اسکین دستیاب اخلاقِ ہندی

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
صفحہ نمبر 121 سے 125

صفحہ نمبر 123

کہنے لگا کہ میں ابھی اُسترے سے تیری ناک کاٹ ڈالتا ہوں۔ یہ بات اُس کے سب محلے والوں نے سنی۔ اُس نے وہ اُسترا باہر سے گھر میں پھینک دیا: وونہیں وہ رو رو کر کہنے لگی کہ ہے! ہے! اس اُسترے سے میری ناک کٹ گئی۔ اس آواز پر تمام محلے کے رہنے والے دوڑے اور آکر جو دیکھنے لگے تو سچ مچ اس کی ناک کٹی ہوئی دکھائی دی اور وہ حجام بھی اس حالت کو دیکھ کر ششدر رہ گیا۔ عذر خواہی کرکے کہنے لگا کہ بی بی! یہ مجھ سے بڑی تقصیر ہوئی ہے، اسے معاف کر۔

اس بات کو سن کر نائن کے نوکروں نے کہا کہ اے گندھرب! تیرا اور اس نائی کا قصہ ہم نے سنا۔ اب ساد کنوار کی کہانی کا بیان کر۔

نقل ساد کنوار اور پنڈی کسبی کی

اُس نے کہا کہ ساد کنوار بڑھئی بچہ تھا اور کڑوڑ روپے کا مال کے پر اپنے گھر سے تجارت کرنے کو نکلا، اور چودہ برس تک سوداگری ہی کرتا رہا، اور کئی کڑوڑ روپے جمع کرکے اپنے گھر کو چلا۔ اتفاقاً راہ میں ایک شہر ملا کہ اُسے کام رُو کہتے ہیں۔ یہ وہاں گیا اور سنا کہ ایک عورت پنڈکی نام اس شہر میں ایسی حسین رہتی ہے کہ جس کی خوبصورتی کی تعریف بیان سے باہر، اور کمر اُس کی ایسی پتلی کہ ویسی کسی عورت کی نہ ہوگی۔ ایک رات کی چوکی کے ہزار روپے لیتی ہے۔ یہ سُن کر نہایت بے قرار ہوا۔ دل میں کہنے لگا کہ اگر اس عورت کو میں نہ دیکھوں گا تو قیامت تک افسوس رہے گا۔ ہزار روپے اپنے ساتھ لے اُس کے یہاں گیا۔ تمام رات عیش و عشرت میں مشغول رہا۔ یہ ارادہ کیا کہ کئی شب اس کے پاس اور بھی
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
صفحہ 91-95

صفحہ 91


ہاتھی اُس چہلے میں پھنسنے سے ایسا عاجز ہو کے ہاتھ پاؤں مارتا تھا کہ جیسے کوئی دریا میں بہتے ہوئے بہتا تنکا دیکھ کر ہاتھ بڑھا وے کہ شاید اسی کے آسرے سے بچ جاؤں ، پر اُس کووہ تنکا ناچیز کیا فائدہ کرے۔ مارے بدحواسی کے کہنے لگا کہ اچھا تو جا، اپنے یاروں کو بلا لا کہ وے مجھے اس مصیبت سے چھڑاویں۔گیدڑ دوڑا اور اپنی تمام برادری کو بلا لایا اور آپ اس کے سامنے آ کھڑا ہوا اور وے پیچھے سے ہاتھی کا گوشت کاٹ کاٹ کھانے لگے۔ تب ہاتھی نے کہا:
باغ دل میں تو نے میرے تخم الفت بو دیا
آخرش تو نے کیا ووھی تیرے دل میں جو تھا
دل میرا لے کر ہوا افسوس ظالم سنگ دل
تھا تیرے دل میں یہ کب میں جانتا تھا دل جلا
پھر دائی نے کہا " اے تنکبیر! تو نے دیکھا کہ اپنی عقل کے زور سے گیدڑ نے ہاتھی کا کام تمام کیا۔ کیا مجھ سے اتنا بھی نہ ہوگا کہ میں اپنی عقل کی رسائی سے تیرا کام بخوبی انجام دوں۔ وہ کون سا کام ہے جو عقل سے نہیں ہو سکتا۔"
تنکبیر نے کہا " اے دائی! میرے دل کی شاہین نو جوبنا کے مرغ حسن کے درپے ہے۔اس سبب سے نہ چہرے پر رنگ ہے نہ دل میں قرار۔"
آخرش دائی تنکبیر کے کان میں کچھ ایسی باتیں کر کے اپنے گھر چلی گئی کہ جس سے طالب اپنے مطلب کو پہنچے۔ تب تنکبیر نے نوجوبنا کے خاوند کو بلا کر نوکر رکھا اور بہت سا سرفراز کیا اور اچھے اچھے کام اس کو سونپے۔
ایک دن تنکبیر نے اس سے کہا کہ اے یار! میں نے آج رات کو ایک خواب دیکھا ہے کہ ایک عورت شیر پر سوار ہے اور مجھ سے کہتی ہے کہ اگر تو ایک مہینے تک ہر روز ایک عورت

صفحہ 92
کو اپنے گھر بلواوے اور تاش بادلا پہناوے اور پٹکا اپنے گلے میں ڈال کر اس کے پاؤں پڑے اور رخصت کر دیا کرے تو تیری عمرودولت دن بہ دن بڑھے گی۔ اور جو عورت تیرے پاس سے زری پوش ہو کر جاوے گی، اس کے بیٹا بے شبہ پیدا ہووے اور اس کے خاوند کی عمر دراز۔ اگر یہ کام تجھ سے نہ ہو سکے گا تو شوہر نوجوبنا کا (جو تیرے پاس رہتا ہے) مر جائے گا اور اس کے بعد تو بھی نہ بچے گا۔ بھلا کہہ تو اب کیا کیا چاہیے؟
اُس بقال نے کہا "جو کچھ حکم ہو، موافق اُس کے کروں۔"
تنکبیر نے کہا کہ عورت لانا تمہارا کام ہے اور تاش بادلا پہنانا میرا ذمہ۔
جب رات ہوئی، بقال نے ایک رنڈی اس کے یہاں لا پہنچائی۔ اسے وہ اپنی خلوت میں لے گیا۔تب بنیا چھپ کر دیکھنے لگا کہ دیکھوں تو اس عورت پر وہ ہاتھ ڈالتا ہے کہ نہیں۔ دیکھا کہ اس نے ایک جوڑا زری کا پہنا کر پٹکا اپنے گلے میں ڈال، اُس کے پاؤں پڑ رخصت کیا۔ بقال نے یہ سب احوال دیکھ کر اپنے دل میں کہا کہ تنکبیر بڑا بے وقوف ہے جو اتنا لباس زربفت کا مفت اسے دیا۔ جب بقال اور وہ عورت دونوں باہر آئے، اس نے عورت کو کہا کہ آدھے کپڑے اس میں سے مجھے دے۔ وہ بولی " مجھے تو تنکبیر نے دیے ہیں، تجھے کیوں دوں؟"۔غرض وے دونوں آپس میں یہاں تک جھگڑے کہ کپڑے عورت کے ٹکڑے ٹکڑے ہوئے اور آدھی ڈاڑھی بقال کی اس عورت نے کھسوٹ لی۔ تنکبیر کو جو یہ خبر پہنچی تو بہت سا ہنسا اور جانا کہ آج کل مطلب میرا حاصل ہو گا۔
بقال نے اپنی جورو سے سب احوال مفصل رات کا کہا۔ اس نے جواب دیا کہ تو کسی اوچھی کم ظرف کو لے گیا ہو گا،
صفحہ 93

اگر کسی معتبر کو لے جاتا تو ایسا فضیحت نہ ہوتا۔ دوسری رات ایک عمدہ رنڈی کو لے گیا۔ تنکبیر نے ویسا ہی سلوک اس کے ساتھ بھی کیا جیسا پہلی کے ساتھ کیا تھا۔
بقال یہ دیکھ کر اپنے دل میں حسرت کرنے لگا۔ تیسرے دن اپنی عورت سے کہا " اے نوجوبنا! اتنی دولت بے فائدہ جاتی ہے۔ اگر ایک رات تو میرے ساتھ چلے تو سب دولت تیرے ہاتھ آوے۔" وہ بولی کہ میں نامحرم مرد کے گھر کیوں کر جاؤں۔ بقال کو اپنی عورت پر نہایت اعتماد ہوا اور کہنے لگا کہ تنکبیر پہنچتے ہی لباس زری کا دیتا ہے اور پاؤں پڑ کے رخصت کرتا ہے۔ نوجوبنا نے کہا " جو عورت اپنے خاوند کے حکم میں نہ ہو، قیامت کے دن اس کو عذاب میں گرفتار کریں گے۔ میں تیری رضامندی چاہتی ہوں، جو کچھ کہے گا بہ سرو چشم قبول کروں گی۔" بقال نہایت خوش ہوا اور کہنے لگا " رحمت خدا کی تیرے ماں باپ پر۔"
جب آفتاب سیاح آسمان کے میدان کو طے کر کے مغرب کے گوشے میں پہنچا، تخمیناً پہر رات گئی ہوگی جو بنیا کم عقل بہ دستور سابق اپنی جورو کوبھی دولت کی طمع سے تنکبیر کے پاس لے گیا۔ وہ اسے دیکھتے ہی باغ باغ ہو کر اپنے خلوت خانے میں لایا اور کہنے لگا " اے نوجوبنا! تیرے کافر عشق کے لشکر نے میرے ملک دل کو خراب کیا تھا۔ تیرے آنے سے بارے آباد ہوا۔ بنیا جو وہاں چھپا ہوا کھڑا تھا، اس بات کے سنتے ہی شرمندہ ہوا، اپنا سر پیٹتے گھر کی راہ لی۔"
اے یارو! اگر کچھوا خشکی کی راہ چلے گا تو جیسا بقال اپنے کیے سے پشیمان ہوا تھا، یہ بھی ہو گا۔ کچھوے کا دل ہرن کے خبر دینے سے شکاریوں کے ڈر کے مارے تو گھبرا ہی رہا تھا۔
صفحہ 94

چوہے کے کہنے پر عمل نہ کیا۔ ھرن اور کوے کی صلاح سے معاً تالاب کو چھوڑ چل نکلا۔ کوے، چوہے اور ھرن کو بھی اس کے ساتھ جانا ضرور پڑا، کچھوے کے پیچھے لگ چلے۔ بہ ھزار خرابی کوس بھر گئے ہوں گے؛ چاہا کہ کسی درخت کی چھاؤں میں ٹھہریں، یکایک دیکھتے کیا ہیں کہ ایک مرد شکاری تیر کمان لیے چلا آتا ہے۔ ہر ایک یار نے اپنی اپنی راہ پکڑی۔ کوا تو درخت پر جا بیٹھا اور چوہا کسی بل میں گھس گیا اور ہرن جنگل کی طرف بھاگ گیا۔
کچھوا تری کا جانور تھا۔ خشکی میں بھاگ نہ سکا، وہیں رہ گیا؛ تب شکاری نے اسے پکڑ کر چاروں ہاتھ پاؤں باندھ، کمان کے گوشے میں لٹکا، اپنے گھر کی راہ لی۔ جب تینوں یاروں نے دیکھا کہ کچھوا پکڑا گیا، وے رونے لگے۔ چوہا بولا " اے بھائیو! میں تم سے نہ کہتا تھا کہ کچھوا اگر خشکی سے جائے گا تو نہایت رنج اٹھائے گا۔ اب یہ تمہاری آہ و زاری کچھ کام نہیں کرتی ۔ اب ایسی تدبیر کرو جس سے کچھوے کی مخلصی ہووے۔"
کوے اور ہرن نے کہا " اے ہرنک! بغیر تیری عقل و تدبیر کے اس کا چھٹکارا معلوم۔" چوہا بولا " اے ہرن! یہاں سے آگو (آگے) چل کر جہاں کہیں پانی کا ڈبرا نظر آوے تو لنگڑا کر کھڑا رہنا۔ جب وہ تیر انداز نزدیک آوے تو آہستے آہستے لنگڑاتا ہوا بھاگیو۔" ہرن نے وہی کیا۔ جب وہ مرد کچھوے سمیت پانی کے کنارے پہنچا، دیکھا کہ ہرن لنگڑاتا جاتا ہے۔ کچھوے کا وزن بھاری تھا، اس کو زمین پر رکھ دیا اور ہرن کے پیچھے چلا۔ جب قریب تیر کے فاصلے پر گیا، چوہے نے پیچھے سے کچھوے کی پھانسی کاٹ کر ہرن کو پکارا اور کہا " اے ہرن! کچھوا صحیح سلامت پانی میں آ پہنچا، تو بھی جنگل کو
صفحہ 95

بھاگ جا۔ٌ وہ یہ بات سنتے ہی بھاگا۔ جس وقت تیر انداز ہرن کے پیچھے سے پھر آیا، دیکھتا کیا ہے کہ کچھوا نہیں۔ پشیمان ہو کر بولا " بزرگ یوں کہہ گئے ہیں ٌجو کوئی آدھی کو چھوڑ ساری کو دھاوے وہ آدھی بھی ہاتھ نہ آوے۔ٌ اگر میں ہرن کے پیچھے نہ جاتا تو کچھوا میرے ہاتھ سے نہ بھاگتا۔" شکاری افسوس کرتا چلا گیا۔ تب ان چاروں یاروں نے اکٹھے ہو کر خوشی کی اور کہا یہ مکان ہم کو سزاوار ہے، اسی جگہ ہم رہیں گے۔ چوھا، کوا، ہرن کچھوا چاروں اسی جگہ گھر بنا کر رہنے لگے۔
جب برھمن نے بات مترلاتھ کی تمام کی، راجا کے بیٹوں کو کمال خوشی ہوئی اور کہنے لگے کہ محبت و دوستی کرنی ایسا فائدہ رکھتی ہے۔ مہاراج! اس قصے کے سننے سے ہم کو نصیحت و فائدہ ہوا۔
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
صفحہ 161-165

صفحہ 161

توتا آیا ہے اور اُس کے ساتھ دو چار رفیق بھی ہیں۔ سو ڈھوڑی (ڈیوڑھی) پر حاضر ہیں۔ اگر حکم ہو تو رُوبرو آویں۔ یہ سن کر قاز نے سرخاب کی طرف دیکھا۔ اس نے عرض کی کہ بالفعل حکم کیجیے، جہاں بہت لونا پانی اور ہوا زبون ہو، تہاں اس کے رہنے کو جگہ مقرر کریں، جو توتا چند روز اپنے رفیقوں کے ساتھ وہاں رہ کر معلوم کرے کہ یہ جگہ اچھی نہیں۔ پانی یہاں لگتا ہے، ہوا بری ہے، جو کوئی یہاں رہتا ہے سو اذیت پاتا ہے۔ تب یہ احوال اپنے بادشاہ کو وہ لکھ کر بھیجے گا کہ اس شہر کی آب وہوا نہایت مخالف ہے۔ جو کوئی یہاں آوے گا سو اپنی جان دے جاوے گا؛ اس خوف سے یقین ہے کہ ھُد ھُد ادھر کا قصد نہ کرے گا۔ اور یہ بھی گھبرا کر خودبخود رخصت چاہے گا۔
قاز نے بھی اُس کے کہنے سے ایسی جگہ مقرر کی، جو کوئی وہاں کے پانی کی ایک بوند پیوے اور اُس جگہ کی ہوا کھاوے، تو مفت اپنی بھلی چنگی جان گنواوے۔ پھر قاز نے فرمایا " تو جو کہتا ہے کہ لڑنا خوب نہیں، صلح بہتر ہے کیوں کہ اس میں ایک فکر اور اُس میں ہزار اندیشے، اور انجام اس کا معلوم نہیں کیا ہو؟ یہ بات غلط؛ کس لیے کہ میرے پاس فوج بہت ہےاور خزانہ بے شمار۔ خدا کے فضل سے مجھے یقین ہے کہ میری فتح ہو گی۔ تو صلح کی بات ہرگز زبان سے مت نکال بلکہ خدا سے یہ دعا مانگ کہ میری فتح ہو۔"
سرخاب بولا کہ پیرومرشد! یہ لازم نہیں کہ بہت فوج اور خزانہ ہونے سے فتح ہو۔ اگر خداوند سے کسی نے اس مقدمے میں بہ صورت ترغیب کے کہا ہو، محض غلط ہےکیوں کہ آپ کے لشکر کے لوگوں نے لڑائی کا منہ اور جنگ کا میدان نہیں دیکھا، اس واسطے لڑائی کے نام سے بہت خوش ہوتے ہیں ۔ جب کہ دشمن کی فوج کے سنمکھ (سامنے ) ہوں گے، تب دیکھیو

صفحہ 162
کہ ان کے پاؤًں ٹھہرتے ہیں کہ نہیں۔ لیکن میں جانتا ہوں کہ مخالف کو دیکھتے ہی بھاگیں گےبلکہ روکے سے بھی نہ رکیں گے کیونکہ انہوں نے آج تک کہیں لڑائی بھڑائی نہیں کی اور اپنے اپنے گھروں میں فراغت سے رہا کیے ہیں اور آرام طلب ہو رہے ہیں۔ اس واسطے میں منع کرتا ہوں کہ آپ ہرگز لڑائی کا قصد نہ کیجیے اور صلح کرنی بہت خوب ہے۔ اور بہت ایسے ہیٍں کہ گھر میں لاف زنی کیا کرتے ہیں، وقت پر کام نہیں آتے اور لڑائی کے میدان سے جلد بھاگتے ہیں۔ اگر تم کو لڑائی ہی کا ارادہ ہے تو جنہوں نے لڑائیاں دیکھیں ہیں اُن کو سردار کیا چاہیے، نہ ان کو جو ڈرے ہوئے ہوں۔ چناں چہ مشہور ہے کہ ڈرنے والے نہیں لڑتے مگر ناچاری سے۔ جو لوگ آزمودہ کار اور جنگ دیدہ ہیں اُن کو سالار فوج کیا چاہیے۔ اور مجھے بگلے کے فحوائے کلام سے یوں معلوم ہوتا ہےکہ ھُد ھُد آج کل مع فوج تمہارے ملک میں لڑائی کے لیے پہنچتا ہے۔ بالفعل صلاح وقت یہی ہے کہ کچھ تدبیر اس کی ابھی سے ہو رہے۔ اس وقت کچھ نہ ہو سکے گی۔ اس میں غفلت نہ کیجیے۔ کہتے ہیں کہ "دشمن جب تک دور ہے، اس سے احتراز کیا چاہیے، جب نزدیک آ پہنچےتو جنگ کرنا ضروری ہے۔" اور یہی معلوم ہوتا ہے کہ ھُد ھُد کی فوج آپ کے لشکر سے بہت ہے۔ کچھ ایسی فکر ہو جس سے یہ ملک ہمارے قبضے میں رہےاور اس کا کچھ اندیشہ نہ کیا چاہیے، کس واسطے کہ فتح خدادا د ہے۔
قاز نے کہا " اس کو بھی تم سوچو کہ کس حکمت سے شہر ہمارا سلامت رہے۔ " اُس نے عرض کی کہ یہ توتا جو ایلچی ہو کر آیا ہے، اب اس کو اذیت میں رکھنا مناسب نہیں بلکہ حضور میں بلوا کرایسی میٹھی باتیٍں کیجیے کہ وہ خوش رہے اور
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
صفحہ 163

مکان بھی اُس کے واسطے اچھا سا تجویز کیجیے کہ کسی طرح سے تکلیف نہ پاوے۔ پھر داناؤں کی صلاح سے ایک کوٹ بنوائیے۔ قاز نے پوچھا کہ کوٹ کے بنوانے میں توُ کیا فائدہ سمجھا ہے؟ کہا کہ قلعہ سرداروں کو ضرور ہے کیوں کہ برے وقت میں اگر کوئی سردار پانسے (پانچ سو) سوار سے اپنے قلعے میں رہے اور دس ہزار سوار دشمن کے اس کو محاصرہ کر لیویں تو چند روز اس کو کچھ اندیشہ نہیں۔ اس عرصے میں کچھ نہ کچھ صورت رفاھیت کی ہو جاتی ہے۔ اگر مخالف کی سپاہ پلٹ جاوے اور کوئی آ کر یہ بات کہے کہ دشمن کی فوج بھاگی جاتی ہے، ہرگز اس کے کہنے سے اُس کا پیچھا نہ کیجیے۔ اس میں اکثر لوگوں نے دغا کھائی ہے۔ اور عقل مندوں نے کہا ہے کہ جس کا لشکر بہت نہ ہو، اس کو چاہیے کہ شہر پناہ میں رہے۔ اگر شہر پناہ نہ ہو بنا لیوے اور دیواریں اس کی چاروں طرف سے بلند ہوں اور خندق گہری اور چوڑی ہو اور ہتھیار جتنے چاہیں اس میں موجود رہیں اور دانے پانی کا بھی ذخیرہ موجود رکھے۔ جب ایسا بندوبست آگے سے ہو رہے تو یک بیک کسی حریف کا قدم نہیں پڑ سکتا۔
قاز نے سرخاب سے کہا کہ اس کام کے واسطے میں کس کو مقرر کروں کہ جس سے یہ کام اتمام ہو؟ سرخاب بولا " اگر شتل کام کرنا منظور ہو تو ایسے کو کہیے کہ جس پر اپنا اعتماد ہو۔ سو ویساشخص اس سرکا ر میں سوائے کلنگ کوتوال کے دوسرا مجھے نظر نہیں آتا۔" تب اُس کو اُسی وقت بلایا اور وہ حضور میں حاضر ہوا۔ اُس کے حق میں بہت سی سرفرازی کر کے فرمایا کہ اے کلنگ! سرخاب کے کہنے کہ موافق جلدایک بڑا سا مضبوط قلعہ تیار کر۔ اُس نے آداب بجا لا کر عرض کی کہ
صفحہ 164

جہاں پناہ! غلام نے اس سے چند روز آگے ہی کوٹ تیار کرا رکھا ہے اور ذخیرہ غلے کا اور اسباب لڑائی کا جتنا کچھ چاہیے، سب اُس میں موجود کر رکھا ہے۔ یہ بات سن کر قاز بہت خوش ہوا اور قلعہ دیکھنے کو گیا۔ دیکھ کر نہایت پسند کیا اور خاطر جمع ہوئی اور اس کے حق میں بہت سی بخشش اور انعام ہوا۔
بعد کتنے دنوں کے ایک روز کلنگ نے قاز کے روبرو جا کر عرض کی کہ خداوند! میگھ برن نام کوا اپنی برادری سمیت دروازے پر حاضر امیدوار قدم بوسی کا ہے اور یہ عرض کرتا ہے کہ میں آپ کا نام سن کر نوکری کے لیے بہت دور کا چلا ہوا سنگل دیپ سے آتا ہوں۔ اگر مرضی مبارک ہو تو واسطے ملازمت کے حاضر ہو؟ قاز نے کہا "بہت اچھا، اسے نوکر رکھا چاہیے۔" سر خاب بولا کہ جو حکم ہوا سو بجا ہے لیکن بندے کو یہ ڈر ہے کہ مبادا یہ کوا بھیجا ہوا کہیں بادشاہ ھُد ھُد کا نہ ہو۔ والا` بڑی خرابی کرے گا۔ اگر اس کو آپ نوکر رکھیں گےتو رائے مدن پال سارنگ کی سی مثل ہو گی جو حاکم ترکستان کا تھا۔ قاز نے پوچھا " وہ قصہ کیوں کر ہے ؟" کہا:

نقل رائے مدن پال سارنگ کی

یوں کہتے ہیں کہ رائے مدن پال نے کسی وقت میں اپنی ساری فوج اور بڑے بڑے پہاڑ سے ہاتھی لے کر ایک قلعے کو معاصرہ کیا اور چھ مہینے تک لڑتا رہا۔ ہر چند لینے کا قصد کیا پر لے نہ سکا۔ ناچار ہو کر ایک دن مینا کرن اُس کے وزیر نے (جو بڑا دانا تھا ) کہا کہ حضرت! لشکر مفت مارا گیا اور کچھ فائدہ نہ ہوا۔ اب ایسی حکمت کیا چاہیے کہ فوج ہلاک نہ ہو اور قلعہ بھی تھوڑے دنوں میں ہاتھ آوے۔
صفحہ 165

