اخوت کے کارنامے ، بلا سود بینکاری

عبد الرحمن

لائبریرین
ایک مبارک سفر میں رفیقِ سفر بنانے کے لیے پر خلوص شکریہ قبول فرمایے!
جزاکم اللہ خیرا نعیم بھائی! اللہ بہت خوش رکھے!
 

عاطف سعد

محفلین
سود خور نہ کھڑے ہونگے مگر اسی طرح جس طرح وہ کھڑا ہوتا ہے جسے شیطان چھو کر خبطی بنا دے یہ اس لئے کہ یہ کہا کرتے تھے کہ تجارت بھی تو سود ہی کی طرح ہے حالانکہ اللہ تعالٰی نے تجارت کو حلال کیا اور سود کو حرام، جو شخص اللہ تعالٰی کی نصیحت سن کر رک گیا اس کے لئے وہ ہے جو گزرا اور اس کا معاملہ اللہ تعالٰی کی طرف ہے اور جو پھر دوبارہ (حرام کی طرف) لوٹا، وہ جہنمی ہے، ایسے لوگ ہمیشہ ہی اس میں رہیں گے(سورة البقرة . آیت275)
 

الف نظامی

لائبریرین
10_10.jpg
 

الف نظامی

لائبریرین
صدقات ، اہمیت و اثرات
اگر کوئی چیز سود کو ختم کر سکتی ہے ، تو وہ صدقات ہیں۔
و یمحق اللہ الربوا و یربی الصدقات
اس کے برعکس میں ان لوگوں کو دیکھتا ہوں ، جو کہتے ہیں ، آج سود ختم کرو ، کل ختم کرو۔ اس طرح کبھی سود ختم نہیں ہوسکتا۔
جب تک آپ متبادل مذہبی ادارے قائم نہیں کرتے۔ خدا نے ایک چھوٹا سا قانون بنا دیا ہے ، میں حیران ہوں کہ اتنے علمائے دانش و مذہب ہیں ان کو وہ چھوٹی سی آیت یاد نہیں آتی کہ
یمحق اللہ الربوا و یربی الصدقات
کہ اللہ سود کو گھٹاتا اور صدقات کو بڑھاتا ہے۔ جوں جوں صدقات بڑھیں گے ، سود کم ہوتا جائے گا۔
جس ملک میں صدقات کا ادارہ ہی نہیں ، وہاں سود کہاں ختم ہوگا؟
"پس حجاب" از پروفیسر احمد رفیق اختر سے اقتباس
1499497_450063821766106_414699947_n.jpg
 

