فاخر
محفلین
آج یو ٹیوب پر ٹہلتے ہوئے کسی لوکل فنکار کی گائی ہوئی یہ حمد سماعتوں سے گزری۔ اس حمد کا مطلع ہے:
’’جدھر دیکھتا ہوں جہاں دیکھتا ہوں‘‘
ہر شی میں تیرا نشاں دیکھتا ہوں (درست مصرعہ یوں ہوگا:’ ہر اک شی میں تیرا نشاں دیکھتا ہوں )
جب یہ مطلع دیکھا تو قدم رک گئے، کیوں کہ ناچیز و کم علم نے تقریباً 1 ڈیڑھ سال قبل اسی مطلع کے ساتھ شاہ نیاز بریلوی کی غزل کی تضمین میں ایک غزل لکھی تھی۔ میرا گمان کہ ہوسکتا ہے کہ کسی نے میری غزل ہی پڑھ دی ہو۔
خیر ! میری غزل کا مطلع یوں تھا:’ جدھر دیکھتا ہوں، جہاں دیکھتا ہوں--- تجھی کو عیاں اور نہاں دیکھتا ہوں ‘‘ مطلع کا مصرعہ اولیٰ ہوسکتاہے کہ توارد ہو؛کیوں کہ مجھے نہیں معلوم کہ حمدیہ کلام لکھنے والے نے شاعر نے کب یہ کلام لکھا ہے ۔
الغرض! یہ کہ اس حمدیہ کلام میں او زان اور درست لفظوں کے ساتھ جو کھلواڑ کیا گیا ہے، وہ قابلِ غور ہونے کے ساتھ مضحکہ خیز بھی ہے۔
مضحکہ خیزی کی پہلی مثال :
بھولے ہوئے انساں جو تجھ کو
بہت سے ایسے نَداں دیکھتا ہوں۔ (جبکہ درست لفظ ’’ناداں‘‘ ہے)
مضحکہ خیزی کی دوسری مثال:
کون سی جا، ہے جہاں تو نہیں ہے اس مصرعہ کا وزن فاعلاتن، فاعلن فاعلن فع ہے
تجھے ہر ذّرَے میں نہاں دیکھتا ہوں (ذَرےَ کی صورت میں تو بحر کے مطابق ہے ؛لیکن درست لفظ ذَ رّہ ہوتا ہے ۔
مضحکہ خیزی کی تیسری مثال:
ہوتا ہوں اپنے گناہوں پہ نادم
اپنا میں جب گرباں دیکھتا ہوں (یہ پورا شعر ہی بحر متقارب مثمن سالم سے خارج ہے) علاوہ ازیں گلوکار نے گَ رَے باں + گریباں کو گِ رِ باں پڑھا ہے
اور ہاں مقطع جب سنیں گے ،تو بے اختیار ہنسی چھوٹ جائے گی ، خود کو بھی نہ روک پائیں گے، یہ چیز سننے سے تعلق رکھتی ہے۔
میرا مقصد کسی کی دل آزاری نہیں ، اور نہ کسی پر میرے مطلع کے شعر اول کے سرقہ کا الزام لگاتا ہوں۔ بس طبع تفریح اور ادبی مضحکہ خیزی سے محظوظ ہونے کے لئے پیش ہے۔