راے نے کہا "اگر تیری تدبیر اور حکمت سے لشکر ضائع نہ ہو اور قلعہ جلد ہاتھ آوے تو اُس کی قلعہ داری اور دولت تجھے بخشوں۔" وزیر نے خوش ہو کر تین شخصوں کو بلوایا۔ ایک سائیس، دوسرا مہاوت، تیسرا باورچی۔ اُن تینوں کو کئی طرح سے جاسوسی اور فریب کے ڈھب سکھائے اور بہت سا انعام اکرام دے کر اُس قلعے میں دغابازی کے لیے بھیجا۔وے تینوں فقیرانہ لباس بنا کر کسی حیلے سے اُس کوٹ میں گئے۔
چند روز وہاں رہ کر وہ لباس تبدیل کر کے اپنے اپنے پیشے کی نوکری وہاں کے راجا کی سرکار میں کر کے ہر ایک اپنے اپنے کام میں جان و دل سے ہمیشہ سرگرم اور چست و چالاک رہنے لگا۔ جب اُن کی خدمت اور چالاکی ہر ایک کام میں وہاں کے سرداروں نے دیکھی، تب ایک کو اُن میں سے سرکاری میر مطبخ اور دوسرے کو اصطبل کا داروغہ کروایا اور تیسرے کو فیل خانے کی داروغگی دلائی۔ اُن کی طرف سے ہر ایک سردار کی یہاں تک خاطر جمع ہوئی کہ آپس میں کہنے لگے کہ ہمارے راجا کی سرکار میں ان تینوں کے برابر محنتی اور خیرخواہ اور کوئی نہیں۔
جب انہوں نے دیکھا کہ ہم سے یہاں کے لوگوں کی خاطر جمع ہوئی، تب آپس میں ایک نرالے مکان میں اکٹھے ہو کر کہنے لگے کہ وزیر نے جس کام کو ہمیں یہاں بھیجا ہے، اب اسے اس ڈھب سے کیا چاہیے کہ آدمیوں اور گھوڑوں اور ہاتھیوں کو پرسوں شب کے تئیں زہر کھلائیے اور یہاں سے نکل چلیے۔ تب اصطبل کے داروغے نے سارے گھوڑوں کو مہیلے کے ساتھ زہر کھلایا اور میر مطبخ نے تمام کھانے میں زہر ملایا اور فیل خانے کے داروغے نے بھی سارے ہاتھیوں کو راتب میں زہر دلوایا۔ جنہوں
 
آخری تدوین:

محمد عمر

لائبریرین
صفحہ 146 – 160

146

یہ سوز بڑی محنت سے سیکھا ھے۔ یہ بات سن کر وہ بہت ہنسا اور کہا "كیوں نہ ھو۔ جب تم ایسے بزرگوں کی خدمت میں رھے، تب ایسے صاحب کال ہوئے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ یہاں سے گھر پہنچ کر خاطر جمع سے میں سنوں گا۔" گدھے نے کہا "بھائی! جو تم متوجہ ھو کر گھر میں سنو گے تو میں دل کھول کر گاؤں گا اور اچھے اچھے دُھرپد سناؤں گا۔ بالفعل اگر کہو تو آھستے آھستے تمھارے سامنے کچھ گاؤں؟"

ھرن نے جواب دیا کہ اے یار! اگر تو اُس وقت گاوے گا تو اپنی پردہ دری آپ ھی کرے گا۔ وہ بولا "گانے والے کو تو جاں کندنی ھے اور سُنے (سننے) والے کو راحت۔ تو سنے گا میں گاؤں کا، اُس میں کیا بُرائی ھے۔" ھرن نے پھر صریحاً کہا کہ اُس وقت بولنا تیرے حق میں خوب نہیں۔ اسے کچھ عقل تو نہ تھی کہ اشارہ کنایہ سمجھے بلکہ وہ گدھا اپنی حماقت سے یہ سمجھا کہ اگر میں نہ بولوں تو یہ جانے گا کہ جھوٹا ھے۔ اپنے منہ کو کھول کر بڑے زور شور سے رینگنے لگا۔ ھرن اُس کی مصاحبت سے متنفر ھو کر بھاگا۔ کسان جو چپکا خندق میں چھپا ھوا تھا، اُس کی آواز سن کر نہایت خوش ھوا اور جانا کہ یہ گدھا ھے۔ ایک لٹھ لے کر دوڑا اور پھر پھرا کر پانچ چار ھاتھ ایسے مارے کہ اُس کا سر پھٹ گیا، کھوپڑی چور ھو گئی ۔

پھر قاز نے کہا "اے بگلے! اسی واسطے میں نے تجھ سے کہا کہ انسان کو لازم ھے کہ ہر وقت اپنی زبان قابو میں رکھے اور بات بیہودہ نہ کہے۔ اب سچ کہ کہ تیرے اور ھُد ھُد کے نوکروں کے درمیان اور کیا کیا باتیں ہوئیں؟ تب بگلے نے عرض کی "جہاں پناہ! میں نے جتنی آپ کی خوبی اور شجاعت اور سخاوت بیان کی، اُنہوں نے ویسی آپ کی اھانت اور نامردی اور

147

دنابیت ظاھر کی اور کہا کہ سوائے ھُدھُد کے کوئی دوسرا بادشاہ روئے زمین میں نہیں۔" قاز نے کہا "ان احمقوں کی وہ مثل ھے جیسا گدھا اور سوؤر اپنے عجب و غرور سے کسی کو اپنے سامنے چیز نہیں سمجھتا، مگر مست ھاتھی جب اُس کے سامنے آ جائے، تب اُس کی بڑا اور مٹائی دیکھ کر وہ گدھا اپنی بزرگی بھول جائے۔"

جیسا کہ ایک کمینہ کسی بزرگ کی خدمت میں رھے اور وہ درجہ اُس کا اپنی بدذاتی سے نہ سمجھے۔" بگلے نے عرض کی "جہاں پناہ! غلام نے بھی اُن کی باتوں کا یہ جواب خوب دکھا کر دیا کہ اب زمین کے تختے پر ایسا کون ھے جو میرے خداوندِ نعمت کی برابری کرے؟ تب اُس کے لوگوں نے کہا کہ تو جو ایسی بے دھڑک شوخی کی باتیں کرتا ھے، یا گفتگو تجھے نہیں پھبتی۔ مثل ھے کہ "چھوٹا منہ بڑی بات۔" اگر تو اُس بات چیت سے باز رھے تو تیرے واسطے بہتر ھے، نہیں تو اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھ۔ میں نے اُن کو کہا کہ میں لڑکا نہیں جو تمھاری ایسی دھمکی سے ڈروں۔ پھر بولے کہ سچ کہہ تو ھماری ولایت میں کیوں آیا ھے؟ میں نے کہا "اُس واسطے آیا ھوں کہ تمھارے شہر کو دیکھ کر اپنے شاہ کو جا خبر کروں اور اُس کو تمھارے ملک پر چڑھا لاؤں۔" یے باتیں میری سن کر غصے سے جل گئے اور سب کے سب خفا ہوئے۔ اور سب نے مل کر میرے تئیں بہت سا مارا اور اپنے بادشاہ کے پاس پکڑ لے گئے۔ اُس نے پوچھا "اُس سفید پوش کو تم کہاں سے پکڑ لائے؟" اُنہوں نے کہا "خداوند! یہ بڑا 'کھٹ پچرا' اور فتنہ انگیز ھے۔" پھر پوچھا "یہ رہنے والا کس ولایت کا ھے اور یہاں کیوں آیا ھے؟" اُنہوں نے عرض کی کہ خداوند! یہ قاز کے ملک میں رھتا ھے اور اُس

148

نے اُس شہر کا بھید لینے کے واسطے بھیجا ھے۔ اُس کا ارادہ ھم کو اس کی گفتگو سے ایسا معلوم ھوتا ھے کہ وہ آپ کی ولایت کو بھی لیا چاھتا ھے۔"

ھُدھُد نے کہا "پوچھو تو اُس حرام خور شریر سے کہ تیرے بادشاہ کا کیا ارادہ ھے اور تجھے یہاں اُس نے کیوں بھیجا ھے؟" غلام نے عرض کی کہ حضرت! میرے خداوند نعمت کا کئی برس سے ارادۂ دلى یہی ھے کہ تمھارے ملک پر چڑھیں اور تم سے آ کر لڑیں، لیکن جو راہ باٹ سے واقف نہیں ھیں اس لیے اب تک توقف ھوا، سو اب میرے تئیں لشکر کے اُترنے کی جگہ تلاش کرنے کو بھیجا ھے۔ اور بندہ اُن کے ملازموں میں سے ایک ادنا ملازم ھے۔ اور یہ آپ نے سنا ھو گا کہ اگر بکری ھمارے بادشاہ کا آسرا لے تو کسی شیر کا مقدور نہیں کہ اُس کی طرف دیکھے۔ اتنے میں کرگس نے جو وزیر اعظم ھُدھُد کا تھا، آ کر مجھ سے پوچھا کہ تیرے بادشاہ کا وزیر کون ھے؟ اُس نے کہا "سرخاب۔" کرگس نے کہا "البتہ ایسے بادشاہ کا ایسا ھی وزیر چاھیے کہ ھم شہری ھو؟ جیسا کہ حکماؤں نے کہا ھے "اگر کوئی وزیر اپنا کرے تو اُس کو لازم ھے، پہلے دریافت کرے کہ بزرگ زادہ اور عالم بے طمع اور ھم شہری اور صاحب ھمت ھو اور خدا کا خوف بھی دن رات اپنے دل میں رکھتا ھو۔" اُس مجلس میں جو ایک توتا دانا نام تھا، اتنے میں اُس نے آگے بڑھ کر اپنے بادشاہ ھُدھُد سے عرض کی کہ ملک قاز کا شامل صوبجات بادشاھی کے ھے۔ چند روز سے قاز از راہ سرکشی کے بغی ھو، اپنے تصرف میں لایا ھے۔ اگر اُس پر کچھ فوج تعین فرمائیے تو اقبال پادشاہی سے ھاتھ آنا اُس مکل کا نہایت سہل ھے۔ یہ بات سُن کر میرے تئیں ھنسی آئی اور میں نے کہا "اے بادشاہ ! :

149

جو باتوں میں سب کام ہوتا میسر
نظامی قدم اپنا رکھتا فلک پر
اگر صرف اُس توتے کے کہنے سے وہ ملک تمھارا ھو گیا تا ھم بھی کہتے ھیں کہ یہ شہر ھمارا ھے۔" توتے نے کہا "اے پگلے! بر محل جو ایک حجام جھوٹ بولا تو اُسے فائدہ ھوا۔ تو جو بے موقع جھوٹ کہتا ھے، تجھے کیا نفع۔۔۔۔۔؟" (۱)

پھر توتا بولا "اے بگلے! تجھ کو اتنا جھوٹ بولنے سے کیا حاصل؟ تو نہیں جانتا کہ جھوٹی باتیں ایمان کو کھوتی ھیں۔ معاذ اللّٰہ! جس کو جھوٹ بولنے کی عادت ھو، اُس کی بات پر کوئی اعتماد نہیں کرتا اور اُس کے کام کو کوئی سچ نہیں جانتا۔" میں نے کہا کہ سچ اور جھوٹ بولنا میرا تب تجھے معلوم ھو گا کہ میرے اور تیرے بادشاہ کے درمیان جب لڑائی ھو گی۔ خاطر جمع رکھو۔ چند روز میں تمھاری بزرگی بھی معلوم ھو جاتی ھے "ھاتھ کنگن کو آرسی کیا۔"

یہ بات سن کر ھُدھُد ھنسا اور کہنے لگا کہ جا تو اپنے بادشاہ کو خبر کر کہ سامان لڑائی کا تیار کرے۔ میں نے کہا کہ حضرت! بادشاہ میری بات کو ھرگز باور نہ کرے گا۔ اگر تم کو کچھ لڑائی کی تاب و طاقت اور ارادہ ھے تو ایک ایلچی کے ہاتھ پیغام بھجوا دیجیے۔ ھُدھُد نے توتے کی طرف دیکھ کر کہا کہ یہ کیا بکتا ھے؟ اُس نے عرض کی کہ خداوند! یہ جو بات کہتا ھے سو معقول کہتا ھے۔ آپ کا دھیان اور طرف ھے۔ تب

ا۔ اُس کے بعد ایک کہانی بہ عنوان "نقل ایک حجام اور اُس کی فاحشہ جورو کی" مکمل صورت میں کثافت کی وجہ سے حذف کر دی گئی ھے۔ (مرتب)


150

ھُدھُد نے فرمایا کہ ھمارے یہاں قابل ایلچی گری کے کون ھے؟ دریافت کرو۔
کرگس وزیر نے عرض کی کہ جہاں پناہ! ایسے شخص کو بھیجے جس میں علم اور رسائی، حلم اور بے طمعی، صلاحیت اور ایمان داری، جرأت اور دلیری، خلق اور دانائی، یہ سب وصف پائے جاویں اور جس بادشاہ کے رو برو جاوے، خوف اپنی جان کا نہ کرے اور سمجھ بوجھ کر جواب سوال کرے۔ ھُد ھُد نے کہا کہ اُس کام میں سوائے تیرے میری خاطر جمع کسی سے نہیں۔ بہتر یہ ھے کہ تو جا اور جواب سوال کر آ۔ کرگس بولا "غریب نواز! بندہ آگے ہی عرض کر چکا ھے کہ ایلچی اُس شخص کو کیجیے جو دلاور، صاحب شعور، خوش تقریر ھو اور گفتگو کا سلیقہ بھی درست۔ اور ھر ایک زبان میں مہارت رکھتا ھو اور بیہودہ گوئی نہ کرے۔ اور ایسی بات نہ کہے کہ جس میں اپنے خاوند (خداوند) کی سبکی ھو۔ اور بادشاہ کے کام میں اپنی جان کا صرفہ نہ کرے۔ یہ باتیں توتے میں پائی جاتی ھیں۔ اُس کام کے لائق یہی ھے، اسی کو بھیجا چاہیے۔"

یہ بات سن کر سب حاضران مجلس نے بھی پسند کی کہ واقعی سوائے اُس کے کوئی ایسا نہیں کہ جس میں یے سب صفتیں ھوویں۔ تب ھُدھُد نے توتے سے کہا "تو بگلے کے ساتھ قاز کے پاس جا اور کہہ کہ تو جو اتنی شکوہ کرتا ھے اور اپنے تئیں بادشاھوں میں گنتا ھے، کیا میرا ڈر تیرے جی میں مطلق نہ رھا اور اپنے تئیں اتنا بھولا کہ ھمسری کا دعوا کرنے لگا؟ اگر اپنا بھلا چاھتا ھے تو شاہ ھُدھُد کی خدمت میں حاضر ھو اور عذر خواہی کر، یا کچھ تحفہ تحائف پیش کش کے طریق سے بھجوا، نہیں تو ھاتھی اور گھوڑوں کے پاؤں تلے روندا جائے گا اور ملک تیرا ویران

151

ھو جائے گا۔
توتے نے عرض کی کہ میں نے بادشاہ کا حکم سر کے زور قبول کیا لیکن ایسے کم ظرف کے ساتھ جانا ھرگز مناسب نہیں؛ جیسا کہ اُس ھنس نے کوّے کی رفاقت میں اپنی جان دی، میں بھی وھی صورت اپنی دیکھوں گا۔ ھُدھُد نے کہا کہ اُس کا قصہ کیوں کر ھے؟ توتا بولا :

نقل ایک مسافر اور ھنس اور کوے کی
"اُجین شہر کے رستے میں ندی کنارے ایک بڑا سا درخت گولر کا تھا۔ اس کی ڈالیوں پر ھنس اور کوا دونوں بیٹھے تھے۔ اتفاقاً ایک مرد مسافر تیر کمان لیے ھوئے مارے دھوپ کے اُس کے تلے آ بیٹھا۔ راہ کی ماندگی سے اُس کی ٹھنڈی چھاؤں میں بے اختیار سو گیا۔ جب آفتاب سر پر آیا اور دھوپ پتوں سے چھن کر اُس کے منہ پر پڑی، تب ھنس نے اُس پر ترس کھا کر کوے سے کہا "اُس بٹوھی کے منہ كو دھوپ لگتی ھے، تو اپنے پر پھیلا کر اُس ٹہنی پر جا بیٹھ کہ جہان سے دھوپ اُس کے منہ پر پڑتی ھے، کیوں کہ راہ کا تھکا ماندہ آیا ھے، ٹک آرام کر لے۔ کوے نے کہا "اگرچہ یہ كام ثواب کا ھے پر مجھے درکار نہیں جو میں اپنے اُوپر اتنی محنت و مشقت اٹھاؤں۔ یہ ثواب تو ھی لے۔" ھنس اُس کے فریب نہ سمجھا، وہیں اُس ڈالی پر مسافر کے منہ پر چھاؤں کر بیٹھ رہا۔

اتفاقاً وہ مسافر منہ کھولے ہوئے سوتا تھا۔ وہ حرام خور شریر کوا اُس کے منہ میں پیخال کر کے وہاں سے ایک الگ ٹہنی پر جا بیٹھا۔ گرم گرم پیخال جو اُس راہ گیر کے منہ میں گری تو چونک پڑا۔ اوپر ھنس کو دیکھ کر غصے سے کہنے لگا کہ یہ اسی کا کام ھے۔ جلدی سے چلا کمان پر چڑھا کر ایسا تیر مارا کہ


152

چھاتی سے دو سار پھوٹ گیا۔
پھر توتے نے کہا "اے خداوند! کمینے کی صحبت خدا کسی بندے کو نصیب نہ کرے کیوں کہ بزرگوں نے کہا ھے :
بدوں کے ساتھ تُو کم بیٹھ کیوں کہ صحبت بد
اگرچہ پاک ھے تو تو بھی وہ پلید کرے
چنانچہ جلوۂ خورشید ھم جہان کے بیچ
پر ایک لکّہ ابر اُس کو ناپدید کرے


اور اُس بات کو ھر ایک سے کہتا ھوں کہ بد کی صحبت سے اپنے تئیں بچائے رکھے اور سچ ھے کہ برے کی رفاقت سے کچھ بھلائی نہیں ھوتی۔" ھُدھُد نے کہا کہ اے توتے! میں تجھے نہیں کہتا کہ تو بگلے کے ساتھ رھا کر جو حال تیرا اُس ھنس اور کوے کا سا ھووے۔ تجھ کو بہت دن اُس کی صحبت میں رھنا نہ پڑے گا۔ تھوڑے دن کے لیے ضرور ھے کہ اُس کے ساتھ رھے۔ توتے نے کہا "خداوند! آپ چند روز کے واسطے کہتے ھیں، وہ صوفی بے چارہ ایک شب کی صحبت میں رسوا اور فضیحت ھو گیا۔ ھُدھُد نے پوچھا کہ اُس کا قصد کیوں کر ھے؟ توتے نے کہا :

نقل ایک کمینے اور صوفی اور اھیرنی کی


سنا ھے کہ ایک کمینہ بہ اصل کی راہ میں چلا جاتا تھا۔ اتفاقاً ایک صوفی ملاقات سے ہوئی۔ اُس نے پوچھا کہ اے یار! تو کہاں جاتا ھے۔ اُس نے جواب دیا کہ گجرات اور وھاں سے اُجین جاؤں گا۔ کہا "کہو تو میں تمھارے ساتھ چلوں۔ مجھے بھی وہاں جانا ھے۔" پہ بولا " میرے سر آنکھوں پر، ان شاء اللّٰہ تعالىٰ بخیر و خوبی تجھے منزل مقصود کو پہنچا دوں گا، صوفی کچھ راہ خرچ لے کر اُس کے ساتھ ھو لیا۔


153

جب آفتاب کا گِردا مغرب کے تنور میں لگا اور شب نے اپنے چہرے پر تاریکی کی چادر تانی، وے دونوں ایک گاؤں میں جا کر کسی بنیے کی دکان میں اُتر پڑے۔ اتنے میں کوئی اھیرنی دھینڈی(۱) سر پر لیے ھوئے آ نکالی اور اُن دونوں سے کہنے لگی کہ میرا گھر یہاں سے پلے پر ھے۔ اگر تمہاری مرضی ھو تو میں بھی رات کی رات رہ جاؤں؟ وہ بولے کہ بہت اچھا، کچھ مضایقہ نہیں، جگہ ڈھیر ھے۔ اپنی دھی کی ھانڈی ھمارے پاس رکھ دے، تو ادھر سو رہ۔ یہاں کتے بہت ھیں، ایسا نہ ھو کہ کھا جاویں۔ اھیرن تو ھانڈی اُنھیں سونپ کر آپ سو رہی۔ کمینے نے آدھی رات کو اُٹھ کر ھانڈی کا دھی چٹ کیا اور تھوڑا سا صوفی کے ہاتھ منہ میں لگا کر چپ چاپ سو رھا۔ صبح کو یے (یہ) تینوں اٹھے اور اھیرنی نے دیکھا کہ ھانڈی میں دھی نہیں۔ لگی اپنا سر پیٹنے اور دونوں کا منہ دیکھنے۔ جب خوب دھیان کیا تو دیکھا صوفی کا ھاتھ اور منہ دھی سے بھرا ھے۔ کچھ پوچھا نہ گچھا، اُٹھتے ھی صوفی کی ڈاڑھی پکڑ کر لگی خوب لتیانے اور غل مچانے کہ تو نے ھی میرا دھی کھایا ھے، اور ھانڈی کو پھوڑ اُس کا گھیرا گلے میں ڈال دیا اور بازار میں لا کھڑا کیا۔

اگر میں بگلے کے ساتھ جاؤں گا تو میرا بھی ویسا ھی حال ہو گا۔ تب میں بولا "اے توتے! کتنی مثلیں گزرانے گا اور کیا کیا عذر لاوے گا۔ کچھ اندیشہ نہ کر، میرے ساتھ چل۔ میں غلاموں کی طرح تیری خدمت کرتا چلوں گا، تو نے آج تک مجھے نہیں پہچانا۔"

---

۱۔ وہ برتن جس میں دودھ جمائیں یا دھی رکھیں اُس کو "دھینڈی" یا :دھینڑی" کہا جاتا ھے۔ (مرتب)
154

توتے نے کہا "تیری بھل منسی اور خوبی اسی معلوم ہوتی ھے کہ تو دو بادشاھوں میں قضیہ کروایا چاھتا ھے۔ اور تو جو مجھے اپنے ساتھ چلنے کو کہتا ھے، اگر میں تیرے ساتھ چلوں تو میرا حال بھی اُس کمھار کا سا ھو گا۔ میس نے کہا کہ وہ نقل کیوں کر ھے؟" توتا بولا :

نقل نروتم کمھار اور اُس کی جورو بدکارہ کی
میں نے سنا ھے کہ بداؤں شہر میں نروتم نامی کمھار رھتا تھا اور جورو اُس کی بدکارہ تھی۔ لوگوں سے ھمیشہ لڑا کرتی۔ اُس کے ماں باپ، بہن بھائی آٹھوں پہر سمجھایا کرتے کہ بیٹا! تیری جورو کے لچھن بہت برے ھیں۔ وہ مورکھ ھرگز ان کے کہنے کو باور نہ کرتا۔