الف نظامی

لائبریرین
بے شمار براہ راست اور بالواسطہ ناکامیوں اور مایوسیوں کی زد میں آنے والے میرے پیارے دیس پاکستان میں منظر عام پر آنے والی اور چشم زمانہ سے پوشیدہ کامیابیوں کی بہت سی کہانیاں ہوں گی مگر ’’اخوت‘‘ کے سفر کی کہانی صحیح معنوں میں سب سے وکھری ٹائپ کی کہانی ہے۔ دنیا میں قرضِ حسن کے سب سے بڑے پروگرام کی کہانی جس کے مرکزی کردار یا ہیرو میرے مہربان دوست اور چند اہم خدمت خلق کے اداروں کے اعزازی ساتھی ڈاکٹر امجد ثاقب ہیں۔
میں نے اپنی ماں کی میت کے سرہانے بیٹھ کر شدتِ غم سے لبریز کالم بھی لکھا ہے اور آج ڈاکٹر امجد ثاقب کی کتاب ’’اخوت کا سفر‘‘ پڑھنے کے بعد بہت ہی مطمئن کر دینے والی خوشی کے ساتھ یہ کالم لکھ رہا ہوں۔ لکھنا کیا ہے اُن لوگوں کی کہانی بیان کر رہا ہوں جن کے لئے دنیا میں ’’پاکستان‘‘ کے نام سے ایک نیا ملک بنایا گیا تھا مگر ملک بنانے کے بعد اس ملک کے اصل لوگوں کو بھلا دیا گیا، نظر انداز کر دیا گیا، غربت کی انتہائی لکیر سے نیچے غرق کر دیا گیاتھا۔
پاکستان جس جمہوریت کے تحت وجود میں آیا تھا اگر اس جمہوریت کو اس کی اصل شکل میں چلنے دیا جاتا تو غربت کی آخری لکیر سے نیچے غرق ہونے والے آج اس ملک کے حاکم ہوتے مگر ان بے چاروں کو تو ایک ملک وجود میں لانے کے لئے صرف استعمال کیا گیا تھا۔ اپنے ملک کو آباد کرنے کا اختیار نہیں دیا گیا تھا۔
اخوت کے سفر کی کہانی کچھ یوں ہے کہ ڈاکٹر امجد ثاقب نے غربت کے اندھیروں میں کھو جانے والے ملک کے چاروں صوبوں میں پھیلے ہوئے پانچ لاکھ تیس ہزار گھرانوں کے لوگوں سے اپنے ایک ہزار سات سو ساتھیوں کی مدد سے رابطہ قائم کر کے ان میں نو ارب روپے کی مالیت کے بلا سود قرضِ حسنہ یا قرض حسن تقسیم کئے اور ان نو ارب روپے کے قرضوں کی ننانوے اعشاریہ آٹھ فیصد واپسی ممکن بنائی اور دو سو دس شہروں میں اپنے 275دفاتر کھول کر اپنے کارکنوں اور رضا کاروں کو فعال بنایا اور وہ معجزہ کو دکھایا جو لوٹ مار کی بھیانک شہرت اور بدنامی رکھنے والے ملک میں سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا۔ اصل معجزہ یہ ہے کہ جس ملک سے انسان دشمنی، نفرت اور حقارت اور اخلاق سوزی کی زہریلی شہرت اور بدنامی پوری دنیا میں پھیلائی جا رہی تھی وہاں سے ڈاکٹر امجد ثاقب کی ’’اخوت‘‘ کے سفر کی کامیابی کی خبریں بھی آنے لگیں۔ پاکستان کا اصل چہرہ دیکھنے اور دکھانے کا موقع بھی ملا۔
اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس فریضے کو سر انجام دینے کے لئے کس قدر محنت، کتنی جاں فشانی اور کتنے صبر اور برداشت کی ضرورت ہوتی ہو گی جو ڈاکٹر امجد ثاقب نے اس تمام عرصے اور اس ساری جدوجہد کے دوران دکھائی ہے۔ انشاء اللہ یہ کہانی ختم نہیں ہو گی چلتی رہے گی، چلتی چلی جائے گی اس کا ثبوت ڈاکٹر امجد ثاقب کی اس بات سے ملتا ہے کہ اخوت کے قرضِ حسن سے معاشی طور پر بحال ہونے والے اب قرض لینے کی بجائے قرض دینے کے قابل ہو گئے ہیں اور انہوں نے اپنے چراغوں سے نئے چراغ روشن کرنے شروع کر دیئے۔ یہ روش ملک اور قوم کے تمام کونوں اور کھدروں کےاندھیروں کو ختم کر سکتی ہے۔ بائیں بازو کے ماہرین معیشت بتاتے ہیں کہ سرمایہ داری نظام کی دو صدیوں نے امیروں کو اور زیادہ امیر بنانے اور غریبوں کو غربت کی آخری لکیر سے نیچے غرق کرنے کا جو سلسلہ جاری کر رکھا ہے اس کے تحت دنیا کے دس امیر ترین لوگوں کے پاس اتنی دولت جمع ہو چکی ہے جس کے مناسب اور موزوں استعمال سے پوری دنیا کی غربت، بے روزگاری اور بیماری ختم کی جا سکتی ہے مگر سرمایہ داری نظام ایسا کرنے نہیں دے گا لیکن ڈاکٹر امجد ثاقب جیسے لوگ اور اخوت جیسے ادارے اگر زندہ رکھے جا سکیں تو یہ معجزہ بھی دیکھنے کو مل سکتا ہے کہ لوگ اپنی پسند کی زندگی حاصل نہیں کر سکتے تو اپنی پسند کی موت مرنے میں ضروری کامیاب ہو جائیں ۔
 

