اور اسی وجہ سے اس وقت ساری دنیا ایک ہولناک عدم توازن کا شکار ہے۔ زندگی ساری ترقیوں اور حیرت ناک ایجادات و انکشافات کے باوجود معنویت و توازن سے عاری ہو گئی ہے۔ اسی لیے ساری دنیا اس وقت ایک ایسے نظام خیال اور تصورِ حقیقت کی تلاش میں ہے جس سے انسان اپنے وجود کو بامعنی بنا سکے۔ یہ کام ادب کے ذریعہ ہی ہو سکتا ہے۔ ادب ایک طرف ہمیں مسرت بہم پہنچاتا ہے، احساس جمال سے لطف اندوز کرتا ہے دوسروں کے تجربات سے ہمارا تزکیہ (کیتھارس) کرتا ہے اور دوسری طرف لفظوں کی جمالیاتی ترتیب سے احساس، جذبے یا خیال کو غیر ضروری عناصر سے پاک کر کے اس طور پر سامنے لاتا ہے کہ ہم بھی اسے پڑھتے ہوئے غیر معمولی بلندیوں پر پہنچ جاتے ہیں۔ ادب جن دنیاؤں میں ہمیں لے جاتا ہے وہ حقیقی دنیا سے زیادہ حقیقی ہوتی ہیں۔ پروست نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ہماری اصل زندگی ہماری نظروں سے اوجھل رہتی ہے۔ ادب کا کام یہ ہے کہ وہ اسے ہمارے سامنے لے آئے اور اس طرح ہمیں خود ہم سے واقف کرا دے۔ غالبؔ ، سرسید، حالیؔ اور اقبالؔ نے اپنی تحریروں سے ہمیں خود ہم سے واقف کرا کر اس طور پر بدلا ہے کہ ہم نے گویا نیا جنم لیا ہے۔ ادب یہی کام کرتا ہے اور یہی اس کا منصب ہے۔

اس ساری بحث کو سامنے رکھ کر جب ہم خود سے یہ سوال پوچھتے ہیں کہ آخر ہمیں یہ سوال کہ ادب کیا ہے پوچھنے کی کیوں ضرورت پیش آئی تو ہمارے باطن میں چھپے ہوئے اس چور سے آمنا سامنا ہوتا ہے جو ہمیں سائنس کے زیرِ اثر، ادب میں خالص افادیت کی تلاش پر اکسا رہا ہے۔ یہ سوال ہم اس لیے کرتے ہیں کہ ہماری چُھپی ہوئی خواہش اب یہ ہے کہ ادب بھی آج وہی کام کرے جو ایئر کنڈیشنر کرتا ہے جو پانی کو ٹھنڈا کر کے ریفریجریٹر کرتا ہے یا جو ہمارے بھجیا کپڑوں کی شکنیں، سلوٹیں دور کر کے استری کرتی ہے اور چونکہ ادب ہماری اس خواہش کو پورا نہیں کرتا اس لیے کہ یہ اس کا منصب نہیں ہے تو ہم زندگی میں ادب کی بنیادی اہمیت سے منکر ہو جاتے ہیں۔ ادب کا کام تو زندگی میں معنی تلاش کرنا ہے اور ان کا رشتہ ماضی سے قائم کر کے مستقبل سے جوڑ دینا ہے۔ ادب کا حوالہ تو خود زندگی ہے اور وہ اسے ہی آگے بڑھاتا ہے۔ ادب تو انسانی تجربے کے مکمل علم و آگاہی کا نام ہے اور یہ علم و آگاوہ غیر معمولی مرتب و منظم صلاحیت ہے جس کے اظہار کی صلاحیت صرف با شعور و دردمند انسان کے پاس ہے۔ وہ انسان جو نہ صرف اس کے اظہار پر قدرت رکھتا ہے بلکہ جس کا اظہار سچا بھی ہے اور حسین بھی، مکمل بھی ہے اور مؤثر و مثبت بھی۔ اس لیے ادب تنقیدِ حیات ہے اور زندگی کے گہرے پانیوں میں ڈوب کر سراغِ زندگی پانے کا نام ہے۔

(بحوالہ: ماہنامہ ’’چشمِ بیدار‘‘ لاہور۔ مئی ۲۰۰۹ء)

ماخوز از:اسلامک ریسرچ اکیڈمی کراچی
 
آخری تدوین:
میں محمد یعقوب آسی کی بات کی تائید کروں گا کہ اپنی بات لطیف پیرائے میں دوسروں تک پہنچانے کا نام ادب ہے اس میں بہت سی چیزیں آتی ہیں مثلاََ تلفیظ ندرت خیال حسن ادا تحریر میں زبان و بیان کی چاشنی ہو گی تو دوسرے کو متاثر کرے گی بقول سیف الدین سیف
سیف! اندازِ بیان رنگ بدل دیتا ہے.
ورنہ دنیا میں کوئی بات نئی بات نہیں.
 