اتفاقاً ایک دن اُس نے اپنی عورت سے کہا کہ میں تیرے باپ کے گاؤں جاتا ھوں، تین دن میں آؤں گا، تو گھر سے چوکس رھنا۔ ایسا نہ ھو کہیں چور آ پڑیں۔ اُس نے ایک ٹھنڈی سی سانس بھر کر سر جھکا دیا اور رو رو کر کہنے لگی کہ تم تین روز کے آنے کا اقرار کرتے ھو اور مجھے تمھاری جدائی میں تین روز تین برس کے برابر ھیں۔ اُس کو روتا دیکھ کر وہ بھی آنکھوں میں آنسو بھر لایا اور عاجزی سے کہنے لگا کہ مجھ کو تو اپنے پاس ہی جانیو۔ میں جب تک تجھ کو نہ دیکھوں گا دانا پانی مجھے خوش نہ آوے گا۔

یوں اُسے سمجھا بجھا کر چلا گیا۔ کوس چار ایک پر جا کر یہ خیال اُس نے اپنے جی میں کیا کہ کمھاری کو میں روتا چھوڑ آیا ھوں، کہیں ایسا نہ ھو کہ وہ اپنے تئیں میری جدائی کے خنجر

155

سے جوھر(۱) کرے۔ اور دل میں کہنے لگا کہ خدا جانے یہاں سے گھر پہنچنے تک میں اسے جیتا پاؤں یا نہ پاؤں۔ یہ سوچتے ہی اُلٹے پیروں پھرا۔

اُس کی جورو نے کیا کیا کہ جب وہ گھر سے نکلا، دن دوپہر ھی ایک کٹ مستے کو کہیں سے لائی اور اپنی کوٹھری میں لے جا کر عیش کرنے لگی۔ پہر ایک رات رھے وہ کمھار پھر آیا۔ کواڑ کے پٹ بھڑے دیکھ کر جانا کہ کوئی غیر مرد اُس کے گھر میں ھے اور اُس کی آھٹ بھی پائی۔ یہ سمجھ کر وہ آھستے آھستے گھر کی ٹٹی کے نیچے ھو کر کسی پلنگ کے تلے گھس گیا کماری نے بھی پاؤں کے کھٹکے جانا کہ میرا خاوند چارپائی کے نیچے آ کر دبک رہا ھے(۲)۔۔۔ اپنے یار سے پکار پکار کر کہنے لگی۔ "اے مرد تو نے کہا تھا کہ میں ایمان دار ھوں، ایسا نہ ھو

---

١- یہ ھندی لفظ "جیوھر" سے نکلا ھے جس کے معنی مر جانے یا مار ڈالنے کے ھیں۔
جوھر کی رسم قدیم ہندو سماج میں کافی عرصے تک جاری رھی ھے۔ خاص طور پر راجپوت راجاؤں میں اُس کا بہت رواج تھا۔ اُس کی صورت یہ تھی کہ جب کوئی دشمن ان پر غالب آ جاتا تو وہ اپنے بچوں اور عورتوں کو قتل کر دیتے اور خود دشمن سے مقابلہ کرتے ہوئے مارے جاتے۔ لیکن ناسخ کے ایک شعر سے اُس کا جو مفہوم نکلتا ھے وہ "رسم ستی" سے بہت قریب ھے۔ ممکن ھے یہ بھی اُس کی ایک صورت ھو۔ ناسخ کا شعر یہ ھے :
جان شیریں کب گئی ھے کوہ کن کی رائگاں
کہتے ھیں شیریں نے آخر آپ کو جوھر کیا
(مرتب)
۲۔ یہاں سے کچھ الفاظ کثافت کی وجہ سے حذف کر دیے گئے ھیں۔
156

کہ اب۔ ایمان ھو جاوے۔ اور تو جانتا ھے کہ جو میں نے تیرے ساتھ شرط کی ھے۔" یار نے بھی اُس کے اظہار معلوم کیا کہ اُس بات میں کچھ فی ھے اور اُس چارپائی کے نیچے کچھ نہ کچھ ھے، تُو چپکا ھو رہ، دیکھ تو یہ عورت کیا کرتی ھے؟ پھر وہ بولی کہ میں نے تجھ کو کہا تھا کہ میرا خاوند گھر میں نہیں ھے، تو دو تین دن میری حویلی کی نگہبانی کر اور تو نے کہا تھا کہ تُو مجھ کو کیا دے گی؟ میں نے وعدہ کیا تھا کہ اپنے خاوند کے باغ سے ایک گلدستہ خوش بو دار پھولوں کا بنا کر تجھ کو دوں گی۔ لیکن پھر اُسی وقت میں نے اُس اقرار کا انکار کیا اور یہ بھی کہہ دیا تھا کہ اگر تو کچھ پیسا ٹکا مانگے گا تو ایک دمڑی نہ پائے گا۔ پھر تو نے کہا تھا کہ میں کچھ نہیں چاہتا، بھلا کسی وقت رات کو اپنی پائنتی(۱) لیٹ رھنے دینا؛ میں نے اس شرط پر قبول کیا تھا کہ میرے خاوند کی کسی چیز کو ہاتھ نہ لگاوے۔

تب مرد بولا کہ اے نیک بخت! میں ایسا دغاباز بے ایمان نہیں ھوں کہ پرائی چیز پر ہاتھ ڈالوں۔ اور جس کی بات کا ٹھکانا نہیں اُس کے ایمان کا بھی نہیں۔ جیسا تجھے اپنے خاوند کا ڈر ھے، مجھے خدا کا خوف ھے۔ میں نے اس عمر میں بہت سیر کی ھے، پر تجھ سی عورت ستونتی اور دیانت دار کہیں نہیں دیکھی۔ اسی عصمت و پارسائی کے سبب سے تیرا خاوند تجھے چاہتا ھے۔

رنڈی نے کہا تو جو اتنی تعریف میرے صلاح و تقوے کی کرتا ھے، میں کس لائق ھوں؛ پر شب و روز خدا کی درگاہ میں سوائے اپنے خاوند کے کسی غیر مرد کا منہ
---

۱- مطبوعہ نسخہ ۶۸۶۸ء میں "پانئتی" ھے۔


157

نہ دیکھوں۔۔۔۔(۱) اتنے میں چھپر کھٹ کا ایک پایا ٹوٹ گیا۔ کمہار نے جلدی اپنے ہاتھ کے آسرے پر تھام لیا، گرنے نہ دیا۔ تمام شب وہ سہارا دیے بیٹھا رھا۔۔۔۔ (۲)
جب صبح ھوئی، گھر والے نے چھپر کھٹ کے نیچے نکل کر اُس جوان کو گلے لگا لیا اور کہا "اے یار! صد رحمت تجھ کو اور تیرے ماں باپ کہ جیسی تو نے میرے مال کی اور گھر بار کی حفاظت ویسا ھی خدا تیرے ایمان کا نگاہ بان رھے۔ میں نے تجھ سا صالح اور پرہیزگار کہیں نہیں دیکھا؛ شاید کہ جہان تیرے ھی قدم سے قائم ھے۔"

یہ کہہ کر کچھ روپے بہ طریق نذر اُس کو دیے اور رخصت کیا۔ پھر اپنی جورو کے لگا پاؤں پڑنے اور اُس کی عصمت پر صد آفرین کرنے اور دعائیں دینے اور کہنے تو نے میری ڈاڑھی کی شرم رکھی، خدا تجھے ویسی ہی جزا دے۔

عورت بولی کہ "شکر ھے خدا کی درگاہ میں جو اب تک تیری فرماں برداری میں مجھ سے قصور نہیں ھوا، اور شب و روز یہی چاھتی ھوں کہ خدا تیرے سامنے مجھ کو زمین کا پیوند کرے کہ اُسی سے میری دونوں جہان میں سرخ روئی ھے۔"

یہ قصہ تمام کر کے توتے نے مجھ سے کہا کہ جیسا کہ وہ کمھار احمق اپنی عورت کی بدکاری آنکھوں سے دیکھ کر اُس کے مکر و فریب میں آ گیا، میں ویسا بے وقوف نہیں جو تیری میٹھی باتوں پر بھول جاؤں اور جہاں تو لے جاوے چلا جاؤں۔ میں نے کہا

---
۱- یہاں سے چھ سات سطریں کثافت کی وجہ سے حذف کر دی گئی ھیں۔
۲۔ ایک فقرہ کثافت کی وجہ سے حذف کر دیا گیا ھے۔


158

"وہ کمھار نہایت دانا تھا، اگر تجھ سا نادان ھوتا تو اپنی عورت کا بھید ظاھر کرتا تو رنڈی سمیت اپنے ھم چشموں میں رسوا ہوتا اور وے دونوں عمر بھر ساری خلقت کے انگشت نما رھتے۔ اگر وہ برداشت نہ کرتا تو غصے سے کسی کو مارتا یا آپ مر رھتا۔"
توتا بولا کہ تو مجھ سے کھتا ھے کہ اگر وہ تجھ سا ہوتا تو وھیں خون خرابہ کرتا۔ شکر خدا کا کہ مجھے حق تعالیٰ نے آج تک ھر ایک بری بات سے بچا رکھا ھے اور اب تلک ایک خون بھی میرے ہاتھ سے نہیں ھوا اور تو اتنے خون ناحق روز کرتا ھے کہ میری عقل میں نہیں آتے۔ بھلا یہ تو کہہ، خدا کو کیا منہ دکھاوے گا اور کون سی دلیل اپنے بچانے کے لیے لاوے گا۔ میں نے کہا "تو نہیں دیکھتا، میں پانی میں جب پاؤں رکھتا ھوں کیسا ھولے ھولے چلتا ھوں کہ مبادا میرے پاؤں تلے کوئی جی آوے۔" توتا بولا "اے دغا باز! تیرا ھولے چلنا فریب سے خالی نہیں۔ پانی میں تو یوں آھستے آھستے چلتا ھے کہ کسی کو صدمہ نہ پہنچے لیکن جیتی مچھلیوں کو بے تامل نگل جاتا ھے۔"

جب ھُدھُد نے دیکھا کہ دونوں کی تقریر میں سراسر خلاف ھے اور توجیہ دونوں کی درست ھے، تب خانِ سامان کو فرمایا کہ بگلے کے واسطے سات پارچے کا خلعت جلد لاؤ۔ میرِ سامان نے جلدی سے چوگوشے میں لگا حضور میں لا حاضر کیا۔ بادشاہ نے مجھے دی او خاطر داری کر رخصت کیا اور کہا :تو آگے چل، میں تیرے پیچھے توتے کو بھی قاز کے پاس بھیجتا ھوں۔ میں دو تین روز کے درمیان حضور میں آ کر حاضر ھوا۔ پھر کھڑے ھو کر ادب سے کہنے لگا " پیر و مرشد! آپ غافل کیوں بیٹھے ھیں، لڑائی کی تیاری کیجیے، ھُدھُد جنگ کے ارادے فوج لیے آتا ھے، کوئی دن کو یہاں آن پہنچے گا۔" یہ بات سن کر

159

قاز اور اُس کے وزیر سرخاب نے ھنس دیا اور بگلے سے بہ طور رمز کے کہنے لگے "کیا خوب! تو اتنی مدت کے سفر میں یہ تحفہ لایا؟" بگلے نے عرض کی "جہاں پناہ! آپ مانیں یا نہ مانیں جو باتیں سچی اور خیر خواھی کی تھیں، سو میں نے خدمت میں گزارش کیں، آگے جو مرضی خداوند کی ھو سو بہتر۔" بادشاہ نے بگلے کہا کہ جتنے تمھارے بھائی بند ھیں سبھوں کو جمع کر کے ھمارے پاس لاؤ، ھم اُن کو نوکر رکھیں گے۔

یہ بات سن کر بگلا بہت خوش ھوا اور قاز سے رخصت لے کر گھر آیا اور اپنے بھائیوں کو اور برادری کے لوگوں کو جمع کرنے لگا۔ تب سرخاب نے قاز سے عرض کی کہ خداوند! ایسے بد باطن فریبی کو سرکار میں دخیل کرنا مناسب نہیں ھے۔ قاز نے سرخاب کی بات کا جواب نہ دیا اور یہ کہا "ایسا ماجرا ھم نے اپنے بزرگوں میں کبھی نہیں سنا تھا، سو اُس کی زبانی سنا، شاید یہ بات سچ ھو۔ اب تو ایسی فکر کر کہ دشمن غالب نہ ھو سکے۔" سرخاب نے کہا کہ جہان پناہ! اس مشورے کے لیے خلوت ضرور ھے کیوں کہ اگر کوئی صلاح داناؤں کی مجلس میں کرے، گو کہ آواز اُس کی اُن کے کان تک نہ پہنچے، تو بھی وے اُس کے ھوٹھوں (ہونٹوں) کی حرکات اور ھاتھوں کے ھلنے اور سر کی جنبش سے صاف معلوم کر جاتے ھیں۔ پس ایسی جگہ چاھیے کہ جہاں کوئی نہ دیکھے اور وھاں کے بیٹھنے کی کسی پر اطلاع نہ ھو۔ مثل ھے کہ "دیوار ھم گوش دارد۔"

آخرش بادشاہ اور وزیر دونوں خلوت میں گئے۔ تب سرخاب کہنے لگا کہ میرے خیال میں یہ آتا ھے کہ بگلے کو ھُدھُد کے یہاں صلح کے لیے بھیجیے۔ لڑائی خوب نہیں کیوں کہ "جنگ دو سر دارد، خدا جانے فتح کس کی ھو۔" قاز نے یہ اُس کی مصلحت


160

پسند نہ کی؛ تب عرض کی کہ اول دو چار عقل مندوں کو ھُدھُد کے ملک میں جاسوسی کے لیے روانہ کیجیے تا کہ اُس کے لشکر کی تعداد اور روز روز کا احوال دریافت کر کے حضور میں بہ طور خفیہ نویسی کے پہنچایا کریں۔ کیوں کہ بادشاہ کو لازم ھے کہ جب کوئی فکر لاحق ھو تو اُس کا جلد تدارک کرے اور ھرگز غافل نہ رہے۔ اور جاسوسوں کے عیال اطفال کو بہ خوبی نظر بند رکھے کہ وے اُس ملک کے لوگوں سے مل نہ جاویں۔ اور اپنے لڑکے بالوں کو مخفی بھی نہ لے جا سکیں اور تم سے بغاوت نہ کریں۔

قاز نے کہا "تیری دانست میں لائق جاسوسی کے کون ھے؟" سرخاب بولا کہ :پیلک (۱)" لیکن پہلے اُس سے مچلکا اور قسم لے لیجیے کہ یہ بات (کہ جس کے واسطے ھم تم کو بھیجتے ھیں) نہ کسو سے کہیو۔ اگر وہ بات کِسو پر کھلے گی تو بڑی سزا تم کو دی جائے گی کیوں کہ افشائے راز میں بڑی بڑی قباحتیں ھیں۔ تمام ملک فساد برپا ھو گا اور کام بھی خاطر خواہ انجام نہ پاوے گا۔ بات بگڑ جائے گی، پھر اُس کا سنوارنا نہایت مشکل ھو گا۔

تب قاز نے پیلک کو بلوایا اور جس طرح سے کہ سرخاب نے کہا تھا، اسے قسم کھلا، مچلكا لے، خلعت اور پان دے جاسوسی کے لیے بھجوایا، اور زبانی بھی فرمایا کہ میں دیکھوں تو کیسی خیر خواھی سرکار کی کرتا ھے۔ بعد دو تین روز کے کلنگ کوتوال نے بادشاہ کے سامھنے (سامنے) آ کر عرض کی کہ جہاں پناہ! ھُدھُد جو خشکی کا بادشاہ ھے، اُس کی طرف سے ایلچی ھو کر ایک

---

۱۔ جامع اللغات میں "پیلک" کے حسب ذیل معانی درج ھیں۔ "سیاہ چیونٹا، کوئل، زرد رنگ کا ایک چوٹا پرند۔"
 

محمد عمر

لائبریرین
202

نے کہا "اب میرا جی یہ چاھتا ھے کہ جہاں میں نے مچھلیوں کو پہنچایا ھے، وہاں تم کو بھی لے جاؤں، تب میری خاطر جمع ھو۔ وہ بولا کہ آب کو تصدیع ھو گی۔ میں اپنے پاؤں جاؤں گا کیوں کہ میرے پاؤں نہیں آھستے آھستے کوس آدھ کوس چلنے کی طاقت ھے۔ یہ بولا "یار! میں جانتا ھوں کہ پاؤں چلنے سے تمھیں تکلیف ھو گی اور تمھاری اذیت میرے نامۂ اعمال میں لکھی جائے گی۔ بہتر یہ ھے کہ تم میری پیٹھ پر چڑھ بیٹھو تو بس تم کو اُس بلائے ناگہانی سے بچاؤں۔

آخرش وہ بعد اُس رد و بدل کے راضی ھوا، تب اُس نے پیٹھ پر بٹھا کر وہاں لا اُتارا جہاں مچھلیوں کو کھایا کرتا تھا۔ کینکڑے نے جو دیکھا کہ سوائے خشکی وھاں پانی کا نام و نشان نہیں مگر مچھلیوں کے سروں کی ھڈیاں پڑی ھوئیں وھاں دکھائی دیں۔ دل میں ڈر کر بگلے سے کہا کہ تو نے سب مچھلیاں یہاں لا کر کھائیں ھیں۔ اب کیا مجھے بھہ کھایا چاھتا ھے؟ اُس بات کے ساتھ ھی اُچھل کر بگلے کا سر اپنے منہ پکڑ لیا۔ اُس نے بہترا زور کیا کہ اپنا سر اُس کے منہ سے چھڑاوے، پر کچھ فائدہ نہ ھوا بلكہ وھیں مر کے رہ گیا۔

پھر کرگس نے ھُدھُد سے عرض کی کہ میں یہ مصلحت نہیں دیتا کہ آپ ملک کوّے کو دیں۔ اُس نے کہا : "اگر کوّے کے قبضے میں یہ ملک ھو گا تو مال و متاع کی کچھ کمی اور غلّے کا بھی قحط نہ ھو گا اور میں اپنے ملک میں فراغت سے عیش و عشرت کروں گا۔" کرگس نے جواب دیا کہ پیر و مرشد! ایسے خیال اور اُس اندیشے سے آپ کی حالت اُس نعل بند کی ھو گی ھُدھُد نہ پوچھا کہ اُس کی داستان کیوں کر ھے؟ کرگس کہنے لگا


203

نقل شادی نام ایک بنیے اور دلوالی نعل بند کی


یوں کہتے ہیں کہ شادی نام ایک بنیے نے بازار سے گھڑا بھر کڑوا تیل خریدا اور وہاں کھڑا ھو پکارنے لگا کہ جو کوئی محنتی اسے میری دکان تک پہنچوائے تو ایک ٹکا اُسے مزدوری دوں گا۔ دلوالی نام ایک نعل بند وہاں کھڑا تھا؛ وہ گھڑا اپنے سر پر اٹھا کر اُس کی دکان کی طرف لے چلا اور چلتے ھوئے یہ دل میں منصوبہ کرنے لگا کہ اُس ٹکے کی مرغی لوں گا، وہ بیس انڈے دے گی، پھر بائیس دن کے بعد بیس بچے نکالے گی، جب وے بڑے ھوں گے، ان کو بیچ کر بکری خریدوں گا۔ اُس کے کچ بچ سے گائے، پھر اُس سے گھوڑی، گھوڑی سے اونٹنی، پھر ھتنی مول لوں گا۔

جب اُس سوداگری سے بہت دولت ھاتھ آئے، تب چار بیاہ کروں گا؛ ہر ایک جورو سے چار چار بیٹے تولد ھوں گے وے جوان ھو کر شہزادوں کی طرح تازی گھوڑوں پر سوار ھو کر شکار کا ارادہ کریں گے تو میں اُن کے جلو میں چلوں گا تا کہ اور لوگ اُن کی تعظیم و تکریم کریں۔
اُس بے ہودہ خیال میں گھڑے کا دھیان جاتا رہا؛ وہ سر سے زمین پر گر کر پھوٹ گیا اور سارا تیل بہہ گیا۔ تب بنیے نے اُس کے سر کے بال پکڑ کر ایسا لتيايا کہ اُسے وہ مار عمر بھر نہ بھولے گی۔ مثل ھے کہ غریب آدمی سے کیا ھو سکے۔
تب ھُدھُد بولا کہ اگر میں ملک کی طمع کروں اور اُسے فائدہ ھو گا جیسا کہ اُس نعل بند کو ھوا۔ پھر اُس نے کرگس سے پوچھا "بھلا اب کیا کیا چاہیے؟" اُس نے کہا "خداوند! آپ ذرا کوّے کو بلا کر پوچھیں تو سہی کہ اُس نے قاز کے ساتھ کیا حرکت کی کہ اُس

204

کے گھر میں ایک مدت تک رہا اور عین لڑائی کے وقت اُس کے قلعے میں آگ لگا دی؛ چنان چہ اسی واسطے اُس کی لڑائی بگڑ گئی اور ملک اُس کا تباہ ھو گیا۔" تب ھُدھُد نے اُس کو بلا کر پوچھا کہ اے میگھ برن! تو نے قاز کے ساتھ ایسی زبوں حرکت کیوں کی؟ اُس نے تو کچھ تیرے ساتھ برائی نہیں کی تھی۔ دنیا میں نیکی کا بدلہ یہی ھے جو تُو نے اُس کے ساتھ کیا؟ کوّے نے جواب دیا کہ حضرت! غلام نے آپ کا نمک کھایا تھا، اُس واسطے نمک حلالی کی، نہیں تو قاز کی خوبیوں میں کچھ شبہ نہیں۔ خدا ترس، عقل مند، خدا ترس، عقل مند، عادل مثل نوشیرواں کے ھے اور کبھی اُس سے کسو کو ایذا نہیں پہنچی۔ اُس کے اوصاف سے میری زبان قاصر ھے کیوں کہ میری بات ھر ایک امر میں سنا کیا اور اپنے وزیر کی صلاح پر کام نہ کیا، جیسے کہ مرد ملتانی نے رندوں کے کہنے پر عمل کیا۔ ھُدھُد نے پوچھا کہ "وہ کیوں کر ھے؟" کوّا بولا :

نقل ایک ملتانی اور رندوں کی
یوں سنا ھے کہ ایک مرد ملتانی بازار سے بکری خرید کے اُس کی رسّی ھاتھ میں پکڑے ھوئے اپنے گھر لیے آتا تھا۔ جب نزدیک گاؤں کے پہنچا، کئی ایک رند ایک جگہ کھڑے تھے۔ آپس میں صلاح کی کہ اُس آدمی کسی چھال بل سے بکری اُڑایا چاھیے۔ سب نے ایک دل اور ایک زبان ھو کر بندش باندھی اور تین چار جگہ جدا جدا راہ میں بیٹھے۔ اُن میں سے پہلے ایک نے ملاقات کی اور کہا کہ اے بھائی! یہ نجس کتا تو نے کہاں پایا؟ اُن نے جواب دیا کہ یہ کتا ھے کہ بکری؟ میں اسے بازار سے مول لیے آتا ھوں۔ لیکن دل میں کچھ شک پڑا۔ منہ پھیر کر بکری کی طرف دیکھا۔ معلوم کیا کہ بکری ھے،

205

تب کاندھے پر رکھ لے چلا۔ تھوڑی دور بڑھا تھا کہ دوسرے سے ملاقات ہوئی۔ وہ بولا "اے ملتانی! اُس کو کاندھے پر رکھ کر لے جاتا ھے، اگر یہ مُوتے تو کپڑے تیرے نا پاک ھوں گے۔"

ملتانی نے اپنے دل میں سوچا کہ آگے ایک کتا کہہ چکا ھے، دوسرا بھی نا پاک کہتا ھے۔ کاندھے سے اُتار کر پھر دُڑیا لیا۔ تھوڑی دور آگے چلا تھا کہ ایک بوڑھا درخت کے نیچے بول اٹھا کہ اے مرد! تو دیوانہ ھے کہ آنکھوں کی جوت ھی گھٹ گئی ھے کہ کتا سا نا پاک، جانور ھاتھ میں پکڑے لیے جاتا ھے۔ یے سب باتیں سن کر تب تو يقين ھوا کہ شاید کچھ عقل میں یا بینائی میں خلل ھوا ھے کہ کتے کو بکری جان کر مول لے جاتا ھوں۔ کچھ اندیشہ نہ کیا، بکری کی رسی ھاتھ سے چھوڑ دی اور آپ کپڑوں سمیت ندی میں جا کود پڑا۔ تنہا دھو گھر کی راہ پکڑی اور بکری اُن رندوں نے لے جا کر شوق سے چٹ کی۔

