اخلاق کے سبق سے انجان ہو گیا ہے

نوید اکرم

محفلین
اخلاق کے سبق سے انجان ہو گیا ہے
بے حلم و بے مروت انسا ن ہو گیا ہے

قرآن کی تھی منزل دل اور دماغ لیکن
حیف، اس کا اب مقدر جزدان ہو گیا ہے

ہر اک زباں پہ قصے اور کچھ کہانیا ں ہیں
ملّا کی پشت پیچھے قرآن ہو گیا ہے

ناتا نہیں رہا اب تدبیر سے کسی کا
"تقدیر میں یہی تھا!" ، اعلان ہو گیا ہے

مصروف آج کل ہیں سب بھیڑ چال ہی میں
فکر ونظر کا آنگن ویران ہو گیا ہے

سب کو دکھا رہی ہے جسم و جمال اپنا
شرم و حیا کا زن میں فقدان ہو گیا ہے

اعضائے جسمِ زن ہی اس کا ہدف ہیں ہر دم
بے شرمی کا ذَکَر تو سلطان ہو گیا ہے

کرنا نکاح چاہو تو رہ بڑی ہے مشکل
ممنوع شب بِتانا آسان ہو گیا ہے
۔
 

الف عین

لائبریرین
زیادہ تر غزل درست ہے، بحر و اوزان کا مسئلہ نہیں۔
ہر اک زباں پہ قصے اور کچھ کہانیا ں ہیں
ملّا کی پشت پیچھے قرآن ہو گیا ہے
پہلا مصرع مزید رواں ہو سکتا ہے، جیسے
ہر ایک کی زباں پر قصے کہانیاں ہیں
’اور کچھ‘ کے بھرتی الفاظ سے نجات آسانی سے حاسل کی جا سکتی ہے۔

اس میں بھی روانی کی کمی ہے، الفاظ بدل کر دیکھیں۔
کرنا نکاح چاہو تو رہ بڑی ہے مشکل

اور وہ سلطان قافئے کا شعر نکال ہی دیں تو بہتر ہے
 

نوید اکرم

محفلین
زیادہ تر غزل درست ہے، بحر و اوزان کا مسئلہ نہیں۔
ہر اک زباں پہ قصے اور کچھ کہانیا ں ہیں
ملّا کی پشت پیچھے قرآن ہو گیا ہے
پہلا مصرع مزید رواں ہو سکتا ہے، جیسے
ہر ایک کی زباں پر قصے کہانیاں ہیں
’اور کچھ‘ کے بھرتی الفاظ سے نجات آسانی سے حاسل کی جا سکتی ہے۔

اس میں بھی روانی کی کمی ہے، الفاظ بدل کر دیکھیں۔
کرنا نکاح چاہو تو رہ بڑی ہے مشکل

اور وہ سلطان قافئے کا شعر نکال ہی دیں تو بہتر ہے
ترمیم کے بعد غزل پیش خدمت ہے

اخلاق کے سبق سے انجان ہو گیا ہے
بے حلم و بے مروت انسا ن ہو گیا ہے

قرآن کی تھی منزل دل اور دماغ لیکن
حیف، اس کا اب مقدر جزدان ہو گیا ہے

ہر ایک کی زباں پر قصے کہانیاں ہیں
ملّا کی پشت پیچھے قرآن ہو گیا ہے

ناتا نہیں رہا اب تدبیر سے کسی کا
"تقدیر میں یہی تھا!" ، اعلان ہو گیا ہے

مصروف آج کل ہیں سب بھیڑ چال ہی میں
فکر ونظر کا آنگن ویران ہو گیا ہے

اعضائے جسمِ زن ہی اس کا ہدف ہیں ہر دم
شرم و حیا سے عاری انسان ہو گیا ہے

سب کو دکھا رہی ہے جسم و جمال اپنا
شرم و حیا کا زن میں فقدان ہو گیا ہے

راہِ نکاح کتنی پر پیچ ہے یہاں، اور

ممنوع شب بِتانا آسان ہو گیا ہے
 
آخری تدوین:

نوید اکرم

محفلین
زیادہ تر غزل درست ہے، بحر و اوزان کا مسئلہ نہیں۔
ہر اک زباں پہ قصے اور کچھ کہانیا ں ہیں
ملّا کی پشت پیچھے قرآن ہو گیا ہے
پہلا مصرع مزید رواں ہو سکتا ہے، جیسے
ہر ایک کی زباں پر قصے کہانیاں ہیں
’اور کچھ‘ کے بھرتی الفاظ سے نجات آسانی سے حاسل کی جا سکتی ہے۔

اس میں بھی روانی کی کمی ہے، الفاظ بدل کر دیکھیں۔
کرنا نکاح چاہو تو رہ بڑی ہے مشکل

اور وہ سلطان قافئے کا شعر نکال ہی دیں تو بہتر ہے
ترمیم کے بعد غزل پیش خدمت ہے

اخلاق کے سبق سے انجان ہو گیا ہے
بے حلم و بے مروت انسا ن ہو گیا ہے

قرآن کی تھی منزل دل اور دماغ لیکن
حیف، اس کا اب مقدر جزدان ہو گیا ہے

ہر ایک کی زباں پر قصے کہانیاں ہیں
ملّا کی پشت پیچھے قرآن ہو گیا ہے

ناتا نہیں رہا اب تدبیر سے کسی کا
"تقدیر میں یہی تھا!" ، اعلان ہو گیا ہے

مصروف آج کل ہیں سب بھیڑ چال ہی میں
فکر ونظر کا آنگن ویران ہو گیا ہے

اعضائے جسمِ زن ہی اس کا ہدف ہیں ہر دم
شرم و حیا سے عاری انسان ہو گیا ہے

سب کو دکھا رہی ہے جسم و جمال اپنا
شرم و حیا کا زن میں فقدان ہو گیا ہے

راہِ نکاح کتنی پر پیچ ہے یہاں، اور

ممنوع شب بِتانا آسان ہو گیا ہے
 
آخری تدوین:
Top