ادب: مفہوم اور مقصد
اخترؔ شیرانی مرحوم، برعظیم ہندو پاک میں تقریباً تیس سال سے زائد عرصہ تک بحیثیت شاعر چھائے رہے۔ لیکن شروع سے ہی اخترؔ شیرانی مرحوم کو مخالفین نے تو خیر ایسا ہی کرنا تھا لیکن ناسمجھ حامیوں نے بھی صرف ’’رومانی شاعر‘‘ کی حیثیت میں پیش کیا۔ اخترؔ شیرانی مرحوم شاعر ہونے کے علاوہ ایک ادیب اور مترجم بھی تھے، کئی زبانوں پر عبور رکھتے تھے اور اُن کی اِس مہارت کا اندازہ عوفیؔ کے جوامع الحکایات کے ترجمے سے ہوتا ہے۔ زبان وادب پر غیر معمولی گرفت رکھنے والے اِس شاعر کو سمجھنے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ دیکھا جائے کہ اُس کی رومانی شاعری کا پس منظر کیا ہے اور کیا واقعی ایسا تو نہیں کہ اختر ؔکی شاعری پر عربی شاعری کی روایات جھلکتی ہیں! اور اِس کے ساتھ ساتھ اُس کی زباں دانی اور اُس کی ادیب اور ایک نثر نگار کی حیثیت کا تعین کرنا بھی ضروری ہے۔ ذیل میں اخترؔ کی مرتب کردہ کتاب ’’ادبستان‘‘ کے مقدمہ سے لیا گیا اقتباس ہے۔ یہ کتاب، خلیقی دہلوی مرحوم کے مضامین کا مجموعہ ہے، جسے 1930ء میں اخترؔ شیرانی مرحوم نے ہی شائع کیا تھی۔ (م۔ص۔ف۔رفعتؔ)
ؔ’’ ادب: ادب کا مفہوم اپنے معانی کے اعتبار سے، بالخصوص اختلافِ رائے کی روشنی میں، بہت وسیع ہے، مگر یہاں مخصوصیت ِ موضوع کی آسانیوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے، عرضِ بیان کے دائرے کو محدود کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے،… اِس نقطہ خیال سے ادب کا وہ خاص حصہ مقصودِ نظر ٹھیرتا ہے جس کو، اُردو دنیا میں ’’ادبِ لطیف‘‘ یا ’’ادبِ جمیل‘‘ کے عنوان سے یاد کیا جاتا ہے۔
اِس سلسلے میں مشاہیرِ عالم کے انتقادی خیالات اور نقاطِ نظر کو واضح کرنے کی فرصت ہے نہ ضرورت،… یوں بھی رفتگانِ محفل کو، بذات ِ خود قدم رنجہ فرمانے کی تکلیف دینا اچھا نہیں معلوم ہوتا، اِس لیے اِس دفتر ِ پریشان کا سرسری سا مطالعہ جامعیت ِ خیال کے جس ایک نقطہ پر پہنچاتا ہے، اُس کا اظہار کافی ہے۔ اور وہ یہ کہ ’’ادب فکر وخیال اور زبان و بیان کے موزوں اور لطیف اظہار کا نام ہے…‘‘ باقی تمام تعریفات ذرا سی کھینچ تان کے بعد، اِسی دائرے کے ماتحت آجائیں گی۔
اجزائے ترکیبی: مندرجہ بالا توضیح کی روشنی میں معلوم ہوا کہ ادب کے اجزائے ترکیبی میں دو چیزیں بذاتہٖ بنیادی حیثیت رکھتی ہیں، اوّل، خیال اور دوسرے، زبان… اور انہی کی خصوصیات کا تنوّع مجتمع ہوکر، ایک ہجومِ صور و معنویات بن جاتا ہے، جس کا استقصا، بتمامہٖ ناممکن نہیں تو دشوار ضرور ہے۔
مثلاً خیال کے سلسلے میں رنگینی، عمق، نزاکت، مطابقتِ حالات، اور موزونیت وغیرہ کا لحاظ رکھنا ایک ادیب کی فن کارانہ مہارت کے لیے لازمی ہے۔
اِسی طرح زبان کے معاملے میں ندرتِ بیان، حسنِ ادا، جدّت، روانی، مطابقت ِ محل، قدرتِ اظہار وغیرہ قابل ِ غور خصوصیات ہیں۔
اجزائے ترکیبی کے اِن لوازم کے ساتھ شاخ درشاخ اور بہت سی ضروری چیزیں ہیں جن پر گفتگو کرنا فن ِ ادب و انشا کے ایک طالب علم کی بحث آرائیوں کا خوشگوار مشغلہ ہوسکتا ہے، یہاں اُن کی تفصیل پیش کرنا نہ صرف فرصت کا طلب گار ہے، بلکہ اِس لحاظ سے غیر ضروری بھی ہے کہ ’’ادبستان‘‘ کے تذکرے میں اہم ترین امور کا خودبخود اِظہار ہوجائے گا۔
ادب کا مقصد: ہر ایک علم و فن کا کچھ نہ کچھ مقصد یا فائدہ ہوتا ہے، یا کم از کم اُس سے اِس قسم کی توقع رکھی جاتی ہے… پھر ادبِ لطیف کا مادّی مقصد کیا ہے…؟
ادب کے متعلق مشرقی و مغربی آرا میں بہت کچھ اختلافات ہیں، اور اِس چیز نے ہماری فکر آرائیوں کو کافی دُشوار اور پیچیدہ کردیا ہے، تاہم ایک سرسری غوروفکر کے بعد اِس نتیجے پر پہنچنا پڑتا ہے کہ بظاہر ادب کا کوئی خاص مادّی یا ٹھوس مقصد وفائدہ معلوم نہیں ہوتا۔ فنونِ لطیفہ میں اکثر ایسے فن ملیں گے، جو اپنے مادّی نفع اور مقصد سے بیگانہ ہوں گے، اور اِس لحاظ سے کہا جاسکتا ہے کہ ادب کا وہی مقصد ہے جو شاعری یا مصوری کا ہے، اور اُن کی طرح اِس کی پرواز بھی محض ایک قسم کی دماغی سرخوشی اور فکری سرمستی تک محدود ہے۔
شاعری اور مصوری کی طرح ادب بھی ہماری معنویات کو بیدار کرتا، روحیت کو گدگداتا، اور جمالیاتی احساسات کو چھیڑتا ہے،… اور اس کے لیے یہی کافی ہے…!
یہ ذکر اِس لیے چھیڑا گیا کہ اکثر علمی دماغ ادب سے مادّی فوائد حاصل کرنے کے شائق نظر آتے ہیں، مگر جیسا کہ کہا جاچکا ہے، اُس کے لیے اِس قسم کے فوائد پیش کرنا لازمی نہیں!‘‘
[’’ادبستان‘‘، مصنف: خلیقی ؔ دہلوی۔ صفحات 7 تا9]
اختر شیرانی
ربط
http://fridayspecial.com.pk/18277
 
استاد محترم اور نایاب بھیا نے تو آسان پیرایہ میں بتا ہی دیا تھا ۔۔۔
سرچ کے دورن مجھے یہ مضمون ملا تو سوچا وہ بھی یہاں شیر کر دوں ۔۔۔ ۔
تاکہ موضوع سے متعلق مواد ایک جگہ جمع ہو جائے ۔۔۔
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔
ادب کیا ہے؟
ڈاکٹر جمیل جالبی
یہ سوال اکثر پوچھا جاتا ہے کہ ’’ادب‘‘ کیا ہے؟ اس کا جواب دینے سے پہلے اگر میں آپ سے یہ سوال کروں کہ ’’زندگی‘‘ کیا ہے تو آپ کے پاس اس کا کیا جواب ہو گا؟ اور دلچسپ بات یہ ہے کہ جو جواب بھی آپ دیں گے وہ جامع نہیں ہو گا، اس میں صرف وہ زاویہ ہو گا جس سے خود آپ نے زندگی کو دیکھا ہے یا دیکھ رہے ہیں۔ ضروری نہیں ہے کہ دوسرا بھی اس سے اتفاق کرے یا آپ کے جواب سے مطمئن ہو جائے۔ یہ سوال بھی کہ ادب کیا ہے، اسی نوعیت کا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ خود ادب بھی ’’زندگی‘‘ کے اظہار کا نام ہے۔ ادب چونکہ لفظوں کی ترتیب و تنظیم سے وجود میں آتا ہے اور ان لفظوں میں جذبہ و فکر بھی شامل ہوتے ہیں اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ لفظوں کے ذریعے جذبے، احساس یا فکر و خیال کے اظہار کو ادب کہتے ہیں۔ یہ ایک ایسی تعریف ہے جس میں کم و بیش ہر وہ بات جس سے کسی جذبے، احساس یا فکر کا اظہار ہوتا ہے اور جو منہ یا قلم سے نکلے، ادب کہلائے گی۔ لیکن میری طرح یہ آپ بھی جانتے ہیں کہ ہر وہ بات جو منہ سے نکلتی ہے یا ہر وہ بات جو قلم سے ادا ہوتی ہے، ادب نہیں ہے۔ عام طور پر اخبار کے کالم یا اداریئے ادب نہیں کہلاتے حالانکہ ان میں الفاظ بھی ہوتے ہیں اور اثر و تاثیر کی قوت بھی ہوتی ہے۔ ہم سب خط لکھتے ہیں لیکن ہمارے خطوط ادب کے ذیل میں نہیں آتے لیکن اس کے برخلاف غالب کے خطوط ادب کے ذیل میں آتے ہیں۔ غالب اور دوسرے خطوط کے فرق کو دیکھتے ہوئے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ایسی تحریر کو ادب کہا جا سکتا ہے جس میں الفاظ اس ترتیب و تنظیم سے استعمال کیے گئے ہوں کہ پڑھنے والا اس تحریر سے لطف اندوز ہو اور اس کے معنی سے مسرت حاصل کرے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب لفظ و معنی اس طور پر گھل مل گئے ہوں کہ ان میں ’’رس‘‘ پیدا ہو گیا ہو۔ یہی رس کسی تحریر کو ادب بناتا ہے۔ اس مسرت کا تعلق ہمارے باطن میں چھپے ہوئے اس احساس سے ہو گا جس کا ہمیں ادراک ہوا ہے۔ یہ وہ تحریر ہو گی جس نے ہمارے شعور اور ہمارے تجربوں کے خزانے میں اضافہ کیا ہے اور اَن دیکھے تجربات سے اس طرح مانوس کر دیا ہے کہ وہ تجربے ہمارے اپنے تجربے بن گئے ہیں۔ یہ وہ تحریر ہو گی جس کا اثر وقتی اثر کا حامل نہیں ہو گا بلکہ اس میں اَبدیت ہو گی اور جو زمان و مکان سے آزاد ہو کر آفاقیت کی حامل ہو گی۔ انہی خصوصیات کی وجہ سے مثنوی مولانا روم، دیوانِ حافظؔ ، کلامِ غالبؔ ، اشعارِ میر، تخلیقاتِ شیکسپئر اور مکالماتِ افلاطون ہمیں آج بھی متاثر کرتے ہیں اور ہمارے تجربات و شعور میں، احساس مسرت کے ساتھ اضافہ کرتے ہیں۔ جس تحریر میں بیک وقت یہ سب خصوصیات موجود ہوں گی وہ تحریر ادب کہلائے گی اور جتنی زیادہ یہ خصوصیات ہوں گی وہ تحریر اسی اعتبار سے عظیم ادب کے ذیل میں آئے گی۔