ھُدھُد نے پھر کوّے سے کہا کہ تو نے قاز سے وہ حرکت بد کی کہ کسی نے کِسو کے ساتھ ایسی کم کی ھو گی۔ کوّا بولا "اے بادشاہ! عقل مند اپنے مطلب کے لیے دشمن کو وقت پر ملا لیتے ہیں۔ جب غرض اپنی حاصل ھو چکتی ھے تو اُس کو ٹھکانے لگا دیتے ہیں۔ مگر آپ نے قصہ مینڈک اور سانپ کا نہیں سنا۔" ھُدھُد نے پوچھا "وہ کس طرح ھے؟" کوّے نے کہا :

نقل ایک سانپ اور مینڈکوں کے بادشاہ کی
ایک پرانا سانپ کہ اُس میں چلنے پھرنے کی طاقت نہ رھی تھی، ایک جھیل کے کنارے پر آھستے آھستے آ کر غم گین

206

ھو بیٹھا۔ تب مینڈکوں کے بادشاہ نے پوچھا "اے سانپ! تجھے کیا ھوا ھے جو اتنا دل گیر ھے؟" اُس نے جواب دیا کہ تجھے پرائی کیا پڑی تو اپنی نبیڑ۔ مینڈک بولا "اے سانپ! نا خوش کیوں ھوتا ھے۔ اگر کچھ تیری چیز پانی میں گر پڑی ھو تو کہہ۔ میں اپنے لشکر کو حکم کروں کہ بجنس اُد چیز کو ڈھونڈ لاوے۔"
اُس نے کہا "اے مینڈک! اُس شعر میں ایک برھمن کا لڑکا بہت خوب صورت تھا۔ اُس کو میں نے کاٹا۔ باپ نے اُس کے درد سے کھانا پینا سب چھوڑ دیا۔ اُس کے بھائی نے اُس کو سمجھا بجھا کھلا، پلا یوں اُسے نصیحت کی کہ بھائی! صبر سب کی یہی راہ ھے؛ چناں چہ کسی شاعر نے کہا ھے :
مت پوچھو رفتگاں کو کیدھر تھے اور کہاں تھیں
شاھان نام ور اور دلھنیں جو نوجوان تھیں
تب برہمن یہ کہہ کر اٹھ کھڑا ھوا کہ اے دوستو! میں اُس گاؤن میں نہ رھوں گا، کس واسطے کہ یہی ایک لڑکا میرا تھا سو خدا کی راہ میں کیا۔ اب مجھے بستی سے کیا کام؟ میں بن باسی ھوں گا۔ تب انھوں نے کہا "اے بھائی! کوئی ڈاڑھی منڈانے اور جامہ پھاڑ کر جنگل میں جا رہنے سے سادہ نہیں ہوتا مگر جس کی کرنی اچھی ھو۔

سو اے مینڈک! میں نے اسی وقت خواب دیکھا کہ ایک مرد بوڑھا نہایت بزرگ صورت مجھ سے یوں کہتا ھے کہ اے سانپ! تو نے اُس غریب لڑکے ہھینٹے کو ناحق کاٹا؛ کل قیامت کو تیری پیٹھ پر مینڈک سوار ھوں گے اور اسی عذاب میں ہمیشہ خدا تجھے گرفتار رکھے گا۔ اگر اُس عذاب سے تو اپنا چھٹکارا چاھے تو کنارے جھیل کے جہاں مینڈک بہت سے ھوں، وہاں جا کر ان کے سردار

207

کو اپنی گردن پر سوار کر کے لیے پھرا کر۔"
مینڈک یہ بات سنتے ہی نہایت خوش ھو کر اپنے دل میں کہنے لگا کہ خدا نے مجھے مفت یہ گھوڑا دیا۔ شاید میرے طالعوں کی مدد سے ایسی سواری ملی۔ اُسی وقت سانپ کی پیٹھ پر چڑھ بیٹھا اور کہا کہ فلانی جگہ میرا دشمن ھے۔ اگر تو تصدیع کر کے مجھے وھاں تک لے چلے تو میں اسے ماروں۔ سانپ نے یہ بات مانی؛ تب سب مینڈکوں کو اپنی جلو میں آگے رکھ لے چلا۔ جب اُس تالاب کو چھوڑ کر آگے بڑھے، سانپ نے جانا کہ آب یہ بھاگ کر اُس تالاب تک نہیں پہنچ سکیں گے۔ کسی بہانے اپنے تئیں زمین پر گرا دیا۔ مینڈکوں کے سردار نے پوچھا کہ تو کیوں گر پڑا۔ اُس نے کہا کہ تیری فوج کو دیکھ کر مجھے بھوک لگی ھے۔ وہ بولا کہ میرے لشکر سے دو چار مینڈکوں کو کھا لے۔ سانپ نے کہا "اے بادشاہ! لشکر کم ہونے سے تجھ کو برا لگے گا۔" وہ بولا کہ تیرے کھانے سے میری فوج کم نہ ھو گی۔

سانپ ھر روز دو تین مینڈک کھانے لگا۔ تھوڑے دنوں میں سب کو نگل گیا، اکیلا بادشاہ رہا۔ سانپ نے پوچھا "اے بادشاہ! آج میں کیا کھاؤں؟ مجھے بھوک لگی ھے۔" مینڈک نے کہا "اے سانپ! کسی تالاب یا جھیل کے کنارے چل کے اپنا پیٹ بھر لے۔" تب اُس نے کہا "تمھارے سارے لشکر نے میرے پیٹ میں چھاؤنی کی ھے۔ بادشاہ کا لشکر سے جدا رہنا خوب نہیں۔ جو اپنی فوج کے ساتھ آپ بھی اُس چھاؤنی میں داخل ھوں تو بہت بہتر ھے۔ تب وہ اپنی موت سمجھ کر چپ ھو رھا۔ سانپ نے اپنے شہ سوار کو زمین پر پٹک کر کئی کوڑے دُم کے مارے اور کھا گیا، جیسا کہ کسی شاعر نے کہا ھے :
208

گردن بندگی نیست خم ھے درِ فرمان پر
گوے سر اپنا فدا کیوں نہ کرے چوگاں پر
کوا بولا "اے ھُدھُد بادشاہ! جو کوئی دشمن کی بات پر فریب کھاتا ھے، اُس کے آگے ایسا ھی دن آتا ھے۔ اب آپ کو ملاپ کرنا قاز کے ساتھ ضرور ھے۔" ھُدھُد نے کہا "اے کوّے! اُس کے بھائی بند، نوکر چاکر لڑائی میں میرے ھاتھ سے بیت مارے گئے ھیں اور ملک اُس کا لے لیا ھے، میں غالب ھوا ھوں۔ اب اُس کو چاھیے کہ اپنے گلے میں پٹکا ڈال کر میرے پاس آوے اور میری اطاعت اختیار کرے؛ تب البتہ اُدھر سے بھی اُس کے حق میں مہربانی ھو گی۔"

انہیں باتوں میں تھے کہ ایک جاسوس پہنچ کر آداب بجا لایا اور عرض کی کہ پیر مرشد! غافل کیا بیٹھے ھیں۔ مہابل کلنگ منہ بولا بھائی سرخاب کا جو وزير ھے قاز بادشاہ کا، بہت فوج لے کر آپ کے ملک پر چڑھا چلا آتا ھے۔ اگر وہ لشکر کبھو یہاں آیا تو تمھارے دیس کو ویران اور رعیت کو تباہ کرے گا۔

اس میں ھُدھُد نے وزیر سے کہا کہ میں سو کوس کی دوڑ ماروں گا اور اپنے ملک کو پشت پر دے کر اُس کی ولایت کو تہہ و بالا کروں گا۔ کرگس نے ھنس کر کہا "زھے تدبیر اے بادشاہ! مردوں کو جو کام کرنا منظور ھوتا ھے، پہلے اسے کر کے تب زبان سے نکالتے ہيں۔ اور ایک بارگی حریفوں سے الجھ پڑنا مصلحت سے دور ھے۔ اگر آپ لڑائی کے ارادے طرف کلنگ کا متوجہ ھوویں اور قاز لشکر کی پچھاڑی چڑھ دوڑے تو دو طرف کی لڑائی سے آپ عہدہ برا نہ ھو سکیں گے اور ویسی ندامت اٹھائیں گے جیسی اُس برھمن نے اٹھائی۔ "ھُدھُد نے پوچھا کیسی؟"

209

کرگس بولا :
نقل ایک برھمن اور نیولے کی
میں نے یوں سنا ھے کہ کسی برہمن نے ایک نیولا پالا تھا۔ کیا ھوا کہ اُس کے گھر میں ایک دن پانچ سات کہیں سے مہمان آ گئے۔ اُس میں وہ باھمن اشنان کے لیے ندی پر گیا۔ برھمنی سخت حیران ھوئی کہ اگر لڑکے کی خبر لوں تو مہمانوں کی خدمت سے محروم رھوں اور وے بے دل ھوں گے، اور جو اُن کے پاس حاضر رھوں تو لڑکا اکیلا رہتا ھے۔ یہ فکر کر کے نیولے کو لڑکے کے پاس حفاظت کے لیے چھوڑ کر مہمانوں کے کام کاج میں جا لگی۔ اُس کے جانے پر تھوڑی دیر کے پیچھے ایک سانپ اُس لڑکے کے پاس ڈسنے کو پہنچا۔ نیولے نے دیکھتے ھی جھپٹ کر سانپ کو مار کر ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا اور اُسی لہو بھرے منہ سے گھر سے باھر نکالا۔ برھمن نہائے ھوئے، بٹلوھی ھاتھ میں، انگوچھا کاندھے پر دھرے چلا آتا تھا۔ اُس کی نگاہ نیولے پر پڑی۔ اُس کا منہ لہو لہان دیکھ کر اُسے گمان ھوا کہ یہ نیولا میرے لڑکے کو مار کر اُس کا لہو پی کر آیا ھے۔ یہ خیال اپنے دل میں ٹھہرا کر اُسے مار ڈالا۔ گھر میں آن کر کیا دیکھتا ھے؟ کہ لڑکا سلامت ھے اور ایک سانپ اُس کے نزدیک موا ٹکڑے ٹکڑے ھوا پڑا ھے۔ یہ حالت دیکھ کر اُس نے بہت افسوس کیا اور ایسا رویا کہ روتے روتے بیمار ھو گیا۔

پھر کرگس نے کہا "اے بادشاہ ! بے اندیشے کام کرنے کا پھل آخر پشیمانی ھے۔" ھُدھُد نے کہا "اے وزیر! کسی کو بھیج دے کہ قاز سے صلح کر آوے۔ وہ بولا کہ میرے سوائے اور کسو کے جانے سے ھرگز ملاپ نہ ھو گا ۔

210

ھُدھُد نے جواب دیا "جو متر ھو سو کیا چاھیے۔" وہ اُس کے حکم سے قاز کے پاس گیا اور ادب مجرا کر کے قدموں پر گر پڑا۔ قاز اُس سے بغل گیر ھوا اور چھاتی سے لگا کر اور بہت سی خاطر داری کی۔ جب آپس میں باتیں ھونے لگیں، تب قاز نے کہا "اے کرگس! خوب ھوا کہ تو آیا، نہیں تو لشکر مہابل کلنگ کا تیرے بادشاہ کے ملک میں پہنچ کے خراب کرتا اور میرا ملک اور قلعہ جو تمہارے ھاتھ آیا ھے، صرف اُس کوّے کی بد ذاتی اور حرام زدگی سے و الا کیا دخل تھا۔ اُس مُفسد کے مکر و فریب سے میں نہایت رنجیدہ خاطر ھوں۔" کرگس نے عرض کی کہ حضرت! جب تک زمین و آسان کو قیام ھے، دشمن کی دوستی اور قول و فعل پر ھرگز اعتبار اور عمل نہ کیجیے۔ میں اپنے بادشاہ کو ھر طرح کا نشیب و فراز سمجھا کر صلح کے ڈھب پر لایا ھوں۔

قاز بادشاہ نے اُس کی اُس گفت گو سے بہت راضی اور خوش دل ھو کر اُسے بھاری خلعت دیا۔ گرکس نہایت خوش و خرم ھوا اور جو اُس کے دل میں اندیشہ اور دغدغہ تھا سو قاز کی مہربانی سے جاتا رہا اور کہا "اے بادشاہ! جس نے مہمان کی حرمت کی، اُس نے گویا اپنے بزرگ کی خدمت کی۔" قاز نے کہا "اے کرگس! تو نے کچھ دریافت کیا کہ ھُدھُد نے کس لیے تجھ کو صلح کے واسطے بھیجا ھے؟" وہ یہ بات سن کر چپ رھا؛ تب اُس نے پھر کہا کہ میں یوں جانتا ھوں کہ تجھے مہابل کلنگ کی دھشت سے صلح کے لیے بھیجا ھے کیوں کہ لشکر اُس کا بہت ھے۔ یہ کہہ کر کرگس کو دوبارہ انعام دیا اور اُس کے ساتھ کئی اونٹ جواھر اور کپڑے کے اور کئی مخمل اور اطلس اور کم خواب اور زربفت کے، اور سو گھوڑے تازی اور ترکی ھُدھُد کے


211
واسطے بہ طریق سوغات دے کر رخصت کیا۔
جب بہ اسباب کرگس اپنے ساتھ لے کر ھُدھُد کی خدمت میں جا گزرانا، ھُدھُد بہت خوش ھوا۔ کرگس نے التماس کیا کہ اے بادشاہ! اگر میں نہ جاتا تو سخت قباحت ھوتی۔ لشکر مہابل کلنگ کا تمھارے ملک کو لوٹ لاٹ خراب خستہ کر دیتا۔ بڑی خیر گزری کہ بہت جلد صلح ھو گئی، تمھاری فوج خشکی میں کم تھی اور مہابل کلنگ کا لشکر تری میں اُس قدر تھا کہ ساری جھیلیں و تمام ندیاں اُن سے ایسی چھا رھی تھی کہ ایک قطرہ پانی کا جھلکتا نظر نہیں آتا تھا اور لشکر قاز کا اُس کے علاوہ تھا۔

تب توتا بولا "يہ بات جھوٹ ھے۔ اگر حضرت سوار ھوتے تو فوج کی کثرت سے زمین یوں بھر جاتی جیسے کہ آسمان اندھیری رات میں تاروں سے چھا جاتا ھے۔ اُن کی فوجیں اُس لشکر کے مقابل ایسی ھیں جیسے آٹے میں لون۔" ھُدھُد بولا "اے نادان! لڑنے بھڑنے کا کیا فائدہ؛ خدا نے خیر کی کہ ھماری فتح ھوئی اور بعد اُس کے صلح خاطر خواہ ھوئی۔ قاز نے اطاعت کی، بالفعل نذرانہ ھمارے واسطے بھیجا اور آئندہ نعل بندی قبول کی۔ غرض ھُدھُد اور قاز اپنے اپنے ملک کی سلطنت اور بادشاھت پر خاطر جمعی سے قائم ہوئے اور حکم رانی بخوبی کرنے لگے۔

يہ سب قصہ بشن سرما پنڈت نے راجا کے بیٹوں کو سنایا اور اسیس دی۔ تب راجا نے خوش ھو کر اسے بہت سا دان دچھنا اور خلعت و انعام دیا اور بڑی تعظیم و تکریم سے رخصت کیا۔
ختم شد
 

صابرہ امین

لائبریرین
ص197 سے 201
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ص197


یارو ! اگر آج اتنی یاری کرو کہ مجھے یہاں سے کسی اور ندی میں لے پہنچاؤ تو میں بچتا هوں ۔ قازوں نے کہا ” تیرا جانا خشکی میں اچھا نہیں ۔“ کچھوا بولا ” اگر تم مجھ کو نہ لے جاؤ گے تو میں اپنے پاؤں سے جاؤں گا ۔“ یہ سن کر قاز فکر مند هوئے اور کہا ” تمھاری حالت اُس بگلے کی سی هو گی ۔“ کچھوے نے پوچھا ”وه قصہ کیوں کر هے؟“
نقل ایک سانپ اور بگلے کی

قاز بولے کہ بھاگ رتی ندی کے کنارے پر ایک درخت تھا اور اُس کے نیچےکسی جانور کا ایک بل تھا۔ اُس میں ایک سانپ رهتا تھا ۔ هر روز سوراخ نکل کر وھاں پھرا کرتا ، جو کچھ
کھانے کی چیز پاتا سو کھا لیتا ، اُس درخت کے رهنے والوں کو اذیت نہ دیتا ۔ اس میں ایک بگلے نے اُس پر گھونسلا بنا کر بچے دیے۔ یہ اُسے اندیشہ ھوا کہ کسی دن یہ سانپ ھمارے
بچوں کو کھا جائے گا ۔ ایسی تدبیر کیا چاهیے ، کسی طرح یہ مارا جاوے اور بچے همارے محفوظ رھیں ۔ ایک بگلا جو اُن میں بوڑھا بڑا تھا ، سو بولا که یارو ! ایک نیولا آج میں نے اسی درخت کے نیچے پھرتے دیکھا ھے ۔ تم ایک کام کرو کہ ندی سے اپنے اپنے منہ میں ایک ایک مچھلی پکڑ لاؤ اور اس درخت کے تلے ڈال دو ۔ مجھے یقین هے که وه نیولا اُن کے کھانے کے لیے آوے گا اور سانپ بھی اپنے سوراخ سے نکلے گا ۔ اُن دونوں کی آپس میں عداوت قلبی ھے ، دونوں لڑیں گے ، اغلب که سانپ نیولے کے ھاتھ سےمارا جائے گا۔
بگلوں نے موافق اُس کی صلاح کے ندی سے مچھلیاں نکال کر درخت کے نیچے ڈال دیں اور آپ اُس کی ٹہنیوں پر چپکے
ص 198

هو بیٹھ رهے ؛ اس انتظار میں کہ ، اُن دونوں میں لڑائی هو اور هم تماشا دیکھیں کہ کون کس کے هاتھ سے مارا جاتا هے ؟ اتنے میں کیا دیکھتے هیں کہ نیولا کہیں سے آ نکلا اور مچھلیوں کو چن چن کر کھانے لگا ۔ سانپ بھی مچھلیوں کی طمع سے نکلا پر نیولے کو دیکھ ایک جھاڑی تلے دبک رها ، اس ارادے سے کہ نیولا سرکے تو میں اُن میں سے لوں ۔
اتفاقاً نیولے کی نظر اُس پر جا پڑی اور وہیں جھپٹا ۔ دونوں کی لڑائی ہونے لگی ۔ آخرش نیولے نے اُسے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا ۔ پھر سر اٹھا کے جو اوپر دیکھا تو سفید بگلے چمکتے نظر آئے ۔ جانا کہ اس درخت پر بھی مچھلیاں هیں ۔ اوپر چڑھ گیا ۔ بگلے تو اُڑ گئے، گھونسلوں میں جو بچے تھے ، اُنهیں چٹ کر گیا اور کھوند هے آن کے اُجاڑ دیے ۔
قاز بولے ” اے یار ! مرد وه هے کہ پہلے اپنے واسطے جگہ نئی ٹہرا لے ، تب اپنے قدیم گھر کو چھوڑے ۔ يہ بس پاس تیرا سب جگه سے بہتر ہے ۔“ کچھوے نے جواب دیا '' دوستو! تم همیشه اس راہ سے آتے جاتے هو ۔ کبھی مجھ سے کوئی خطا نہیں هوئی . ناحق
مجھ کو کیوں ڈراتے هو۔“ قازوں نے بہت سا سمجھایا لیکن اُس نے اُن کی نصیحت نہ مانی ۔ تب انھوں نے لاچار ہو کر کہا ” لے تو اب ایک کام کر ۔ اس لکڑی کو بیچ سے منہ میں پکڑ ، اگر تجھے کوئی کالی بھی دیوے تو هرگز ن نہ بوليو ۔“ اُس نے کہا ”گالی کیا ، جو مجھے کوئی مارے گا ، تو بھی دم نہ ماروں گا ۔ “ اس قول و قرار پر اُس لکڑی کے سرے دونوں قاز منہ سے پکڑ کر لے اڑے ۔ جب ایک گاؤں کے برابر پہنچے ، تب وہاں کے لوگ تماشا دیکھنے لگے ۔ اُن میں سے ایک لڑکا بولا کہ اگر یہ

ص199

کچھوا گرتا اور میرے هاتھ آتا تو اسے بھون کھاتا۔ دوسرے نے کہا ”جو میں اسے پاؤں تو پکا کھاؤں ۔“کچھوے کو ان باتوں کی برداشت نہ هوئی ، نہایت خفگی سے بولا ”خاک کھاؤ ۔،، بولنے کے ساتھ ہی زمین پر آ رها ۔ لڑکوں نے دوڑ کر پکڑ لیا اور بہت فضیحت کیا ۔
پھر سر خاب نے کہا ” اے بادشاہ ! جو کوئی اپنے رفیق کا کہا نہ سنے تو اس کے آگے ایسا هی دن آتا ھے۔ اسی بات چیت میں تھے جو کلنگ کے بھائی نے آکر سلام کیا اور کہا ” غلام نے آگے کہلا بھیجا تھا کہ قلعے کے اندر کوا هُد هُد کا بھیجا هوا هے اور اُس نے اُس کو خلعت ديا هے اور جو ملک لیا سو اُس کے لڑکوں کے نام مقرر کیا ، لیکن کرگس وزیر اُس کا اس بات سے راضي نہ هوا بلکہ اُس نے عرض کی کہ حضرت ! یہ ملک کوے
کو نہ ديا چاهیے کیوں کہ میں اُسے بے وفا جانتا هوں - هُد هُد نے جواب دیا” جو نوکر نمک حلالی کرے ، اُس کے حق میں مہربانی کرنی ضرور هے کہ پھر دوسرے وقت خاوند (خداوند) کا کام دل و جان سے کرے ۔ کرکس نے کہا ” حضرت ! کوا کم ذات بد آئین هے ، جو کوئی اس کے حق میں نیکی کرے گا ، وہ دیکھے گا جو بوڑھے جوگی نے دیکھا۔ “ هُد هُد نے پوچھا که وه نقل کیوں کر ھے ؟ کرگس نے کہا ۔ نقل ایک جوگی اور چوھے کے بچے کی ”یوں بیان کرتے هیں که کنارے پر دریا سندھ کے ایک جوگی کا دھرا تھا ۔ ایک روز وہ اُس کے دروازے پر بیٹھا جپ کرتا تھا که ایک کوا چوهے کا بچه اپنے جنگل میں لیے اُڑا جاتا تھا ۔ قضاکار وہ اُس کے پنجوں سے کسی طرح چھوٹ کر زمین پر گر پڑا ۔ اُس نے اُسے ازره شفقت زمین سے اُٹھایا اور