الف نظامی

لائبریرین
شعیب سلطان خان چئرمین رورل سپورٹ پروگرام
"امجد ثاقب صاحب نے جناب اختر حمید خان کا راستہ اپنایا ہے جنہوں نے پر کشش انڈین سول سروس سے صرف اس وجہ سے استعفی دے دیا تھا کہ غریبوں کی غربت ختم کرنے کے لیے ان کے پاس کوئی چارہ نہ تھا۔ امجد ثاقب نے بھی شان و شوکت کے شاہی کارواں کو اسی طرح اچانک خیر باد کہہ دیا اور کسی نا معلوم سمت چل پڑے۔ "اخوت" امجد صاحب کے عزم ، جنون اور ان تھک محنت کا نتیجہ ہے۔ جناب اختر حمید خان نصیحت کرتے رہتے تھے کہ ہمت نہ ہارو ، حوصلہ نہ چھوڑو ، خود اپنا جزیرہ بناو ، ان شا ء اللہ یہ جزیرے بڑھتے جائیں گے۔
میں اخوت کو ایک اور جزیرے کے روپ میں دیکھ رہا ہوں۔ دس ہزار روپے سے شروع ہونے والا یہ سفر اب کئی بلین روپوں کی حد پار کر چکا ہے۔ اس کی مثال غربت کے سمندر میں اخلاص اور محبت کے جزیرے جیسی ہے۔"
 