ادب کے سلسلے میں یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ ادب زندگی میں کسی چیز کا ’’بدل‘‘ نہیں ہے اور اگر اس کی حیثیت کسی اور چیز کے بدل کی ہے تو پھر وہ ادب نہیں ہے۔ ادب ایسا اظہار ہے جو زندگی کا شعور و ادراک حاصل کرنے کے لیے بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ ادب میں انسان کے تخیلی تجربے کو ابھارنے کی ایسی زبردست قوت ہوتی ہے کہ پڑھنے والا اس تجربے کا ادراک کر لیتا ہے۔ ادب میں متحرک کرنے اور ہماری روح میں موجود خفتہ صلاحیتوں کو بیدار کرنے کی غیر معمولی قوت ہوتی ہے۔ ادب کے ذریعے ہم زندگی کا شعور حاصل کرتے ہیں۔ یہ ادب کا خاص منصب ہے۔ ادیب ایک ایسا انسان ہے جس میں ادراک کی صلاحیت بھی ہوتی ہے اور اس کے اظہار کی قوت بھی۔ اس کے ادراک و اظہار میں اتنی داخلی و خارجی وسعت اور تہ داری ہوتی ہے کہ ادب انفرادی و ذاتی ہوتے ہوئے بھی آفاقی ہوتا ہے۔ جتنا بڑا ادیب ہو گا اس کے تجربے کا تنوع، اس کا شعور و ادراک اور اس کا اظہار اتنا ہی بڑا اور آفاقی ہو گا۔

ادب کے ذریعے جیسا کہ میں نے کہا ہے، ہم دوسروں کے تجربوں میں شریک ہو جاتے ہیں اسی لیے ادب کی سطح پر ہم اپنی ذات سے بلند ہو جاتے ہیں۔ ادب عمل ادراک کی غیر معمولی قوت کے ذریعے ہماری عام ہستی کو بیدار کر کے شعور کی ایسی سطح پر لے آتا ہے جو اس کے بغیر خفتہ رہتی۔ اگر ادیب نہ ہوتا اور سعدیؔ ، میرؔ ، غالبؔ ، اقبالؔ ، حافظؔ ، شیکسپیئر، گوئٹے، دانتے وغیرہ نہ ہوتے تو انسان آج بھی معصوم بچے کی طرح ہوتا۔ ادب کے ذریعے ہی ہم بلوغت کے درجے پر آئے ہیں۔ زندگی بسر کرتے ہوئے ہم پر بہت سے جذبے گزرتے ہیں، بہت سے ادھورے معنی ہمارے ذہن میں ابھرتے ہیں، نامعلوم احساس سے ہمیں واسطہ پڑتا ہے، ہم میں بغاوت کا میلان پیدا ہوتا ہے لیکن یہ سب ہمارے لیے گونگے اور بے نام ہوتے ہیں۔ اور یونہی گزر جاتے ہیں لیکن جب ان سے ہمارا واسطہ ناول، افسانے، شاعری، ڈرامے یا مضمون میں لفظوں کی حسین، پُر رس اور جاندار ترتیب و تنظیم کے ساتھ پڑتا ہے تو ہم ان کا ادراک حاصل کر لیتے ہیں اور یہ جذبے، یہ احساس، یہ میلان، یہ تجربے ہمارے شعور کا حصہ بن جاتے ہیں اور اس طرح ہم زندگی میں نئے معنی تلاش کر لیتے ہیں۔

ادب زندگی میں نئے معنی تلاش کرنے کا نام ہے اور اسی لیے ادب زندگی کے شعور کا نام ہے۔ اسی شعور کے ذریعے ہم بدلتے ہیں۔ ہم وہ نہیں رہتے جو اس وقت ہیں اور اسی سے ہمارے اندر قوت عمل پیدا ہوتی ہے۔ زندگی کے ایسے تجربے جن سے ہمیں کبھی واسطہ نہیں پڑا، ادب کے ذریعے براہِ راست ہمارے تجربے بن جاتے ہیں اور ہمیں اور ہمارے اندازِ فکر کو بدل دیتے ہیں۔ جب میں یہ کہتا ہوں کہ ادب کے ذریعے ہم دوسروں کے تجربوں میں اس طور پر شریک ہو جاتے ہیں کہ وہ ہمارے تجربے بن جاتے ہیں تو شاید یہ بات آپ کو پراسرار معلوم ہو لیکن اسے ایک انتہائی مثال سے یوں سمجھیے کہ اپنی محبوبہ کو رقابت یا حسدکی شدت کے زیر اثر قتل کرنے کا تجربہ ہمارے لیے حاصل کرنا آسان نہیں ہے لیکن شیکسپیئر کے اوتھیلو کے ساتھ شریک ہو کر یہ تجربہ ہمارا اپنا تجربہ بن جاتا ہے۔ اسی طرح لیڈی میکبتھ کا تجربہ میرا اپنا تجربہ بن جاتا ہے۔ فاؤسٹ کو پڑھ کر گوئٹے کے اور اینا کرینا، پڑھ کر ٹالسٹائی کے تجربات میرے تجربات بن جاتے ہیں۔ مولانا روم کی مثنوی اور گلستان و بوستان کے تجربے میرے اپنے تجربات بن جاتے ہیں۔ ادب کا یہی کام ہے۔

اب آپ یہاں یہ سوال اٹھا سکتے ہیں کہ آخر کیا ان تجربات کا ادراک کیے بغیر زندگی نہیں گزار سکتے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یقیناًگزار سکتے ہیں لیکن یہ زندگی حیوانی سطح پر بسر ہو گی اگر ہم زندگی کو صرف اپنے تجربات تک محدود کر لیں تو زندگی اندھا کنواں بن کر رہ جائے اور عین ممکن ہے کہ ہمارے تجربات کوئی خطرناک صورت اختیار کر لیں اور ہمارے اندر ایک ایسا عدم توازن پیدا ہو جائے جو زندگی کو آگے بڑھانے کے بجائے اسے مثبت راستے سے ہٹا دے۔ ادب کے ذریعے جب دوسروں کے بے شمار چھوٹے بڑے تجربے ہمارے شعور و ادراک کا حصہ بنتے ہیں تو نہ صرف ہمارا تزکیہ (کیتھارس) ہو جاتا ہے بلکہ اس سے زندگی کا توازن بھی درست رہتا ہے۔ عام تجربہ گونگا ہوتا ہے۔ ادیب اسے زبان دے کر نہ صرف ہمیں اس کا ادراک کرا دیتا ہے بلکہ ہمارے باطن کو بھی روشن کر دیتا ہے۔