ص 200

موذی کے چنگل سے چھڑایا اور اُس کا جی بچایا اور ایسی اُلفت سے اُسے پالا پوسا کہ وه بڑا هوا۔ ایک روز اُس پر کہیی بلی جھپٹی - جوگی نے کسی طرح بہ هزار خرابی اُس کے منہ بھی بچایا ۔ پھر اپنے دل میں یہ ٹھانا کہ اس چو هے کو بلى بنایا چاهیے تا کہ اور بلیوں سے بچے ۔ دعا کرتے ھی ترت چوهے سے بلى هو گئی اور کتوں سے لگی ڈرنے ؛ تب فقیر نے اُسے کتا بنایا ۔ پھر اُس کے جی میں یوں آیا کہ اسے شیر بناؤں کہ هر ایک درند کی گزند محفوظ رھے ۔ آخر اُس کی دعا سے وہ شیر ہوا ۔ دن کو وہ جنگل میں شکار کے لیے نکل جاتا ، رات کو آکر جوگی کی چوکی دیا کرتا ۔ جو لوگ اُس کے دیکھنے کے لیے آتے ، سو آپس میں پول چرچا کرتے کہ پہلے یہ چوھا تھا ، فقیر کی دعا سے بلى هوا ، پھر کتا هوا ؛ تس پیچھے باگھ بنا ۔ اُس نے يہ بات سن کر اپنے دل میں فکر کی کہ جیسا میں
پہلے تھا ، ویسا هی يہ جوگی جو مجھے بنا ڈالے تو میں اس کا کیا کر سکوں گا - بہتر یہ هے کہ اسے مار ڈالوں تو سب آفتوں سے نچنت رهوں - یہی خیال خاطر میں لا کر وهیں جوگی کو مار کر اس کا لہو پیا اور اپنے بدن پر بھی لگایا۔ پھر کرگس نے هُد هُد سے کہا ” اگر یه ملک تم کوّے کو دو گے تو تمھاری حالت جوگی کی سی هوگی ۔“ هُد هُد نے اُسے
جواب دیا '' جو میں اس ملک کا لالچ کروں تو میرا احوال بھی اُس بگلے کا سا هوگا۔ “ کرگس نے پوچھا کہ حضرت وه قصہ کیوں کر ھے ؟ نقل ایک بوڑھے بگلے اور مچھلیوں کی هُد هُد کہنے لگا که هندوستان میں ایک بڑی جھیل ھے ، نام اُس کا گرمتی ۔ لیکن گرمی کے ایام میں اس میں پانی کم

ص201

رہتا ھے ۔ ایک دن اُس کے کنارے پر ایک ایسا بوڑھا بگلا جو اتنی طاقت اُس میں نہ تھی کہ دوسری جھیل میں جا سکے ، آیا اور ماتم زدوں کی طرح فریب سے صورت بنا کے سر بازو کے پروں میں ڈال بیٹھا ۔ ایک کینکڑے نے اُسے اس طرح سے بیٹھا دیکھ کر پوچها

که آج میں تمھیں نہایت مغموم دیکھتا ھوں، اس کا کیا سبب هے ؟ اس نے جواب دیا کہ میں نے کل اپنے دوست سے یوں سنا هے کہ کل اس جھیل کی ساری مچھلیاں جنیے مار لے جائیں گے میں اس شش و پنج میں بیٹھا ھوں کہ میرا حال کیا هوگا کیوں کہ اس جھیل کی مچھلیوں پر میری روزی موقوف هے - اُن کے مارے جانے پر مجھے غذا کہاں سے ملے گی اور میں اپنی باقی عمر کیوں کر کاٹوں گا ۔ کینکڑے نے یہ سن کر اُن مچھلیوں کو جا خبر کی - وے سنتے ھی گھبرا کے سب کی سب رونے لگیں اور اُسی کے ہاتھ یہ پیغام بگلے کو کہلا بھیجا کہ شکاریوں کے هاتھ سے همارے بچنے کی کیا تدیبر ھے ؟ بگلا بولا کہ میری دانست میں نیک صلاح یہ هے کہ تم ایک ایک مچھلی کو مجھے لا کر سپرد کرو ۔

میں اُسے اپنی چونچ میں لے کر دوسری جھیل میں (جو یہاں سے کوس دو ایک پر هوگی اور پانی بھی اُس میں هے) چھوڑ چھوڑ آؤں گا۔ اُس نے اُس کی صلاح کے موافق کیا ۔ جتنی مچھلیاں اُس میں تھیں ، ایک ایک کر کے سب کی سب اُسے پہنچائیں ۔ وہ اُنھیں
ایک ایک کر اس حکمت سے کسو گوشے میں لے جاتا اور کھا آتا۔ کینکڑا اکیلا رہ گیا ، تب اُس نے بگلے کہا ” آپ نے بڑی محنت اور کام ثواب کا کیا ، اس کا اجر خدا سے پاؤ گے۔“ پھر بگلے
 
آخری تدوین:

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
صفحہ نمبر 121 سے 125

صفحہ نمبر 124

رہیے۔ جب رات نے اپنا دامن سمیٹا اور سورج نے صبح کے گریبان سے منہ نکالا، تب ساد کنوار اپنے گھر آیا۔

اس طرح سے کئی رات آیا جایا کیا۔ اُس رنڈی کے گھر میں کاٹھ کا ایک جڑاؤ پُتلا طلسم کا بنا ہوا، نام اُس کا عجیب، پیشانی پر اُس کی ایک لعل بے بہا جڑا ہوا تھا کہ جس کی روشنی کے باعث چراغ کی حاجت نہ تھی۔ اُس کو دیکھ کر ساد کنوار کا دل للچایا اور اپنی خاطر میں یہ بات لایا کہ اس عورت نے میرے بہت سے روپے لیے ہیں۔ اُن کے عوض یہ جواہر بیش قیمت لیجیے اور یہاں سے چپکے چل دیجیے۔

اُس رنڈی نے جو اُس کے بشرے سے دریافت کیا کہ یہ اُس جواہر کو مفت اُڑانا چاہتا ہے: یہ سمجھ کر اُس کے پاس سے سرک گئی اور ایک پردے کی آڑ میں جا بیٹھی۔ اس نے جو اتنی فرصت پائی تو چارپائی سے اُٹھ کر ہاتھ دوڑایا کہ اُس گوہر شب چراغ کو اکھیڑ لے۔ جوں ہی اس کا ہاتھ اُس تک پہنچا وونہیں (وہیں) اُس پتلے نے اُس کا پنجہ پکڑ لیا۔ اُس نے بہتیرا چاہا کہ کسی تدبیر سے اپنا پنجہ چھڑا کر بھاگے لیکن اُس نے اور بھی ایسا گہکر پکڑا کہ یہ بے قابو ہوگیا۔ ندان جب چھڑا نہ سکا تو گھبرا کر چلانے لگا۔ تب اُس کی لونڈیوں نے یہ ماجرا دیکھ کر اپنی بی بی سے (جو پردے کو لگی اس واسطے بیٹھی تھی) جا کہا۔ "لو نہ بی بی! تُمہاری مراد بر آئی۔"

یہ خوش خبری سنتے ہی وہ وہاں سے دوڑی آئی۔ آ کر دیکھا کہ دام میں سونے کی چڑیا پھنسی ہے۔ ہنس کر کہنے لگی کہ اے ساد کنوار! میں جانتی تھی کہ تو کسی بڑے آدمی کا لڑکا ہے اور یہ نہ سمجھتی تھی کہ تو ایسا اُچکا دغا باز ہے۔ دیکھ ابھی کوتوال کو خبر کرتی ہوں۔ وہ تجھے لے جا کر سُولی دے گا۔
 

عبدالصمدچیمہ

لائبریرین
صفحہ نمبر 121 سے 125

صفحہ نمبر 125

ایسے چور کی سزا یہی ہے۔ یہ سن کر بہت ڈرا اور اپنی کوتہ اندیشی پر ہزار لعنت و ملامت کی۔ پھر منت و التجا سے کہنے لگا کہ اے پنڈکی! کسی طرح تو مجھے کوتوال کی سولی سے بچالے۔ وہ بولی کہ ایک صورت سے تیری جان بخشی ہوسکتی ہے۔ اگر تو مال و اسباب اپنا مجھ کو منگا دے اور پھر کبھی اُس کا دعویٰ مجھ سے نہ کرے، اور نہیں تو اپنی جان سے ہاتھ دھو۔ اُس نے دیکھا کہ سوائے اس کے میرا چھٹکارا نہیں: تب اُس نے اپنے لوگوں کو بلوا کر کہا کہ میرا سب مال و متاع اُس کے حوالے کرو، نہیں تو میں اس کے ہاتھ سے مارا جاتا ہوں۔ اُنہوں نے تمام نقد و جنس جو کچھ تھا، اُس عورت کو لا دیا۔ تب اُس نے اُس کا ہاتھ چھڑا دیا تو وہ غریب راتوں رات بھاگ کر کسی طرف چلا گیا اور رفتہ رفتہ تمہارے ملک میں آ نکلا۔ یہ سب احوال راجا کے نوکروں نے سُن کر حجام کو چھوڑ دیا۔

یہ قصہ دوتک نے کرتک سے کہہ کر کہا کہ جیسے گندھرب اور سادکنوار اور حجام نے عورتوں کے ہاتھ سے ذلت کھینچی، ویسی ہی ہم نے بھی اس بیل سے۔ اب کچھی ایسی تدبیر کیا چاہیے کہ جس ڈھب سے شیر اور بیل میں دوستی کروائی تھی، ویسی اُن دونوں میں دشمنی ڈلواؤں۔ کرتک نے کہا "یہ امر نہایت مشکل ہے، کیا تو نے نہیں سنا کہ سیتا باوجود کہ رام کی جورو تھی، اُس سے کچھ نہ ہوسکا؟" دوتک نے پوچھا "کیوں کر؟" اُس نے کہا:

نقل سیتا، رام اور اُس کی بہن

"اگرچہ وہ قصہ طول طویل ہے لیکن مختصر کرکے کہتا ہوں۔ سیتا، رام اور اُس کا بھائی لچھن اُن تینوں نے بارہ برس تک ایک جنگل میں گزارن کی۔ جب لنکا میں راون نے یہ بات
 

الشفاء

لائبریرین
صفحہ نمبر 141 سے صفحہ نمبر 145
--------
صفحہ 141
-------
جا پہنچا۔ وھاں ایک پہاڑ نظر آیا۔ اُس کو دھولاگر کہتے ھیں۔ اُس کے گرد میوے دار درخت بہت سے دیکھنے میں آئے اور وھاں کے باشندوں سے یہ معلوم ھوا کہ یہاں کے پرندوں کا بادشاہ ھُدھُد ہے۔
میں نے اپنے جی میں یہ ارادہ کیا کہ اگر اُس سے ملاقات ھو جاوے تو کیا خوب اتفاق ھو۔ میں اسی سوچ بچار میں بیٹھا تھا کہ اتنے میں اُس کے بھی دس بارہ نوکر وھاں آ نکلے۔ مجھ سے اور اُن سے جو گفت گو درمیان آئی سو قابل اظہار کے نہیں۔
قاز نے کہا "تم شوق سے بے خوف و خطرے جو دیکھا اور سنا ھے سو کہو، اُس کا کچھ مضائقہ نہیں۔ مثل ھے کہ "نقل کفر کفر نہ باشد۔" جب بگلے کی خاطر جمع ھوئی، ادب سے بیٹھ کر کہنے لگا کہ اے خداوند! آتے ھی اُس کے نوکروں نے مجھ سے پوچھا " تو کون ھے اور یہاں کیوں آیا ھے؟" میں نے کہا " قاز بادشاہ کے خاص نوکروں میں سے ھوں اور بہ طریق سیر کے ادھر آ نکلا ھوں۔ اب اپنے ملک کو چلا جاؤں گا۔"
پھر میں نے اُن سے پوچھا کہ تم کون ھو؟ بولے کہ ھم ھُدھُد بادشاہ کے نوکر ھیں، جو اس وقت میں ویسا بادشاہ کوئی نہیں۔ میں نے کہا کہ اتنی بڑائی اور فخر کرنا کیا ضرور ھے۔ خدا کی قدرت معمور ھے۔ پھر انہوں نے پوچھا کہ تم سچ کہو کہ اپنے اور ھمارے بادشاہ میں کس کو بڑا جانتے ھو اور دونوں کے ملکوں میں سے کس کا ملک زیادہ آباد ھے؟ میں نے جواب دیا کہ اے نادانو! کیا پوچھتے ھو " کہاں راجا بھوج اور کہاں گنگا تیلی۔"
"چہ نسبت خاک را با عالم پاک"​
کرن پور ھمارا وہ شہر ھے کہ بہتوں پر فضیلت رکھتا ھے اور ھمارے بادشاہ کا ثانی آج تک نہ کوئی ھوا ھے نہ ھو گا۔ پس
-------
صفحہ 142
-------
اب بہتر یہ ھے کہ اس جنگل اور پہاڑ میں رہ کر کیا کرو گے؟ ھمارے بادشاہ کے یہاں چلو۔ اور تمھارے بادشاہ کی وھی مثل ھے کہ "جہاں روکھ نہیں تہاں ارنڈھی رُوکھ ھے۔" اگر ھمارے ملک میں کبھی تم آؤ اور اُس کی بڑائی اور آبادی اور بادشاہ کے عدل و انصاف کو دیکھو تو دنگ رہ جاؤ اور بہت محظوظ ھو۔ پس اب بہتر یہ ھے کہ اس جنگل اور پہاڑ کو چھوڑو اور ھمارے بادشاہ کے یہاں چلو۔
اس گفت گو کےسنتے ھی وے چیں ابرو ھوئے اور رشک کی آگ میں جلنے لگے اور عداوت پر کمر باندھی؛ جیسا کہ داناؤں نے کہا ھے کہ سانپ کے منھ میں شربت اور احمقوں کو نصیحت کڑوی لگتی ھے۔ اور ان باتوں سے مجھے کمال پشیمانی حاصل ھوئی، جیسا کہ بعضے پرند جانور ایک بندر کو نصیحت کر کے پشیمان ھوئے۔ قاز نے کہا " اسے بیان کرو، وہ کیوں کر ھے؟" وہ بولا:
نقل ایک بندر اور پرندوں کی
کسی پہاڑتلی میں ایک نالے پر بڑا سا درخت پاکڑ کا تھا۔ اُس کی ٹہنیوں پر بھانت بھانت کے جانور گھونسلے بنا کر رھا کرتے تھے۔ ایک دن ھر چہار طرف گھٹا اُمڈی اور بجلی چمکنے لگی اور مینھ جھماجھم برسنے لگا۔ جاڑے کا ایّام تھا، سردی سے دانت پر دانت لگے باجنے۔ اتنے میں ایک بندر کانپتا ھوا اُس درخت کے نیچے آیا۔ اُن جانوروں نے اُس کی یہ حالت دیکھ اپنے دل میں ترس کھا کر کہا کہ اے بندر! دیکھ تو ھم کیا ایک مُشت پر ھیں۔ اس جُثّے پر کس کس محنت و مشقت سے ایک ایک تنکا گھاس کا چن لاتے ھیں اور اپنے گھونسلے بناتے ھیں؛ تب برسات کےموسم میں
-------
صفحہ 143
-------
فراغت سے اپنے بچوں کو لے کر سکھ سے رھتے ھیں۔ اور حق تعالیٰ نے تجھ کو ایسا جانور قوی بنایا ھے اور ھاتھ پاؤں دیے ھیں، تجھ سے اتنا کام نہیں ھو سکتا کہ اپنے واسطے کوئی جگہ ایسی بنا رکھے کہ بارش میں پانی کی بوچھار سے اور ھوا کے جھٹکے اور جاڑے کے صدمے سے محفوظ رھے؟ بندر نے جب یہ سنا، درخت کی بلندی پر نظر کی اور کہا " سبحان اللہ تم سکھ سے رھو اور ھم دکھ میں۔" جب مینھ کھلا، بندر نے اُس درخت پر چڑھ کر جتنے کھوندھے اُن کے تھے، سب اُجاڑ ڈالے اور بچے نیچے گرا دیے۔
اے بادشاہ! بے وقوف کو بات بتانی اپنے اوپر اذیت اٹھانی ھے۔ میں نے اُن کے بھلے کو نصیحت کی تھی، وے سمجھے کہ ھمارے بادشاہ کی اھانت کرتا ھے؛ چاھتے تھے کہ مجھ کو پکڑ کر ماریں، میں اپنی عقل کے زور اور خداوند کے اقبال سے بچ نکلا تھا، لیکن اتنی بات جو میرے منھ سے نکل گئی کہ ھمارا بادشاہ کہتا ھے "ھُدھُد کو کس نے بادشاہ کیا؟" یہ بات سن کر وہ غصے ھوئے اور لات مکی کرنے لگے۔ میں نے بھی اپنی جواں مردی سے دو چار کو ٹھونکا۔
قاز نے کہا " اے نادان! عقل مند کو ھر ایک کام میں تحمل کرنا بہتر ھے۔ جیسا کہ شرم و حیا عورت کا زیور ھے، ویسا ھی تحمل مرد کی آرائش ھے۔" بگلا بولا " خداوند! جب جورو اور خصم باھم لڑتے ھیں، نہ عورت شرم کرتی ھے، نہ مرد تحمل۔" قاز نے کہا " اے بگلے! دانا وہ ھے کہ سمجھ کر کسی کام میں ھاتھ ڈالے اور جو کوئی اکیلا ھو کر زور آوروں کے ساتھ لڑتا ھے، فضیحت اور رسوا ھوتا ھے۔ اگر تو اپنی زبان نہ کھولتا تو اتنی خفّت نہ اٹھاتا جیسا کہ اپنی بے عقلی سے اُس گدھے نے مار کھائی اور رسوا ھوا۔" بگلے نے پوچھا کہ اُس کا قصہ کیوں کر
-------
صفحہ 144
-------
ھے؟ قاز کہنے لگا:
نقل پارس ناتھ دھوبی اور اُس کے گدھے اور ھرن کی
" میں نے سنا ھے ، دیباپور شہر میں ایک پارس ناتھ دھوبی تھا۔ قضا کار اُس کے گدھے کی پیٹھ پر یونہیں ایک زخم سا نمود ھوا۔ کوّوں نے چونچیں ایسی ماریں کہ گدھا نپٹ مجروح ھو گیا؛ یہاں تک کہ کھانا پینا ایسا چھٹ گیا اور نہایت دبلا ھو گیا۔ دھوبی نے دیکھا کہ دو تین روز جو اور اس کی پیٹھ کھلی رھتی ھے تو کوّے اسے مار ڈالیں گے۔ دھوبن سے کہا " کوئی کپڑا ھو تو دے، اس کے گھاؤ کو چھپاؤں۔" وہ بولی کہ شیر کا چھالا مدت سے ھمارے گھر میں یونہیں پڑا ھے، کہو تو نکال دوں، اُسے اس کی کمر پر ڈال دو۔ دھوبی نے خوش ھو کر گدھے کی پیٹھ پر گھاؤ کی حفاظت کے لیے باندھ دیا؛ وونہیں اُس کی شکل شیر کی سی دکھائی دینے لگی۔ تب وہ گدھا گھر سے نکل کر کھیتوں میں چرچگ کر کھانے لگا۔
لوگوں نے جب اُس کی شیر کی سی صورت دیکھی، جانا کہ یہ شیر ھے۔ گھر چھوڑ چھوڑ کر بھاگنے لگے۔ گدھے نے جو کسانوں کے کھیتوں کو رکھوالوں سے سُونا پایا تو چند روز خوب سا کھا کر موٹ تازہ ھوا۔
اتفاقاً ایک روز کسی کھیت میں ایک ھرن چرتا تھا۔ اُس نے جانا کہ یہ شیر ھے، وہ بھاگنے لگا۔ گدھے نے اس سے کہا " تو ڈر مت، میں شیر نہیں ھوں۔ ارادہ میرا یہ ھے کہ تجھ سے دوستی کروں۔" ھرن نے دریافت کیا کہ واقعی یہ شیر نہیں گدھا ھے۔ خیر دونوں میں دوستی ھوئی۔ ایک ھی جگہ شب و روز رھنے لگے۔ فراغت سے بے روک ٹوک لوگوں کی کھیتیاں کھایا کریں، کھلے بندوں جہاں چاھیں سیر کیا کریں۔
-------
صفحہ 145
-------
قضا کر ایک دن کہیں چرتے چرتے وے دونوں ایسے کھیت میں جا نکلے کہ وہ نہایت تروتازہ اور سبز ھو رھا تھا اور ایک کسان بھی اُس کی رکھوالی کے واسطے وھاں بیٹھا تھا۔ اُس نے اُس گدھے کو شیر کی شباھت میں دیکھا تو اُس نے جانا کہ یہ باگھ ھے۔ اُس کے ڈر سے کھیت کے پیغار میں جا چھپا۔ یے دونوں خاطر جمع سے اُس کھیت میں چرنے لگے۔ یکایک گدھا وھاں خوش ھو کر رینگنے لگا۔ ھرن نے یہ مکروہ آواز اُ س کی سن کر اپنا چرنا چھوڑ کے اُدھر کان رکھا۔ گدھے نے پوچھا" یار! تو کس واسطے چرنا چھوڑ کر چپکا کھڑا رھا؟ " اُس نے جواب دیا کہ تم میرے احوال کو کیا پوچھتے ھو، اپنے کام میں لگے رھو۔ گدھے نے اپنے سر کی قسم دی کہ بھائی! سچ کہو، مجھ سے کون سی حرکت بے جا ھوئی کہ وہ تمھاری پریشانی کا موجب ھوئی؟
ھرن بولا " اے یار! تیری خوش الحانی نے میرے دل کو ُمرنڈا کر ڈالا۔ ایک عشق کی سی حالت میری آنکھوں کے آگے پھر گئی۔ کیا ھی تو اُس وقت خوش الحانی سے گایا کہ تیر عشق کا میرے جگر میں ترازو ھو گیا۔ گدھا بولا کہ بھائی! مجھے اب تک مطلق معلوم نہ تھا کہ تمھیں بھی علم موسیقی سے کمال بہرہ ھے، نہیں تو میں تمھیں اکثر سنایا کرتا۔ خیر جو ھوا سو ھوا آئندہ ایسا نہ ھو گا۔ میں تمھیں ھر وقت سنایا کروں گا۔ سنتے ھو یار! میں دنیا میں بہت پھرا ھوں پر اپنے اس علم کا گاھک کسی کو میں نے نہ پایا جو اُس کو اپنا ھنر دکھاؤں۔ پھر ھرن قسم دے کر پوچھنے لگا کہ سچ بتا تیرا اُستاد کون ھے؟ گدھے نے کہا کہ میں اوائل میں اکثر ایک ندی کے کنارے جایا کرتا تھا۔ وھاں بہت سے مینڈک راگ کے چرچے میں رھا کرتے تھے۔ میں نے
-----------------------------
صفحہ نمبر 141 سے صفحہ نمبر 145
----------------------------
 

اوشو

لائبریرین
صفحہ 136 بمطابق ریختہ

اپنا وزیر اسی واسطے کیا جو تو دیکھو سو حضور میں ظاھر کرے۔ اگر تو نے کچھ دیکھا ہےتو کیوں نہیں کہتا؟ خصوص جس میں کہ سرکار کا فائدہ ہو، اسے چھپانا نہایت نامناسب ہے۔ تب اس نے عرض کی "جو غلام حضور میں ظاھر کرے، اگر اسے باور کیجیے تو مفصل گوش گزار کرے۔ شاہ نے اشارہ کیا کہ ھوں۔" دوتک بولا کہ خداوند! سنجوگ باغی ہوا ہے کیوں کہ جناب عالی کے بے حکم اوپر ہی اوپر فوج رکھتا ہے۔ اور وہ آپ بھی زور آور ہے؛ سوائے اس کے سرکار کا خزانہ اسی کے ہاتھ میں ہے۔
اس بات کے سنتے ہی بادشاہ آگ ہو گیا اور کئی جاسوس اسی وقت اس کا احوال دریافت کرنے کو مقرر کیے۔ انہوں نے دو چار دن کے بعد اس کا احوال موافقِ اظہار دوتک کے حضور میں ظاہر کیا۔ تب دوتک بولا کہ پیر مرشد! مقدمے کی صورت میں یوں ہے جو آپ نے سنی، غلام نے خلاف نہیں عرض کیا۔ اب آپ مختار ہیں۔ جیسا مناسب جانیے ویسا کیجیے۔ تب شیر نے دوتک سے کہا "اگر میں اس کو مار ڈالوں تو ساری خلقت مجھے کہے گی کہ یہ کیسا بادشاہ ہے کہ جس کو بلا کر خلعت سرفرازی کا دیتا ہے، پھر اسے مار ڈالتا ہے۔ یہ بات میرے حق میں موجب بدنامی کا ہے۔"
دوتک نے عرض کی کہ خداوند! غلام کی عقل ناقص میں یوں آتا ہے کہ بالفعل اس کو خزانے کی خدمت سے تغیر کیجیے اور دوسرے کو اس کی جگہ بحال۔ اور اس کے کھانے کے لیے کچھ تھوڑا سا مقرر کر دیجیے کہ جس سے اس کا کے بدن کا زور کر ہو جاوے۔ بادشاہ نے دوتک کے کہنے سے فرمایا کہ سنجوگ سے کام چھین لیں اور راتب کم کر دیں۔ تب دوتک حضور سے رخصت ہوا اور بادشاہی دروازے پر آ کر دربان سے کہا کہ
-------------
صفحہ 137