الف نظامی

لائبریرین

سیاہ سرورق والی یہ ایک روشن کتاب ہے ۔
ایک شخص کے اندرکی روشنی نے اس کتاب میں اتنی روشنیاں سمودی ہیں کہ اب یہ آنے والے دورکے اجالوں کی نمائندہ کتاب بن گئی ہے۔ کچھ چیزیں کچھ لوگوں کے لئے بے کار ہوتی ہیں اورہر چیزہرشخص کے لئے کبھی نہیں ہوتی ۔سو جس دل میں گداز نہ ہواورجس میں انسانیت کی کوئی رمق نہ بچی ہووہ شخص کبھی یہ کتاب نہیں پڑھ سکتامگر جس دل میں ان میں سے کوئی سی چیز ذراسی بھی رہ گئی ہو،وہ بغیر روئے اوربغیر ہچکیاں لئے یہ کتاب مکمل نہیں کرسکتا۔یہ روناوہ رونانہیں ہو گاجوتذلیلِ انسانیت پہ کوئی صاحب احساس روتاہے ،بلکہ یہ عظمتِ انسانیت کے لئے مینارہ ہوجاتے لوگوں کے جوتوں میں سپاس کے طورپرگرتے آنسوؤں والاروناہوگا ۔جس میں رقت ہوتی ہے مگرجس میں مسرت جھومتی ہے اورجس میں خلوص بھری عظمت ہلکورے لیتی ہے۔جس میں دل اُن اَن دیکھی نعمتوں کے تازہ ذائقے محسوس کرتاہے ، جوابھی دنیامیں نہیں اتریں۔ اورجس میں آنکھ ان گم گشتہ رفعتوں کے خواب دیکھتی ہے جنہوں نے کبھی کائنات کے دلہا،سرورِ کائناتؐ کے عہدِانسان نواز میں دھرتی پہ جھانکا تھا اورپھرجن کی چاہ میں انسان باؤلااوربوڑھاہوتاگیا۔ڈاکٹرامجد ثاقب اس عہدکاانسان نہیں ،مگروہ اس عہدکے لئے ضرورہے ۔ا س کی کامیابیاں،نہیں بلکہ عظمتِ انسان کی کامیابیاں وہ ہیں کہ جوخشکی سے اترکراورسمندروں میں بہہ کر،اب براعظموں میں تیرتی پھرتی ہیں۔
معاشیات کی ساری ترقی ،معاشیات کے سارے فلسفے ،معاشیات کے سارے ادارے اورپھران سے وابستہ معتبر افراد سارے ،اس ایک سادہ شخص کی کامرانی کو حیرت سے بت بنے دیکھتے ہیں۔دیکھتے اورسراہتے ہیں ۔
مائیکروفنانس کے جتنے معتبرعالمی حوالے ہیں ،وہ اسے جانتے اوراس کی کامرانی کومانتے ہیں!
اس شخص کی کامرانی کی کلیدیہ ہے کہ اس نے زندگی کووہاں سے نہیں دیکھاجہاں سے چکاچوندکی ماری دنیادیکھتی ہے ،بلکہ وہاں سے دیکھاہے جہاں سے دنیابنانے والاانسان کودکھاناچاہتاہے ۔
چنانچہ ان کی کہانی اوردنیاکی داستان میں اتناہی فاصلہ وفرق ہے جتنابلندی اورپستی میں ہوتاہے اورجتناہوناچاہئے ۔ا س دن ،جس دن ڈاکٹرامجدثاقب اس امریکی یونیورسٹی ہاورڈمیں لیکچردینے کھڑے تھے ،جس سے 50 نوبل انعام یافتہ شخصیت وابستہ ہیں اورجس کابجٹ 22ملکوں سے بھی زیادہ ہے ،توکیایہ ایک پاکستانی فاتح کی جیت تھی ؟نہیں سرورعالمؐ کے ا س ارشادکی جیت کہ سود کی کوکھ بانجھ ہے اورجیت صرف صدقات کے لئے بنی ہے ۔
جس دن بنگلہ دیشی نوبل انعام یافتہ اورگرامین بینک کے خالق ڈاکٹر یونس سے ہمارے امجدثاقب نے دردمیں ڈوب کے پوچھاتھاکہ غریبوں کی بے بسی کوسہارادینے والے قرض پہ آخر آپ کابینک سود کیوں لیتاہے ؟ آیا یہ غریب کی مددہے یااس کا ستحصال !توبنگلہ دیشی طنز سے مسکرادیاتھااورا س نے کہاتھا’’تم بغیرسودکے کر کے دکھادو!‘‘ی