ہم نے اکثر یہ کہتے سنا ہے کہ یہ بات حقیقت نہیں محض شاعری یا افسانہ ہے۔ کہنے والا جب یہ بات کہتا ہے تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ شاعری اور افسانہ دراصل جھوٹ ہوتے ہیں لیکن انہیں اگر تجربے کے حوالے سے دیکھا جائے تو اس ’’بظاہر‘‘ جھوٹ میں انسانی تجربے کی وہ سچائی چُھپی ہوتی ہے جو ہمیں نیا شعور عطا کرتی ہے۔ آپ چاہیں تو اسے یوں کہہ سکتے ہیں کہ ادب ایسا جھوٹ ہے جو ہمیں سچائی کا نیا شعور عطا کرتا ہے اوراسی لیے اب تک انسان اورانسانی معاشرہ زندہ و باقی ہے۔ ہمیں ہوا کی طرح ادب کی ضرورت بھی ہمیشہ باقی رہے گی۔ ادب آزادی کی روح کا اظہار ہے۔ ادب سچائی کی تلاش کا مؤثر ذریعہ ہے لفظ چونکہ ہر دوسرے میڈیم سے زیادہ طاقتور چیز ہے اسی لیے ادب دوسرے فنونِ لطیفہ سے زیادہ مؤثر چیز ہے۔

آج کی جدید زندگی میں سائنس پر غیر معمولی زور ہے۔ سائنس نے اشیا کو تو ہمارے شعور میں داخل کر دیا ہے لیکن فکر و احساس کو زندگی سے نکال باہر کیا ہے اور اسی وجہ سے اس وقت ساری دنیا ایک ہولناک عدم توازن کا شکار ہے۔ زندگی ساری ترقیوں اور حیرت ناک ایجادات و انکشافات کے باوجود معنویت و توازن سے عاری ہو گئی ہے۔ اسی لیے ساری دنیا اس وقت ایک ایسے نظام خیال اور تصورِ حقیقت کی تلاش میں ہے جس سے انسان اپنے وجود کو بامعنی بنا سکے۔ یہ کام ادب کے ذریعہ ہی ہو سکتا ہے۔ ادب ایک طرف ہمیں مسرت بہم پہنچاتا ہے، احساس جمال سے لطف اندوز کرتا ہے دوسروں کے تجربات سے ہمارا تزکیہ (کیتھارس) کرتا ہے اور دوسری طرف لفظوں کی جمالیاتی ترتیب سے احساس، جذبے یا خیال کو غیر ضروری عناصر سے پاک کر کے اس طور پر سامنے لاتا ہے کہ ہم بھی اسے پڑھتے ہوئے غیر معمولی بلندیوں پر پہنچ جاتے ہیں۔ ادب جن دنیاؤں میں ہمیں لے جاتا ہے وہ حقیقی دنیا سے زیادہ حقیقی ہوتی ہیں۔ پروست نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ہماری اصل زندگی ہماری نظروں سے اوجھل رہتی ہے۔ ادب کا کام یہ ہے کہ وہ اسے ہمارے سامنے لے آئے اور اس طرح ہمیں خود ہم سے واقف کرا دے۔ غالبؔ ، سرسید، حالیؔ اور اقبالؔ نے اپنی تحریروں سے ہمیں خود ہم سے واقف کرا کر اس طور پر بدلا ہے کہ ہم نے گویا نیا جنم لیا ہے۔ ادب یہی کام کرتا ہے اور یہی اس کا منصب ہے۔

اس ساری بحث کو سامنے رکھ کر جب ہم خود سے یہ سوال پوچھتے ہیں کہ آخر ہمیں یہ سوال کہ ادب کیا ہے پوچھنے کی کیوں ضرورت پیش آئی تو ہمارے باطن میں چھپے ہوئے اس چور سے آمنا سامنا ہوتا ہے جو ہمیں سائنس کے زیرِ اثر، ادب میں خالص افادیت کی تلاش پر اکسا رہا ہے۔ یہ سوال ہم اس لیے کرتے ہیں کہ ہماری چُھپی ہوئی خواہش اب یہ ہے کہ ادب بھی آج وہی کام کرے جو ایئر کنڈیشنر کرتا ہے جو پانی کو ٹھنڈا کر کے ریفریجریٹر کرتا ہے یا جو ہمارے بھجیا کپڑوں کی شکنیں، سلوٹیں دور کر کے استری کرتی ہے اور چونکہ ادب ہماری اس خواہش کو پورا نہیں کرتا اس لیے کہ یہ اس کا منصب نہیں ہے تو ہم زندگی میں ادب کی بنیادی اہمیت سے منکر ہو جاتے ہیں۔ ادب کا کام تو زندگی میں معنی تلاش کرنا ہے اور ان کا رشتہ ماضی سے قائم کر کے مستقبل سے جوڑ دینا ہے۔ ادب کا حوالہ تو خود زندگی ہے اور وہ اسے ہی آگے بڑھاتا ہے۔ ادب تو انسانی تجربے کے مکمل علم و آگاہی کا نام ہے اور یہ علم و آگاوہ غیر معمولی مرتب و منظم صلاحیت ہے جس کے اظہار کی صلاحیت صرف با شعور و دردمند انسان کے پاس ہے۔ وہ انسان جو نہ صرف اس کے اظہار پر قدرت رکھتا ہے بلکہ جس کا اظہار سچا بھی ہے اور حسین بھی، مکمل بھی ہے اور مؤثر و مثبت بھی۔ اس لیے ادب تنقیدِ حیات ہے اور زندگی کے گہرے پانیوں میں ڈوب کر سراغِ زندگی پانے کا نام ہے۔

(بحوالہ: ماہنامہ ’’چشمِ بیدار‘‘ لاہور۔ مئی ۲۰۰۹ء)

ماخوز از:اسلامک ریسرچ اکیڈمی کراچی
ڈاکٹر جمیل جالبی ایک بہت بڑا نام ہے، تحقیق و تنقید میں بھی اور تخلیقات میں بھی۔
مجھے یقین ہے کہ آپ کے چاروں سوالوں کا جواب ڈاکٹر صاحب کی اس تحریر کی صورت میں مل چکا ہے۔
 