حضرت کا حکم یوں ہے کہ سنجوگ آج کی تاریخ سے بے حکم ہمارے حضور میں نہ آنے پاوے۔ یہ کہہ کر اپنے گھر گیا اور سنجوگ کو بلا کر کہا کہ بادشاہ نے تیرے حق میں یوں فرمایا ہے کہ بے ہمارے بلائے حضور میں وہ نہ آوے اور فوج کے رکھنے میں مشغول اور سرگرم رہے۔ جب بہت سی نگہ داشت کر چکے تب حضور میں آوے۔ وہ بیل بےوقوف اس وزیر دغا باز کی بات کو سچ جان کر خوشی خوشی سپاہ رکھنے لگا اور کئی روز حضور میں مجرے کو نہ گیا۔ تب دوتک نے قابو پا کر دربار میں کسی سے بادشاہ کو سنا کر پوچھا کہ سنجوگ کئی دن سے یہاں نہیں آیا، اس کا سبب کیا ہے؟ وہ بولا کہ مجھے معلوم نہیں۔ وونہیں (وہیں) بادشاہ نے زبان مبارک سے فرمایا کہ وہ پانچ چار روز سے حضور میں حاضر نہیں ہوتا۔
دوتک نے کہا کہ بندے نے پہلے ہی جناب عالی میں عرض کی تھی کہ اس کے پاس دن بہ دن فوج جمع ہوتی ہے۔ یقین ہے کہ وہ آج کل آپ سے مقابلہ کرے۔ بادشاہ نے کہ "اے دوتک! اگرچہ اس کی بدذاتی جاسوسوں کی زبانی کچھ کچھ ہم سن چکے ہیں تاہم جس کو تو عقل مند جانے اس کو وہاں جلد بھیج دے کہ قرار واقعی اس کا احوال دریافت کر کے ہم کو خبر دے۔"
وہ ایک عقل مند چوھے کو جو اس کا یار جانی تھا، اپنے طور کی باتیں سکھا پڑھا روبرو بادشاہ کے لایا اور اسی کو اس مقدمے کی تحقیقات کے واسطے مقرر کروایا۔ جب یہ سنجوگ کے یہاں پہنچا، وہ اسے دیکھتے ہی اٹھ کھڑا ہوا اور بہت سی تعظیم کی اور اپنے پاس بٹھایا، عطر و پان اس کے سامنے رکھوائے اور پوچھا کہ تمہارا آنا یہاں کیوں کر ہوا؟ کہا "دوتک وزیر نے
---------------------------------
صفحہ 138

مجھے تمہارے پاس اس واسطے بھیجا ہے کہ سوار بادشاہ کی عنقریب ہے؛ تم نے اب تک کچھ فوج رکھی ہے یا نہیں؟ اگر رکھی ہے تو بہت اچھا و اِلّا بادشاہ کو کیا جواب دو گے۔ جب وہ پوچھے گا؟" سنجوگ بولا کہ میری طرف سے وزیر کی خدمت میں سلام عرض کر کے التماس کرنا کہ میں نے خداوند کے اقبال میں بڑی کٹیلی فوج جمع کی ہے۔ تھوڑے سے لوگ اور بھی رکھ لوں تو حضور میں حاضر ہوں۔
یہ کہہ کر کچھ اسے دے دلا بہ خوبی رخصت کیا۔ پھر وہ حضور میں حاضر ہوا اور آداب بجا لایا۔ تب حضرت نے پوچھا کہ میں نے جو تجھے وہاں بھیجا تھا سو تو نے کیا دیکھا؟ اس نے عرض کی "پیر مرشد! میں اپنی آنکھوں سے دیکھ کر آیا ہوں کہ اس نے بہت لوگ رکھے ہیں اور اس کی بات چیت اور اوضاع اطوار سے اور اس کے بعضے ملازموں کی زبانی معلوم ہوتا ہے کہ آج کل خداوند کا سامھنا کرے۔ یہ سنتے ہی شیر آگ کا بگولا ہو کر دوڑا اور جھپٹ کے سنجوگ کی گردن توڑ ڈالی اور اس کا لہو پی گیا۔
بعد اس کے وفاداری اور خوبیاں اس کی جب یاد آئیں، بہت سا افسوس کیا اور کہنے لگا کہ میرا بڑا خیر خواہ نوکر تھا۔ میں نے اس کے مارنے میں عبث جلدی کی۔ بہتر یہ تھا کہ اس کا احوال بہ تامل دریافت کر کے جو مناسب جانتا سو کرتا۔
دوتک نے کہا "خداوند! اب اس کے لیے پچتانا عبث ہے کیوں کہ یہ بات دنیا میں زبان زد ہے کہ نہ ٹوٹا شیشہ بنتا ہے، نہ مُوا آدمی پھر سے جیتا ہے۔ خدا نہ خواستہ اگر وہ تم سے مقابلہ کر بیٹھتا تو تمام عمر اس رسوائی کا داغ تمہارے دل سے نہ چھوٹتا۔ خوب ہوا جو دشمن زبردست مارا گیا۔ اور اگر وہ آپ کے ہاتھ سے بچ
-----------------------------
صفحہ 139

جاتا تو آخر بدلا اس کا کبھو نہ کبھو تم سے لیتا۔" یہ سن کر بادشاہ اپنے دیوان خانے میں آ بیٹھا اور کھانا کھانے لگا۔ تب دوتک نے یہ شعر حضور میں پڑھا:
اگر تو سیج کو سو طرح سے لگاوے گا
پہ یاد رکھ تو کبھی اس سے پھل نہ پاوے گا
جب بشن شرما پنڈت نے دوسری کہانی سُرھُد بھید کی (یعنی اچھی دوستی میں بگاڑ کرانا) تمام کی تب راجا کے بیٹوں نے ک ہا کہ مہاراج! ہم نے یہ کتھا سنی؛ اب تیسری نقل بگرہ، یعنی جنگ کی بیان کیجیے کہ اس کے سننے سے ہم مستفید ہوویں۔"
-------------------------
صفحہ 140

تیسرا باب
پنڈت نے کہا "یوں سنا ہے کہ کسی وقت خشکی اور تری کے جانوروں میں لڑائی ہوئی تھی۔ آبی جانوروں کا بادشاہ قاز اور خشکی کے پرندوں کا ھُدھُد تھا۔ باوجود قاز کا لشکر زیادہ تھا پر ھُدھُد نے اپنی دانائی اور تدبیر سے اس پر فتح پائی۔" رائے زادوں نے پوچھا کہ مہاراج! وہ کیوں کر ہے؟ اسے مفصل بیان کیجیے۔
نقل قاز اور ھُدھُد کی
پنڈت کہنے لگا کہ ہندوستان میں ایک شہر ہے۔ نام اس کا کرن پور۔ اس کے نزدیک ایک بری سی جھیل تھی کہ اس سے کئی ندیاں اور نالے نکلے تھے۔ اس میں قاز بادشاہی کرتا تھا مرغابی سے تا سُرخاب اور بگلے سے جل کوّے تک اس کے حکم میں تھے۔ قاز ایک روز اپنے تخت پر خوش و خرم بیٹھا؛ اتنے میں ایک بگلے نے آکر آستانہ بوسی کی اور آداب سے ہاتھ باندھ کر دور کھڑا ہو رہا۔ بادشاہ نے پوچھا کہ تجھے آج بہت دنوں پیچھے دیکھا۔ بگلا بولا کہ غلام گھر میں نہ تھا۔ ابھی ایک ملک سے چلا آتا ہے کہ وہاں کا احوال مجھ سے بیان نہیں ہو سکتا۔ فرمایا "کچھ کہا چاہیے۔" عرض کی کہ بیٹھے بیٹھے جو دل اُکتایا تو جی میں یوں آیا کہ کہیں کی سیر کیجیے۔ جب گھر سے نکلا، پھرتے پھرتے دکھن کی طرف
-------------------------
 

نور وجدان

لائبریرین
صفحہ 80-71
صفحہ نمبر ۷۱

جیسا کہ آفتاب اپنی شعاع سے کسی کو محروم نہیں رکھتا ۔ یہ نہیں کرتا کہ بڑے آدمی کے گھر پر اجالا کرے اور چھوٹے آدمی کے گھر پر اندھیرا ۔ جب دل کرگس کا اس کی باتوں سے نرم ہوا، تب کہا، "اس درخت پر جانوروں کے بچے ہیں، واسطے احتیاط کے اتنی تجھے باتیں کہیں، اپنے دل میں کچھ نہ لانا۔ " بلی دونوں ہاتھ اپنے کان پر رکھ کے کہنے لگی " استغفر اللہ! "یہ بات تو نے کہی اگر کوئی اور کہتا تو میں اس پر زہر کھاتی کیونکہ میں نے بہت علم کی کتابیں پڑھیں اور خدا کی راہ خوب معلوم کی ہے ۔ اورعالموں ، فاضلوں اور دین داروں سے سنا ہے کہ کسی کا دل آزردہ کرنا گناہ کبیرہ ہے ۔ جو کوئی جانور کو مار کر اسکا گوشت کھاوے، جب لگ (تک) وہ اس کی زبان پر ہے، تب ہی تک مزہ پاوے، جب حلق کے نیچے اترا تو کچھ نہیں ۔ اور یہ نہیں جانتا کہ وہ غریب اپنی جان سے جاتا ہے اور جان اسکی کس مشکل سے نکلتی ہے ۔ بھلا اس میں کیا لطف ہے؟ یہ نہیں جانتا کہ کل کو جواب دینا ہوگا اور اسکے جواب سے کس قدر عہدہ برا ہوگا؟ حیوان کو اذیت دینے کی، چیونٹی کی جان مارنے کی سزا اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے ۔ پس چاہیے کہ اپنی جان سے چیونٹی کی جان کو بہتر جانے کیونکہ مرنا برحق ہے ۔ جب لگ ہو سکے بدی نہ کرے ۔


بلی کی پر فریب باتوں نے دل گدہ کا نرم و ملائم کیا ۔ خیر بعد اس سوال جواب کے وہ بلی کے وہاں رہنے لگی ۔ دو ایک دن رہ کر یہ مکار ہولے ہولے جا کر دو تین بچوں کو پکڑ لاتی ۔ کرگس بچوں کی آواز سن کر بولا، " ان بچوں کو تو کیوں لائی؟ " کہا، "مرے بھی دو تین ایک لڑکے ہیں ۔ بہت دن ہوئے میں نے


صفحہ نمبر 72


انہیں نہیں دیکھا ۔ میرا دل آن میں لگ رہا ہے ۔ اکثر ان کو یاد کرکے روتی ہوں ۔ اس واسطے انہیں لائی ہوں کہ جو ان کی جگہ ان کو دیکھ کر مرا دل پیچھے پڑے ۔ " گدھ نے جانا کہ بلی سچ کہتی ہے ۔ اور بلی نے آن بچوں کو لا کر کھالیا ۔ پھر اسطرح سے ایک ایک دو دو لاتی تھی اور کھاتی تھی، یہاں تک کہ سب کو تمام کیا اور اپنی راہ لی ۔


جب سب پرندے اس درخت کے رہنے والے اپنے اپنے گھونسلے میں آئے تو بچوں کو تلاش کرنے لگے کہ ہمارے بچوں کو کون لے گیا؟ جب بہت سی جستجو کی تو بچوں کی کچھ ہڈیاں درخت کے نیچے اور کچھ گدھ کے کھنڈھلے میں پائیں ۔ تب تو سب کو یہی یقین ہوا کہ بچوں کو اسی گدھ نے کھالیا یے ۔ اپنی کوکھ کی آگ سے ہر اک بے تاب ہو کر اس گدھ کو مارنے لگا، یہاں تک کہ چونچیں ماریں کہ اس بے چارے کو مار ڈالا ۔ "


یہ کہہ کر کوے نے کہا، " اے ہرن! غیر آشنا کو اپنے گھر میں راہ دینے سے یہ فائدہ ہوتا ہے ۔ " گیدڑ یہ بات سن کر غصے ہوا اور بولا، " اے کوے! تراسبدھ نام ہے پر تجھ میں کچھ عقل نہیں ہے کیونکہ کوئی شخص دوستی ماں کے پیٹ سے لے کے نہیں نکلتا ۔ پہلے جب تجھ سے اور اس ہرن سے ملاقات ہوئی تو، نہ تو اسے پہچانتا تھا نہ وہ تجھے ۔ جب تم دونوں ایک جگہ رہنے لگے تو روز بہ روز دوستی زیادہ ہوئی ۔ جو اچھے لوگ ہیں وہ سب کو دوست جانتے ہیں، ویسا ہی تو بھی بلکہ اس سے بہتر ۔


صفحہ ۷۳

پھر ہرن بولا " اے سبدھ ! في الحقیت ہم سب
بھائی ہیں ، جیسا کہ کلام مجید میں بھی آیاہے ۔ اس کا حاصل ہے کہ "سب مومن آپس میں بھائی ہیں ۔ " اگر یه گیدڑ چاهتا هے کہ ہماری صحبت میں رهے تو اس میں ہمارا کیا نقصان؟ جتنے یار آشنا کسی کے زیاده ہوں تو گویا اس کی دولت زیاده ہو ئی ۔ " یہ سن کر کوے نے یہ مصرع پڑھا

یار جانی کی خوشی کو اس میں نے تو خوب ہے

گفتگو میں رات کٹ ، چاند چھپ گیا اور سورج نکل آیا ۔
تینوں بار کوا ، گید، هرن اپنی اپنی چرائی کی جگہ جاتے ۔ہر روز اسی طرح ایک طرف سے چر چگ آتے اور ایک جگہ میں آ کر سو رہتے ۔ یوں اوقات بسری کیا کرتے
ایک روز شغال بد باطن (جو ہرن کے گوشت پر دانت لگا رہا تھا) ایک جو کا کھیت تر و تازه (که جس میں کسان نے ہرن
پکڑنے کے واسطے کّل لگائی تھی) دیکھ کر دوڑا آیا ۔ ہرن کو ایک طرف لے کے کہا یار ! "تو سوکھی گھاس کھاتا ہے ، مجھ سے دیکھا نہیں جاتا ، مجھے کمال قلق رہتا ہے ۔ آج ایک جو کا ہرا کھیت تمھارے لائق دیکھ آیا ہوں اور خاطر جمع سے بے کھٹکے
چرو تو دل میرا ٹھنڈا ہو اور آنکھیں روشن -

فجر ہوتے ہی دونوں چلے - جب کھیت کے نزدیک پہنچے ،
گیدڑ بولا ”جاؤ ، جی بھر کے کھاؤ ، ہرن ھیئے کا اندھا ،
کھیت کی ہریاول کو دیکھ بے تامل دوڑا اور بے اندیشے کھانے لگا ، اسی وقت پھندے میں پھنس گیا ۔ گیڈر بد ذات دل کی خوشی سے لگا ناچنے اور اپنے هاتھ پاؤں کو لگا دے دے مارنے - آهو نے
- گل مؤمن راخوة ۔

.........۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


صفحہ ۷۴


جانا کہ میرے گرفتار ہونے کے سبب اپنی جان کھوتا ہے . یہ
نہ جانا کہ " صوفی دستر خوان کو دیکھ کر کودتا یے . ہرن بولا ' اے یار ! میرے واسطے کیوں اپنے تئیں ہلاک کرتا ہے ؟ کیا تمھیں معلوم ہیں جو تمھارے دانت بفضل الہی سے تلوار کی دھار
سے بھی تیز هیں ؟ اس پهندے کی رسی کیوں نہیں کاٹ ڈالتے ہو ؟ " گیدڑ بولا ” اے میری آنکھوں کے تارے ! میں بسر و چشم حاضر ہوں لیکن آج میں نے روزہ رکها ہے اور یہ دام چمڑے کا ، دانت لگاؤں تو روزه مکروه ہوکا . شب درمیانن ہے ، کل صبح کو جو کچھ اپنی نجابت ذاتی کے موافق ہوگا، سو
آپ کی خدمت سے قصور نہ کروں گا ۔ "


رات تو یوں گزری ۔ جب صبح ہوئی ، اُس سبدھ کوے نے اپنے یار قدیم ہرن کو نہ دیکھا ۔ دل میں اندیشہ کیا کہ آج رات میرا یار مکان پر نہیں آیا ، مجھے یہ آثار بھلائی کے میں نظر آتے دیکھیں تو کیا صورت ہت ؟ یہ کہہ کر هر طرف ڈھونڈنے لگا۔

دیکھتا کیا ہے کہ ایک جگہ دام میں ہرن گرفتار ہے ۔ اپنا
سر زمین سے دے مارا اور آہ مار کر کہنے لگا کہ میں نے تمہیں نہیں کہا تھا کہ یہ گیدڑ بدبخت شرير ہے . جو کوئی اپنے یار کا کہا
نہ کرے ، یہی خرابی کا دن اس کے آگے آتا ہے اب وہ تیرا یار گیڈ ر کہاں ہے ؟ کہا، " میرے گوشت کا بھوکھا یہاں کہیں بیٹھا ہوگا "
بولا " خير جو کچھ ہونی تھی سو ہوئی، اب تیں (تو) اپنے تئیں مرده بنا کر دم ساده جا ۔ جب میں بولوں ، تب تو اٹھ بھاگیو . ہرن نے وہی کیا جو کوے نے کہا . اتنے میں کھیت والا جب اس کے پاس آیا اور دیکھا کہ ایک موا ہوا ہرنا موٹا سا دام میں پھنسا ہے ، بہت افسوس کیا، جو میں اسے زندہ
پاتا تو کیا خوب ہوتا ! ہولے ہولے اس کے گلے کا بند كاٹ کر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صفحہ ۷۵
اسے تفاوت کر دیا اور آپ جال اٹھانے کی فکر میں لگا ۔ اس نے چھٹکارا پایا ۔ اس میں کوا بولا تو یہ اٹھ کر بھاگا .


اس نے دیکھا که ہرنا چلا گیا ۔ ایک حتکا اس کے ہاتھ
میں تھا ، بھاگتے کے پیچھے پھینکا ۔ گیدڑ جو وهاں اس کے لہو کا پیاسا دبا هوا بیٹھا تھا ، اس کے سر میں جا لگا ؛ لگتے هی به تو کھیت میں رها ، وه سلامت نکل گیا ۔
بزرگوں نے کہا هے "جو کوئی کسی کے واسطے کوا (کنواں کھودتا ہے تو وہی
گرتا ہے ،،


جس نے اوروں کے لیے کھودا کوا
ھے یقیں اس میں وہی جا کے گرا


غرض آهو اور کوا ایک جگه هو کر بہت خوش هوئے ۔کوا ہرن سے کہنے لگا که دشمن کی چال اور مچھر کی ایک جانو ۔اکثر پہلے تو پاؤں پر آ بیٹھتا ہے ، پھر پیٹھ پر ، تس پیچھے کان کے پاس آ کر بولتا ہے ۔ اگرکھلا بدن پاوے یا کپڑے میں کہیں سوراخ
نظر آوے تو وهیں گھس کر لہو پینے کے لیے کاٹتا ہے ۔ایسا هی دشمن بھی جو سختی نہ کر سکے تو نرمی سے پیش آوے ، اور پاؤں پر
گرے ، اور کان میں بات ملائم کرت ہے ، اور دل میں اپنی جگہ کرے ۔جب رخنه کهیں پاوے تو اپنا کام کر گزرے ۔


الغرض چوهے نے جب قصه تمام کیا تو يه بات کی " اےزاغ ! میں جانتا هوں تو میرے خون کا پیاسا هوا هے. " کوا بولا " تمھارے گوشت کھانے سے میری حیات ابدی نه هوگی اور دولت بے زوال کچھ میرے ہاتھ نه آوے گی ۔ اس بات کو تم سچ ھی جانو که میں اپنے دل و جان سے تمھاری دوستی کا خواهان هوں ، جیسی کہ چتر گریو کے اور تمھارے درمیان محبت تھی ، کیوں کہ میں نے تم سا یار وفادار کہیں نہیں دیکھا ۔ بھلے آدمیوں سے دوستی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صفحہ ۷۶


کرنی بهتر هے ، اس واسطے که وے خاصیت دریا کی رکھتے ہیں ۔جیسا که وه عمیق ھے ، ایسے هی سے بھی گمبھیر هیں ۔ اگر کوئی
آگ دریا میں ڈالے تو وه هرگز گرم میں هوتا اور نیک مرد بھی کسی کی بری بات سے هرگز خفا نهیں هوتے ۔ میں نے تمھارا احوال خوب دریافت کیا ۔ تم نیک بخت هو: "تمھاری نیک خصلت پر میں عاشق هوا هوں ۔

چوها بولا ” میں نے تجھے کئی بار کها که میں دوستی تجھ سے کیوں کر کروں ؟ میری تیری دوستی گویا آگ پانی کی سی هے . هر چند آگ پانی کو ہانڈی میں لے کے اپنے سر پر رکھ کر گرم کرتی ہے لیکن وہ اس کی عداوت سے هاتھ نہیں اٹھاتا ۔ جب دونوں اکٹھے ہوئے تو وہ اسے بجھا هي ديتا هے ۔ اے زاغ ! تیرا کیا اعتماد ؟ جیسا تو با هر سے کالا ھے ویسا هي اندر ہے ۔ میں تیری غذا هوں - تو جہاں مجھے پاوے کھاوے ۔ تجھ سے محبت کا لگاؤ کیوں کر هو سکے ؟

کوا بولا ''جو تو نے کہا سو میں نے سنا ۔ اب میں نے اپنے اوپر لازم کیا هے که تیری کی رفاقت میں رہوں ۔ اگر تیں قبول نہیں کرے گا تو تیرے دروازے پر اتنے فاقے کھینچوں گا که میری جان کی طوطی اس خاک کے پنجرے سے پرواز کرے گی ۔ تو بھلا مانس هے . اگر تیرے ساتھ میری دوستی هوگی تو کبھو تفاوت نه پڑے گا، کیوں که مصاحبت رزالے کی کیسی ھے جیسے مٹی
کا برتن ، ذرا سی ٹھیس نہیں ٹوٹ جاوے ۔ اور رفاقت اشراف کی مثل ظرف کی سی کے هے ؛ کیسا هی صدمه پهنجے ، تو بھی نه ٹوٹے ؛ اگر
کہیں چوٹ کھاوے تو وہیں درست ہو سکے ۔ اے چوھے ! اکثر
چار پائے جانور کچھ کھلانے سے اپنے هوتے هیں اور نادان کم عقل
طمع اور حرص سے دوستی اختیار کرتے هیں ۔ لیکن جہاں کہیں
76