ہ چیلنج صرف ڈاکٹریونس کانہ تھا،یہ چیلنج لندن سے اخوت دیکھنے پاکستان آئے مائیکروفنانس ایکسپرٹ میلکم ہارپرکا بھی تھا،یہ چیلنج توسود پرکھڑی دنیاکی ساری معیشت نے پوری امت کودے رکھاہے ۔ یہ چوٹ اس ڈاکٹرکے دماغ پہ لگی اور اس نے اسے دل کاروگ بنالیا۔
ا س نے پنجاب گورنمنٹ کی افسری چھوڑی اوردوکمرے کے ایک مکان سے اس کام کاآغازکیا،جوغارِ حرا سے اٹھ کرآنے والے نے مکہ اورپھرمدینہ میں شروع کیاتھا۔اورکون نہیں جانتا،جس کاآغازمدینے والے کے نقش قدم پرہو،اس کی اٹھان بڑی تابناک اوراس کاانجام بڑارشک آور ہوتاہے ۔پہلے قرض دس ہزارسے لے کرآج تک کہ جب اس کارخیرکادائرہ چھ ارب ڈالر(روپے)تک پھیل چکاہے ،یہ کتاب وہ ساری کہانیاں کہتی ہے ،جن میں سے ہرایک پرانسانیت ناز کرسکتی اورجن میں سے ہرایک پرمسرت قربان ہوتی ہے ۔تین لاکھ گھرانے آج اس ایک شخص کی وجہ سے اپنے پاؤں پرکھڑے ہیں ۔تین لاکھ گھرانوں کااعتماد ،ان کی دعائیں اوررسول رحمت ؐکے فرمان کی تائید حاصل ہو،وہ کبھی ناکام ہوسکتاہے ؟جی نہیں ،خیرہ کن کامیابی ڈاکٹر امجدثاقب کی جھولی اورپاکستان کے آنگن میں آگری ہے اوریہ کامیابی ایک پورے عہد کی عظمت کی داستاں ہے ۔ایک اخوت کے سفرکاحیرت کدہ ہی اس میں آباد نہیں ،امت اورامریکہ کی تاریخی اورحالیہ حیرتوں کی کئی ایسی کہانیاں بھی آگئی ہیں جواتنی زیادہ کم ہی کسی ایک کتاب میں یکجاملتی ہیں۔مثلاوہ امریکی ریاست جوآج بھی جدید دنیاکی کسی ایجاد سے کوئی سروکارنہیں رکھتی اوروہ امریکی شہر جس میں ایک پاکستانی کانام پوراشہر احترام سے لیتاہے مثلاً،ملک سے باہر بستے ان پاکستانیوں کی محبتِ وطن کی وہ لازوال داستانیں جن کاایک ایک حرف درخشاں اوردرخشندہ ہے ۔مثلاًوہ سفرجوامجدثاقب نے اپنی فیملی کے ساتھ پوراماہ ٹرین میں امریکہ کھوجتے گزاردیا۔کچھ آنکھوں اورکچھ چہروں کی رائیگاں گئی الفت کی داستاں بھی گاہ کتاب میں پلکیں اٹھاتی ہے جن کی مہمیز کوڈاکٹر نے اخوت میں گم کرکے اسے رائیگاں نہیں جانے دیا۔ یہ کتاب پاکستان کاایک اورچہرہ پیش کرتی ہے ، دشمن نہیں چاہتایہ چہرہ بھی دنیادیکھے ۔امجدثاقب نے مگریہ چہرہ بڑی محبت اورمحنت سے دکھایاہے ۔تابناک ،توانااورزندگی سے بھرپورچہرہ !انکسار ایسا کہ پورے سفر میں سایہ دیتے کسی ایک شخص کا نام بھولے سے بھی نہیں بھولے۔ اتنے نام کتاب میں آ گئے ہیں کہ کسی ناموں کی کتاب میں بھی نہ آئے ہوں گے۔مجھے خوشی ہے کہ میں ڈاکٹرامجد ثاقب کے عہدمیں زندہ ہوں ۔ مسرت اس لئے بھی دوبالاہوجاتی ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے ہمارے اس عہدکوعہدِ نبوی سے ملادیاہے ۔مجھے یوں لگتاہے کہ کسی دن میں بھی مفلسوں کی درید ہ قباسیتے ڈاکٹر صاحب کے مخلص کارکنوں سے جاملوں گا۔میری روح اوردعاہراس شخص سے ہروقت گلے ملنے کوبیتاب رہے گی جس کی کدال انسانیت کی راہ میں حائل ہمالیاؤں کاسینہ تراشتی پائی جائے گی ۔شکریہ ڈاکٹر امجد ثاقب !آپ کی اخوت کاشکریہ اورکتاب اخوت کے ہرسفر اورہرورق کاشکریہ