عصرِ حاضر میں ادب کی اہمیت
…شاہنواز فاروقی
…اسلامی تہذیب کے دائرے میں مسلمانوں کے علم، ذہانیت اور توانائی کا بڑا حصہ دو چیزوں پر صرف ہوا ہے۔ ایک مذہب پر اور دوسرا ادب پر۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں نے مذہبی علم کی اتنی بڑی روایت پیدا کی ہے کہ اس کے آگے تمام ملتوں کا مجموعی مذہبی علم بھی ہیچ ہے۔ اسلامی تہذیب کے دائرے میں موجود ادب کی روایت کو دیکھاجائے تو اس کا معاملہ بھی یہ ہے کہ پوری دنیا میں اس کا کوئی ثانی نہیں۔ لیکن آج مسلم معاشروں کا حال یہ ہوگیا ہے کہ کروڑوں پڑھے لکھے کہلانے والے افراد بھی چاقو مارنے کے انداز میں یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ ادب کا فائدہ کیا ہے؟ آخر ادب کیوں تخلیق کیا جائے اور اسے کیوں پڑھا جائے…؟فائدے کے اس سوال کا تعلق عصر حاضر کی اس عمومی معاشرتی صورت حال سے ہے جس میں پیسہ اعلان کیے بغیر معاشرے کا خدا بن کر بیٹھ گیا ہے اور کروڑوں لوگ اعلان کے بغیر اس کی پوجا کررہے ہیں ۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ادب کی تخلیق اور اس کے مطالعے کی افادیت کے بارے میں سوال اٹھانے والے دراصل شاعروں ادیبوں کی معاشی حالت اور ادب کے مطالعے کے معاشی اور سماجی فائدے کے بارے میں سوال اٹھاتے ہیں۔ ایک ایسی فضا میں ادب کیا مذہبیت تک ’’افادی‘‘ ہوجاتی ہے اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں مذہبیت کا ایک پہلو افادی ہوتا جارہا ہے۔ لیکن بعض لوگ جب ادب کے فائدے کا سوال اٹھاتے ہیں تو وہ دراصل یہ جاننا چاہتے ہیں کہ زندگی میں ادب کی اہمیت کیا ہے۔ اس کا وظیفہ یا Function کیا ہے اور کیا ادب کی تخلیق اور اس کا مطالعہ معاشرے کے لیے ناگزیر ہے۔؟ جہاں تک پہلی قسم کے لوگوں کے سوال کے جواب اور اس مسئلہ کے طے حل کا تعلق ہے تو اس کے لیے شاعروں، ادیبوں کی معاشی حالت کو بہتر بنانا ضروری ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ اگر کھلاڑیوں کی طرح ہمارے بینک شاعروں ادیبوں کو لاکھوں روپے کے مشاہرے پر ملازم رکھنے لگیں تو ادب کی افادیت کے سلسلے میں سوال اٹھانے والے اپنے بال بچوں کو شاعر ادیب بنانے کے لیے بیتاب ہوجائیں گے البتہ جہاں تک ان لوگوں کا تعلق ہے جو معاشرے میں ادب کے کردار یا اس کے وظیفے کے بارے میں سوال اٹھاتے ہیں تو ان کے سوال کا قدرے تفصیل سے جواب دینا ضروری ہے۔ اس لیے کہ ہمارے زمانے میں ادب کیا مذہب کے حقیقی کردار کی تفہیم بھی دشوار ہوگئی ہے۔ چنانچہ سوال یہ ہے کہ معاشرے میں ادب کی اہمیت کیا ہے۔؟اسلامی تہذیب میں ادب کی حیثیت مذہب کے تو سیعی دائرے کی ہے۔ ہماری تہذیب میں ادب نہ کبھی معنی کا سرچشمہ رہا ہے نہ وہ کبھی مذہب سے جدا ہوا ہے۔ اس کے برعکس مغربی تہذیب میں ایک زمانہ وہ تھا جب ادب کی ضرورت ہی کا انکار کردیا گیا اور پھر ایک دور وہ آیا جس میں کہا گیا کہ مذہب ختم ہوگیا اب ادب مذہب کی جگہ لے گا۔ ہماری تہذیب میں ادب کے حوالے سے یہ افراط وتفریط کبھی موجود نہیں رہی۔ اس لیے کہ اسلامی تہذیب میں معنی کا چشمہ مذہب ہے چنانچہ ہماری تہذیب میں ادب کا کام یہ ہے کہ وہ معلوم کو محسوس، مجرّد کو ٹھوس اور غیب کو حضور بنائے۔ ادب کے اس کردار نے ہماری روایت میں حقیقت اور مجاز یا Reality اور Appearance کی اصطلاحوں کو جنم دیا ہے اور ہمارے یہاں بڑا ادب اس کو سمجھا جاتا ہے جو بیک وقت حقیقت اور مجاز سے متعلق ہو۔ ہماری تہذیب میں حقیقت کا مطلب خدا اور مجاز کا مطلب ایک سطح پر انسان اور دوسری سطح پر یہ پوری مادی کائنات ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ حقیقت اور مجاز میں تعلق کیا ہے؟ ہماری تہذیبی اور ادبی روایت میں مجاز حقیقت کا جلوہ، اس کی علامت اور اس کا ایک اشارہ ہے اور ان کے درمیان تعلق کی نوعیت یہ ہے کہ انسان مجاز کے ذریعے حقیقت سے رشتہ استوار کرتا ہے۔ اس کا فہم حاصل کرتا ہے۔ اس طرح مجاز کی محبت بھی حقیقت کی محبت بن جاتی ہے۔ ہمارے ادب میں محبت اور ہوس کی اصطلاحیں مروج ہیں۔ محبت کو اچھا اور ہوس کو برا سمجھا جاتا ہے۔ مگر لوگ ان اصطلاحوں کے فرق پر مطلع نہیں ہیں۔ محبت کا مفہوم یہ ہے کہ انسان مجاز کے وسیلے سے بیک وقت مجاز اور حقیقت دونوں سے جڑا ہوا ہے۔ اس کے برعکس محبت ہوس سے اس وقت تبدیل ہوتی ہے جب انسان صرف مجاز میں الجھ کر رہ جائے اور مجاز کے ذریعے حقیقت سے تعلق پیدا نہ کر پائے یا اسے مجاز میں حقیقت کا جلوہ نظر آنا بند ہوجائے۔ ایک شعر ہے۔

ہر بو الہوس نے حُسن پرستی شعار کی
اب آبروئے شیوہ اہل نظر گئی

اس شعر کا مفہوم یہ ہے کہ شعور حسن صرف مجاز تک محدود ہوگیا ہے اور نظر کی اس کوتا ہی نے محبت کو ہوس میں تبدیل کردیا ہے لیکن ہوس میں مبتلا لوگوں کو اس کا ادراک نہیں چنانچہ وہ ہوس پرستی کو بھی محبت سمجھے چلے جارہے ہیں۔ ہماری شاعری بالخصوص غزل کی شاعری اور داستان کی روایت کا کمال یہ ہے کہ اس نے حقیقت اور مجاز کی یکجائی اور پیشکش کو اپنا ہدف بنایا ہے۔ یہ اتنا بڑا تخلیقی اور تہذیبی کارنامہ ہے، جس کی مثال نہیں ملتی۔ اس کارنامے کے ذریعے معلوم کو محسوس، مجرّد کو ٹھوس اور غیب کو حضور بنایا گیا ہے۔ ہماری غزل کی شاعری کا قابل ذکر حصہ حقیقت اور مجاز کی وحدت کا حامل ہے اور داستانوں میں ایک سطح پر روحانی تجربے کا بیان ہے اور دوسری سطح پر عام کہانی کا بیان ہے۔ لیکن ادب معلوم کو محسوس مجرد کو ٹھوس اور غیب کو حضور کیسے بناتا ہے؟ اس کی ایک مثال اقبال کی شاعری ہے۔ اقبال کی شاعری میں مومن اور شاہین دو تصورات کی حیثیت رکھتے ہیں مگر اقبال نے جذبے، احساس اور مخصوص تہذیبی اور تاریخی تناظر کے ذریعے انہیں کروڑوں لوگوں کا تجربہ بنادیا ہے۔ اقبال کی شاعری کے پردے پر مومن اور شاہین ٹھیک اسی طرح طلوع ہوتے ہیں جیسے سینما کے پردے پر ہیروز نمودار ہوتے ہیں۔ اس صورت حال کی ایک اور مثال قرۃ العین کے ناول ہیں۔ تاریخ ایک فلسفہ اور ایک مجرد تصور ہے۔ لیکن قرۃ العین حیدر کے ناولوں میں وہ انسانی کرداروں ان کی آرزئوں تمنائوں اور عمل کی صورت میں سانس لیتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ جبلت اور جعلی اخلاقیات دو تصورات ہیں لیکن غلام عباس نے اپنے معرکہ آراء افسانے آنندی میں اخلاقیات اور جبلت کی کشمکش اور جبلت کی جعلی اخلاقیات پر فتح کے حوالے سے ایک شہر آباد ہوتا دکھا دیا ہے۔ معلوم کو محسوس، مجرد کو ٹھوس اور غیب کو حضور بنانے کی اس اہلیت کی وجہ سے ادب کو باقی تمام علوم وفنون پر فوقیت حاصل ہے۔ لیکن ادب کی اہمیت کا معاملہ یہیں تک محدود نہیں۔سلیم احمد نے کہا ہے۔