صفحہ ۷۷


مرد عاقل اور زیرک هیں ، سو وے به سبب نرم دلی کے ملاقات.کرتے ھیں اور مہربان هوتے هیں ۔ اور تو ایسی خوب رکھتا هے که میں تمام ملک میں پھرا پر تجھ سا یار وفادار میرے دیکھنے میں نہیں آیا ۔ اس واسطے میں چاهتا هوں که تجھ سے ربط دوستی کا اوررشته محبت کا پیدا کروں ۔،
چوہے کا دل ان باتوں سے نہایت ملائم ہوا اور اپنے سوراخ سےباهر آیا ۔ ملاقات کر کے کہا '' اے عزیز ! تو نے میری جان کے سوکھے درخت میں گویا میٹھا پا دیا اور میرے دل کو نہایت خوش
کیا ۔ اب تو میرا یار جاني هوا ، آ تجھ سے بغل گیر هول ۔ دونوں آپس میں مل کر بہت خوش هوئے ۔ چوہے نے مہمابنی اس کی تكلف سے کی ۔ جب کھا پی کے فارغ هوے تو يه اپنے بل میں آیا ، وہ اپنی جگہ پر کیا ۔ پھر وے دونوں پار دن کو آپس میں هر روز ایک جگه هوا کرتے اور چرنے چگنے کے لیے جو ایک طرف جایا کرتے،
پر رات کو ایک مقام میں رها کرتے ۔ اگر کوا کچھ اچھی چیز کھانے کی پانا تو چوہے کے واسطے اکثر لاتا ۔ اسی طرح اس میدان میں اوقات بسری کیا کرتے ۔


بعد ایک مدت کے کوا کہنے لگا کہ یار ! اب تو کچھ کھانے پینے کی چیزیں اس اطراف میں نہیں ملتیں ، جو ملتی بھی ہیں تو بڑی محنت اور دوڑ ہے ۔ میں اب یه چاهتا هوں که یہاں سے
دوسری جگه چلیے اور وهاں چل کر فراغت سے گزران کیجیے۔" هرنک چوہے نے اسے جواب دیا که سن بار! بغیر دیکھے سنے دوسری جگہ کیوں کر جاویں ؟ اقتضا دانائی کا یه هے که پہلے اپنے
واسطے مکان تلاش کیجیے - جو خاطر خواہ جگہ ملے تو قدیم مکان کو چھوڑ دیجیے ، نہیں تو اسی جگه میں بھی بری طرح دن کاٹیے ۔


صفحہ ۷۸

کوا بولا ” ایک مکان میرا دیکھا هوا سے ، کسی کو میں نے ٹھہرایا ہے ۔‘‘ چوے نے کہا ؟ وہ کہاں ہے ، کیا کہنے لگا که دنڈ کارن ایک جنگل هے ۔ اس میں کاویری ندی اتر سے دکھن کو بہتی ہے. متحرک کچھوا میرا قدم یار وهاں بارہ برس سے
رهتا هے . وهاں پہنچ کر جو غذا درکار هوا کرنے کی سو اس سے طلب کیا کریں گے ۔ یقین ھے که اس کے وسیلے سے خدا ہم کو روزی پہنچایا کرے گا. "تب چوها بولا که اگر تمھارا
اراده مصمم هے که یہاں کی سکونت سے ہاتھ اٹھاؤ تو میں تنہا یهاں کیوں کر رھوں گا، مجھے بھی اپنے ساتھ لے چلو ۔ اس واسطے که بزرگوں نے فرمایا هے که جس ملک میں خاوند (خداوند) بينا ، اور چرچا علم کا ، اور عاقل دور اندیش ، اور حاكم عادل و طبیب کامل،اور دوست جاني نه هو وهان بود باش اختیار نه کیا چاہیے ۔ چنان چه اس کے آگے میرا پرانا پار چتر گریو کبوتروں کا بادشاہ چلا گیا اور میں یہاں اکیلا رہ گیا ۔ اور تس پیچھے تو میرا یار هوا ، اب تیں بھی یہاں سے جایا چاهتا هے ؛ پس ایسے تنہائی کے دن میں کیوں کر کاٹوں گا؟ بار! اگر تو جاتا ھے تو مجھے بھی اپنے ساتھ لے چل -

زاغ نے جب چوھے سے يه احوال سنا، تب آپس میں متفق هو کر اس ندی پر گئے ۔ کچھوا ان دونوں کو دور سے آتے دیکھ کر بہت خوش ہوا ۔ آگے بڑھ کر ملاقات کی اور خیر و عافیت پوچھی ۔ کوے نے بھی جواب دیا ۔ کچھوے نے کہا "یہ دوسراتمھارے ساتھ کون ھے ؟ "زاغ بولا ” به وه چوها هے که جو مرے هزار زبان ہو تا هم اس کی تعریف نہ کر سکوں ۔ اور نام
اس کا ہرنک هے ۔ پھر سنگ پشت دوباره گرم جوشی سے


صفحہ ۷۹


بغل گیر هوا ۔


مثل هے که بڈھا ، جوان ، لڑکا کوئی هو، جو اپنے گھر آوے تو اس کی تعظیم و تکریم کرنی ضرور ھے ، کیوں که مہمان کی بزرگی ہر ایک متنفس کے نزدیک ثابت ہے ۔ اور یہ کہاوت هے که
اگر چھوٹا آدمی ہڑے کے گھر آوے تو اس کی بھی تواضع لازم ھے ۔ اور چتر گریو کا تمام قصه کهه سنایا ۔ تب کچھوے نے خوب سی ضیافت کی اور بعد کھلانے پلانے کے پوچها که حضرت سلامت ! تم نے اپنی جگہ کو کیوں چھوڑا اور اس بڑے جنگل میں
کیوں آئے ؟ اس کا سبب بیان کیجیے ۔ چوها کہنے لگا که سن اے ندی کے راجا ! چندر نام ایک پہاڑ ھے ۔ اس کے نیچے ایک بستی بستی ھے ۔ اس کا نام چنیا پور اكثر، جوگی وهاں رهتے هیں ۔
ان میں سے ایک چورا کرن نام جوگی کے گھر میں اپنا بل بنا کر رهتا تھا ۔ وہ جوگی هر روز اس شہر میں بھیک مانگ کر کچا پکا اناج لایا کرتا ۔ کھا پی جو بچتا تو کوٹھری کے اونچے
طاق پر رکھتا اور میں اپنے بل سے سر نکال کر جھانکتا رهتا ۔جب وہ سوتا تو میں سوراخ سے باهر آتا اور اچھل کر طاق پر جا رهتا ۔ اچھی طرح خاطر جمع سے کھاتا اور باقی جو رهتا سو اسے ضائع کرتا ۔ اور کہیں نہ جاتا ، وہیں اپنی زندگی بسر کیا کرتا ۔

ایک دن چورا کرن جوگی لاٹھی هاتھ میں لے کر میرے بل کے پاس آیا ، اس کے منہ کو کھٹکھٹانے لگا ۔ اس وقت ایک بنیا کرن نام دوست دار قديم أس کا اس کے گھر آیا اور په اس ٹھک ٹھکانے کی فکر میں ایسا لگ رها تها که اس کی طرف متوجه نه هوا۔ تب وہ بولا که میں تمھاری ملاقات کے واسطے آیا هوں ، اور
اختلاط کیا چاهتا هوں اور تم میرے ڈرانے کے لیے هاتھ میں لکڑی لیے بیٹھے ھو ۔ تب جورو چورا کرن کی یہ صورت دیکھ کر کہن


صفحہ ۸۰


لگی که آج بنیا کرن مدت کے بعد آیا هے ۔ اس کی تعظیم کر،س کا احوال پوچھ اور اپنی حقیقت اس سے کہہ . چورا کرن بولا "میری یہ حرکت بے جا نہیں ۔ اس بل میں ایک چوها هے ۔
جو چیز کھانے کی طاق پر رکھتا هوں ، وہاں وہ اچھل کر جاتا ھے ، جو کھاتا هے سو کھاتا ہے اور باقی کو رائگاں کرتا ھے ۔ " بنيا كرن بولا که وه جگه ذرا مجھے دکھاؤ ۔ کہا ” دیکھو یہی
ہے وہ طاق ۔ اس نے دیکھ کر کها که به اتنا اونچا هے که اس پر بلی بھی زغند نه مار سکے ، اور چوھے کی تو کیا تاب و طاقت که اس طاق پر جست کرے ، به هرگز بے شاید اس کے نیچے جہاں وہ رهتا هے ، کچھ نہ کچھ مال هوگا . یہ قوت بغير مال کے نهیں هوتی ۔ چنان چه ایک بوڑھے بنیے کی جوان جورو نے اپنے خصم کے لگا تار کی بوسے لیے ۔ یه حرکت آس کی حکمت سے خالی نہ تھی ۔ چورا کرن نے پوچھا " وہ بات کیوں کر هے ؟ " بنیا کرن کہنے لگا:

نقل چند رسين بنیا اور کیلاوتی بنیے کی بیٹی اور منوہر بتقال کی

"هندوستان کی کسی سر زمین میں ایک شہر ھے ۔ اس میں چندر سین ایک بنیا بڑا دولت مند (که برس سو ایک کی عمر اس کی تھی) رهتا تھا اور ایک نوجوان عورت کسو بنیے کی بیٹی بھی
(که نام آس کا کیلا وتی تھا) اسی شہر میں رهتی تھی ؛ ایسی خوب صورت که آس کے دیکھنے سے چاند سورج بے تاب هوتے ،
اور بالوں کی سیاھی سے اس کے بھنورا شرمنده هوتا ، اور چشم نرگس شهلا اپنی سے خلقت کو فریفته کرتی ، اور جادو فریب کمان ابرو اپنی سے لوگوں کو دیوانہ بناتی ، اور اپنے دانتوں کی
80
 
آخری تدوین:

اوشو

لائبریرین
صفحہ 181

نہایت راضی ہوئی۔ جو کچھ تو چاہے سو مانگ کہ میں خدا سے تیرے واسطے مانگوں۔ راجا کو بولا کہ خدا کے فضل سے میرے یہاں سب چیز موجود ہے، کسی بات کی کمی نہیں۔ اگر تجھے کچھ قوت ہے تو خدا سے یہ م انگ کہ یہ تینوں جی اٹھیں۔ یہ سن کر دیبی دعا کرتے ہی نظر سے غائب ہوئی؛ وونھیں وے تینوں اٹھ کھڑے ہوئے۔ راجا وہاں سے چھپ کر اپنے مکان میں آ بیٹھا اور کیا دیکھتا ہے؟ کہ بیربل تروار ہاتھ میں لیے پیچھے سے آن پہنچا۔ راجا نے غصے سے کہا "اے بیربل! جس کام کےک لیے تجھے بھیجا تھا، کیا غضب ہوا کہ تو نے اس کا جواب ابھی نہ دیا؟" بیربل بولا کہ ایک عورت میدان میں روتی تھی، جوں مجھے دیکھا، وہیں اٹھ کے چھپ گئی۔ میں نے وہاں ادھر ادھر پھر کر بہتیرا پکارا پر اس نے مجھے جواب نہ دیا۔ کچھ معلوم نہ ہوا، وہ کہاں چلی گئی۔ رائے یہ بات سن کر آنکھوں میں آنسو بھر لایا اور کہا "جو شرطیں سخاوت اور شجاعت اور جان بازی کی بادشاہوں اور راجاؤں میں چاہیئں سو میں نے سب تجھ میں پائں۔ میری زبان نہیں جو تیرا وصف بیان کروں۔ اور جو کچھ نیکیوں اور خوبیوں سے رات کو بہ چشم خود دیکھا تھا سو سب اپنے مصاحبوں سے کہا۔ اور بیربل کو گلے لگا کر خلعت دیا اور روپے بہت سے بہ طریق انعام کے بخشے اور اپنے ملک کی حکومت میں اس کو شریک کیا۔
پھر قاز بولا "اے سرخاب! بیربل نیا نوکر تھا۔ دیکھ تو ان نے کیسا کام کیا۔" یہ بات سن کر سرخاب نے جانا کہ کوے کے ساتھ دل سے موافقت رکھتا ہے، اس واسطے بات اپنی مختصر کی اور کہا "اے قاز! وزیر وہ ہے کہ سوائے راستی کی بات کے نہ کہے اور خوشامد نہ کرے۔ اگرچہ بادشاہ نے اس کی عزت
------------------
صفحہ 182

کی ہے لیکن وہ سخت کمینہ اور بداطوار ہے۔ قاز نے کہا "جو وہ بد ہے تو اپنے لیے بدی کرے گا۔" تب سرخاب بولا "جو کوئی اپنے واسطے بد ہو تو اس سے بےگانے کو بھی چاہیے کہ دڑتا رہے۔ شاید آپ نے قصہ کرنا بادفروش1 کا (جس نے اپنے ہم سایوں کو بہت سا دکھ دیا تھا) نہیں سنا۔" قاز نے پوچھا "وہ قصہ کیوں کر ہے؟" سرخاب نے کہا:
نقل کرنا بھاٹ اور برھمنوں کی
کہتے ہیں کہ بداؤں شہر میں کرنا نام ایک بھات برھمنوں کے پڑوس میں رہتا تھا۔ ہمیشہ عمر و زید کے سے جھگڑا کیا کرتا۔ جب دیکھتا کہ اب مدعی کے ہاتھ سے بچ نہیں سکتا، تب بھاگ جاتا۔ کوتوال اس شہر کا جو اسے گھر میں نہ پاتا تو ان بےچارے برھمن پڑوسیوں کو مشکیں چڑھا کے پکڑ لے جاتا۔ کچہری میں بٹھا کر دس کے رو برو ذلیل کیا کرتا۔ وے لاچار ہو کر کچھ بہ طور گھوس2 کے کوتوال کو دے کر چھوٹ آتے۔ اسی طرح اس کے ہاتھ سے اکثر اذیت پایا کرتے اور ایک مدت تک اس کے ہاتھوں وے غریب دکھ پاتے رہے۔
ایک برس ایسا اتفاق ہوا کہ گرمی کے موسم میں کوؤں کا پانی سوکھ گیا۔ برھمن آپس میں صلاح کر کے ایک نیا کوا (کنواں) کھودنے لگے۔ اتنے میں وہ بھاٹ بھی ان کے پاس آ کر کہنے لگا کہ مجھے بھی اس کے کھودنے میں شریک کرو تاکہ مجھ پر بھی اس کوے (کنویں) کا پانی حلال ہو۔ سب نے جانا کہ شاید اس کے دل میں خدا نے نیکی ڈالی اور بدی سے باز رکھا۔
------
1۔ باد فروش ، یعنی بھاٹ
2۔ گھوس ، یعنی رشوت
------------------------------------------

صفحہ 183

سبھوں نے راضی ہو کر اذن کھودنے کا دیا۔ وہ تو ایک بدذات تھا۔ نام کے واسطے ذرا ہاتھ لگا کر چل کھڑا ہوا۔ جب کنواں تیار ہوا اور ہر ایک آدمی اس کا پانی پینے لگا، تب بادفروش آیا اور سب ہم سایوں کو یہ قسم دی کہ جب لگ اس کے پانی کا حساب مجھے نہ سمجھاؤ، تب تک نہ پیو۔ انھوں نے جواب دیا کہ تیرا حصہ قلیل ہے، اپنا جدا کر لے، ہم اپنے حصے کی طرف سے بھر لیا کریں گے۔ یہ بولا "تم اپنے حصے کے مختارر ہو۔ میں اپنے حصے کی طرف کنویں میں زھر ڈالوں گا۔" برھمنوں نے دیکھا کہ اس حرام زادے سے یہ دور نہیں؛ اس کے بدلے اس کو کچھ روپے دیے اور پیچھا چھڑایا۔ برھمنوں کے دیے ہوئے روپے جب کھا چکا، تب دیکھا کہ اور کچھ حیلہ تو نہیں بن پڑتا؛ اس میں ایک روز ہوا زور سے چلتی تھی، اپنے گھر کے آنگن میں کھڑے ہو کر پکار کر کہنے لگا کہ اے پڑوسیو! تم کو خبر کرتا ہوں کہ میرے گھر میں سانپ، بچھو، چوہے، مکڑیاں بہت جمع ہوئی ہیں، اس لیے چاہتا ہوں کہ اپنے گھر کو پھونک دوں۔ تم خبردار ہو جاؤ، کیوں کہ پھر کوئی نہ کہے کہ بھاٹ نے اپنے ہم سایوں کو جلا دیا۔
سب پڑوسی اپنے اپنے گھر سے آ کر اس کے پاؤں پڑے اور کہا کہ اے بھلے آدمی! تجھ سا ہمسایہ ہم کہاں پائیں گے کہ آگ لگانے سے پہلے ہم کو خبر کی۔ اب ہم تجھے کچھ روپے دیتے ہیں؛ تو ایسی فکر کر کہ جس میں سانپ، بچھو، چوہے، مکڑیاں بغیر جلانے کے نکل جاویں۔ چناں چہ آپس میں بہری کر کے اس کو کچھ دیا۔ پھر باہم بیٹھ کے کہنے لگے کہ یارو! ایسا نقشہ نظر آتا ہے کہ کسی نہ کسی دن یہ بھاٹ ہم سب
-----------------------------

صفحہ 184

کو پھونک دے گا، یا کسو سخت خرابی میں ڈالے گا۔ اگر اسے ہم کچھ کڑی بات کہیں گے تو یہ اپنا پیٹ مارے گا۔ آخر کام کوتوال سے پڑے گا اور وہ ہم کو دولت مند جان کر بنا کے لوٹے گا۔ بہتر یہی ہے کہ اس جگہ کو چھوڑ دیں، کسی اور گاؤں میں جا رہیں۔
جب سب کی صلاح یہ ٹھہری کہ سب برھمن راتوں رات ایسے بھاگے کہ پو پھٹتے پھٹتے دس بارہ کوس نکل گئے، اس خطرے سے، کہیں وہ بدذات بھاٹ پیچھا نہ کرے۔
یے سب باتیں کر کے پھر سرخاب نے کہا کہ اس حرام زادے نے پڑوسیوں کو ایذا دی اور وے سب بھلے آدمی اس کے ڈر سے جلا وطن ہوئے۔ تب قاز نے کہا "اے سرخاب! تیری حالت اُس بڑھئی کی سی ہوئی ۔۔۔۔۔1"
جس طرح وہ بڑھئی کنگال کا کنگال رہا، اس کوے کے نکلنے سے وہی نوبت میرے پیش آوے گی۔ کیوں کہ ایک تو کوا اپنے یاروں کے جتھے سمیت چلا جائے گا اور دوسرے پھر کوئی ھُدھُد کے لشکر سے ادھر آنے کا قصد نہ کرے گا، تیسرے سب پر یہ یقین ہو گا کہ قاز سپاہ سے کچھ کام نہیں رکھتا۔ جس طرح یہ کوا رہے، پڑا رہنے دو۔" اسے سن کر سرخاب بھی ناچار ہو کے چپ رہ گیا۔
پھر قاز بولا کہ اے وزیر! کچھ دشمن کے ٹالنے کی فکر کرو کہ وہ نزدیک آ پہنچا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ اس سے غافل رہو۔ سرخاب بولا کہ جاسوسوں کی زبانی یوں سنا ہے کہ کرگس وزیر
۔۔۔۔
1۔ یہاں سے ایک حکایت بہ عنوان "نقل نرند بڑھئی او گورکھ ناتھ جوگی کی "کثافت کی وجہ سے مکمل طور میں حذف کر دی گئی ہے۔
-------------------------------------

صفحہ 185

ھُدھُد کا بڑا عقل مند ہے، وہ ہر گز لڑنے نہ دے گا۔ اگر ایسے وزیر دانا کی بات نہ سنے گا اور پھر لڑائی کو آوے گا تو معلوم کیجیو کہ سخت نادان ہے اور لشکر اپنا برباد کرے گا۔ اور بہ مثل مشہور ہے جو سردار ہو کر بخیل، نالائق، ڈرپوکنا، غافل، بدزبان، چھوٹا ہو اور فوج اس سے بے دل ہو تو وہ جلد خراب ہو جاتا ہے۔ اے بادشاہ! اب تک ھُدھُد کے لشکر نے قلعے کو تمہارے نہیں گھیرا، چاہیے کہ کلنگ کوتوال کو بلا کر حکم کرو کہ جلد جا کر وہ راہ کہ جدھر سے اس کی فوج کے آنے کا ڈر ہے، بند کرے اور جس جگہ جنگل اور گہرا پانی ہو، اپنا لشکر وہاں موجود رکھے۔ اور جب دشمن کی فوج راہ کی تھکی ماندی، بھوکی پیاسی جہاں آ کر پڑے، اس پر چڑھ دوڑے، یا جس وقت کہ لشکر مخالف کا جنگل اور پہاڑ کی گھاٹی میں چلے یا ندی پر اتارا کرنے لگے، جا گرے۔ یا اس حال میں کہ ساری رات ان کو جاگتے گزری ہو، بےشک صبح ہوتے نیند غلبہ کرے گی اور سب کوئی ہتھیار بدن سے کھول کر بے فکر سوئیں گے، اپنا مطلب حاسل کرے۔ ایسے وقتوں میں عقل مندوں نے اپنا کام کیا ہے۔" جب قاز نے سرخاب سے یہ تدبیر سنی کلنگ کو اس کے لوگوں سمیت بلایا اور کئی سرداروں کو اس کے ساتھ مقرر کر کے جو سرخاب نے کہا تھا، سو ان سے کہا۔
کلنگ اپنی جمیعت لے کر گیا اور ھُدھُد سے جاتے ہی مقابلہ ہو گیا اور ایسی لڑائی ہوئی کہ مخالفوں کی فوج سے یہاں تک لاش پر لاش گری کہ ان سے چبوترہ بندھ گیا۔ تب ھُدھُد نہایت بے حواس ہو کر کرگس وزیر سے کہنے لگا کہ تو نیک ذات ہے اور پایہ وزارت کا رکھتا ہے۔ لشکر میرا سب مارا گیا اور
------------------------------

صفحہ 186

تجھ کو کچھ فکر نہیں۔ بھلا مجھ سے تیرے حق میں کیا کوتاہی ہوئی کہ ایسی صلاح نہیں دیتا کہ جس سے ملک قاز کا میرے ہاتھ آوے۔ بالفعل یہ جو کچھ کہا میں نے اس سے تو قطع نظر مگر اس سخت مشکل میں پڑا ہوں کہ جتنی فوج میری دشمن کے ہاتھ سے باقی رہ گئی ہے، اپنے ملک تک کیوں کر جیتی جا پہنچے گی؟ یہ سن کر کرگس بولا "اے بادشاہ! بزرگوں نے کہا ہے کہ اُمراء اور وزراء اور بادشاہوں کو اتنی خصلتیں نہ چاہیئں کہ یہ ان کے واسطے سخت معیوب ہیں اور ضرر رکھتی ہیں: ایک تو شراب کا پینا، دوسرے دن رات عورتوں کے ساتھ اختلاط کرنا، تیسرے اکثر اوقات شکار کھیلنا، چوتھے قمار بازی، پانچویں وزیر کی نصیحت کو نہ سنا (سننا)۔ خداوند! میں نے اس سے آگے عرض کی تھی پر آپ نے میری صلاح کا موتی اپنے کان میں نہ رکھا۔ اب یہاں سے پھر جانا نہایت سبکی ہے۔ اس کی صلاح میں نہیں دے سکتا کیوں کہ آئین سلطنت یوں ہے کہ جو بادشاہ اپنے ملک سے دوسرے کے ملک پر بہ ارادہِ مہم چڑھ جاوے تو بے فتح یا صلح کے خالی نہیں پھرتا، جو پھرے تو سخت زبونی اور جگ ہنسائی ہے۔"
ھُدھُد بولا کہ ہمارے بہت پہلوان لڑائی میں کھیت آئے اور اکثر قید ہو گئے۔ اب اتنی فوج سے کیوں کر فتح ہو گی؟ کرگس نے کہا "حضرت! ایسی فکرِ ضعیف کو خاطر مبارک میں دخل نہ دیجیے۔ میں دو تین روز میں اگر دشمن کے قلعے کو لے کر فتح کا نقارہ نہ بجاؤں تو مرد نہ کہلاؤں۔ قریب ہے کہ مخالف کا لشکر اپنے قلعے کی راہ پکڑے گا اور دانا پانی بھی اس کا چاروں طرف سے بند کیا جاوے گا۔" قاز کے جاسوسوں نے یہ بات سنتے ہی دوڑ کر جا کہا "پیر مرشد! آپ کیا بے فکر بیٹھے
-------------------------------