 

arifkarim

معطل
2007-2008 کے عالمی معاشی و اقتصادی بھونچال کے بعد اس موضوع پر خاصی تحقیق کرنے کا موقع ملا۔ خاکسار نے قریباً تمام معاشیاتی و اقتصادی اسکول جن میں مشہور زمانہ Keynes , Chicago,NeoClassical, Islamic, Austrian سب ہی شامل ہیں کا بغور مطالعہ کیا ہے۔ اور ان 6 سالوں کی تحقیق کے بعد جو چیز سامنے آئی ہے وہ یہ کہ سب سے بہترین معیشت اور اقتصادیات جو اسکول سکھاتا ہے وہ Austrian Schoolہے۔ اس سرمایہ دارانہ سودی نظام کی تباہ کاریوں کو اگر ٹھیک کرنا ہے تو ہمیں اسلامی اسکول کے علاوہ آسٹرین اسکول پڑھنا بہت ضروری ہے کہ اسمیں موجود ہ فرسودہ نظام سے پیدا ہونے والی خرابیوں کی وجوہات اور انکا حل دونوں موجود ہیں:
http://en.wikipedia.org/wiki/Austrian_School
http://en.wikipedia.org/wiki/Schools_of_economic_thought
 

زیک

مسافر
2007-2008 کے عالمی معاشی و اقتصادی بھونچال کے بعد اس موضوع پر خاصی تحقیق کرنے کا موقع ملا۔ خاکسار نے قریباً تمام معاشیاتی و اقتصادی اسکول جن میں مشہور زمانہ Keynes , Chicago,NeoClassical, Islamic, Austrian سب ہی شامل ہیں کا بغور مطالعہ کیا ہے۔ اور ان 6 سالوں کی تحقیق کے بعد جو چیز سامنے آئی ہے وہ یہ کہ سب سے بہترین معیشت اور اقتصادیات جو اسکول سکھاتا ہے وہ Austrian Schoolہے۔ اس سرمایہ دارانہ سودی نظام کی تباہ کاریوں کو اگر ٹھیک کرنا ہے تو ہمیں اسلامی اسکول کے علاوہ آسٹرین اسکول پڑھنا بہت ضروری ہے کہ اسمیں موجود ہ فرسودہ نظام سے پیدا ہونے والی خرابیوں کی وجوہات اور انکا حل دونوں موجود ہیں:
http://en.wikipedia.org/wiki/Austrian_School
http://en.wikipedia.org/wiki/Schools_of_economic_thought
آسٹرین سکول میں کئی بنیادی مسائل ہیں
 

arifkarim

معطل
آسٹرین سکول میں کئی بنیادی مسائل ہیں
بلا شبہ لیکن یہ ان چنیدہ اسکولوں میں سے ہے جس کے ماہرین معاشیات نے 2007- 2008 میں آنے والے عالمی معاشی و اقتصادی بھونچال کی کئی سال قبل پیش گوئی کر دی تھی، جس کا اقرار خود امریکی فیڈرل ریزرو کے سابق چیئرمین Alan Greenspan کر چکے ہیں:
http://en.wikipedia.org/wiki/Financial_crisis_of_2007–08#Role_of_economic_forecasting
http://wiki.mises.org/wiki/Austrian_predictions/Housing_bubble
 

سیما علی

لائبریرین
کہ اللہ سود کو گھٹاتا اور صدقات کو بڑھاتا ہے۔ جوں جوں صدقات بڑھیں گے ، سود کم ہوتا جائے گا۔
جس ملک میں صدقات کا ادارہ ہی نہیں ، وہاں سود کہاں ختم ہوگا؟
"پس حجاب" از پروفیسر احمد رفیق اختر سے اقتباس
بے شک ایسا ہی ہے ۔۔اللہ کی راہ میں مال صدقہ و خیرات کرنا انسان کا کوئی ذاتی کمال نہیں کیونکہ مال و جان سب کچھ اُسی خالق و مالک کی عطا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے پر یہ احسان کیا کہ اس مال کو وصول کرکے کئی گنا بڑھا کر عطا فرماتا ہے۔۔۔۔
 
Top