کوئی نہیں جو پتا دے دلوں کی حالت کا
کہ سارے شہر کے اخبار ہیں خبر کے بغیر

یہ اخبار کی رسائی اور نارسائی دونوں کا بیان ہے۔ اخبار اور ادب میں ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ اخبار ظاہر کا ادب اور ادب باطن کا اخبار ہے۔ ظاہر کا ادب صرف یہ بتاسکتا ہے کہ ظاہر میں کیا ہورہا ہے لیکن انسان، معاشرے اور تہذیب کے باطن کی خبردینا صرف ادب کا کام ہے۔ عام خیال یہ ہے کہ سرسید احمد خان ہمارے معاشرے میں جدیدیت کی پہلی اور سب سے بڑی علامت ہیں لیکن سلیم احمد نے اپنی کتاب غالب کون میں دکھایا ہے کہ وہ زندگی جس کا تجربہ آج ہم کررہے ہیں اس کا شعور غالب کے یہاں بہت پہلے سے موجود تھا۔ اسی طرح اقبال نے عہد غلامی میں اسلام اور مسلمانوں کے عروج کے ترانے گائے ہیں اور جس وقت یہ ترانے تخلیق ہورہے تھے بہت سے لوگ انہیں ’’مجذوب کی بڑ‘‘ سمجھتے تھے لیکن حالات وواقعات نے ثابت کیا کہ اقبال کا تخلیقی تصور اس دنیا کو وضاحت کے ساتھ دیکھ رہا تھا جو ابھی پیدا ہونی تھی۔ دوستو وسکی کا زمانہ روسی انقلاب سے پہلے کا زمانہ ہے لیکن دوستو وسکی کے ناولوں میں انقلاب کی چاپ کو صاف طور پر سنا جاسکتا ہے۔ ادب کے متن یا Text کی کثیر الجہتی یا Multi Dimensionality ادب کا ایک اور بہت بڑا امتیاز ہے۔ اس بات کا مفہوم یہ ہے کہ تمام علوم اپنی روایت اور اپنے مخصوص تناظر کی پاسداری کرتے ہیں۔ نفسیات، نفسیات کی روایت اور تناظر کو کام میں لاتی ہے۔ عمرانیات اپنی مخصوص روایت اور تناظر کی اسیر ہوتی ہے لیکن ادب تجربے کی تشکیل اور ابلاغ کے سلسلے میں بے انتہاء وسیع المشرب ہوتا ہے چنانچہ ادب میں مذہب، فلسفے، نفسیات، عمرانیات اور طبیعات کے دھارے باہم مدغم ہو کر ایک نئی صورت اختیار کررہے ہوتے ہیں۔ یہ کام شاعری میں بھی ہوتا ہے اور افسانے اور ناول میں بھی۔ یہاں تک کہ ادب کی اعلیٰ تنقید بھی ادب کی وسیع المشربی سے فیض یاب ہوتی ہے۔ اس بات کا اندازہ کرنا ہو تو اردو ادب میں فراق، عسکری اور سلیم احمد اور انگریزی میں ڈی ایچ لارنس اور ٹی ایس ایلیٹ کی تنقید پڑھنی چاہیے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے تنقید کو بھی تہذیبی بنا دیا ہے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ زبان کی معنویت اور قوت کا اظہار یا تو مذہب میں ہوتا ہے یا ادب میں۔ اعلیٰ مذہبی اور ادبی متن کا فرق یہ ہے کہ مذہبی متن قاری کو لفظ اور معنی کی گہرائی سے آشنا کرتا ہے اور ادبی متن لفظ اور معنی کے تنوع سے۔ چنانچہ یہ ممکن ہی نہیں کہ مذہب اور ادب کے مطالعے کے بغیر کسی کو زبان آجائے۔ لوگ کہتے ہیں کہ ادب بالخصوص شاعری کا ترجمہ ممکن نہیں مگر لوگ اس مسئلے پر زیادہ غور نہیں کرتے۔ ادب کے دو پہلو ہیں ایک تفہیمی اور دوسرا تاثیری۔ تفہیم کا تعلق خیال سے ہوتا ہے اور خیال کا ترجمہ بڑی حد تک ممکن ہے مگر تاثیر کا تعلق کسی زبان کی پوری تہذیب، تاریخ، اظہار کے سانچوں اور اسالیب سے ہے چنانچہ اس کا ترجمہ ممکن نہیں ہوپاتا۔ اس نکتہ سے یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ ادب کسی قوم اور کسی زبان کی پوری تہذیب اور مزاج کا اظہار ہوتا ہے اس لیے ادب کے مطالعے کے ذریعے ہم کسی تہذیب کی روح تک پہنچ سکتے ہیں۔
ربط
https://groups.google.com/forum/#!topic/bazmeqalam/YMgEbWx_6E4
 
ادب: مفہوم اور مقصد
اخترؔ شیرانی مرحوم، برعظیم ہندو پاک میں تقریباً تیس سال سے زائد عرصہ تک بحیثیت شاعر چھائے رہے۔ لیکن شروع سے ہی اخترؔ شیرانی مرحوم کو مخالفین نے تو خیر ایسا ہی کرنا تھا لیکن ناسمجھ حامیوں نے بھی صرف ’’رومانی شاعر‘‘ کی حیثیت میں پیش کیا۔ ۔۔۔۔۔۔۔
شاعری اور مصوری کی طرح ادب بھی ہماری معنویات کو بیدار کرتا، روحیت کو گدگداتا، اور جمالیاتی احساسات کو چھیڑتا ہے،… اور اس کے لیے یہی کافی ہے…!
یہ ذکر اِس لیے چھیڑا گیا کہ اکثر علمی دماغ ادب سے مادّی فوائد حاصل کرنے کے شائق نظر آتے ہیں، مگر جیسا کہ کہا جاچکا ہے، اُس کے لیے اِس قسم کے فوائد پیش کرنا لازمی نہیں!‘‘
[’’ادبستان‘‘، مصنف: خلیقی ؔ دہلوی۔ صفحات 7 تا9]
اختر شیرانی
ربط
http://fridayspecial.com.pk/18277
عصرِ حاضر میں ادب کی اہمیت
…شاہنواز فاروقی
…اسلامی تہذیب کے دائرے میں مسلمانوں کے علم، ذہانیت اور توانائی کا بڑا حصہ دو چیزوں پر صرف ہوا ہے۔ ایک مذہب پر اور دوسرا ادب پر۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں نے مذہبی علم کی اتنی بڑی روایت پیدا کی ہے کہ اس کے آگے تمام ملتوں کا مجموعی مذہبی علم بھی ہیچ ہے۔ ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔ اس نکتہ سے یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ ادب کسی قوم اور کسی زبان کی پوری تہذیب اور مزاج کا اظہار ہوتا ہے اس لیے ادب کے مطالعے کے ذریعے ہم کسی تہذیب کی روح تک پہنچ سکتے ہیں۔
ربط
https://groups.google.com/forum/#!topic/bazmeqalam/YMgEbWx_6E4


دیکھئے کتنا قیمتی کام ایک جگہ جمع ہو گیا!
 