صفحہ 187

ہیں۔ یقین جانیے کہ ھُدھُد آج کل میں آپ کے گڑھ کو آ لپٹے گا۔" قاز نے یہ سن کر وزیر سے کہا "لشکر کی موجودات لو اور ایک ایک سپاہی کو انعام دو۔" چناںچہ داناؤں نے بھی کہا ہے کہ بے جا دس کوڑیاں نہ کھووے اور کام کے وقت ایسے دسد دھش میں سپاہ سے بخل کرے تو مال اور ملک اپنا برباد دیوے۔ اور جو کوئی سخاوت اپنا شیوہ اختیار کرے تو اپنے دشمنوں کے پاؤں تلے ملے اور زنجیر دوستی کی اپنی فوج کے پاؤں میں ڈالے۔ جو نوکر اپنے خاوند سے راضی ہو تو اسے چھور کر کہیں نہ جاوے اور تیر و تلوار سے بھی کبھی منہ نہ موڑے۔ ھُدھُد کا کرگس وزیر صاحبِ تدبیر ہے اور ان نے اس کی بات سے کبھو منہ نہیں پھیرا۔ اگر وہ اس کا کہا نہ مانتا تو تمام لشکر تین تیرہ ہو جاتا۔ لیکن وزیڑ آزمودہ کار ہے اس واسطے فوج نہ بھاگی، میدان میں قائم رہی۔ جس نے لڑکے اور کمینے اور عورت کی بات کو سنا وہ دریا میں غم کے ڈوبا۔"
قاز اور سرخاب انہیں باتوں کے کہنے سننے میں تھے کہ کوے نے آکر تسلیم کی اور فریب سے کہا کہ ھُدھُد کے لشکر نے گرد قلعے کا گھیر لیا۔ قاز نے پوچھا کہ تخمیا فوج اس کی کتنی ہو گی؟ زاغ بولا کہ بارش کے سبب اس کے لشکر کا کچھ حساب نہیں ہو سکتا اور سوار و پیادے صف بہ صف زرہ پوش ہر جگہ زمین پر ایسے پھیل رہے ہیں جس طرح آسمان پر کالی گھٹا چھا جاتی ہے۔ اور بھیڑ اس کی چیونٹیوں کی مانند یوں کھنڈ رہی ہے کہ جس کی سیاہی سے ساری زمین کالی ہو رہیہے۔ اور شلک ایسی ہو رہی ہے کہ گویا پانی کے بدلے آگ برستی ہے۔ اور ہاتھی اس طرح شور کرتے ہیں جیسے بادل
--------------------

صفحہ 188

گرجتے ہیں۔
قاز یہ بات سن کر بہت فکر مند ہوا؛ تب کوا پ ھر بولا "اگر حضرت کا حکم پاؤں تو کوٹ سے باہر جاؤں اور ھُدھُد سے تلواروں لڑوں؟" سرخاب وزیر نےکہا "ہر گز ایسا نہ کیا چاہیے۔ اگر لڑائی باہر ہو تو قلعے سے کیا فائدہ۔ پھر یہ کس کام آوے گا، کیوں کہ جو کمھیر1 پای سے باہر نکلے تو اسے ایک گیڈر مار سکتا ہے۔ خیر اگر ھُدھُد تمام اپنی فوج لے کر لڑنے کو تیار ہوا ہے تو تم بھی اپنا لشکر تیار کر بھیجو تاکہ دونوں فوجیں آپس میں لڑیں، اور تم اپنی فوج کی پشت پر رہو کہ اس کو ڈھارس رہے۔ سپاہی اپنی نیک نامی اور نمک حلالی کے واسطے سب متفق ہو کر دشمن پر حملہ کریں۔ قاز نے یہ سن کر لڑاکے جنگی سوار اور دل چلے پیادے اور بڑے بڑے مست ہاتھی مخالف کے مقابل کھڑے کیے کہ جن کے پاؤں کی گرد سے ان کی آکھیں اندھی ہوتی تھیں اور شور سے لوگوں کے، اور آواز سے دمامے کی کان ساتوں آسمان کے بہرے ہوتے تھے۔ اور زمین سے فلک تک گویا خیمہ غبار کا کھڑا ہوا تھا۔ اور ھُدھُد کی فوج کے مقابل اپنا ڈیرہ کر کے سردار اور سپاہیوں کو بلا کر کہا کہ آج ایسی جاں نشانی کیجیے اور لڑائی لیجیے کہ پہاڑ پر خون کی ندیاں بہیں۔ تب قاز نے چاہا کہ لڑنے کے واسطے جاوے، سرخاب نے بادشاہ کے گھوڑے کی باگ پکڑ کر کہا کہ قلعے کی حرمت رکھا چاہیے۔
ھُدھُد نے جب لشکر قاز کا دیکھا تو حیران رہا اور کرگس
۔۔۔۔
1۔ کمھیر ، یعنی مگرمچھ۔ اس کی ایک شکل "کمبھیر" بھی ہے۔ یہ سنسکرت کا لفظ ہے۔
-------------------------------------

صفحہ 189

کی طرف دیکھ کر کہا کہ تو کہتا تھا کہ میں دو ایک دن میں قلعہ لوں گا۔ قاز تو ایسی جمعیت رکھتا ہے کہ ہماری فوج سے زیادہ ہے۔ کرگس وزیر بولا "اے بادشاہ! غریب کے گھر میں یکا یک کوئی جا نہیں سکتا۔ یہ اونچا قلعہ اور لشکر انبوہ ہے۔ اس میں فکر کرنی ضرور ہے کہ قلعہ لینے میں حکمت چاہیے۔ پہلے اس کی تدبیر یہ ہے کہ جس روز ہوا سخت مخالف کے رخ پر کی ہو اس دن آندھی کے لپیٹ میں دو تین ہزار بان مار کر اس کی دھواں دھار میں گڑھ کو آگ لگا، پیچھے اس کے حملہ کرے۔ دوسرے مورچہ بندی کیجیے کہ مدعی طاقت آگے بڑھنے کی نہ پاوے گا۔ تیسرے چار طرف قلعے کے اس طرح مھاصرہ کیجیے کہ کوئی آمد و شد نہ کر سکتے؛ تب دشمن محاصرے میں تنگ ہو گا۔ اور اس کے سوائے اور بھی تدبیریں ہیں لیکن ان تینوں میں جو پسند آوے۔"
ھُدھُد نے کہا "اے کرگس! حریف کا لشکر دیکھ کر حواس میرے گم ہوئے اور کچھ ہوش مجھ میں نہ رہا۔ اس وقت ایسی صلاح دے کہ جس سے ہماری فتح ہو اور مخالف کی شکست۔" کرگس بولا کہ آج تو شام ہوئی، کل صبح جو کرنا ہو گا سو کروں گا۔ یہ کہہ کر تمام شب تدبیر میں رہا کہ کسی صورت دشمن کو توڑیے اور قلعے کو لیجیے۔
آخرش کئی ایک جاسوس (کہ بہت ہوشیار اور چالاکت تھے اور ان پر نہایت اعتماد رکھتا تھا) بلا کر کہا کہ یہ وقت تمہاری نمک حلالی کا ہے، چاہیے کہ بھیس اپنا بدل کر قلعے میں جاؤ اور وہاں کی سن گن لو اور دیکھو، ان کے یہاں کیا تردد ہو رہا ہے اور کون کس فکر میں ہے، اور دروازے قلعے کے کون کون کس کس کے اہتمام میں ہیں۔ اور اتنا معلوم کرو، کس
--------------------

صفحہ 190

طرف غفلت اور کس کا مورچہ ہلکا ہے، اور کس دروزے سے ہم قلعے کے اندر جا سکیں گے۔ یے سب باتیں خوب دریافت کر کے ہم کو جلد خبر پہنچاؤ۔ تب جاسوس کرگس وزیر کے موافق حکم اپنا لباس کوؤں کا سا بنا کر رات کے اندھیرے میں کوٹ کی طرف چلے اور کوؤں کے ساتھ مل کر قلعے میں گئے اور ہر طرف کوچہ و بازار میں امراؤں کے خیموں کے آس پاس پھرنے لگے۔ خوب تجسس جو کیا تو کوے کے مورچے میں غفلت اور بہت لوگ تھوڑے پائے۔
یہ دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور تھوری سی رات رہتے جدھر سے قلعے میں پیٹھے تھے ادھر سے ہی باہر نکلے اور دوڑ کر یہ خوش خبری کرگس کو جا پہنچائی۔ وہ اسے سن کر اپنے کپڑوں میں پھولا نہ سمایا۔ فی الحال اپنی فوج کو تیار کر کے کہا چار گھڑی کے تڑکے چپ چاپ چیونتی کی چال اس طرح قلعے کی طرف چلا چاہیے کہ کوئی کانوں کان نہ سنے اور جاسوسوں کو آگے دھرے ہوئے پیچھے پیچھے چلے چلیے۔ جب کہ دروازہ قریب رہے، تب کسی چیز کا اڑتلا پکڑ ٹہیر رہیے۔ جس دم کوٹ کا دروازہ کھلے، اسی دم اس کے اندر پیٹھ جائیے۔ خدا چاہے تو قلعہ ہاتھ آ جاوے گا۔
یہ صلاح ھُدھُد کے گوش گزار کر کے عرض کی کہ میں تو ادھر جاتا ہوں۔ جب میرے ہرکارے حضور میں ظاہر کریں تو فی الفور حضرت تمام لشکر کو لے کر واسطے تقویت کے غالم کی پشت پر پہنچیں۔ اگر خداوند اس میں غفلت کریں گے تو دشمن میں تھوڑی جمعیت کے ساتھ دیکھ کر ہر طرف سے گھیر لے گا۔
ھُدھُد یہ اس کی تدبیر سن کر بہت خوش ہوا اور اسے رخصت
--------------------------------

صفحہ 191

کیا۔ پھر سب سرداروں کو بلا کر وزیر کی صلاح کے موافق حکم کی اکہ اپنے اپنے خیموں میں مسلّح تیار رہیں۔ جس وقت میں سوار ہوؤں، اسی وقت سب سوار ہوں۔ جدھر میری سواری جائے، ادھر ہی چپ چاپ سب کے سب چلیں، ہر گز اس میں کوئی کاہلی نہ کرے۔ انہوں نے یہ حکم سن کر سب سپاہ سے کہہ دیا کہ اپنے اپنے ڈیروں میں کمر بستہ مستعد رہو۔
جب کرگس وزیر کے جاسوسوں نے بادشاہ ھُدھُد کو خبر کی کہ خداوند! آپ اسی وقت سوار ہو تو بہت مبارک ہے۔ تب ھُدھُد بادشاہ اپنی ساری فوج سمیت جاسوسوں کو ساتھ لے کر جس راہ سے کرگس گیا تھا، روانہ ہوا اور کرگس نے منہ اندھیرے کوے کے دروازے کی طرف سے قلعے میں پیٹھ کر ہزاروں بان کی شلک کر کے اسی دھواں دھار میں یکا یک حلّہ کر دیا اور ھُدھُد بھی تمام لشکر لے کر کُمک کو اس کے پشت پر پہنچا۔ لڑائی ہونے لگی۔ جس وقت آفتاب مشرق کے پہاڑ سے مانند ملک الموت کےک آسمان کے نیلے گھوڑے پر سوار ہو نکلا اور آپس میں ایک کو ایک پہچاننے لگا، دونوں لشکر کی موت کا بازار گرم ہوا اور ایسی تلوار چلی کہ دونوں طرف سے لاشوں کا ستھراؤں ہو گیا۔ ہر کوچے بازار میں قلعے کے خون اس طرح بہنے لگا کہ جیسے آسمان سے ابر نے خون کی ندیاں بہائیں اور سر سپاہیوں کے لوھو میں پانی کے سے بلبلے نظر آتے تھے۔ شلّک کے دھوئیں سے گویا ایک اور ہی آسمان چھا گیا۔
اور عین لڑائی میں کوے بدباطن نے لوگ اپنے جمع کر کے قلعے کے اندر آگ لگا دی اور اپنے رفیقوں سمیت قلعے سے باہر شور کرتا ہوا نکلا۔ اور بھیڑ میں ھُدھُد کی جو لوگ اس کی خبرداری کر رہے تھے، ان سے کہنے لگا کہ قلعے میں آگے لگی
 

سیما علی

لائبریرین
ریختہ ص86-90

جھنجھلا کر اپنے دانتوں سے اس کو بھی مارا گیا اور آپ بھی وحیان مرجھا۔
غرضی پرمان شکاری، خون اورخوی تینوں ایک کی جگہ پر مر کر رہ گئے۔ گھڑی دو ایک کے پیچھے اس میدا
ان میں ان جلوی نامی ایک لیڈ وصال آن پہنچا۔ خوشی بہت کیا گیا اور خدا کا شکر بجا لایا اور کہا، اسی تذا
نے الیف مجھے بھی میسر نہیں ہوئی تھی تھی آج ہوئی۔ اب چند روز اچھی طرح فراغت سے کھا و ل اور کیا
یوں کے واسطے اچھا تھا گوشت کھا کر کے ان کے بچے کو کیا جائے ۔ کہانی کا گوشه ای زور سے سینے میں
میں اس لالچین سکے گا کہ پانی نہ مانگا۔
جب آتریس نے وہ شکار نہ کھایا اور اسے و
خیر یہ کر رکھا اور کہانی کی نر مچانے لگا، میں اس کی قسمت کایدا تھے جو سی کے کے آیا۔ جوونی تر پیدا کر
ہے، لازم ھے کہ اس میں سے کچھ کھاوے، پھر کئے ، کبھی خدا کی راہ میں دیوے ۔ سوتو تو نے نہ کیا
مفت بر با دیا، اب اس کا افسوس بھی مت کر۔ چوھا بولا ، بھائی ! بات یہی ھے جوتو کہتا ھے۔
پھر باے نے کہا، اے یار! اگر مال کے واسطے کڑھے گا تو اس کڑھن سے تصدیق
اٹھائے گا اور اسی کوفت میں مر جاوے گا، اور لوگ ٹھٹھے مار کر کہیں گے کہ کیا عقل مند تھا جس نے مال
بہتر اور تھے گا ۔ ، یا پھر کہنے لگا اے چور ھے! جوگیر ڈراتنا گوشت کھاتا تو اس کی نوبت یہاں تک نہ
چینی۔ حاصل یہ تھے، جوتونے مال کھایا تو بھی دیکھا ، کیوں کہ
ریختہ۔86
:::
کہا تھے، جب ہاتھ پاؤں کے نا خوان اور دانت اور سر کے بال اپنی جگہ سے جدے ہوئے تو محض تاچی میں ۔ جوزر کے
واسے منا رہے گا تو گوشت تیرگل جاوے اور ھڈیاں چونا و جاویں گی ۔ خدا کی بندگی میں اتنا تو چہرہ کہ دنیا تیری لونڈی ھو
رھے ۔ دیکھ نہیں جب عورت کو پیٹ رھتا ھے لڑکا ھونے کے اگے خوراک اس کی حق تعالی اس کی ماں کی چھاتیوں میں
پیدا کرتا ھے ۔ ہمارا تمہارا روزی کا دینے والا وی دا تا ہے۔
اے یار! اس مکان کو اپنا گھر جان اور تو میرے پا رہے،،
جب آتی فروتی لنگ پنگ کوے نے سنی و زبان اپنی کچھوے کی تعریف میں کھولی اور کو اگرهاتی ندی کی دلدل میں چنے تو
ساتھی سوا کوئی اسے نہیں نکال سکتا ہے۔ اسی طرح اس عالی خاندان چوسے جواب ایسا برا وقت پڑا ہے، تھرنگ آپ پاکت بھی
بڑے گھرانے سے تھی۔ بعد اس گفتگو کے چوھے کوے اور کچھوے میں دوستی دلی ھوئی اور تینوں ایک جگہ میں رہنے لگے۔
ایک دن دیکھتے کیا ہیں کہ چتر گم نام ایک حران ان کی طرف بھاگا چلا آتا ہے۔ اس کو دیکھ کر تینوں بار بھاگے۔ با خا ندی میں
جارہا، چوھابل میں گھس گیا اور و درخت پر اڑ گیا۔ اور چاروں طرف آنکھ اٹھا کر دیکھا جو ہرن پچھے کوئی نہیں آتا۔ خیر جب وو
ان کی طرف پہاب کو ابولا ۔ کوے کے بولتے ہی تینوں یارا کھڑے ہوئے ان میں سے بانے نے اھو سے پوچھا، تیرے
ہے تو کوئی نہیں، میں (تو
) کس واسنے اتناہڑ بڑا کر دوڑایا۔ خیر تو ہے؟ وہ بولا کہ میں شکاریوں کے ڈر سے ایسا گہرا کے بھاگا
آیا ہوں اور اب اپنا یہ ارادہ ھے اس باقی عمرک تمہاری رفاقت میں کاٹوں ۔ کچھوے نےچوھے کی طرف
ریختہ۔
87
:::
دیکھا۔ چوھے نے کہا، ، اب جو توڑ کر یہاں آیا ہے، خاطر جمع رکھی
، دل میں کچھ اندیش نہ کر میں ہمارا ساتھی ہوا۔ اے یارو!
ہرن اور ہم آپس میں شریک نیک و بد کے ہوئے۔،،
یہ بات سن کر وہ بہت خوش ہوا اور درخت کے تلےنزدیک یاروں کے
بیٹھا۔ کچھوے نے اس سے پوچھا، پیار، شکاری کون ہے اور نہیں تو نے کہا دیکھا ہے، یہ بولا، راجا کے بیٹے حاکم ملک
کلنک کے اپنے لشکر سمیت کتارے بھاگ تھی ندی کے آتے ہیں ۔ میں نے یوں سنا ہے کہ کل اس جھیل میں مچھلیاں
پکڑ لیں گے، میں بھوکا مروں گا۔ بہتر یہ ہے کہ میں کسو اور تالاب میں جاؤں ۔ کوے اورآ ہونے کہا، بہت اچھا۔
پر تک چوھامتاعل ہو کر بولا کہ بائے نوشکی میں چلنا مشکل ہے۔ جو ترقی کی راہ سے تو سلامت پہنچے ۔ جیسا کہ کہا ہے، پانی
کے رہنے والوں کو پانی کی قوت ہے اور آدمیوں کو پناہکوٹ سے ہے۔ یارو جو اس کوزمین پر چلے دو گے ، چناں چہ بتال اپنے
کے سے پسپان ہوا تھا تم بھی اپنے کیے کی ندامت کیچو گے۔ یاروں نے پوچھا، وہ قصہ پینے کا کیوں کر تھا ؟ ، چوطاولا:
نقل تنکیر نام ایک شخص اور نو جو انتقال کی بیٹی کی شقتو ج میں پیر مین نامی ایک را با تھا۔ اس نے اپنے نام کا ایک شہر بسایا اور
نام ایک اس کو نکلا۔ ایک مہینے کے پچھے وہ شہر کھنے کو گا۔ ایک بقا کی بیٹی تو جو نانام اپنے کوٹے پر کھڑی تھی۔ اسے دیکھا
وہیں اس کی زلف تاکن
ریختہ۔88


:::
نے اس کوڈ سا گھوڑے سے زمین پرگرا اور بے ہوش ہوگیا۔ لوگوں نے پانی میں ڈال اس کے گھر پر پہنچا یا وائی نے پوچھا
اے فرزند تھے کیا ہوا ؟ ، کہا، میری نظر ایک نازنین پر پڑی ہے۔ میں نہیں جانتا وہ پری تھی یا آدمی، اس کے گل مین کا کائنا
میری آنکھ میں چہ گیا۔ اک درد سے میں بے قرار ہوں ۔ ، دائی نے معلوم کیا پیڑ کانو جو بنا کے ان کے تیر سے زنی ہوا ہے۔
وہ اس فکر میں ہوئی کہ اس کا اور اس کا کسی طرح ملاپ ہو۔
کسی بہانے سے جو ان کے یہاں اکر دیکھتی کیا ہے کہ اس کے حل کی کٹاری کی ماری ہوئی بھی ایسی لوٹ پوٹ ہورہی ہے
جو جلنے کی طاقت نہیں رکھتی۔ اہستہ اہستہ اس کے کام میں کہا، اے نوجونا تیرے واسطے میرا نگیر رہتا ہے اور مدہوش پڑا ہے۔
اگر تجھ سے اس کی دست گیری ایک بوسے سے ہو سکے اور پنیت کرے تو میں تجھے سونے کا گنا دوں ۔ نوجو بتابولی،، اے
تادان دانی ! بی سودا اور دکان سے جا کر خرید کرے، دائی نے پھر عذر کیا کہ پھول میرا تیری محبت کے آفتاب سے مرجھایا ہے۔ جو
تیرے ہی جال کا سایہ پڑے تو تروتازہ ہووے۔ نو جو متابولی ، اے دائی اس میرے باغ کا نگہبان میرا خاوند ہے۔،
یہ اس کے منہ کی بات سن کر دائی چیے پھرائی ۔ تب تکیر دیکھ کر کہنے لگا، اے دائی! یک چیز دی حلوا و؟ میں محنت کی مزدوری
کہاں؟ میں اپنے کام کو پی کرائی ہوں لیکن چند روز صبر کیا چاہئے ۔ وہ اپنے شوہر سے ڈرتی ہے۔ اس کا میں ایک علاج
کرتی ہوں، جو اس کا خاوند از خودتمہارے پاس پہنچا دے۔ سن لڑکے! کام حکمت اورعقل سے نکتا،
ریختہ۔۔89


:::
اور زبردستی سے ہرگز نہیں بن پڑتا ہے، کیا تو نے قصہ گیدڑوں کا نہیں سنا کے قتل کے زور سے جانتے ہی ہاتھی کو کھا گئے؟
تکبیر نے کہا، وہ قصہ کیوں کر ہے؟ ، دائی بولی :
نقل دھول تلک ھاتھی اور تمام گیدڑ کی یوں کہتے ہیں کہ ڈٹڈ کارن نام ایک جنگل ہے۔ اس میں دھول تک نام ایک مست
باقی تھا ۔ گیدڑ اس کی فکر میں ہوئے کسی طرح دو تین مہینے تک اس کا گوشت کھاؤں ۔ ان میں ایک انم نام گیدڑ تھا اس نے
کہا، یاروں سے ماروں گا۔، یہ کہ کر جلد چلا۔ جب ہاتھی کے پاس پہنچا ہے سلام کر کے ادب سے تقاوت کھڑا ہوا۔ اس
نے پوچھا، تو کون ہے۔ کہاں سے آیا؟ ۔۔ بولا،، مجھے سب جانوروں کے اور گیدڑوں کے راجاؤں نے تمہاری خدمت میں
بھیجا ہے اور یہ پیغام دیا ہے کہ ہم بی جانتے ہیں کہ ہمیں اس جنگل کا بادشاہ کریں۔ اگر قبول ہوتو آپ اس میں ایک دم توقف نہ
ہے، جلد چلیے ۔ دونوں بادشا دسارے جانوروں سمیت تمھارے منتظر ہیں۔
بھی مارے خوشی کے جلد جلد چلا گیدڑ فریبی جھیل کی راہ سے (جس میں چور بالتی) لے چلا۔ وہ تو کیا تھا، دبے پاوں جھیل
کے پار جا کھڑا ھوا اور اس کو بلانے لگا کہناک کی سیدہ چلے او، پانی بہت تھوڑا ہے۔ ھاقی بول تھا، پاؤں رکھتے ہی دلدل
میں پھنس گیا۔ کہا، ، یار ! کیا چاہیے؟ ، گیدڑ بولا کہ میری دم پکڑ لے تو میں تجھے ندی سے نکال لیں ۔ اس نے کہا، اے نادان!
تیرے روز سے میں کیوں کر نکلوں گا۔ تب گیدڑ بولا، اگر تم کہو میں اپنی قوم کو بلاواں جو
ریختہ۔۔۔90
 
Top