دیکھئے کتنا قیمتی کام ایک جگہ جمع ہو گیا!
جانتے ہیں چاچو یہ خیال میرے ذہن میں کہاں سے آیا ۔۔۔
کل ہم کچھ احباب "ہندوستانی مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی " پر گفتگو کر رہے تھے ۔دیر رات تک گفتگو ہوتی رہی کوئی مسلمانوں کو اس کا ذمہ دار قرار دے رہا تھا ۔کوئی حکومت کو ۔۔۔
اخیر میں یہ کہتے ہوئے میں نے مجلس کو وائنڈ اپ کرتے ہوئے کہا کہ جو بھی کمی ہے وہ سرف بحث کرنے سے حل نہیں ہونے والا ۔۔۔ہم سب پڑھے لکھے ہیں ۔ہمیں اپنے اپنے طور پر اپنی ذمہ داری نبھانی ہوگی ۔۔۔گھر ،خاندان ،آس پڑوس سے اپنی سطح پر کوششیں کرنی ہوگی ۔۔۔اور بات بات میں میں نے اس کے لئے ایک اسکول کھولنے کے ارادہ کا اظہار کیا ۔۔۔۔ اور اس کے یہ یہ مقاصد ہونگے وغیرہ ۔۔۔۔تو اسی درمیان میرےایک دوست نے کہا کہ میں بھی ایک اسکول کھولوں گا لیکن اس میں صرف لیٹریچر کی تعلیم ہوگی ۔۔۔تو ایک دوست نے پوچھا کس زبان میں لٹریچر پڑھاوگے ۔۔۔۔تو وہ بندہ کہنے لگالتریچر کی کوئی زبان نہیں ہوتی ۔۔۔اور بس اسی پر بات چل نکلی تو بات کرتے کرتے صبح کے 4 بج گئے ۔۔۔۔نیند تو بہت تیز آ رہی تھی ۔۔۔ارادہ تھا پوری گفتگو کا خلاصہ لکھنے کا لیکن ہمت ہوئی نہیں ۔۔۔۔۔تو سوچا سوالات جو میرے ذہن میں آئے اور گفتگو کے دوران آئے وہی لکھ دوں تاکہ یہی بہانے اور بھی معلومات میں اضافہ ہو جائے ۔۔۔۔۔واقعی یہی بہانے بہت کچھ جاننے کا موقع ملا ۔۔۔۔
 
آخری تدوین:
جانتے ہیں چاچو یہ خیال میرے ذہن میں کہاں سے آیا ۔۔۔
کل ہم کچھ احباب "ہندوستانی مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی " پر گفتگو کر رہے تھے ۔دیر رات تک گفتگو ہوتی رہی کوئی مسلمانوں کو اس کا ذمہ دار قرار دے رہا تھا ۔کوئی حکومت کو ۔۔۔
اخیر میں یہ کہتے ہوئے میں نے مجلس کو وائنڈ اپ کرتے ہوئے کہا کہ جو بھی کمی ہے وہ سرف بحث کرنے سے حل نہیں ہونے والا ۔۔۔ ہم سب پڑھے لکھے ہیں ۔ہمیں اپنے اپنے طور پر اپنی ذمہ داری نبھانی ہوگی ۔۔۔ گھر ،خاندان ،آس پڑوس سے اپنی سطح پر کوششیں کرنی ہوگی ۔۔۔ اور اس کے لئے میں نے ایک اسکول کھولنے کا ارادہ کیا ہے اور اس کے یہ مقاصد ہونگے وغیرہ ۔۔۔ ۔تو اسی درمیان میرےایک دوست نے کہا کہ میں بھی ایک اسکول کھولوں گا لیکن اس میں صرف لیٹریچر کی تعلیم ہوگی ۔۔۔ تو ایک دوست نے پوچھا کس زبان میں لٹریچر پڑھاوگے ۔۔۔ ۔تو وہ بندہ کہنے لگالتریچر کی کوئی زبان نہیں ہوتی ۔۔۔ اور بس اسی پر بات چل نکلی تو بات کرتے کرتے صبح کے 4 بج گئے ۔۔۔ ۔نیند تو بہت تیز آ رہی تھی ۔۔۔ ارادہ تھا پوری گفتگو کا خلاصہ لکھنے کا لیکن ہمت ہوئی نہیں ۔۔۔ ۔۔تو سوچا سوالات جو میرے ذہن میں آئے اور گفتگو کے دوران آئے وہی لکھ دوں تاکہ یہی بہانے اور بھی معلومات میں اضافہ ہو جائے ۔۔۔ ۔۔واقعی یہی بہانے بہت کچھ جاننے کا موقع ملا ۔۔۔ ۔
میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا
 
عصرِ حاضر میں ادب کی اہمیت
…شاہنواز فاروقی
…اسلامی تہذیب کے دائرے میں مسلمانوں کے علم، ذہانیت اور توانائی کا بڑا حصہ دو چیزوں پر صرف ہوا ہے۔ ایک مذہب پر اور دوسرا ادب پر۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں نے مذہبی علم کی اتنی بڑی روایت پیدا کی ہے کہ اس کے آگے تمام ملتوں کا مجموعی مذہبی علم بھی ہیچ ہے۔ ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔ اس نکتہ سے یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ ادب کسی قوم اور کسی زبان کی پوری تہذیب اور مزاج کا اظہار ہوتا ہے اس لیے ادب کے مطالعے کے ذریعے ہم کسی تہذیب کی روح تک پہنچ سکتے ہیں۔
ربط
https://groups.google.com/forum/#!topic/bazmeqalam/YMgEbWx_6E4
جانتے ہیں چاچو یہ خیال میرے ذہن میں کہاں سے آیا ۔۔۔
کل ہم کچھ احباب "ہندوستانی مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی " پر گفتگو کر رہے تھے ۔دیر رات تک گفتگو ہوتی رہی کوئی مسلمانوں کو اس کا ذمہ دار قرار دے رہا تھا ۔کوئی حکومت کو ۔۔۔
اخیر میں یہ کہتے ہوئے میں نے مجلس کو وائنڈ اپ کرتے ہوئے کہا کہ جو بھی کمی ہے وہ سرف بحث کرنے سے حل نہیں ہونے والا ۔۔۔ ہم سب پڑھے لکھے ہیں ۔ہمیں اپنے اپنے طور پر اپنی ذمہ داری نبھانی ہوگی ۔۔۔ گھر ،خاندان ،آس پڑوس سے اپنی سطح پر کوششیں کرنی ہوگی ۔۔۔ اور بات بات میں میں نے اس کے لئے ایک اسکول کھولنے کے ارادہ کا اظہار کیا ۔۔۔ ۔ اور اس کے یہ یہ مقاصد ہونگے وغیرہ ۔۔۔ ۔تو اسی درمیان میرےایک دوست نے کہا کہ میں بھی ایک اسکول کھولوں گا لیکن اس میں صرف لیٹریچر کی تعلیم ہوگی ۔۔۔ تو ایک دوست نے پوچھا کس زبان میں لٹریچر پڑھاوگے ۔۔۔ ۔تو وہ بندہ کہنے لگالتریچر کی کوئی زبان نہیں ہوتی ۔۔۔ اور بس اسی پر بات چل نکلی تو بات کرتے کرتے صبح کے 4 بج گئے ۔۔۔ ۔نیند تو بہت تیز آ رہی تھی ۔۔۔ ارادہ تھا پوری گفتگو کا خلاصہ لکھنے کا لیکن ہمت ہوئی نہیں ۔۔۔ ۔۔تو سوچا سوالات جو میرے ذہن میں آئے اور گفتگو کے دوران آئے وہی لکھ دوں تاکہ یہی بہانے اور بھی معلومات میں اضافہ ہو جائے ۔۔۔ ۔۔واقعی یہی بہانے بہت کچھ جاننے کا موقع ملا ۔۔۔ ۔
خوشی کی بات ہے ۔ تحریک ملنا بھی ایک بہت بڑی بات ہے!
رہی یہ بات کہ ’’لٹریچر کی کوئی زبان نہیں ہوتی‘‘ تو اُن سے پوچھا ہوتا کہ ’’بھائی اسپرانتو پڑھاؤ گے کیا؟‘‘
 
خوشی کی بات ہے ۔ تحریک ملنا بھی ایک بہت بڑی بات ہے!
رہی یہ بات کہ ’’لٹریچر کی کوئی زبان نہیں ہوتی‘‘ تو اُن سے پوچھا ہوتا کہ ’’بھائی اسپرانتو پڑھاؤ گے کیا؟‘‘
اس کو توکل ہی سمجھا دیا تھا۔۔۔
آخر چاچو شاگردتو آپ ہی کا ہوں نا :)
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
محترم اصلاحی بھائی
اساتذہ سے خاص توجہ کی گزارش مجھ جیسے استادوں کی جوتیاں سیدھی کرتے پیاس بجھانے والوں کو اس دھاگے میں پابند کر رہی ہے ۔
کہ صرف سنو پڑھو سمجھو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر میں کہ ٹھہرا عادت سے مجبور سدا کا بے صبرا ۔۔
جو دل میں آئے لکھ مارتا ہوں ۔ اس دعا کہ ساتھ " کوئی رہنما مل جائے مجھے منزل تک پہنچا آئے "
۔۔۔۔۔۔۔


زندگی اور ادب براہ راست اک دوسرے منسلک ہیں ۔ زندگی ہو یاکہ ادب ۔۔ دونوں کا مفہوم اپنے معنی میں اک بحر بےکنار ہے جس میں اختلاف رائے کے لاتعداد جزیرے ہیں ۔اور ان کی متفقہ " تعریف " ناممکن ہے ۔ کسی بھی زبان میں جب " ادب " کی بات کی جاتی ہے تو عام طور سے اس سے مراد وہ ادب ہوتا ہے جسے اردو زبان " ادب لطیف یا ادب جمیل " کا عنوان دیتی ہے ۔۔ یہ ادب وجدان کی گہرائی سے ابھرتا ہے ۔ سوچ و فکر و خیال کی راہ چلتے جامعیت خیال کی منزل پر پہنچ صدا کی صورت اپنا اظہار کرتا ہے ۔ یہ اظہار جو کسی بھی زبان میں " صدا " بن کر سامنے آتا ہے اپنی موزونیت و لطافت کی بنا پر " ادب " کہلاتا ہے ۔۔ ادب کے بنیادی ستون " خیال کی پرواز " اور " زبان پر گرفت " ہیں ۔
خیال " رنگینی ، گہرائی ، نزاکت اور مشاہدے کی قوت " کو ہمراہ لیئے جب کسی بھی زبان میں " ندرت بیان ، حسن ادا ، جدت ، روانی ، قدرت اظہار " سے صدا کی صورت " تحریر و تقریر" میں ڈھلتا ہے تو " ادب " سامنے آتا ہے ۔
" ادب " کیونکر جنم لیتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ یا ادب سے مقصود کیا ہے ۔۔ ؟
سرسری سی نگاہ میں ادب کا کوئی خاص مقصد سامنے نہیں آتا ۔ ادب لطیف و جمیل میں شامل بہت سے ایسے فنون لطیفہ ملتے ہیں جو کسی بھی " مادی " نفع اور مقصد سے بیگانے دکھتے ہیں ۔ اور اسی باعث یہ کہتے ہیں کہ ادب کا مقصد ادیب کی محض اک دماغی سرخوشی اور فکر کی مستی سے لطف اندوز ہوتے اپنے خیال کو دنیا کے سامنے لانا ہے ۔ چاہے یہ دنیا محض اک فرد پر مشتمل ہو ۔ اور دماغی سرخوشی کے حامل فکر کی مستی کو ہمراہ لیئے جب ایسے ادب کا مطالعہ کرتے ہیں تو ان کے خیال " معانی " سے جگمگا اٹھتے ہیں ۔ انہیں اپنی روح بیدار ہنستی کھیلتی جمالیاتی احساسات پر رقص کرتی نغمے چھیڑتی محسوس ہوتی ہے ۔ وہ نغمے جو کہ " زندگی " کے رنگوں سے سجے ہوتے ہیں ۔۔
اسی لیئے " ادب " کو کسی بھی " تہذیب " کا وہ کلیدی عنصر قرار دیا جاتا ہے جو کہ تہذیب کو ترقی کی راہ پر چلاتے اسے عظمت عطا کرتا ہے ۔۔۔۔۔کسی بھی تہذیبی معاشرے کے وہ فرد جو کہ معاشرے کی اصلاح کے طلبگار ہوتے اس اصلاح کی کوشش کرتے ہیں وہ اپنے " علم ذہانت توانائی " کو یا تو مذہب پر صرف کرتے ہیں یا کہ ان سے ادب کے چراغ روشن کرتے ہیں ۔
کسی بھی " تہذیب " میں ادب کی حیثیت یا تو " مذہب " کے ایسے توسیعی دائرے کی ہوگی جس میں تمام انسان سما جائیں ۔۔۔۔۔
یا پھر انسانیت کے ایسے توسیعی دائرے کی ہوگی جس میں تمام مذہب سما جائیں ۔۔
مشرقی اور مغربی تہذیبوں میں جنم لینے والا ادب بہر صورت " مذہب اور انسان " کے درمیان پیدا ہونے والے ان اختلافات پر مشتمل ہوتا ہے ۔ جو کہ " حقیقت و مجاز " کی تلاش میں ہر انسان کو پیش آتے ہیں ۔۔
ہر تہذیب میں ادب بہت سی اقسام میں تقسیم الگ الگ ناموں سے سامنے آتا ہے ۔۔۔اور اک ہی حقیقت کو اپنے ہمراہ رکھتا ہے ۔ یہ ادب کسی قوم اور کسی زبان کی پوری تہذیب اور مزاج کا اظہار ہوتا ہے۔ چاہے " فحش ادب ہو چاہے مزاحمتی ۔ چاہے تعمیری چاہے تنقیدی ۔
۔ ۔
(استاد محترم آسی بھائی کی تحاریر سے ماخوذ )
مجھ تحریر ماخوذ نہیں لگ رہی ہے کیونکہ نظریہ ادب آپ نے جو بیان کیا ہے وہ محترم آسی صاحب کے بیان کردہ نقاط سے قطعی مختلف ہے
 
Top